موت اور نیند میں مشابہت
قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نیند کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح مرنے والے کی روح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے اور وہ مر جاتا ہے بالکل اسی طرح سونے والے کی روح بھی نیند کی حالت میں اس کے بدن سے نکال لی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
وَھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰیٓ اَجَلٌ مُّسَمًّی ثُمَّ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئُکُم بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (الانعام:۶۰)
’’ اور وہی ہے جو رات کو تمہیں موت سے ہمکنار کرتا ہے اور دن کو جو کچھ تم کرتے ہو اسے جانتا ہے پھر تم کو (زندہ کر کے) اٹھا دیتا ہے اس میں تا کہ پورا ہو وہ وعدہ (زندگی) جو مقرر ہو چکا ہے۔ آخر کار اسی کی طرف تمہاری واپسی ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ‘‘۔
قرآن کریم کی اس آیت میں سونے والے کے لئے
یَتَوَفّٰکُمْ (وہ تمہیں موت دیتا ہے) کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جس طرح عارضی موت کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں بالکل اسی طرح حقیقی موت کے لئے بھی قرآن کریم نے یہی الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مثلاً:
وَاﷲُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰکُمْ …
(النحل) ’’اور اللہ نے تم کو پیدا کیا پھر وہ تم کو موت دیتا ہے …
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔
اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰیٓ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (زمر:۴۲)
’’ وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور فکر کرتے ہیں‘‘۔
اس آیت میں موت اور نیند دونوں کے لئے بیک وقت
یَتَوَفّٰی(وہ موت دیتا ہے) کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ توفی کے اصل معنی لینے اور پورا پورا وصول کرنے کے ہیں۔موت پر اس کا اطلاق مجازی معنوں میں ہوتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ موت اور نیند کے وقت روح پوری طرح بدن سے نکال لی جاتی ہے۔ اس آیت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح موت کے وقت روح کو بدن سے نکال لیا جاتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی روح بدن سے نکال لی جاتی ہے۔البتہ جس شخص کی زندگی ابھی باقی ہوتی ہے اس کی روح کو دوبارہ اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس طرح بار بار ’’ اعادہ روح‘‘ ہوتا رہتا ہے اس آیت کی مزید وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے امام بخاری ؒ اور امام مسلمؒ نے روایت کیا ہے۔ جناب ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص بستر خواب پر آئے تو بسم اللہ کہہ کر اپنے بچھونے کو اپنی ازار کے کنارے سے تین بار جھاڑلے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بچھونے پر کیا چیز آ گئی۔ پھر داہنی کروٹ لیٹے پھر یہ دعا پڑھے:۔
بِا
سْمِكَ رَبِّىْ وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ (بخاری و مسلم مشکوۃ ص۲۰۸)
’’تیرے ہی نام سے اے میرے رب میں نے اپنا پہلو(بستر پر) رکھا اور تیری ہی مدد سے اس کو اٹھائوں گا اگرتو میرے نفس (روح) کو روک رکھے (یعنی مجھے موت دے دے) تو اس کو بخش دے اور اگر تو اس کو چھوڑ دے (تا کہ پھر جسم میں آئے) تو اس کی حفاظت کر اس چیز کے ساتھ جس کے ساتھ تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے‘‘۔
جناب حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی خواب گاہ میں تشریف لائے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ کر لیٹتے پھر یہ فرماتے :۔
اَللّٰہُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْیَا
’’ اے اللہ تیرے نام سے مرتا ہوں اور تیرے نام سے جیوں گا‘‘۔
