• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر حق ہے اور اس سے مراد زمینی قبر ہے !!!

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
جی ماشاء اللہ اللہ تعالی کا فرمان فاقبرہ واضح دلیل ہے قبر کی عذاب پر
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جی ماشاء اللہ اللہ تعالی کا فرمان فاقبرہ واضح دلیل ہے قبر کی عذاب پر
عذاب قبر حق ہے - اس میں کوئی شک نہیں - لیکن عذاب کس قبر میں ہوتا ہے زمینی
قبر
یا کسی اور قبر میں -

آپ اس کی وضاحت بھی کر دیں -


سورۂ مومن (غافر) میں فرمایا :

وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب

فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )




قرآن کی اس آیت کے مطابق فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں- وہ عذاب کہاں ہو رہا ہے - کیا یہ عذاب فرعون والوں کو زمینی قبر میں ہو رہا ہے یا کہیں اور - اور یہ بھی بتا دیں کہ فرعون والوں کی قبر کہاں ہے -


کیوں کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔

قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ


انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔

سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲

ترجمہ کی غلطی ہو تو اصلاح کر دیں


شکریہ
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
برادر من عذاب قبر اسی زمینی قبر میں ہوتاہے
جو جہاں مرگیا وہی ان کا قبرہے فرعون جہاں ہے وہی ان کا قبر ہے آپ کی قریب ایک بندہ سویا ہوا ہوتا ہے وہ خطرناک قسم کا خواب دیکھ رہاہوتا ہے ان کو مار پڑتی ہے آپ ان کی قریب ہے لیکن آپ کو کچھ پتہ نہیں ہوتا اسی طرح قبر کا عذاب ہوتا ہے
سورہ عبس والی آیت میں ہر انسان مراد نہیں الف لام بتاتا ہے کہ خاص انسان مراد ہے جن کو قبر ملتا ہے عموما ہر قانون سب کیلیے نہیں ہوتا کچھ خاص قسم کی اور اسپیشل قسم کی کیسیز بھی تو ہوتے ہیں نا فرعون پر رب ذوالجلال کو بہت غصہ آیا تو ان کو عجیب وغریب قسم کا موت دیا بادشاہ جب غصے میں آتا ہے تو اپنا قانون تبدیل بھی کرلیتے ہیں فرعون والا یا اسی طرح کچھ اور لوگوں کیلیے خاص قسم کا کیس ہے اور عذاب دینے والا رب بہت بڑا ذات اور قادرمطلق ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
برادر من عذاب قبر اسی زمینی قبر میں ہوتاہے
جو جہاں مرگیا وہی ان کا قبرہے فرعون جہاں ہے وہی ان کا قبر ہے
سورہ عبس والی آیت میں ہر انسان مراد نہیں الف لام بتاتا ہے کہ خاص انسان مراد ہے جن کو قبر ملتا ہے
عموما ہر قانون سب کیلیے نہیں ہوتا کچھ خاص قسم کی اور اسپیشل قسم کی کیسیز بھی تو ہوتے ہیں نا فرعون پر رب ذوالجلال کو بہت غصہ آیا تو ان کو عجیب وغریب قسم کا موت دیا بادشاہ جب غصے میں آتا ہے تو اپنا قانون تبدیل بھی کرلیتے ہیں فرعون والا یا اسی طرح کچھ اور لوگوں کیلیے خاص قسم کا کیس ہے اور عذاب دینے والا رب بہت بڑا ذات اور قادرمطلق ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
قرآن کی سوره النحل کی آیت ہے

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (٢٠) أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (٢١) النحل
اور جن کو یہ لوگ الله کے علاوہ پکار رہے ہیں انہوں نے کچھ تخلیق نہیں کیا- وہ تو خود مخلوق ہیں مردہ بے جان ہیں اور نہیں جانتے کہ کب انھیں زندہ کرکے اٹھایا جائے گا -

اکثریت جانتی ہی کہ قرون اولیٰ اور دور حاضر میں حاجت روائی کے لئے کن کو پکارا جاتا رہا ہے - ظاہر ہے کہ یہ انبیاء و صالحین و شہداء کی شخصیات ہی ہیں جن کو مشرکین نے حاجت روائی کے لئے پکارا اور اب بھی پکارا جا رہا ہے - اور یہ کس بنا پر پکارا گیا - ظاہر ہے کہ یہ اس عقیدے کی بنیاد پر پکارا گیا کہ ہمارے یہ انبیاء و صالحین اپنی قبروں (زمینی) میں زندہ ہیں - اگر اس آیت مبارکہ میں ذرا غور کیا جائے توحق واضح ہو جاتا ہے کہ جن کو تم اپنا حاجت روا مانتے ہو وہ نہ صرف مردہ اجسام ہے بلکہ وہ تو اتنا بھی شعور نہیں رکھتے کہ وہ دوبارہ کب زندہ ہونگے -افسوس کے آج ہمارے اکثر سلفی بھائی بھی اس عقیدے کی بھینٹ جڑھتے نظر آ رہے ہیں کہ انبیاء و صالحین اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کی ارواح کا ان کے دنیاوی اجسام سے رابطہ ہے- کیا یہ شرک کی پہلی سیڑھی نہیں؟؟ - قرآن کی اپر دی گئی آیت تو اپنے مفہوم کے لحاظ سے واضح ہے - اب جو سمجھنا چاہے سمجھ لے -

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن رکھے اورصحیح عقیدے پر موت دے (آمین)-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قرآن کی سوره النحل کی آیت ہے

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (٢٠) أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (٢١) النحل
اور جن کو یہ لوگ الله کے علاوہ پکار رہے ہیں انہوں نے کچھ تخلیق نہیں کیا- وہ تو خود مخلوق ہیں مردہ بے جان ہیں اور نہیں جانتے کہ کب انھیں زندہ کرکے اٹھایا جائے گا -

اکثریت جانتی ہی کہ قرون اولیٰ اور دور حاضر میں حاجت روائی کے لئے کن کو پکارا جاتا رہا ہے - ظاہر ہے کہ یہ انبیاء و صالحین و شہداء کی شخصیات ہی ہیں جن کو مشرکین نے حاجت روائی کے لئے پکارا اور اب بھی پکارا جا رہا ہے - اور یہ کس بنا پر پکارا گیا - ظاہر ہے کہ یہ اس عقیدے کی بنیاد پر پکارا گیا کہ ہمارے یہ انبیاء و صالحین اپنی قبروں (زمینی) میں زندہ ہیں - اگر اس آیت مبارکہ میں ذرا غور کیا جائے توحق واضح ہو جاتا ہے کہ جن کو تم اپنا حاجت روا مانتے ہو وہ نہ صرف مردہ اجسام ہے بلکہ وہ تو اتنا بھی شعور نہیں رکھتے کہ وہ دوبارہ کب زندہ ہونگے -افسوس کے آج ہمارے اکثر سلفی بھائی بھی اس عقیدے کی بھینٹ جڑھتے نظر آ رہے ہیں کہ انبیاء و صالحین اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کی ارواح کا ان کے دنیاوی اجسام سے رابطہ ہے- کیا یہ شرک کی پہلی سیڑھی نہیں؟؟ - قرآن کی اپر دی گئی آیت تو اپنے مفہوم کے لحاظ سے واضح ہے - اب جو سمجھنا چاہے سمجھ لے -

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن رکھے اورصحیح عقیدے پر موت دے (آمین)-
الحمدللہ

1- سوال میں جو یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ مردے زندوں کی کلام بالکل نہیں سنتے یہ بات صحیح اور حق ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< جو لوگ قبروں میں ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے > فاطر / 22

اور فرمان باری تعالی ہے :

< بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے > الروم / 52

2- اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ عذاب قبر اور برزخی زندگی کا وجود ہے اور ایسے ہی میت کی حالت کے اعتبار سے اس قبر میں نعمتیں اور راحت بھی ملتی ہے اس کے دلائل ذکر کۓ جاتے ہیں :

