• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
عذاب قبر
تألیف​
ڈاکٹرابوجابرعبداللہ دامانوی​
الناشر​
مدرسۃ اُمّ المؤمنین حفصہ بنت عمرفاروق کراچی​
جملہ حقوق بحق ناشرمحفوظ ہیں

فہرست مضامین
ایک ضروری وضاحت
وجہ تألیف
پیش لفظ
1:عذاب قبر
2:قبر کا حقیقی مفہوم
3:فلسفیانہ استدلال اور اس کا جواب
4:قبر کی تعریف احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم
4:عذاب قبر کا تذکرہ قرآن کریم میں
5:عذاب قبر کا تذکرہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں
6:عذاب قبر کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کب ہوا؟
7:عذابِ قبر کے پردہ غیب میں ہونے کی حکمت
8:دنیاوی قبر کی اصطلاح عثمانی بدعت ہے
9:قبر کا تعلق آخرت سے ہے
10:آخرت کے معاملات کو دنیا پر قیاس کرنا غلط ہے۔
11:عذابِ قبر پر دو نئے ا عتراض
12:حدیث قرع نعال
13:برزخ کا صحیح مفہوم
14:غیب کی تعریف
15:فرعون کی لاش
16:خاکستر شدہ انسان کا معاملہ
17:کسی چیز کے نظر نہ آنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔
18:استثنائی صورتیں
19:عذابِ قبر کے مسئلہ کا ایک آسان حل ۔
20:باب كلام الميت على الجنازة
21:موت اور نیند میں مشابہت
22:قبر کی برزخی زندگی نیند سے مشابہہ ہے۔
23:کیا دینی معاملات میں عقل میعار بن سکتی ہے؟
24:حدیث قرع نعالھم پر اعتراضات کے جوابات
25:ایک من گھڑت واقعہ سے استدلال
26:اندھی تقلید کا انجام
27:باب مردہ جوتیوں کی چاپ سنتا ہے
28:کیا فرشتے جوتیاں پہنتے ہیں؟
29:آگے دوسرے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں
30:فیصلہ کن حدیث
31:ڈاکٹر عثمانی صاحب کی ایک حماقت ۔
32:کیا فرشتوں کو دنیا میں اصلی شکل و صورت میں دیکھنا ممکن ہے؟
33:میت پر اس کا ٹھکانہ صبح و شام پیش کیا جاتا ہے
34:نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حالت نماز میں جنت اور جہنم کا پیش کیا جانا
35:جناب عمرو بن العاص ؓ کا واقعہ
36:دفن کے بعد میت کے لئے مغفرت کی دعا مانگنا۔
37:قبر پر دفن کے بعد ثابت قدمی کی دعاء کرنا
38:میت پر نوحہ کی ممانعت
39:قبرستان میں آگ جلانے کی ممانعت
40:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی
41:حدیث کا متن عثمانی صاحب کے معنی کی تکذیب کرتا ہے۔
42:کیا یہ کفر نہیں؟
43:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتیں
44:جناب ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت کی تحریری وصیت؟
45:کتاب اللہ سے قرآن و حدیث دونوں مراد ہیں
46:بحرانی کیفیت
47:حدیث کی سند پر کلام
48:حدیث ان هذه القبورپر اعتراض
49:نور کا مشاہدہ
50:قبر کی وسعت اور تنگی
51:اعادہ روح
52:زاذانؒ تابعی ثقہ ہیں
53:زاذانؒ پر شیعیت کا الزام غلط ہے
54:جرح کاایک عجیب انداز
55:منہال بن عمرو ؒ بھی ثقہ ہے
56:زاذان کی روایت کی متابعت
57:اعادہ روح کے سلسلہ کی دیگر احادیث
58:اعادہ روح اور ائمّہ کرام
59:امام ابو حنیفہ ؒاور اعادہ روح
60:امام احمد بن حنبل ؒاور اعادہ روح
61:ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا
62:امام احمد بن حنبلؒ پر کفر کا فتوی؟
63:سفید جھوٹ
64:علیّین و سجّین
65:دو زندگیوں اور دو موتوں کا صحیح مفہوم
66:عذابِ قبر اور بعثت میں مماثلت
67:خلافِ قرآن
68:قرآن کریم کی آیت کا انکار
69:مختلف احادیث میں تطبیق
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک ضروری وضاحت​
الحمد للہ ! مسئلہ عذاب القبر پر میں نے’’ الدین الخالص‘‘ کے نام سے جو دو کتابیں شائع کی تھیں ان میں قرآن و حدیث کے دلائل سے اس مسئلہ کو اچھی طرح واضح کیا تھا اور ان میں اہل حق کا نکتہ نظر بیان کیا تھا اور اس مسئلہ میں قرآن و حدیث سے ہٹ کر عقلی دلائل اور علم کلام کے ذریعے جو شکوک و شبہات پیدا کئے گئے تھے ان کے علمی و تحقیقی اور دندان شکن جوابات دیئے تھے۔ چنانچہ ان کتابوں کا زبردست اثر ہوا اور جہاں جہاں یہ کتابیں پہنچیں وہاں وہاں عثمانی فرقہ (جسے اب برزخی فرقہ بھی کہا جاتا ہے) کا سحر ٹوٹنے لگا۔ جہاں علمی حلقوں میں ان کتابوں کو سراہا گیا وہاں ان لوگوں نے بھی کہ جو اس مسئلہ میں تذبذب کا شکار ہو گئے تھے ان سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کتابوں کے ذریعے جب لوگوں کو حقیقت حال کا پتہ چلا تو مختلف مقامات سے یہ فرقہ سمٹنے لگا اور قرآن و حدیث سے محبت رکھنے والوں نے ہر جگہ سے ان کی کٹائی شروع کر دی۔ یہاں تک کہ خود عثمانی فرقہ میں سے بھی پڑھے لکھے لوگ اس جماعت کا ساتھ چھوڑ گئے اور پیچھے صرف ’’اندھے مقلدین‘‘ کا ایک گروہ باقی رہ گیا۔

اس کتاب میں بظاہر مخاطب تو ڈاکٹر عثمانی صاحب ہی ہیں لیکن چونکہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے لہٰذا ان کی وفات کے بعد اب وہ تمام لوگ ہی ہمارے مخاطب ہیں جو کسی بھی پہلو سے ڈاکٹر موصوف سے متاثر ہیں میں انہیں دعوت فکر دیتا ہوں کہ اس کتاب کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں اور دین کو براہ راست کتاب و سنت کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اہل علم حضرات سے درخواست ہے کہ اس کتاب میں اگر کسی قسم کی کوئی غلطی نظر آئے تو اس سے مجھے آگاہ کریں۔ اس کتاب میں جو بھی عمدہ سے عمدہ کوشش ہے تو یہ سب اللہ ہی کا کرم ، اس کی رحمتیں اور مہربانیاں ہیں اور اگر کوئی خامی دکھائی دے تو وہ میرے نفس کی طرف سے ہو گی۔

طبع اول جولائی ۱۹۸۴؁ء میں شائع ہوئی تھی اور اب الحمد للہ ! سولہ سال بعد طبع دوم کی اشاعت مولانا عبد الرحمن میمن آف مٹیاری صاحب کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہو سکی ہے۔اگرچہ اس عرصہ میں اس کتاب کی مانگ برابر جاری رہی اور ملک کے طول و عرض سے برابر خطوط آتے رہے لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے اس کی اشاعت ممکن نہ ہو سکی تھی۔ میں ان تمام علماء کرام اور دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے میری راہنمائی کی اور بعض غلطیوں کی نشاندھی فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس کا بہتر اجر عطاء فرمائے۔ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ طبع دوم ہر طرح کی غلطیوں سے پاک و صاف ہو۔ اس لئے اسے کچھ ترمیم و اضافہ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ میری اس کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے اور اسے لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کا ذریعہ بنا دے (آمین)
(تنبیہ) واضح رہے کہ جس وقت میں نے یہ کتاب لکھی تھی موصوف کے دونوں کتابچوں کے نام ’’ عذاب قبر‘‘ اور توحید خالص قسط نمبر ۲‘‘ تھا اور اب ان کے نام ’’عذاب برزخ‘‘ اور ’’ایمان خالص قسط نمبر ۲‘‘ ھو گیا ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
وجہ تالیف
ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی صاحب جن کا اصل نام مسعود حسن عثمانی ہے ایک عرصہ سے دعوت دین کے نام سے کیماڑی کے علاقے میں تبلیغ کا کام سرانجام دے رہے تھے موصوف پہلے جماعت اسلامی سے وابستہ تھے مگر کچھ اختلاف کی بناء پر جماعت سے الگ ہو گئے۔ شروع شروع میں موصوف سڑکوں اور بازاروں میں کھڑے ہو کر لوگوں کو وضوء اور نماز کا طریقہ تعلیم فرماتے اور آخرت کے انجام سے ڈراتے تھے پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کی دعوت کا رخ توحید و سنت کی طرف پھر گیا۔ لوگوں کو توحید و سنت کی اہمیت سے آگاہ کرتے رہتے اور شرک و بدعت کے انجام سے ڈراتے رہتے تھے اسی دوران یعنی ستمبر 1970ء میں انہوں نے حزب اللہ نام کی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اور باقاعدہ منظم طور پر توحید و سنت کا کام شروع کر دیا حزب اللہ کی تشکیل سے پہلے کچھ عرصہ تک انہوں نے ’’ادارہ توحید و سنت‘‘ کے نام سے بھی کام کیا۔ مگر پھر 1974ء میں حزب اللہ کو خیر باد کہہ کر اپنے نام سے تحریک چلاتے رہے اور آخر کار 6 ستمبر 1986ء میں موصوف وفات پا گئے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے بعض مسائل میں تشدد سے کام لینا شروع کر دیا تھا اور توحید و سنت میں سرگرمی دکھانے کے بجائے ’’عذاب القبر‘‘ وغیرہ مسائل پر لوگوں کو مشرک کہنا شروع کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اسلاف میں سے عام محدثین کرام کے علاوہ بعض محدثین کرام مثلاً امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم، حافظ ابن کثیر، حافظ ابن حجر العسقلانی وغیرہ کو نام لے لے کر کھلم کھلا مشرک کہنا شروع کر دیا تھا اسی طرح انہوں نے ماضی قریب اور موجودہ دور کے علماء کرام کو بھی کافر قرار دیے دیا۔ محدثین کرام پر کفر و شرک کے فتوے داغنے کی ابتداء انہوں نے توحید خالص سے کی تھی جو 1980ء میں پہلی بار شائع ہو کر منظر عام پر آئی تھی۔ اور اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے ’’عذاب قبر‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ بھی لکھا جس میں محدثین کرام کی تکفیر کے علاوہ عذاب قبر کا کھلم کھلا انکار کیا اور احادیث صحیحہ کی انوکھی اور عجیب و غریب تاویلات پیش کیں اور موجودہ دور میں فرقہ معتزلہ کی صحیح معنی میں ترجمانی کی۔


