• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
7:عذاب قبر کے پردہ غیب میں ہونے کی حکمت​

عذاب قبر کو اللہ تعالی نے پردہ غیب میں رکھا ہے اوراس پر ایمان لانا ضروری ہے عذاب قبر کے مسئلہ میں شک و شبہہ کرنا ۔ کرید کرنا اور کیسے اور کہاں جیسے سوالات کرکے اس کی تفصیل میں جانا درست نہیں ہے ۔ جو چیزیں اللہ تعالی نے پردہ غیب میںرکھی ہیں ان پر ایمان بالغیب ضروری ہے اور مشاہدہ کا مطالبہ درست نہیں کیونکہ ایسا مطالبہ کرنے والا ایمان سے خارج ہو جائے گا ۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے بالکل ابتداء میں ہی متقین اور مؤمنین کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے اور ایمانیات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
اَلَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُوْنَ ـ (البقرة آيت : 3)
’’جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جورزق ہم نے ان کو دیا ہے ا س میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔​
دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
اَلَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ وَھُمْ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُوْنَ (الانبیاء :۴۹)
’’جو بے دیکھے اپنے رب کا خوف رکھیں اور قیامت سے ڈرنے والے ہوں۔(وہ متقی ہیں)‘‘۔​
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَانَ بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ـ (يسين آيت : 11)
’’تم تو صرف اس شخص کو خبردار کر سکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے رحمن سے ڈرے اسے مغفرت اور اچھے اجر کی بشارت دے دو‘‘ـ
قیامت کے دن جب تمام چھپی ہوئی حقیقتیں ظاہر ہو جائیں گی اور غیب شھود میں بدل جائے گا تو اس وقت کا ایمان لانا کسی کو کچھ فائدہ نہیں دے گا۔
فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ ـ (المؤمن آيت : 85)
’’پس ان کا ایمان ان کو (اس وقت)کچھ فائدہ نہیں دے گا جب وہ ہمارا عذاب دیکھ لیں گے یہ اللہ کا طریقہ ہے جواس کے بندوں میں پہلے بھی گزر چکا ہے اور اس وقت کافر لوگ خسارے میں پڑ گئے ‘‘۔
عذاب قبر کو پردہ غیب میں ر کھنے کی پہلی حکمت یہی ہے کہ لوگ ان دیکھی حقیقت سے حقیقتوں پر ایمان لے آئیں ۔ گویا لوگوں سے ایمان بالغیب مطلوب ہے اور اس میں لوگوں کی زبردست آزمائش اور امتحان ہے کہ آیا وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں یا نہیں ؟
لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ (المائدة : 94)
’’تاکہ اللہ معلوم کرے کہ کون اس سے غائبانہ ڈرتا ہے‘‘۔​
اور عذاب قبر کے پردہ غیب میں ہونے کی دوسری حکمت یہ ہے کہ اگر لوگوں کو قبر کا عذاب سنا دیا گیا تو وہ مردے دفن کرنا ہی چھوڑ دیں گے جیسا کہ اس صحیح حدیث میں یہ بات ذکر کی گئی ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
8:دنیاوی قبر کی اصطلاح عثمانی بدعت ہے​

ڈاکٹر موصوف نے عذاب قبر کے انکار کے لئے دنیاوی قبر کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں اور ان کی تقلید میں ان کے اندھے مقلدین بھی یہی الفاظ استعمال کر کے لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں کہ یہ قبر دنیاوی قبر ہے اس لئے یہاں حساب و کتاب اور عذاب نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ قبر کا تعلق دنیا کی زندگی سے نہیں بلکہ آخرت کے ساتھ ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
9:قبر کا تعلق آخرت سے ہے​