آل فرعون کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی < فرمان ہو گا > فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو > غافر / 46

اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ آل فرعون صبح اور شام عذاب پر پیش کۓ جاتے ہیں حالانکہ وہ مر چکے ہیں اور اسی آیت سے علماء کرام نے عذاب قبر کا ثبوت لیا ہے ۔

یہ آیت کریمہ اہل سنت والجماعت کی عذاب قبر کے متعلق سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں > تفسیر ابن کثیر (4/ 82)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے :

< اللہھم انی اعوذبک من عذاب القبر واعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات اللھم انی اعوذبک من الماثم والمغرم >

( اے اللہ میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اے اللہ گناہ اور قرض سے میں تیری پناہ پکڑتا ہوں )صحیح بخاری حدیث نمبر (798) صحیح مسلم حدیث نمبر (589)

اور حدیث میں شاہد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے اور یہی عذاب قبر کے اثبات کی دلیل ہے اور عذاب قبر کی مخالفت کرنے والوں میں معتزلہ اور کچھ دوسرے گروہ ہیں جن کی مخالفت کچھ وزن نہیں رکھتی ۔

3- اور وہ حدیث جس میں بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرکوں کے جسموں کا مخاطب کرنے کا ذکر ہے تو یہ خاص ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لۓ زندہ کر دیا تھا تا کہ انہیں ذلیل کرے اور ذلت وغیرہ دکھائے ۔

ا – عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے وہ جو اللہ تعالی نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا کیا اسے تم نے سچا پایا ہے ؟ پھر اس کے بعد فرمانے لگے کہ بے شک اب میں جو کہہ رہا ہوں وہ سن رہے ہیں :

صحیح بخاری حدیث نمبر (3980) صحیح مسلم حدیث نمبر (932)

ب – ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسے جسموں کے ساتھ بات کر رہے ہیں جن کی روحیں ہی نہیں ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو > قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں زندہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنایا تا کہ انہیں حسرت اور ندامت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے –

صحیح بخاری حدیث نمبر (3976) صحیح مسلم حدیث نمبر (2875) دیکھیں فتح الباری (7/ 304)

تو اس حدیث سے شاہد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کنویں والوں کو ان کی تحقیر اور تذلیل کے لۓ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام سنائی اور اس سے یہ استدلال کرنا کہ میت سب کچھ سنتی ہے صحیح نہیں یہ کنویں والوں کے ساتھ خاص ہے لیکن کچھ علماء میت کا سلام سننا استثناء کرتے ہیں جو کہ صحیح دلیل کی محتاج ہے ۔

4- علماء کا صحیح قول یہی ہے کہ عذاب قبر روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

آئمہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر اور اس کی نعمتیں میت کی روح اور جسم دونوں کو حاصل ہوتی ہیں اور روح بدن سے جدا ہونے کے بعد عذاب یا نعمت میں ہوتی ہے اور بعض اوقات جسم سے ملتی بھی ہے تو دونوں کو عذاب یا نعمت حاصل ہوتی ہے ۔

تو ہم پر یہ ضروری ہے کہ جو اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی ہے ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کی تصدیق کریں ۔

الاختیارات الفقہیۃ (ص 94)

اور ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اس مسئلہ کے متعلق شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا اور ان کے جواب کے الفاظ ہمیں یاد ہیں انہوں نے فرمایا :

اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں کہ عذاب اور نعمتیں بدن اور روح دونوں کو ہوتی ہے روح کو بدن سے جدا ہونے کی شکل میں بھی عذاب اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بدن سے متصل ہونے کی شکل میں بھی تو بدن سے روح کے متصل ہونے کی شکل میں روح کو عذاب اور نعمت کا اس حالت میں حصول دونوں کو ہوتا ہے جس طرح کہ روح کا بدن سے منفرد ہونے کی شکل میں ہے ۔

ائمہ سلف کا مذہب :

