• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصرِحاضر میں بڑے بڑے فتنوں میں سے ایک ’’جمہوریت ‘‘کا فتنہ ہے

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
5دعوتی مصلحت
آخر دلیل جس کو جمہوریت پر ایمان رکھنے والے اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ یااسمبلی میں جانے میں بڑی مصلحتیں ہیں بلکہ بعض تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ اس کی دلیل’’ مصلحت مرسلہ‘‘ہے اور پھر دعوت الی اللہ اورکلمہ حق کے پرچار اورمنکرات کے ازالے اور دعوت وداعیان پر کی گئی پابندیوںوسختیوں میں تخفیف کا تذکرہ کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ انہیں عیسائیوں یا گمراہوں یا شیعہ کے لئے خالی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کچھ لوگ ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں اورکہتے ہیں اللہ کی شریعت کی حاکمیت اور ا س کے دین کی اقامت کی مصلحت یہیں سے حاصل ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ ان کی اوربہت سی بھونڈی اصطلاحات ورقیق تاویلات وباطل خواہشات، جن کا تعلق اورمدار’’ مصلحت‘‘پر ختم ہوتا ہے۔

اس سے پہلی بات ہم یہ کہتے ہیں کہ کون ہے جو اپنے دین اوراپنے بندوں کی مصلحتوں سے کماحقہ آگاہ ہے۔ اللہ لطیف وخبیریا یہ جمہوریت کے رسیا لوگ اپنی باطل اصطلاحات اور استحسانات کے ساتھ ؟اگران کا گمان یہ ہے کہ ’’ہم‘‘…توپھرہم کہیں گے کہ’’ تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین‘‘۔ یعنی یہ جن کی عبادت کرتے ہیں،ہم ان کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم جس وحدہ لاشریک لہ ٗکی عبادت کرتے ہیں یہ اس کی عبادت نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ نے اپنے کلام میں فرمایادیا:
{ مَّا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ} (الانعام:۳۸)
’’ہم نے کتاب میں کچھ بھی نہیں چھوڑا‘‘۔

اور یہ توہمارے دین میں ہے، جبکہ’’دین جمہوریت‘‘میں توانسان خود ہی قانون ساز اورخود ہی اس کے مطابق فیصلہ کرنے والااور خود ہی اس پر چلنے والاہے ۔ تو گویا کہ انسان آزاد ہے کہ جو قانون یا دین بنائے جس پر چاہے چلے، جسے چاہے ٹھکرادے،اس کا بنایاہواقانون جس پر وہ عمل پیرا ہے کتاب اللہ کے مطابق ہو یامخالف اس کی کچھ اہمیت نہیں۔
{اُفِّ لَّکُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ} (الانبیاء:۶۷)
’’تف ہے تم پر اور اللہ کے سوا تمہارے معبودوں پر کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘۔

اورجبکہ اللہ وحدہ لاشریک لہ ہی ہے جو اپنے بندوں کے لئے حدود مقرر کرتا ہے کیونکہ وہ خالق ہے اپنی مخلوق کی مصلحتوں سے آگاہ ہے:
{اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ ہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ} (الملک:۱۴)
’’کیا وہ نہیں جانتا کہ اس نے کس کو پیدا کیا حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔

توپھر بتائیں کہ وہ کون سی بڑی’’ مصلحت‘‘ہے جس کی خاطر اس نے انسان وجنات اور زندگی اورموت پیدا کی اور اسی کی خاطر کتابیں اتاریں ،انبیاء بھیجے ،جہاد فرض کیا اور جس کی خاطر اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جاتی ہے ؟اب اگر جواب یہ ہو کہ وہ توحید خالص اور اس کے منافی شرک وکفرسے اجتناب وبغض وعداوت کا اظہار ہے۔توپھر ہم کہتے ہیں کہ اے اصحاب عقل وفہم! کیا یہ بات عقل کے لائق ہے کہ اس عظیم، قطعی، کلی مصلحت کو فوت کردیاجائے اور طاغوت کی موافقت کرتے ہوئے اللہ کے دین کے علاوہ غیر اللہ کے دین جمہوریت کو قبول کرلیا جائے اور غیر اللہ کے قانون دستور کا احترام کیا جائے اور قانون ساز’’ آلھۃ باطلہ‘‘کی اتباع کی جائے اور دیگر جزوی، ظنی، مرجوح مصلحت کی خاطر کائنات کی اس سب سے عظیم مصلحت یعنی’’ توحید خالص اور طواغیت کے ساتھ کفرکرنا ‘‘اسے فوت کردجائے…؟اس ظلم وناانصافی پر سوائے ’’کفریہ دین جمہوریت‘‘کے کوئی اوردین یا قانون راضی نہ ہوگا۔پھر اس شرکیہ پارلیمنٹ میں اسلام کی حقیقی اور بنیادی دعوت ِتوحید کو دفن کرنے کے بعد کون ساحق یا دعوت ہے جس کاوہ پرچار کریں گے ؟کیا جزئی اور فرعی مصلحتوں کی خاطر اصل الاصول سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے؟اور پھر جب ان جزئی اور فرعی مصلحتوں کی حصول کی خاطر کوشش بھی کی جائے مثلاً شراب کو حرام قرار دینے کی کوشش کی جائے تویہ مطالبہ کس دلیل اور سند کے ذریعے ہوگا ؟کیا یہ کہا جائے گا کہ اللہ اور ا س کے رسول نے اسے حرام کیا ہے یا اگرلوگوں کایہی زعم ہے تویہ جھوٹ ہے کیونکہ جمہوری دین اور دستوری قانون میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ صرف دستور ہی اصل مصدر وماخذ ہے۔ لہٰذا اس مطالبے کے لئے یہی کہناہوگاکہ ’’آئین ‘‘کے آرٹیکل فلاں فلاں میں اس طرح ہے۔لیکن دراصل یہی تووہ’’شرک وکفر اور الحاد‘‘ہے کہ اس راہ پر چلنے والے کا عقیدہ توحید محفوظ نہیں رہ سکتا۔
{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ ٰامَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلاًم بَعِیْدًا} (النساء:۶۰)
’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کازعم ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیاکہ وہ چاہتے ہیں کہ فیصلے کے لئے طاغوت کے پاس ہی جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا کہ اس کے ساتھ کفر کریں اور شیطان چاہتاہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں لاپھینکے‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
کیا جمہوریت کے راستے اسلام کانفاذ ممکن ہے؟

کیا جمہوریت کے راستے اسلام کانفاذ ممکن ہے؟
ان تمام دلائل و برھان کے باوجود کچھ لوگ اس بات پر بضد نظر آتے ہیں کہ ’’ہم قرآن و سنت کے تابع جمہوریت کے قائل ہیں‘‘۔یہ کلمہ اسی طرح مردود ہے جس طر ح کوئی یہ کہے کہ ’’ہم قرآن وسنت کے تابع کفر و شرک کے قائل ہیں‘‘۔جب یہ ثابت ہوچکا کہ شریعت میں کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے کے لئے’’کثرتِ رائے ‘‘یا ’’عوامی رائے دہندگی ‘‘کوکوئی مقام حاصل نہیں ہے۔اصل شے یہ ہے کہ رائے یا مشورہ دینے والے اس کے اہل ہوں اور دوم یہ کہ کسی بھی رائے یا مشورہ کو اقرب الی الحق ہوناچاہیے،چاہے وہ سو افراد میں سے ایک ہی کی کیوں رائے یامشورہ نہ ہو جبکہ جمہوریت میں اصل فیصلہ ساز ہی ’’اکثریت ‘‘ ہے تو پھر اس جمہویت کا اسلام سے کیا جوڑ؟اورجب یہ ثابت ہوچکا کہ اسلام اور جمہوریت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دونوں ایک الگ الگ نظام اور طریقہ کار رکھتے ہیں تو پھر دونوںکا آپس میں خلط ملط کرنے کی جسارت کیوں کی جاتی ہے۔کیا یہ طرزِ عمل علمائے یہود والا نہیں جووہ ہر باطل چیزکو حلال کرنے کے لئے حق کا سہارا دے دیا کرتے تھے۔ چناچہ اسی روش کی بنا پر قرآن کریم نے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
{وَلاَ تَلْبِسُوْا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوْا الْحَقَّ وَاَنتُمْ تَعْلَمُوْنَ } (البقرۃ:۴۲)
’’اور مت ملائو حق کو باطل کے ساتھ اور نہ حق کو چھپائوجبکہ تم جانتے ہو‘‘۔

