قرآن کی سوره النحل کی آیت ہے
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (٢٠) أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ (٢١) النحل
اور جن کو یہ لوگ الله کے علاوہ پکار رہے ہیں انہوں نے کچھ تخلیق نہیں کیا- وہ تو خود مخلوق ہیں مردہ بے جان ہیں اور نہیں جانتے کہ کب انھیں زندہ کرکے اٹھایا جائے گا -
اکثریت جانتی ہی کہ قرون اولیٰ اور دور حاضر میں حاجت روائی کے لئے کن کو پکارا جاتا رہا ہے - ظاہر ہے کہ یہ انبیاء و صالحین و شہداء کی شخصیات ہی ہیں جن کو مشرکین نے حاجت روائی کے لئے پکارا اور اب بھی پکارا جا رہا ہے - اور یہ کس بنا پر پکارا گیا - ظاہر ہے کہ یہ اس عقیدے کی بنیاد پر پکارا گیا کہ ہمارے یہ انبیاء و صالحین اپنی قبروں (زمینی) میں زندہ ہیں - اگر اس آیت مبارکہ میں ذرا غور کیا جائے توحق واضح ہو جاتا ہے کہ جن کو تم اپنا حاجت روا مانتے ہو وہ نہ صرف مردہ اجسام ہے بلکہ وہ تو اتنا بھی شعور نہیں رکھتے کہ وہ دوبارہ کب زندہ ہونگے -افسوس کے آج ہمارے اکثر سلفی بھائی بھی اس عقیدے کی بھینٹ جڑھتے نظر آ رہے ہیں کہ انبیاء و صالحین اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کی ارواح کا ان کے دنیاوی اجسام سے رابطہ ہے- کیا یہ شرک کی پہلی سیڑھی نہیں؟؟ - قرآن کی اپر دی گئی آیت تو اپنے مفہوم کے لحاظ سے واضح ہے - اب جو سمجھنا چاہے سمجھ لے -
الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن رکھے اورصحیح عقیدے پر موت دے (آمین)-
الحمدللہ
1- سوال میں جو یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ مردے زندوں کی کلام بالکل نہیں سنتے یہ بات صحیح اور حق ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
< جو لوگ قبروں میں ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے > فاطر / 22
اور فرمان باری تعالی ہے :
< بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے > الروم / 52
2- اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ عذاب قبر اور برزخی زندگی کا وجود ہے اور ایسے ہی میت کی حالت کے اعتبار سے اس قبر میں نعمتیں اور راحت بھی ملتی ہے اس کے دلائل ذکر کۓ جاتے ہیں :
آل فرعون کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی < فرمان ہو گا > فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو > غافر / 46
اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ آل فرعون صبح اور شام عذاب پر پیش کۓ جاتے ہیں حالانکہ وہ مر چکے ہیں اور اسی آیت سے علماء کرام نے عذاب قبر کا ثبوت لیا ہے ۔
یہ آیت کریمہ اہل سنت والجماعت کی عذاب قبر کے متعلق سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں > تفسیر ابن کثیر (4/ 82)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے :
< اللہھم انی اعوذبک من عذاب القبر واعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات اللھم انی اعوذبک من الماثم والمغرم >
( اے اللہ میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اے اللہ گناہ اور قرض سے میں تیری پناہ پکڑتا ہوں )صحیح بخاری حدیث نمبر (798) صحیح مسلم حدیث نمبر (589)
اور حدیث میں شاہد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے اور یہی عذاب قبر کے اثبات کی دلیل ہے اور عذاب قبر کی مخالفت کرنے والوں میں معتزلہ اور کچھ دوسرے گروہ ہیں جن کی مخالفت کچھ وزن نہیں رکھتی ۔
3- اور وہ حدیث جس میں بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرکوں کے جسموں کا مخاطب کرنے کا ذکر ہے تو یہ خاص ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لۓ زندہ کر دیا تھا تا کہ انہیں ذلیل کرے اور ذلت وغیرہ دکھائے ۔
ا – عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے وہ جو اللہ تعالی نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا کیا اسے تم نے سچا پایا ہے ؟ پھر اس کے بعد فرمانے لگے کہ بے شک اب میں جو کہہ رہا ہوں وہ سن رہے ہیں :
صحیح بخاری حدیث نمبر (3980) صحیح مسلم حدیث نمبر (932)
ب – ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسے جسموں کے ساتھ بات کر رہے ہیں جن کی روحیں ہی نہیں ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو > قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں زندہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنایا تا کہ انہیں حسرت اور ندامت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے –
صحیح بخاری حدیث نمبر (3976) صحیح مسلم حدیث نمبر (2875) دیکھیں فتح الباری (7/ 304)
تو اس حدیث سے شاہد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کنویں والوں کو ان کی تحقیر اور تذلیل کے لۓ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام سنائی اور اس سے یہ استدلال کرنا کہ میت سب کچھ سنتی ہے صحیح نہیں یہ کنویں والوں کے ساتھ خاص ہے لیکن کچھ علماء میت کا سلام سننا استثناء کرتے ہیں جو کہ صحیح دلیل کی محتاج ہے ۔
4- علماء کا صحیح قول یہی ہے کہ عذاب قبر روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
آئمہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر اور اس کی نعمتیں میت کی روح اور جسم دونوں کو حاصل ہوتی ہیں اور روح بدن سے جدا ہونے کے بعد عذاب یا نعمت میں ہوتی ہے اور بعض اوقات جسم سے ملتی بھی ہے تو دونوں کو عذاب یا نعمت حاصل ہوتی ہے ۔