مرنے کے بعد میت یا تو نعمتوں میں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے ۔ جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتا ہے روح بدن سے جدا ہونے کے بعد یا تو نعمتوں میں اور یا عذاب میں ہوتی اور بعض اوقات بدن کے ساتھ ملتی ہے تو بدن کے ساتھ عذاب اور نعمت میں شریک ہوتی اور پھر قیامت کے دن روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا تو وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جسموں کا دوبارہ اٹھنا اس میں مسلمان اور یہودی اور عیسائی سب متفق ہیں- الروح ( ص / 51- 52)

علماء اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ انسان خواب میں بعض اوقات یہ دیکھتا ہے کہ یہ کہیں گیا اور اس نے سفر کیا یہ پھر اسے سعادت ملی ہے حالانکہ وہ سویا ہوا ہے اور بعض اوقات وہ غم وحزن اور افسوس محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ پر دنیا میں ہی موجود ہے تو بزرخی زندگی بدرجہ اولی مختلف ہو گي جو کہ اس زندگی سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اسی طرح آخرت کی زندگی میں بھی ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اگر یہ کہا جائے کہ میت کو قبر میں اپنی حالت پر ہی دیکھتے ہیں تو پھر کس طرح اس سے سوال کیا جاتا اور اسے بٹھایا اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے بلکہ اس کی مثال اور نظیر عام طور پر نیند میں ہے کیونکہ سویا ہوا شخص بعض اوقات کسی چیز پر لذت اور یا پھر تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح بیدار شخص جب کچھ سوچ رہا ہوتا یا پھر سنتا ہے تو اس کی لذت اور یا تکلیف محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے اور انہیں وحی کی خبر دیتے تھے لیکن حاضرین کو اس کا ادراک نہیں ہوتا تھا تو یہ سب کچھ واضح اور ظاہر ہے – شرح مسلم ( 71/ 201)

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے :

اور سوئے ہوئے شخص کو اس کی نیند میں لذت اور تکلیف ہوتی ہے جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتی ہے حتی کہ یہ ہوتا ہے کہ نیند میں اسے کسی نے مارا تو اٹھنے کے بعد اس کی درد اپنے بدن میں محسوس کرتا ہے اور نیند میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کوئی اچھی سی چیز کھائی ہے تو اس کا ذائقہ اٹھنے کے بعد اس کے منہ میں ہوتا ہے اور یہ سب کچھ پایا جاتا اور موجود ہے ۔

تو اگر سوۓ ہوئے شخص کے بدن اور روح کو یہ نعمتیں اور عذاب جسے وہ محسوس کرتا ہے ہو سکتیں ہیں اور جو اس کے ساتھ ہوتا ہے اسے محسوس تک نہیں ہوتا حتی کہ کبھی سویا ہوا شخص تکلیف کی شدت یا غم پہنچنے سے چیختا چلاتا بھی ہے اور جاگنے والے اس کی چیخیں سنتے ہیں اور بعض اوقات وہ سونے کی حالت میں باتیں بھی کرتا ہے یا قرآن پڑھتا اور ذکر واذکار اور یا جواب دیتا ہے اور جاگنے والا یہ سب کچھ سنتا اور وہ سویا ہوا اور اس کی آنکھیں بند ہیں اور اگر اسے مخاطب کیا جائے تو وہ سنتا ہی نہیں ۔

تو اس کا جو کہ قبر میں ہے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے اور فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں ؟

اور دل قبر کے مشابہ ہے تو اسی لۓ غزوہ خندق کے دن جب عصر کی نماز فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھرے گا اور دوسری روایت کے لفظ ہیں < ان کے دلوں اور قبروں کو آگ سے بھرے > اور ان کے درمیان اس قول میں تفریق کی گئی ہے ۔

< جب قبروں جو ہے نکال لیا جائے گا اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی >

اور اس کے امکان کی تقریر اور تقریب ہے ۔

یہ کہنا جائز نہیں کہ جو کچھ میت عذاب اور نعمتیں کو حاصل کرتی ہے وہ اسی طرح کہ سونے والا حاصل کرتا ہے بلکہ یہ عذاب اور نعمتیں اس سے زیادہ کامل اور حقیقی ہیں لیکن یہ مثال امکانی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور اگر سائل یہ کہے کہ میت قبر میں حرکت تو کرتی نہیں اور نہ ہی مٹی میں تغیر ہوتا ہے وغیرہ حالانکہ یہ مسئلہ تفصیل اور شرح چاہتا ہے یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔

اور اللہ تعالی زیادہ علم رکھتا ہے ۔

اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے – آمین

مجموع الفتاوی ( 4/ 275 – 276 )

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ارضی قبر میں عذاب کا ثبوت ھم دیتے ھیں۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دو قبروں پر سے گذرے ۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں ایسی چیز میں عذاب نہیں دیا جا رہا کہ جس سے بچنا ان کے لئے کوئی بڑی بات تھی بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھا (اور مسلم: ۲۹۲کی ایک روایت میں لا یستنرہ من البول کے الفاظ ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھتا تھا۔

اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی لی اور اسے درمیان میں سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہو جائیں اس وقت تک اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کر دے گا‘‘۔

(بخاری و مسلم۔ مشکاۃ المصابیح باب آداب الخلاء)۔ (بخاری رقم:۲۱۶، ۲۱۸، ۱۳۶۱، ۱۳۷۸، ۶۰۵۲، ۶۰۵۵۔ مسلم:۲۹۲)۔

صحیح مسلم میں جناب جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب قبر میں کمی نبی ﷺ کی دعا اور شفاعت کے ذریعے ہوئی تھی۔

(صحیح مسلم۔ ۲/۴۱۸عربی حدیث:۳۰۱۲)

بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ لوگ ان گناہوں کو معمولی سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بڑے گناہ ہیں۔ بعض منکرین عذاب قبر نے اس روایت کی بڑی عجیب توجیہہ بیان کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ان قبر والوں کو یہاں نہیں بلکہ برزخی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا لیکن یہ حدیث ان کی اس باطل تأویل کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ صحیح بخاری کی بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:

اما ھذا فکان لا یستتر من بولہ و اما ھذا فکان یمشی بالنمیمۃ

رہا یہ شخص تو پس یہ پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھااور رہا یہ شخص پس یہ چغل خوری کیا کرتا تھا۔

(صحیح بخاری کتاب الادب باب الغیبۃ)۔

اس روایت کے اگلے الفاظ یہ ہیں:

ثم دعا بعسیب برطب فشقہ باثنین فغرس علی ھذا واحدا و علی ھذا واحدا … (بخاری ۶۰۵۲)

پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی منگوائی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کیا پھر ایک ٹہنی کو اس (قبر) پر اور دوسری ٹہنی کو اس (دوسری قبر) پر گاڑھ دیا۔

ایک روایت میں آخری الفاظ اس طرح ہیں:

فجعل کسرۃ فی قبر ھذا و کسرۃ فی قبر ھذا (بخاری:۶۰۵۵، کتاب الادب)

پس آپ ﷺ نے ایک ٹکڑے کو اس قبر پر اور دوسرے کو اس (دوسری) قبر پر گاڑھ دیا۔

اس حدیث میں اسم اشارہ قریب ’’ھذا‘‘ کا استعمال کر کے آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ان دونوں قبر والوں کو انہی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے اور اس کی وضاحت سے ڈاکٹر عثمانی کی باطل تاویلات بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔

اس حدیث میں دونوں اشخاص کے لئے ھذا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ھذا اسم اشارہ قریب کے لئے آتا ہے یعنی اس شخص کو اور اس شخص کو! اس اس بنا پر عذاب ہو رہا ہے۔ اور دوسری حدیث کے مطابق ٹہنی کا ایک حصہ اس قبر پر اور دوسرا اس قبر پر۔ لہٰذا ان احادیث کی بناء پر منکرین کے تمام شبہات غلط ثابت ہوجاتے ہیں اور پھر برزخی قبر کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے لہٰذا حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو کون تسلیم کرے گا؟
 
Top