• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عرش کے گرد سانپ کی کنڈلی

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اہل کتاب نے اپنے ایک نبی یسعیاہ کے نام پر ایک کتاب گھڑی جس کو


کہا جاتا ہے

اس کتاب کے باب ٦ کی آیات ہیں

Isaiah- 1.png

سرافیم سے مراد سانپ ہیں

Hebrew Strong Dictionary

کے مطابق

שָׂרָף saraph, saw-rawf´; from 8313; burning, i.e. (figuratively) poisonous (serpent); specifically, a saraph or symbolical creature (from their copper color):—fiery (serpent), seraph.


یہود کی ایک قدیم کتاب


میں باب ٢٠ بھی اس کا ذکر ہے

Hence they took Enoch into the seventh heaven

1 And those two men lifted me up thence on to the seventh heaven, and I saw there a very great light, and fiery troops of great archangels (2), incorporeal forces, and dominions, orders and governments, cherubim and seraphim, thrones and many-eyed ones, nine regiments, the Ioanit stations of light, and I became afraid, and began to tremble with great terror, and those men took me, and led me after them, and said to me:

2Have courage, Enoch, do not fear, and showed me the Lord from afar, sitting on His very high throne. For what is there on the tenth heaven, since the Lord dwells there?

پس وہ انوخ (ادریس علیہ السلام) کو لے گئے ساتویں آسمان پر اور ان دو آدمیوں نے مجھ (انوخ) کو اٹھایا اور وہاں میں نے ایک عظیم نور دیکھا اور اور ملائکہ ملا الاعلی کی آتشی افواج، روحانی قوتیں ، احکام و حکم ، کروبیں اور سرافیم، تخت اور بہت آنکھوں والے … اور میں خوف زدہ ہوا اور لڑکھڑا گیا دہشت سے اور وہ مجھ کو لے گئے اور کہا ہمت کرو انوخ ، ڈرو مت اور الله تعالی کو دور سے دکھایا اپنے عظیم عرش پر تھا- (انوخ نے سوال کیا) یہ دسویں آسمان پر کیا ہے کہ الله وہاں ہوتا ہے ؟

کتاب انوخ کا متن حبشی زبان میں ملا ہے جہاں سرافیم کے مقام پر لکھا
Ikisat (Ethiopic: አክይስት — “serpents”, “dragons
اکسات حبشی میں سانپ ہے


توریت کے مطابق بنی اسرئیل کی دشت میں سر کشی کی بنا پر ایک وقت الله تعالی نے سانپ ان پر چھوڑ دیے

Num. 21:6 Then the LORD sent fiery serpents among the people, and they bit the people, so that many people of Israel died.

اور الله نے ان پر آتشی سانپ چھوڑ دیے

عبرانی میں سرافیم کو سانپ اور فرشتہ کہا جاتا ہے چونکہ اہل کتاب ابلیس کو ایک فرشتہ یا

Fallen Angel

کہتے ہیں

لہذا مسلمانوں میں ابلیس کو سانپ سے ملانے یا جنات کو سانپ قرار دینے کا نظریہ ا گیا


ہندو مت میں عرش کے گرد سانپ


ہندو مت کے مطابق ان کے تین بڑے اصنام میں سے ایک آسمان میں ہے جس کا عرش پانی پر ہے اور اس کے گرد سانپ لپٹا ہوا ہے جس کو انانتا شیشا یا ادی شیشا کہتے ہیں

Ananta Shesha, Adishesha “first Shesha”.

یعنی کسی دور قدیم میں عرش رحمن کے گرد سانپوں کا تصور موجود تھا جس کو اہل کتاب اور ہندو دونوں بیان کرتے تھے


اسلام میں عرش کے گرد سانپ


اس قسم کی روایات اسلام میں بھی ہیں جن کو محدثین روایت کرتے ہیں – اس روایت کو عبد الله بن أحمد “السنة” (1081) میں باپ امام احمد سے روایت کرتے ہیں الدينوري کتاب “المجالسة” (2578) میں علي بن المديني سے اور أبو الشيخ کتاب “العظمة” (197) میں روایت کرتے ہیں

طبرانی کتاب المُعْجَمُ الكَبِير میں روایت کرتے ہیں

حدثنا محمَّد بن إسحاق بن راهُوْيَه، ثنا أبي ، أبنا معاذ ابن هشام، حدثني أبي (هشام الدستوائي) عن قَتادة، عن كَثير بن أبي كَثير البصری ، عن أبي عِياض (عمرو بن الأسود العنسي) ، عن عبد الله بن عَمرو، قال: إن العَرْشَ لَيُطَوَّق بحَيَّةٍ، وإن الوَحْيَ ليُنَزَّلُ في السَّلاسِل


أبي عِياض نے کہا کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے کہا: عرش کے گرد ایک سانپ کنڈلی مارے ہوئے ہے اور الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے


کتاب السنہ میں ہے

حَدَّثَنِي أَبِي، نا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، بِمَكَّةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ لَمُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَإِنَّ الْوَحْيَ لِيَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ


کتاب العظمة از أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ) میں ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «إِنَّ الْعَرْشَ مُطَوَّقٌ بِحَيَّةٍ، وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ فِي السَّلَاسِلِ»



کتاب مختصر العلو میں البانی کہتے ہیں


albani sanp-1.jpg
abani sanp - 2.jpg

قلت: إسناده صحيح، أخرجه أبو الشيخ في “العظمة” “33/ 1-2″ حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود ثم رأيته في السنة” “ص150”: حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.


میں البانی کہتا ہوں اس کی
اسناد صحیح ہیں اس کی تخریج ابو شیخ نے کتاب العظمة” “33/ 1-2” حدثنا محمد ابن العباس حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ بن هشام قال: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ كثير بن أبي كثير عن أبي عياض عن عبد الله بن عمرو بن العاص. وأبو عياض اسم عمرو بن الأسود میں کی ہے پھر میں نے اس کو دیکھا السنہ میں ص ١٥٠ پر بھی کہ حدثني أبي حدثنا أبي حدثنا معاذ بن هشام به.

مجمع الزوائد (8/135) میں الهيثمى اس روایت پر کہتے ہیں

رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح غير كثير بن أبي كثير ، وهو ثقة


اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رجال صحیح کے ہیں سوائے کثیر بن ابی کثیر کے جو ثقہ ہیں


بعض علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہوا ہے کہ صحیح بخاری و مسلم کے تمام راوی ثقہ ہیں ان پر جرح مردود ہے الهيثمى اسی گروہ کے ہیں جو روایت پر کہہ دیتے ہیں کہ راوی صحیح والے ہیں-

أبو الشيخ العظمة (4/1298) میں روایت کرتے ہیں

حدثنا محمد بن أبي زرعة ثنا هشام بن عمار ثنا عبد الله بن يزيد ثنا شعيب بن أبي حمزة عن عبد الأعلى بن أبي عمرة عن عبادة بن نسي عن عبد الرحمن بن غنم عن معاذ بن جبل عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : المجرة التي في السماء عرق الحية التي تحت العرش .


معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے


الهيثمى مجمع الزوائد (8/135) میں کہتے ہیں

وفيه عبد الأعلى بن أبي عمرة ولم أعرفه ، وبقية رجاله ثقات


اس میں عبد الأعلى بن أبي عمرة ہے جس کو میں نہیں جانتا اور باقی تمام ثقہ ہیں


امام العقيلى کتاب الضعفاء الكبير (3/60) میں اس روایت کو بیان کرتے ہیں کہ

یمن بھیجتے وقت رسول الله نے معاذ بن جبل کو کہا کہ اہل کتاب سانپ پر سوال کریں تو یہ کہنا


سند ہے

حدثنا حجاج بن عمران ثنا سليمان بن داود الشاذكونى ثنا هشام بن يوسف ثنا أبو بكر بن عبد الله بن أبي سبرة عن عمرو بن أبى عمرو عن الوليد بن أبي الوليد عن عبد الأعلى بن حكيم عن معاذ بن جبل قال : لما بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن فذكره مثله .