جب عذاب القبر کی احادیث ذکر کی جاتی ہیں تو منکرین عذاب القبر ان احادیث پر ایمان لانے کے بجائے الٹا ان پر عقلی قسم کے اعتراضات شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر عذاب القبر کی احادیث کو مان لیا جائے تو اس طرح پھر ہمیں تیسری زندگی کا قائل ہونا پڑے گا اور مطلب یہ ہو گا کہ قبر کا مردہ اب زندہ ہو چکا ہے۔ دیکھتا ہے ‘سنتا ہے اور یہ بات قرآن کریم کے خلاف ہے حالانکہ اگر یہ عقل کے پجاری قرآن و حدیث پر ایمان لے آتے تو انہیں قرآن وحدیث میں یہ بات ملتی کہ قبر کا تعلق دنیا یا دنیاوی زندگی سے نہیں بلکہ آخرت کے ساتھ ہے اور دنیا سے اب ان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ مردہ کو کوئی شخص بھی قبر میں زندہ نہیں مانتا یعنی دنیاوی زندگی کا کوئی بھی قائل نہیں اور اگر کسی نے ان کی زندگی کا ذکر کیا ہے تو اس سے مراد ’’ برزخی زندگی‘‘ ہے۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَائُ (ابراہیم27)
’’ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم (مضبوط) رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘ اور اللہ تعالیٰ بے انصافوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا کرتا ہے‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے متعلق ارشاد فرمایا کہ یہ آیت عذاب القبر کے متعلق نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری)
اس آیت میں دو مقامات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی دنیا اور آخرت جہاں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ ثابت قدم اور مضبوط رکھتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرما دی کہ قبر کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے کیونکہ یہ آیت عذاب القبر کے متعلق نازل ہوئی۔ ایک اور حدیث میں جناب عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں۔
کَانَ النَبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَیِّتِ وَقَفَ عَلَیْہِ فَقَالَ اسْتَغْفِرُوْا لِاَخِیْکُمْ ثُمَّ سَلُوْا لَہٗ بِالتَّثْبِیْتِ فَاِنَّہُ الْاٰنَ یُسْاَلُ (اخرجہ ابو داؤد فی الجنائز باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف رقم ۳۲۲۱ والحاکم فی المستدرک ۱/۳۷۰ وقال ھذا حدیث صحیح الاسناد وقال الذھبی صحیح و رواہ ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ باب ما یقول اذا فرغ من دفن المیت رقم ۵۸۵۔ مشکوۃ المصابیح باب اثبات عذاب القبر)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو دفن کرنے سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے ہوتے پھر فرماتے کہ اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو اس لئے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جا رہا ہے ‘‘۔
یہ حدیث بھی مندرجہ بالا آیت کی پوری طرح وضاحت اور تشریح بیان کرتی ہے۔
۲۔ عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:۔
مَا مِنْ نَبِیٍّ یَمْرُضُ اِلَّاخُیِّرَ بَیْنَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (بخاری و مسلم۔مشکوۃ ص۵۴۷)
’’ ہر نبی کو مرض موت میں دنیا و آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے ‘‘۔ یعنی اگر وہ چاہے تو ایک مدت تک اور دنیا میں قیام کر لے اور چاہے تو آخرت کے قیام کو اختیار کر لے۔
اس حدیث میں بھی موت کے بعد کی زندگی کو آخرت قرار دیا گیا ہے۔
۳۔ جناب عثمان غنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
اِنَّ الْقَبْرَ اَوَّلُ مَنْزِلٍ مِّنْ مَّنَازِلِ الْاٰخِرَۃِ (الترمذی۔ ابن ماجہ۔ مشکاۃ المصابیح ج۱ ص ۴۸ وقال الشیخ الالبانی: و سندہ حسن)
’’ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے‘‘۔​
۴۔ عائشہ صدیقہ ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں:۔
فَجَمَعَ اﷲُ بَیْنَ رِیْقِیْ وَرِیْقِہٖ فِیْ اٰخِرِ یَوْمٍ مِّنَ الدُّنْیَا وَ اَوَّلِ یَوْمٍ مِّنَ الْاٰخِرَۃِ (صحیح بخاری ج ۲ ص ۶۴۰)
’’ پس اللہ تعالیٰ نے میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن جمع فرما دیا‘‘۔
۵۔ جناب عبد اللہ بن عمر ؓ کی ایک بیوی صفیہ بنت ابی عبیداپنے کھیتوں میں رہا کرتی تھیں انہوں نے موت کو قریب دیکھ کر عبد اللہ بن عمر ؓ کو پیغام بھیجا۔
اِنِّی فِیْ اٰخِرِ یَوْمٍ مِّنْ اَیَّامِ الدُّنْیَا وَ اَوَّلِ یَوْمٍ مِنَ الْاٰخِرَۃِ (سنن النسائی کتاب المواقیت باب الوقت الذی یجمع فیہ المسافرین بین الظہر والعصر)
’’ میں دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میں ہوں ‘‘۔ یعنی قریب الموت ہوں۔​
ان احادیث سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ صحابہ کرام ؓ میں موت کے بعد کے لئے آخرت کا نام ایک جانی پہنچانی حقیقت تھی۔

قرآن وحدیث میں مرنے کے بعد کے لئے او ر قیامت کے دن کے لئے آخرت کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ البتہ بعض اہل علم نے مرنے کے بعد سے قیامت تک کے احوال کے لئے برزخی زندگی اور عالم برزخ کی اصطلاح وضع کی ہے تا کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کے وقفہ اور قیامت کے دن دونوں میں فرق واضح ہو جائے ورنہ مرنے کے بعد کے لئے آخرت کی اصطلاح ہی استعمال کرنا زیادہ درست ہے۔پس ثابت ہوا کہ قبر کا تعلق آخرت سے ہے۔ لہٰذا قبر کے لئے ’’ دنیاوی قبر‘‘ کے الفاظ استعمال کرنا قرآن وحدیث کی منشاء کے خلاف ہے اور اسے پندرھویں صدی کی ’’ عثمانی بدعت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ وَفِيْ رَوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ لاَ يَسْتَنْزٍهُ مِنَ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ فَغَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا قَالَ لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا-(متفق علیہ مشکوۃ ۴۲)
’’ جناب ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے لیکن کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا ہے بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھجور کی) ایک تر شاخ لی اور درمیان سے چیر کر اس کے دو حصے کئے اور ایک ایک حصہ دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا ؟ فرمایا شاید اس عمل سے ان کے عذاب میں تخفیف ہو جائے جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں‘‘۔
یہ حدیث بھی صراحت سے بیان کر رہی ہے کہ عذاب اسی قبر میں ہوتا ہے ورنہ ان قبروںپر شاخیں گاڑنے کا کیا مطلب ؟ کیونکہ اگر عذاب برزخ کی فرضی قبر میں ہو رہا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اتنا فرما دیتے کہ ان کو برزخ میں عذاب ہو رہا ہے اور کبھی بھی انکی قبروں پر شاخیں نہ گاڑتے ‘ شاخیں گاڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی رکھ کر بتا دیا کہ انکو عذاب اسی ارضی قبر میں ہو رہا ہے۔

