السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
نو ذِی الحج وہ دن ہے جس دن سب حاجی میدان عرفات میں جمع ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ، لحظہ بہ لحظہ کی خبر ہونے کے باوجود جغرافیائی اختلاف کی بنا پر چاند کی تاریخوں میں اختلاف کی بنا پر مُسلمانوں کی عیدیں تو ایک نہیں ہو پاتیں ، لیکن """یوم ءعرفات """ایسا دن ہے جس کو کسی دوسری جگہ دوسری تاریخ میں نہیں مانا جا سکتا ہے ،
کیونکہ دُنیا میں ایک ہی مُقام ایسا ہے جِسے ہم مُسلمان عرفات کے نام سے جانتے اور مانتے ہیں ، اور صِرف اُسی مُقام پر ، اُسی جگہ میں ، اور وہیں کی مُقامی تاریخ کے مُطابق ہی ، نو9 ذِی الحج کو سارے حاجی وہاں یعنی میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں ، قیام کرتے ہیں ، حج کا ایک منسک ادا کرتے ہیں ،
پس کسی منطق و فلسفے میں گھسے بغیر صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ وہ دِن جِس دِن حاجی صاحبان میدان عرفات میں قیام کرتے ہیں وہ ہی دِن ساری دُنیا کے مُسلمانوں کے لیے""" یوم ءعرفات """ ہے ،
اور یہ ہی وہ دِن ہے کہ جِس دِن کا روزہ رکھنے والا غیر حاجی مُسلمان کے لیے بہت بڑے اجر و ثواب کی خُوشخبری عطاء فرمائی گئی ہے ، ملاحظہ فرمایے ،
اِس با برکت دِن میں عرفات میں قیام کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے مغفرت کی خوشخبری دی گئی ، اور جو وہاں نہیں ہوتے لیکن اُس دِن اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیّت سے روزہ رکھیں تو اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ز ُبانِ مُبارک سے یہ خوشخبری سُنائی گئی:
(((((صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِى قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِى بَعْدَهُ:::عرفات کے دِن کے روزے کےبارے میں مجھے اللہ سے یقین ہے کہ اُس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک گذرے ہوئے سال اور ایک"""یومء عرفات"""کے بعد والے سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے)))))صحیح مُسلم/کتاب الصیام/باب36،
اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں((((( یُکَفِّرُ السَّنَۃَ المَاضِیَۃَ وَالبَاقِیَۃَ::: پچھلے ایک سال اور اگلے ایک سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے)))))صحیح مُسلم/کتاب الصیام/باب36،
::::::: ایک بہت ہی أہم بات:::::::
دو سال کے صغیرہ (چھوٹے) گُناہ معاف ہونا ، عرفات کے دِن کے روزے کے نتیجے میں ہے ، یعنی وہ دِن جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ، نہ کہ اپنے اپنے مُلکوں ، عِلاقوں میں اپنے اپنے مذاہب و مسالک کی پابندتاریخوں کے مُطابق آنے والے نو ذِی الحج کے دِن کے روزے کے نتیجے میں، پس اِس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ روزہ قیام عرفات والے دِن کا رکھنا ہے ۔
اِس سلسلے کو واضح کرنے کے لیے کوئی لمبی چوڑی بات یا بحث کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن کچھ مُسلمان بھائیوں کی طرف سے ہر مُقام کی الگ الگ رویت ھلا ل کے مُطابق وہاں کے نو ذِی الحج کو """ یومء عرفات """ کا روزہ رکھے جانے کو ہی دُرُست ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے کلام کا اظہار ہوتا ہے،
اِس لیے چند باتیں مختصر طور پر عرض کرتا ہوں،