اس روایت کو امام عقیلی نے غیر محفوظ قرار دیا ہے

کتاب المنار المنیف میں ابن قیم کہتے ہیں

أَنْ يَكُونَ الْحَدِيثُ بَاطِلا فِي نَفْسِهِ فَيَدُلُ بُطْلانِهِ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَلامِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. كَحَدِيثِ “الْمَجَرَّةُ الَّتِي فِي السَّمَاءِ مِنْ عِرْقِ الأَفْعَى الَّتِي تَحْتَ العرش


اور بعض احادیث ایسی باطل ہوتی ہیں کہ ان کا بطلان دلیل ہوتا ہے کہ کلام نبوی ہو ہی نہیں سکتا جیسے حدیث کہ کہکشاں آسمان میں ایک سانپ کی رال ہے جو عرش کے نیچے ہے


صرف روایت کو رد کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا وقتی دب جاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد یہ بات عوام پھر بیان کرنے لگ جاتے ہیں – اس روایت کو تو رد کر دیا گیا کہ کہکشاں کسی سانپ کی رال ہے لیکن یہ قول کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے آج تک علماء مانتے چلے ا رہے ہیں اور اسقول کو موقوف صحابی پر صحیح مانتے ہیں اور چونکہ اصحاب رسول عدول ہیں اس روایت کی اس غیبی خبر کی کوئی اور تاویل نہیں رہتی، سوائے اس کے کہ اس کو قول نبوی قرار دیا جائے

راقم البتہ اس کا سرے سے ہی انکار کرتا ہے کہ عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ نے ایسا کوئی کلام کیا ہو گا

عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ سے منسوب اس قول کی سند میں كَثِير بن أَبي كَثِير البَصْرِيّ مولى عَبْد الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَة الْقُرَشِيّ ہے- اس راوی پر امام عقیلی نے کلام کیا ہے اور نسائی نے سنن النسائي 6/147 اس کی ایک روایت کو منکر قرار دیا ہے اور بیہقی نے السنن الكبرى 7/349 میں کہا ہے

وكثير هذا لم يثبت من معرفته ما يوجب قبول روايته


اور یہ کثیر معرفت حدیث میں مظبوط نہیں کہ اس کی روایت کو قبول کیا جائے


یہاں تک کہ ابن حزم نے اس کو مجھول قرار دیا ہے

البانی اس موقوف قول کو صحیح السند کہتے ہیں اور عبد الله بن عمرو پر الإسرائيليات روایت کرنے کی بات کرتے ہیں-

کتاب موسوعة العلامة الإمام مجدد العصر محمد ناصر الدين الألباني میں البانی کے سوالات پر جوابات کا مجموعہ ہے

السائل: السؤال قد سألتك إياه في التلفون، الذي هو قلت لك حديث: (العرش مطوق بحية، والوحي ينزل بالسلاسل) ذكرت لي أني أرجع أرى هل

هو حديث …. في «مختصر العلو» أنت قلت: حديث عبد الله بن عمرو أو قال حديث عبد الله بن عمر، وعلقت عليه فقلت: وإسناده صحيح عن عبد الله بن عمرو، وقلت: إسناده صحيح، فهل هو في حكم المرفوع إلى رسول الله – صلى الله عليه وآله وسلم –

بهذا الإسناد؟

الشيخ: ما عندي جواب غير ما سمعته، إن كان مصرحاً برفعه فهو كذلك، وإن كان غير مصرح فهو موقوف.

مداخلة: لا ما هو مصرح فهل يعني إذا كان موقوفاً كيف النظر إلى الحديث، هل نقول: أن العرش مطوق بحية؟

الشيخ: لا، ما نقول، وأظن أجبتكم يوم كان الجواب، يعني: لك، هو كان جواباً متكرراً لغيرك؛ أقوال الصحابة إذا صحت عنهم لِتكون في منزلة الأحاديث المرفوعة إلى الرسول عليه السلام يجب أن تكون أولاً: مما لا يقال بالرأي وبالاجتهاد، هذه النقطة بالذات هناك مجال للاختلاف بين العلماء والفقهاء في بعض ما يتفرع من هذا الشرط، وهو أن يكون قول الصحابي أو الحديث الموقوف على الصحابي مما لا يقال بالرأي، ممكن يصير فيه اختلاف، مثلاً: إذا جاء حديثٌ ما فيه النهي عن شيء، هل هذا في حكم المرفوع أم لا، فمن يظن أن النهي عن الشيء لا يمكن أن يكون بالاجتهاد يقول: حكمه حكم المرفوع، ومن يظن مثلي أنا أنه يمكن للصحابي ولمن جاء من بعدهم من الأئمة أن يجتهد وينهى عن شيء ويكون في اجتهاده مخطئاً فيجب إذاً: أن يكون الحديث الموقوف على الصحابي الذي يراد أن نقول: إنه في حكم المرفوع يجب أنه لا يحيط به أي شك في أنه في حكم المرفوع، ومتى يكون ذلك؟ حين لا مجال أن يقال بمجرد الرأي والاجتهاد، هذا الشرط الأول.