اس حدیث کے جواب میں موصوف جو دور کی کوڑی لائے ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں:۔
’’ ترکش کا ایک اور تیر چلتا ہے کہ بخاری کی یہ بھی تو حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو مومنوں کی قبروں کے پاس سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے اور بڑی باتوں پر نہیں (بلکہ ان باتوں پر جن کو لوگ معمولی سمجھتے ہیں) ایک پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا ادھر کی سنی ادھر کہتا پھرتا تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کی ایک شاخ منگوائی اور دوحصے کر کے ایک ایک حصہ قبروں پر لگا دیا اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں تر رہیں گی اللہ تعالیٰ ان پر عذاب میں کمی رکھے گا۔ اس حدیث سے یہ نکالا جاتا ہے کہ جن قبروں پر ٹہنیاں لگائی گئی تھیں قبروں کے اندر ان دونوں مردوں کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ اللہ کا فیصلہ ہے کہ قیامت سے پہلے مردہ جسم میں روح واپس نہیں آ سکتی اور ظاہر ہے کہ بغیر روح کے عذاب و راحت بے معنی ہیں اس طرح صحیح حدیث کے غلط معنی لے کر قرآن و حدیث کو جھٹلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس عمل سے صحابہ ؓ کے ذہنوں میں اس بات کو راسخ کرنا چاہتے تھے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ ؓ سے خطاب کر کے یوں ارشاد فرمایا تھا۔ اے عائشہ ؓ حقیر سمجھے جانے والے گناہوں سے بھی بچنے کی کوشش کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے ان کو بھی لکھتے رہتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس عمل سے اس بات کو اپنے صحابہ ؓ کے ذہنوں میں پوری طرح محفوظ کر دینا چاہتے تھے۔ جیسے ایک لیکچر دینے والا اپنی زبان سے ایک مسئلہ بیان کرتا ہے اور ساتھ ساتھ تختہ سیاہ پر بھی اس کو لکھتا جاتا ہے تا کہ کان کا سننا اور آنکھ کا دیکھا دونوں یاد رہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شاخیں لگا کر جو یہ کہا کہ مجھے اللہ سے امید ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی ان پر عذاب میں تخفیف کی جاتی رہے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت تھی کہ اگر تعلیم و تربیت کے پیش نظر کسی مومن کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کرتے تو کسی نہ کسی طرح اسے نفع پہنچا کر اس کی تلافی بھی کر دیتے۔ یہ دعا بھی اسی طرح کی ہے۔ رہا یہ کہ شاخیں دنیاوی قبروں پر کیوں لگائیں تو ان دنیاوی قبروں پر اس لئے لگائیں کہ برزخ میں اپنے ساتھیوں کو لے جا کر ان کی اصلی قبروںپر لگانا ممکن نہ تھا۔ صرف یہ بتانا تھا کہ ان قبروں میں جو مردے دفن کئے گئے تھے ان پر برزخ میں یہ حالات گزر رہے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی اطلاع غیب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اب اس حدیث کی من مانی تشریح کر کے اس سے یہ نکالنا کہ انہی دنیاوی قبروں میں دنیاوی جسموں پر عذاب ہو رہا تھا بڑی جسارت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب اللہ کے جھٹلانے کا الزام غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کی تبیین و تشریح و تائید کے لئے بھیجے گئے تھے اس کو جھٹلانے کے لئے تو نہیں‘‘ (عذاب قبر ص۱۷‘۱۸)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
10:آخرت کے معاملات کو دنیا پر قیاس کرنا غلط ہے​

موصوف آخرت کے معاملات کو دنیا پر قیاس کر بیٹھے ہیں اس لئے جہاں بھی میت کے عذاب کا ذکر آتا ہے وہاں موصوف احادیث کو تسلیم کرنے اور ان پر ایمان رکھنے کے بجائے یہی رونا روتے ہیں کہ جب قیامت تک روح جسم میں واپس نہیں آتی تو پھربغیر روح کے عذاب و راحت بے معنی ہیں اسی طرح کہیں عذاب قبرکے دکھائی نہ دینے اور میت میں کوئی جنبش اور حرکت کے نہ ہونے کو بھی عدم عذاب قبر کی دلیل قرار دیتے ہیں گویا موصوف ایمان بالغیب کے بجائے مشاھدہ پر ایمان رکھنے ہی پر مصر ہیں حالانکہ آخرت کے معاملات کو دنیا پر قیاس کرنا غلط اور ناسمجھی کی بات ہے اس لئے کہ جو باتیں دنیا میں ناممکن ہیں وہ آخرت میں ممکن ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالی کے لئے تو کوئی بات ناممکن ہی نہیں ہے وہ جب چاہتا ہے بے جان چیزوں سے بھی خطاب کرتا ہے اور ان کو حکم دیتا ہے اور ہر بے جان چیز اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرتی ہے۔مثلاً:
(۱) اللہ تعالی نے آسمان اور زمین کو اپنی بارگاہ میں حاضری کا حکم دیا اور فرمایا کہ خوشی سے یا ناخوشی سے حاضر ہو جاؤ۔
قَالَتَا اَتَيْنَا طَآئِعِيْنَ (حم السجدة آيت : 11)
’’دونوں نے کہا کہ ہم آگئے فرمانبردار ہو کر‘‘۔​
(۲) جب جناب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو اللہ تعالی نے آگ سے خطاب فرمایا :
قُلْنَا يَانَارُ كُوْنِيْ بُرْدًا وَّسَلاَمًا عَلَى اِبْرَاهِيْمَ ـ (الانبيآء آيت : 69)
’’ہم نے کہا اے آگ ! ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی(بن جا) ابراہیم پر‘‘۔
وَقَالُوْا لِجُلُوْدِهمْ لِمَ شَهدْتُّمْ عَلَيْنَا ـ (حم السجدة : 21)
(۳) قیامت کے دن انسان کے مختلف اعضاء انسان کے خلاف گواہی دیں گے اور گفتگو کریں گے وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟
قَالُوْا اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِيْ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْئٍ ـ (حم السجدة : 21)
’’وہ کہیں گی ہمیں اسی اللہ نے گویائی دی ہے جس نے (آج) ہر چیز کو گویائی دے دی ہے‘‘۔​
اللہ تعالی کا زمین و آسمان اور آگ سے خطاب کرنا اور ان کا جواب دینا اور اطاعت کرنا انسان کے جسم کے دیگر اعضاء کا گفتگو کرنا وغیرہ ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز سے گفتگو کر سکتا ہے اور اس کے سامنے کوئی چیز مردہ نہیں ہے لہذا اللہ تعالی کے معاملات اورآخرت کے معاملات کو دنیا کے ظاہری معاملات پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے مرنے کے بعد کے تمام معاملات کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے ۔ رہا موصوف کا یہ خیال کہ ارضی قبر کے علاوہ برزخ میں بھی کوئی قبر ہوتی ہے تو اوّل تو اس کی کوئی بھی دلیل موصوف کے پاس موجود نہیں ہے اور برزخ میں قبر کا تصور پہلی مرتبہ موصوف نے پیش کیا ہے زمین پر قبر کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ میت کو اس میں دفن کرنا ہوتا ہے معلوم نہیں برزخ میں موصوف کو قبر کی ضرورت کس لئے پیش آئی؟ برزخ کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مرنے والے قیامت تک برزخ میں رہتے ہیں اور یا یہ کہ ہمارے اورمرنے والوںکے درمیان برزخ (پردہ) حائل ہے۔