کسی نے سچ کہا ہے ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ موصوف نے اس مسئلہ میں اس قدر شدت اختیار کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تک کو بھی معاف نہیں کیا چنانچہ انہوں نے ایک صحابی جناب عمرو بن العاصؓ کو آخری وقت میں بحران زدہ قرار دے کر شرک پر مرنے والا قرار دے دیا (نعوذ باللہ) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھا کہ وفات سے چار دن پہلے یہی بحرانی کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی طاری ہو گئی تھی۔ (العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ)۔

موصوف کی اس فتویٰ بازی کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آئی ہے کہ وہ سب پر فتوی لگا کر اپنے آپ کو دنیا میں منوانا چاہتے تھے اور اپنی شہرت چاہتے تھے۔ موصوف چونکہ یہ گمراہی دین داری کا لبادہ اوڑھ کر پھیلا رہے تھے اس لئے عوام الناس میں سے بہت سے لوگ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے ان کے اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر سلف صالحین کو برا بھلا کہنے لگے اور انہیں لعنت و ملامت کرنے لگے ہیں اور اس طرح یہ نا خلف سلف صالحین کے دشمن بن گئے۔ جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
مَا مِنْ نَّبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَيْسَ وَرَائَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ
مجھ سے پہلے کسی قوم میں اللہ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے مددگار اور دوست اسی قوم میں سے نہ ہوں جو اس نبی کی سنتوں کو اختیار کرتے اور اس کے احکامات کی پیروی کرتے۔ پھر ان (اطاعت گزار لوگوں) کے بعد ایسے نا خلف (نالائق و نافرمان) لوگ پیدا ہوئے کہ جو ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جن پر خود عمل نہیں کرتے اور وہ کام کرتے ہیں کہ جن کا ان کو حکم نہیں دیا گیا پس جو ان لوگوں سے ہاتھ کے ساتھ جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو ان سے زبان سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو ان سے دل سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان باقی نہیں رہ جاتا۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان۔ صحیح ابو عوانہ (۱/۳۶) مسند احمد (۱/۴۵۸) السنن الکبری (۱۰/۹۰) مشکاۃ (۱۵۷)

جس طرح رافضیوں نے غلط پروپیگنڈا کر کے بعض لوگوں کو صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثاروں ہی سے متنفر کر دیا اسی طرح ڈاکٹر موصوف نے بھی امام احمد بن حنبل اور دیگر محدثین کے خلاف غلط پروپیگنڈا کر کے اور انہیں دشمن توحید بتا کر سادہ لوح لوگوں کو ان محدثین سے اس قدر بدظن کر دیا کہ وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور محدثین کو گالیاں تک دینے سے گریز نہیں کرتے اور ان کو دشمنان اسلام خیال کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ ان محدثین کا بے حد احترام کرتے اور ادب سے ان کا نام لیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن سبا یہودی لعین اور اس کی ذرّیّت (رافضیوں) کا لوگوں کو صحابہ کرام سے متنفر کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ دین اسلام ان کی نگاہ میں مشکوک ہو جائے ظاہر ہے کہ جب قرآن و حدیث کے رواۃ (صحابہ کرم) ہی اسلام کے بڑے دشمن ٹھہرے (نعوذ باللہ) تو ان کا پہنچایا ہوا اسلام کب صحیح اور درست ہو سکتا ہے؟

اسی طرح جب محدثین کرام کو دشمن توحید اور دشمن اسلام باور کروا دیا جائے (معاذ اللہ) تو ان کی روایت کردہ احادیث کب حق و درست ہو سکتی ہیں؟ یہ شیطان کا بہت بڑا وار تھا کہ جس کا نشانہ ڈاکٹر موصوف بنے جو لوگ موصوف کی دعوت سے متاثر ہوئے ان میں سے جنہیں اللہ تعالی نے ان زہریلے نظریات سے محفوظ رکھنا تھا وہ تو محفوظ ہو گئے ورنہ اچھے اچھے سمجھ دار اور دین دار لوگ کہ جن کی پچھلی زندگیوں سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں وہ اس فتنہ کی نظر ہو گئے اور اب وہ عذاب القبر کے بہانے ان محدثین پر تبرا کرتے اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں اور اس طرح انہوں نے اپنی عاقبت تباہ و برباد کر ڈالی۔ افسوس کہ یہ دوست اگر ذرا بھی تحقیق کرتے اور ڈاکٹر موصوف کے کھینچے ہوئے دائرے سے باہر آ کر آزاد فضاؤں میں غور کرتے تو شیطان کا تنا ہوا یہ تار عنکبوت ان کے گرد سے خود بخود چھٹ جاتا اور اصل حقیقت تک پہنچنے میں انہیں ذرا بھی دیر نہ لگتی۔ توحید و سنت کی جو تعبیر انہیں ڈاکٹر موصوف نے سمجھائی تھی یہ اسی حد تک ہی توحید و سنت کو جانتے ہیں اور اس کے آگے سوچنے سمجھنے کے لئے بالکل تیار نہیں اور ’’اندھی تقلید‘‘ اور ’’فرقہ پرستی‘‘ نے ان کی بصارت بالکل زائل کر دی ہے اور انہیں اب کچھ سجھائی نہیں دیتا اور اب یہ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ (17)صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (البقرة :18) کا مصداق بن چکے ہیں۔ جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے (سمجھانے کے) لئے ایک خط کھینچا پھر فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے پھر اس کے دائیں اور بائیں چند خطوط کھینچے اور فرمایا یہ (شیطان کے) راستے ہیں ان میں سے ہر راستہ پر ایک شیطان ہے جو اپنی طرف بلا رہا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلاوت فرمائی وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(153) ’’بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے بس اسی کی پیروی کرو اور ان دوسرے راستوں پر نہ چلنا ورنہ تم اللہ کے راستے سے علیحدہ ہو جاؤ گے۔ اللہ ان باتوں کا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ (مسند احمد (۱/۴۶۵، ۴۳۹) مستدرک (۲/۲۳۹، ۳۱۸) و سندہ صحیح (مرعاۃ المفاتیح ۱/۲۶۵) جناب حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اس پر فتن دور میں) لوگ اس طرح گمراہی پھیلائیں گے گویا وہ جہنم میں ڈال دیئے گئے … وہ ہماری قوم کے لوگ ہوں گے اور ہماری زبان میں باتیں کریں گے … (اے حذیفہ اس وقت) مسلمانوں کی جماعت (حکومت اور اس کے امام (خلیفہ) کے ساتھ ہو جانا۔ میں (حذیفہ) نے کہا اگر مسلمانوں کی جماعت (حکومت) اور ان کا کوئی امام (خلیفہ) موجود نہ ہو تو (پھر کیا کروں) فرمایا پھر ان تمام (باطل) فرقوں (گروہوں) سے الگ ہو جانا‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن، صحیح مسلم کتاب الامارہ تفصیل کے لئے میری کتابیں ’’الفرقہ الجدیدۃ‘‘ اور خلاصہ ’’الفرقہ الجدیدۃ‘‘ مطالعہ فرمائیں)

موصوف کی عادت ہے کہ وہ اپنے نظریات ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث کا سہارا لیتے ہیں اور قرآن و حدیث سے اپنا مطلب کشید کرتے ہیں حالانکہ یہ طرز استدلال باطل پرستوں کا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وَلَقَدْ قَالَ وَکِیْعٌ مَنْ طَلَبَ الْحَدِیْثَ کَمَا جَآئَ فَھُوَ صَاحِبُ سُنَّۃٍ وَمَنْ طَلَبَ الْحَدِیْثَ لِیُقَوِّیَ ھَوَاہُ فَھُوَ صَاحِبُ بِدْعَۃٍ امام وکیع فرماتے ہیں جو شخص حدیث کا مفہوم ایسا ہی لے جیسی کہ وہ ہے تو وہ اہل سنت میں سے ہے اور جو شخص اپنی خواہش نفسانی کی تقویت کے لئے حدیث کو طلب کرے (اور اپنی رائے کے مطابق اس حدیث کا مفہوم بیان کرے) تو وہ بدعتی ہے۔ (جز رفع الیدین لامام البخاری مع جلاء العینین للشیخ السید ابی محمد بدیع الدین الراشدی السندی (ص ۱۲۰)

اسی طرح جو احادیث ان کے نظریات سے ٹکراتی ہیں تو انہیں موضوع یا ضعیف قرار دے دیتے ہیں اور ان کا اتنی بری طرح پوسٹ مارٹم کرتے ہیں یا ان کی ایسی بھونڈی تاویلات کرتے ہیں کہ عقل بھی سر پیٹنے لگتی ہے اور جب دلائل ان کا ساتھ نہیں دیتے تو دھوکہ دہی اور خیانت کا بھی ارتکاب کرتے ہیں اور مغالطہ بھی دیتے ہیں جو ایک سنگین جرم ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة : آيت42)
’’اور حق کو باطل ے ساتھ گڈ مڈ (مخلوط) نہ کرو اور جانتے بوجھتے حق کو نہ چھپاؤ‘‘ (البقرۃ ۴۲)۔​
موصوف جرح و تعدیل کے مسلمہ اصولوں اور قواعد کی بھی پابندی نہیں کرتے بلکہ محدثین کے بر خلاف انہوں نے اگر کسی روایت کو ضعیف ثابت کرنا ہو تو اس کے کسی راوی پر صرف جرح ہی کے الفاظ نقل کر دیتے ہیں اور توصیف کے صفحات کے صفحات گول کر جاتے ہیں اور یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ محدثین کا یہ اصول ہے کہ وہ کسی راوی کے متعلق جرح و تعدیل دونوں قسم کے اقوال کو سامنے رکھ کر کوئی حتمی فیصلہ کرتے ہیں۔ خود موصوف کے چاہنے والے سوچیں کہ اگر کوئی شخص موصوف یا ان میں سے کسی کے متعلق صرف ان کی خامیاں ہی بیان کرتا جائے اور خوبی نام کی کوئی چیز ذکر ہی نہ کرے تو اس کے متعلق ان کے تاثرات کیا ہوں گے۔ پھر موصوف انہی روایتوں پر جرح کرتے ہیں جو ان کے خیال میں عقیدہ توحید سے متصادم ہیں جبکہ بہت سی روایتوں کو انہوں نے تحقیق کے بغیر ہی اپنے کتابچوں میں نقل کر دیا ہے اور بعض روایتوں کو موصوف خلاف قرآن کہہ کر بھی رد کر دیتے ہیں حالانکہ کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کریم کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ یہ اصول بھی دراصل عقل پرستوں کا بنایا ہوا ہے اور اس طرح وہ قرآن و حدیث میں تصادم پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ اصول بھی انہوں نے روافض سے درآمد کیا ہے۔ دیکھئے اصول کافی (۱/۵۵) ۔ اسی طرح جن راویوں پر شیعیت کا الزام ہے موصوف اس الزام کو بھی خوب اچھالتے ہیں اور اس بنیاد پر بھی حدیث کو موضوع قرار دیتے ہیں حالانکہ اصول کے لحاظ سے جن راویوں پر شیعی، قدری، خارجی وغیرہ ہونے کا الزام ہو تو جب تک وہ اس عقیدہ کے داعی نہ ہوں تو ان کی حدیث قابل قبول ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیحین میں سے ایسے روایوں سے روایات لی ہیں۔ دراصل موصوف اصول حدیث سے ناواقف ہیں اور ہر مقام پر اپنی رائے ٹھونسنے کے عادی ہو گئے ہیں۔امام ابو حنیفہؒ پر بھی شیعیت کا الزام ہے (جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے) لیکن اس کے باوجود موصوف کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔


موصوف نے اپنے کتابچہ میں سارا زور اس بات پر لگا دیا ہے کہ عذاب اس قبر میں نہیں ہوتا بلکہ روح کو ایک برزخی قبر عطاء کی جاتی ہے اور عذاب قبر کا سلسلہ برزخی قبر ہی میں قیامت تک جاری رہتا ہے حالانکہ قرآن و حدیث میں اس طرح کی کوئی صراحت موجود نہیں ہے اور نہ اہل اسلام میں سے آج تک کوئی اس فلسفہ کا قائل رہا ہے۔ یہ صرف موصوف ہی کی ایک نئی دریافت ہے۔ اس طرح گویا موصوف اللہ تعالیٰ کو اس چیز کی خبر دے رہے ہیں کہ جو اللہ کے علم میں بھی نہیں ہے :
قُلْ اَتُنَبِئُوْنَ اﷲَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوَاتِ وَلَا فِی الْارْضِ
دوسری طرف وہ انہیں جنت و جہنم میں بھی زندہ مانتے ہیں گویا ان کے خیال میں جنت و جہنم کا دوسرا نام ’’برزخی قبریں‘‘ ہیں۔
عذاب القبر کا مسئلہ اہل السنہ والجماعۃ کا ایک اجماعی مسئلہ ہے اور باطل فرقوں کے علاوہ کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ موصوف کا عذاب القبر سے انکار اور اس کے قائلین کو کافر قرار دینا ایک بہت بڑا قدم ہے اور ایسا موقف اختیار کرکے انہوں نے گویا موجودہ دور کے غیر مسلموں کو دعوت دی ہے کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اور ان کے اصولوں کو اپنا کر اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کریں جیسا کہ ماضی میں بھی غیر مسلموں کی دعوت کے نتیجے میں رافضیت اور دوسرے باطل فرقے وجود میں آئے اور ان میں سے کسی نے عذاب القبر کو کسی نے مسئلہ تقدیر کو بنیاد بنا کر اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

یہی وہ محرکات تھے جنہوں نے مجھ ناچیز اور کم علم انسان کو قلم اٹھانے پر مجبور کیا کیونکہ اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ کوئی صاحب علم ان کے عقائد و نظریات کا کتاب و سنت کی روشنی میں جائزہ لیتا۔ اگرچہ محدثین کرام نے اپنی اپنی احادیث کی کتابوں میں اس مسئلہ پر ابواب قائم کر کے اور بے شمار احادیث ذکر کر کے اس مسئلہ کو خوب واضح کیا ہے بلکہ بعض محدثین نے اس مسئلہ پر الگ کتابیں بھی مرتب کیں مثلاً امام البیہقی نے ’’اثبات عذاب القبر‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ اسی طرح محدثین کرام میں سے بعض نے عقائد پر جو کتابیں لکھیں ان میں بھی خاص طور پر اس مسئلہ کا ذکر کیا۔
چونکہ عام لوگوں کی ان کتابوں تک رسائی ممکن نہیں ہے اس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ اردو میں ایک عام فہم کتاب اس موضوع پر لکھی جائے اور اس سلسلہ میں موصوف نے احادیث صحیحہ پر کو خامہ فرسائی کی ہے اور ان کے نئے نئے معنی و مطالب نکالے ہیں اور ان پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کا بھی جواب دے دیا جائے میرے لئے قلم اٹھانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ میں موصوف کے قریب رہا ہوں اور موصوف کے پڑوسی ہونے کے ناطے کل قیامت کے دن مجھ سے باز پرس ہو بھی سکتی ہے۔ میں اور موصوف دونوں ہی کیماڑی (کراچ) کے رہنے والے ہیں اور پھر موصوف میرے استاذ بھی رہے ہیں اس لحاظ سے بھی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں میں جواب لکھنے کا ذیادہ حقدار تھا۔

آخر میں ان تمام اہل علم دوستوں کا بے حد شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مجھے میری غلطیوں پر متنبہ فرمایا اور مفید معلومات اور اپنی قیمتی آراء سے بھی مستفید فرمایا۔ بالخصوص عزیز بھائی علامہ زبیر علی زئی صاحب کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے احادیث کی تضعیف و تصحیح کے معاملے میں میری قدم قدم پر راہنمائی فرمائی اور میرے ساتھ ہر طرح کا تعاون فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام دوستوں کو اس کا بہترین اجر عنایت فرمائے۔ آمین
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
پیش لفظ
کچھ عرصہ پہلے یعنی جولائی ۱۹۸۴ء کو میں نے عذاب القبر کے ثبوت کے سلسلہ میں ایک کتاب ’’الدین الخالص‘‘ پہلی قسط شائع کی تھی اور جسے عوام و خواص نے بے حد پسند کیا۔ یہ کتاب اگرچہ دو ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی تھی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد یہ نایاب ہو گئی اور اس کی مانگ دن بدن بڑھتی ہی چلی گئی اور لوگ دور دراز سے بھی بذریعہ خطوط اس کتاب کا برابر مطالبہ کر رہے ہیں۔ کئی لوگوں نے اس کتاب کا فوٹو اسٹیٹ بھی طلب کیا۔ میرے وسائل چونکہ نہ ہونے کے برابر تھے اس لئے اس کتاب کی اشاعت دوبارہ ممکن نہ ہو سکی۔ اب الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے اس کی اشاعت کا انتظام کر دیا ہے تو اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے لیکن شائع کرنے سے پہلے اس پر نظر ثانی کی گئی ہے اور عذاب القبر کے مسئلہ پر اسے ایک جامع کتاب بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور منکرین عذاب القبر کے شبہات کا بھی مکمل ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میرا علم اگرچہ انتہائی کم اور ناقص ہے لیکن میں اپنے رب کی عنایتوں، مہربانیوں اور رحمتوں سے ناامید نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرا مددگار ہے اور وہ مجھے کبھی بھی اپنے دشمنوں کے مقابلے میں تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی ذلیل و خوار کرے گا۔
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْئٍ قَدْرًا (3 : الطلاق)
’’اور جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے‘‘
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ عَضُدِیْ وَ نَصِیْرِیْ بِکَ اَحُوْلُ وَبِکَ اَصُوْلُ وَبِکَ اُقَاتِلُ
’’اے اللہ تو ہی میرا دست و بازو اور مدد گار ہے میں تیری ہی قوت سے لڑتا ہوں اور تیری ہی قوت سے حملہ کرتا ہوں‘‘۔ (الترمذی۔ ابوداؤد وسندہ صحیح الکلم الطیب ص ۷۵)
یاد رہے کہ عذاب القبر کا مسئلہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اور باطل فرقوں کے علاوہ کسی نے بھی اس مسئلہ کا انکار نہیں کیا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایسے مسائل میں عقل کو معیار قرار دیا ۔

جو شخص ایمان بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی کرتا ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو بھی سچا جانے اور ان پر دل سے یقین رکھے ورنہ اس کا ایمان بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ ہی جھوٹا ہے۔ دراصل عذاب القبر کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے۔ جس طرح ہم نے جنت و جہنم ، فرشتوں وغیرہ کو نہیں دیکھا لیکن اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ہم نے انہیں تسلیم کر لیا ہے اسی طرح عذاب القبر بھی ہم نہیں دیکھتے اور نہ ہی محسوس کر سکتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اگرچہ عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے مانع ہے لیکن ظاہر بات ہے کہ اگر ساری دنیا ادھر کی ادھر بھی ہو جائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پتھر پر لکیر ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان جب قرآن و حدیث کی شاہراہ کو چھوڑ دیتا ہے اور عقل کی کسوٹی پر ہر چیز کو پرکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس سلسلہ میں ہوائے نفسانی کی پیروی کرنے لگتا ہے تو گمراہ ہو جاتا ہے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے حق پر قائم نہیں کر سکتی (اِلَّا مَنْ شَآئَ اﷲ)
وَمَنْ يُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِيرًا (115 : النساء )
’’اور جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اور مومنین (صحابہ کرامؓ) کی روش کے سوا کسی اور کی روش پر چلے تو ہم بھی اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے (النساء آیت نمبر ۱۱۵)۔
ہدایت سے مراد قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ہیں۔ قرآن و حدیث کے بجائے اگر کوئی شخص اپنی عقل نارسا کو معیار قرار دیدے اور اپنی نفسانی خواہشات کا غلام بن جائے اور صحابہ کرام ؓ جو مؤمنین صادقین تھے اور جنہوں نے قرآن و حدیث پر عمل کر کے دکھا یا تھا ان کی روش کے سوا کسی اور کی روش پر چلے تو ایسا شخص جہنمی ہے۔
أَفَرَأَيْتَ مَنْ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ(23: الجاثیہ)
’’پھر کیا تم نے اس شخص کے حال پر بھی غورکیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟‘‘۔ (الجاثیہ : ۲۳)
قرآن و حدیث کا علم اگرچہ اس کے مشاہدے میں آ چکا ہے لیکن نفسانی خواہشات کے بت کے آگے وہ مجبور محض ہے جس کی وجہ سے اس کی بصیرت زائل ہو چکی ہے۔
كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَائَهُمْ الْبَيِّنَاتُ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (86 : آل عمران)
’’اللہ ایسے لوگوں کو کیوںکر ہدایت دے کہ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے حالانکہ وہ گواہی دے چکے تھے کہ رسول برحق ہیں اور ان کے پاس (قرآن و حدیث کے) دلائل بھی آ چکے تھے اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ (آل عمران آیت نمبر ۸۶)۔