لیکن اُس سے پہلے یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں کہ""" منطقی اور فلسفیانہ محاکمہ آرائی، اور قیاسات و خیالات پر مبنی مناقاشات کا سلسلہ عموماً لا متناہی ہوتا ہے، اور عموماً حق بات کو دُھندلانے کا، اور سیدھی صاف بات کو الجھانے کا سبب ہوتا ہے """، لہذا خود ساختہ سوال و جواب، امکانیات اور قیاسات سے صِرفء نظر کرتے ہوئے میں نصوص کی روشنی میں بات کروں گا، اِن شاء اللہ ،
:::::::: میرے کچھ بھائی ، رویتء ھلال ، یعنی ، چاند دیکھنے کے اعلان کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے جدید وسائل کے استعمال کے بارے میں چیں بہ جبیں ہوتے ہیں، کہ نہیں صاحب (((صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ::: چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار رہو ))) کے مُطابق ہر ایک جگہ سے چاند دیکھا جانا چاہیے اور اُسی کےمُطابق وہاں کے لوگوں کو یہ یومء عرفات کا روزہ ، اُن کی رویت ھلال کے مُطابق ، اُن کے نو ذِی الحج کو رکھنا ہوگا،
اِدھر اُدھر کی رویت کی خبر کا نفاذ نہیں ہوسکتا ، کیونکہ ایسا کرنا اِس مذکورہ حدیث شریف کے خِلاف ہے،
اپنے اُن بھائیوں کی اِ س مذکورہ بالا بات کے بہت سے جوابات دیے جا سکتے ہیں ، لیکن جیسا کہ ابھی کہہ گذرا ہوں کہ """منطقی اور فلسفیانہ محاکمہ آرائی، اور قیاسات و خیالات پر مبنی مناقاشات کا سلسلہ عموماً لا متناہی ہوتا ہے، اور عموماً حق بات کو دُھندلانے کا، اور سیدھی صاف بات کو الجھانے کا سبب ہوتا ہے"""،
لہذا ، یہ گذارش کرتا ہوں کہ سب سے پہلی بات اچھی طرح سے سمجھنے کی بات ہے کہ ، """یومء عرفات """ کے روزے پر ، اپنے اپنے علاقوں میں رویتء ھلال ،یعنی، چاند دیکھنے کے مُطابق مُقامی تاریخوں والا معاملہ لاگو نہیں ہوتا،
حدیث شریف (((صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ،::: چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار رہو ))) رمضان کے روزوں کے بارے میں ہے، کہ رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھنا شروع کر دو، اور شوال کا چاند دیکھ کر افطار رہنا شروع کر دو، نہ کہ ہر ایک روزے کے بارے میں،
جی یہ حدیث شریف مختلف الفاظ میں مروی ہے ،ا ور صحیح بخاری کی یہ درج ذِیل روایت بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہےکہ یہ حکم رمضان کے بارے میں ہے،
(((صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُبِّىَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلاَثِينَ::: چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار رہو، اور اگر تُم لوگوں پر( مطلع ، رویت ھلال) دُھندلا جائے تو شعبان کی گنتی تیس (دِن) پوری کرو)))صحیح بخاری/حدیث/1909کتاب الصوم /باب11،
اور اگر حدیث شریف کے صِرف پہلے حصے (((صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ::: چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار رہو ))) کو ہی لیا جائے تو بھی ، اِس میں ، اِس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ چاند دیکھے بغیر نئے مہینے کا آغاز نہیں کیا جائے گا، یہ نہیں کہ ہر ایک جگہ ، ہر ایک شخص یا گروہ کے لیے یہ لازم قرار نہیں دِیا گیا، اور نہ ہی یہ کہ صِرف اپنی اپنی جگہ ، یا صِرف اپنی ہی بستی ، گاؤں یا شہر میں چاند دیکھنے کی صُورت میں ہی نئے مہینے کا آغاز کیا جا سکتا ہے،
