• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر میں قیامِ خلافت کا عملی طریقہ کار

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

گزشتہ دنوں جمہوریت و خلافت کے تعلق سے کافی کچھ پڑھنے کو ملا۔ یہاں تک کسی کو اختلاف نہیں کہ جمہوریت اسلامی نظام نہیں ہے اور شرعی نظام بہرحال خلافت ہی کا نظام ہے۔ ہمارا ملک اسلامی ہونے کے باوجود یہاں نہ تو سیاسی نظام اسلامی ہے، نہ عدالتی و قانونی، نہ تعلیمی۔ پینسٹھ سالوں میں اب تک ہم سودی نظام سے چھٹکارا نہیں پا سکے ہیں۔ خیر، موجودہ موضوع دراصل ایک دوسرے موضوع ووٹ دیں یا نہ دیں: ایک لاجیکل سوال؟ میں کی جانے والی حافظ طاہر اسلام عسکری صاحب کی پوسٹ کی بنیاد پر شروع کیا گیا ہے۔

مقصد یہ ہے کہ ہم عام آدمی کے نکتہ نظر سے دیکھیں کہ آج خلافت کی عملی جدوجہد میں اس کا کیا کردار ہے؟ اور میں بطور عام آدمی ایسے کون سے کام کروں کہ جن سے مستقبل میں اسلامی نظام خلافت کا قیام ممکن ہو سکے۔

حافظ طاہر اسلام عسکری اور محمد عاصم سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔

اور دیگر اراکین سے گزارش ہے کہ اس موضوع میں کاپی پیسٹنگ سے گریز کریں۔ ہمیں یہاں نظریاتی بحث سے بچتے ہوئے فقط عملی طریق کار پر غور کرنا ہے۔
 
شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
خلافت جہاد کے ذریعے قائم ہو گی اسکی دلیل یہ حدیث ہے"من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا فھو فی سبیل اللہ "صحیح بخاری- ترجمہ ’’جو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سر بلندی کےلئے لڑا وہ فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں )ہے ‘‘- اس حدیث کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے قتال کرنا پڑتا ہے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
موجودہ دور میں خلافت کے عملی طریقہ کار کے باب میں پہلی بنیادی بات تو یہ ہے کہ’’منہج نبویﷺ‘‘کا التزام۔۔۔نبوی طریق کار ہی اسلامی انقلاب کا اصل منہج اورراستہ ہے۔
’’منہج نبوی‘‘اور عصر حاضر میں اسکی عملی مطابقت کی کیا صورت ہونی چاہیے؟
حافظ طاہر اسلام بھائی اس سلسلے میں بھائیوں کی رہنمائی کریں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

پینسٹھ سالوں میں اب تک ہم سودی نظام سے چھٹکارا نہیں پا سکے ہیں۔

گزارش ہے کہ اس موضوع میں کاپی پیسٹنگ سے گریز کریں۔ ہمیں یہاں نظریاتی بحث سے بچتے ہوئے فقط عملی طریق کار پر غور کرنا ہے۔
خلافت جہاد کے ذریعے قائم ہو گی اسکی دلیل یہ حدیث ہے"من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا فھو فی سبیل اللہ "صحیح بخاری- ترجمہ ’’جو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سر بلندی کےلئے لڑا وہ فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں ) ہے ‘‘- اس حدیث کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے قتال کرنا پڑتا ہے


موجودہ دور میں خلافت کے عملی طریقہ کار کے باب میں پہلی بنیادی بات تو یہ ہے کہ’’منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کا التزام ۔۔۔ نبوی طریق کار ہی اسلامی انقلاب کا اصل منہج اور راستہ ہے۔
’’منہج نبوی‘‘اور عصر حاضر میں اسکی عملی مطابقت کی کیا صورت ہونی چاہیے؟
حافظ طاہر اسلام بھائی اس سلسلے میں بھائیوں کی رہنمائی کریں
قرآن مجید کی آیات اور حدیث مبارکہ پیش کی جا چکی ہیں اور اوپر پہلی کوٹ میں بھی واضع کیا گیا ھے کہ علمی طریق کار سے کنورسیشن کریں اور اس کے مطابق بہتر سلیوشن پیش کریں۔ خلافت قائم ہو گی جب اللہ سبحان تعالی چاہے گا۔ ابھی آپ اس دور میں جمہوریت سے خلافت لانے پر شامل گفتگو ہیں اس پر اگر کہنے کو کوئی خاص بات ھے تو اسے شیئر کریں۔