اور کیا تکمیل دین اور نظامِ سیاست کے حوالے سے ہر معاملے میں اللہ کے رسول ﷺاور خلفائے راشدین کی سنت واضح ہونے کے باوجود نت نئے طریقہ ایجاد کرنا یا اختیار کرنا،چاہے اس میں کتنی ہی خیر و برکت نظر آئے ،دین میں نئی بات یعنی بدعت پیدا کرنے کے مترادف نہیں؟آج مسلمانوں کی اکثریت شریعت کے واضح کئے ہوئے طریقے کوچھوڑ کر غیروں کے دیئے ہوئے جمہوری نظام یا طریقوں کوجس کا شریعت کے متصادم ہونا قطعی طورپر ثابت ہوچکا ہے، مختلف حیلوں و بہانوں سے اپنے لئے جائز نہیں بلکہ عین اسلام قراردے کر اختیار کئے ہوئے ہیں۔

تکمیل دین کے بعد آخر اس بات کی ضرورت کیا ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺکے دیئے ہوئے طریقے کو چھوڑ کرکسی اور نظام کو اختیار کریں یا اس کو’’مشرف بہ اسلام‘‘کرنے کی کوشش کریں۔رسول اللہ ﷺنے اس بات کی خبر آج سے چودہ سو سال قبل دے دی تھی کہ آخری زمانے میں لوگ اللہ کے رسول ﷺاور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کو چھوڑ کردین کے معاملے میں مختلف طریقوں کو دین سمجھ کر اختیار کرنا شروع کردیں گے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا :
وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَوْعِظَۃً وَّجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ، وَذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ ، فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ کَاَنَّھَا مَوْعِظَۃُ مَوَدِّعٍ فَاَوْصِنَا، قَالَ اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَاللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ تَاَمَّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ وَاَنَّہٗ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرٰی اِخْتِلَا فًا کَثِیْرًا ، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ عَضُّوْ عَلَیْھَا بِا النَّوَاجِذِ ، وَاِیَّا کُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ ، فَاِنَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ ‘‘ (ابوداؤد، ترمذی،مسنداحمد)
’’(صحابہ اکرام بیان کرتے ہیں کہ )ہمیں نصیحت فرمائی اللہ کے رسول ا نے ایسی نصیحت جس کو سن کر (ہمارے ) دل دہل گئے (ہماری ) آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ پھر ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول e! یہ نصیحت تو گویا رخصت کرنے والے کی وصیت لگتی ہے تو آپ ہمیں وصیت فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایامیں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی اور اپنے حاکموں کے (معروف)احکام سننے اور قبول کرنے کی، خواہ حاکم ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔کیونکہ میرے بعد جو زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا۔ پس تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اپنے اوپر لازم کرلواور اس کو دانتوں سے مضبوط تھام لو، اور نئی نئی باتوں سے بچتے رہو، کیوں کہ ہر نئی جاری کی ہوئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
یعنی آخری زمانے میں جب لو گ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگیں اور اسلام کے دیئے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر نت نئے طریقوں کو اسلام کا لبادہ اوڑھا کر اپنانے کی کوشش کریں تورسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو یہ وصیت کررہے ہیں کہ اس قسم کی گمراہیوں سے بچنااور میرے اور میرے خلفائے راشدین کی سنت یعنی طریقے کو دانتوں سے تھام لینا۔دانتوں سے تھامنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہاتھوں سے نہیں تھام سکتے تو دانتوں سے پکڑلینا۔یعنی حالات کتنے ہی نامساعد اور ناسازگار نظر آئیں،کتنے ہی تکالیف اور مصیبتوں کے پہاڑ تم پر ٹوٹ جائیں تم اس کو تھامے رکھنا اور نت نئے طریقوں کو ایجاد کرنے یا اختیار کرنے سے مکمل بچنا ۔لہذا امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اجمع المسلمون علی أن من استبان لہ سنۃ عن رسول اللّٰہ ﷺ لم یحل لہ أن یدعھا لقول احد‘‘
’’اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ جس شخص پر رسول اللہ ﷺکی کوئی سنت واضح ہوجائے ،اس کے لئے ’’حلال ‘‘ نہیں کہ وہ کسی کے بھی کہنے پر اسے ترک کردے‘‘۔
اور بھلا کیا ان جمہوریت کے بت کدوں(پارلیمنٹس)میں شرکیہ اورکفریہ راستوں کے سوا قانون سازی ممکن ہے ؟پھربھی لوگ اللہ کا نازل کردہ دین اور نظام اسی کفریہ راستے سے چل کر قائم کرنا چاہتے ہیں؟کیا یہ نہیں جانتے کہ یہ مسدود کفریہ راہیں ہیں کیونکہ بالفرض محال اگر ایسا ہوبھی گیا تب بھی یہ اللہ کانظام نہ کہلائے گا بلکہ دستوری یا عوامی یاجمہوری نظام ہی کہلائے گا۔ عمل ،قانون سازی اور نفاذ کے اعتبار سے قطعاً اللہ کا نظام نہ ہوگا بلکہ یہی توطاغوتی نظام کہلاتا ہے جس میں بعض امور اللہ کے نظام کے مطابق ہی کیوںنہ ڈھالیں گئے ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ وَّ لاَ یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا} (الکہف:۲۶)
’’اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا‘‘۔

{اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ} (یوسف:۴۰)
’’نہیں ہے حکم مگر صرف اللہ کے لئے‘‘۔

{ وَ اَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ} (المائدہ:۴۹)
’’اور یہ کہ حکم کر ان کے مابین اللہ کے نازل کردہ کے مطابق‘‘۔

چناچہ یہ نہیں فرمایاکہ اللہ کے نازل کردہ کے مثل کے مطابق یا دستور یا قانون کے مطابق بلکہ یہ توجمہوریت کے بندوں اورمشرکین کا کہنا ہے ۔لیکن پھربھی لوگ کن احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں؟کیا یہ تاریخی حقائق وتجربات سے فائدہ نہیں اٹھاتے؟ کیا نہیں دیکھتے کہ الجزائر، کویت مصر وغیرہ میں اورپاکستان میں بھی میں کیا ہوتا آیا ہے کہ ان اسمبلیوں کو طاغوت کے ہاتھوں کا کھلونا بنادیا گیا۔ اس نے جب چاہا اسے مشروع کردیا اورجب چاہا تحلیل کردیا ۔نیز اس جمہوری نظام میں کوئی قانون اس وقت تک قابل عمل نہیں جب تک کہ طاغوت اس کی تصدیق نہ کردے۔ توکیا اب بھی یہ جمہوریت کے شیدائی اس ’’کفر بواح‘‘ اور’’ شرک صریح ‘‘پر اصرار کرتے رہیں گے اور چیختے چلاتے رہیں گے اوریہی راگ گاتے رہیں گے کہ ہم ان اسمبلیوں کو شیعوں اور عیسائیوں وغیرہ جیسے ملاحدہ کے لیے کیونکر خالی چھوڑدیں؟تو کیا اللہ اور اس کے رسولﷺ اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ کوئی مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی رکھتا ہواور وہ زندیقوں اور فاسقوں کی ایسی مجالس میں شریک ہوجہاں قانون سازی کاحق قرآن وسنت کو نہیں بلکہ اکثریت کو حاصل ہویا باالفاظِ دیگرکیا اہل ایمان کی شوریٰ میں فاسقوں اور زندیقوں کی شرکت کسی صورت میں جائز ہوسکتی ہے چاہے اُن کو لوگوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو؟ تف ہے ایسی بے عقلی اور خسیس تدبیر پر ۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
{ وَ لاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ اِنَّہُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اﷲَ شَیْئًا یُرِیْدُ اﷲُ اَلاَّ یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ} (آل عمران:۱۷۶)
’’اور آ پ کو وہ لوگ غمزدہ نہ کریں جو کفر میں تیزی دکھاتے ہیں یقینا وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اللہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کا حصہ نہ رکھے اوران کے لئے بڑا عذاب ہے ‘‘۔