اور جب بیدار ہوتے تو یہ فرماتے:
اَلْحَمْدُ ﷲِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَآ اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (رواہ البخاری و مسلم عن البراء مشکوۃ ص۲۰۸ جلد ۱)
’’ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد جلا دیا اور اسی کے پاس (مرنے کے بعد) زندہ ہو کر جانا ہے‘‘۔
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوتے وقت اور بیدار ہوتے وقت بھی نیند کے لئے موت کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اے اللہ تیرے نام سے سوتا ہوں اور تیرے ہی نام سے نیند سے بیدار ہوں گا۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اے اللہ تیرے نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے جیوںگا‘‘۔اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب سے بیدار ہوتے تو فرماتے اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا۔ سنن ترمذی میں بیدار ہوتے وقت کی دعا ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے:۔
اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ اَحْیَا نَفْسِیْ بَعْدَ مَا اَمَاتَھَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن صحیح)
’’اللہ کا شکر ہے جس نے میرے نفس کو مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کے پاس (مرنے کے بعد )زندہ ہو کر جانا ہے‘‘۔
ایک حدیث میں بیدار ہوتے وقت کی دعا ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے:۔
اَ
لْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ رَدَّ عَلَیَّ رُوْحِیْ وَعَافَانِیْ فِیْ جَسَدِیْ وَاَذِنَ لِیْ بِذِکْرِہٖ (رواہ ابن السنی صفحہ ۵ و صححہ النووی فی الاذکار صفحہ ۱۱ و رواہ الترمذی وحسنہ جلد ۲ ص ۱۹۵ بحوالہ خیار الدعوات ص ۳۳ مؤلف مولانا حافظ محمد عبدالرحمن بقا محدث غازی پوری)
’’ اللہ کا شکر ہے جس نے میری روح میرے پاس پھیر دی اور مجھ کو میرے جسم میں عافیت دی اور مجھ کو اپنے ذکر کرنے کی اجازت دی‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:۔
اَلْحَمْدُ ﷲِ الَّذِیْ رَدَّ عَلَیَّ نَفْسِیْ وَلَمْ یُمِتْھَا فِیْ مَنَامِھَا
…
الخ
’’ اللہ کا شکر ہے جس نے میرا نفس (روح) میرے پاس پھیر دیا اور اس کو اس کے سونے کی حالت میں نہ مار ڈالا…‘‘
۔
(رواہ الحاکم وہذالفظہ وقال صحیح علی شرط مسلم رواہ النسائی و ابو یعلی وا بن حبان و صححہ والبخاری فی الادب المفرد صفحہ ۱۷۷ الترغیب والترہیب صفحہ ۱۲۲ بحوالہ خیار الدعوات ص۳۵)
جناب ابوجحیفۃ ؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں سو گئے یہاں تک کہ سورج نکل آیا پس انہوں نے ارشاد فرمایا:۔
اِنَّکُمْ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَرَدَّ اﷲُ اِلَیْکُمْ اَرْوَاحَکُمْ
’’ بے شک تم مردے تھے پس اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف تمہاری روحوں کو لوٹا دیا‘‘۔
(مصنف ابن ابی شیبتہ (ج ۲ ص۶۴، ج۱۴ ص۲۶۲)وقال الہیثمی : رواہ ابو یعلی والطبرانی فی الکبیر ورجالہ ثقات (مجمع الزوائد ‘۱/ ۳۲۲)وقال الشیخ الالبانی اخرجہ ابن ابی شیبہ (۱/۱۹۰) باسناد صحیح (ارواء الغلیل ‘۱/ ۲۹۳)
دوسری حدیث میں ہے :۔
اِنَّ اﷲَ قَبَضَ اَرْوَاحَکُمْ حِیْنَ شَآئَ وَ رَدَّھَاعَلَیْکُمْ حِیْنَ شَآئَ
’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے جب چاہا تمہاری روحیں قبض کر لیں اور جب چاہا انہیں تمہاری طرف لوٹا دیا‘‘۔
(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ باب الاذان بعد ذھاب الوقت)
جناب ذومخبر ؓ کی روایت میں ہے :
لا قبض اللہ عزوجل ارواحنا و قد ردھا الینا و قد صلینا(مسند احمد (۴/۹۱) البدایۃ والنھایۃ(۵/۳۳۴)و قال الھیثمی :رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط ورجال احمد ثقات (مجمع الزوائد ۱/۳۲۰ )