واقعی کس قدر ظالم ہیں وہ لوگ کہ جن کے دعوے یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور احادیث ان کے سامنے آتی ہیں تو پھر ان سے کفر کی روش اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے خود ساختہ نظریات پر سختی سے ڈٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ واقعی ایمان سے بالکل عاری ہیں اور ان میں ایمان کی رمق تک باقی نہیں رہی کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکمتسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (65: النساء)
(’’اے نبی)تیرے رب کی قسم یہ کبھی بھی ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں‘‘۔
گویا اختلافی مسائل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو حرف آخر نہ ماننے والے ایمان ہی سے خارج ہو چکے ہیں اگرچہ وہ لاکھ توحید کے بلند و بانگ دعوے کریں اور اپنے آپ کو کتنا ہی پکا اور سچا مومن کیوں نہ خیال کریں کیونکہ عملا ان کے یہ تمام دعوے جھوٹے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا انکار دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔
اس امت میں خوارج اور معتزلہ وغیرہ پیدا ہوئے جو عذاب قبر کا انکار کر چکے ہیں اور موجودہ دور میں ڈاکٹر عثمانی صاحب ان پرانے فرقوں کی بازگشت ہیں۔
عذاب القبر کے متعلق اہل اسلام کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ قبر کی راحت و آرام اور قبر کا عذاب حق ہے اور قبر میں دفن میت کے بعد دو فرشتوں منکر و نکیر کا آنا اور ان کا میت سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق سوال کرنا مومن کا راحت و آرام میں رہنا اور اس پر صبح و شام جنت کا پیش کیا جانا جب کہ کفار و مشرکین اور منافقین کا قبر میں عذاب میں مبتلا ہونا فرشتوں کا انہیں لوہے کے گرز سے مارنا میت کا چیخنا و چلانا اور ہیبت ناک آوازیں نکالنا۔غرض احادیث صحیحہ میں قبر کے حالات کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر ایمان لانا لازم اور ضروری ہے اور ایمانیات میں شامل ہے۔جبکہ عذاب قبر کا انکار کفر ہے اس کا انکاری ایمان و توحید سے خالی ہے چاہے وہ اپنے ایمان کو کتنا ہی خالص کیوں نہ کہے۔

موصوف ایک طرف یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ قبر کا عذاب حق ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ فلسفہ بھی بیان کرتے ہیں کہ قبر سے مراد یہ دنیاوی گڑھا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد برزخی قبر ہے لیکن اس کی کوئی بھی واضح اور صریح دلیل ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ جبکہ قرآن و حدیث میں ہرجگہ قبر اسی گڑھے کو کہا گیا ہے۔ دراصل موصوف نے عذاب قبر کا انکار اس بنیاد پر کیا ہے کہ اگر قبر کے عذاب کو مانا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ میت سے اسی قبر میں سوال و جواب ہوتا ہے تو اس طرح قبر کی زندگی لازم آئے گی اور میت کے قبر میں زندہ ہوجانے سے اللہ تعالیٰ کی توحید خاک میں مل جائے گی (نعوذ باللہ من ذلک) سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض میت قبر میں زندہ بھی ہو جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی کس صفت کا انکار لازم آئے گا؟ قرآن کریم میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمْ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ(243البقرۃ)
’’ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل پڑے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا مر جائو پھر اس نے ان کو زندہ کیا اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دیا حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا عام قانون نہیں ہے اور اس بات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تعبیر فرمایا ہے۔ اگر دنیا میں دوبارہ زندہ ہو جانے سے کوئی شرک لازم آتا تو اللہ تعالیٰ ان ہزاروں انسانوں کو دوبارہ کبھی بھی زندہ نہ کرتا۔حقیقت یہ ہے کہ میت کو قبر میں کوئی بھی زندہ نہیں مانتا بلکہ سب ہی اسے میت کہتے ہیں اور راحت و عذاب کا سارا معاملہ میت ہی سے وابستہ ہے اور عالم آخرت کے معاملات کو دنیاوی پیمانوں پر نہیں ناپا جا سکتا۔موصوف کا خیال یہ ہے کہ جب میت میں روح ہی موجود نہیں ہے تو بغیر روح کے میت کا راحت و آرام اور عذاب کو محسوس کرنا کیسے ممکن ہے اور یہ کیسے ممکن کہ روح کے بغیر میت میں راحت و عذاب کو محسوس کرنے کا احساس موجود ہو۔دراصل موصوف آخرت کے معاملات کو دنیاوی پیمانوں پر ناپنے کے عادی ہو چکے ہیں جب کہ آخرت اور برزخ کے معاملات کو دنیاوی پیمانوں سے ناپنا ہی صریح غلطی ہے۔
وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا (74) إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا
(75بنی اسرائیل )
’’اور اگر نہ ثابت رکھا ہوتا ہم نے آپ کو (حق پر) تو بالکل قریب تھا کہ آپ جھک جاتے ان کی طرف کچھ تھوڑا سا۔ اس وقت ہم ضرور چکھاتے آپ کودوگنا عذاب ’’زندگی‘‘ میں اور دو گنا عذاب ’’موت‘‘ میں۔ پھر نہ پاتے آپ اپنے لئے ہمارے سامنے کوئی مددگار‘‘۔
اس آیت میں زندگی اور موت دونوں حالتوں میں عذاب کا ذکر کیا گیا ہے اور حیات (زندگی) اور ممات (موت) ایک دوسرے کی ضد یعنی متضاد الفاظ ہیں۔ معلوم ہوا کہ موت کی حالت میں بھی عذاب واقع ہوتا ہے اور اس آیت سے موصوف کی تمام باطل تاویلات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔

قرآن کریم میں یہ بات موجود ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتا۔ حالانکہ عقلی لحاظ سے یہ بات محال ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان بالکل حق اور سچ اور اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے جس کا انکار اھل ایمان کے لئے ممکن نہیں۔ اسی طرح ہر چیز اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے مثلاً درخت‘ جانور‘پہاڑ وغیرہ لیکن ان کا سجدہ کرنا بھی نہ سمجھ آتا ہے اور نہ دکھائی دیتا ہے تو کیا ان حقائق کا بھی انکار کر دیا جائے؟ (نعوذ باللہ من ذلک) عقل کے ان پجاریوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔قبر کا تعلق آخرت کے ساتھ وابستہ ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے جبکہ موصوف بار بار دنیاوی قبر دنیاوی قبر کے الفاظ استعمال کر کے لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اس ارضی قبر کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل قرار دیا ہے اور موت کے واقع ہونے سے ہی انسان کا تعلق آخرت کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے اور میت کا دنیا کے ساتھ تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ موصوف کیوں قبر کے معاملے کو دنیاوی قرار دینے پر بضد ہیں اور آخر وہ اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟۔

قرآن و حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء کرام ‘ شہداء اور مومنین کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں جبکہ کفار و مشرکین اور منافقین کی روحیں جہنم میں ہوتی ہیں اور ان کے اجسام قبروںمیں راحت و آرام یا عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں اوریہ دونوں باتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں جبکہ موصوف صرف جنت اور جہنم میں روحوں کے راحت و آرام یا عذاب کے قائل ہیں اور جنت و جہنم کو برزخی قبریں مانتے ہیں اور راحت قبر اور عذاب قبر کے بالکل انکاری ہیں ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ کیا جنت اور جہنم کسی قبرستان کا نام ہے ؟ پھر موصوف کا یہ نظریہ بھی ہے کہ مرنے کے بعد روح کو ایک برزخی جسم دیا جاتا ہے اور قیامت تک یہ روح اس برزخی جسم کے ساتھ راحت یا عذاب کے مراحل سے گزرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ روح کو چاہے برزخی جسم دیا جائے یا بدن عنصری دیا جائے بات تو ایک ہی بنتی ہے اور روح برزخی جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک مستقل حیات کی حامل ہو جاتی ہے۔ اب یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ اگر روح کو بدن عنصری میں داخل مانا جائے تو یہ کفر ہے اور اگر روح برزخی جسم میں رہے تو یہ عین ایمان جب کہ قرآن و حدیث کے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ روح جنت یا جہنم میں رہتی ہے اور اجسام قبروں میں راحت یا عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ یعنی جسم و روح میں قیامت تک مفارقت (جدائی)رہے گی اور اسی کانام موت ہے اور قیامت کے دن ہی روحیں جسموں میں دوبارہ واپس لوٹائی جائیں گی ۔ اگر برزخی جسم کے ساتھ روح کی حیات کو تسلیم کیا جائے تو کیا یہ تیسری زندگی نہیں بن جاتی اور پھر دو زندگیوں اور دو موتوں کا تصور کہاں چلا گیا؟ اس طرح موصوف جو دوسروں کو کافر بنانے چلے تھے خود ایک مستقل حیات کے قائل ہو کر اپنے ہی فتویٰ سے کافر ہو گئے کیونکہ جب قیامت آئے گی تو یہ برزخی جسم مر جائے گا اور بدن عنصری اس وقت دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔ اس موضوع پر ہم نے دوسری قسط میں گفتگو کی ہے۔

موصوف نے ایک نظریہ اختیار کر لینے کے بعد اپنے کتابچوں میں صحیح احادیث کو بھی اپنے نظریہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے لیکن چونکہ احادیث اس معاملے میں ان کا ساتھ نہیں دیتیں تو انہوں نے ان احادیث کی زبردست تاویل بلکہ ان میں زبردست تحریف کی بھی کوشش کی ہے اور ان احادیث کے ضمن میں ایسی ایسی بحثیں کی ہیں کہ جن کا اصل حدیث سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بہرحال اس تمام کاوش کا مقصد قرآن و حدیث کو اپنے نظریہ کے مطابق ڈھالناہے۔