موصوف معجزہ اوراطلاع علی الغیب کا سہارا لے کر بھی عذاب قبر کا انکار کر رہے ہیں حالانکہ جب اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی کہ ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور یہ اطلاع آپ نے صحابہ کرام ؓ کو اسی وقت دے دی تو صحابہ کرام ؓ کو بھی معلوم ہو گیا کہ ان قبر والوں کو عذاب ہورہا ہے گویا اطلاع علی الغیب میں صحابہ کرامؓ بھی شامل ہو گئے لہذا اب معجزہ اور اطلاع علی الغیب کا جھانسہ دے کر عذاب قبر کا انکار کرنا ایمان کی نفی کے مترادف ہوگا۔
بئسما یأمرکم بہ ایمانکم ان کنتم صادقین
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
11:عذابِ قبر پر دو نئے اعتراض​

کسی صاحب نے یہ اعتراض بھی جڑ دیا کہ جو شخص سمندر یا کسی دریا میں ڈوب جائے تو اسے عذاب قبر کیوں کر ہو گا اور پانی میں آگ کیوں کر لگ سکتی ہے؟ دراصل اس طرح کے لوگ آخرت کے معاملات کو دنیا کے مادی پیمانوں پر ناپنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ کیا قرآن کریم کی یہ آیت ان کی نظر سے نہیں گزری؟
وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ـ (التكوير : 6)
’’اور جب سمندر بھڑکا دئیے جائیں گے‘‘۔​
قیامت کے ظہور کے وقت سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَالْبَحْرُ الْمَسْجُوْرِ ـ (الطور : 6) ’’اور قسم ہے سلگتے دریا کی‘‘۔​
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سمندروں میں بھی آگ بھڑکا دے گا اور اب بھی بہت سی چیزیں پردہ غیب میں ہیں جوہمیں دکھائی نہیں دیتیں۔ مرنے کے بعد جب آنکھوں سے پردے اٹھ جائیں گے تو پھر کفار و مشرکین و منافقین کو چاروں طرف آگ ہی آگ نظر آئے گی۔ (ان شاء اللہ تعالیٰ) بس تھوڑا سا انتظار کریں آنکھ بند ہوتے ہی تمام مناظر آنکھوں کے سامنے ہوں گے۔ لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا فَكَشْفْنَا عَنْكَ غِطَائَكَ فَبَصُرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْد ـ (ق : 22)
یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ زمین کے اندر آگ کیسے بھڑک سکتی ہے جب کہ وہاں آکسیجن وغیرہ ہی موجود نہیں ہوتی۔ لہٰذا عذاب قبر زمین میں کیسے ہو سکتا ہے؟
الجواب: یہ آخرت کے معاملات ہیں اور ان کو دنیا کی مادی آنکھوں سے دیکھنا ہی سراسر غلط ہے اور عقلی اور مشاہدے کے لحاظ سے بھی یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کیونکہ آتش فشاں پہاڑوں میں سے جو لاوا نکلتا ہے تو پہاڑوں کے اندر زمین میں زبردست آگ لگی ہوتی ہے جوہر چیز کو پگھلا کر لاوا بنا دیتی ہے اور پھر یہ لاوا پہاڑوں کے پھٹنے پر پوری شدت کے ساتھ باہر نکل آتا ہے اوردنیا میں تباہی مچ جاتی ہے۔ اب عذابِ قبر پر اعتراض کرنے والا یہ عقل مند بتائے کہ زمین میں یہ آگ کہاں سے لگ گئی؟ فما کان جوابکم فہو جوابنا ۔ اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد جزاء و سزا کا جوخصوصی انتظام کر رکھا ہے اور عذابِ قبر اس سلسلہ کی ابتدائی کڑی ہے کیا ایسے لوگ غلط اور بیہودہ قسم کے اعتراضات کر کے اللہ تعالیٰ کی لا محدود قدرت او رطاقت کے ماہرے کو محدود کرنا چاہتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کاایک صفاتی نام المنتقم بھی ہے اور وہ مرنے کے بعد ظالموں سے ضرور حساب لے گا۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
12: حدیث قرع نعال​

