• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
17:کسی چیز کے نظر نہ آنے سے حقیقت نہیں بدلتی​

بہت سی چیزیں جو دیکھنے میں محسوس نہیں ہوتیں مگر چونکہ ان کی خبر وحی کے ذریعہ دی گئی ہے لہذا ان پر ایمان لانا ضروری ہے اور جو شخص ان کا انکار کرے گا تو وہ ایمان سے خارج ہو جائے گا لہذا جب ایمان ہی سلامت نہ رہا تو توحید کہاں سلامت رہی۔ اسی لئے فرمایا کہ قَلِیْلاً مَّا تُؤمِنُوْنَ ’’یعنی تم بہت ہی کم ایمان لاتے ہو‘‘۔(الحاقہ۔۴۱)
جو چیز نظر نہ آئے تو وہ عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتی۔ مثلاً بہت سی احادیث میں آتا ہے کہ جب کوئی شخص کھانے پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لے تو شیطان بھی اس کے ساتھ کھانے لگتا ہے اور اگر دوران طعام بسم اللہ اولہ وآخرہ پڑھ لے تو شیطان کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اس نے جو کچھ کھایا تھا اسے بھی قے کر دیتا ہے۔ لیکن دوران طعام ہمیں نہ تو شیطان کھانا کھاتے ہوئے دکھائی دیتا ہے نہ کھانا اس کی طرف منتقل ہوتے ہوئے دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی ہمیں شیطان کی قے نظر آتی ہے اب اگر موصوف عذاب قبر کی طرح ان احادیث کا بھی صرف اسی بناء پر انکار کر دیں کہ انہیں دوران طعام ایسی کوئی چیز محسوس نہیں ہوتی اور ممکن ہے کہ وہ ان احادیث کو خلاف مشاہدہ پا کر ان کا انکار ہی کر دیں۔ایک حدیث میں آتا ہے جب انسان سوتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح نماز کے لئے نہیں اٹھتا اور سوتا رہتا ہے تو شیطان اس کے کان یا دونوں کانوں میں پیشاب کر دیتا ہے۔ بخاری وغیرہ۔ اب ہمیں نہ تو گدی پر کوئی گرہ نظر آتی ہے اور نہ ہی شیطان کا پیشاب دکھائی دیتا ہے۔ اب اگر یہ چیزیں ہمارے مشاہدے میں نہیں آ سکتیں تو کیا اپنے مشاہدے کے بل بوتے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا انکار کر دیا جائے۔ موصوف کے لئے تو یہ ممکن ہو سکتا ہے مگر ایک مومن کے لئے یہ بات بہت ہی دشوار ہے۔
شریعت کا عام قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ میت کو دفن کیا جائے اور چونکہ میت عام طور پر دفن کی جاتی ہے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اسی عام قاعدے کے مطابق ہے۔ اب جو میت سطح زمین پر رکھی ہوئی ہو یا اس کے اجزاء منتشر ہو گئے ہوں یا اسے مچھلی یا درندے ہڑپ کر گئے ہوں تو یہ استثنائی صورت ہو گی مگر عذاب و ثواب سے وہ بھی ضرور دو چار ہو گی سطح زمین پر رکھی ہوئی میت اور منتشر اجزاء کی قبر یہ فضا ہو گی اور مچھلی یا درندے کے پیٹ میں جانے والے کی قبر مچھلی یا درندون کا پیٹ ہو گا اور وہ قبر کے دبانے اور پسلیوں کے آر پار ہونے کو محسوس کرے گی۔ مگر جلد ہی انسانی جسم کے یہ ذرات تحلیل ہو کر زمین میں جذب ہو جائیں گے کیونکہ قیامت کے دن انسان ارضی قبر سے ہی اٹھایا جائے گا اور انسان زمین سے اس طرح اگیں گے جس طرح کہ سبزہ اگتا ہے۔ (تفصیل پیچھے گزر چکی ہے)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
18:استثنائی صورتیں​

مرنے کے بعد سے قیامت تک اس عذاب کو عذاب قبر کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ عموماً مرنے کے بعد میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور وہ قیامت تک زمین ہی کے اندر رہتا ہے۔ اسی طرح جو دفن نہ کیا جائے تو اس کے اجزاء بھی آخر کار زمین ہی میں جائیں گے کیونکہ قیامت کے دن انسان قبر ہی سے اٹھایا جائے گا۔ ورنہ تو عذاب کا سلسلہ قبض روح کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ علاج کرنے والے معالج کو عموماً ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔ اگر یہ ڈاکٹر اپنی کلینک میں مریضوں کا علاج کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مریضوں کا علاج کر رہے ہیں لیکن اگر وہ نماز ادا کر رہا ہو تو کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کر رہے ہیں اور اگر وہ کار چلا رہا ہوتو کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کار چلا رہے ہیں حالانکہ نماز ادا کرتے وقت وہ نمازی اور کار چلاتے وقت وہ ڈرائیور ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر نام چونکہ اس کی پہچان بن جاتا ہے اس لئے اسے ہر جگہ اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص استثنائی صورتوں کو پیش کر کے عذاب قبر کو جھٹلانے کی کوشش کرے تو اس سے یہی کہا جائے گا کہ یہ بھی عذاب قبر ہی ہے کیونکہ آخر کار میت کی منزل تو قبر ہی ہے اور رہا استثنائی صورتوں کا معاملہ تو اسے بطور مثال یوں سمجھئے کہ ایک مسلمان پر پنج وقتہ نماز کا ادا کرنا فرض ہے اور نماز کو ادا کرنے سے پہلے وضو کرنا نماز کے دوران قیام ‘رکوع‘سجود وغیرہ کا ادا کرنا فرض ہے مگر ایک شخص شدید بیمار ہونے کی بنا پر نہ وضو کرنے پر قادر ہے اور نہ ہی نماز کو معروف طریقے پر ادا کر سکتا ہے بلکہ وہ تیمم کر کے صرف اشارے سے نماز ادا کرتا ہے تو نماز ادا کرنے کی یہ صورت ’’استثنائی صورت ‘‘کہلائے گی۔ اگرچہ نماز کے وہ تمام معروف افعال اس نے ادا نہیں کئے مگر استثنائی صورت ہونے کی بنا پر اس شخص کی نماز ہو جائے گی۔

اب اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ جناب اس شخص نے نہ تو وضو کیا اور نہ ہی معروف طریقے سے نماز ادا کی لہذا اس کی نماز نہیں ہوئی کیونکہ اس نے نماز پڑھی ہی کہاں ہے ؟ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہو گا کہ اس شخص کی نماز ہو گئی اور معروف طریقے پر وہ نماز ادا نہ کر سکا کیونکہ اس میں شدید بیمار ہونے کی علت پائی گئی۔ بالکل اسی طرح سے عذاب اس شخص کو بھی ہو گا جو دفن نہں کیا گیا بلکہ اس کی لاش سطح زمین پر رکھی ہوئی ہے یا کوئی شخص جلا دیا گیا اور اس کے ذرات منتشر ہو گئے یا کسی شخص کو مچھلی یا درندہ ہڑپ کر گیااور فضلہ بن گیا۔ اب اگرچہ اس شخص کی قبر معروف طریقے کے مطابق نہ بن سکی اور دفن نہ ہونے کی علت اس میں پائی گئی مگر عذاب اسے بھی ہو گا اور اس کی قبر وہی مقام ہو گا جہاں اس کی لاش یا جسم کے اجزاء رکھے ہوئے ہیں۔

اسی طرح رمضان المبارک میں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک روزے رکھنا اور دن رات میں پانچ نمازیں ادا کرنا فرض ہیں مگر قطب شمالی ور قطب جنوبی کے علاقوں میں جہاں چھ ماہ کے دن اور چھ ماہ کی راتیں ہوتی ہیں تو وہاں روزہ رکھنے اور نمازیں ادا کرنے کی کیا صورت ہو گی؟ ظاہر بات ہے کہ یہ استثنائی صورت ہے اور وہاں کے رہنے والے لوگ وقت کا اندازہ کر کے پنج وقتہ نمازیں ادا کرتے ہیں اور رمضان المبارک کے روزے بھی رکھتے ہیں۔
اب یہ تو ممکن نہیں کہ وہاں کے لوگ چھ ماہ کے طویل (تقریباً ۴۳۲۰ گھنٹے کے)دن کا صرف ایک روزہ رکھتے ہوں اور چھ ماہ کے اس طویل دن میں صرف تین نمازیں ادا کرتے ہوں اور حقیقتاً وہاں ایسا نہیں ہوتا۔
ہم نے سمجھانے کی خاطر یہ دو مثالیں بیان کی ہیں ورنہ اگر آپ غور کریں گے تو دین کے ہر مسئلہ میں استثنائی صورتوں کی بے شمار مثالیں آپ کو مل جائیں گی۔