اگر ایسا ہی ہو تو پھر بھائیوں کے فہم کے مُطابق تو موجودہ جغرافائی تقسیم کے مُطابق سینکڑوں ، بلکہ ہزاروں کلو میٹرز پر پھیلے ہوئے ممالک میں ایک رویت کے نفاذ کو غلط قرار دینا چاہیے، مکہ والوں کی رویت ھلال چار سو کلو میٹر دور مدینہ والوں کے لیے نہیں مانی جا نی چاہیے، اور بار سو کلو میٹر دور دمام والوں کے لیے بھی نہیں ،
لاھور والوں کی رویت کراچی والوں کے لیے نہیں ، اور اور اور اور اور،اور ملکی سطح پر رویت ھلال میں ایک دُوسرے کی اتباع کی بنا پر کی جانے والی عِبادات کو ،،،،،،، یہ تو ایک منطقی سی بات یُوں ہی دَر آئی ، نصوص کی طرف واپس چلتے ہیں،
قارئین محترمین ، (((صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ::: چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار رہو ))) کے عِلاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ بھی تو اِرشاد فرمایا ہے کہ (((صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ وَانْسُكُوا لَهَا فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا ثَلاَثِينَ فَإِنْ شَهِدَ شَاهِدَانِ فَصُومُوا وَأَفْطِرُوا::: چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار رہو، اور اُسی کے مُطابق اللہ کی عِبادت کرو، اور اگر تُم لوگوں پر( مطلع ، رویت ھلال) دُھندلا جائے تو تیس (دِن) پورے کرو، اور اگر کوئی دو شخص (چاند دیکھنے کی)گواہی دے دیں تو روزے رکھو اور افطار کرو (یعنی نئے مہینے کی ابتداء کر لو ) ۔))) سُنن النِسائی/حدیث/2128کتاب الصیام /باب8، مُسند أحمد/حدیث/حدیث اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) میں سے پہلی حدیث ،
مُسند احمد والی روایت میں """ شَاهِدَانِ مُسلمانِ::: دو مُسلمان گواہ """ ہے ، دونوں روایات کو إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ہے، إِرواء الغلیل/حدیث 909، (إِرواء الغلیل میں اِس مسئلے کی مزید تفصیل بھی ہے ، مزید کے طلبگار وہاں دیکھ سکتے ہیں) ،
پس ، دُوسری حدیث شریف کے ذریعے(((صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ::: چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار رہو ))) وہی مفہوم طے پاتا ہے جو میں نے آغاز میں ذِکر کیا ، وللہ الحمد،
اور اگر اِسے صِرف رمضان شریف کی ابتداء کا اندازہ کرنے کی بجائے ، قمری مہینوں کے آغاز کے لیے ایک عام قانون کے طور پر بھی لیا جائے تو بھی یہ صِرف کِسی نئے مہینے کے آغاز کا طریقہ بتانے تک محدود ہے ، نہ کہ کِسی خاص مخصوص سبب کی وجہ سے رکھے جانے والے روزے کو بغیر اُس سبب والے دِن میں ، محض تاریخ کی بِنا ء پر لے آنے کی دلیل ہے،
کیونکہ ، """یوم ء عرفات""" کا روزہ رکھنے کی فضیلت """یوم ء عرفات """میں ادا کیے جانے والے حج کے ایک منسک کی نسبت سے ہے،
ایک مخصوص مُقام پر ادا کی جانے والی ایک مخصوص عِبادت کے سبب سے ہے ، نہ کہ محض نو ذِی الحج کی تاریخ ہونے کی وجہ سے ، لہذا """ یوم ء عرفات""" کا روزہ اپنی اپنی جگہوں میں دیکھے جانے والے چاند کے مُطابق نو ذِی الحج کو رکھے جانے کا معاملہ ہے ہی نہیں ،
بلکہ بڑی وضاحت سے اُس دِن روزہ رکھنے کی فضیلت ہے جِس دِن حاجی عرفات میں قیام کرتے ہیں، اور اُسی دِن کو یوم عرفات کہا جاتا ہے،
جی ہاں ، یہ یومء عرفہ (یوم عرفات) مکہ مکرمہ اور اُس کی متابعت میں تاریخ اختیار کرنے والوں کے لیے تو نو ذِی الحج ہی"""یومء عرفات"""ہوتا ہے، اِسی دِن میں حاجی عرفات کے میدان میں جمع ہوتے ہیں، قیام کرتے ہیں،
کِسی اور مُقام کی رویت ھلال کے مُطابق نو ذِی الحج""" یوم ءعرفات""" نہیں ہوتا،