لیکن پھر بھی یہ داعیانِ جمہوریت ان ملحدوں میں شامل رہیں تو یہ طرزعمل انہیں مبارک، لیکن جان رکھیں یہ شراکت اس دنیا تک محدودنہ رہے گی بلکہ آخرت میں بھی انہی کے ساتھ ہوں گے ،جیسا کہ اللہ اس طرح کی مجالس (عربی میں اسمبلی کو مجلس کہتے ہیں جس کی جمع مجالس ہوتی ہے)میں شرکت سے روکنے کے بعدنہ رکنے کی صورت میں انجام بیان کرتے ہوئے فرماتاہے:
{ اِنَّ اﷲَ جَامِعُ الْمُنافِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعَا} (النساء:۱۴۰)
’’یقینا اللہ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکھٹاکرنے والاہے‘‘۔

کیاان سب باتوں کے بعد بھی انہیں یہ یقین نہیں کہ یہ کفریہ نظام، اللہ کے دین کے مقابل ایک مستقل دین اور ملت توحید کے منافی ایک ملت ہے ۔پھر اس پر اتنی فریفتگی کیوں ؟پوچھیں اپنے دلوں سے اگر اس میں ایمان ہے۔چناچہ ان اسمبلیوں کو انہی کے لئے چھوڑ دیں جو اس کے اہل ہوں اور پھر ان بت کدوں کوچھوڑ کر ملت ابراہیمی کی اتباع کریں اور وہی بات کہیں جو پدر ابراہیم علیہ السلا م نے کہی تھی یعنی یوسف علیہ السلا م نے حالانکہ وہ کمزور اور بے یار ومددگار قید میں تھے :
{اِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ ہُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ ٰابَآئِیْٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّّشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْئٍ ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ عَلَیْنَا وَ عَلَی النَّاسِ وَٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ} (یوسف:۳۷-۳۸)
’’یقینا میں نے ایسی قوم کے دین کو ترک کردیا جواللہ پر ایمان نہیں رکھتی اور وہ آخرت کی بھی منکر ہے اور اپنے آباء ابراہیم،اسحاق،یعقوب کے دین کی اتباع کی ہے ۔ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کچھ بھی شریک کریں یہ ہم پر اور لوگوں پر اللہ کا فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ‘‘۔

یعنی اس دین کو اختیارہی نہیں کیا جس میں شرک وانکار ہو۔سواے مسلمان بھائیوں! چھوڑ دو طاغوت اور طاغوتی اسمبلیوں کو ان سے بیزاری کا اظہارکرو کیونکہ یہی روشن حقیقت ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے :
{وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اﷲُ وَ مِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ} (النحل:۳۶)
’’او رتحقیق ہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اورطاغوت سے الگ رہو پھر ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دے دی اور بعض پر گمراہی صادق آگئی‘‘۔

کہیں ایسا نہ ہوکہ مہلت ختم ہو اورقیامت قائم ہوجائے تو اس سے قبل ہی تم یہ سب دھندے چھوڑ دو پھر اس دن تم تمنا ہی کرتے رہ جاؤگے اور اس دن ندامت وحسرت کچھ کام نہ آئے گی :
{ وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُ وْْا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیْہِمُ اﷲُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْہِمْ وَ مَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّار} (البقرہ:۱۶۷)
’’اور جن لوگوں نے اتباع کی ہوگی (کفرو ضلالت میں پڑے رہنمائوں کی) ۔کہیں گے ہائے کاش! ہمیں ایک بار لوٹنا نصیب ہودنیا میں پھر ہم ان سے بری ہوجائیں گے جیسے وہ آج ہم سے بری ہورہے ہیں اللہ ان کے اعمال ایسے ہی ان پر حسرتیں بناکر انہیں دکھائے گا حالانکہ وہ آگ سے نکل سکنے والے نہ ہوں گے‘‘۔