عقلیات کے موجودہ دور میں شیاطین جن کی طرح شیاطین انس بھی لوگوں کو اس طرح کے عقلی ڈھکوسلے خوب مدل اور دلفریب کر کے دکھاتے ہیں تا کہ اس طرح سادہ لوح عوام کتاب و سنت کو جھٹلا کر عقلیات پر ایمان لے آئیں لہذا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ سورۃ الناس کو کثرت سے پڑھیں اور اس کی آخری دو آیتوں پر خوب غوروخوض کریں کیونکہ اس سورۃ میں شیاطین جن کے ساتھ ساتھ شیاطین انس سے بھی پناہ مانگی گئی ہے جو دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں اور ذہنوں کو ایمان کے خلاف شکوک و شبہات سے آلودہ کر دیتے ہیں۔ کیونکہ میں نے جن دوستوں سے بھی عذاب قبر کی بات کی اور انہیں سمجھایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے عذاب القبر حق قبر کا عذاب حق ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ قبر میں تو کچھ ہوتا ہی نہیں اس لئے یہاں عذاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ عذاب وغیرہ برزخ میں ہوتا ہے۔ تو میں نے کہا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان غلط ہو سکتا ہے؟(نعوذ باللہ) اور بقول آپ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرمانا چاہئے تھا کہ عذاب البرزخ حق ۔ برزخ کا عذاب حق ہے۔
میرے دوست عذاب قبر ہی میں ہوتا ہے مگر ہمارے اور مردے کے درمیان برزخ حائل ہوتی ہے اور ہم عذاب کو محسوس نہیں کر سکتے کیونکہ یہ سب پردہ غیب کا معاملہ ہے مگر قرآن و حدیث کے دلائل سے قائل ہونے کے بجائے انہوں نے عقلی ڈھکوسلے بیان کرنا شروع کر دئیے اور عذاب قبر کے بجائے عذاب برزخ ہی پر مصر رہے میت کو عذاب دئیے جانے کی بات آئی تو وہ صرف روح کو عذاب دئیے جانے کے قائل نکلے وغیرہ وغیرہ۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ:۔
’’ خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
19:عذاب قبر کے مسئلہ کا ایک آسان حل​

عذاب قبر کے سلسلہ میں اگر ساری بحث کو سمیٹا جائے تو عذاب قبر کے الفاظ ہی سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ عذاب القبر صرف دو الفاظ کا مرکب ہے اور اس کا مطلب ہے قبر کا عذاب۔ اب عذاب کے تو موصوف بھی قائل ہیں اور وہ عذاب کا انکار نہیں کرتے۔ اب صرف قبر کے معاملے میں اختلاف باقی رہ جاتا ہے۔تو اس سلسلہ میں ہم قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ قبر کسے کہتے ہیں؟ تو قرآن و حدیث سے یہ واضح ہے کہ قبر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ مسئلہ آسانی سے حل ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ قبر کے معاملے میں کھلا فریب دیا جاتا ہے اور قرآن و حدیث میں زبردست تحریف کی جاتی ہے۔
اب یہ اعتراض کہ میت کے ثواب و عذاب کو آخر ہم کیوں محسوس نہیں کرتے تو جس طرح ایک سونے والے پر جو حالات گزرتے ہیں اس سے ہم بے خبر ہوتے ہیں ‘اسی طرح میت کا معاملہ بھی پردہ غیب میں ہوتا ہے کیونکہ جس طرح نافرمان انسان کی روح جب قبض ہو رہی ہوتی ہے تو نزع کے عالم میں فرشتے اس کی روح نکالنے کے لئے اسے ضربیں لگاتے ہیں مگر یہ کاروائی تمام لوگوں سے پوشیدہ ہوتی ہے۔
سونے والے کی مثال ہمارے لحاظ ہے تا کہ ہم یہ مسئلہ اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ورنہ پردہ غیب میں اس میت کو بھی جسکے اجزاء متفرق ہو چکے ہوں اکٹھا کر کے دوبارہ جسد عنصری عطا کیا جاتا ہے (جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ایک شخص کے واقعہ میں ضمناً اسکا تذکرہ آیا ہے)اور اس جسد عنصری کو فولادی گرز سے مار کر ریزہ ریزہ کر دیا جاتا ہے اور پھر اسے دوبارہ جسد عنصری دے کر فولادی گرز سے مارا جاتا ہے اور جب وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے تو دوبارہ اسے جسم دیا جاتا ہے۔ جب میت کے ساتھ یہ کاروائی ہوتی ہے تو وہ چیختی چلاتی بھی ہے اور اسکی چیخ و پکار کو قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں مگر انسان و جنات اسے سننے پر قادر نہیں ہوتے۔ البتہ جو شخص غیب پر ایمان لانے کا قائل ہی نہ ہو تو ایسے شخص کو یہ مسئلہ سمجھانا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ متشابہات کو محکمات کی طرح سمجھانا ہمارے بس سے باہر ہے۔ ہم تو ہر وہ چیز تسلیم کرتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی ہے۔ متشابہات کو محکمات کی طرح سمجھنے سے منع بھی فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے:۔
ھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہَاتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلاَّ اﷲُ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلاَّ اُولُوا الْاَلْبَابِ۔ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔ (آل عمران:۷، ۸)
’’ اللہ وہی ذات ہے جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں ایک محکمات ‘ جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ‘ وہ فتنے کی تلاش میں متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں ‘ حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا بخلاف اس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے۔ یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں (وہ اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں) پروردگار جب تو ہمیں سیدھے راستے پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کر دیجیؤو۔ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطاء کر کہ تو ہی فیاض حقیقی ہے ‘‘۔

موصوف نے کئی جگہ اپنے خود ساختہ نظرئیے کے اثبات کے لئے اور لوگوں کے ذہنوں کو مرعوب کر نے کے لئے قرآن‘حدیث‘ اجماع صحابہ کرامؓ ‘امام ابوحنیفہؒ اور امام بخاریؒ کا نام لیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کھوکھلے دعوے ہیں اور اس طرح کے دعوے کر کے عوام کو مغالطے میں مبتلا کیا گیا ہے۔ امام بخاریؒ کا عقیدہ تو صحیح بخاری میں کتاب الجنائز پڑھ کر اور احادیث پر ان کے قائم کردہ ابواب کی ترتیب دیکھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے اور امام ابو حنیفہ ؓ کا عقیدہ آگے فقہ اکبر کے حوالے سے آرہا ہے۔
یہ بات بڑی تعجب انگیز ہے کہ جس مسئلہ پر (موصوف کے نزدیک) صحابہ کرام ؓ کا اجماع تھا صحابہ کرامؓ کا دور گزرتے ہی صرف دو اشخاص یعنی امام ابو حنیفہؒ اور امام بخاریؒ اس عقیدے کے حامل بچے اور باقی اکثریت نے امام احمد بن حنبلؒ کا عقیدہ اختیار کر لیا یہ توبالکل اس طرح کی بات ہے جو شیعہ حضرات کہتے ہیںکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام صحابہ کرام ؓ (نعوذ باللہ) مرتد ہو گئے تھے سوائے تین چار صحابہ کرامؓ کے۔انہوں نے شجر اسلام کی جڑ ہی پر وار کر دیا اور موصوف نے تنا کاٹنا شروع کر دیا۔سوچیں کہ کس قدر خطرناک تحریک ہے جو موصوف نے شروع کر رکھی ہے اور اس کے مضمرات پر جتنا بھی غور کیا جائے معاملہ اتنا ہی سنگین ہوتا چلا جائے گا۔
موصوف نے امام بخاریؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ امام مسلم ؒ کا نام شامل نہیں کیا۔غالباً امام احمد بن حنبلؒ اور دوسرے محدثین کی طرح انہوں نے ان کو بھی ٹھکانے لگا دیا ہے۔
غرض یہ کہ موصوف کا یہ نظریہ اتنا کھوکھلا اور ناپائیدار ہے کہ ان کے یہ دعوے دیوانے کی بڑ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
20:باب کلام المیت علی الجنازۃ​

موصوف میت کے عذاب‘شعور اور کلام کے بالکل ہی منکر ہیں مگر درج ذیل حدیث ان کے اس باطل نظرئیے کے توڑ کے لئے کافی وشافی ہو گی(ا ن شاء اللہ)اور ہم نے صحیح بخاری کے کتاب الجنائز کے اس باب کو اپنا عنوان بنایا ہے جسے امام بخاریؒ نے بھی اس حدیث کا باب قرار دیا ہے۔ حدیث یہ ہے۔
عَنْ أَبِيْ سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِي اللَّه عَنْهم أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا وُضِعَتِ الْجِنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْئٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَهُ صَعِقَ * (رواہ البخاری باب کلام المیت علی الجنازۃ)
جناب ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے اور لوگ اس کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں اگر وہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو (مجھے جلدی لے چلو )اور اگر برا ہوتا ہے تو کہتا ہے (اور دوسری روایت میں ہے اپنے گھر والوں سے کہتا ہے )افسوس تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو انسان کے سوا تمام چیزیں اس کی آواز سنتی ہیں۔ اور اگر اس کو انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے‘‘۔