جیسے آپ نے حدیث مبارکہ پیش کی کہ خلافت جہاد کے ذریعے قائم ہو گی، مگر اس وقت پاکستان میں پرچون کی دکان سے لے کر چیمبر آف کامرس، تمام کاروبار ادھار سود پر۔ وزارت المالیہ جہاں سے تمام سرکاروی اداروں میں تنخواہیں دی جاتی ہیں گلی کا خاکروب سے لے کر چیف آف آرمی سٹاف تک کی تنخواہیں اور اس کے علاوہ اوورآل ساری رولنگ سود پر ھے۔ تھوڑا اور آگے بڑھیں سرکاری اداروں کے تمام ملازمین کو جو ریٹائرڈ ہونے کے بعد پینشن ملتی ھے وہ بھی سود سے ھے اگر اس پر تفصیلی چاہے ہو تو بھی بتا دی جائے گی۔ نیم سرکاری اور پرائیوٹ اداروں میں ریٹائرڈ ہونے پر جو فنڈز اکٹھا کیا ہوتا ھے اس کی تنخواہ سے کاٹ کاٹ کر وہ بھی سود کا حصہ ھے۔ تو پھر آپ بھی اس کا حصہ ہیں اس پر پہلے جہاد کریں اگر کر سکتے ہیں کیا اس پر کوئی سلیوشن ھے آپ کے پاس وہ بتائیں۔

آپ کے کہنے سے (داخلی جہاد جسے انقلاب کہہ لیں) یہ بھی ممکن نہیں اس پر حکومت دفعہ 44 لگا کر سب کو اندر کر دے گی اور گھر والے ذمانتیں کرواتے پھریں گے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تمام دینی جماعتیں کے سربراہ اکھٹے نہ ہوں اور اس وقت تو دینی مدارس والوں کو وہاں پر پڑھنے والے بچوں کے کھانے پینے اور کتابوں پر فنڈز نہیں پورے ہو رہے اور دوسرا ان کا ملنا بھی مشکل ھے۔

والسلام
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
اسلامی نظام یا دوسرے لفظوں میں ’’خلافت ‘‘ جس طرح شروع اسلام میں شروع ہوا تھا اسی طرح سے اب بھی ممکن ہے۔اور یہ ’’قیل قال ‘‘سے نہیں عمل اور کردار سے ہوگااور ’’جہاد‘‘ سے نہیں ’’اقراء‘‘ سے ہوگا۔غور فرمائیں اسلام کی شروعات ’’اقراء‘‘سے شروع ہوئی۔جہاد تو مجبوراً کیا جاتا ہے شوقیہ نہیں پہلے ہم اپنے عمل و کردار سے اپنے آپ کو لیس کریں۔
یاد رہے ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں یہ بدترین اور خیالی آزادی کا دور ہے دشمنوں نے بہت سوچ سمجھ کر اسلامی نظام کو متاءثر کیا انہوں نے مسلمانوں کے کردار پر حملہ کیا اسلام پر نہیں ۔ان کی اسکیم کے تحت جب مسلمان کردار اور گفتار کا غازی نہیں رہے گا تو ان کے زعم باطل کے مطابق اسلام خود بخود زیر ہوجائے گا ۔اس لیے میرے بھائیو !جذبات سے نہیں دانائی سے کام لینا پڑے گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
خلافت جہاد کے ذریعے قائم ہو گی اسکی دلیل یہ حدیث ہے"من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا فھو فی سبیل اللہ "صحیح بخاری- ترجمہ ’’جو اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سر بلندی کےلئے لڑا وہ فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں )ہے ‘‘- اس حدیث کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے قتال کرنا پڑتا ہے
پیارے بھائی جو حدیث آپ نے پیش کی ہے اس سے تو یہ مفہوم ہرگز نہیں نکلتا کہ خلافت جہاد کے ذریعے قائم ہوگی میں یہ حدیث مکمل پیش کر دیتا ہوں پھر آپ ہی بتا دیجیے گا کہ کیسے یہ مفہوم نکلتا ہے جو آپ نے نکالا ہے۔
حدثني محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة عن عمرو قال سمعت أبا وائل قال حدثنا أبو موسیٰ الأشعري رضي الله عنه قال قال أعرابي للنبي صلی الله عليه وسلم الرجل يقاتل للمغنم والرجل يقاتل ليذکر ويقاتل ليری مکانه من في سبيل الله فقال من قاتل لتکون کلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایک آدمی تو صرف مال غنیمت کے لیے لڑتا ہے اور ایک آدمی اپنی ناموری کے لیے لڑتا ہے اور ایک آدمی اپنی دلیری دکھانے کے لڑتا ہے تو بتایئے کہ مجاہد فی سبیل اللہ کون ہے؟ تو اس پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ جو کوئی صرف اللہ کا نام بلند کرنے کے لئے جنگ کرے تو وہ فی سبیل اللہ مجاہد ہے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:باب :مال غنیمت کی خاطر جنگ کرنے والے کے لئے ثواب کی کمی کا بیان
اس ارشاد رسولﷺ سے جو بات واضح ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ صرف یہ ہے کہ بندہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیئے قتال کرئے تو وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہے،
جو مفہوم آپ پیش کر رہے ہیں اس کے مطابق تو نبیﷺ اپنے ہی حکم کے خلاف دوسرا حکم لگا رہے ہیں جس حکم میں فرمایا کہ اللہ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم دیا ہے اور میں بھی تمہیں انہی پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں اور ان حکموں میں جہا سب سے آخر میں آتا ہے اس سے پہلے خلافت کا قیام ثابت ہے، اس حدیث پر میں نے تھریڈ بھی لگایا ہوا ہے اور وہاں بھی آپ نے اسی حدیث کا آخری حصہ پیش کیا ہوا ہے میں مصروفیت کی وجہ سے اس کا جواب نہیں دے پایا تھا سوچا اب دے دوں تاکہ بھائی اپنی اصلاح فرما لیں۔
بھائی میرے جذباتیت میں نہیں آنا چاہیے بلکہ اسلام کے اصولوں کو نظر میں رکھ کر اپنا مؤقف بنانا چاہیے۔ جزاک اللہ خیراًً
راجا بھائی اللہ آپ کو جزاء دے کہ آپ نے یہ تھریڈ لگایا میں آپ سے گزارش کرونگا کہ آپ بھی خلافت کے قیام کے بارے اپنا مؤقف پیش کر دیتے تو بہتر تھا، میں نے تو کافی عرصہ پہلے ایک مضمون پیش کیا تھا بعنوان آج خلیفہ کیوں اور کیسے، میں نے جو قرآن و حدیث سے سیکھا سمجھا وہ پیش کر دیا اس لیئے میں آپ سے گزارش کرونگا کہ آپ میرا یہ مضمون ضرور پڑھین اور پھر اس پر کوئی اعتراض ہو یا کوئی مزید بہتر مشورہ ہو تو وہ ضرور پیش کریں۔
باقی میں کوشش کرونگا کہ وقت نکال کر یہاں مختصراً لکھوں، ان شاءاللہ
 
شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
اس حدیث سے مرکزی استنباط تو یہی ہوتا ہے کہ جہاد فر سبیل میں قصد و نیت کا اعتبار ہے آخرت کے لیے لیکن یہ ذیلی استنباط بالکل صحیح ہے کہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے قتال فی سبیل اللہ کرنا پڑتا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس کی اگر کوئی عملی صورت ممکن ہے تو صرف یہی کہ ہر شخص دین اسلام کی تعلیمات کو اپنے اوپر نافذ کرنا شروع کر دے چونکہ معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے لہذا جب افراد معاشرہ میں اصلاح احوال کی کیفیات پیدا ہونا شروع ہو جائیں گی تو خود بخود تبدیلی آنا شروع ہو جائے گی کیونکہ جو تبلیغ کردار سے کی جاتی ہے اس کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں اسے ہم علمی زبان میں افراد سازی یا افراد کی ذہن سازی کہہ سکتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسا کہ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے قرآن فہمی کا ایک ماحول بنا دیا ہے ایک سے کام شروع ہوا تھا اور اب ہزاروں کی تعداد میں افراد فہم قرآن اور تفہیم قرآن میں مصروف و مشغول ہیں اور اس کی ایک مثال اگر محسوس نہ کی جائے تو جماعت الدعوۃ کا مرکز مرکز طیبہ مریدکے ہے جہاں مرکز کی حدود کے اندر بہت حد تک ماحول اسلامی اور شرعی ہے کوئی عورت بے پردہ نظر نہیں آئے گی اذان کے ساتھ ہی سب کاروبار زندگی بند ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور اس کے لیے میری رائے میں صرف دو کتابوں کا مطالعہ اور اس کی اپنی ذات پر تطبیق انقلاب بپا کر سکتی ہے ایک زاد المعاد اور دوسری ریاض الصالحین
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کیونکہ یہ دونوں کتب سیرت پر ہیں زاد المعاد فقہ سیرت پر اور ریاض الصالحین سیرت کے عملی پہلو پر ایک جامع کاوش ہے
 
Top