9:قبر کا تعلق آخرت سے ہے
جب عذاب القبر کی احادیث ذکر کی جاتی ہیں تو منکرین عذاب القبر ان احادیث پر ایمان لانے کے بجائے الٹا ان پر عقلی قسم کے اعتراضات شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عذاب القبر کی احادیث کو مان لیا جائے تو اس طرح پھر ہمیں تیسری زندگی کا قائل ہونا پڑے گا اور مطلب یہ ہو گا کہ قبر کا مردہ اب زندہ ہو چکا ہے۔ دیکھتا ہے ‘سنتا ہے اور یہ بات قرآن کریم کے خلاف ہے حالانکہ اگر یہ عقل کے پجاری قرآن و حدیث پر ایمان لے آتے تو انہیں قرآن وحدیث میں یہ بات ملتی کہ قبر کا تعلق دنیا یا دنیاوی زندگی سے نہیں بلکہ آخرت کے ساتھ ہے اور دنیا سے اب ان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ مردہ کو کوئی شخص بھی قبر میں زندہ نہیں مانتا یعنی دنیاوی زندگی کا کوئی بھی قائل نہیں اور اگر کسی نے ان کی زندگی کا ذکر کیا ہے تو اس سے مراد ’’ برزخی زندگی‘‘ ہے۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَائُ (ابراہیم27)
’’ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم (مضبوط) رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘ اور اللہ تعالیٰ بے انصافوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا کرتا ہے‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ آیت عذاب القبر کے متعلق نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری)
اس آیت میں دو مقامات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی دنیا اور آخرت جہاں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ ثابت قدم اور مضبوط رکھتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ قبر کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے کیونکہ یہ آیت عذاب القبر کے متعلق نازل ہوئی۔ ایک اور حدیث میں جناب عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں۔
کَانَ النَبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَیِّتِ وَقَفَ عَلَیْہِ فَقَالَ اسْتَغْفِرُوْا لِاَخِیْکُمْ ثُمَّ سَلُوْا لَہٗ بِالتَّثْبِیْتِ فَاِنَّہُ الْاٰنَ یُسْاَلُ (اخرجہ ابو داؤد فی الجنائز باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف رقم ۳۲۲۱ والحاکم فی المستدرک ۱/۳۷۰ وقال ھذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی صحیح و رواہ ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ باب ما یقول اذا فرغ من دفن المیت رقم ۵۸۵۔ مشکوۃ المصابیح باب اثبات عذاب القبر)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوتے پھر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اس لئے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جا رہا ہے ‘‘۔
یہ حدیث بھی مندرجہ بالا آیت کی پوری طرح وضاحت اور تشریح بیان کرتی ہے۔
۲۔ عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:۔
مَا مِنْ نَبِیٍّ یَمْرُضُ اِلَّاخُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (بخاری و مسلم۔مشکوۃ ص۵۴۷)
’’ ہر نبی کو مرض موت میں دنیا و آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے ‘‘۔ یعنی اگر وہ چاہے تو ایک مدت تک اور دنیا میں قیام کر لے اور چاہے تو آخرت کے قیام کو اختیار کر لے۔
اس حدیث میں بھی موت کے بعد کی زندگی کو آخرت قرار دیا گیا ہے۔
۳۔ جناب عثمان غنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
اِنَّ الْقَبْرَ اَوَّلُ مَنْزِلٍ مِّنْ مَّنَازِلِ الْاٰخِرَۃِ (الترمذی۔ ابن ماجہ۔ مشکاۃ المصابیح ج۱ ص ۴۸ وقال الشیخ الالبانی: و سندہ حسن)
’’ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے‘‘۔
۴۔ عائشہ صدیقہ ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں:۔
فَجَمَعَ اﷲُ بَیْنَ رِیْقِیْ وَرِیْقِہٖ فِیْ اٰخِرِ یَوْمٍ مِّنَ الدُّنْیَا وَ اَوَّلِ یَوْمٍ مِّنَ الْاٰخِرَۃِ (صحیح بخاری ج ۲ ص ۶۴۰)
’’ پس اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن جمع فرما دیا‘‘۔
۵۔ جناب عبد اللہ بن عمر ؓ کی ایک بیوی صفیہ بنت ابی عبیداپنے کھیتوں میں رہا کرتی تھیں انہوں نے موت کو قریب دیکھ کر عبد اللہ بن عمر ؓ کو پیغام بھیجا۔
اِنِّی فِیْ اٰخِرِ یَوْمٍ مِّنْ اَیَّامِ الدُّنْیَا وَ اَوَّلِ یَوْمٍ مِنَ الْاٰخِرَۃِ (سنن النسائی کتاب المواقیت باب الوقت الذی یجمع فیہ المسافرین بین الظہر والعصر)
’’ میں دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میں ہوں ‘‘۔ یعنی قریب الموت ہوں۔
ان احادیث سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ صحابہ کرام ؓ میں موت کے بعد کے لئے آخرت کا نام ایک جانی پہنچانی حقیقت تھی۔
