میرے بھائی آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ نہ ہم نے اپنے مخالفین کو دیکھنا ہے یا اپنوں کو دیکھنا ہے
ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم کے احکامات کو دیکھنا ہے
آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں
کہ
اگر میں اپنے بزرگوں کی کتابوں کے سکین پیجز لگاتا ہوں تو
اس سے
مسلک اہل حدیث پر انگلی اٹھانے کا موقع ملتا ہے
میرے بھائی انگلی اٹھانے کا موقعہ تو تب ملے گا جب یہ بزرگ ہمارے لیے حجت ہوں گے
جس طرح آپ اپنے بزرگوں سے محبت کرتے ہیں اسی طرح دوسرے مسلک والے بھی اپنے بزرگوں سے محبت کرتے ہیں
لکن اس محبت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آنکھیں بند کر کے دیوبند ، بریلوی یا اہلحدیث کے بزرگوں کی بات مانتے رہیں
ہمارے پاس ایک پیمانہ ہے - اور وہ ہے قرآن اور صحیح احادیث
جس کی بات بھی اس پیمانےپر پورا اترتی ہے ٹھیک ورنہ ردی کی ٹوکری
لکن ساتھ ہی ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی غلطیوں کو پواینٹ آوٹ کر دیں تا کہ کوئی بندہ کسی بھی غلط فہمی میں نہ رھے
کیا عبدللہ بن عمر رضی اللہ اپنے والد عمر رضی اللہ کی عزت نہیں کرتے تھے
کیا ہم ان سے زیادہ اپنے بزرگوں کی عزت کرتے ہیں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ حج تمتع کو جائز سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کے والد عمر رضی اللہ عنہ اس سے روکا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ میرے والد ایک کام سے منع کريں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیں تو میرے والد کی بات مانی جائےگی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانا جائے گا؟ کہنے والے نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و عمل کو قبول کیا جائے گا۔ تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو لیا جائے گا تو پھر میرے والد کے قول کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلے میں کیوں پیش کرتے ہو۔
(ترمذی۱\۱۶۹،طحاوی۱\۳۹۹)
کیا عبدللہ بن عمر راضی اللہ نے بھی یہ بات سوچی کہ
جو آپ نے سوچی ہے