• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عدم رفع الیدین پر نئی کاوش

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
تحریر: جناب مولانا غلام مصطفی ظہیر امن پوری

نماز شروع کرتے،رکوع کو جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کے آغاز میں رفع الیدین کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر سنت ہے،جس کا نسخ کسی معتبر حدیث سے ثابت نہیں۔ ہمارے دَور کے بعض لوگ،جو دلائل سے تہی دست ہیں، انہوں نے ایک جھوٹی، مردود اور شاذ روایت پیش کر کے رفع الیدین کی صحیح ترین اور متواتر احادیث کو ردّ کر دیا ہے۔

جھوٹی روایت :

قَالَ الْإِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ : حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ : قَالَ لِي عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ یَحْیٰی : حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ سَوَادَۃَ (عَنِ) ابْنِ عَبَّادٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ مَیْسَرَۃَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ بِمَکَّۃَ، نَرْفَعُ أَیْدِیَنَا فِي بَدْئِ الصَّلَاۃِ وَفِي دَاخِلِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ الرُّکُوعِ، فَلَمَّا ھَاجَرَ النَّبِيُّﷺ إِلَی الْمَدِینَۃِ؛ تَرَکَ رَفْعَ الْیَدَیْنِ فِي دَاخِلِ الصَّلَاۃِ عِنْدَ الرُّکُوعِ، وَثَبَت عَلٰی رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِي بَدْئِ الصَّلَاۃِ ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے منسوب ہے : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تھے تو نماز کے آغاز میں اور نماز کے اندر رکوع کے وقت بھی رفع الیدین کیا کرتے تھے، لیکن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر رکوع کے وقت والا رفع الیدین چھوڑ دیا ،جبکہ نماز کے شروع والے رفع الیدین کو برقرار رکھا۔‘‘ (أخبار الفقہاء والمحدثین، ص: 214، ت : 378)

تبصرہ :

یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے،کیونکہ :

٭ اس کو گھڑنے والا عثمان بن محمد بن یوسف ازدی قُرّی ابو اصبغ ہے۔اس کے بارے میں حافظ ابو ولید،ابن فرضی(م : 403ھ) لکھتے ہیں: [وَکَانَ کَذَّابًا] ’’یہ پرلے درجے کا جھوٹا شخص تھا۔‘‘ (تاریخ علماء أندلس، ص : 350)
بعض لوگوں کا اسے عثمان بن محمد بن احمد بن مدرک قرار دینا نِری جہالت ہے،کیونکہ اس عثمان بن محمد کے بارے میں خود صاحب ِکتاب نے قُرّی کہہ کر تعین کر دیا ہے۔ (دیکھیں صفحہ 103، 105)
لیکن علم و عقل سے عاری لوگوں نے اسے قُرّی کی بجائے قبری باور کرایا ۔حالانکہ عثمان بن محمد بن یوسف، قُرّی کے اساتذہ میں عبید اللہ بن یحییٰ موجود ہے۔ (تاریخ علماء أندلس، ص : 349)
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس سند میں قُرّی راوی ہے نہ کہ قبری اور وہ ہے عثمان بن محمد بن یوسف کذاب۔

٭ عثمان بن سوادہ راوی ’’مجہول‘‘ ہے۔ اس کے متعلق عبید اللہ بن یحییٰ سے منسوب توثیق والا قول اسی عثمان بن محمد قُرّی کذاب کا بیان کیا ہوا ہے، لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔اگر اس کے علاوہ دنیا میں کسی کے پاس عثمان بن سوادہ کی توثیق والا قول موجود ہے تو وہ پیش کرے۔

٭ اس کے برعکس سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے باسند ِصحیح ثابت ہے :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ؛ إِذَا قَامَ فِي الصَّلاَۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یَکُونَا حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ، وَکَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِینَ یُکَبِّرُ لِلرُّکُوعِ، وَیَفْعَلُ ذٰلِکَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ، وَیَقُولُ : سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، وَلاَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِي السُّجُودِ ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے،جب رکوع کو جاتے تو بھی اسی طرح رفع الیدین فرماتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی رفع الیدین فرما کر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدوں میں رفع الیدین نہیں فرماتے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري : 736، صحیح مسلم : 390)