موصوف احادیث کی تصحیح و تضعیف کے سلسلہ میں انتہائی متعصب ہیں اور جو حدیث ان کے نظریہ کے خلاف ہوتی ہے تو موصوف اس کے کسی نہ کسی راوی پر جرح کا کوئی ایک آدھ جملہ نقل کر کے اسے ضعیف ومتروک قرار دے ڈالتے ہیں۔ چاہے محدثین کی اکثریت اس راوی کو ثقہ اور صدوق ہی قرار دے چکی ہو اور امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ جیسے محدثین نے اس راوی کی احادیث کو احتجاج اور حجت کے طور پر ہی ذکر کیا ہولیکن موصوف کے زہریلے قلم کی کاٹ سے ایسا راوی بھی مجروح اورمتروک قرارپاتا ہے اور دوسری طرف موصوف ضعیف احادیث اور من گھڑت اقوال کو بھی دلیل اور حجت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔موصوف چونکہ کسی اصول و ضابطے کے پابند نہیں ہیں جبکہ اسماء الرجال میں جرح و تعدیل کے طورپران اشخاص کے اقوال کو حجت مانا جاتا ہے جو عدل و انصاف کے ساتھ کسی راوی کے متعلق انتہائی جچے تلے الفاظ میں اپنی رائے کا ذکر کریں۔ کیونکہ ’’لکل فن رجال‘‘اور موصوف چونکہ اس میدان کے آدمی نہیں ہیں اس لئے ان کی جرح کا وجود اور عدم وجود برابر ہے۔ موصوف نے امام احمد بن حنبل ؒ اور دوسرے محدثین کو مشرک و کافر اور شیعہ بھی قرار دے ڈالا ہے اور پھر ان کی احادیث کو حجت و دلیل کے طور پر بھی پیش کیا ہے یہ ان کا عجیب تضاد ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔اس کے علاوہ موصوف اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹ اور دھوکا دہی سے بھی کام لیتے ہیں اور مغالطے بھی دیتے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ جھوٹے اور مکار انسان کی بات کا اعتبار وہی شخص کرے گا جو خود جھوٹا اور فریب کار ہو۔موصوف یہ بھی باورکرواتے ہیں کہ وہ یہ سارا کھیل توحید خالص کی حفاظت کے لئے کر رہے ہیں حالانکہ توحید کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی ہے اور قرآن کریم کا تقریبا تین چوتھائی حصہ تو حید کے دلائل سے بھرا ہوا ہے اور توحید کی حفاظت کے لئے ہردور میںانبیاء کرامؑ آتے رہے اور سب سے آخر میں خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اب جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہی میں ہیرا پھیری کرے اور آیات قرآنی کا خود ساختہ مفہوم بیان کرے وہ آخر کون سی خالص توحید قوم کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔ موصوف کی سب سے بڑی توحید یہ ہے کہ مردہ نہ سنتا ہے اور نہ بولتا ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔ لیکن جب ان کے مقلدین کے سامنے صحیح بخاری میں یہ باب پڑھاجاتا ہے ’’المیت یسمع قرع نعالھم‘‘ میت جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور ’’قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی ‘‘(میت کا یہ قول جب کہ وہ ابھی جنازہ میں ہوتا ہے مجھے آگے لے چلو) اور ’’کلام المیت علی الجنازہ‘‘ (جنازہ پر میت کا کلام کرنا) امام بخاری ؒ نے اپنا عقیدہ واضح کر دیا کہ وہ میت کے سننے اور کلام کرنے کے قائل ہیں۔تو ان کے مقلدین حیران و ششدر رہ جاتے ہیں لیکن امام بخاری پر کوئی فتویٰ لگانے کی جسارت اپنے اندر نہیں پاتے اگر یہ مقلدین اصل حقیقیت کو جان لیں اور وہ یہ کہ جو چیز قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہو جائے تو اسے تسلیم کر لیں اور یہی ایمان باللہ اور ایمان بالرسول ہے اور اسی کو توحید خالص اور ایمان خالص کہتے ہیں۔
اس کتاب میں میں نے موصوف کے نظریات کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا ہے اور ان کے باطل نظریات کاقرآن و حدیث کی روشنی میں اچھی طرح پوسٹ مارٹم کیا ہے۔

موصوف اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں اور عملی طور پر وہ عذاب قبر کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ان کے متبعین سے ہماری درخواست ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کریں اور قرآن و حدیث کے مطابق اپنے عقائد و اعمال کو ڈھالیں اور عذاب قبر پر ایمان لے آئیں ورنہ عمل کی مدت ختم ہوتے ہی انہیں عملی طور پر اس مرحلہ سے گزرنا پڑے گا اور پھر منکرین عذاب قبر کو کوئی بھی عذاب قبر سے نہیں بچا سکے گا۔

اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ عذاب القبر کے مسئلہ کو قرآن و حدیث کے ذریعے اچھی طرح واضح کر دیا جائے اور لفاظی، مناظرانہ اور فلسفیانہ قسم کے طریقہ کار سے خواہ مخواہ مسئلہ کو الجھانے اور اس میں عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے صاف صاف اور سادہ طریقے سے قرآن و حدیث کے ٹھوس اور واضح دلائل سامنے رکھ دیئے جائیں تاکہ جس کا جی چاہے تو ان دلائل کو سینے سے لگا کر اپنی آخرت سنوارے اور جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچا لے ورنہ پھر قرآن و حدیث کا انکار کر کے ان اندھیروں میں بھٹکتا رہے کہ جہاں بے شمار فرقے بھٹک رہے ہیں
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ(6)صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ(7الفاتحۃ)
’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے نہیں ہیں‘‘۔ (آمین)۔
اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ جس نے میری اس ناچیز کوشش کو بہت سے بھٹکے اور الجھے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنایا۔
اَلْحَمْدُ ﷲِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ مُبَارَگاً عَلَیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضٰی۔
’’ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے۔ ایسی تعریف جو کثرت سے ہو پاکیزہ ہو بابرکت ہو اور برکت ہو اس پر ایسی تعریف کہ جسے ہمارا رب پسند کرے اور جس سے وہ راضی ہو‘‘۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ
تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں اس راہ کی ہدایت فرمائی ورنہ ہم خود راہ ہدایت نہ پا سکتے تھے اگر اللہ ہماری راہ نمائی نہ کرتا۔
ابو جابر عبد اللہ دامانوی
جولائی ۲۰۰۱؁ء بروز منگل​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
1:عذاب قبر
تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ قبر کی راحت اور عذاب حق ہے اور ملاحدہ ‘ زنادقہ‘ روافض اور معتزلہ کے سوا کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔
قرآن و سنت کے صریح دلائل کے پیش نظریہ عقیدہ اتنا مضبوط ہے کہ محدثین کرام اور علماء اسلام کا ذمہ دار گروہ عذابِ قبر کے منکر کو کافر قرار دیتا ہے حالانکہ تکفیر کے مسئلہ میں وہ بڑا محتاط واقع ہوا ہے مگر اس سے پہلے کہ ہم عذاب قبر کے سلسلہ میں قرآنی آیات اور صحیح احادیث پیش کریں پہلے قبر کا حقیقی مفہوم واضح کر دیں کیونکہ موصوف کا خیال ہے کہ عذاب اس ارضی اور حسی قبر و گڑھے میں نہیں ہوتا بلکہ عالم برزخ کی قبر میں ہوتا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:۔
’’لاریب ‘‘کہ مرنے کے بعد قیامت تک قبر کا عذاب یا راحت یقینی چیزیں ہیں مگر افسوس کہ آج دنیا والوں کی اکثریت نے اسی دنیا کی زمین کے ایک خطہ کو وہ قبر ماننا شروع کر دیا ہے جہاں سوال و جواب کے لئے ہر مرنے والے کو اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور پھر قیامت تک اس کے ساتھ عذاب یا راحت کا معاملہ ہوتا رہتا ہے ‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان سے معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے اس کی لاش کو جلا کر خاک کر دیا جائے یا اس کی میت درندوں اور مچھلیوں کے پیٹ کی غذا بن جائے۔ یہی وہ اصلی قبر ہے جہاں روح کو دوسرے (برزخی) جسم میں ڈال کر قیامت تک رکھا جائے گا اور اسی پر راحت یا عذاب کا پورا دور گزرے گا اور یہ معاملہ صرف مومنوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ کافر‘ مشرک ‘فاسق و فاجرو منافق ہر ایک کے ساتھ یہی ہو گا۔ قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے‘‘۔(عذاب قبر ص۲)
اس عبارت سے صاف طور پر عیاں ہو گیا کہ موصوف اس ارضی قبر کے عذاب کے منکر ہیں اور وہ راحت یا عذاب کو برزخی قبر کے ساتھ متعلق سمجھتے ہیں معلوم نہیں کہ یہ دو قبروں کا عقیدہ کس آیت یا حدیث سے ماخوذ ہے ؟ کیونکہ کسی آیت یا حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ راحت و عذاب کسی دوسری (برزخی) قبر میں ہوتا ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
2:قبر کا حقیقی مفہوم​