’’نہیں ، اللہ عزوجل نے ہماری روحوں کو قبض کیا تھا اور تحقیق ہماری طرف لوٹا دیا اور ہم نے نماز پڑھ لی‘‘۔
ابو قتادہ انصاریؓ کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
ولکن ارواحنا کانت بید اللہ فارسلھا انی شاء (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی من نام من صلاۃ او نسیھا)
’’اور لیکن ہماری روحیں اللہ کے ہاتھ میں تھیں اور اس نے جب چاہا انہیں ہماری طرف بھیج دیا‘‘۔
ان احادیث کے علاوہ بھی بہت سی احادیث اس مضمون پر موجود ہیں لیکن طوالت کے خوف سے انہیں نقل نہیں کیا گیا نیز ان احادیث کو بھی اختصار سے نقل کیا گیا ہے ۔
یہ تمام احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ سوتے وقت انسان عارضی طور پر مر جاتا ہے اور اس کے جسم سے روح نکال لی جاتی ہے اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو اس میں دوبارہ روح لوٹا دی جاتی ہے اور وہ زندہ ہو جاتا ہے لیکن روح کے اخراج کے باوجود بھی اس میں زندگی نظر آتی ہے اور کبھی کبھی یہ سویا ہوا انسان نیند میں باتیں بھی کرنے لگتا ہے جسے دوسرے لوگ سنتے بھی ہیں حالانکہ اس وقت روح اس میں موجود نہیں ہوتی اور روح کی عدم موجودگی کے باوجود یہ لاشہ بستر پر کلام کرتا ہے بالکل اسی طرح مرنے کے بعد بھی میت کلام کرتی ہے لیکن چونکہ یہ برزخی زندگی ہے جو ایک غیر محسوس حیات ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے ہم سے پردہ غیب میں رکھا ہے لہذا میت کی برزخی زندگی کو ہم محسوس نہیں کر سکتے۔ اس پر جو جو حالات گزرتے ہیں جن کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ احادیث میں آیا ہے وہ اگرچہ ہماری نگاہوں سے روپوش ہوتے ہیں مگر وہ سب رونما ہوتے رہتے ہیں اور ان کا انکار بہت مشکل ہے۔ایک سونے والا نیند میں جن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے پاس بیٹھا ہوا دوسرا انسان ان تمام واقعات سے بے خبر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام خواب دیکھتے ہیں اور پھر اپنے بیٹے جناب اسماعیل علیہ السلام سے فرماتے ہیں:۔
یٰبُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی قَالَ یٰٓابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآئَ اﷲُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصافات:۱۰۲)
’’ بیٹا میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے ؟ اس نے کہا ابا جان جو کچھ آپکو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالئے آپ ان شا ء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔
جناب ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر جناب اسماعیل علیہ السلام کے سامنے اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور جناب اسماعیلؑ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ محض خواب کا معاملہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے چنانچہ وہ اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر تے ہیں۔اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں نافرمان انسانوں کو عذاب ہوتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور جنت کا مشاہدہ بھی کرایا جاتا ہے (اس روایت کو موصوف نے تفصیل کے ساتھ اپنے کتابچہ عذاب قبر میں نقل کیا ہے) جناب ابراہیم علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجسام اگرچہ اپنے بستروں پر موجود تھے اور پاس سوئی ہوئی ازواج مطہرات کو بھی احساس نہ ہو سکا کہ ان پیغمبروں پر خواب میں کیا حالات گزر رہے ہیں مگر جب انہوں نے یہ واقعات بیان کئے تو کسی نے بھی ان پر تعجب کا اظہار نہ کیا۔اسی طرح میت پر جو جو حالات برزخی زندگی میں گزرتے ہیں ان کا انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ ایک غیر محسوس حیات ہے اور اسی حیات کی بناء پر مردہ جنازہ پر کلام کرتا ہے اور اسی کی بدولت وہ قبر میں راحت یا عذاب محسوس کرتا ہے۔