عَنْ أَنَسٍ رَضِي اللَّه عَنْهم عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنَ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ *(متفق علیہ ولفظہ للبخاری مشکوۃ ج ۱ ص۲۵ مسند احمد ج ۳ ص۱۲۶ طبع بیروت)
’’ جناب انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ واپس ہوتے ہیں تو مردہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اس کو بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص (یعنی) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کہتا ہے۔ پس مومن بندہ جواب میں کہتا ہے کہ میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں دیکھ جس کو اللہ نے بدل دیا ہے اور اس کے بدلے میں تجھ کو جنت میں جگہ دی گئی ہے پس وہ دونوں جگہوں کو دیکھتا ہے اور جو منافق یا کافر ہوتا ہے اس سے بھی یہی پوچھا جاتا ہے کہ تو اس شخص کی نسبت کیا خیال رکھتا تھا پس وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا جو بات اور لوگ کہتے تھے وہی میں کہہ دیتا تھا پس اس سے کہا جاتا ہے کہ تو نے نہ تو (عقل سے) پہچانا اور نہ (قرآن) پڑھا یہ کہہ کر اس کو لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کے چیخنے چلانے کی آواز انسانوں اور جنوں کے سوا قریب کی تمام مخلوق سنتی ہے‘‘۔
اس حدیث سے بھی پوری وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کو قبر میں راحت یا عذاب دیا جاتا ہے۔ چونکہ انسان اور جن مکلف مخلوق ہیں اس لئے ان سے ایمان بالغیب مطلوب ہے اور ان کو قبر کا عذاب سنانا حکمت کے خلاف ہے بخلاف چوپایوں اور باقی جانوروں کے کہ وہ مکلف نہیں اس لئے وہ سن سکتے ہیں۔ حدیث نے یہ صراحت بھی کر دی کہ انسان و جن کے علاوہ قبر کے قریب جو مخلوق ہوتی ہے وہ عذاب قبر کو سنتی ہے مگر اس واضح اور صریح حدیث کے باوجود موصوف عذاب قبر کو اس قبر میں نہیں مانتے اور اس حدیث کی عجیب و غریب تاویل کرتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:۔
مردہ کو اٹھا کر بٹھایا جانا اور سوال و جواب ہونا دنیاوی جسم کے ساتھ ممکن نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَمِنْ وَرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ اِلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (مؤمنون:۱۰۰)
’’ اور مرنے والوں اور دنیا کے درمیان ایک آڑ ہے قیامت تک‘‘۔​
اب اٹھا کر بٹھایا جانا اور سوال و جواب کی نوعیت کیا ہے تو ہم قرآن و حدیث پر ایمان لاتے ہیں باقی کیفیت کیا ہے کس طرح یہ سب کچھ ہوتا ہے اس کو ہم اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کرتے ہیں‘‘ (یہ قبریں یہ آستانے ص۱۷)
مگر موصوف نے اب یہ عبارت بدل دی ہے۔ چنانچہ بعد والے ایڈیشن میں لکھتے ہیں :۔
یہ سوال و جواب کا معاملہ ہر مردہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب جس شخص کا جسم جلا دیا گیا ہو یا جانوروں اور مچھلیوں نے جس کی لاش کھا لی ہو اس کا جسم ہی باقی نہ رہا ہو تو اٹھا کر بٹھایا جانا۔ سوال و جواب کا ہونا اور اس دنیا میں اس کو جنت ودوزخ کا نظارہ کرایا جانا کیسے ممکن ہے معلوم ہوا کہ یہ سب اس دنیا کا معاملہ نہیں بلکہ برزخ کا معاملہ ہے اور یہ برزخ قرآن و حدیث کے لحاظ سے ایک آڑ ہے مرنے والے اور دنیا کے درمیان۔
وَمِنْ وَّرَآئِہِمْ بَرْزَخٌ اِلَی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (مؤمنون:۱۰۰)
’’ اور مرنے والوں اور دنیا کے درمیان ایک آڑ ہے قیامت کے دن تک ‘‘۔ (یہ قبریں یہ آستانے ص۱۹‘۲۰)
اوپر کی عبارت میں موصوف نے تذبذب کا مظاہرہ کیا تھاایک طرف وہ مردے کو اٹھا کر بٹھائے جانے اور سوال و جواب کا اس دنیاوی جسم کے ساتھ ہونا تسلیم نہیں کرتے لیکن یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے اور اس کی کیفیت ان کی سمجھ سے بالاتر ہے اس لئے وہ اسے اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کرتے ہیں مگر کچھ دن گزرنے کے بعد ان کے عقائد میں پختگی آتی ہے اور وہ عالم برزخ کی قبر میں ایک برزخی جسم فرض کر کے ان تمام مراحل کو اس برزخی جسم سے متعلق سمجھنے لگتے ہیں اور انہیں پہلی عبارت میں بھی ترمیم کرنی پڑی ہے۔ یہ قبریں یہ آستانے سینکڑوں بار چھپ چکی ہے اور ہر مرتبہ اس میں کوئی نہ کوئی ترمیم اور اضافہ ہوتا چلا آیا ہے اس کی مثال ایک تو اوپر بیان کی گئی ہے باقی مثالیں آئندہ آئیں گی۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
13:برزخ کا صحیح مفہوم​

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مرنے والوں اور دنیا کے درمیان ایک آڑ(برزخ)قیامت تک قائم ہے۔ موصوف یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ روح اور جسم کے درمیان آڑ ہے اور یہ تاثر دے کر اعادہ روح کو بھی قرآن وحدیث کے خلاف قرار دے دیا ہے معلوم ہوا کہ موصوف کو خود آیت کا مفہوم سمجھنے میں ٹھوکر لگی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ میت اور دنیا والوں کے درمیان ایک برزخ (آڑ) قائم ہوتی ہے اس لئے میت پر جو کیفیات گزرتی ہیں ان کا ہمیں احساس نہیں ہوتا۔ اگر ہمارے سامنے بھی کوئی مردہ رکھا ہوا ہو یا قبر کو کھود کر بھی دیکھا جائے تو چونکہ اس مردہ کے اور ہمارے درمیان برزخ قائم ہوتی ہے اس لئے میت کے حالات کا ہمیں احساس نہیں ہوتا مرنے والے پر کیا گزرتی ہے وہ راحت و آرام میں ہے یا عذاب میں مبتلا ہے اس کا ہمیں کچھ علم نہیں کیونکہ ایک روک ہے جس نے ہمیں یہ تمام کیفیات دیکھنے سے روک رکھا ہے۔ بالفاظ دیگر برزخ غیب کا دوسرا نام ہے اس لئے برزخ اس روک کا نام ہے جو ہمیں عالم برزخ کے حالات دیکھنے سے روکے ہوئے ہے یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے فرشتے ‘جنات وغیرہ ہمارے آس پاس بلکہ ہمارے انفس میں موجود ہوتے ہیں لیکن ایک روک (برزخ) ہے جس نے ہمیں ان کو دیکھنے سے روک رکھا ہے۔
اِنَّہُ یَرَاکُمْ ھُوَ وَقَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ (اعراف:۲۷)
’’ وہ (شیطان) اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے‘‘۔​
موصوف لکھتے ہیں کہ مردہ کو اٹھا کر بٹھا یا جانا اور سوال و جواب کا ہونا دنیاوی جسم کے ساتھ ممکن نہیں اور پھر تائید کے طور پر جو آیت پیش کی ہے وہ بالکل ہی بے محل ہے اس آیت کا سیاق و سباق ملاحظہ فرمائیں ارشاد ہوتا ہے :۔
’’ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا اے میرے رب مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دیجئے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا ہر گز نہیں یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ (پردہ۔آڑ)حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک‘‘۔ (مومنون ۹۹‘۱۰۰)
قرآن کریم میں برزخ کا لفظ تین مقامات پر آیا ہے ایک مقام تو اوپر گزر گیا اب دوسرے اور تیسرے مقامات ملاحظہ فرمائیں۔
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۔ بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰن (رحمن ۱۹۔ ۲۰)۔​
’’ دو سمندر وں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے‘‘۔
وَھُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذبٌ فُرَاتٌ وَّ ھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَ جَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا۔ (فرقان ۵۳)
’’ اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے ایک لذیز و شیریں دوسرا تلخ وشور اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے ‘‘۔