قرآن وحدیث میں مرنے کے بعد کے لئے او ر قیامت کے دن کے لئے آخرت کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ البتہ بعض اہل علم نے مرنے کے بعد سے قیامت تک کے احوال کے لئے برزخی زندگی اور عالم برزخ کی اصطلاح وضع کی ہے تا کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کے وقفہ اور قیامت کے دن دونوں میں فرق واضح ہو جائے ورنہ مرنے کے بعد کے لئے آخرت کی اصطلاح ہی استعمال کرنا زیادہ درست ہے۔پس ثابت ہوا کہ قبر کا تعلق آخرت سے ہے۔ لہٰذا قبر کے لئے ’’ دنیاوی قبر‘‘ کے الفاظ استعمال کرنا قرآن وحدیث کی منشاء کے خلاف ہے اور اسے پندرھویں صدی کی ’’ عثمانی بدعت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ وَفِيْ رَوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ لاَ يَسْتَنْزٍهُ مِنَ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا قَالَ لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا-
(متفق علیہ مشکوۃ ۴۲)
’’ جناب ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے لیکن کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا ہے بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھجور کی) ایک تر شاخ لی اور درمیان سے چیر کر اس کے دو حصے کئے اور ایک ایک حصہ دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا ؟ فرمایا شاید اس عمل سے ان کے عذاب میں تخفیف ہو جائے جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں‘‘۔
یہ حدیث بھی صراحت سے بیان کر رہی ہے کہ عذاب اسی قبر میں ہوتا ہے ورنہ ان قبروںپر شاخیں گاڑنے کا کیا مطلب ؟ کیونکہ اگر عذاب برزخ کی فرضی قبر میں ہو رہا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنا فرما دیتے کہ ان کو برزخ میں عذاب ہو رہا ہے اور کبھی بھی انکی قبروں پر شاخیں نہ گاڑتے ‘ شاخیں گاڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی رکھ کر بتا دیا کہ انکو عذاب اسی ارضی قبر میں ہو رہا ہے۔
اس حدیث کے جواب میں موصوف جو دور کی کوڑی لائے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں:۔
’’ ترکش کا ایک اور تیر چلتا ہے کہ بخاری کی یہ بھی تو حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو مومنوں کی قبروں کے پاس سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے اور بڑی باتوں پر نہیں (بلکہ ان باتوں پر جن کو لوگ معمولی سمجھتے ہیں) ایک پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا ادھر کی سنی ادھر کہتا پھرتا تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کی ایک شاخ منگوائی اور دوحصے کر کے ایک ایک حصہ قبروں پر لگا دیا اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی اللہ تعالیٰ ان پر عذاب میں کمی رکھے گا۔ اس حدیث سے یہ نکالا جاتا ہے کہ جن قبروں پر ٹہنیاں لگائی گئی تھیں قبروں کے اندر ان دونوں مردوں کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ اللہ کا فیصلہ ہے کہ قیامت سے پہلے مردہ جسم میں روح واپس نہیں آ سکتی اور ظاہر ہے کہ بغیر روح کے عذاب و راحت بے معنی ہیں اس طرح صحیح حدیث کے غلط معنی لے کر قرآن و حدیث کو جھٹلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس عمل سے صحابہ ؓ کے ذہنوں میں اس بات کو راسخ کرنا چاہتے تھے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ ؓ سے خطاب کر کے یوں ارشاد فرمایا تھا۔ اے عائشہ ؓ حقیر سمجھے جانے والے گناہوں سے بھی بچنے کی کوشش کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے ان کو بھی لکھتے رہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس عمل سے اس بات کو اپنے صحابہ ؓ کے ذہنوں میں پوری طرح محفوظ کر دینا چاہتے تھے۔ جیسے ایک لیکچر دینے والا اپنی زبان سے ایک مسئلہ بیان کرتا ہے اور ساتھ ساتھ تختہ سیاہ پر بھی اس کو لکھتا جاتا ہے تا کہ کان کا سننا اور آنکھ کا دیکھا دونوں یاد رہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شاخیں لگا کر جو یہ کہا کہ مجھے اللہ سے امید ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی ان پر عذاب میں تخفیف کی جاتی رہے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت تھی کہ اگر تعلیم و تربیت کے پیش نظر کسی مومن کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کرتے تو کسی نہ کسی طرح اسے نفع پہنچا کر اس کی تلافی بھی کر دیتے۔ یہ دعا بھی اسی طرح کی ہے۔ رہا یہ کہ شاخیں دنیاوی قبروں پر کیوں لگائیں تو ان دنیاوی قبروں پر اس لئے لگائیں کہ برزخ میں اپنے ساتھیوں کو لے جا کر ان کی اصلی قبروںپر لگانا ممکن نہ تھا۔ صرف یہ بتانا تھا کہ ان قبروں میں جو مردے دفن کئے گئے تھے ان پر برزخ میں یہ حالات گزر رہے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی اطلاع غیب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اب اس حدیث کی من مانی تشریح کر کے اس سے یہ نکالنا کہ انہی دنیاوی قبروں میں دنیاوی جسموں پر عذاب ہو رہا تھا بڑی جسارت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب اللہ کے جھٹلانے کا الزام غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کی تبیین و تشریح و تائید کے لئے بھیجے گئے تھے اس کو جھٹلانے کے لئے تو نہیں‘‘
(عذاب قبر ص۱۷‘۱۸)