امام بخاریؒ نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے۔ ’’باب کلام المیت علی الجنازۃ‘‘۔یعنی جنازہ پر میت کے کلام کرنے کا بیان۔اور دوسرے مقام پر یوں باب باندھا ہے۔ باب قول المیت وھو علی الجنازۃ قدمونی یعنی میت کا یہ کہنا جب کہ وہ ابھی جنازہ پر ہوتا ہے مجھے جلدی لے چلو۔معلوم ہوا کہ امام بخاریؒ کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ انسان جب مرتا ہے تو اس کی میت کلام کرتی ہے اور یہ کلام بھی ایسا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے پردہ غیب میں نہ رکھاہوتا تو انسان اسے سن کر بیہوش ہو جاتا یا ہلاک ہو جاتا۔ بخاری کی دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں قَالَتْ لِاَھْلِھَا یعنی میت اپنے گھر والوں سے کہتی ہے یہ اور اوپر کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہی لاشہ (مردہ) کلام کرتا ہے کیونکہ وہ عالم برزخ میں جا کر اپنے گھر والوں سے تو کلام کرنے سے رہا۔
موصوف بھی دل ہی دل میں کہتے ہوں گے کہ امام بخاری ؒ بھی کتنے بڑے بدعقیدہ نکلے جو میت کے کلام کے بھی قائل ہیں ( العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ) اگرچہ عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مردہ کیسے کلام کر سکتا ہے مگر چونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات ہے اس لئے اٰمَنَّاوَصَدَّقْنَا اب کسی مومن کے لئے چوں چراں کی کوئی گنجائش نہیں۔
وَمَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَّلَا مُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَعْصِ اﷲِ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً مُّبِیْنًا (احزاب ۳۶)
’’ کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرماتے ہیں وہ ان کی اپنی بات نہیں ہوتی بلکہ وہ وحی ہوتی ہے جو ان پر کی جاتی ہے۔ لیکن صحیح بخاری کی اس حدیث پر موصوف نے کیا تبصرہ کیا ہے انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔
’’بخاری کی اس حدیث کے بعد انہی کی دوسری حدیث کو لا کر کہا جاتا ہے کہ دیکھو مردہ کاندھے پر جب اٹھایا جاتا ہے تو بولنے لگتا ہے نیک ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو اور برا ہے تو چیختا ہے کہ ہائے ہائے کہاں لئے جا رہے ہو۔ بھائی اس حدیث میں تو صاف آ گیا کہ یہ مردہ ہے زندہ نہیں پھر اس سے زندگی کا اثبات کیسا رہا اس کا بولنا تو قرآن کی متشابہات کی طرح اس حدیث کی اصلی تاویل کسی کے پاس نہیں کوئی کہتا ہے کہ روح بولتی ہے کسی کا کہنا ہے کہ یہ زبان حال کا قول ہے۔ بہر حال یہ مردہ ‘مردہ ہے زندہ نہیں۔ ورنہ اگر کاندھے کے پاس بولے تو اٹھانے والا کیوں نہ سنے گا۔ بخاری نے بھی باب باندھ کر بتلا دیا کہ وہ اس کو مردہ مانتے ہیں بولنے والا زندہ نہیں۔(عذاب قبر ص۱۶‘۱۷)

اس عبارت کو پڑھئیے اور موصوف کی بدحواسی کا اندازہ لگائیے۔اگر یہ حدیث بخاری کے علاوہ کسی اور کتاب میں ہوتی تو جھٹ موضوع قرار دے دی جاتی لیکن چونکہ یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے اور امام بخاریؒ کی عظمت کے موصوف بھی کچھ قائل ہیں۔ لہذا دو راز کارقسم کی باتیں کر کے جان خلاصی کی کوشش کی ہے۔موصوف اگرچہ ابھی پورے منکر حدیث نہیں بنے ہیں کیونکہ ابھی وہ ارتقائی دور سے گزر رہے ہیں اور اپنے مطلب کی تمام احادیث بلکہ سلف کے اقوال بھی مانتے ہیں اور جو احادیث ان کے نظریات کے خلاف ہوں انہیں کسی طرح ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ فرماتے ہیں اس حدیث میں تو صاف آ گیا کہ یہ مردہ ہے زندہ نہیں۔بھائی کس نے آپ سے کہہ دیا کہ وہ مردہ نہیں ہے۔ افسوس صد افسوس آپ کی عقل پر تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے یہاں بات تو ساری میت (مردہ) ہی کے بارے میں ہو رہی ہے۔ راحت قبر یا عذاب قبر زندہ کو تو نہیں ہوتا۔مرنے کے بعد سے قیامت تک کے تمام مراحل سے مردہ ہی گزرتا ہے اب اس کی اس حیات کو جس میں وہ راحت و آرام سے گزرے یا عذاب سے اسے قبر کی زندگی کہہ لیں یا برزخی زندگی کہہ لیں بات تو ایک ہی بنتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو حیاۃ فی القبر کے نام سے مغالطہ ہوا ہے تو عرض ہے کہ یہ وہی حیات ہے جسے آپ حیاۃ فی البرزخ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔اب رہا یہ مسئلہ کہ مردہ شعور رکھتا ہے یا نہیں تو یہ اور اس طرح کی بہت سی احادیث بتا رہی ہیں کہ مردہ نہ صرف شعور رکھتا ہے بلکہ وہ راحت و آرام کو محسوس کرتا ہے اور عذاب کو بھی۔ وہ کلام بھی کرتا ہے جسے ہم اور آپ نہیں سن سکتے اس زندگی کو اگر آپ دنیا میں کسی چیز سے تشبیہ دینا چاہیں تو وہ حالت نوم ہے جس میں سونے والا راحت و آرام اور دردو الم تمام کیفیات سے گزرتا ہے اور ان تمام کیفیات کو پوری طرح محسوس کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے چہرے سے بھی کبھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کی مسکراہٹ بتا دیتی ہے کہ وہ راحت و آرام میں ہے اور کوئی حسین خواب دیکھ رہاہے یا اس کا خوف زدہ چہرہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہے۔ نائم اور مردہ میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف اتنا کہ نائم کی خوشی اورخوف کو انسان بھانپ لیتا ہے لیکن مردہ کا معاملہ چونکہ پردہ غیب یعنی برزخ سے ہے اس لئے اس کا اظہار نہیں ہوتا اور ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
موت اور نیند میں مشابہت​

قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نیند کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح مرنے والے کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے اور وہ مر جاتا ہے بالکل اسی طرح سونے والے کی روح بھی نیند کی حالت میں اس کے بدن سے نکال لی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
وَھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰیٓ اَجَلٌ مُّسَمًّی ثُمَّ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُم بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (الانعام:۶۰)
’’ اور وہی ہے جو رات کو تمہیں موت سے ہمکنار کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے پھر تم کو (زندہ کر کے) اٹھا دیتا ہے اس میں تا کہ پورا ہو وہ وعدہ (زندگی) جو مقرر ہو چکا ہے۔ آخر کار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ‘‘۔
قرآن کریم کی اس آیت میں سونے والے کے لئے یَتَوَفّٰکُمْ (وہ تمہیں موت دیتا ہے) کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جس طرح عارضی موت کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں بالکل اسی طرح حقیقی موت کے لئے بھی قرآن کریم نے یہی الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مثلاً:
وَاﷲُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰکُمْ (النحل) ’’اور اللہ نے تم کو پیدا کیا پھر وہ تم کو موت دیتا ہے …
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔
اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰیٓ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (زمر:۴۲)
’’ وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور فکر کرتے ہیں‘‘۔