لیکن اس آڑ سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ بٹھایا جانا اور سوال و جواب کا ہونا دنیوی جسم کے ساتھ ممکن نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ موصوف برزخ کو روح اور جسم کے درمیان آڑ سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ نظریہ قائم کر کے اس آیت کو دلیل بنانے کی کوشش کی ہے حالانکہ یہ آیت ان کے دعویٰ کی دلیل نہیں بن سکتی۔موت کے بعد اور قیامت کے برپا ہونے سے پہلے انسان جن جن مراحل سے گزرتا ہے اور جو عادتاً انسان سے پوشیدہ ہیں اسے عالم برزخ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے مگر برزخ کسی خاص مقام یا جگہ کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا عالم ہے جسے انسانی حواس سے بالاتر رکھا گیا ہے۔ میت جن کیفیات و مراحل سے گزرتی ہے انسانی حواس انہیں محسوس نہیں کر سکتے۔ اگر ہمیں وہ سب کچھ نظر آئے یا محسوس ہونے لگے تو پھر یہ غیب نہیں شہود بن جائے گا۔عمل کی مدت ختم ہوتے ہی اور اس دنیا سے آنکھ بند ہوتے ہی انسان کو اسی بستر خاکی پروہ سب کچھ دکھائی دینے لگتا ہے جو کل تک پردہ غیب میں تھا اور جسے برزخ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے چونکہ اب عمل کا دفتر بند ہو چکا ہے اس لئے اس وقت ایمان اور نیک عمل انسان کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔
حَتّٰی اِذَا جَآئَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ۔ لَعَلِّیٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلاَّ اِنَّھَا کَلِمَۃٌ ھُوَ قَآئِلُھَا وَمِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
(مؤمنون ۹۹۔ ۱۰۰)
’’ یہاں تک کہ ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ اے میرے رب مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا۔ یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ (پردہ) حائل ہے دوسری زندگی تک ‘‘
لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ (ق:۲۲)
’’ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے (اور پردہ کے اٹھتے ہی سب کچھ تجھے نظر آ رہا ہے)‘‘۔
فَلَوْ لَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۔ وَاَنْتُمْ حِیْنَئِذٍ تَنْظُرُوْنَ۔ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۔ فَلَوْ لَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ۔ تَرْجِعُوْنَھَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔(الواقعۃ:آیت ۸۳تا۸۷)
’’ پھر کیوں نہیں جس وقت روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم اس سے تمہاری نسبت زیادہ تر نزدیک ہوتے ہیں لیکن تم کو دکھائی نہیں دیتا تو اگر تم کسی اور کے حکم کے نیچے نہیں ہو تو کیوں نہیں اس روح کو پھر پلٹا دیتے ہو اگر تم ( اپنے انکار و تکذیب میں) سچے ہو‘‘۔
وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اﷲِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ۔ وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰکُمْ وَرَآئَ ظُہُوْرِکُمْ (انعام:۹۳۔۹۴)
’’ اور اگر تو دیکھے جس وقت کہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے (اور کہیں گے) کہ نکالو (اپنے جسموں کے اندر سے) اپنی روحوں کو آج تم کو اس پر ذلت کی سزا ملے گی کہ تم اللہ کی شان میں جھوٹ باتیں کہتے تھے اور اس کے حکموں کے ماننے سے غرور کرتے تھے اور تم ایک ایک کر کے (تنہا) جیسے ہم نے پہلی بار تم کو پیدا کیا تھا ہمارے پاس آئے اور جو سامان و اسباب تم کو دیا تھا جس نے تم کو مغرور بنایا تھا اس کو اپنے پیچھے چھوڑ آئے‘‘۔
یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلٰٓئِکَۃَ لَا بُشْرٰی یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیْنَ وَیَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَحْجُوْرًا (فرقان۔۲۲)
’’ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن مجرموں کو کوئی خوشخبری نہیں اور کہیں گے (کہ یہ ڈرائونا منظر جو ہم کو نظر آ رہا ہے )اب اوٹ میں روکا جائے‘‘۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
14:غیب کی تعریف​