اوپر ذِکر کردہ دو حدیثوں میں""" یومء عرفات """کا ہی ذِکر ہے ، نو ذِی الحج کا نہیں ،
فقہا کرام ، اور شارحین حدیث کے کلام میں بھی تقریباً سارا ہی کلام """ یومء عرفات """ کے نام و نسبت سے ملتا ہے،
اِس مذکورہ بالا حدیث مُبارک کے علاوہ کئی دیگرصحیح احادیث مُبارکہ میں """ یومء عرفات """کی ہی فضیلت مذکور ہے ، اُن میں بھی اِس دِن کو عرفات کی نسبت سے ذِکر کیا گیا ہے، نہ نو ذِی الحج کی نسبت سے،
اور عرفات میں حاجیوں کے اجتماع اور قیام کو ہی اُن کی مغفرت کا سبب بتایا گیا ہے، نہ کہ نو ذِی الحج کی تاریخ ہونے کو،
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خبر فرمائی ہے کہ (((مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِى بِهِمُ الْمَلاَئِكَةَ فَيَقُولُ مَا أَرَادَ هَؤُلاَءِ ؟::: اللہ ، عرفات والے دِن کسی بھی اور دِن کی نسبت ،سب سے زیادہ بندوں کو جہنم سے نجات دیتا ہے، اور اُس دِن اللہ قریب تشریف لاتا ہے، پھر عرفات میں موجود حاجیوں کے بارے میں فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتے ہوئے اِرشاد فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاھتے ہیں ؟ ))) صحیح مُسلم/کتاب الحج/باب79،
اور اِرشادفرمایا (((إِنَّ اللَّهَ يُبَاهِي بِأَهْلِ عَرَفَاتٍ مَلَائِكَةَ أَهْلِ السَّمَاءِ فَيَقُولُ: انْظُرُوا إلى عبادي هؤلاء جاءوني شُعثاً غُبراً ::: اللہ عرفات (میں جمع ہونے )والوں کے بارے میں آسمان والے فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتا ہے اور اِرشاد فرماتا ہے کہ، دیکھو میرے اِن بندوں کی طرف ، یہ اِس حال میں میری طرف آئے ہیں کہ اِن کے بال اور چہرے مٹی سے بھر چکے ہیں ))) تعلیقات الحسان علی صحیح ابن حبان /کتاب الحج/باب11،
واضح نصوص کے صریح مفہوم کے مُطابق یہ ہی دُرُست ہے کہ ،
فضیلت اُس دِن کی ہی ہے جِس دِن حاجی اپنے اللہ کی رحمت ، برکت اور مغفرت کے طالب ہو کر عرفات میں جمع ہوتے ہیں،
اب یہ دِن مکہ مکرمہ کے عِلاوہ کِسی اور مُقام پر رویت ھلال کے مُطابق آٹھ ذِی الحج بنے یا دس ذِی الحج، ہوگا یہ ہی """یومءعرفات"""،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منصوص دلائل کے مُطابق کِسی بھی جگہ کی رویت ھلال کے مُطابق وہاں آنے والی تاریخ نو ذِی الحج کو وہاں کے لوگوں کے لیے """یومء عرفات """ سمجھنے کے لیے، اور اُس دِن """یومء عرفات """ کا روزہ رکھنے کا کہنے والے میرے بھائی صاحبان کو صِرف ایک حدیث ملتی ہے ، جِس کا سہارا لے کر وہ اپنی بات پر اصرار کرتے ہیں ، لیکن افسوس کہ وہ سہارا بہت کمزور اور اُس روایت کو دلیل بنانا بعید از حقیقت ہے،
وہ حدیث درج ذِیل ہے :::
اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (((كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ::: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ رکھتے تھے، اور اوریوم عاشوراء( دس محرم )کا روزہ رکھتے تھے، اور ہر مہینے میں سے تین دِن کے روزے رکھتے تھے ))) سُنن الترمذِی /حدیث/2439کتاب الصوم/باب62، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
اب ہم اِسی حدیث کی دیگر صحیح روایات کو دیکھتے ہیں ، جو اِسی سند سے منقول ہیں :
اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (((أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ يَصُومُ تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ وَثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَخَمِيسَيْنِ ::: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ رکھتے تھے، اوریوم عاشوراء( دس محرم )کا روزہ رکھتے تھے، اور ہر مہینے میں سے تین دِن کے روزے رکھتے تھے، (اور وہ تین تھے)ہر مہینے کا پہلا سوموار (پیر کا دِن)اور دو جمعرات کے دِن )))سُنن الترمذِی /حدیث/2417کتاب الصیام/باب83، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
قارئین کرام ، توجہ فرمایے ، میں نے مذکورہ بالا دونوں روایات میں سے بالترتیب ، حدیث شریف کے ترجمے میں """ تِسْع ذِى الْحِجَّةِ""" اور """ تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ""" کا ترجمہ """ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ """ لکھا ہے، """نو ذِی الحج کا روزہ """ نہیں لکھا،
اور ایسا اِس لیے کہ اِن دونوں روایات میں """ تِسْع ذِى الْحِجَّةِ""" اور """ تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ""" کا دُرُست مفہوم """ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ """ ہی بنتا ہے، نہ کہ """نو ذِی الحج کا روزہ """ ،
کیونکہ ، """ تِسع ، و ، تِسْعًا """عدد نہیں ، بلکہ جُزء ہے، اگر عدد کا ذِکر ہو تا تو """ تاسْع """ کہا جاتا،
اور اِس کی تائید بھی اِسی سُنن الترمذِی میں ، اِسی مذکورہ بالا حدیث شریف کے بعد اِنہی اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بھی مذکور ہے کہ (((كَانَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- يَصُومُ الْعَشْرَ وَثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ الاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ ::: نبی (صلی اللہ علیہ وسلم، ذِی الحج کے پہلے) دس دِن روزہ رکھتے تھے، اور ہر مہینے میں سے تین دِن کے روزے رکھتے تھے، (اور وہ تین تھےہر مہینے کا پہلا )سوموار (پیر کا دِن)اور (دو) جمعرات (کے دِن) ۔)))
یہ دونوں روایات ایک دوسری کی تفصیل بیان کرنے والی ہیں ، پس واضح ہوتا ہے کہ""" تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ""" کا دُرُست مفہوم """ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ """ ہی بنتا ہے، نہ کہ """نو ذِی الحج کا روزہ """ ،
کیونکہ دسواں دِن تو عید کا ہوتا ہے ، اور عید سے روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے، اور کہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس دِن روزہ رکھا ہو، لہذا ، """ الْعَشْرَ """ کی تشریح ،اور تفصیل """ تِسْعًا مِنْ ذِى الْحِجَّةِ """ یعنی """ذِی الحج میں سے نو دِن روزہ """ ہے ،
یہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے ، وہ میری ذاتی سوچ یا خود فہمی نہیں ہے،
علامہ محمد عبدالرحمن مُبارک پوری رحمہُ اللہ نے """تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی/ابواب الصوم /باب مَا جَاءَ فِي صِيَامِ الْعَشْرِ""" میں، اور ، علامہ عبید اللہ مبارک پوری رحمہُ اللہ نے"""مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح """ میں، اور علامہ عبدالمحسن العباد حفظہُ اللہ نے """شرح سُنن ابی داؤد""" میں تقریبا ً یہی کچھ بیان فرمایا ہے، تفصیل کے متمنی اِن کتب کا مطالعہ فرما سکتے ہیں،
تو معاملہ صاف ہوا کہ ، اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ اِس حدیث شریف میں """نو ذِی الحج کا روزہ""" رکھنے کا ذِکر نہیں ، بلکہ """ذِی الحج کے پہلے نو دن کے سارے روزے """رکھنے کا ذِکر ہے،