قبر جس کی جمع قبور آتی ہے۔ لغات کی کتابوں میں اس کا مطلب یوں لکھا ہے ’’ وہ گڑھا جس میں مردے کو دفن کرتے ہیں‘‘ (علمی اردو لغت (جامع) ص۱۰۶۸)’’ دفن کرنے کی جگہ‘‘ (فیروز اللغات اردو عربی ص۵۵۰)
قبر کا لفظ قرآن کریم میں آٹھ مقامات پر آیا ہے آئیے دیکھیں کہ قبر کے یہ الفاظ اسی ارضی قبر کے لئے آئے ہیں یا برزخی قبر کے لئے۔ کیونکہ موصوف نے تو صرف ایک ہی آیت نقل کر کے اس سے اپنا عقیدہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ منافقوں کی تردید کے سلسلہ میں ارشاد ہے :۔
(۱) وَلَا تَقُمْ عَلیٰ قَبْرِہٖ (التوبۃ:۸۴)
’’ اور نہ اس کی قبر پرآپ کھڑے ہوں‘‘​
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافق کی ارضی قبر پر کھڑے ہونے سے منع فرمایا گیا۔
(۲) وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ (الانفطار آیت:۴)
’’ اور جب قبریں کھول دی جائیں گی‘‘۔
(۳) وَاَنَّ اﷲ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ (الحج آیت:۷)
’’ اور اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) قبر والوں کو (ان کی قبروں سے )اٹھائے گا ‘‘۔
(۴) اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ (العٰدیٰت آیت:۹)
’’ کیا اس کو معلوم نہیں کہ جس وقت قبروں کے مردے نکالے جائیں گے‘‘۔
(۵) قَدْ یَئِسُوْا مِنَ الْاَخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحَابِ الْقُبُوْرِ (الممتحنہ آیت:۱۳)
’’ وہ آخرت سے ایسے ناامید ہو گئے ہیں جیسا کہ کافر اہل قبور کی( حیات سے )ناامید ہو چکے ہیں‘‘۔
(۶) حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ (التکاثر آیت:۲)
’’ یہاں تک کہ (دنیا کی اسی حرص میں مبتلا رہتے رہتے) تم قبروں میں پہنچ جاتے ہو‘‘۔
(۷) اِنَّ اﷲَ یُسْمَعُ مَنْ یَشَآئُ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ (فاطر آیت:۲۲)
’’اللہ جن کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (مدفون) ہیں‘‘​
یہ تمام آیات واضح کرتی ہیں کہ ’’ قبر‘‘ اسی زمینی گڑھے کو کہتے ہیں۔
(۸) ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَ۔ ثَمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (عبس۔۲۱۔۲۲)
’’ پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا‘‘۔​
سورۃ عبس کی آیت ۲۱ کو آیت ۲۲ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد اسی زمین میں جائے گا اور پھر اسی زمین سے اسے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا لیکن موصوف نے دوسری تمام آیات کو چھوڑ کر اس آیت سے جو مطلب کشید کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:۔
’’ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ ہر مرنے والے کو قبر دیتا ہے چاہے وہ زمین میں دفن کیا جائے یا کسی درندہ کے پیٹ میں جا کر فضلہ بن جائے ‘‘ (عذاب قبر ص۲)
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:۔
’’ ان ساری صحیح حدیثوں نے یہ بتلا دیا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ جو شخص بھی وفات پا جاتا ہے اس کو حسب حیثیت ایک برزخی جسم ملتا ہے جس میں اس کی روح کو ڈال دیا جاتا ہے اور اس جسم اور روح کے مجموعہ پر سوال و جواب اور عذاب و ثواب کے سارے حالات گزرتے ہیں اور یہی اس کی اصلی قبر بنتی ہے ‘‘۔ (عذاب قبر ص۹)
موصوف کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہر انسان کی قبر اسی زمین میں بنتی ہے چاہے اسے جلا کر راکھ کر دیا جائے اور چاہے اسے جانور کھا کر فضلہ بنا دیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى(55طہ)
’’ ہم نے تم کو اسی زمین سے پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو (بعد موت) لے جائیں گے اور قیامت کے روز پھر دوبارہ اسی سے ہم تم کو نکالیں گے‘‘۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے :۔
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتَا۔ اَحْیَآئً وَّ اَمْوَاتَا (المرسلات:۲۵۔ ۲۶)
’’ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا زندوں کیلئے بھی اور مردوں کیلئے بھی ‘‘۔​
یہ دو آیات اس بات پر نص قطعی ہیں کہ قبر اسی گڑھے کا نام ہے جس میں انسان کو دفن کیا جاتا ہے۔ کیونکہ انسان کو اسی زمین سے پیدا کیا گیا ہے اور اسی زمین پر وہ اپنی زندگی کے ایام پورے کرتا ہے اور مرنے کے بعد پھر اس زمین میں اس کو لوٹا دیا جاتا ہے اور قیامت کے دن بھی انسان اسی زمین سے زندہ کر کے نکالا جائے گا۔سورۃ مرسلات کی آیات میں اللہ تعالی نے زمین کو انسانوں کو سمیٹنے والی قرار دیا ۔ یعنی زندہ اس کی پیٹھ پر زندگی گزارتے ہیں جبکہ مردہ اس کے پیٹ میں ھیں لیکن ھر صورت دونوں کا ٹھکانہ زمین ہی ہے ۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ تَقُومَ السَّمَائُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِنْ الْأَرْضِ إِذَا أَنْتُمْ تَخْرُجُونَ(25الروم )
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔ پھر جب وہ تمہیں زمین سے پکارے گا تو تم اچانک نکل آؤ گے‘‘۔
آسمان اور زمین کے ذکر کے بعد انسان کے زمین سے نکلنے کے ذکر سے معلوم ہوا کہ انسان مرنے کے بعد اسی زمین میں جائے گا اور قیامت کے دن اسی زمین سے نکالا جائے گا۔ معلوم ہوا کہ انسان کی قبر آسمان یا کسی دوسرے مقام پر نہیں بلکہ زمین ہی میں بنتی ہے۔
حدیث بھی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ تمام انسان اسی زمین سے اس طرح نکلیں گے جیسا کہ سبزہ زمین سے اگتا ہے۔

چنانچہ جناب ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صور کی دو پھونکوں کے درمیان چالیس کا وقفہ ہو گا۔ پوچھنے والے نے کہا کہ چالیس دن کا وقفہ ؟ ابو ہریرہؓ نے جواب دیا کہ نہیں کہہ سکتا۔پھر کہنے والے نے کہا کہ چالیس سال کا وقفہ؟ ابوہریرہؓ نے جواب دیا کہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ اس وقفہ کے بعد اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا اور لوگ اسطرح اگ پڑیں گے جیسے سبزہ اگتا ہے۔ انسان کے جسم میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو برباد نہ ہو جائے سوائے ایک ہڈی ’’عجب الذنب‘‘ کے اور اسی سے جسم انسانی کو پھر بنایا جائیگا۔ (ص ۷۳۵ بخاری مطبوعہ دہلی بحوالہ عذاب قبر ص۱۱)موصوف اس واضح حدیث کو نقل کرنے کے باوجود بھی قبر کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
3:فلسفیانہ استدلال اور اس کا جواب​
اگر کوئی فلسفی کہے کہ قرآن و حدیث میں قبر کا لفظ استعمال کر کے اس سے عالم برزخ کی قبر مراد لی گئی ہے کیونکہ جب اس گڑھے میں کچھ نظر ہی نہیں آتا تو کیسے مان لیا جائے کہ عذاب وراحت اسی قبر میں ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مردہ بوسیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ زمین اس کے جسم کو کھا جاتی ہے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کی ہڈیاں بھی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں اور زمین میں مل جاتی ہیں (جیسا کہ اوپر کی حدیث میں بھی اس کی وضاحت موجود ہے) تو اس سے کہا جائے گا کہ قرآن کریم معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا بلکہ صاف اور عام فہم فصیح عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے ایک معروف اور عام فہم لفظ بول کر اس سے دوسرا مفہوم اس وقت تک مراد نہیں لیا جا سکتا جب تک کہ اس کے لئے کوئی ’’ واضح قرینہ‘‘ موجود نہ ہو ورنہ اللہ تعالیٰ پر الزام لازم آئے گا کہ اس نے قرآن کریم کو ایسی مشکل زبان میں نازل کیا ہے جسے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْٰانَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (القمر:۱۷)
’’ اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟‘‘۔​
جو چیز نظر نہ آئے تو یہ عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ یہ دنیا جس میں ہم اور آپ رہتے بستے ہیں اس میں بہت سی چیزیں اور مقامات ایسے ہیں جو اگرچہ ہم نے نہیں دیکھے مگر لوگوں کے کہنے سے ہم مان لیتے ہیں۔ مثلاً پیرس‘ نیویارک اور لندن بہت ہی خوبصورت شہر ہیں جو اگرچہ ہم نے نہیں دیکھے مگر لوگوں کے کہنے سے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقتاً یہ شہر دنیا میں موجود ہیں۔ اسی طرح امریکہ نے اپنے کچھ آدمیوں کو چاند پر بھیجا تھا۔جو بظاہر ایک بہت ہی مشکل کام ہے مگر لوگوں کے کہنے سے ہم نے اسے بھی تسلیم کر لیا ہے۔اب ایک مسلمان جس نے اللہ تعالیٰ‘ فرشتوں ‘جنات‘جنت‘ جہنم‘ عذاب قبر‘ یوم آخرت وغیرہ وغیرہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا مگر صادق و مصدوق جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر وہ تمام حقیقتوں کو تسلیم کر لیتا ہے کیونکہ یہ تمام چیزیں اگرچہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھیں مگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر اس نے تمام حقیقتوں کو تسلیم کر لیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ان تمام حقیقتوں کو تسلیم کر لینے کا نام ہی ایمان ہے۔اسی طرح انسان نے ’’روح‘‘ کو بھی نہیں دیکھا مگر وہ تسلیم کرتا ہے کہ روح سے اس کی زندگی وابستہ ہے کیونکہ روح کا انکار اپنے وجود کے انکار کے مترادف ہے۔ اسی طرح ایک انسان صرف اپنی ماں کے کہنے سے یہ تسلیم کرتا ہے کہ فلاں شخص اس کا باپ ہے اگرچہ یہ بات بھی اس کے مشاہدہ میں نہیں ہوتی۔جب لوگوں کے کہنے سے انسان بہت سی حقیقتوں کو مان لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سچے پیغمبر کی بات کو تسلیم کر لینے میں آخر اسے کیا چیز مانع ہے۔ قرآن کریم (السجدہ :۱۱) سے ثابت ہے کہ ملک الموت روحوں کو قبض کرتے ہیں اگرچہ قبض روح کے وقت میت کے پاس بہت سے لوگ موجود ہوتے ہیں مگر انہیں ملک الموت روح قبض کرتے ہوئے نظر نہیں آتے لیکن کسی مسلمان نے بھی آج تک نظر نہ آنے کی بناء پر اس حقیقت کا انکار نہیں کیا۔
اصل بات یہ ہے کہ ماوراء العقل باتوں کو عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھنا چاہئے بلکہ اپنی عقل کا قصور مان کر انہیں تسلیم کر لینا چاہئیے۔سورۃ الحج کی آیت نمبر ۱۸ میں ہے کہ ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے یعنی سورج‘ چاند‘ستارے‘ پہاڑ‘ درخت‘جانور اور بہت سے انسان۔

اب پہاڑ، درخت اور جانوروں کو سجدہ کرتے کسی نے دیکھا ہے ؟ اور نہ یہ بات عقل میں آتی ہے لیکن ہم اس پر صرف اس لئے ایمان رکھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کی بات سچی نہیں ہو سکتی۔اسی طرح عذاب قبر ہمیں بظاہر ناممکن نظر آتا ہے لیکن چونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو آگاہ فرمایا ہے کہ ’’ قبر کا عذاب حق ہے‘‘ لہٰذا تمام اہل ایمان اس حقیقت پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔البتہ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو حجت تسلیم نہیں کرتے وہ اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا انکارگو یا قرآن کریم کا انکار ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے یہ تمام چیزیں اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیں اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے کہ جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی ہو مگر تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔(بنی اسرائیل آیت ۴۴) اب اگر کوئی اس حقیقت کا صرف اس لئے انکار کر دے کہ میں نے یہ تسبیح نہیں سنی ہے لہذا میں اس کو نہیں مانتا۔ اصل بات یہ ہے کہ غیب پر ایمان ہی ایمانِ خالص ہے اور غیب کا انکار کفر خالص ہے۔ لہذا ان تمام حقیقتوں کو آنکھیں بند کر کے ماننا چاہئے۔قرآن کریم میں قبر کے لئے قبر کے علاوہ ’’ اجداث‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جس کی واحد ’’ جدث‘‘ ہے اور اس کا معنی بھی قبر ہے۔ یہ الفاظ قرآن کریم میں تین مقامات (یٰس۔۵۲۔قمر ۷۔اور المعارج ۴۳) پر آئے ہیں جہاں ذکر ہے کہ قیامت کے دن مردے قبروں سے نکلیں گے چنانچہ ایک مقام پر ارشاد ہے :۔
یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ کَاَنَّھُمْ جَرَادٌ مُنْتَشِرٌ (القمر آیت:۷)
’’اور قبروں سے اس طرح نکلیں گے گویا کہ وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں‘‘۔​
ظاہر ہے کہ یہ ارضی قبر ہی ہو گی جہاں سے مردے نکلیں گے۔ مقام برزخ کی قبر مراد نہیں ہو سکتی۔