مندرجہ بالا آیات ’’برزخ‘‘ کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے بہت کافی ہیں۔ ایک مومن کا کام تو صرف اتنا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سچے دل سے مان لے اور اس میںمین میکھ نکالنے کی کوشش نہ کرے اور نہ اپنی عقل نارسا کو اس میں دخل دے کیونکہ عقل ایسا پیمانہ نہیں ہے جسے شرع کے مسائل میں کسوٹی مانا جائے۔ایمان اور غیب کی تعریف کرتے ہوئے مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں ’’ لغت میں کسی کی بات کو کسی کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے۔اسی لئے محسوسات و مشاہدات میں کسی کے قول کی تصدیق کرنے کو ایمان نہیں کہتے‘ مثلاً کوئی شخص سفید کپڑے کو سفید یا سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے اور دوسرا اس کی تصدیق کرتا ہے اس کو تصدیق کرنا تو کہیں گے ایمان لانا نہیں کہا جائے گا کیونکہ اس تصدیق میں قائل کے اعتماد کو کوئی دخل نہیں بلکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بنا پر ہے اور اصطلاح شرع میں خبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر مشاہدہ کے محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد پر یقینی طور سے مان لینے کا نام ایمان ہے۔ لفظ غیب لغت میں ایسی چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے جو نہ بدیہی طور پر انسان کو معلوم ہوں اور نہ انسان کے حواس خمسہ اس کا پتہ لگا سکیں۔یعنی نہ وہ آنکھ سے نظر آئیں نہ کان سے سنائی دیں نہ ناک سے سونگھ کر یا زبان سے چکھ کر ان کا علم ہو سکے اور نہ ہاتھ پھیر کر ان کو معلوم کیا جا سکے۔قرآن میں لفظ غیب سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جن کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ان کا علم بداہت عقل اور حواس خمسہ کے ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات بھی آ جاتی ہیں۔تقدیری امور‘ جنت ودوزخ کے حالات ‘قیامت اور اس میں پیش آنے والے واقعات بھی‘ فرشتے ‘ تمام آسمانی کتابیں اور تمام انبیاء سابقین بھی جس کی تفصیل اسی سورہ بقرہ کے ختم پر امن الرسول میں بیان کی گئی ہے گویا یہاں ایمان مجمل کا بیان ہو ا ہے۔اور آخری آیت میں ایمان مفصل کا۔ تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہو گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایات و تعلیمات لے کر آئے ہیں ان سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا‘ شرط یہ ہے کہ اس تعلیم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہونا قطعی طور پر ثابت ہو۔جمہور اہل اسلام کے نزدیک ایمان کی یہی تعریف ہے (عقیدہ طحاوی ‘ عقائد نسفی وغیرہ)
’’اس تعریف میں ماننے کا نام ایمان بتلایا گیا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ محض جاننے کو ایمان نہیں کہتے کیونکہ جہاں تک جاننے کا تعلق ہے وہ تو ابلیس اور شیطان اور بہت سے کفار کو بھی حاصل ہے کہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق کا یقین تھا مگر اس کو مانا نہیں اس لئے وہ مومن نہیں‘‘۔ (معارف القرآن جلد اول ص۱۰۹‘۱۱۰)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
15:فرعون کی لاش​

موصوف کو چاہئے کہ وہ عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے سیدھی طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو مان لیتے مگر لکھتے ہیں:۔
’’ہر ایک جانتا ہے کتنوں کو جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے کسی کو درندہ ہڑپ کر جاتا ہے اور کوئی مچھلیوں کے منہ کا نوالہ بن جاتا ہے آخر ان مرنے والوں کو کیسے اٹھا کر بٹھایا جائے گا کیسے سوال و جواب ہو گا اور کس طرح ان پر عذاب و راحت کا دور قیامت تک گزرے گا‘‘۔
آگے لکھتے ہیں:۔
’’قرآن کے بیان سے معلوم ہوا کہ فرعون کی لاش اس دنیا میں عبرت کے لئے محفوظ اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں بھی اسی دنیا میں لیکن ان کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جا رہا ہے‘‘۔(عذاب قبر ص۲۔۳)
اس عبارت سے چند باتیں معلوم ہوئیں:۔
۱۔ جن لوگوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا یا درندے یا مچھلی نے ہڑپ کر لیا تو ان کی تو قبر ہی نہیں بنی لہذا ان کے ساتھ قبر میں سوال و جواب کی کیا صورت ہو گی۔ معلوم ہوا کہ اس قبر میں کوئی سوال وجواب یا راحت و عذاب نہیں ہوتا۔
۲۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں آج بھی محفوظ ہیں مگر ان پر عذاب کے کوئی آثار نظر نہیں آتے حالانکہ انہیں صبح و شام آگ پر پیش کیا جاتا ہے۔ لہذا میت کو سرے سے کوئی عذاب ہی نہیں دیا جاتا بلکہ روح کو برزخی جسم میں داخل کر کے عذاب دیا جاتا ہے۔
موصوف کو یہ مغالطہ اس لئے ہو گیا ہے کہ وہ عالم برزخ کو اس دنیا پر قیاس کر بیٹھے ہیں ورنہ قبر وبرزخ کا معاملہ اس جہاں سے ہے جو ہماری مادی نگاہوں سے بالکل اوجھل ہے اور عادتاً اس جہان کی چیزیں ہمیں اس جہاں میں نظر بھی نہیں آ سکتیں ورنہ ایمان بالغیب نہ رہے گا۔علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:۔
رئیس المتکلمین امام اہل السنتہ قاضی محمد ابو بکر بن الطیب الباقلانیؒ(المتوفی ۴۰۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ جو شخص دفن نہ کیا گیا ہو اور وہ زمین کی سطح پر ہو تو اس سے بھی سوال ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ مکلف مخلوق کی نگاہوں کو اس کے دیکھنے سے روک دیتا ہے جیسا کہ وہ فرشتوں اور جنات کو بھی نہیں دیکھ سکتا اور بعض فرماتے ہیں کہ جس کو سولی پر لٹکایا جاتا ہے زندگی اس کی طرف بھی لوٹائی جاتی ہے لیکن ہم اس کا شعور نہیں کر سکتے جیسا کہ ہم بیہوشی والے کر مردہ خیال کرتے ہیں (اور اس کی حیات کا شعور نہیں کر سکتے اور یا وہ سویا ہوا انسان جس سے نیند کی حالت میں روح نکال لی جاتی ہے اس وقت وہ مردہ ہوتا ہے اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو اس میں دوبارہ روح لوٹا دی جاتی ہے) اور قبر کی طرح اس پر جو اور فضا کو تنگ کر دیا جاتا ہے۔ جس شخص کے دل میں ایمان داخل ہو چکا ہے وہ ان میں سے کسی چیز کو بھی اجنبی (مشکل و دشوار) نہیں سمجھتا اور اسی طرح جس شخص کے اجزاء متفرق ہو چکے ہوں اللہ تعالیٰ بعض یا کل اجزاء میں حیات پیدا کر دیتا ہے اور پھر اس پر سوال متوجہ ہوتا ہے۔
امام الحرمینؒ نے ایسا ہی فرمایا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ کاروائی ان چیونٹیوں سے زیادہ مستعبد تو نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے نکالا اور پھر ان کو ان کے نفوس پر یہ فرماتے ہوئے گواہ بنایا کیا میں تمہارا رب نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ (شرح الصدور ص۵۹ طبع مصر۔ بحوالہ تسکین الصدور ص۸۵۔۸۶ طبع دوم)
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
16:خاکستر شدہ انسان کا معاملہ​