لہذا یہ روایت کسی بھی مُقام کی رویت ھلال کے مُطابق """نو ذِی الحج """ کو """یومء عرفات """ مان کر ، اُس دِن روزہ رکھنے کی کوئی دلیل نہیں بنتی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ایک اور مسئلے کو واضح کرتا ہوں ، اِن شاء اللہ،
جو ایک سوال و جواب کی صُورت میں درج ذیل ہے :::
::: سوال :::
اگر کہیں کی رؤیت ھلال کے مُطابق دس ذی الحج مکہ میں یوم عرفات ہو تو دس ذی الحج والے لوگ کو یوم عرفات کے روزے کے بارے میں کیا کرنا چاہیے ؟
::: جواب :::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم بھائی ، آپ کے سوال کے جواب میں ، اپنی ایک زیر تیاری کتاب """ ہفتے کے دن نفلی روزہ رکھنے کا حکم """ میں سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں ،جو آپ کے اِس سوال کا جواب ہے ، اِن شاء اللہ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم اِس موضوع کی طرف آتے ہیں کہ اگر کِسی کام کے بارے میں جواز اور ممانعت دونوں ہی حُکم صحیح سندوں کے ساتھ ملتے ہوں تو اِس صورت میں جواز اور ممانعت میں سے کِس کو أختیار کیا جائے گا اور اُس پر عمل کیا جائے گا ،
فقہ کے قواعد و أصول میں یہ مقرر ہے کہ """ اِذا تعارض الحاظرُ المبیح فلیؤخذ الحاظر و یُترَک المبیح """یعنی """اگر ممانعت کا حُکم اور جواز کا حُکم ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوں تو ممانعت والے حُکم پر عمل کیا جائے گا اور جواز والے کو ترک کر دیا جائے گا """،
اِس أصول کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک حدیث مبارک ہے ، جِس کا ذِکر ابھی چند سطر کے بعد کِیا جائے گا اِن شاء اللہ ۔ عادِل ]]]
چونکہ (اُم المؤمنین)جویریہ بنت الحارث (رضی اللہ عنہا )اور أبو ہُریرہ (رضی اللہ عنہ ُ )والی دونوں أحادیث میں زیادہ سے زیادہ ہفتے کو نفلی روزہ رکھنے کا جواز ہی ملتا ہے ، تو ایسی صورت میں جواز پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ ممانعت پر عمل کیا جائے گیا ،
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے حُکم دِیا ہے کہ(((((إِذا أمرتُکُم بِأمرٍ فأتوا مِنہ ُ ما أستطعتُم ، و إِذا نھیتُکُم عَن أمر ٍ فأنتھوا ::: جب میں تمہیں کوئی کام کرنے کا حُکم دوں تو اپنی طاقت و قدرت کے مطابق اُس پر عمل کرو اور جب میں تمہیں کِسی کام کے کرنے سے منع کروں تو اُسے کرنے سے باز آ جاؤ )))))عن أبی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ ، صحیح البخاری ، حدیث 7288 ، صحیح مسلم ، حدیث1377،
[[[ اِس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ألفاظ ہمیں صاف صاف سمجھا رہے ہیں کہ ممانعت کے حُکم (نہی)میں کوئی أختیار نہیں ، اُس پر عمل کرنا ہی کرنا ہے اور منع شدہ کام سے باز آنا ہی ہے اِس میں اپنی أستطاعت (طاقت و قدرت )کے مطابق عمل کرنے کی بھی گنجائش نہیں جیسا کہ کِسی کام کو کرنے کے حُکم (أمر )پر عمل کرنے میں اپنی أستطاعت کے مطابق کرنے کی نرمی دی گئی ہے ،
تو کیا صاف صریح ممانعت مشروط جواز اور أختیار کے خلاف ہوتی ہے ؟ ہر گِز نہیں ، أختلاف أحادیث میں نہیں بلکہ اپنے فہم میں ہے یا یہ کہیے کہ اپنے محدود فہم میں ہے ، اور جب کوئی أختلاف نہیں تو پھر ناسخ اور منسوخ کی طرف دوڑ لگانے کی قطعا ً کوئی ضرورت نہیں جیسا کہ علم الاصول میں مقرر ہے ۔ عادِل ]]]