تو ہم پر یہ ضروری ہے کہ جو اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی ہے ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کی تصدیق کریں ۔
الاختیارات الفقہیۃ (ص 94)
اور ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اس مسئلہ کے متعلق شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا اور ان کے جواب کے الفاظ ہمیں یاد ہیں انہوں نے فرمایا :
اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں کہ عذاب اور نعمتیں بدن اور روح دونوں کو ہوتی ہے روح کو بدن سے جدا ہونے کی شکل میں بھی عذاب اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بدن سے متصل ہونے کی شکل میں بھی تو بدن سے روح کے متصل ہونے کی شکل میں روح کو عذاب اور نعمت کا اس حالت میں حصول دونوں کو ہوتا ہے جس طرح کہ روح کا بدن سے منفرد ہونے کی شکل میں ہے ۔
ائمہ سلف کا مذہب :
مرنے کے بعد میت یا تو نعمتوں میں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے ۔ جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتا ہے روح بدن سے جدا ہونے کے بعد یا تو نعمتوں میں اور یا عذاب میں ہوتی اور بعض اوقات بدن کے ساتھ ملتی ہے تو بدن کے ساتھ عذاب اور نعمت میں شریک ہوتی اور پھر قیامت کے دن روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا تو وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جسموں کا دوبارہ اٹھنا اس میں مسلمان اور یہودی اور عیسائی سب متفق ہیں- الروح ( ص / 51- 52)
علماء اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ انسان خواب میں بعض اوقات یہ دیکھتا ہے کہ یہ کہیں گیا اور اس نے سفر کیا یہ پھر اسے سعادت ملی ہے حالانکہ وہ سویا ہوا ہے اور بعض اوقات وہ غم وحزن اور افسوس محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ پر دنیا میں ہی موجود ہے تو بزرخی زندگی بدرجہ اولی مختلف ہو گي جو کہ اس زندگی سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اسی طرح آخرت کی زندگی میں بھی ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اگر یہ کہا جائے کہ میت کو قبر میں اپنی حالت پر ہی دیکھتے ہیں تو پھر کس طرح اس سے سوال کیا جاتا اور اسے بٹھایا اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے بلکہ اس کی مثال اور نظیر عام طور پر نیند میں ہے کیونکہ سویا ہوا شخص بعض اوقات کسی چیز پر لذت اور یا پھر تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح بیدار شخص جب کچھ سوچ رہا ہوتا یا پھر سنتا ہے تو اس کی لذت اور یا تکلیف محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے اور انہیں وحی کی خبر دیتے تھے لیکن حاضرین کو اس کا ادراک نہیں ہوتا تھا تو یہ سب کچھ واضح اور ظاہر ہے – شرح مسلم ( 71/ 201)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے :
اور سوئے ہوئے شخص کو اس کی نیند میں لذت اور تکلیف ہوتی ہے جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتی ہے حتی کہ یہ ہوتا ہے کہ نیند میں اسے کسی نے مارا تو اٹھنے کے بعد اس کی درد اپنے بدن میں محسوس کرتا ہے اور نیند میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کوئی اچھی سی چیز کھائی ہے تو اس کا ذائقہ اٹھنے کے بعد اس کے منہ میں ہوتا ہے اور یہ سب کچھ پایا جاتا اور موجود ہے ۔
تو اگر سوۓ ہوئے شخص کے بدن اور روح کو یہ نعمتیں اور عذاب جسے وہ محسوس کرتا ہے ہو سکتیں ہیں اور جو اس کے ساتھ ہوتا ہے اسے محسوس تک نہیں ہوتا حتی کہ کبھی سویا ہوا شخص تکلیف کی شدت یا غم پہنچنے سے چیختا چلاتا بھی ہے اور جاگنے والے اس کی چیخیں سنتے ہیں اور بعض اوقات وہ سونے کی حالت میں باتیں بھی کرتا ہے یا قرآن پڑھتا اور ذکر واذکار اور یا جواب دیتا ہے اور جاگنے والا یہ سب کچھ سنتا اور وہ سویا ہوا اور اس کی آنکھیں بند ہیں اور اگر اسے مخاطب کیا جائے تو وہ سنتا ہی نہیں ۔
تو اس کا جو کہ قبر میں ہے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے اور فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں ؟
اور دل قبر کے مشابہ ہے تو اسی لۓ غزوہ خندق کے دن جب عصر کی نماز فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھرے گا اور دوسری روایت کے لفظ ہیں < ان کے دلوں اور قبروں کو آگ سے بھرے > اور ان کے درمیان اس قول میں تفریق کی گئی ہے ۔
< جب قبروں جو ہے نکال لیا جائے گا اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی >
اور اس کے امکان کی تقریر اور تقریب ہے ۔
یہ کہنا جائز نہیں کہ جو کچھ میت عذاب اور نعمتیں کو حاصل کرتی ہے وہ اسی طرح کہ سونے والا حاصل کرتا ہے بلکہ یہ عذاب اور نعمتیں اس سے زیادہ کامل اور حقیقی ہیں لیکن یہ مثال امکانی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور اگر سائل یہ کہے کہ میت قبر میں حرکت تو کرتی نہیں اور نہ ہی مٹی میں تغیر ہوتا ہے وغیرہ حالانکہ یہ مسئلہ تفصیل اور شرح چاہتا ہے یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔
اور اللہ تعالی زیادہ علم رکھتا ہے ۔
اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے – آمین
مجموع الفتاوی ( 4/ 275 – 276 )
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد