محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
5دعوتی مصلحت
آخر دلیل جس کو جمہوریت پر ایمان رکھنے والے اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ یااسمبلی میں جانے میں بڑی مصلحتیں ہیں بلکہ بعض تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ اس کی دلیل’’ مصلحت مرسلہ‘‘ہے اور پھر دعوت الی اللہ اورکلمہ حق کے پرچار اورمنکرات کے ازالے اور دعوت وداعیان پر کی گئی پابندیوںوسختیوں میں تخفیف کا تذکرہ کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ انہیں عیسائیوں یا گمراہوں یا شیعہ کے لئے خالی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کچھ لوگ ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں اورکہتے ہیں اللہ کی شریعت کی حاکمیت اور ا س کے دین کی اقامت کی مصلحت یہیں سے حاصل ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ ان کی اوربہت سی بھونڈی اصطلاحات ورقیق تاویلات وباطل خواہشات، جن کا تعلق اورمدار’’ مصلحت‘‘پر ختم ہوتا ہے۔
اس سے پہلی بات ہم یہ کہتے ہیں کہ کون ہے جو اپنے دین اوراپنے بندوں کی مصلحتوں سے کماحقہ آگاہ ہے۔ اللہ لطیف وخبیریا یہ جمہوریت کے رسیا لوگ اپنی باطل اصطلاحات اور استحسانات کے ساتھ ؟اگران کا گمان یہ ہے کہ ’’ہم‘‘…توپھرہم کہیں گے کہ’’ تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین‘‘۔ یعنی یہ جن کی عبادت کرتے ہیں،ہم ان کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم جس وحدہ لاشریک لہ ٗکی عبادت کرتے ہیں یہ اس کی عبادت نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ نے اپنے کلام میں فرمایادیا:
{ مَّا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ} (الانعام:۳۸)
’’ہم نے کتاب میں کچھ بھی نہیں چھوڑا‘‘۔
اور یہ توہمارے دین میں ہے، جبکہ’’دین جمہوریت‘‘میں توانسان خود ہی قانون ساز اورخود ہی اس کے مطابق فیصلہ کرنے والااور خود ہی اس پر چلنے والاہے ۔ تو گویا کہ انسان آزاد ہے کہ جو قانون یا دین بنائے جس پر چاہے چلے، جسے چاہے ٹھکرادے،اس کا بنایاہواقانون جس پر وہ عمل پیرا ہے کتاب اللہ کے مطابق ہو یامخالف اس کی کچھ اہمیت نہیں۔
{اُفِّ لَّکُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ} (الانبیاء:۶۷)
’’تف ہے تم پر اور اللہ کے سوا تمہارے معبودوں پر کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘۔
اورجبکہ اللہ وحدہ لاشریک لہ ہی ہے جو اپنے بندوں کے لئے حدود مقرر کرتا ہے کیونکہ وہ خالق ہے اپنی مخلوق کی مصلحتوں سے آگاہ ہے:
{اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ ہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ} (الملک:۱۴)
’’کیا وہ نہیں جانتا کہ اس نے کس کو پیدا کیا حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔
توپھر بتائیں کہ وہ کون سی بڑی’’ مصلحت‘‘ہے جس کی خاطر اس نے انسان وجنات اور زندگی اورموت پیدا کی اور اسی کی خاطر کتابیں اتاریں ،انبیاء بھیجے ،جہاد فرض کیا اور جس کی خاطر اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جاتی ہے ؟اب اگر جواب یہ ہو کہ وہ توحید خالص اور اس کے منافی شرک وکفرسے اجتناب وبغض وعداوت کا اظہار ہے۔توپھر ہم کہتے ہیں کہ اے اصحاب عقل وفہم! کیا یہ بات عقل کے لائق ہے کہ اس عظیم، قطعی، کلی مصلحت کو فوت کردیاجائے اور طاغوت کی موافقت کرتے ہوئے اللہ کے دین کے علاوہ غیر اللہ کے دین جمہوریت کو قبول کرلیا جائے اور غیر اللہ کے قانون دستور کا احترام کیا جائے اور قانون ساز’’ آلھۃ باطلہ‘‘کی اتباع کی جائے اور دیگر جزوی، ظنی، مرجوح مصلحت کی خاطر کائنات کی اس سب سے عظیم مصلحت یعنی’’ توحید خالص اور طواغیت کے ساتھ کفرکرنا ‘‘اسے فوت کردجائے…؟اس ظلم وناانصافی پر سوائے ’’کفریہ دین جمہوریت‘‘کے کوئی اوردین یا قانون راضی نہ ہوگا۔پھر اس شرکیہ پارلیمنٹ میں اسلام کی حقیقی اور بنیادی دعوت ِتوحید کو دفن کرنے کے بعد کون ساحق یا دعوت ہے جس کاوہ پرچار کریں گے ؟کیا جزئی اور فرعی مصلحتوں کی خاطر اصل الاصول سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے؟اور پھر جب ان جزئی اور فرعی مصلحتوں کی حصول کی خاطر کوشش بھی کی جائے مثلاً شراب کو حرام قرار دینے کی کوشش کی جائے تویہ مطالبہ کس دلیل اور سند کے ذریعے ہوگا ؟کیا یہ کہا جائے گا کہ اللہ اور ا س کے رسول نے اسے حرام کیا ہے یا اگرلوگوں کایہی زعم ہے تویہ جھوٹ ہے کیونکہ جمہوری دین اور دستوری قانون میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ صرف دستور ہی اصل مصدر وماخذ ہے۔ لہٰذا اس مطالبے کے لئے یہی کہناہوگاکہ ’’آئین ‘‘کے آرٹیکل فلاں فلاں میں اس طرح ہے۔لیکن دراصل یہی تووہ’’شرک وکفر اور الحاد‘‘ہے کہ اس راہ پر چلنے والے کا عقیدہ توحید محفوظ نہیں رہ سکتا۔
{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ ٰامَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلاًم بَعِیْدًا} (النساء:۶۰)
’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کازعم ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیاکہ وہ چاہتے ہیں کہ فیصلے کے لئے طاغوت کے پاس ہی جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا کہ اس کے ساتھ کفر کریں اور شیطان چاہتاہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں لاپھینکے‘‘۔
آخر دلیل جس کو جمہوریت پر ایمان رکھنے والے اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ یااسمبلی میں جانے میں بڑی مصلحتیں ہیں بلکہ بعض تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ اس کی دلیل’’ مصلحت مرسلہ‘‘ہے اور پھر دعوت الی اللہ اورکلمہ حق کے پرچار اورمنکرات کے ازالے اور دعوت وداعیان پر کی گئی پابندیوںوسختیوں میں تخفیف کا تذکرہ کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ انہیں عیسائیوں یا گمراہوں یا شیعہ کے لئے خالی نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کچھ لوگ ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں اورکہتے ہیں اللہ کی شریعت کی حاکمیت اور ا س کے دین کی اقامت کی مصلحت یہیں سے حاصل ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ ان کی اوربہت سی بھونڈی اصطلاحات ورقیق تاویلات وباطل خواہشات، جن کا تعلق اورمدار’’ مصلحت‘‘پر ختم ہوتا ہے۔
اس سے پہلی بات ہم یہ کہتے ہیں کہ کون ہے جو اپنے دین اوراپنے بندوں کی مصلحتوں سے کماحقہ آگاہ ہے۔ اللہ لطیف وخبیریا یہ جمہوریت کے رسیا لوگ اپنی باطل اصطلاحات اور استحسانات کے ساتھ ؟اگران کا گمان یہ ہے کہ ’’ہم‘‘…توپھرہم کہیں گے کہ’’ تمہارے لئے تمہارا دین اور ہمارے لئے ہمارا دین‘‘۔ یعنی یہ جن کی عبادت کرتے ہیں،ہم ان کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم جس وحدہ لاشریک لہ ٗکی عبادت کرتے ہیں یہ اس کی عبادت نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ نے اپنے کلام میں فرمایادیا:
{ مَّا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ} (الانعام:۳۸)
’’ہم نے کتاب میں کچھ بھی نہیں چھوڑا‘‘۔
اور یہ توہمارے دین میں ہے، جبکہ’’دین جمہوریت‘‘میں توانسان خود ہی قانون ساز اورخود ہی اس کے مطابق فیصلہ کرنے والااور خود ہی اس پر چلنے والاہے ۔ تو گویا کہ انسان آزاد ہے کہ جو قانون یا دین بنائے جس پر چاہے چلے، جسے چاہے ٹھکرادے،اس کا بنایاہواقانون جس پر وہ عمل پیرا ہے کتاب اللہ کے مطابق ہو یامخالف اس کی کچھ اہمیت نہیں۔
{اُفِّ لَّکُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ} (الانبیاء:۶۷)
’’تف ہے تم پر اور اللہ کے سوا تمہارے معبودوں پر کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘۔
اورجبکہ اللہ وحدہ لاشریک لہ ہی ہے جو اپنے بندوں کے لئے حدود مقرر کرتا ہے کیونکہ وہ خالق ہے اپنی مخلوق کی مصلحتوں سے آگاہ ہے:
{اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ ہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ} (الملک:۱۴)
’’کیا وہ نہیں جانتا کہ اس نے کس کو پیدا کیا حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے‘‘۔
توپھر بتائیں کہ وہ کون سی بڑی’’ مصلحت‘‘ہے جس کی خاطر اس نے انسان وجنات اور زندگی اورموت پیدا کی اور اسی کی خاطر کتابیں اتاریں ،انبیاء بھیجے ،جہاد فرض کیا اور جس کی خاطر اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جاتی ہے ؟اب اگر جواب یہ ہو کہ وہ توحید خالص اور اس کے منافی شرک وکفرسے اجتناب وبغض وعداوت کا اظہار ہے۔توپھر ہم کہتے ہیں کہ اے اصحاب عقل وفہم! کیا یہ بات عقل کے لائق ہے کہ اس عظیم، قطعی، کلی مصلحت کو فوت کردیاجائے اور طاغوت کی موافقت کرتے ہوئے اللہ کے دین کے علاوہ غیر اللہ کے دین جمہوریت کو قبول کرلیا جائے اور غیر اللہ کے قانون دستور کا احترام کیا جائے اور قانون ساز’’ آلھۃ باطلہ‘‘کی اتباع کی جائے اور دیگر جزوی، ظنی، مرجوح مصلحت کی خاطر کائنات کی اس سب سے عظیم مصلحت یعنی’’ توحید خالص اور طواغیت کے ساتھ کفرکرنا ‘‘اسے فوت کردجائے…؟اس ظلم وناانصافی پر سوائے ’’کفریہ دین جمہوریت‘‘کے کوئی اوردین یا قانون راضی نہ ہوگا۔پھر اس شرکیہ پارلیمنٹ میں اسلام کی حقیقی اور بنیادی دعوت ِتوحید کو دفن کرنے کے بعد کون ساحق یا دعوت ہے جس کاوہ پرچار کریں گے ؟کیا جزئی اور فرعی مصلحتوں کی خاطر اصل الاصول سے صرف نظر کیا جاسکتا ہے؟اور پھر جب ان جزئی اور فرعی مصلحتوں کی حصول کی خاطر کوشش بھی کی جائے مثلاً شراب کو حرام قرار دینے کی کوشش کی جائے تویہ مطالبہ کس دلیل اور سند کے ذریعے ہوگا ؟کیا یہ کہا جائے گا کہ اللہ اور ا س کے رسول نے اسے حرام کیا ہے یا اگرلوگوں کایہی زعم ہے تویہ جھوٹ ہے کیونکہ جمہوری دین اور دستوری قانون میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ صرف دستور ہی اصل مصدر وماخذ ہے۔ لہٰذا اس مطالبے کے لئے یہی کہناہوگاکہ ’’آئین ‘‘کے آرٹیکل فلاں فلاں میں اس طرح ہے۔لیکن دراصل یہی تووہ’’شرک وکفر اور الحاد‘‘ہے کہ اس راہ پر چلنے والے کا عقیدہ توحید محفوظ نہیں رہ سکتا۔
{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ ٰامَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلاًم بَعِیْدًا} (النساء:۶۰)
’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کازعم ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیاکہ وہ چاہتے ہیں کہ فیصلے کے لئے طاغوت کے پاس ہی جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا کہ اس کے ساتھ کفر کریں اور شیطان چاہتاہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں لاپھینکے‘‘۔