• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقاید شیعہ (یونیکوڈ کتاب)

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
نزول مسیح کے بارے میں اس کے متضاد بیانات کبھی اس کا انکار ، کبھی اقرار، کبھی اسکی تاویلات رفع مسیح کا بھی باری باری انکار، اقرار اور تاویل
مکتوب احمد صفحہ ۴۷ پر وہ کہتا ہے : ’’ فی الحقیقت تم نے سنا ہوگا کہ ہم قرآن کے بیان موعود کے مطابق مسیح اور اس کے رفیق کے نزول کے قائل ہیں ہم اس نزول کے برحق ہونے کو واجب تسلیم کرتے ہیں اور ہمیں یا کسی اور کو اس سے مفسدوں کی طرح منحرف نہیں ہونا چاہئیے نہ ہی کسی کو اس کے اقرار پر متکبرین کی طرح آزردہ ہونا چاہئیے۔
حمامتہ البشری کے صفحہ ۱۱ پر وہ کہتا ہے : اس لقب کے بعد میں سوچا کرتا تھا کہ مسیح موعود ایک غیر ملکی تھا اور اس پوشیدہ راز کے ظاہر ہوجانے تک جو خدا نے اپنے بہت سے بندوں سے ان کا امتحان لینے کے لئے چھپا رکھا تھا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ہی مسیح موعود تھا اور میرے رب نے ایک الہام میں مجھے عیسیٰ ابن مریم کہہ کر پکارا اور کہا: اے عیسیٰٰ! میں تمہیں اپنے پاس بلاؤں گا تمہیں اپنے تک اٹھاؤں گا اورتمہیں ان لوکوں سے پاک کردوں گا جنہوں نے کفرکیا میں ا ن لوگوں کو جنہوں نی تمہارا اتباع کیا ان لوگون سے اونچا مرتبہ دوں گا جو یوم القیامت پر ایمان نہیں لائے ہم نے تمہیں عیسیٰٰ بن مریم بنایا اور تمہیں ایسے مرتبہ پرفائز کیا جس سے مخلوق لاعلم ہے اور میں نے تمہیں اپنی توحید اور انفرادیت کی مرتبہ پرفائز کیا اور آج تم میرے ساتھ ہو اور مضبوظی و حفاظت کے ساتھ متمکن ہو ۔‘‘
صفحہ ۳۸ پر وہ کہتا ہے : ’’ کیا انہوں نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا ہے کہ خدا نے قرآن میں ہر وہ اہم واقعہ بیان کیا ہے جو اس نے دیکھا پھر اس نے نزول مسیح کے واقعہ کو اس کی عظیم اہمیت اور انتہائی معجزانہ ماہیت کے باوجود کیسے چھوڑدیا ؟ اگر یہ واقعہ سچا تھا تو اسکا ذکر کیوں چھوڑ دیا جبکہ یوسف کی کہانی دوہرائی ؟خدا نے کہا: ’’ ہم تمہیں عجیب قصے سناتے ہیں ۔‘‘ اور اس نے اصحاب کہف کا قصہ سنایا اس نے کہا یہ ہماری عجیب نشانیوں میں سے ہیں لیکن اس نے آسمان سے نزول مسیح کے بارے میں اس کی وفات کے ذکر کے بغیر کچھ نہیں کہا ۔اگر نزول کی کوئی حقیقت ہوتی تو قرآن نے اس کا ذکر ترک نہ کیا ہوتا بلکہ اسے ایک طویل سورۃ میں بیان کیا ہوتا اور اسے کسی دوسرے قصے کی بہ نسبت بہتر بنایا ہوتا کیونکہ اس کے عجائبات صرف اسی لئے مخصوص ہیں اورکسی دوسرے قصے میں ان کی نظیر نہیں ملتی وہ اسے امت کیلئے ختم دنیا کی نشانی بنا دیتا ۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ یہ الفاظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہیں کئے گئے ہیں بلکہ اس گفتگو میں اس سے ایک مجد د عظیم مراد ہے جو مسیح کے نقش قدم پر اس کے مثیل و نظیر ہوگا اسے مسیح کا نام اسی طورپر دیا گیا تھا جس طرح کچھ لوگوں کو عالم رویا ء میں کسی دوسرے کے نا م سے پکارا جاتا ہے۔‘‘