٭ سلیمان شیبانی بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ؛ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ، فَلَمَّا رَکَعَ رَفَعَ یَدَیْہِ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَہُ رَفَعَ یَدَیْہِ، فَسَأَلْتُہُ، فَقَالَ: رَأَیْتُ أَبِي یَفْعَلُہُ، فَقَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِﷺ یَفْعَلُہُ۔
’’میں نے (سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے صاحبزادے) سالم کو دیکھا کہ انہوں نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا ۔میں نے اس بارے میں دریافت کیا توآپ نے فرمایا : میں نے اپنے والدِگرامی(سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ)کو ایسا کرتے دیکھا اور انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا ۔‘‘ (حدیث السراج : 34/2، 35، ح : 115، وسندہٗ صحیح)
یعنی سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرتے تھے اور دوسروں کو بھی بتاتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ بیان بھی کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد رفع الیدین چھوڑ دیا تھا ،پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الیدین کریں بھی اور لوگوں کو اس کی دعوت بھی دیں؟

٭ سیدنا مالک بن حویرث اور سیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہ، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوئے، انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا تھا،جیسا کہ :

٭ ابو قلابہ تابعی بیان کرتے ہیں:
أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ صَنَعَ هَكَذَا
’’انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،جب آپ نماز پڑھتے تو ’اللہ اکبر ‘کہتے اور رفع الیدین کرتے ،جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہeایسے ہی رفع الیدین کیا کرتے تھے ۔‘‘ (صحیح البخاري : 102/1، ح : 737، صحیح مسلم : 167/1، ح : 391)
صحابیٔ رسول سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل مبارک تھا۔ ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تاوفات رفع الیدین کرتے رہے ۔

٭ سیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا اور ’اللہ اکبر ‘کہا۔ پھر کپڑا لپیٹ لیا، دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہاتھ مبارک پر رکھا۔جب رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے۔ پھر رفع الیدین کیا اور ’اللہ اکبر‘ کہا۔جب (رکوع کے بعد) ’سمع اللہ لمن حمدہ ‘کہا تو رفع الیدین کیا ۔سجدہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔‘‘ (صحیح مسلم : 173/1، ح : 401)
واضح رہے کہ سیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہ 9 ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ (عمدۃ القاري للعیني الحنفي : 274/5)
ایک وقت کے بعدسیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہ موسم ِ سرما میں دوبارہ آئے اور پھر رفع الیدین کا مشاہدہ کیا۔ (سنن أبي داوٗد : 727، وسندہٗ حسنٌ)

احناف کی دوغلی پالیسی :

سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ،جو کہ جلسۂ استراحت والی سنت کے راوی ہیں، وہی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ رفع الیدین والی حدیث کے بھی راوی ہیں۔ دو سجدوں کے بعد دوسری اور چوتھی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے بیٹھنا جلسۂ استراحت کہلاتا ہے۔ احناف اس کے سنت ہونے کے منکر ہیں۔ جب انہیں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش کی جاتی ہے تو اسلاف ِامت کی مخالفت میں وہ کہتے ہیں کہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں حاضر خدمت ہوئے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے ایسا کرتے تھے، لہٰذا یہ کوئی سنت نہیں۔ لیکن جب وہی صحابی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع الیدین بیان کرتے ہیں تو احناف اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، بلکہ اس کے مقابلے میں عدمِ رفع والی ضعیف اور جھوٹی روایات کا سہارا لینے لگتے ہیں۔