والشرط الثاني، أو قبل ما أقول الشرط الثاني: الشرط الأول يعود في الحقيقة إلى أمر غيبي، وهو من معانيه التحريم والتحليل، لكن هذا الأمر الغيبي ينقسم قسمين: قسم يتعلق بالشريعة الإسلامية، وقسم يتعلق بما قبل الشريعة من الشرائع المنسوخة، فلكي يكون الحديث الموقوف في حكم المرفوع ينبغي أن يكون متعلقاً بالشريعة الإسلامية وليس متعلقاً بما قبلها، لماذا؟

هنا بيت القصيد، لأنه يمكن أن يكون من الإسرائيليات، والتاريخ الذي يتعلق بما قبل الرسول عليه السلام … معناه من بدء الخلق إلى ما قبل الرسول عليه السلام وبعثته هو من هذا القبيل.

فإذا جاءنا حديث يتحدث عما في السماوات من عجائب ومخلوقات، وهو لا يمكن أن يقال جزماً بالرأي والاجتهاد فيتبادر إلى الذهن إذاً هذا في حكم المرفوع، لكن لا، ممكن أن يكون هذا من الإسرائيليات التي تلقاها هذا الصحابي من بعض الذين أسلموا من اليهود والنصارى، ولذلك فينبغي أن يكون الحديث الموقوف والذي يراد أن نجعله في حكم المرفوع ما يوحي بأنه ليس له علاقة بالشرائع السابقة.

فهذا الحديث عن عبد الله بن عمرو يمكن أن يكون من الأمور الإسرائيلية التي تتحدث عما في السماء من العجائب، ومن خلق الملائكة، لكن الذي ثابت … الآن عكس ذاك تماماً، يشعر الإنسان فوراً أن هذا لا يمكن أن يكون من الإسرائيليات، فهو إذاً موقوف في حكم المرفوع ولا مناص، ما هو؟

الحديث المعروف والمروي عن ابن عباس بالسند الصحيح، قال رضي الله عنه: نزل القرآن إلى بيت العزة في السماء الدنيا جملة واحدة، ثم نزل أنجماً حسب الحوادث، فهو إذاً: يتحدث عن القرآن وليس عن التوراة والإنجيل، فلو كان حديثه هذا الموقوف عن التوراة والإنجيل ورد الاحتمال السابق، فيقال: لا نستطيع أن نقول هو في حكم المرفوع، لكن ما دام يتعلق بالقرآن وأحكام القرآن وكل ما يتعلق به لا يمكن أن يتحدث عنه بشيء غيبي إلا ويكون الراوي قد تلقاه من الرسول عليه السلام، لأنه كون القرآن نزل جملة هذا غيب من أين يعرف ابن عباس تلقاه من بعض الإسرائيليات هذا مستحيل، ونزل إلى بيت العزة في السماء الدنيا تفصيل دقيق [لا يمكن] للعقل البشري أن يصل إليه، لذلك هذا الحديث يتعامل العلماء معه كما لو كان قد صرح ابن عباس فيه برفعه إلى النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -.

باختصار: إن الأحاديث الموقوفة ليس من السهل أبداً أن يحكم عليها بحكم المرفوع إلا بدراسة دقيقة ودقيقة جداً، وذلك لا يستطيعه إلا كبار أهل العلم.

سؤال: جزاك الله خير يا شيخنا.

الشيخ: وإياك بارك الله فيك.

مداخلة: هذه فائدة فريدة عضوا عليها بالنواجذ والأضراس والثنايا.

الشيخ: جزاك الله خيراً.

“الهدى والنور” (255/ 56: 07: 00).