قبر کی تعریف احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے
قرآن کریم کی طرح احادیث میں بھی قبر کا لفظ اسی ارضی قبر کے لئے استعمال کیا گیا ہے اگر ہم صرف صحاح ستہ ہی کی احادیث نقل کریں تو مضمون کافی طویل ہو جائے گا لہذا ہم موصوف کی کتاب ’’ یہ قبریں یہ آستانے‘‘ ہی سے چند احادیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
عن جندب رضی اﷲ عنہ قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول الا و ان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائیم وصالحیہم مساجد الا فلا تتخذوا القبور مساجد انی انھاکم عن ذالک۔ مشکوٰۃ ص:۶۹ (رواہ مسلم)
عَنْ جُنْدَبٌ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ * مشکوٰۃ ص:۶۹ (رواہ مسلم)
’’جندب ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگو !کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہوں نے اپنے انبیاء اور اپنے اولیاء کی قبروں کو عبادت گاہ اور سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ سنو! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں اس فعل سے تم کو منع کرتا ہوں‘‘۔(اس حدیث کو بیان کیا امام مسلمؒ نے)
عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَھٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ یُجَصَّصَ الْقَبْرُ وَاَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ وَاَنْ یُّقْعَدَ عَلَیْہِ (رواہ مسلم مشکوۃ ص:۱۴۸)
’’ جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ بنانے سے منع فرمایا اور اس سے بھی کہ قبر کے اوپر کوئی عمارت بنائی جائے یا قبر پر بیٹھا جائے۔ (مسلم)
عن ثمامۃ بن شفی قال کنا مع فضالۃ بن عبید بارض روم برودس فتوفی صاحب لنا فامر فضالۃ بقبرہ فسوی ثم قال سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یامر بتسویتھا (مسلم)
عَنْ ثُمَامَةَ بْنَ شُفَيٍّ قَالَ كُنَّا مَعَ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِأَرْضِ الرُّومِ بِرُودِسَ فَتُوُفِّيَ صَاحِبٌ لَنَا فَأَمَرَ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ بِقَبْرِهِ فَسُوِّيَ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِتَسْوِيَتِهَا * (مسلم)
ثمامہ بن شفی ؒ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ فضالۃ بن عبید ؓ کے ساتھ ارض روم کے جزیرہ رودس (rhodes)میں تھے کہ ہمارے ایک ساتھی کاانتقال ہو گیا۔فضالتہؓ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم ان کی قبر کو برابر کر دیں پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی حکم دیتے ہوئے سنا ہے‘‘ (مسلم جلد ص۳۵ مصری)
عَنْ اَبِی الْھَیَّاجِ الْاَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِیْ عَلِیٌّ اَلَآ اَبْعَثُکَ عَلیٰ مَا بَعَثَنِیْ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ لَّا تَدَعْ تِمْثَالاً اِلَّاطَمَسْتَہٗ وَلَا قَبْرًا مُشْرِفاً اِلَّا سَوَّیْتَہٗ (رواہ مسلم)
’’ ابو الہیاج اسدی ؒ روایت کرتے ہیں کہ علی ؓ نے مجھ سے کہا کہ اے ابو الہیاج کیا میں تم کو اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا اور وہ کام یہ ہے کہ جائو اور جو تصویر تم کو نظر آئے اس کو مٹا دو اور جو قبر اونچی ملے اسے برابر کر دو ‘‘۔(مشکوٰۃ ص۱۴۸‘مسلم)(بحوالہ یہ قبریں یہ آستانے ص۲‘۵‘۶)
ان احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ قبروں سے مراد یہی ارضی قبریں ہیں اور کتاب کا نام’’ یہ قبریں یہ آستانے‘‘ بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے۔ ’’ یہ قبریں‘‘ میں یہ اسم اشارہ قریب کے لئے ہے جو انہیں ارضی قبروں کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور ظاہر ہے کہ موصوف نے یہ کتابچہ بھی قبر پرستی کے خلاف ہی لکھا ہے۔ عوام انہی قبروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں اور وہاں جا جا کر نذر و نیاز اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں ‘کوئی شخص بھی کسی برزخی قبر پر یہ سب کچھ کرنے کے لئے نہیں جاتا۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
4:عذاب قبر کا تذکرہ قرآن کریم میں​

۱۔ اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :۔
وَلَوْ تَرٰیٓ اِذِا الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰئِکَۃُ بَاسِطُوْا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اﷲِ غَیْرَ الْحَقِ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیَاتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ (انعام:۹۳)
’’ اور اگر تو دیکھے جس وقت کہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے اور کہیں گے کہ نکالو اپنی جانیں آج کے دن تمہیں بدلہ ملے گا ذلت کے عذاب کا اس سبب سے کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹی باتیں کہتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کیا کرتے تھے‘‘۔
اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ قبض روح کے وقت فرشتے کافروں کو عذاب کی خوشخبری سناتے ہیں۔ اور سورۃ الانفال آیت ۵۰ اور سورۃ محمد آیت ۲۷ میں ہے کہ فرشتے کافروں کے چہروں اور پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں۔ حالانکہ پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ ضربیں لگتی ہوئی دکھائی نہیں دیتیں اور نہ ہی وہ میت کے بدن پر ضرب کی کوئی علامت دیکھتے ہیں ایک مقام پر یوں بھی ارشاد ہوتا ہے:۔
فَلَوْ لَا اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ۔ وَاَنْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنظُرُوْنَ۔ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۔ فَلَوْ لَا اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ۔ تَرْجِعُوْنَھَا اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(الواقعہ آیات ۸۳ تا ۸۷)
’’تو (ایسا ) کیوں نہیں کہ جب (جان) حلق تک پہنچ جاتی ہے اور تم دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم اس وقت تم سے زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں لیکن تم (یہ سب) نہیں دیکھتے تو اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو تو اس جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے اگر تم (اس خیال میں ) سچے ہو‘‘۔
آیت الیوم تجزون عذاب الھون یعنی آج کے دن تمہیں ذلت کا عذاب ملے گا سے مراد عذاب قبر ہے جس کا آغاز نزع کی حالت ہی میں ہو جاتا ہے۔
وَلَوْ تَرٰیٓ اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ (انفال:۵۰)
’’ اور اگر دیکھے تو جس وقت جان قبض کرتے ہیں فرشتے کافروں کی (اور) مارتے ہیں ان کے منہ اور ان کی کمریں اور کہتے ہیں چکھو عذاب جلنے کا‘‘۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے :۔
فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَہُمْ وَاَدْبَارَھُمْ (محمد:۲۷)
’’پھر کیا حال ہو گا (ان کافروں کا) جب فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے ان کی روحیں قبض کریں گے‘‘۔​
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اخراج روح کے وقت ہی عذاب شروع ہو جاتا ہے اور یہ عذاب قبر کی ابتداء ہے ان آیات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ میت ابھی نزع کے عالم میں ہوتی ہے کہ فرشتے اس کی پٹائی شروع کر دیتے ہیں لیکن یہ تمام کاروائی لوگوں سے پوشیدہ ہوتی ہے کیونکہ اس کا تعلق غیب سے ہے‘‘۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہے :۔
وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعُوْنَ سُوْئُ الْعَذَابِ۔ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوٓا اٰلَ فِرْعُوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (مؤمن: ۴۵۔۴۶)
’’اور فرعون کے ساتھیوں کو بدترین عذاب نے گھیر لیا یعنی آگ نے جس کے سامنے وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (تو حکم ہو گا) داخل کرو آل فرعون کو سخت عذاب میں‘‘۔
مرنے کے بعد کافروں ‘مشرکوں اور منافقوں کی روحیں جہنم میں داخل ہو جاتی ہیں جبکہ اہل ایمان کی روحیں جنت میں داخل ہو جاتی ہیں اور جب قیامت برپا ہو گی تو حساب و کتاب کے بعد یہ روحیں اپنے جسموں سمیت جنت یا جہنم میں داخل ہوں گی اور اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ العزیز۔
جب کفار کی روحیں جہنم میں ہوتی ہیں تو آل فرعون کے صبح و شام آگ پر پیش ہونے کا کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ بلاشبہ روحیں جہنم میں ہیں اور ان کے جسموں کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے اور یہی عذاب قبر ہے۔ جناب عبد اللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی وفات پا جاتا ہے تو اس کا ٹھکانہ صبح و شام اس پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے تو جنت کا ٹھکانہ اور اہل جہنم میں سے ہوتا ہے تو جہنم کا ٹھکانہ (اس پر پیش ہوتا ہے) اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے (قبر سے) اس کی طرف اٹھائے(یعنی اس میں داخل کر دے) (بخاری و مسلم) یہ حدیث آگے آ رہی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے۔
المیت یعرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشی
یعنی میت پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس حدیث سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ قبر میں میت پر اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے اور یہ حدث سورۃ المومن کی اوپر والی آیت کی وضاحت بھی کر دیتی ہے۔یعنی جس طرح آل فرعون صبح و شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اسی طرح ہر میت پر صبح و شام اس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم پیش کیا جاتا ہے۔
ان تمام آیات سے واضح طور پر عذابِ قبر ثابت ہوتا ہے۔البتہ اس مسئلہ کی مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعہ فرمائی ہے۔ کیونکہ آپ قرآن کریم کے شارح ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کی تفسیر و تشریح خوب وضاحت سے بیان فرمائی ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
5ۛۛ:عذاب قبر کا تذکرہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں​

عذابِ قبر کے سلسلے میں بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ ہم یہاں کریں گے:۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَنَّ يَهُودِيَّةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَذَكَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَهَا أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ * (صحیح بخاری کتاب الجنائز)
’’عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا اور پھر کہا اللہ تم کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ عائشہ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کا حال پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں قبر کا عذاب (برحق ہے‘‘۔یہ الفاظ امام منذر نے بیان کئے ) عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ (بخاری و مسلم)
عذاب قبر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعائوں میں بالعموم اور نمازوں میں بالخصوص عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو بھی اس کی تعلیم دی۔
ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی آخری رکعت کے تشہد سے فارغ ہو تو اللہ تعالیٰ سے چار چیزوں سے پناہ طلب کیا کرے یعنی عذاب جہنم سے ‘ عذاب قبر سے‘ زندگی اور موت کے فتنہ سے اور مسیح دجال کے شر (اور فتنہ) سے۔ (مسلم ‘ مشکوۃ ۸۷)
ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو یہ دعا اس طرح سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے ‘چنانچہ فرماتے اس طرح کہو:
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَالِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ (مسلم مشکوۃ ص ۸۷)
ابوہریرہؓ کی روایت بتا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امت کو آخری تشہد کے آخر میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا اور ابن عباسؓ کی روایت بتا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کو (جن میں چار چیزوں سے پناہ طلب کی گئی ہے )اتنے اہتمام کے ساتھ سکھایا جتنے اہتمام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
6:عذاب قبر کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کب ہوا ؟​