ممانعت کے حُکم (نہی) کو کام کرنے کے حُکم ( أمر )پر فوقیت دینا صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے ، إمام الطیالسی اپنی مُسنَد میں روایت کرتے ہیں کہ :::
"""""عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے کِسی نے پوچھا کہ اگر کوئی جمعہ کو روزہ رکھنے کی منّت (نذر )مان لے تو اُسکا کیا حُکم ہے ؟ ،
تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ ُ نے جواب دِیا (((((ہمیں منّت (نذر ) پوری کرنے کا حُکم دِیا گیا ہے اور جمعہ کا روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے ))))) """""،
ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اِس جواب سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ممانعت کے حُکم (نہی)کو کام کرنے کے حُکم(أمر )پر فوقیت دے رہے ہیں کیونکہ نہی میں کوئی أختیار نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور عید والے دِن روزہ نہ رکھنا ، نہی ہے ، یعنی ممانعت والا حکم ہے ، کام نہ کرنے کا حکم ہے ،
اور اُس کے مُقابلے میں اگر کہیں کی رؤیت کے مطابق یہ عید والا دِن حقیقی فعلی یوم عرفات ہو ، تو اُس دِن غیر حاجیوں کا روزہ رکھنے کا معاملہ ایک ترغیبی معاملہ ہے ،یعنی اس کا تو کوئی حکم بھی نہیں دِیا گیا ، صِرف ترغیب دلائی گئی ہے ،
لہذا ممانعت والے حکم پر عمل کیا جائے گا ، اور روزہ نہیں رکھا جائے گا،
اور اگر ایسی صُورت میں روزہ نہ رکھنے والے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کی نیت سے روزہ نہ رکھیں گے تو اِن شاء اللہ ، اُنہیں اس سے زیادہ اجر ملے گا کیونکہ (((((إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئاً لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلاَّ بَدَّلَكَ اللَّهُ بِهِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكَ مِنْهُ :::تُم جب بھی کوئی چیز اللہ عزّ و جلّ کی خاطر چھوڑو گے تو وہ یقیناً تمہیں اس کے بدلے میں وہ کچھ عطاء کرے گا جوتمہارے لیے اُس چھوڑے جانے والی چیز سے زیادہ خیر والا ہو گا))))مُسند احمد /حدیث /23124 أحاديث رجال من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم میں سے حدیث رقم 13 ،
شیخ شعیب الارنؤوط رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
اور کچھ دیگر اسناد کے حوالےسے اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ/حدیث رقم 5کے ضمن میں ۔و السلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:::::::: کچھ لوگ اس بحث کو بھی ، اِس مسئلے میں شامل کر لیتے ہیں کہ عرفات کا نام عرفۃ ، عرفات کیوں ہے؟
جبکہ اِس سوال کا ، اِس موضوع کا ، ہمارے زیر مطالعہ و زیر تفہیم مسئلے سے کچھ تعلق نہیں بنتا ، بلکہ دِین کے کِسی بھی معاملے کا اِس سے کوئی تعلق نہیں بنتا ، ہمارے لیے اتنا جاننا کافی ہے کہ کس جگہ ، کس مُقام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عرفات فرمایا ہے، اور اُس مقام سے متعلق کون کون سے عمل ذِکر فرمائے ہیں ،
اور اللہ عزّ و جلّ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور فرامین کے مُطابق عقائد و اعمال اپنانے اور مکمل کرنا ہیں،
اللہ تقدس أسماوہُ ، ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اُس کے دِین کو اُس کی مُراد ، اور رضا کے مُطابق سمجھیں، اپنائیں ، اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اللہ کے سامنے حاضر ہو سکیں ، والسلام علیکم۔
https://adilsuhail.blogspot.ae/2016/09/blog-post_6.html?m=1