اس آیت میں موت اور نیند دونوں کے لئے بیک وقت یَتَوَفّٰی(وہ موت دیتا ہے) کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ توفی کے اصل معنی لینے اور پورا پورا وصول کرنے کے ہیں۔موت پر اس کا اطلاق مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ موت اور نیند کے وقت روح پوری طرح بدن سے نکال لی جاتی ہے۔ اس آیت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح موت کے وقت روح کو بدن سے نکال لیا جاتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی روح بدن سے نکال لی جاتی ہے۔البتہ جس شخص کی زندگی ابھی باقی ہوتی ہے اس کی روح کو دوبارہ اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس طرح بار بار ’’ اعادہ روح‘‘ ہوتا رہتا ہے اس آیت کی مزید وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ نے روایت کیا ہے۔ جناب ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص بستر خواب پر آئے تو بسم اللہ کہہ کر اپنے بچھونے کو اپنی ازار کے کنارے سے تین بار جھاڑلے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بچھونے پر کیا چیز آ گئی۔ پھر داہنی کروٹ لیٹے پھر یہ دعا پڑھے:۔
بِاسْمِكَ رَبِّىْ وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ (بخاری و مسلم مشکوۃ ص۲۰۸)
’’تیرے ہی نام سے اے میرے رب میں نے اپنا پہلو(بستر پر) رکھا اور تیری ہی مدد سے اس کو اٹھائوں گا اگرتو میرے نفس (روح) کو روک رکھے (یعنی مجھے موت دے دے) تو اس کو بخش دے اور اگر تو اس کو چھوڑ دے (تا کہ پھر جسم میں آئے) تو اس کی حفاظت کر اس چیز کے ساتھ جس کے ساتھ تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے‘‘۔
جناب حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی خواب گاہ میں تشریف لائے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ کر لیٹتے پھر یہ فرماتے :۔
اَللّٰہُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا
’’ اے اللہ تیرے نام سے مرتا ہوں اور تیرے نام سے جیوں گا‘‘۔​
اور جب بیدار ہوتے تو یہ فرماتے:
اَلْحَمْدُ ﷲِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَآ اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (رواہ البخاری و مسلم عن البراء مشکوۃ ص۲۰۸ جلد ۱)
’’ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد جلا دیا اور اسی کے پاس (مرنے کے بعد) زندہ ہو کر جانا ہے‘‘۔​
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوتے وقت اور بیدار ہوتے وقت بھی نیند کے لئے موت کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اے اللہ تیرے نام سے سوتا ہوں اور تیرے ہی نام سے نیند سے بیدار ہوں گا۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اے اللہ تیرے نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے جیوںگا‘‘۔اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب سے بیدار ہوتے تو فرماتے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا۔ سنن ترمذی میں بیدار ہوتے وقت کی دعا ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے:۔
اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ اَحْیَا نَفْسِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَھَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن صحیح)
’’اللہ کا شکر ہے جس نے میرے نفس کو مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کے پاس (مرنے کے بعد )زندہ ہو کر جانا ہے‘‘۔​
ایک حدیث میں بیدار ہوتے وقت کی دعا ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے:۔
اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ رَدَّ عَلَیَّ رُوْحِیْ وَعَافَانِیْ فِیْ جَسَدِیْ وَاَذِنَ لِیْ بِذِکْرِہٖ (رواہ ابن السنی صفحہ ۵ و صححہ النووی فی الاذکار صفحہ ۱۱ و رواہ الترمذی وحسنہ جلد ۲ ص ۱۹۵ بحوالہ خیار الدعوات ص ۳۳ مؤلف مولانا حافظ محمد عبدالرحمن بقا محدث غازی پوری)
’’ اللہ کا شکر ہے جس نے میری روح میرے پاس پھیر دی اور مجھ کو میرے جسم میں عافیت دی اور مجھ کو اپنے ذکر کرنے کی اجازت دی‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:۔
اَلْحَمْدُ ﷲِ الَّذِیْ رَدَّ عَلَیَّ نَفْسِیْ وَلَمْ یُمِتْھَا فِیْ مَنَامِھَا​
الخ
’’ اللہ کا شکر ہے جس نے میرا نفس (روح) میرے پاس پھیر دیا اور اس کو اس کے سونے کی حالت میں نہ مار ڈالا…‘‘​
۔(رواہ الحاکم وہذالفظہ وقال صحیح علی شرط مسلم رواہ النسائی و ابو یعلی وا بن حبان و صححہ والبخاری فی الادب المفرد صفحہ ۱۷۷ الترغیب والترہیب صفحہ ۱۲۲ بحوالہ خیار الدعوات ص۳۵)
جناب ابوجحیفۃ ؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں سو گئے یہاں تک کہ سورج نکل آیا پس انہوں نے ارشاد فرمایا:۔
اِنَّکُمْ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَرَدَّ اﷲُ اِلَیْکُمْ اَرْوَاحَکُمْ
’’ بے شک تم مردے تھے پس اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف تمہاری روحوں کو لوٹا دیا‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبتہ (ج ۲ ص۶۴، ج۱۴ ص۲۶۲)وقال الہیثمی : رواہ ابو یعلی والطبرانی فی الکبیر ورجالہ ثقات (مجمع الزوائد ‘۱/ ۳۲۲)وقال الشیخ الالبانی اخرجہ ابن ابی شیبہ (۱/۱۹۰) باسناد صحیح (ارواء الغلیل ‘۱/ ۲۹۳)
دوسری حدیث میں ہے :۔
اِنَّ اﷲَ قَبَضَ اَرْوَاحَکُمْ حِیْنَ شَآئَ وَ رَدَّھَاعَلَیْکُمْ حِیْنَ شَآئَ
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے جب چاہا تمہاری روحیں قبض کر لیں اور جب چاہا انہیں تمہاری طرف لوٹا دیا‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ باب الاذان بعد ذھاب الوقت)
جناب ذومخبر ؓ کی روایت میں ہے :
لا قبض اللہ عزوجل ارواحنا و قد ردھا الینا و قد صلینا(مسند احمد (۴/۹۱) البدایۃ والنھایۃ(۵/۳۳۴)و قال الھیثمی :رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط ورجال احمد ثقات (مجمع الزوائد ۱/۳۲۰ )
’’نہیں ، اللہ عزوجل نے ہماری روحوں کو قبض کیا تھا اور تحقیق ہماری طرف لوٹا دیا اور ہم نے نماز پڑھ لی‘‘۔​
ابو قتادہ انصاریؓ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
ولکن ارواحنا کانت بید اللہ فارسلھا انی شاء (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی من نام من صلاۃ او نسیھا)
’’اور لیکن ہماری روحیں اللہ کے ہاتھ میں تھیں اور اس نے جب چاہا انہیں ہماری طرف بھیج دیا‘‘۔​
ان احادیث کے علاوہ بھی بہت سی احادیث اس مضمون پر موجود ہیں لیکن طوالت کے خوف سے انہیں نقل نہیں کیا گیا نیز ان احادیث کو بھی اختصار سے نقل کیا گیا ہے ۔

یہ تمام احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ سوتے وقت انسان عارضی طور پر مر جاتا ہے اور اس کے جسم سے روح نکال لی جاتی ہے اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو اس میں دوبارہ روح لوٹا دی جاتی ہے اور وہ زندہ ہو جاتا ہے لیکن روح کے اخراج کے باوجود بھی اس میں زندگی نظر آتی ہے اور کبھی کبھی یہ سویا ہوا انسان نیند میں باتیں بھی کرنے لگتا ہے جسے دوسرے لوگ سنتے بھی ہیں حالانکہ اس وقت روح اس میں موجود نہیں ہوتی اور روح کی عدم موجودگی کے باوجود یہ لاشہ بستر پر کلام کرتا ہے بالکل اسی طرح مرنے کے بعد بھی میت کلام کرتی ہے لیکن چونکہ یہ برزخی زندگی ہے جو ایک غیر محسوس حیات ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے ہم سے پردہ غیب میں رکھا ہے لہذا میت کی برزخی زندگی کو ہم محسوس نہیں کر سکتے۔ اس پر جو جو حالات گزرتے ہیں جن کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ احادیث میں آیا ہے وہ اگرچہ ہماری نگاہوں سے روپوش ہوتے ہیں مگر وہ سب رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان کا انکار بہت مشکل ہے۔ایک سونے والا نیند میں جن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے پاس بیٹھا ہوا دوسرا انسان ان تمام واقعات سے بے خبر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام خواب دیکھتے ہیں اور پھر اپنے بیٹے جناب اسماعیل علیہ السلام سے فرماتے ہیں:۔
یٰبُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی قَالَ یٰٓابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اﷲُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصافات:۱۰۲)
’’ بیٹا میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا ابا جان جو کچھ آپکو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالئے آپ ان شا ء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔
جناب ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر جناب اسماعیل علیہ السلام کے سامنے اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور جناب اسماعیلؑ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ محض خواب کا معاملہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے چنانچہ وہ اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر تے ہیں۔اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں نافرمان انسانوں کو عذاب ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور جنت کا مشاہدہ بھی کرایا جاتا ہے (اس روایت کو موصوف نے تفصیل کے ساتھ اپنے کتابچہ عذاب قبر میں نقل کیا ہے) جناب ابراہیم علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجسام اگرچہ اپنے بستروں پر موجود تھے اور پاس سوئی ہوئی ازواج مطہرات کو بھی احساس نہ ہو سکا کہ ان پیغمبروں پر خواب میں کیا حالات گزر رہے ہیں مگر جب انہوں نے یہ واقعات بیان کئے تو کسی نے بھی ان پر تعجب کا اظہار نہ کیا۔اسی طرح میت پر جو جو حالات برزخی زندگی میں گزرتے ہیں ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک غیر محسوس حیات ہے اور اسی حیات کی بناء پر مردہ جنازہ پر کلام کرتا ہے اور اسی کی بدولت وہ قبر میں راحت یا عذاب محسوس کرتا ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
22:قبر کی برزخی زندگی نیند سے مشابہہ ہے​