بخاری و مسلم کی تفصیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیہ کے عذاب قبر کے ذکر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذا ب قبر کی تفصیلات صلوۃ کسوف کے بعد بتائیں اور سورج کو گرہن ۱۰ ؁ھ میں لگا تھااور اسی دن آپ کے صاحبزادے جناب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات بھی ہوئی تھی ۔ گویا آپ کو بھی اسی سال عذاب قبر کا تفصیلی علم ہوا اور آپ نے اپنی امت کو اس اہم مسئلہ سے آگاہ فرمایا۔
مسند احمد کی حدیث جسے حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے بخاری کی شرط پر صحیح کہا ہے جس میں ہے کہ شروع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا تھا حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
کَذَّبَتْ یَہُوْدُ وَھُمْ عَلَی اﷲِ عَزَّ وَ جَلَّ کَذِبٌ لَا عَذَابَ دَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ(مسند احمد ج ۶ ص ۸۱، فتح الباری ج ۳ ص ۲۳۶)
’’یہود نے جھوٹ کہا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹی بات کہی ہے کیونکہ قیامت سے قبل کوئی بھی عذاب نہیں ہے‘‘ ۔ لیکن کچھ دنوں بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے عذاب قبر کی حقیقت کا پتہ چلا تو آپ بے حد غمگین تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی فرمایا: فَاِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌ ’’بے شک قبر کا عذاب حق ہے‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے: (اے عائشہ) کیا تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبروں میں آزمائش ہو گی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس دن سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز میں) عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب استحباب التعوذ من عذاب القبر (حدیث نمبر ۱۳۱۹) مسند احمد ج ۶ ص ۸۹)۔

بخاری و مسلم میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے چنانچہ عمرہ ؒ بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ عائشہؓ کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالی تجھے قبر کے عذاب سے بچائے عائشہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عائذ ابا اللہ من ذلک میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں پھر ایک دن آپ صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر(اس دن ) سورج کو گرہن لگ گیا ۔(آپ نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا :
اِنِّی قَدْ رَایْتُکُمْ تُفْتَنُوْنَ فَی الْقُبُورِ کَفِتْنَۃِ الدجَّال…… اَسْمَعُ رَسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ ذلک یَتَعَوَّذُ مِنْ عذاب النَّار وَ عَذَابِ القَبْرِ ۔
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاتے ہو دجال کے فتنہ کی طرح……میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔
فَقَال مَاشآء اللہ اَنْ یَقُوْلَ ثُمَّ اَمَرَھُمْ أنْ یَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذابِ الْقَبْرِ ۔
پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہافرمایا پھر آپ نے صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ قبر کے عذاب سے پناہ مانگیں۔(صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوّذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد ۱ صفحہ ۱۴۳عربی صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱ صفحہ ۲۹۷عربی)
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہؓ کے پاس اس وقت آئیں جب کہ سورج کوگرہن لگ چکا تھا ۔اور لوگ کھڑے ہوئے نماز ادا کر رہے تھے ۔ اورعائشہ ؓ بھی نماز ادا کر رہی تھیں………(سورج کے روشن ہو جانے اور نماز سے فارغ ہو جانے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مڑے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا کہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں کہ جسے میں نے اس مقام پر نہ دیکھ لیا ہو یہاں تک کہ جنت اور جہنم کو بھی اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ بے شک تم قبروں میں دجال کے فتنہ کے مثل یا اس کے قریب آزمائے جاؤگے ۔ اور قبر میں تمہارے پاس فرشتے آئیں گے اور تم سے کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟ جو مومن یا موقن (یقین رکھنے والا ) ہوگا وہ کہے گا وہ محمد رسول اللہ ہیں اور ہمارے پاس کھلے دلائل اور ہدایت لے کر آئے پس ہم نے مان لیا اور ہم ایمان لے آئے اور ہم نے اتباع اختیار کی پس اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو جا۔ ہمیں معلوم تھا کہ آپ یقین رکھنے والے ہیں اور جو منافق یا مرتاب (شک کرنے والا) ہوگا وہ کہے گا کہ میں نہیں جانتا ۔میں تو وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے ۔(بخاری کتاب الکسوف باب صلوۃ النساء مع الرجال فی الکسوف ۔ مسلم کتاب الکسوف)
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ قَالَ كَذَا كَانَ يَقُولُ الْجُرَيْرِيُّ فَقَالَ مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَائِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ(صحیح مسلم کتاب الجنۃباب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار علیہ واثبات عذاب القبر والتعوذ منہ(حدیث نمبر ۷۲۱۳)مشکوۃ ص ۲۵)
’’ جناب زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ (ایک بار) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اچانک خچر بد کا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا دے ناگہاں پانچ، چھ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان قبروں کے اندر جو لوگ ہیں کوئی ان کو جانتا ہے ایک شخص نے کہا میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس حال میں مرے ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا شرک کی حالت میں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے ۔اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردو ں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر سنا دے جسطرح میں سنتا ہوں‘‘۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مشرکوں کو انہی ارضی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مزید وضاحت اس طرح بیان فرمائی کہ اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر سنا دے جسطرح کہ میں سنتا ہوں۔ اگر موصوف کے عقیدے کے مطابق عذاب اس ارضی قبر میں نہیں ہوتا تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ مردے انہی قبروںمیں دفن کئے جاتے ہیں لہذا اگر عذاب اس قبر میں نہیں ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ لیکن موصوفنے اس حدیث پر جو خامہ فرسائی فرمائی ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں لکھتے ہیں:۔

’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چند مشرکوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر بدکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ قبریں کن لوگوں کی ہیں۔ بتایا گیا کہ مشرکوں کی اس حدیث سے یہ نکالا جاتا ہے کہ ان مشرکوں پر ان کی انہی دنیاوی قبروں میں عذاب ہو رہا تھا اور وہ چیخ و پکار کر رہے تھے۔ اسی شور کی وجہ سے خچر بدا تھا۔کتنے خچر‘ گھوڑے اور گدھے آج بھی قبرستانوں میں چرتے رہتے ہیں ایک نہیں بدکتا۔ دراصل یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کیونکہ اللہ غیب کی باتوں کا اظہار اور اس کی اطلاع صرف اپنے رسول کودیتاہے کسی اور کو نہیں‘‘۔(عذاب قبر ص۱۸)
کچھ احادیث آگے آ رہی ہیں جن میں ایک میں یہ الفاظ ہیں:۔
فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَّسْمَعُھَا مَنْ یَّلِیْہِ غَیْرُ الثَّقَلَیْنِ (بخاری مسلم)
’’( پس وہ مردہ اس مار سے)چیختا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز انسانوں اور جنوں کے سوا قریب کی تمام مخلوق سنتی ہے‘‘۔
اب فرمائیے اس حدیث میں تو رسول کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ تمام مخلوق اس چیخ و پکار کی آواز کو سنتی ہے مگر انسان اور جنات نہیں سنتے کیونکہ یہ مکلف مخلوقات ہیں۔ دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں:۔
یَسْمَعُ صَوْتَھَا کُلُّ شَیْئٍ اِلاَّ الْاِنْسَانُ وَلَوْ سَمِعَھَا الْاِنْسَانُ لَصَعِقَ (بخاری حدیث نمبر ۱۳۸۰)
’’ میت کی آواز انسان کے سوا ہر چیز سنتی ہے کیونکہ اگر انسان سن لے تو وہ بے ہوش ہو جائے‘‘۔​
ھٰذِہِ الْاَقْبُر کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ آپ نے اسی ارضی قبر کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ان قبروں میں مشرکوں کو عذاب ہو رہا ہے۔حدیث میں یہ بھی ہے کہ سوائے جن و انس کے تمام مخلوق عذاب قبر کو سنتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عالم برزخ میں کون سے چوپائے اور جاندار ہیںجو مردہ کی چیخ و پکار کو سنتے ہیں اگر یہ جاندار اسی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر قبر بھی یہی ہو گی جس میں مردے کو عذاب دیا جاتا ہے۔ھذھ الاقبر کا ترجمہ اگر ’’ یہ قبریں یہ آستانے‘‘ کے الفاظ سے کریں (جو موصوف کے ایک رسالہ کا بھی نام ہے)تو زیادہ مناسب ہو گا اور ظاہر ہے کہ موصوف کے نزدیک بھی ’’ یہ قبریں ‘‘ سے مراد یہی ارضی قبریں ہوں گی۔ کیونکہ برزخی قبریں کسی طرح بھی مراد نہیں ہو سکتیں اصل بات یہ ہے کہ میت کے چیخنے چلانے کی آواز خچر ‘گدھے ‘گھوڑے اور اونٹ وغیرہ ہمیشہ سنتے رہتے ہیں اور ان آوازوں کو سن سن کر وہ ان سے مانوس ہو جاتے ہیں اور یہ چیز ان کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے۔ ہاں کبھی سخت زور کی آواز سن کر وہ بدک بھی جاتے ہیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر بدکا تھا۔ البتہ اس واقعہ کو ’’ علم غیب‘‘ کا نام دے کر اور معجزہ بتا کر موصوف نے جو جھانسا دینے کی کوشش کی ہے تو لاریب یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تو عذاب قبر سنا دیا۔مگر عام لوگوں سے یہ بات پردہ غیب میں رہتی ہے۔ اسی طرح دوسرے حیوانات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عذاب قبر کو سنتے ہیں تو اس طرح معجزہ کا نام دے کر نفس الامر کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔موصوف اگر اس حدیث کو مکمل طور پر نقل کرتے تو ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا کیونکہ اس حدیث کے آخری الفاظ ہیں: ’’اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں) کو دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کوبھی عذاب قبر سنا دے جس طرح میں سنتا ہوں‘‘ لیکن موصوف عذاب قبر کے انکار کا عقیدہ دلائل کے بجائے دھوکا و فریب سے ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ ہر جگہ لفاظی کا سہارا لیتے ہیں۔
 
Top