قال الامام ابوبكر البيهقي (في كتابه اثبات عذاب القبر )
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، وأبو عبد الرحمن السلمي، وأبو سعيد بن أبي عمرو قالوا: ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب، ثنا الحسن بن علي، يعني ابن عفان العامري، ثنا عباءة بن كليب الليثي، عن جويرية بن أسماء، عن نافع، عن ابن عمر قال: " بينا أنا صادر عن غزوة الأبواء، إذ مررت بقبور فخرج علي رجل من قبر يلتهب نارا وفي عنقه سلسلة يجرها، وهو يقول يا عبد الله اسقني سقاك الله قال: فوالله ما أدري، باسمي يدعوني أو كما يقول الرجل للرجل: يا عبد الله، إذ خرج على أثره أسود بيده ضغث من شوك وهو يقول: يا عبد الله لا تسقه، فإنه كافر فأدركه فأخذ بطرف السلسلة، ثم ضربه بذلك الضغث ثم اقتحما في القبر، وأنا أنظر إليهما، حتى التأم عليهما وروي في ذلك قصة عن عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير، عن سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه وفي الآثار الصحيحة غنية "
(اثبات عذاب القبر ص183 )
ترجمہ :
سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں غزوہ ابواء سے واپس لوٹ رہا تھا کہ میں ( کچھ ) قبروں کے پاس سے گزرا۔ ایک آدی ( اچانک ) قبر سے نکل کر میری طرف آیا ۔ اسے آگ لگی ہوئی تھی ۔ اور اس کی گردن میں ایک زنجیری جسے وہ گھسیٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا:
" اے عبد الله! ( اللہ کے بندے) مجھے پانی پلاؤ ، اللہ تھے پانی پلائے۔ الله کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ اس نے مجھے پہچان کر ) عبداللہ کہا یا ویسے ہی کہہ دیا جیسے ایک آدمی دوسرے آدمی کو: اے اللہ کے بندے! کہہ کر پکارتا ہے۔ اس شخص کے پیچھے ایک کالا شخص نکلا جس کے ہاتھ میں کانٹوں والی ٹہنی تھی اور وہ کہ رہا تھا۔ اے عبداللہ! اسے پانی نہ پلانا کیونکہ یہ کافر ہے ۔ پھر اس ( کالے شخص )نے اسے پکڑ لیا ۔ اس کی زنجیر لے کر اس ٹہنی سے اسے مارتا ہوا دوبارہ قبر میں لے گیا۔ میں ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا حتی کہ وہ قبر میں غائب ہو گئے۔
یہ قصہ ایک دوسری سند سےبھی مروی ہے اور (عذاب قبر پر ) صحیح آثار کافی ہیں۔
إسناده حسن، کتاب الروح (ص 93، 94) میں اس کے شواہد ہیں ۔
تنبیہ: دوسری سند والی روایت معجم ابی یعلی الموصلی (ص 104) میں ہے اس میں عمرو بن دینار قهرمان آل زبیر ضعیف ہے۔