• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبرکی حقیقت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ایمانیات میں شامل ہے​
عذابِ قبر کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اور باطل فرقوں کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ اور جن فرقوں نے اس عقیدہ کا انکار کیا انہیں اس مقصد کے لئے احادیث کا بھی انکار کرنا پڑا ہے۔ حالانکہ احادیث صحیحہ کا انکار قرآن ہی کا انکار ہے۔ قرآن و حدیث دونوں وحی ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار وحی کا انکار ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ (الاعراف:۳)
’’جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو اور اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو‘‘۔
معلوم ہوا کہ اتباع صرف اس کی ہے جو رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی اتباع ممنوع ہے۔ مگر اس نصیحت کو کم لوگ ہی مانتے ہیں۔ کیونکہ کوئی اپنے بڑوں کی اتباع و پیروی کرتا ہے اور کوئی اپنے خود ساختہ امام یا امیر کی۔ اور کوئی اپنے نفس کی اتباع کرتا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَاتُبْطِلُوْآاَعْمَالَکُمْ (محمد:۳۳)
’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور (ان کی اطاعت سے منہ موڑ کر) اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو‘‘۔
اللہ تعالیٰ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک کی اطاعت سے انکار اعمال کو ضائع (وبرباد) کرنے کے مترادف ہے۔ اور اطاعت کے لحاظ سے دونوں اطاعتوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے۔
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ (النساء:۸۰)
’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کی‘‘۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جی سے کوئی بات نہیں کہتے تھے بلکہ وہ جو فرماتے تھے وحی کی بناء پر فرمایا کرتے تھے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳۔۴)
وہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ ان کا بولنا تو وحی کی بناء پر ہے کہ جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔
ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے:
وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ
اور ہم نے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ذکر نازل فرمایا ہے تاکہ جو کچھ ان کے لئے نازل کیا گیا ہے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کی تشریح و وضاحت کر کے لوگوں کو بتا دیں اور تاکہ لوگ غور و فکر کریں‘‘۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ قرآن کریم کے احکامات اور فرامین کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول و عمل کے ذریعے تشریح و توضیح فرمانے پر مقرر کئے گئے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے۔ چنانچہ سیدنا سعد بن ہشام رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اُمّ المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق خبر دیجئے ؟ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کان خلقہ القرآن یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا۔ کیا تم نے قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم ’’بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر فائز ہو‘‘۔ (مسند احمد ج۶ ص۹۱، تفسیر ابن کثیر ج۴ ص:۴۰۲)۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم فرمایا:
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ
اورنماز قائم کرو۔
اب نماز کس طرح قائم کی جائے اس کا مکمل طریقہ سیدنا محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً سکھایا یعنی استنجا، وضو، نماز کی ادائیگی کا مکمل طریقہ، قیام، رکوع، سجود، قراء ت، فرائض، نوافل، اذان، اقامت، پنج وقتہ نمازیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض نماز کے ہر ہر مسئلہ کی تشریح و وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً و فعلاً فرما دی اور اُمت سے ارشاد فرمایا:
صلوا کما رأیتمونی اصلی
’’نماز اس طرح پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پرھتے دیکھتے ہو‘‘۔ (بخاری:۶۳۱)۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے: وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃ یعنی ’’اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘۔
اب زکوٰۃ کب ادا کی جائے اور کتنے مال میں سے ادا کی جائے۔ اس کا مکمل طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح دین کے دوسرے معاملات کی وضاحت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل کے ذریعے فرما دی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ دین قرآن و حدیث کا نام ہے۔
اب اگر کوئی شخص اپنے کسی باطل عقیدہ کی وجہ سے کسی حدیث کا انکار کر دے تو اس نے حدیث کا انکار کر کے گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا انکار کر دیا اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والا درحقیقت قرآن کا اِنکار کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو قرآن کریم کی من مانی تشریح بیان کریں گے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تشریح و تفسیر کی ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذمے لگا دی اور قیامت تک کسی کو بھی اس بات کا حق نہیں دیا کہ وہ قرآن کریم کی کوئی جدید تشریح بیان کرے۔ اور جو لوگ خوارج، معتزلہ، جہمیہ، قدریہ، مرجیہ، پرویز، عثمانی، مسعود، منکرین حدیث وغیرہ کی کسی تشریح پر راضی ہو چکے ہیں تو گویا انہوں نے قرآن کریم کا انکار کر دیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو بھی قرآن کی تشریح کا حق حاصل نہیں ہے۔ ثابت ہوا کہ حدیث کا انکار کرنے والے نہ صرف منکرین حدیث ہیں بلکہ وہ منکرین قرآن بھی ہیں اور جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم قرآن کریم کو تو مانتے ہیں لیکن حدیث کا انکار کرتے ہیں تو انہوں نے قرآن کریم کو بھی نہیں مانا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ اُولٰٓئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْھِمْ اُجُوْرَھُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء:۱۵۰ تا ۱۵۲)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر و ایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے وہ سزا مہیا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل و خوار کر دینے والی ہو گی بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو مانیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں، ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے اور اللہ بڑا درگذر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔
ثابت ہوا کہ اللہ اور اس کے رسولوں کو ماننے کا مطلب یہی ہے کہ سب پر ایمان رکھا جائے اور ان میں سے کسی کے درمیان بھی تفریق نہ کی جائے یعنی اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کو مانتا ہوں لیکن رسولوں کا انکار کرتا ہوں تو یہ بھی ماننا نہ ہوا۔ اور کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں بعض رسولوں کو مانتا ہوں اور بعض کا انکار کرتا ہوں تو یہ بھی کھلا کفر ہے۔ اسی طرح کسی کا یہ دعوی کہ میں قرآن کریم کو تو مانتا ہوں لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا تو واضح رہے کہ ایسا شخص قرآن کریم کا بھی انکاری ہے کیونکہ اس نے قرآن کریم کے حکم واطیعوا الرسول یعنی ’’اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو‘‘ کا انکار کر دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا صحیح حدیث قرآن کے خلاف ہو سکتی ہے؟​
بعض لوگ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کریم کی فلاں آیت سے ٹکراتی ہے یا اس کا مضمون قرآن کریم کے فلاں مضمون کے خلاف ہے تو یہ لوگ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اور حدیث کو قرآن کریم سے ٹکرانے والے فرق باطلہ ہی تھے۔ اور انہوں ہی نے یہ اصول وضع کئے تھے۔ واضح رہے کہ یہ باطل عقیدہ بھی شیعہ کا ہے چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی میں ہے:
فما وافق کتاب اللّٰہ فخذوہ و ما خالف کتاب اللّٰہ فدعوہ
’’پس جو (حدیث) کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے لے لو اور جو کتاب اللہ کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دو‘‘۔ (اصول کافی ج۱ ص:۵۵)۔
اب اگر کوئی یہ اصول بیان کرے تو سمجھ لیں کہ وہ شیعہ مذہب کی تبلیغ کر رہا ہے۔ کیا امام بخاری اور امام مسلم ; وغیرہ دین سے اس قدر ناواقف تھے کہ انہوں نے قرآن کریم کے خلاف آئی ہو احادیث کو اپنی اپنی کتابوں میں جگہ دی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ احادیث قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم کی توضیح و تفسیر بیان کرتی ہیں۔ ایک روایت میں ہے:
’’میرے بارے میں حدیثیں پھیل جائیں گی پس تمہارے پاس میری کوئی حدیث قرآن کے مطابق پہنچے تو وہ میری حدیث ہے اور تم تک میری طرف سے جو روایت قرآن کے مخالف پہنچے تو وہ میری حدیث نہیں ہے‘‘ (الرد علی سیر الاوزاعی ص۲۴، ۲۵)۔
اس روایت میں ایک راوی ابوجعفر عبداللہ بن منصور الہاشمی کذاب ہے۔ لہٰذا یہ روایت موضوع اور جھوٹی ہے۔ اور یہ کتاب بھی امام ابویوسف سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: ماہنامہ الحدیث حضرو شمارہ نمبر۲۸، صفحہ ۲۰،۲۱۔ نیز اس مضمون کی دیگر روایات کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی سب کی سب جھوٹی اور من گھڑت ہیں منکر حدیث تمنا عمادی جس نے مرزا قادیانی اور اس کے خلفاء کو رحمۃ اللہ علیہ تک لکھا ہے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (انتظار مہدی و مسیح علیہ السلام ص۲۲۳) یعنی مہدی اور مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں آئی ہوئی بخاری و مسلم تک کی روایات موصوف کے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں اور یہ من گھڑت اور جھوٹی روایت موصوف کا زبردست سہارا ہے۔ ویا للعجب۔
اور اس کتاب کا ابتدائیہ لکھنے والے نظام الدین خان نے اس روایت پر بخاری کا حوالہ پیش کیا تھا اور بعد کی اشاعت میں اس نے بخاری کا حوالہ غائب کر دیا اور اس کی جگہ الردّ علیٰ سیرالاوزاعی کا حوالہ پیش کر دیا۔ لیکن اس کا اصرار ہے کہ یہ روایت کبھی بخاری میں بھی تھی۔ گویا موصوف کے نزدیک بھی صحیح بخاری ایسی مقدس کتاب ہے کہ اگر یہ روایت بخاری میں ہوتی تو موصوف کا زبردست سہارا ہوتی۔
جو لوگ حدیث کو قرآن مجید کے خلاف قرار دیتے ہیں اُن کو سمجھانے کے لئے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
مثال کے طور پر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ
تم پر تو حرام کیا گیا ہے مردہ (البقرہ:۱۷۳)
نیز ملاحظہ فرمائیں المائدہ:۳، الانعام:۱۴۵ ، اور النحل:۱۱۵۔
قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوا کہ مردہ (یعنی جو حلال جانور اپنی طبعی موت مر جائے) حرام ہے۔ اور اب کسی بھی مردہ کو کھانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ حرام ہے۔ لیکن حدیث میں ہے:
ھو الطھور ماء ہ و الحل میتتہ
(رواہ مالک و الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی مشکاۃ المصابیح حدیث:۴۷۹۔و سندہ صحیح)
سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا ’’مردہ‘‘ (مچھلی) حلال ہے‘‘۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مچھلی اگرچہ مردہ ہے لیکن اس کا کھانا حلال ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے لیکن قرآن و حدیث میں بظاہر تضاد ہو گا تو ان میں تطبیق دی جائے گی۔ یعنی اگرچہ ہر مردہ حرام ہے لیکن مچھلی مردہ ہونے کے باوجود بھی حلال ہے کیونکہ یہ ایک استثنای صورت ہے اور دیکھا گیا ہے کہ منکرین عذاب القبر اور منکرین حدیث بھی اس ’’مردہ‘‘ کو مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔
ایک حدیث میں ہے:
احلت لنا میتتان و دمان المیتتان الحوت و الجراد و الدمان الکبد و الطحال (مسند احمد:۲/۹۷، ابن ماجہ، دارقطنی، مشکاۃ المصابیح باب ما یحل اکلہ و ما یحرم حدیث نمبر۴۱۳۲۔ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ و قال الاستاذ حافظ زبیر علی زئی صحیح۔ و قال الالبانی: اسنادہ جید۔ و قال الشیخ شعیب الارنووط: حدیث حسن۔ (مسند الامام احمد بن حنبل مع الموسوعہ الحدیثیہ ج:۱۰، صفحہ:۱۶، ۱۷)
ہمارے لئے دو مردے اور دو خون حلال کئے گئے ہیں یعنی مچھلی اور ٹڈی اور جگر اور تلی۔
سیدنا ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات یا چھ جہاد ایسے کئے ہیں کہ جس میں ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹڈیاں کھائی ہیں۔ (بخاری کتاب الذبائح و الصید باب۱۳ اکل الجراد حدیث نمبر۵۴۹۵)۔
مچھلی سمندر کا جانور ہے جبکہ ٹڈی خشکی کا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خشکی کے اس ’’مردہ‘‘ کو بھی کھایا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث پر سچے دل سے ایمان رکھا جائے اور ان پر شک و شبہ نہ کیا جائے۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ (الحجرات:۱۵)
’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘۔
احادیث کے متعلق اگر ذرا بھی ایمان متزلزل ہو جائے تو پھر گویا اس شخص کا پورا اسلام ہی مشکوک ہو جائے گا اور جو لوگ انکار حدیث کی تبلیغ کر رہے ہیں تو وہ اس سلسلہ میں یہود و نصاری اور دشمنانِ اسلام کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے ہیں اور یا وہ اسلام کی پابندیوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مردم شماری میں ان کا نام مسلمانوں کی لسٹ میں بھی رہے اور دوسری طرف و ہ اسلام کی پابندیوں سے بھی آزاد رہیں۔
بعض لوگ یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ بھی کرتے ہیں کہ احادیث دراصل عجمی سازش ہیں حالانکہ اس دور کے محدثین میں سے بعض عجمی ہونے کے باوجود بھی عربی زبان پر مکمل دسترس رکھتے تھے اور پھر وہ انتہائی مخلص اور سچے مسلمان تھے۔ جبکہ موجودہ دور کے ان منکرین حدیث کے دین و ایمان کا بھی کچھ اتہ پتہ نہیں۔ پھر یہ خود بھی عجمی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی قبیلہ قریش سے تعلق نہیں رکھتا۔ لہٰذا اصلی عجمی سازشی یہی لوگ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اختلافات کے حل کا قرآنی اصول​
جب کسی مسئلہ میں لوگوں کے درمیان اختلاف و نزاع ہو جائے اور لوگ اس مسئلہ کے متعلق مختلف آراء و نظریات رکھتے ہوں تو ایسی صورت میں اس کے حل کی کیا صورت ہو گی؟ اس کا جواب قرآن کریم نے اس طرح دیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء:۵۹)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔
معلوم ہوا کہ جب بھی کسی مسئلہ میں اہل اسلام کے درمیان اختلاف ہوگا تو اس کے حل کی صورت یہ ہو گی کہ اس مسئلہ کا حل قرآن و حدیث سے دریافت کیا جائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قرآن و حدیث کو حکم قرار دیا ہے اور جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویدار ہے تو وہ اختلافی مسائل کا حل قرآن و حدیث ہی میں تلاش کرے گا۔ بصورت دیگر ایسے شخص کا دعویٰ ایمان ہی مشکوک ہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ مختلف فرقے اختلافی مسئلہ کا حل قرآن و حدیث کے بجائے اپنی منظور نظر شخصیات سے حاصل کرتے ہیں۔ اور جو حل انہیں اپنے امام، اپنے قائد اور اپنے امیر جماعت سے مل جائے تو وہ اسے قبول کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ حنفی اپنے امام کی بات کو حرفِ آخر سمجھتا ہے اور احادیث صحیحہ کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح مالکی اپنے امام، شافعی اپنے امام، حنبلی اپنے امام، خوارج، معتزلہ، جہمیہ، مرجیہ، پرویزی، عثمانی، مسعودی وغیرہ اپنے اپنے بانی و امام کی بات کو حجت اور حرف آخر سمجھتے ہیں اور وہ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ کی بجائے فَرُدُّوْہُ اِلَی الْاِمَام یا اِلَی الْاَمِیْرِ الجَمَاعَۃِ پر عمل پیرا ہیں۔ علی ھذا القیاس اسی طرح ایک عثمانی کے سامنے جب عذاب قبر کی صحیح احادیث پیش کی جاتی ہیں تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کو ڈاکٹر عثمانی کے کہنے پر ردّ کر دیتا ہے۔
گویا ڈاکٹر عثمانی کی شخصیت اس کے لئے حجت و دلیل بن چکی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اس کی نگاہ میں اپنا مقام کھو چکی ہے۔ اس طرزِ عمل کو اب کیا نام دیا جائے اور کس کفر یا شرک سے اسے تعبیر کیا جائے۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا انکار کر کے کوئی شخص مومن رہ سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (النساء:۶۵)
’’پس نہیں اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیںِ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلم کر لیں‘‘۔
ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختلافی مسائل میں حکم نہ ماننے والا ایمان سے خارج ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ مسلم یا توحیدی کہے۔
اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد، آپ کی حدیث اختلافی مسائل میں حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ اور صحیح حدیث کے جاننے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث میں شک و شبہ کا اظہار کرتا ہے یا اس حدیث کو اپنی رائے کے خلاف سمجھتے ہوئے جھٹلا دیتا ہے یا اپنی تنظیم کے امیر کی بات اور رائے کو حدیث پر مقدم سمجھتا ہے تو بس سمجھ لیں کہ یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے اور اس کا دعویٰ ایمان جھوٹا ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ توحیدی اور مسلم کہے، کیونکہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں غلط ثابت ہو چکا ہے۔ اور اب یہ صرف دکھاوے کے لئے مسلم بنا ہوا ہے۔ اور حقیقتاً یہ اپنی کسی محبوب شخصیت کے عقائد و نظریات کا گرویدہ ہو چکا ہے اور قرآن و حدیث اس کے سامنے اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں بھلا ہدایت کی راہ واضح ہو جانے کے بعد بھی جو شخص راہِ ہدایت کو اختیار نہ کرے بلکہ اپنی یا اپنی کسی محبوب شخصیت کی رائے پر مصر ہو تو ایسا شخص ایمان والا کیسے ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جََھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا (النساء:۱۱۵)
’’اور جو شخص رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مخالفت کرے ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اور اہل ایمان کے راستہ کے سوا کسی دوسرے راستہ پر چلے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘۔
قرآن و حدیث کی راہ ہدایت ہے اور اس راہِ ہدایت پر چلنا ہر مسلم پر لازم ہے لیکن جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم معلوم ہو جانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو ترک کر دیتا ہے تو وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر رہا ہے اور مومنین یعنی صحابہ کرام کے راستے کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر چل پڑا ہے تو اس کا انجام ظاہر ہے یعنی جہنم کے سوا اس کا اور کون سا ٹھکانہ ہو سکتا ہے؟ اس آیت سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہدایت ہے اور اس کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے۔
اور پھر جو شخص آپ کے ایک فرمان کا نہیں بلکہ احادیثِ متواترہ کا عملاً انکاری ہو۔ کیونکہ عذاب قبر کے سلسلہ میں اس قدر احادیث مروی ہیں کہ جو لاتعداد ہیں۔ ان تمام احادیث کا انکاری مومن کیسے ہو سکتا ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
اور جو شخص احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اپنی رائے سے کرے اور اپنی رائے کو قرآن و حدیث پر مقدم سمجھے تو ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِٰلھَہٗ ھَوٰاہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِہٖ وَ قَلْبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ
پھر کیا تم نے اس شخص کا حال بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ (معبود) بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کر دیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پرد ڈال دیا۔ اللہ کے بعد اب کون اسے ہدایت دے گا؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے۔
