- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ایمانیات میں شامل ہے
عذابِ قبر کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اور باطل فرقوں کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ اور جن فرقوں نے اس عقیدہ کا انکار کیا انہیں اس مقصد کے لئے احادیث کا بھی انکار کرنا پڑا ہے۔ حالانکہ احادیث صحیحہ کا انکار قرآن ہی کا انکار ہے۔ قرآن و حدیث دونوں وحی ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار وحی کا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ (الاعراف:۳)
معلوم ہوا کہ اتباع صرف اس کی ہے جو رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی اتباع ممنوع ہے۔ مگر اس نصیحت کو کم لوگ ہی مانتے ہیں۔ کیونکہ کوئی اپنے بڑوں کی اتباع و پیروی کرتا ہے اور کوئی اپنے خود ساختہ امام یا امیر کی۔ اور کوئی اپنے نفس کی اتباع کرتا ہے۔’’جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو اور اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو‘‘۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْآاَعْمَالَکُمْ (محمد:۳۳)
اللہ تعالیٰ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک کی اطاعت سے انکار اعمال کو ضائع (وبرباد) کرنے کے مترادف ہے۔ اور اطاعت کے لحاظ سے دونوں اطاعتوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے۔’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور (ان کی اطاعت سے منہ موڑ کر) اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو‘‘۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ (النساء:۸۰)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جی سے کوئی بات نہیں کہتے تھے بلکہ وہ جو فرماتے تھے وحی کی بناء پر فرمایا کرتے تھے:’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کی‘‘۔
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳۔۴)
ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے:وہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ ان کا بولنا تو وحی کی بناء پر ہے کہ جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔
وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ
اس آیت سے واضح ہوا کہ قرآن کریم کے احکامات اور فرامین کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول و عمل کے ذریعے تشریح و توضیح فرمانے پر مقرر کئے گئے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے۔ چنانچہ سیدنا سعد بن ہشام رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اُمّ المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق خبر دیجئے ؟ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کان خلقہ القرآن یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا۔ کیا تم نے قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم ’’بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر فائز ہو‘‘۔ (مسند احمد ج۶ ص۹۱، تفسیر ابن کثیر ج۴ ص:۴۰۲)۔اور ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ذکر نازل فرمایا ہے تاکہ جو کچھ ان کے لئے نازل کیا گیا ہے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کی تشریح و وضاحت کر کے لوگوں کو بتا دیں اور تاکہ لوگ غور و فکر کریں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم فرمایا:
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ
اب نماز کس طرح قائم کی جائے اس کا مکمل طریقہ سیدنا محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً سکھایا یعنی استنجا، وضو، نماز کی ادائیگی کا مکمل طریقہ، قیام، رکوع، سجود، قراء ت، فرائض، نوافل، اذان، اقامت، پنج وقتہ نمازیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض نماز کے ہر ہر مسئلہ کی تشریح و وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً و فعلاً فرما دی اور اُمت سے ارشاد فرمایا:اورنماز قائم کرو۔
صلوا کما رأیتمونی اصلی
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃ یعنی ’’اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘۔’’نماز اس طرح پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پرھتے دیکھتے ہو‘‘۔ (بخاری:۶۳۱)۔
اب زکوٰۃ کب ادا کی جائے اور کتنے مال میں سے ادا کی جائے۔ اس کا مکمل طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح دین کے دوسرے معاملات کی وضاحت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل کے ذریعے فرما دی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ دین قرآن و حدیث کا نام ہے۔
اب اگر کوئی شخص اپنے کسی باطل عقیدہ کی وجہ سے کسی حدیث کا انکار کر دے تو اس نے حدیث کا انکار کر کے گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا انکار کر دیا اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والا درحقیقت قرآن کا اِنکار کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو قرآن کریم کی من مانی تشریح بیان کریں گے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تشریح و تفسیر کی ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذمے لگا دی اور قیامت تک کسی کو بھی اس بات کا حق نہیں دیا کہ وہ قرآن کریم کی کوئی جدید تشریح بیان کرے۔ اور جو لوگ خوارج، معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، مرجیہ، پرویز، عثمانی، مسعود، منکرین حدیث وغیرہ کی کسی تشریح پر راضی ہو چکے ہیں تو گویا انہوں نے قرآن کریم کا انکار کر دیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو بھی قرآن کی تشریح کا حق حاصل نہیں ہے۔ ثابت ہوا کہ حدیث کا انکار کرنے والے نہ صرف منکرین حدیث ہیں بلکہ وہ منکرین قرآن بھی ہیں اور جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم قرآن کریم کو تو مانتے ہیں لیکن حدیث کا انکار کرتے ہیں تو انہوں نے قرآن کریم کو بھی نہیں مانا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ اُولٰٓئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْھِمْ اُجُوْرَھُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء:۱۵۰ تا ۱۵۲)
ثابت ہوا کہ اللہ اور اس کے رسولوں کو ماننے کا مطلب یہی ہے کہ سب پر ایمان رکھا جائے اور ان میں سے کسی کے درمیان بھی تفریق نہ کی جائے یعنی اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کو مانتا ہوں لیکن رسولوں کا انکار کرتا ہوں تو یہ بھی ماننا نہ ہوا۔ اور کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں بعض رسولوں کو مانتا ہوں اور بعض کا انکار کرتا ہوں تو یہ بھی کھلا کفر ہے۔ اسی طرح کسی کا یہ دعوی کہ میں قرآن کریم کو تو مانتا ہوں لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا تو واضح رہے کہ ایسا شخص قرآن کریم کا بھی انکاری ہے کیونکہ اس نے قرآن کریم کے حکم واطیعوا الرسول یعنی ’’اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو‘‘ کا انکار کر دیا ہے۔’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر و ایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے وہ سزا مہیا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہو گی بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں، ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے اور اللہ بڑا درگذر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