سائل : یہ سوال ہے جو ٹیلی فون پر اپ سے کیا تھا حدیث جو میں نے اپ سے ذکر تھا کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے اور الوحی زنجیروں سے نازل ہوتی ہے اپ نے ذکر کیا کہ میں پھر سوال کروں تو کیا یہ حدیث صحیح ہے جو مختصر العلو میں ہے حدیث عبداللہ بن عمرو جس پر تعلیق میں کہا اس کی اسناد صحیح ہیں اور ( وہاں اپ نے کہا) میں (البانی) کہتا ہوں اسناد صحیح ہیں – تو کیا یہ مرفوع قول نبی صلی الله علیہ وسلم کے حکم میں اتا ہے اس اسناد سے ؟

البانی : میرا جواب اس سے الگ ہے جو اپ نے سنا اگر رفع کی صراحت ہے تو ایسا ہے ورنہ یہ موقوف ہے

مداخلة: نہیں یہ صراحت نہیں ہے تو اگر یہ موقوف ہے تو ہم حدیث کو کیسا دیکھیں؟ کیا ہم کہیں کہ عرش کے گرد سانپ لپٹا ہے؟

البانی : نہیں ، ہم یہ نہیں بول سکتے اور میرا گمان ہے کہ اس روز جو میں نے جواب دیا تھا وہ اپ کے لئے تھا ، یہ جواب مکرر ہے دوسروں کے لئے – ایسے اقوال جو اصحاب رسول کے ہوں اور ان کی صحت معلوم ہو تو ان کا مقام حدیث مرفوع جو نبی صلی الله علیہ وسلم تک جاتی ہو جیسا ہے اگر اول: جو انہوں نے کہا وہ رائے نہ ہو اجتہاد نہ ہو – اس بات پر علماء و فقہاء کا اختلاف ہوتا ہے کہ اس کے مشتقات میں یہ شرط ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے قول صحابی یا حدیث موقوف ، رائے سے نہ کہی گئی بات ہو – اس امکان کی بنا پر اس میں اختلاف ہوتا ہے مثلا جب حدیث میں کسی چیز کی ممانعت کا ذکر ہو ، تو کیا یہ حکم مرفوع ہے یا نہیں ؟ پس جو (علماء) گمان کرتے ہیں کہ یہ نہی ہے وہ اس کو اجتہاد نہیں لیتے اور کہتے ہیں یہ حکم مرفوع حکم ہے اور بعض میرے جیسے (علماء ) یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صحابی کا قول ہو اور جو ان کا جو کے بعد ائمہ آئے ہیں کہ وہ اجتہاد کریں کسی چیز سے منع کریں یا اجتہاد میں غلطی کریں ….. پس یہ پہلی شرط ہے – اور شرط اول (کے تحت حدیث) حقیقت سے امر غیبی تک جاتی ہے اور اپنے معنی میں حلال و حرام پر ہو گی – لیکن اس امر غیبی میں دو قسمیں ہیں- ایک کا تعلق شریعت سے ہے اور ایک کا منسوخ شریعتوں سے- پس میرے نزدیک حدیث موقوف جو ہے وہ حدیث مرفوع کے حکم پر ہے تو اس میں شریعت اسلامی کا ذکر ہونا چاہیے اور اس سے قبل کی باتوں (اہل کتاب کی شریعت) پر نہیں – کیوں ؟ کیونکہ یہ نکتہ ہے کہ ہو سکتا ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو اور اس تاریخ سے متعلق جو نبی صلی الله علیہ وسلم سے پہلے گذری .. اس معنوں میں ہے مخلوق کا شروع ہونا سے لے کر بعثت نبوی تک کا دور- پس جب کوئی حدیث ہو جس میں آسمانوں کے عجائب و مخلوقات کا ذکر ہو اور یہ امکان نہ رہے کہ یہ بات اجتہاد یا رائے کی ہے تو ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہ حکم مرفوع میں سے ہے لیکن نہیں ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جو ان اصحاب رسول نے بیان کیے جو یہود و نصاری میں سے ایمان لائے اس وجہ سے یہ حدیث موقوف ہونی چاہیے اور اس کا تعلق سابقہ شریعت سے نہیں ہونا چاہیے