قرآن و حدیث راہ ہدایت ہے اور اس راہ پر چلنا ہر مسلم پر لازم ہے لیکن جو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد یعنی قرآن و حدیث کے دلائل معلوم ہو جانے کے باوجود اس دلیل کو نہیں مانتا اور سنت کی دلیل معلوم ہو جانے کے بعد بھی سنت کو ترک کر دیتا ہے تو وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر رہا ہے اور مومنین یعنی صحابہ کرام کے راستے کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ پر چل پڑا ہے تو اس کا انجام ظاہر ہے یعنی جہنم کے سوا اس کا اور کونسا ٹھکانہ ہو سکتا ہے؟ اس آیت سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہدایت ہے اور اس کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ اور ایسا شخص مشرک بھی ہے کیونکہ اس نے اللہ اور اُس کے رسول کے مقابلے میں کسی دوسری شخصیت کو حجت و دلیل مان لیا ہے:
اَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِہِ اللّٰہُ وَ لَوْ لَا کَلِمَۃُ الْفَصْلِ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (الشوری:۲۱)
کیا ان کے لئے دوسرے ایسے شریک بھی ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں سے وہ کچھ مقرر کیا ہے کہ جس کا اللہ نے انہیں حکم نہیں دیا؟
معلوم ہوا کہ ایسا شخص مشرک بھی ہو چکا ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ توحیدی کہتا رہے کیونکہ وہ شرک کی ایسی دلدل میں پھنس چکا ہے کہ جس سے نکلنا اُس کے لئے بہت مشکل ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (النور:۶۳)
پس جو لوگ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو (کسی ناگہانی) آفت یا دردناک عذاب کے نازل ہونے سے ڈرنا چاہیئے۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے منکرین ضرور کسی فتنہ اور عذاب الیم میں مبتلا ہوں گے۔ اس مضمون کی دیگر آیات بھی موجود ہیں لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عقیدہ عذاب القبر

احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سچا ایمان لانے کے بعد اب جو شخص بھی ان احادیث کا مطالعہ کرے گا تو وہ اس حقیقت کو پا لے گا کہ قبر کا عذاب ایک حقیقت ہے۔ عذاب القبر کا تعلق چونکہ مشاہدے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے اس لئے کہ حواس اس کا اِدراک نہیں کر سکتے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ جیسے فرشتوں، جنات، جنت و جہنم کو ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے تسلیم کرتے ہیں۔ اسی طرح عذا ب القبر کو بھی ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ عذاب القبر کے متعلق بے شمار احادیث صحیحہ موجود ہیں جو درجہ تواتر تک پہنچتی ہیں اور ان احادیث کا انکار گویا قرآن کریم کے انکار کے مترادف ہے۔
احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ مرنے کے بعد جب میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو اُس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے قبر میں اُٹھا کر بٹھاتے ہیں اور پھر اس سے سوالات پوچھتے ہیں مومن ان سوالوں کا صحیح جواب دیتا ہے چنانچہ اس کے لئے جنت کو پیش کیا جاتا ہے اور قیامت تک اسے قبر میں راحت و آرام حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ کافر و مشرک و منافق ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکتا تو اس پر جہنم پیش کی جاتی ہے اور قیامت قائم ہونے تک اسے قبر میں عذاب دیاجاتا ہے۔ اس عقیدہ کا ذکر کتاب و سنت کے تمام علماء کرام نے ہر دور میں اپنی اپنی کتابوں میں کیا ہے اور اس عقیدہ کے انکاری کو کافر قرار دیا ہے مگر باطل فرقوں نے ہر دور میں اہل حق کا مقابلہ کیا اور اس صحیح عقیدہ سے کیڑے نکالنے شروع کر دیئے۔ اور اسے غلط ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اپنے باطل عقائد و نظریات کی تائید کے لئے قرآن کریم کی آیات سے بھی غلط استدلال کیا۔ لیکن علماء حق نے قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل پیش کر کے ان کے مغالطوں کو صاف کیا اور اس مسئلہ کو اظہر من الشمس کیا۔
 
Top