جناب ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص نے گناہوں کی وجہ سے اپنے نفس پر بڑی زیادتی کی تھی جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا۔ اِذَا اَنَا مِتُّ فَاحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اَطْحَنُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّوْنِیْ فِی الرِّیْحِ فَوَاﷲِ لَئِنْ قَدَرَ اﷲُ عَلَیَّ لَیُعَذِّبُنِیْ عَذَابًا مَّا عَذَّبَہٗ اَحَدًا۔ یعنی جب میں مر جائوں تو تم مجھے جلا کر میری راکھ کو پیس کر ہوا میں اڑا دینا۔ واللہ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر تنگی کی تو مجھے وہ ایسی سزا دے گا جو اور کسی کو اس نے نہیں دی۔ جب اس کی وفات ہوئی تو اس کے ساتھ یہی کاروائی کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس کے تمام ذرات کو جمع کر دے سو اس نے ایسا ہی کیا۔جب وہ جمع کر دیا گیا تو وہ آدمی تھا جو کھڑا کر دیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو نے یہ سب کاروائی کیوں کی؟ اس نے جواب دیا اے میرے رب تیرے ڈر کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔(رواہ البخاری جلد ۱ ص۴۹۵ واللفظہ لہ ‘ مسلم ج۲ ص۳۵۶)
ایک روایت میں آتا ہے کہ اس نے کہا کہ میری راکھ کا آدھا حصہ خشکی میں اور آدھا دریا میں بکھیر دینا۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔(بخاری جلد ۲ ص۱۱۱۷‘مسلم جلد ۲ ص۳۵۶)
اس حدیث سے ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ راکھ شدہ انسان کو دوبارہ بدن عنصری عطا فرماتا ہے اور پھر اس پر انعام یا عذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہی معاملہ اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جسے مچھلی یا جانوروں نے کھا کر فضلہ بنا دیا ہو اس شخص کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد عذاب (قبر) اس کی میت (جسد عنصری) کو دیا جائے گا لہذا اگر اس کا جسم راکھ میں تبدیل ہو گیا اور ہوا اور پانی نے اس کے ذرات کو منتشر کر دیا تو شاید وہ عذاب سے بچ جائے گا مگر اس کا یہ خیال (کہ جسم کے راکھ میں تبدیل ہو کر منتشر ہو جانے پر وہ عذابِ قبر سے بچ جائے گا) غلط نکلا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام راکھ کو اکٹھا کر کے اسے دوبارہ انسان بنا دیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ جسم کے ساتھ دنیا میں کچھ ہو جائے مگر عالم برزخ میں اس کے جسم کو دوبارہ تخلیق کر کے اسے ثواب و عذاب سے دوچار کیا جاتا ہے البتہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے ہماری عقلیں اسے سمجھنے سے قاصر ہیں ہم تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتوں پر ایمان لاتے ہیں۔

اب یہ کہنا کہ عالم برزخ میں روح کو برزخی جسم میں داخل کر کے ثواب و عذاب سے دوچار کیا جاتا ہے تو یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں روح کے ساتھ جسد عنصری ہی گناہ میں شریک رہتا ہے اور مرنے کے بعد عذاب برزخی جسم کو دیا جائے اور اگر کوئی یہ دلیل پیش کرے کہ شہداء کو بھی تو آخر برزخی جسم دئیے جاتے ہیں تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ برزخی جسم نہیں ہوتے بلکہ شہداء کی روحیں پرندوں کے پیٹ میں بیٹھ کر جنت کی سیر کرتی رہتی ہیں۔الفاظ یہ ہیں۔ اَرْوَاحُھُمْ فِی جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍا ’’ ان کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے جوف (پیٹ) میں ہوتی ہیں جس طرح دنیا میں لوگ عموماً ہوائی جہاز وغیرہ میں بیٹھ کر سیر کرتے ہیں اسی طرح شہداء کی روحیں بھی جنت میں پرندوں کے جوف میں بیٹھ کر سیر کرتی رہتی ہیں۔
یہ کوئی مخصوص واقعہ نہیں کہ اسے صرف اس شخص کے ساتھ خاص مانا جائے کیونکہ اس واقعہ کے خاص ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں اور نہ ہی ہم اسے اس شخص کی کرامت تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ وہ نیک انسان بھی نہیں تھا۔
اب عقلی طور پر اس حدیث پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسان کا لاشہ ‘راکھ یا اجزاء بدن جس مقام پر ڈال دئیے جائیں تو وہ کہیں غائب نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمیں اس سے پورا انسان بنتا دکھائی دیتا ہے تو اس کاآسان سا جواب یہ ہے کہ یہ سب غیب کا معاملہ ہے اور اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو ہم سے پوشیدہ رکھ کر ہمیں آزماتا ہے کہ ہم اس کی اور اس کے رسول کی باتوں کو من وعن تسلیم کرتے ہیں یا اپنی طرف سے مین میکھ نکال کر اسے جھٹلاتے ہیں۔ لِیَعْلَمَ اﷲُ مَنْ یَّخَافُہٗ بِالْغَیْبِ ’’ یعنی تا کہ اللہ تعالیٰ معلوم کرے کہ کون شخص بن دیکھے ڈرتا ہے‘‘۔ (المائدہ۔۹۴)
 
Top