پیش لفظ
کچھ عرصہ پہلے یعنی جولائی ۱۹۸۴ء کو میں نے عذاب القبر کے ثبوت کے سلسلہ میں ایک کتاب
’’الدین الخالص‘‘ پہلی قسط شائع کی تھی اور جسے عوام و خواص نے بے حد پسند کیا۔ یہ کتاب اگرچہ دو ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی تھی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد یہ نایاب ہو گئی اور اس کی مانگ دن بدن بڑھتی ہی چلی گئی اور لوگ دور دراز سے بھی بذریعہ خطوط اس کتاب کا برابر مطالبہ کر رہے ہیں۔ کئی لوگوں نے اس کتاب کا فوٹو اسٹیٹ بھی طلب کیا۔ میرے وسائل چونکہ نہ ہونے کے برابر تھے اس لئے اس کتاب کی اشاعت دوبارہ ممکن نہ ہو سکی۔ اب الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے اس کی اشاعت کا انتظام کر دیا ہے تو اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے لیکن شائع کرنے سے پہلے اس پر نظر ثانی کی گئی ہے اور عذاب القبر کے مسئلہ پر اسے ایک جامع کتاب بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور منکرین عذاب القبر کے شبہات کا بھی مکمل ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میرا علم اگرچہ انتہائی کم اور ناقص ہے لیکن میں اپنے رب کی عنایتوں، مہربانیوں اور رحمتوں سے ناامید نہیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرا مددگار ہے اور وہ مجھے کبھی بھی اپنے دشمنوں کے مقابلے میں تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی ذلیل و خوار کرے گا۔
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْئٍ قَدْرًا (3 : الطلاق)
’’اور جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے‘‘
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ عَضُدِیْ وَ نَصِیْرِیْ بِکَ اَحُوْلُ وَبِکَ اَصُوْلُ وَبِکَ اُقَاتِلُ
’’اے اللہ تو ہی میرا دست و بازو اور مدد گار ہے میں تیری ہی قوت سے لڑتا ہوں اور تیری ہی قوت سے حملہ کرتا ہوں‘‘۔
(الترمذی۔ ابوداؤد وسندہ صحیح الکلم الطیب ص ۷۵)
یاد رہے کہ عذاب القبر کا مسئلہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے اور باطل فرقوں کے علاوہ کسی نے بھی اس مسئلہ کا انکار نہیں کیا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایسے مسائل میں عقل کو معیار قرار دیا ۔
جو شخص ایمان بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی کرتا ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو بھی سچا جانے اور ان پر دل سے یقین رکھے ورنہ اس کا ایمان بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ ہی جھوٹا ہے۔ دراصل عذاب القبر کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے۔ جس طرح ہم نے جنت و جہنم ، فرشتوں وغیرہ کو نہیں دیکھا لیکن اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ہم نے انہیں تسلیم کر لیا ہے اسی طرح عذاب القبر بھی ہم نہیں دیکھتے اور نہ ہی محسوس کر سکتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اگرچہ عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے مانع ہے لیکن ظاہر بات ہے کہ اگر ساری دنیا ادھر کی ادھر بھی ہو جائے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پتھر پر لکیر ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان جب قرآن و حدیث کی شاہراہ کو چھوڑ دیتا ہے اور عقل کی کسوٹی پر ہر چیز کو پرکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس سلسلہ میں ہوائے نفسانی کی پیروی کرنے لگتا ہے تو گمراہ ہو جاتا ہے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے حق پر قائم نہیں کر سکتی
(اِلَّا مَنْ شَآئَ اﷲ)
وَمَنْ يُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِيرًا (115 : النساء )
’’اور جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اور مومنین (صحابہ کرامؓ) کی روش کے سوا کسی اور کی روش پر چلے تو ہم بھی اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے
(النساء آیت نمبر ۱۱۵)۔
ہدایت سے مراد قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ہیں۔ قرآن و حدیث کے بجائے اگر کوئی شخص اپنی عقل نارسا کو معیار قرار دیدے اور اپنی نفسانی خواہشات کا غلام بن جائے اور صحابہ کرام ؓ جو مؤمنین صادقین تھے اور جنہوں نے قرآن و حدیث پر عمل کر کے دکھا یا تھا ان کی روش کے سوا کسی اور کی روش پر چلے تو ایسا شخص جہنمی ہے۔
أَفَرَأَيْتَ مَنْ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ(23: الجاثیہ)
’’پھر کیا تم نے اس شخص کے حال پر بھی غورکیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا الٰہ بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟‘‘۔
(الجاثیہ : ۲۳)
قرآن و حدیث کا علم اگرچہ اس کے مشاہدے میں آ چکا ہے لیکن نفسانی خواہشات کے بت کے آگے وہ مجبور محض ہے جس کی وجہ سے اس کی بصیرت زائل ہو چکی ہے۔
كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَائَهُمْ الْبَيِّنَاتُ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (86 : آل عمران)
’’اللہ ایسے لوگوں کو کیوںکر ہدایت دے کہ جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے حالانکہ وہ گواہی دے چکے تھے کہ رسول برحق ہیں اور ان کے پاس (قرآن و حدیث کے) دلائل بھی آ چکے تھے اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔
(آل عمران آیت نمبر ۸۶)۔
واقعی کس قدر ظالم ہیں وہ لوگ کہ جن کے دعوے یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور احادیث ان کے سامنے آتی ہیں تو پھر ان سے کفر کی روش اختیار کر لیتے ہیں اور اپنے خود ساختہ نظریات پر سختی سے ڈٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ واقعی ایمان سے بالکل عاری ہیں اور ان میں ایمان کی رمق تک باقی نہیں رہی کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکمتسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (65: النساء)
(’’اے نبی)تیرے رب کی قسم یہ کبھی بھی ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں‘‘۔
گویا اختلافی مسائل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو حرف آخر نہ ماننے والے ایمان ہی سے خارج ہو چکے ہیں اگرچہ وہ لاکھ توحید کے بلند و بانگ دعوے کریں اور اپنے آپ کو کتنا ہی پکا اور سچا مومن کیوں نہ خیال کریں کیونکہ عملا ان کے یہ تمام دعوے جھوٹے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا انکار دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔
اس امت میں خوارج اور معتزلہ وغیرہ پیدا ہوئے جو عذاب قبر کا انکار کر چکے ہیں اور موجودہ دور میں ڈاکٹر عثمانی صاحب ان پرانے فرقوں کی بازگشت ہیں۔
عذاب القبر کے متعلق اہل اسلام کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ قبر کی راحت و آرام اور قبر کا عذاب حق ہے اور قبر میں دفن میت کے بعد دو فرشتوں منکر و نکیر کا آنا اور ان کا میت سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق سوال کرنا مومن کا راحت و آرام میں رہنا اور اس پر صبح و شام جنت کا پیش کیا جانا جب کہ کفار و مشرکین اور منافقین کا قبر میں عذاب میں مبتلا ہونا فرشتوں کا انہیں لوہے کے گرز سے مارنا میت کا چیخنا و چلانا اور ہیبت ناک آوازیں نکالنا۔غرض احادیث صحیحہ میں قبر کے حالات کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر ایمان لانا لازم اور ضروری ہے اور ایمانیات میں شامل ہے۔جبکہ عذاب قبر کا انکار کفر ہے اس کا انکاری ایمان و توحید سے خالی ہے چاہے وہ اپنے ایمان کو کتنا ہی خالص کیوں نہ کہے۔
موصوف ایک طرف یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ قبر کا عذاب حق ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ فلسفہ بھی بیان کرتے ہیں کہ قبر سے مراد یہ دنیاوی گڑھا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد برزخی قبر ہے لیکن اس کی کوئی بھی واضح اور صریح دلیل ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ جبکہ قرآن و حدیث میں ہرجگہ قبر اسی گڑھے کو کہا گیا ہے۔ دراصل موصوف نے عذاب قبر کا انکار اس بنیاد پر کیا ہے کہ اگر قبر کے عذاب کو مانا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ میت سے اسی قبر میں سوال و جواب ہوتا ہے تو اس طرح قبر کی زندگی لازم آئے گی اور میت کے قبر میں زندہ ہوجانے سے اللہ تعالیٰ کی توحید خاک میں مل جائے گی
(نعوذ باللہ من ذلک) سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض میت قبر میں زندہ بھی ہو جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی کس صفت کا انکار لازم آئے گا؟ قرآن کریم میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمْ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ(243البقرۃ)
’’ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل پڑے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا مر جائو پھر اس نے ان کو زندہ کیا اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دیا حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا عام قانون نہیں ہے اور اس بات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تعبیر فرمایا ہے۔ اگر دنیا میں دوبارہ زندہ ہو جانے سے کوئی شرک لازم آتا تو اللہ تعالیٰ ان ہزاروں انسانوں کو دوبارہ کبھی بھی زندہ نہ کرتا۔حقیقت یہ ہے کہ میت کو قبر میں کوئی بھی زندہ نہیں مانتا بلکہ سب ہی اسے میت کہتے ہیں اور راحت و عذاب کا سارا معاملہ میت ہی سے وابستہ ہے اور عالم آخرت کے معاملات کو دنیاوی پیمانوں پر نہیں ناپا جا سکتا۔موصوف کا خیال یہ ہے کہ جب میت میں روح ہی موجود نہیں ہے تو بغیر روح کے میت کا راحت و آرام اور عذاب کو محسوس کرنا کیسے ممکن ہے اور یہ کیسے ممکن کہ روح کے بغیر میت میں راحت و عذاب کو محسوس کرنے کا احساس موجود ہو۔دراصل موصوف آخرت کے معاملات کو دنیاوی پیمانوں پر ناپنے کے عادی ہو چکے ہیں جب کہ آخرت اور برزخ کے معاملات کو دنیاوی پیمانوں سے ناپنا ہی صریح غلطی ہے۔
وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا (74) إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا
(75بنی اسرائیل )
’’اور اگر نہ ثابت رکھا ہوتا ہم نے آپ کو (حق پر) تو بالکل قریب تھا کہ آپ جھک جاتے ان کی طرف کچھ تھوڑا سا۔ اس وقت ہم ضرور چکھاتے آپ کودوگنا عذاب ’’زندگی‘‘ میں اور دو گنا عذاب ’’موت‘‘ میں۔ پھر نہ پاتے آپ اپنے لئے ہمارے سامنے کوئی مددگار‘‘۔
اس آیت میں زندگی اور موت دونوں حالتوں میں عذاب کا ذکر کیا گیا ہے اور حیات (زندگی) اور ممات (موت) ایک دوسرے کی ضد یعنی متضاد الفاظ ہیں۔ معلوم ہوا کہ موت کی حالت میں بھی عذاب واقع ہوتا ہے اور اس آیت سے موصوف کی تمام باطل تاویلات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
قرآن کریم میں یہ بات موجود ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتا۔ حالانکہ عقلی لحاظ سے یہ بات محال ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان بالکل حق اور سچ اور اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے جس کا انکار اھل ایمان کے لئے ممکن نہیں۔ اسی طرح ہر چیز اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے مثلاً درخت‘ جانور‘پہاڑ وغیرہ لیکن ان کا سجدہ کرنا بھی نہ سمجھ آتا ہے اور نہ دکھائی دیتا ہے تو کیا ان حقائق کا بھی انکار کر دیا جائے؟
(نعوذ باللہ من ذلک) عقل کے ان پجاریوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں۔قبر کا تعلق آخرت کے ساتھ وابستہ ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی وضاحت موجود ہے جبکہ موصوف بار بار دنیاوی قبر دنیاوی قبر کے الفاظ استعمال کر کے لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اس ارضی قبر کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل قرار دیا ہے اور موت کے واقع ہونے سے ہی انسان کا تعلق آخرت کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے اور میت کا دنیا کے ساتھ تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ موصوف کیوں قبر کے معاملے کو دنیاوی قرار دینے پر بضد ہیں اور آخر وہ اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟۔
قرآن و حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء کرام ‘ شہداء اور مومنین کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں جبکہ کفار و مشرکین اور منافقین کی روحیں جہنم میں ہوتی ہیں اور ان کے اجسام قبروںمیں راحت و آرام یا عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں اوریہ دونوں باتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں جبکہ موصوف صرف جنت اور جہنم میں روحوں کے راحت و آرام یا عذاب کے قائل ہیں اور جنت و جہنم کو برزخی قبریں مانتے ہیں اور راحت قبر اور عذاب قبر کے بالکل انکاری ہیں ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ کیا جنت اور جہنم کسی قبرستان کا نام ہے ؟ پھر موصوف کا یہ نظریہ بھی ہے کہ مرنے کے بعد روح کو ایک برزخی جسم دیا جاتا ہے اور قیامت تک یہ روح اس برزخی جسم کے ساتھ راحت یا عذاب کے مراحل سے گزرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ روح کو چاہے برزخی جسم دیا جائے یا بدن عنصری دیا جائے بات تو ایک ہی بنتی ہے اور روح برزخی جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک مستقل حیات کی حامل ہو جاتی ہے۔ اب یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ اگر روح کو بدن عنصری میں داخل مانا جائے تو یہ کفر ہے اور اگر روح برزخی جسم میں رہے تو یہ عین ایمان جب کہ قرآن و حدیث کے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ روح جنت یا جہنم میں رہتی ہے اور اجسام قبروں میں راحت یا عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔ یعنی جسم و روح میں قیامت تک مفارقت (جدائی)رہے گی اور اسی کانام موت ہے اور قیامت کے دن ہی روحیں جسموں میں دوبارہ واپس لوٹائی جائیں گی ۔ اگر برزخی جسم کے ساتھ روح کی حیات کو تسلیم کیا جائے تو کیا یہ تیسری زندگی نہیں بن جاتی اور پھر دو زندگیوں اور دو موتوں کا تصور کہاں چلا گیا؟ اس طرح موصوف جو دوسروں کو کافر بنانے چلے تھے خود ایک مستقل حیات کے قائل ہو کر اپنے ہی فتویٰ سے کافر ہو گئے کیونکہ جب قیامت آئے گی تو یہ برزخی جسم مر جائے گا اور بدن عنصری اس وقت دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔ اس موضوع پر ہم نے دوسری قسط میں گفتگو کی ہے۔
موصوف نے ایک نظریہ اختیار کر لینے کے بعد اپنے کتابچوں میں صحیح احادیث کو بھی اپنے نظریہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے لیکن چونکہ احادیث اس معاملے میں ان کا ساتھ نہیں دیتیں تو انہوں نے ان احادیث کی زبردست تاویل بلکہ ان میں زبردست تحریف کی بھی کوشش کی ہے اور ان احادیث کے ضمن میں ایسی ایسی بحثیں کی ہیں کہ جن کا اصل حدیث سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ بہرحال اس تمام کاوش کا مقصد قرآن و حدیث کو اپنے نظریہ کے مطابق ڈھالناہے۔
موصوف احادیث کی تصحیح و تضعیف کے سلسلہ میں انتہائی متعصب ہیں اور جو حدیث ان کے نظریہ کے خلاف ہوتی ہے تو موصوف اس کے کسی نہ کسی راوی پر جرح کا کوئی ایک آدھ جملہ نقل کر کے اسے ضعیف ومتروک قرار دے ڈالتے ہیں۔ چاہے محدثین کی اکثریت اس راوی کو ثقہ اور صدوق ہی قرار دے چکی ہو اور امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ جیسے محدثین نے اس راوی کی احادیث کو احتجاج اور حجت کے طور پر ہی ذکر کیا ہولیکن موصوف کے زہریلے قلم کی کاٹ سے ایسا راوی بھی مجروح اورمتروک قرارپاتا ہے اور دوسری طرف موصوف ضعیف احادیث اور من گھڑت اقوال کو بھی دلیل اور حجت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔موصوف چونکہ کسی اصول و ضابطے کے پابند نہیں ہیں جبکہ اسماء الرجال میں جرح و تعدیل کے طورپران اشخاص کے اقوال کو حجت مانا جاتا ہے جو عدل و انصاف کے ساتھ کسی راوی کے متعلق انتہائی جچے تلے الفاظ میں اپنی رائے کا ذکر کریں۔ کیونکہ ’’لکل فن رجال‘‘اور موصوف چونکہ اس میدان کے آدمی نہیں ہیں اس لئے ان کی جرح کا وجود اور عدم وجود برابر ہے۔ موصوف نے امام احمد بن حنبل ؒ اور دوسرے محدثین کو مشرک و کافر اور شیعہ بھی قرار دے ڈالا ہے اور پھر ان کی احادیث کو حجت و دلیل کے طور پر بھی پیش کیا ہے یہ ان کا عجیب تضاد ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔اس کے علاوہ موصوف اپنے نظریات کو ثابت کرنے کے لئے جھوٹ اور دھوکا دہی سے بھی کام لیتے ہیں اور مغالطے بھی دیتے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ جھوٹے اور مکار انسان کی بات کا اعتبار وہی شخص کرے گا جو خود جھوٹا اور فریب کار ہو۔موصوف یہ بھی باورکرواتے ہیں کہ وہ یہ سارا کھیل توحید خالص کی حفاظت کے لئے کر رہے ہیں حالانکہ توحید کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی ہے اور قرآن کریم کا تقریبا تین چوتھائی حصہ تو حید کے دلائل سے بھرا ہوا ہے اور توحید کی حفاظت کے لئے ہردور میںانبیاء کرامؑ آتے رہے اور سب سے آخر میں خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اب جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہی میں ہیرا پھیری کرے اور آیات قرآنی کا خود ساختہ مفہوم بیان کرے وہ آخر کون سی خالص توحید قوم کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔ موصوف کی سب سے بڑی توحید یہ ہے کہ مردہ نہ سنتا ہے اور نہ بولتا ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔ لیکن جب ان کے مقلدین کے سامنے صحیح بخاری میں یہ باب پڑھاجاتا ہے
’’المیت یسمع قرع نعالھم‘‘ میت جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور
’’قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی ‘‘(میت کا یہ قول جب کہ وہ ابھی جنازہ میں ہوتا ہے مجھے آگے لے چلو) اور
’’کلام المیت علی الجنازہ‘‘ (جنازہ پر میت کا کلام کرنا) امام بخاری ؒ نے اپنا عقیدہ واضح کر دیا کہ وہ میت کے سننے اور کلام کرنے کے قائل ہیں۔تو ان کے مقلدین حیران و ششدر رہ جاتے ہیں لیکن امام بخاری پر کوئی فتویٰ لگانے کی جسارت اپنے اندر نہیں پاتے اگر یہ مقلدین اصل حقیقیت کو جان لیں اور وہ یہ کہ جو چیز قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہو جائے تو اسے تسلیم کر لیں اور یہی ایمان باللہ اور ایمان بالرسول ہے اور اسی کو توحید خالص اور ایمان خالص کہتے ہیں۔
اس کتاب میں میں نے موصوف کے نظریات کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا ہے اور ان کے باطل نظریات کاقرآن و حدیث کی روشنی میں اچھی طرح پوسٹ مارٹم کیا ہے۔
موصوف اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں اور عملی طور پر وہ عذاب قبر کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ان کے متبعین سے ہماری درخواست ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کریں اور قرآن و حدیث کے مطابق اپنے عقائد و اعمال کو ڈھالیں اور عذاب قبر پر ایمان لے آئیں ورنہ عمل کی مدت ختم ہوتے ہی انہیں عملی طور پر اس مرحلہ سے گزرنا پڑے گا اور پھر منکرین عذاب قبر کو کوئی بھی عذاب قبر سے نہیں بچا سکے گا۔
اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ عذاب القبر کے مسئلہ کو قرآن و حدیث کے ذریعے اچھی طرح واضح کر دیا جائے اور لفاظی، مناظرانہ اور فلسفیانہ قسم کے طریقہ کار سے خواہ مخواہ مسئلہ کو الجھانے اور اس میں عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے صاف صاف اور سادہ طریقے سے قرآن و حدیث کے ٹھوس اور واضح دلائل سامنے رکھ دیئے جائیں تاکہ جس کا جی چاہے تو ان دلائل کو سینے سے لگا کر اپنی آخرت سنوارے اور جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بچا لے ورنہ پھر قرآن و حدیث کا انکار کر کے ان اندھیروں میں بھٹکتا رہے کہ جہاں بے شمار فرقے بھٹک رہے ہیں
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ(6)صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ(7الفاتحۃ)
’’(اے اللہ) ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے نہیں ہیں‘‘۔
(آمین)۔
اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ جس نے میری اس ناچیز کوشش کو بہت سے بھٹکے اور الجھے ہوئے انسانوں کی ہدایت کا ذریعہ بنایا۔
اَلْحَمْدُ ﷲِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ مُبَارَگاً عَلَیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضٰی۔
’’ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے۔ ایسی تعریف جو کثرت سے ہو پاکیزہ ہو بابرکت ہو اور برکت ہو اس پر ایسی تعریف کہ جسے ہمارا رب پسند کرے اور جس سے وہ راضی ہو‘‘۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ
تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے ہمیں اس راہ کی ہدایت فرمائی ورنہ ہم خود راہ ہدایت نہ پا سکتے تھے اگر اللہ ہماری راہ نمائی نہ کرتا۔
ابو جابر عبد اللہ دامانوی
جولائی ۲۰۰۱ء بروز منگل