ان کے اسی تناقض کے بارے میں علامہ سندھی حنفی (م : 1138ھ) لکھتے ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ مَنْ قَالَ : إِنَّ ذٰلِکَ الْحَدِیثَ نَاسِخٌ رَفْعَ غَیْرِ تَکْبِیرَۃِ الِافْتِتَاحِ؛ فَہُوَ قَوْلٌ بِلَا دَلِیلٍ، بَلْ لَّوْ فُرِضَ فِي الْبَابِ نَسْخٌ؛ فَیَکُونُ الْأَمْرُ بِعَکْسِ مَا قَالُوا أَوْلٰی مِمَّا قَالُوا، فَإِنَّ مَالِکَ بْنَ الْحُوَیْرِثِ وَوَائِلَ بْنَ حُجْرٍ مِّنْ رُّوَاۃِ الرَّفْعِ مِمَّنْ صَلّٰی مَعَ النَّبِيِّﷺ آخِرَ عُمُرِہٖ؛ فَرِوَایَتُہُمَا الرَّفْعُ عِنْدَ الرُّکُوعِ وَالرَّفْعِ مِنْہُ دَلِیلٌ عَلٰی تَأَخُّرِ الرَّفْعِ وَبُطْلَانِ دَعْوٰی نَسْخِہٖ، فَإِنْ کَانَ ہُنَاکَ نَسْخٌ فَیَنْبَغِي أَنْ یَّکُونَ الْمَنْسُوخُ تَرْکَ الرَّفْعِ، کَیْفَ وَقَدْ رَوٰی مَالِکٌ ہٰکَذَا جِلْسَۃُ الِاسْتِرَاحَۃِ؟ فَحَمَلُوہَا عَلٰی أَنَّہَا کَانَتْ فِي آخِرِ عُمُرِہٖ فِي سِنِّ الْکِبَرِ، فَہِیَ لَیْسَ مِمَّا فَعَلَہَا النَّبِيُّﷺ قَصْدًا، فَلَا تَکُونَ سُنَّۃً، وَہٰذَا یَقْتَضِي أَنْ لَّا یَکُونَ الرَّفْعُ الَّذِي رَوَاہُ ثَانِیًا مَّنْسُوخًا، لِکَوْنِہٖ آخِرَ عُمُرِہٖ عِنْدَہُمْ، فَالْقَوْلُ بِأَنَّہُ مَنْسُوخٌ قَرِیبٌ مِّنَ التَّنَاقُضِ، وَقَدْ قَالَ ﷺ لِمَالِکٍ وَّأَصْحَابِہٖ: ’صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلي۔
’’رہا کسی کا یہ کہنا کہ عدمِ رفع والی حدیث نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین کو منسوخ کر دیا ہے تو یہ بے دلیل قول ہے،بلکہ اگر رفع الیدین میں نسخ کو مان بھی لیا جائے تو زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ رفع الیدین کرنے کی بجائے ترکِ رفع الیدین کو منسوخ مانا جائے۔کیونکہ سیدنا مالک بن حویرث اور سیدنا وائل بن حجر،جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین کرنا بیان کیا۔ان کا رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ہے اور اس کے منسوخ ہونے کا دعویٰ باطل ہے۔اگر کچھ منسوخ ہوا تووہ ترکِ رفع الیدین ہے۔احناف رفع الیدین کو کیسے منسوخ کہہ سکتے ہیں،حالانکہ اسی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے جلسہ ٔ استراحت والی حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑھاپے میں اور عمر کے آخری حصے کا فعل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیاری طور پر نہیں(بلکہ کمزوری کی وجہ سے)کیا، لہٰذا یہ سنت نہیں۔ احناف کے اس دعوے کا تقاضا ہے کہ رفع الیدین بھی منسوخ نہ ہو، جو اسی صحابی نے بیان کیا ہے، کیونکہ احناف کے ہاں یہ آخری عمر کا بیان ہے۔ الغرض احناف کا رفع الیدین کو منسوخ کہنا تناقض ہی ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں سے یہ بھی فرمایا کہ نماز اسی طرح پڑھنا،جس طرح مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (حاشیۃ السندي علی ابن ماجہ : 282/1)

یعنی اگر اس جھوٹی روایت کی وجہ سے بالفرض والمحال یہ مان بھی لیا جائے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ آ کر رفع الیدین چھوڑ دیا تھا تو سیدنا مالک بن حویرث وسیدنا وائل بن حجررضی اللہ عنہما کی مذکورہ احادیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ رفع الیدین شروع کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اور سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ودیگر صحابہ کرام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الیدین کرنا،اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دینا اور دوسروں کو اس کی دعوت دینا،اس بات کی بین دلیل ہے کہ رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ہے۔

لہٰذا محدث محمد بن حارث خشنی (م: 361ھ) کا عثمان بن محمد قُرّی اور اس کی بیان کردہ عدمِ رفع والی حدیث کے بارے میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ:
وَکَانَ یُحَدِّثُ بِحَدِیثٍ رَوَاہُ مُسْنَدًا فِي رَفْعِ الْیَدَیْنِ، وَھُوَ مِنْ غَرَائِبِ الْحَدِیثِ، وَأَرَاہُ مِنْ شَوَاذِّھَا ۔ ’’یہ رفع الیدین کے متعلق ایک مرفوع حدیث بیان کرتا تھا،جو کہ منکر ہے اور میں اسے اس کی بیان کردہ شاذ روایات میں شمار کرتا ہوں۔‘‘ (أخبار الفقہاء والمحدثین، ص : 214)

ایک جھوٹے اور ایک ’’مجہول‘‘ راوی کی بیان کردہ روایت کو صحیح، متواتر اور صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے عمل سے مؤید مجموعۂ احادیث کے مقابلے میں پیش کرنا کوئی علمی کارنامہ نہیں۔

لنک
http://www.ahlehadith.org/mazameen/adam-e-rafa-ul-yadain-par-nai-kawish.html
 
Top