اسی طرح قرآن کریم میں قبر کی برزخی زندگی کے لئے نیند کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں چنانچہ قیامت کے دن جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو گناہ گاروں کی زبانوں پر یہ فقرہ ہو گا :۔
یٰوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا (یٰس آیت ۵۲)
’’ اے ہماری خرابی کس نے ہم کو ہماری نیند کی جگہ سے اٹھا دیا‘‘۔​
حافظ ابن کثیر ؒ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:۔
’’ اس سے قبر کے عذاب کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ جس ہول و شدت کو جس تکلیف اور مصیبت کو یہ اب دیکھیں گے اس کی بہ نسبت تو قبر کے عذاب بے حد خفیف ہی تھے گویا کہ وہ وہاں آرام میں تھے۔ بعض نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے پہلے ذرا سی دیر کے لئے فی الواقع انہں نیند آ جائے گی۔ جناب قتادہؒ فرماتے ہیں پہلے نفخہ اور اس دوسرے نفخہ کے درمیان سو جائیں گے اس لئے اب اٹھ کر یوں کہیں گے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص۳۵۰)
’’مرقد‘‘ کے علاوہ ’’رقود‘‘ کا لفظ بھی قرآن کریم میں آیا ہے جس کی واحد راقد (سونے والا) ہے۔
وَتَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّھُمْ رُقُوْدٌ (کھف:۱۸)
’’ اور اے (مخاطب) تو ان (اصحاب کہف) کو جاگتا ہوا خیال کرتا حالانکہ وہ سوتے تھے‘‘​
برزخی زندگی کو احادیث میں بھی نیند کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے ’’ تم میں سے ہر اک کے پاس فرشتے آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تجھے اس شخص کے بارے میں کیا علم ہے پس مومن یا ہشام راوی نے کہا کہ یقین رکھنے والا موقن کہتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔وہ کھلی کھلی نشانیاں اور راہ ہدایت لے کر ہمارے پاس آئے پس ہم ایمان لائے اور ہم نے ان کی پکار پر لبیک کہی ہم نے ان کی پیروی اور ان کی تصدیق کی اب اس سے کہا جاتا ہے کہ آرام سے سو جا(نَمْ صَالِحاً)۔ ہم جانتے ہیں کہ تو ان پر ایمان لانے والا تھا۔(صحیح بخاری بحوالہ۔ توحید خالص دوسری قسط ص۳۲‘۳۳)
دوسری حدیث میں ہے :
فَیَقُوْلَانِ نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعُرُوْسِ الَّذِیْ لَا یُوْقِظُہٗ اِلَّا اَحَبَّ اَھْلِہٖ اِلَیْہٖ حَتّٰی یَبْعَثَہُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِہٖ ذٰلِکَ (رواہ الترمذی عن ابی ھریرہ مشکوۃ ص ۲۵ و سند حسن وھو علی شرط مسلم (مشکوۃ تحقیق علامہ الالبانی ج ۱ ص ۴۷)۔
’’(فرشتے اس میت سے) کہتے ہیں تو سوجا جس طرح وہ دلہن سوتی ہے جس کا جگانے والا وہی شخص ہو سکتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے (یعنی اس کا شوہر) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو اس جگہ سے (قیامت کے دن زندہ کر کے) اٹھائے‘‘۔
یہ احادیث وضاحت کرتی ہے کہ برزخی زندگی نیند سے مشابہ ہے۔ ہاں اگر موصوف یہ کہیں کہ قرآن کریم میں مردہ کے شعور کی کلی طور پر نفی کی گئی اور دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کریں:۔
اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَّمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ (نحل۔۲۱)
’’ یہ مردہ ہیں ان میں زندگی کی رمق تک باقی نہیں اور ان کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ (قبروں سے) کب اٹھائے جائیں گے‘‘۔​
تو ہم عرض کریں گے کہ یہ اور اس طرح کی دوسری آیات حیات دنیوی کی نفی کرتی ہیں اور بلا شبہ میت میں دنیاوی زندگی کی رمق بھی باقی نہیں رہتی البتہ زندگی کے جن مراحل سے وہ اب گزر رہا ہے وہ برزخی حیات ہے اور برزخی حیات کا ثبوت خود قرآن کریم میں موجود ہے رہا یہ اعتراض کہ ان کو تو یہ شعور بھی نہیں کہ وہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے تو اس میں مردہ کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ زندہ انسانوں کو بھی اس کا مطلق شعور نہیں ہے کہ وہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے یا یہ کہ قیامت کب برپا ہو گی کوئی بھی اس کا علم یا شعور نہیں رکھتا۔

موصوف سے کچھ اور نہ بن سکا تو جھٹ سے اس واضح حدیث کو متشابہات میں سے قرار دے دیا تا کہ کسی طرح اس حدیث کا جواب دینے سے جان چھڑائی جا سکے۔کوئی عقل کا اندھا ہی ہو گا جو اس واضح حدیث کو متشابہات میں سے قرار دے گا۔ بس بات صرف ایمان کی ہے جو مومن ہو گا فوراً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر لبیک وسعدیک کہے گا اور جسکے دل میں زیغ ہو گا وہ کبھی ماننے کے لئے تیار نہ ہو گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ میت کلام کرتی ہے۔ امام بخاریؒ کا اللہ بھلا کرے انہوں نے بھی دو جگہ باب باندھ کر اس بات کو الم نشرح کر دیا۔مگر موصوف کی تذبذب کی حالت ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں۔ ’’کوئی کہتا ہے کہ روح بولتی ہے کسی کا کہنا ہے کہ یہ زبان حال کا قول ہے ‘‘ واہ رے ایمان ڈاکٹر عثمانی کیاایمان اسی تذبذب کا نام ہے۔ آگے لکھتے ہیں ’’ اگر میت کاندھے کے پاس بولے تو اٹھانے والا کیوں نہ سنے‘‘۔ بھائی!نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما تو دیا کہ انسان کے سوا تمام چیزیں اس کی آواز کو سنتی ہیں۔ انسان نہیں سن سکتا چاہے وہ کاندھا دینے والا ہو یا جنازہ میں شریک ہونے والا ہو۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ موصوف نے کس کس طرح سے حدیث کو جھٹلانے کی کوشش کی ہے۔​
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
23:کیا دینی معاملات میں عقل معیار بن سکتی ہے ؟​

آئیے چند ایسی احادیث کا مطالعہ کریں جو بظاہر عقل ظاہری کے خلاف نظر آتی ہیں کیونکہ اگر عقل کو بھی عقل سلیم نصیب ہو جائے تو وہ حقیقت کی ان باریک باتوں کی تہہ تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔
(۱) ’’ جناب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ دے۔اس لئے کہ شیطان (منہ کے) اندر داخل ہو جاتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم کتاب الزھد والرقاق)۔
’’ جناب ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جمائی لینا شیطان کی طرف سے ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو حتی الامکان اس کو روکے کیونکہ جب جمائی لیتے وقت کوئی ہا کہتا ہے تو شیطان ہنستا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب بدا الخلق)۔
جناب انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شیطان انسان کی رگوں میں اس طرح دوڑتا ہے جس طرح خون جاری و ساری رہتا ہے ‘‘۔(بخاری و مسلم)
شیاطین اور جنات کا انسانوں کے ساتھ جو گہرا تعلق ہے وہ کسی مبتدی طالب علم سے بھی پوشیدہ نہیں وہ انسان کے ساتھ کھانے پینے اور دیگر کاموں میں شریک رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ انسان میں اس طرح گردش کرتے ہیں کہ جیسے خون انسان کی رگوں میں گردش کرتا ہے لیکن کیا کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اس وقت اس کے جسم کے کس گوشے میں موجود ہے ؟ ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص سر سید احمد خان (فرقہ نیچریت کے سربراہ)کی طرح ان کے وجود ہی کا انکار کر دے اور فرشتوں کو نیکی اور شیاطین کو بدی کی مجرد قوتیں ہی سمجھ لے۔ موصوف کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کا بھی انکار کر دیں۔

(۲) جناب ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ زمین قیامت کے دن ایک روٹی کی طرح ہو گی اور اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ہاتھ میں جنت والوں کی مہمانی کے لئے سمیٹ لے گا جس طرح تم میں سے ایک شخص سفر میں اپنی روٹی اپنے ہاتھ میں سمیٹ لیتا ہے۔ یہود میں سے ایک شخص آیا اور کہا اے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ آپ پر برکت نازل فرمائے کیا میں قیامت کے دن اہل جنت کی دعوت کے متعلق آپ کو خبر نہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا کہ زمین ایک روٹی کی طرح ہو جائے گی جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اسی طرح اس نے کہا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کی طرف دیکھا پھر ہنسے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک کھل گئے پھر فرمایا کیا میں تم کو ان کے سالن کے متعلق نہ بتلائوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا سالن بالام ونون ہو گا لوگوں نے عرض کیا یہ کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیل اور مچھلی ہیں جن کی کلیجی کی نوک سے ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔(بخاری و مسلم)
یہ حدیث بھی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اس میں فرمایا گیا ہے کہ زمین ایک روٹی کی طرح ہو گی اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ جنت والوں کی میزبانی فرمائیں گے۔ نُزُلاً لِاَھْلِ الْجَنَّۃِ زمین کو روٹی بنا کر جنتیوں کو کھلایا جائے گا اور جنتیوں کا سالن کیا ہو گا؟ وہ بیل اور مچھلی ہیں جن کی صرف کلیجی کی نوک سے ستر ہزار آدمی کھانا کھائیں گے۔ موصوف کو چاہئے کہ وہ اس حدیث کا بھی انکار کر دیں۔
(۳) جناب قتادہ ؒ‘ جناب انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کا حشر چہروں کے بل کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا وہ ذات جس نے دنیا میں اس کو پائوں کے بل چلایاکیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اس کو قیامت کے دن چہرے کے بل چلائے۔قتادہ ؒ نے کہا ہاں قسم ہمارے پروردگار کی عزت کی (ضرور قادر ہے)۔ (صحیح بخاری باب کیف الحشر ومسلم ‘ولفظہ للبخاری)
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کافروں کو پیروں کے بجائے سر کے بل چلائے گا یہ کیسے اور کیونکر ہو گا؟عقل اسے سمجھنے سے قاصر ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ جو ذات انسان کو دنیا میں پیروں پر چلانے پر قادر ہے وہ قیامت کے دن سر کے بل بھی چلا سکتی ہے۔ موصوف ایک مقام پر فرماتے ہیں ’’ اگر کہا جائے کہ مردہ کا جسم ریزہ ریزہ ہو جائے یا آگ اسے جلا کر خاکستر کردے تو جلا دیا جانے والا کافر عذاب سے بچ گیا اس کے دونوں کانوں کے درمیان گرز کیسے مارا جائے گا اور عذاب کا دور اس پر کیسے گزرے گا تو اللہ کی قدرت اور ان اللہ علی کل شیء قدیر۔کا سہارا لیا جاتا ہے۔ سبحان اللہ۔ اللہ کی قدرت سے کس کو انکار ہے لیکن قدرت کے ساتھ ساتھ اللہ کی ایک نہ بدلنے والی سنت بھی تو ہے اس کو نظر انداز کر دینا بھی تو اچھا نہیں۔(عذاب قبر ص۱۰)

راحت قبر اور عذاب قبر کی تمام احادیث کو جھٹلا بھی رہے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی نہ بدلنے والی سنت کے خلاف بھی قرار دے رہے ہیں پھر بھی فرماتے ہیں کہ اللہ کی قدرت سے کس کو انکار ہے موصوف کو چاہئے کہ وہ اس حدیث پر بھی ہاتھ صاف کر دیں کیونکہ یہ بات بھی عام سنت کے خلاف کہی جا رہی ہے۔
(۴) ’’ جناب ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص ایک گائے کو ہانکے لئے چلا جا رہا تھا جب وہ شخص تھک گیا تو گائے پر سوار ہو گیا گائے نے اس سے کہا ہم کو اس کام (یعنی سواری) کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ہے لوگوں نے (اس واقعہ)پر اظہار تعجب کیا اور کہا سبحان اللہ گائے اور بات کرتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا میں اس گائے کے بولنے پر ایمان لایا اور ابو بکرؓ و عمرؓ بھی ایمان لائے حالانکہ اس وقت ابو بکر ؓو عمرؓ وہاں موجود نہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص اپنی بکریوں کے ریوڑ میں تھا کہ ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پر حملہ کیا اور اس کو اٹھا کر لے گیا پھر بکری کا مالک وہاں پہنچا اور بھیڑئیے سے بکری کو چھین لیا۔ بھیڑئیے نے چرواہے سے کہا اس بکری کا سبع(پھاڑنے والے)دن کون محافظ ہو گا کہ اس روز میرے سوا بکری کا چرانے والا کوئی نہ ہو گا لوگوں نے یہ واقعہ سن کر کہا سبحان اللہ بھیڑیااور بات کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا میں اور ابو بکرؓوعمرؓ اس پر ایمان لائے حالانکہ اس وقت بھی ابو بکرؓوعمرؓ وہاں موجود نہ تھے۔
(بخاری و مسلم)​

اگرچہ گائے اور بھیڑیا کا کلام کرنا بہت ہی تعجب انگیز بات ہے لیکن چونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے اس لئے امنا وصدقنا ہم اس بات کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں ہم مانتے ہیں کہ گائے اور بھیڑئیے کی طرح مردہ بھی کلام کرتا ہے اگرچہ اس کا کلام ہم نہیں سن سکتے۔اب موصوف اس حدیث کے بارے میں کس قوت ایمانی کا مظاہرہ کرتے اور کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ اس کا انتظار رہے گا میں تو کہتا ہوں کہ ایمان ہو تو ابو بکر صدیقؓ کی طرح کہ جب معراج کے سلسلہ میں کفار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلادیا اور آپ کا تمسخر اڑایا لیکن جب یہ واقعہ ابو بکر صدیقؓ کو معلوم ہواتو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے تو میں اس پر ایمان لاتا ہوں۔ اگرچہ ایک رات میں بیت المقدس چلا جانا اور ساتوں آسمانوں کی سیر کرنا ‘جنت و جہنم کا مشاہدہ کرنا انسانی عقل کے نزدیک امر محال ہے لیکن چونکہ یہ بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی اس لئے ابو بکر صدیق ؓ اس پر فوراً ایمان لے آئے۔
(۵) جناب ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (ابو ذر) کیا تجھ کو معلوم ہے کہ جب آفتاب غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا وہ جاتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے پہنچ کر سجدہ کرتا ہے پھر طلوع ہونے کی اجازت چاہتا ہے اس کو اجازت دی جاتی ہے اور قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ کیا جائے گا اور طلوع ہونے کی اجازت چاہے گا تو اس کو اجازت نہ دی جائے گی اور یہ حکم دیا جائے گا کہ جس طرف سے آیا ہے ادھر ہی واپس جا اور ادھر ہی سے طلوع ہو چنانچہ وہ مغرب سے طلوع ہو گا اور یہی مراد ہے اللہ کے اس قول کی وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّھَا (یعنی آفتاب اپنے مستقر کی طرف جاتا ہے) فرمایا اس کا مستقر عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ (مسلم، مشکوۃ ص۴۷۲)
یہ حدیث بھی عقل کے خلاف ہے کیونکہ سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سورج ہر وقت افق پر موجودرہتا ہے اور دنیا کے کسی نہ کسی خطہ پر سورج چمکتا رہتا ہے۔ اس طرح سورج کا سجدہ کرنا بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیسے اور کیونکر سجدہ کرتا ہو گا اور کس وقت عرش الٰہی کے نیچے جاتا ہو گا وغیرہ وغیرہ لیکن کیا عقل کے بل بوتے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار کر دیا جائے۔ آخر ہماری کھوپڑی ہے ہی کتنی اور عقل و فہم کی کس قدر استعداد اس میں موجود ہے کہ اس کے ذریعے ہم عقل و فہم عطاء کرنے والے کی باتوں پر اعتراضات کرتے رہیں اور جھٹلانے والوں کی طرح ہم ایمان کے دعوے دار بھی اس کی باتوں کو جھٹلاتے رہیں۔ہمارا ایمان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا ایک ایک حرف بالکل سچ اور درست ہے البتہ ہماری نارسا عقلیں ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔موجودہ دور میں مستشرقین کے پروردہ منکرین حدیث نے اس حدیث پر بھی اعتراض کیا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ سورج،چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، جانور وغیرہ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔(حج آیت ۱۸) کیا کسی منکر حدیث نے ان میں سے کسی کو کبھی سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ جب یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتی تو سورج کا عرش کے نیچے جانا بھی اسی طرح کی بات ہے جو اگرچہ ہماری ناقص عقل میں نہیں بیٹھ سکتی لیکن ایمان والے اسے تسلیم کرتے ہیں اور اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ جبکہ کفار اور ان کے پروردہ اس کا انکار کرتے ہیں۔لیکن حیرت ان مسلمانوں پر ہے کہ جو قرآن وحدیث کو ماننے کے بجائے منکرین حدیث جیسے اسلام دشمنوں کے پراپیگنڈہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب انسان اللہ کے فرمان کے بجائے عقل کا پجاری بن جائے تو اسے گمراہی سے کون روک سکتا ہے۔