اگر ان سب حقائق کے باوجود بھی داعیان جمہوریت اس سے باز نہ آئیں تو ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔وہ جس کو چاہے ہدایت دے اور جس کو چاہے گمراہ کردے ،اُس کے اختیار میں کوئی ساجھی نہیں۔
{ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ o وَمَنْ یَّہْدِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّضِلٍ} (الزمر:۳۷،۳۸)
’اور جس کو اللہ گمراہ رہنے دے تو کون ہے اس کو ہدایت دینے والا اور جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے تو کون ہے اس کو گمراہ کرنے والا‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
حرفِ آخر

حرفِ آخر
سابق امریکی صدر بش جونئیرنے دوسری مدت کے لئے صدر منتخب ہونے کے بعد کہا تھا :
’’امریکہ دنیا کے ایک ایک تاریک غار میں جمہوریت کی شمع روشن کرے گا ‘‘۔
آج جبکہ یہ بات سب پر عیا ں ہے کہ یہودونصاریٰ ہمارے دشمن ہیں اور ہمارے لئے کسی بھی بھلائی کے خواہاں نہیں ہیں۔جیسا کہ قرآن نے کہا :
{لاَ یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالاً قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْوَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰت اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ} (آل عمران:۱۱۸)
’’وہ (کفار)کوئی کسر تمہیں نقصان پہنچانے میں نہیں اٹھارکھیں گے۔تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی اُن کو محبوب ہے(اور)ان کابغض و عداوت اِن کی زبان سے ظاہر ہوجاتا ہے،اور جو کچھ وہ اپنے سینوںمیں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ہم نے کھول کھول کر تمہارے لئے اپنی آیات بیان کردی ہیں،اگر تم عقل رکھتے ہو(تو تمہارے لیے اس میں نصیحت ہے) ‘‘۔

تو پھرسوچئے !آخر وہ کیوں جمہوریت کی اس نیلم پری کو تمام اسلامی ممالک میں فروغ دینے کے لئے کوشاں ہیں؟؟آخر کیا وجہ ہے کہ جس خیر کو وہ پوری دنیا کے لئے اور خصوصاً اسلامی ممالک کے لئے لازمی سمجھتے ہیں وہ خوداس کے برخلاف اقوام متحدہ (U.N.O) میں اسے بہتر نہیں سمجھتے اور وہا ں انہوں نے ویٹو سسٹم(Vito system)رائج کیا ہوا ہے۔

آخری بات یہ کہ وہ سیاسی جماعتیں جو دین کا نام لیوا ہیں ،انہوں نے احیاءِ اسلام کے لئے اسوۂ رسول ِ اکرم اور منہجِ نبوی ﷺکو اختیار کرنے کے بجائے کفریہ نظام ِ جمہوریت کا غیر اسلامی انتخابی راستہ اختیارکیاہوا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
{ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہٗ وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَُo کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ وَشَہِدُوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَآئَہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ } ( اٰلِ عمران:۸۵)
’’اور جوکوئی لائے گا اسلام کے سواکوئی اور دین تواس سے وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گااور ایسا شخص آخرت میںخسارہ پانے وا لو ں میں سے ہو گا ۔اﷲ اس قوم کو کیسے ہدایت دے جنہو ں نے اپنے ایما ن لانے کے بعد کفر کیاحالانکہ وہ(اس سے پہلے) گواہی دے چکے ہیں کہ بیشک یہ رسول(ﷺ)حق پر ہیں اور وہ ان کے پاس لائے ہیں واضح تعلیمات اور اﷲ تعا لیٰ ایسی ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ سامراجی طاقتوں سے آزادی کے بعد سے آج تک جن ممالک میں کفریہ جمہور ی نظا م رائج ہے، جمہوریت پر یقین رکھنے والی ان جماعتوں کو مرکز میں دو تہائی اکثریت کبھی حاصل نہیں ہوئی۔ اگر حاصل بھی ہوئی تو ان کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کرکے حکومت کی تشکیل دینے پر پابندی لگادی گئی یا اسمبلیاں بر خواست کر دی گئیں۔الجزائر میں جہاں اسلامی پارٹی نے دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل کی ،فوج نے اس کوتسلیم نہیں کیا اوراس الیکشن کو کالعدم قرار دیکر خود اقتدار پر قابض ہوگئی اور فلسطین میں اس کی تازہ مثال موجودہے جہاں حماس کی حکومت جوکہ جمہوری اصولوں کی بنیادپر عوام کی اکثریت کی رائے سے منتخب ہوئی ،لیکن صرف سال ڈیڑھ سال میں بیرونی آقائوں کے اشارے پربغیر کسی وجہ کہ ،برخاست کردی گئی مگردنیائے جمہوریت کے علمبردار وں کی طرف سے کوئی مذمت یا آواز نہیں اٹھائی گئی۔

ؔتونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہر ا روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر​

آج بھی متعدد مسلم ممالک میں یہ دین کا نام لینے والی جماعتیں کئی دہائیوں سے انتخابات میں شریک ہورہی ہیں جس کے نتیجے میں چند امیدوار تو منتخب ہو جاتے ہیں لیکن اسلامی نظام کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا البتہ مسلسل کفریہ نظام جمہوریت کو اختیار کئے رکھنے اور منہج نبوی ﷺکو نہ اپنانے کی وجہ سے حکومت ِ الٰہیہ کی منزل دور ہوتی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’جمہویت ‘‘نظام ِ اسلام کے نفاذ کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کفریہ طاقتیں کفریہ جمہوری نظام کے ذریعے نظام ِ اسلام کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ مسلم ممالک میں دین کا نام لیوا جماعتوں کوانتخابی سیاست کے جھمیلوں میں پھنسا کر’’دعوت و جہاد‘‘کے نبوی ﷺمنہج سے روکا جائے۔اسی لئے علامہ اقبالؔ فرماتے ہیں:

ؔالیکشن ، ممبری ، کونسل ، صدارت بنائے خوب آزادی کے پھندے
اٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے​

چناچہ مسلمانون کو چاہیے اس کفریہ جمہوری راستے کو ترک کردیں جو بظاہر سیدھا، آسان اور مختصر معلوم ہوتا ہے جبکہ درحقیقت یہ راستہ منز ل کو جاتا ہی نہیں اس کے برعکس اللہ اور اس کے رسول ﷺنے جو راستہ منتخب کیا ہے اس کو اختیارکریں جو اگر چہ کٹھن اور مصاحب وآلام سے بھراہوا ہے لیکن آخرکار اس کے ذریعے ہی قافلہ منزل ِ مقصود تک پہنچ سکتاہے۔وہ راستہ کیا ہے؟ جس کو اللہ کے رسول ﷺنے اپنا راستہ قرار دیااور اس کے چھوڑنے والوں کے لئے ذلت وپستی کی وعید سنائی اور اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ اختیار کرنے والوں کو مسلمانوں میں شمار نہیں کیا؟

((بُعِثْتُ بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ بِالسَّیْفِ حَتّٰی یُعْبَدُاللّٰہُ وَحَدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَجُعِلَ رِزْقِیْ فِیْ تَحْتَ ظِلُّ رُمْحِیْ وَجُعِلَ الذُّلُّ وَالصَّغَارُ عَلیٰ مَنْ خَالَفَ اَمْرِیْ وَمَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ )) ( مسنداحمد ،طبرانی)
’’مجھے قیامت تک کے لئے’’ تلوار ‘‘کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے ،یہاں تک کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی جانے لگے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے ۔اورجس نے میرے (اس) امر کی مخالفت کی ،اُس کے لئے ذلت اور پستی رکھ دی گئی اور جس نے (میرے اس طریقے کو چھوڑکر)کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اُنہی میں (شمار) ہوگا۔‘‘
جب ہی علامہ اقبا لؔ کہہ گئے کہ:

ؔاپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی ﷺ​

جزاک اللہ خیرا محدث فورم
 
Top