پس یہ حدیث جو عبد الله بن عمرو سے ہے ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو جس میں آسمان کے عجائبات کا ذکر ہے اور ملائکہ کی تخلیق لیکن جو ثابت ہے … ابھی وہ اس سے مکمل الٹ ہے – انسان فورا جان جاتا ہے کہ یہ الإسرائيليات میں سے نہیں ہو سکتی- پس حدیث موقوف، مرفوع کے حکم میں ہو اور قابل رد نہ ہو ، تو پھر کیا ہے ؟

ایک معروف حدیث ابن عباس سے صحیح سند سے ہے اپ رضی الله عنہ نے فرمایا قرآن بیت العزہ سے آسمان دنیا پر ایک بار نازل ہوا پھر حسب حوادث تھوڑا تھوڑا نازل ہوا پس جب یہ قرآن کے بارے میں ہے التوراة والإنجيل کے بارے میں نہیں ہے تو یہ حدیث موقوف ہے التوراة والإنجيل کے لئے اور اس پر وہی احتمال اتا ہے پس کہا جاتا ہے ہم اس کو حکم مرفوع نہیں کہیں گے لیکن جب تک یہ قرآن سے متعلق ہو اور احکام قرآن سے متعلق ہو اس وقت تک … قصہ مختصر احادیث موقوف میں یہ کبھی بھی آسان نہ ہو گا کہ ان پر حکم مرفوع لگایا جائے سوائے ان کی تحقیق دقیق کے اور بہت دقیق تحقیق کے اور اس پر سوائے کبار علماء کے کوئی قادر نہیں ہیں


اس تمام بحث کے چیدہ نکات ہیں کہ البانی کے نزدیک عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کی حدیث موقوف صحیح ہے – اپ غور کریں یہ روایت عرش کی خبر ہے اوراس کا سابقہ شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے – یہ غیبی خبر ہے جس میں رائے کا دخل نہیں ہے لیکن البانی اس کو صحیح کہہ چکے تھے اب یہ بھی نہیں کہتے کہ لوگ بولیں کہ عرش پر سانپ لپٹا ہے کیونکہ ممکن ہے یہ الإسرائيليات میں سے ہو-

اصل میں کچھ علماء عبد الله بن عمرو رضی الله عنہ کے حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ یہ الإسرائيليات روایت کرتے تھے

ابن کثیر نے اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر عبد الله بن عمرو کی روایت بیان کی اور مذاق اڑانے والے انداز میں کہا

لَعَلَّهُ مِنَ الزَّامِلَتَيْنِ اللَّتَيْنِ أَصَابَهُمَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يَوْمَ الْيَرْمُوكِ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَكَانَ يُحَدِّثُ مِنْهُمَا أَشْيَاءَ غَرَائِبَ.


لگتا ہے ان اونٹنیوں والی کتب جو اہل کتاب میں سے تھیں جو ان کے ہاتھ لگیں یوم یرموک میں پس اس سے غریب چیزیں روایت کرتے تھے


اس طرح سات بار اس قول کا اعادہ کیا اور ایک بار بھی سند میں مجہولین اور ضعیف راویوں کے بارے میں کچھ نہ کہا-

بھول جانے والے، غلطی کرنے والے یا اختلاط کا شکار راویوں کی بنیاد پر ہم یہ مان رہے ہیں کہ اصحاب رسول روایت کرنے میں اور اجتہاد میں غلطیاں کرتے تھے مثلا حواب کے کتوں والی روایت جو ایک مختلط قیس بن ابی حازم کی روایت کردہ ہے اس کی بنیاد پر ام المومنین رضی الله عنہا کی اجتہادی خطا کا ذکر ہوتا رہتا ہے – یعنی ہم یہ مان گئے کہ راوی غلطی نہیں کر سکتا اصحاب رسول کر سکتے ہیں – یہ کہاں کا انصاف ہے-

جھمیوں کے رد میں محدثین کا زور اسی پر تھا کہ کسی طرح عرش کو ایک ٹھوس چیز ثابت کریں لہذا وہ اس قسم کی روایات جمع کر رہے تھے یہی وجہ ہے کہ یہ روایت امام احمد کے بیٹے کی کتاب السنہ میں بھی ملتی ہے اور عرش سے متعلق محدثین کی کتابوں میں بھی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ الإسرائيليات میں سے ہیں اور اس طرح انہوں نے اپنا مقدمہ خود کمزور کیا اور معتزلہ کو عوامی پذیرائی ملی-

حوالہ
 
Top