قرآن شریف کے نظام ہدایت میں "یاد" منانے کی اہمیت
قرآن شریف نے انسان کو جو نظام ہدایت عطا کیا ہے اس کے قیام و استحکام کی بنیاد اسی یاد پر رکھی گئی ہے .چنانچہ وہ انسان جو اللہ اور اس کے آخری رسول (ص) پر ایمان لاتا ہے وہ ہدایت الہیٰٰ کے ماضی اور مستقبل پر بھی ایمان لاتا ہے . قرآن میں اللہ فرماتا ہے
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
(البقرہ : ۴)
وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنہیں (اے رسول) ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں
یہاں " آپ سے پہلے نازل کی گئی" کتابوں پر ایمان "یاد" کی بنیاد پر ایمان کا جزو لانیفک بن گیا ہے جب کہ مومن کا باقی زندگی میں اسی ہدایت کو "یاد رکھتے ہوئے" اور ہر قدم اس کی اتباع اور پیروی کرتے ہوئے گزارنا تکمیل ایمان کے لئے لازم ہے
ہمارے عقیدے ، باطنی ارتقاء اور روحانی زندگی کا انحصار ذکر یعنی یاد کرنے، یاد رکھنے اور یاد منانے پر ہے.ہمارے روز مرہ معاملات ، سر گرمیاں ، حرکات و سکنات ، گفتگو،سمجھ بوجھ ، پڑھنا لکھنا، میل ملاقات ، الغرض جملہ امور زندگی اس علم پر منحصر ہوتے ہیں جو ہم حاصل کرتے ہیں اور اپنی زندگی میں محفوظ ہوتی ہے.یہی یاد ہمیں زندگی گزارنے کے طریقے ، سلیقے اور ہنر سکھاتی ہے . "یاد" کے بغیر گویا پوری زندگی دیوانگی ہے ، ہوش و خرد اسی یاد کے سہارے قائم ہے
ملت ابراہیمی
"سابقہ انبیاء کرام کی یاد منانا" اور ان کی نبوت و رسالت کا اقرار کرنا بھی ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے. چنانچہ اسلام کو قرآن کریم میں متعدد مقامات پر " ملت ابراہیمی کہا گیا ہے
وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
البقرہ:١٣٠
ور کون ہے جو ملّت ابراہیم علیھ السّلام سے اعراض کرے مگر یہ کہ اپنے ہی کوبے وقوف بنائے . اور ہم نے انہیں دنیا میں منتخب قرار دیا ہے اور وہ آخرت میں نیک کردار لوگوں میں ہیں
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
البقرہ:١٣٥
اور یہ یہودی اور عیسائی کہتے ہیں کہ تم لوگ بھی یہودی اورعیسائی ہوجاؤ تاکہ ہدایت پا جاؤ توآپ کہہ دیں کہ صحیح راستہ باطل سے کترا کر چلنے والے ابراہیم علیھ السّلام کا راستہ ہے کہ وہ مشرکین میں نہیں تھے
قُلْ صَدَقَ اللَّـهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
آل عمران:٩٥
پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ خدا سچاّ ہے .تم سب ملّت ابراہیم علیھ السّلام کا اتباع کرو وہ باطل سے کنارہ کش تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے
وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّـهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا
النساء:١٢٥
اور اس سے اچھا دیندار کون ہوسکتا ہے جو اپنا رخ خد اکی طرف رکھے اور نیک کردار بھی ہو اور ملّت ابراہیم علیھ السّلام کا اتباع کرے جو باطل سے کترانے والے تھے اور اللہ نے ابراہیم علیھ السّلام کو اپنا خلیل اور دوست بنایا ہے
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
الانعام:١٦١
آپ کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھے راستے کی ہدایت دے دی ہے جو ایک مضبوط دین اور باطل سے اعراض کرنے والے ابراہیم علیھ السّلام کا مذہب ہے اور وہ مشرکین میں سے ہرگز نہیں تھے
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
النحل:١٢٣
اس کے بعد ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ ابراہیم علیھ السّلام حنیف کے طریقہ کا اتباع کریں کہ وہ مشرکین میں سے نہیں تھے
وَجَاهِدُوا فِي اللَّـهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّـهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ
الحج:٧٨
اور اللہ کے بارے میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے کہ اس نے تمہیں منتخب کیا ہے اور دین میں کوئی زحمت نہیں قرار دی ہے یہی تمہارے بابا ابراہیم علیھ السّلام کا دین ہے اس نے تمہارا نام پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی مسلم اور اطاعت گزار رکھا ہے تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ رہے اور تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو لہذا اب تم نماز قائم کرو زکوِٰ اداکرو اور اللہ سے باقاعدہ طور پر وابستہ ہوجاؤ کہ وہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے
ان جملہ آیات میں ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے .حضرت یوسف (ع) قید خانہ میں دو قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر فرمانے سے پہیلے اپنے نین کی تبلیغ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ
(یوسف:۳۸)
میں اپنے باپ دادا ابراہیم -اسحاق اور یعقوب کے طریقے کا پیرو ہوں
ان آیات میں سابقہ انبیاء کی یاد کو دین کی بنیاد بنایا جا رہا ہے یعنی انبیائے سابقہ اور ان کی امتوں کے حالات کو یاد رکھتے ہوئے انبیاء کی سنت کی پیروی کرنا بھی سنت انبیاء ہے .ارشاد باری تعالیٰٰ ہوتا ہے
إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ
(النساء:۱۶۳)
ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح علیھ السّلام اور ان کے بعد کے انبیائ کی طرف وحی کی تھی
سابقہ امتوں اور رسول محمد (ص) سے پہلے تشریف لانے والے انبیاء کرام کے احوال اور دین ابراہیم کے حوالے سے حاصل ہونے والا علم اھل ایمان کے قلوب میں یاد کی صورت میں منور ہوکر قدم قدم پر ہمارے لئے ہدایت کی روشنی مہیا کرتا ہے
یاد کا مضمون انتہائی وسیع ہے اور یہاں موضوع سے متعلقہ نکات ذہن نشین کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہم "یاد" کے قرآن حکیم میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا مطالعہ کریں. اس حوالے سے "ذکر" کا لفظ قرآن میں کم وبیش 267 مرتبہ استعمال ہوا ہے.اس کا مطلب ہے :یاد کر لینا، یاد دلانا، محفوظ کر لینا
اسی یاد کو برقرار رکھتے ہوئے ہم آل ابراہیم (ع) کی نشانی "امام حسین (ع) " کی یاد کو مناتے ہیں اور اس یاد کو منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ غم حسین (ع) کے ساتھ ساتھ فلسفہ حسینی (ع) کو بھی یاد رکھا جائے تاکہ حسین (ع ) کے عزادر وقت کے یزید لعین سے مقابلہ کر سکیں .عزاداری امام حسین (ع) کو منانا ، شعائز اسلامیہ میں ہے اور آج جو عزاداری کی مخالفت کرتا ہے وہ حقیقت میں اسلام دشمن اور یزید دوست انسان ہوتا ہے .مگر یہ یاد آل ابراہیمی ہے ، جس کو کوئی دشمن نہیں مٹاسکتا ،جتنا اس یاد حسین (ع) کو دبایا جائے گا ، یہ اُُسی قدر جوش وجذبہ سے بلند ہونگی اور آخرکار
ہر قوم پکار اُُٹھے گی کہ ہمارے ہیں حسین ع