(۶) جناب عبد اللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔
بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَائِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ( صحیح بخاری کتاب المناقب مشکوٰۃ ص۳۷۳)
’’ایک شخص اپنی ازار تکبر سے لٹکائے ہوئے جا رہا تھا کہ زمین میں دھنس گیا اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہوا چلا جائے گا‘‘۔
ظاہر بات ہے کہ اس شخص کو تکبر کی وجہ سے یہ عذاب دیا گیا اور یہ برزخی عذاب ہی ہے جسے احادیث میں عذاب قبر کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ شخص قیامت تک اس عذاب میں مبتلا رہے گا اور عذاب قبر بھی قیامت تک رہے گا۔ قیامت قائم ہونے پر عذاب قبر کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ جَلْجَلَۃ اس حرکت کو کہتے ہیں کہ جس میں آواز بھی ہو جب کہ یہ غیب کا معاملہ ہے اس لئے اس آواز کو سننا ممکن نہیں ہے۔اس شخص کا زمین میں دھنستا چلا جانا بالکل واضح کر رہا ہے کہ اس عذاب کا تعلق زمین سے ہے اور یہی عذاب قبر ہے۔

مطالعہ کے دوران جو چند احادیث سامنے آئی تھیں انہیں نقل کر دیا گیا ہے ورنہ اگر باقاعدہ کوشش کی جائے اور احادیث کی کتابوں کی ورق گردانی کی جائے تو اس سلسلہ میں اور بھی بے شمار صحیح احادیث پیش کی جا سکتی ہیں۔ آخر میں اس بحث کو جناب علیؓ کے اس قول پر ختم کیا جاتا ہے۔ جناب علی ؓ فرماتے ہیں کہ دین کا دارومدار رائے (اور عقل)پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اوپر مسح کرنے سے اور بلاشبہ میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں کے اوپر مسح کیا کرتے تھے۔(رواہ ابو دائود‘والدارمی معناہ ‘ مشکوٰۃ ص ۵۴)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
24:حدیث قرع نعالھم پر اعتراضات کے جوابات​

اس حدیث کے جوابات دینے کے لئے موصوف نے جس طرح وقتاً فوقتاً پینترے بدلے ہیں اور نئی سے نئی بات پیدا کرنے کی جو کوششیں فرمائی ہیں انہیں بھی ذرا ملاحظہ فرماتے جائیں۔موصوف کی یہ عادت ہے کہ وہ کسی بات پر ٹکتے نہیں بلکہ جو عجیب بات پہلی باتوں کے مقابلے میں مل جائے اسے لے لیتے ہیں اور پہلی بات کو چھوڑ دیتے ہیں اور اگر اس سے بھی کوئی عجیب تر بات مل جائے تو پھر اس کو قبول کر لیتے ہیں۔ حدیث قرع نعالھم کے متعلق سب سے پہلے انہوں نے جو ارشاد فرمایا تھا وہ یہ ہے ’’باقی یسمع قرع نعالھم کے متعلق علماء کا کہنا یہ ہے کہ یہ یسمع قرع نعالھم مجھول کا صیغہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جوتوں کی چاپ سنی جا سکتی ہے۔ اس عبارت کا کنایہ ہونا امام ابو حنیفہؒ سے بھی ثابت ہے۔(تقریر الجنجوعی علی مسلم ص۶۳و کوکب الدری جلد ۱ ص۲۱۹)
مراد یہ ہے کہ اتنی جلدی سوال و جواب شروع ہو جاتا ہے کہ ابھی جانے والوں کے قدموں کی آہٹ تک سنی جا سکتی ہے ‘‘۔(یہ قبریں ص۱۷)
اس کا جواب مسعود احمد صاحب نے یوں دیا ہے ’’ ہمارا ایمان ہے کہ مردہ جوتوں کی چاپ سنتا ہے ہم قرآن وحدیث پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت کو اللہ کے علم کے سپرد کرتے ہیں افسوس ہے کہ موصوف نے یہاں اس جوش ایمانی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کا مظاہرہ وہ مذکورہ کتاب کے پہلے ایڈیشن میں کر چکے ہیں۔یہاں بھی انہیں کہنا چاہئے تھا کہ ہم قرآن و حدیث پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑتے ہیں یہاںپھر وہ اپنے ذہنی مفروضہ کو ترجیح دے گئے اور حدیث کی بلاوجہ تاویل کر دی۔ آگے فرماتے ہیں علماء کہتے ہیں کہ یسمع مجہول کا صیغہ ہے یہ کون سے علماء ہیں کیا ان کا درجہ محدثین سے زیادہ ہے۔محدثین کے مقابلے میں ان علماء کی رائے کو پیش کرنا مناسب نہیں۔
محدثین جنہوں نے حدیث کو تلفظاً اپنے استاد سے سنا ہو ان کو زیادہ صحیح معلوم ہے یا بعد کے علماء کو کہ یہ لفظ معروف ہے یا مجہول اگر امام بخاریؒ نے اس لفظ کو مجہول کے صیغہ سے سنا ہوتا تو وہ کبھی اس حدیث پر یہ باب نہ باندھتے۔
باب المیت یسمع خفق النعال (یہ باب کہ مردہ جوتوں کی آواز سنتا ہے )
باب کا مضمون حدیث کے متن کا شاہد ہے لہذا ثابت ہوا کہ حدیث میں یسمع معروف کا صیغہ ہے۔ محدثین نے تلفظاً اس حدیث کو اپنے استادوں سے سنا انہوں نے اپنے استادوں سے اس طرح سلسلہ بہ سلسلہ جناب انسؓ نے اس طرح بیان کیا نتیجہ یہ نکلا کہ بقول موصوف کے یہ شرکیہ جملہ جناب انسؓ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بھی نکلا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح فرمایا تھا نعوذ باللہ من ذالک۔سوچئے کیا یہ اللہ اور رسول پر ایمان ہے کیا یہ قرآن و حدیث پر ایمان ہے یا اپنے ذہنی نظریہ پر‘‘۔(ذہن پرستی ص۶۲‘۶۳ قسط نمبر۱)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
25:ایک من گھڑت واقعہ سے استدلال​

موصوف نے مولانا گنگوہی کی تقریر سے اپنے مطلب کا ایک جملہ نقل کر کے اور علماء فرماتے ہیں ‘ کا نام دے کر جس چابکدستی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال مشکل سے مل سکتی ہے مولانا گنگوہی نے دورہ حدیث کے دوران جو علمی نکتے بیان فرمائے تھے انہیں اب کتابی شکل میں چھاپ دیا گیا ہے۔ دورہ حدیث میں استاد کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ایک ایک حدیث پر مختلف اقوال اور نادر علمی نکتے طلباء کے سامنے بیان کر دیتے ہیں تا کہ طلباء کو ہر قسم کی معلومات بہم پہنچ سکیں۔ ان نادر علمی نکتوں میں سے ایک نکتہ دہ ہے جسے موصوف نے شفاء الصدور کی مدد سے نقل کیا ہے اور اسی نکتہ پر انہوں نے اپنے عقیدے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ’’ عبارت کا کنایہ ہونا امام ابو حنیفہؒ سے بھی ثابت ہے ‘‘ حالانکہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی دلیل ہوتی تو وہ ضرور اسے نقل کرتے‘ البتہ امام ابو حنیفہؒ کا ایک بے سند واقعہ جسے موصوف نے تکرار کے ساتھ ’’ یہ قبریں یہ آستانے‘‘ کعبتہ اللہ اور کعبے اور توحید خالص دوسری قسط میں بار بار دھرایا ہے حالانکہ موصوف بھی جانتے ہیں کہ اس واقعہ کی افسانے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پہلے واقعہ ملاحظہ فرمایئے۔چنانچہ فرماتے ہیں:۔
’’امام ابو حنیفہؒ کا عقیدہ اور مسلک عدم سماع اور عدم حیات فی القبر کا ہے ثبوت یہ ہے :۔​
’’امام ابو حنیفہؒ نے ایک شخص کو کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آ کر سلام کر کے یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے قبر والو! تم کو کچھ خبر بھی ہے اور کیا تم پر اس کا کچھ اثر بھی ہے کہ میں تمہارے پاس مہینوں سے آ رہا ہوں اور تم سے میرا سوال صرف یہ ہے کہ میرے حق میں دعا کر دو بتائو!تمہیں میرے حال کی کچھ خبر بھی ہے یا تم بالکل غافل ہو۔ابو حنیفہؒ نے اس کا یہ قول سن کر اس سے دریافت کیا کہ قبر والوں نے کچھ جواب دیا؟ وہ بولا نہیں دیا۔امام ابو حنیفہ ؒنے یہ سن کر کہا کہ تجھ پر پھٹکار۔ تیرے دونوں ہاتھ گرد آلود ہو جائیں تو ایسے جسموں سے کلام کرتا ہے جو نہ جواب ہی دے سکتے ہیں اور نہ وہ کسی چیز کے مالک ہی ہیں اور نہ آواز ہی سن سکتے ہیں۔پھر ابو حنیفہؒ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی: وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ (فاطر) کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں کچھ نہیں سنا سکتے‘‘۔(غرائب فی تحقیق المذاھب تفہیم المسائل ص ۱۷۱، ۱۷۲ محمد بشیر الدین توحید خالص دوسری قسط ص ۲۸)

اگر یہ واقعہ درست ہوتا تو عدم سماع موتٰی کے لئے تائید کے طور پر ذکر کیا جا سکتا تھامگر حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے چنانچہ مولانا محمد سرفراز خان صاحب اس واقعہ کے متعلق فرماتے ہیں’’ یہاں چند امور قابل توجہ ہیں‘‘۔اول قاضی بشیر الدین قنوجیؒ شاگرد حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب اور استاد نواب حسن خان ؒ صاحب غیر مقلد تھے۔سب سے پہلے اس حوالہ کا ماخذ ہماری معلومات کی بناء پر انہی کی کتاب ہے انتہائی حیرت کی بات ہے کہ حضرات فقہاء احنافؒ میں سے مسئلہ سماع موتیٰ کے مثبت اور منفی پہلو میں نہ تو متقدمین حضرات کو یہ حوالہ دستیاب ہوا ہے اور نہ متاخرین کو اور ہماری دانست میں کسی معتبر حنفی فقیہ نے ان سے پہلے اس کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ فقہ حنفی کی کسی معتبر کتاب میں اس کا ذکر ہے۔
دوم:۔ یہ فتویٰ غریب (یا غرائب فی تحقیق المذاہب) کس کی تالیف ہے ؟ اور اس کے مصنف کون تھے؟ اور کس مسلک سے تعلق رکھتے تھے؟ اور یہ کس زمانے کی تالیف ہے ؟ اور فقہاء احناف اور دیگر فقہاء کے نزدیک اس کے مصنف اور کتاب کا کیا پایہ ہے ؟(کچھ بھی معلوم نہیں) (سماع موتی ص۳۲۳‘۳۲۴)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
26:اندھی تقلید کا انجام​

موصوف کو یہ اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے اور اس کی کوئی علمی حیثیت نہیں کیونکہ انہوں نے مولانا محمد سرفراز خان صاحب کی کتاب سماع موتیٰ کا اچھی طرح مطالعہ کیا ہے اور اس سے بہت کچھ اپنی کتابوں میں نقل بھی کیا ہے مگر ان کی دیدہ دلیری ملاحظہ فرمائیں کہ انہوںنے ایک اصولی بات کو تسلیم کرنے کے بجائے اپنے کتابچہ توحید خالص دوسری قسط میں ’’ سماع موتی‘‘ میں سے دیکھ کر ایک اور حوالہ کا اضافہ بھی کر لیا ورنہ پہلے وہ دس بارہ سال تک صرف ’’ غرائب‘‘ ہی کا حوالہ دیتے رہے ہیں۔ ان کے حواریین کو چاہیے کہ للہ وہ موصوف کے دجل و فریب سے ہوشیار ہو جائیں کیونکہ جو شخص اپنی بات منوانے کے لئے اس قدر اندھا ہو جائے کہ وہ دن کو بھی رات ہی کہنے لگے تو اس کی دوسری باتوں کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص موصوف کی اندھی تقلید کرتا ہے تو بہرحال اس کی یہ اپنی ذمہ داری ہے اور قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کا عذر نہ پیش کر سکے گا کہ کسی نے مجھے بتایا نہیں تھا۔ ہمارا کام تو صرف آگاہ کر دینا ہے۔ ماننا یا نہ ماننا اس کی مرضی ہے۔ البتہ جو شخص بھی قرآن و حدیث کو نظر انداز کر کے موصوف کی بات کو حجت سمجھتا ہے تو وہ اسے ’’رب‘‘ بنا لیتا ہے۔ جناب عدی بن حاتمؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا… اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ براء ۃ میں سے یہ پڑھتے سنا۔ اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ (توبہ: ۳۱) ’’ان لوگوں نے اپنے احبار اور رہبان (یعنی علماء اور درویشوں کو) اللہ کے علاوہ رب بنا لیا‘‘۔یہ سن کر میں نے کہا کہ یا رسول اللہ !انہوں نے تو کبھی مولویوں اور پیروں کو رب نہیں بنایا۔ (اور ان کی عبادت نہیں کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہیں تھا کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے بلکہ جب وہ کسی چیز کو ان کے لئے حلال کر دیتے تھے تو یہ اس کو اپنے لئے حلال سمجھتے تھے اور جب کسی چیز کو ان پر حرام کر دیتے تھے تو یہ لوگ اس چیز کو اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے۔(سنن ترمذی۔ابواب تفسیر قرآن)
یعنی ان کے کہنے پر چلتے تھے تحقیق نہ کرتے تھے جو انہوں نے کہا تقلیدًااس کو مان لیا اور اللہ کے احکام پر نظر نہ کی۔اب موصوف کی اندھا دھند تقلید کرنے والے سوچ لیں کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں؟
محدثین کا ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آیا ہے کہ اگر انہیں اپنے استاد کے متعلق عمل کی معمولی سی کمزوری بھی نظر آ جائے تو وہ اس سے حدیث روایت نہیں کرتے تھے۔اس طرح کے واقعات ہماری تاریخ میں کثرت سے ملتے ہیں۔کیونکہ دین کا معاملہ اتنا اہم ہے کہ محدثین کرامؒ کو رجال کی سیرت و کردار پر گہری نظر رکھنی پڑی ہے۔ جناب محمد بن سیرین ؒ ارشاد فرماتے ہیں:۔
اِنَّ ھٰذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَاْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ (مسلم مشکوۃ ص ۳۷)
’’ بیشک یہ علم (یعنی کتاب وسنت کا علم) دین ہے پس جب تم اس کو حاصل کرو تو یہ دیکھ لو کہ کس سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو‘‘۔
اب ایسا شخص جس نے چند خود ساختہ نظریات قائم کر لئے ہوں اور پھر ان خود ساختہ نظریات کے تحفظ کے لئے ہر جھوٹ‘دھوکہ ‘فریب‘ مغالطہ اور تلبیس وغیرہ کو روا رکھا ہو گویا یہ شخص قرآن وحدیث کی بالادستی کے بجائے صرف اپنے خودساختہ نظریات کو منوانے کے لئے میدان عمل میں اترا ہے۔تو ایسے شخص کے نظریات سے اپنے دین و ایمان کو بچانا ضروری ہے ورنہ اس کے نظریات اختیار کر کے انسان خسر الدنیا والآخرۃ کا مصداق بن جائے گا۔

مولانا گنگوہی کی کتاب سے موصوف نے نقل کیا ہے کہ اس عبارت کا کنایہ ہونا امام ابو حنیفہؒ سے بھی ثابت ہے۔ حالانکہ مولانا گنگوہی اپنے فتویٰ میں ارشاد فرماتے ہیں۔’’ حضرت امام اعظم ؒ سے اس باب (عدم سماع موتی) میں کچھ منصوص نہیں اور روایات جو کچھ امام صاحب سے آتی ہیں ‘شاذ ہیں۔ فقط واللہ اعلم۔(فتاویٰ رشیدیہ جلد ۲ ص۹۳ )
لیجئے جس کے بھروسے پر اتنے بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے انہوں نے ہی اس بات کو جھٹلا دیا کسی نے سچ کہا ہے کہ جس پر آشیانہ بنایا گیا تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ یاد رہے کہ کسی شخص کے فتوے کی جو اہمیت ہوتی ہے اتنی اہمیت اس کی کسی دوسری بات کی نہیں ہو سکتی۔
مسعود احمد صاحب نے جب موصوف کا تعاقب کیا اور واضح طور پر ثابت کیا کہ یسمع مجہول کا نہیں بلکہ معروف کا صیغہ ہے تو موصوف کے اوسان خطا ہو گئے اور انہوں نے اپنے مقلدین کو تسلی دینے کے لئے توحید خالص دوسری قسط نامی کتابچہ لکھا اور اس میں نہ صرف یہ کہ یہ عبارت ہی غائب کر دی بلکہ اس میں ایک نئی تحقیق بھی پیش فرمائی اور حدیث کا ترجمہ بھی اپنے نظریہ کے مطابق کیا۔چنانچہ پہلے اس حدیث کا ترجمہ اور اس کی تشریح و تحقیق موصوف کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:۔
 
Top