اسی کتاب کے صفحہ ۴۱ پر وہ کہتا ہے : ’’ وہ کہتے ہیں کہ مسیح آسمان سے نازل ہوگا دجال کو قتل کردے گا اور عیسائیوں سے جنگ کرے گا ۔ یہ تمام خیالات خاتم النبیین کے الفاظ کے بارے میں سوئے فہمی اور غوروفکر کی کمی کا نتیجہ ہیں ۔‘‘
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
نزول ملائکہ کے بارے میں اس کی توضیح اور اس کا ادّعا کہ وہ خدا کے بازو ہیں ۔​
حمامۃ البشریٰ کے صفحہ ۹۸ پر وہ کہتا ہے : اور دیکھو ملائکہ کو کہ خدا نے ان کو اپنے بازوؤں کے طورپر کیسے تخلیق کی ۔‘‘
تحفہ بغداد کے صفحہ ۳۴ پر وہ لکھتا ہے : ’’ اور ہم فرشتوں ان کے مرتبوں اور درجوں پرایمان رکھتے ہیں اورا ن کے نزول پر ایمان رکھتے ہیں کہ نزول انوار کی طرح ہوتا ہے نہ کہ ایک انسان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کی طرح وہ اپنا مقام نہیں چھوڑتے ۔
ہندوستان میں برٹش شہنشاہیت سے وفاداری اور جہاد کی موقوفی
تریق القلوب کے صفحہ ۱۵ پر غلام احمد کہتا ہے میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ در حقیقت برٹش حکومت کی تائید و حمایت میں گزارا ہے وہ کتابیں جو میں نے جہاد کی موقوفی اور انگریز حکام کی اطاعت کی فرضیت پر لکھی ہیں وہ ۵۰ الماریاں بھرنے کیلئے کافی ہیں ۔ یہ سبھی کتابیں مصر ، شام کابل اوریونان وغیرہ اور عرب ممالک میں شائع ہوتی ہیں ۔‘‘
ایک دوسر ی جگہ وہ کہتا ہے ، ’’ اپنی نوجوانی کے زمانے سے اور اب میں ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ رہا ہوں میں اپنی زبان اور قلم کے ذریعہ مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش میں لگاہوں تاکہ وہ انگریزی حکومت کے وفادار اور ہمدرد رہیں ۔ میں جہاد کے تصور کو رد کرتا رہا ہوں جس پر ان میں سے کچھ جاہل ایمان رکھتے ہیں اور جو انہیں اس حکومت کے تئیں وفاداری سے روکتا ہے ۔‘‘( ضمیمہ کتاب شہادۃ القرآن مصنفہ غلام احمد قادیان ، طبع ششم صفحہ ۱۰)
اسی کتاب میں وہ لکھتا ہے ’’
مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے میرے پیروؤں کی تعداد پڑھے گی جہاد پر ایمان رکھنے والوں کی تعدا میں کمی ہوگی کیوں کہ میرے مسیح اور مہدی ہونے پرایمان لانے کے بعد جہاد سے انکار لازمی ہے ۔‘‘ (صفحہ ۱۷)
ایک دوسری عبارت میں وہ لکھتا ہے : ’’ میں عربی ، فارسی اور اردو میں درجنوں کتابیں لکھی ہیں جن میں نے میں نے وضاحت کی ہے کہ انگریزی حکومت کے خلاف جو ہماری محسن ومربی ہے جہاد بنیادی طور پر ناجائز ہے اس کے بر خلاف ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ پور ی وفاداری کے ساتھ اس حکومت کی اطاعت کرے ان کتابوں کی چھپائی پر میں نے بڑی بڑی رقمیں خرچ کی ہیں اور انہیں اسلامی ممالک میں بھجوایا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ ان کتابوں نے اس ملک (ہندوستان ) کے باشندوں پر نمایا ں اثر چھوڑا ہے میرے پیروؤں نے حقیقتا ایسے فرقے کی تشکیل کی ہے جس کے دل اس حکومت کے تئیں اخلاص اور وفاداری سے معمور ہیں وہ انتہائی طور سے وفادار ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس ملک کیلئے ایک برکت ہیں اور اس حکومت کی وفادار ہیں اوراس کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے ۔‘‘ (انگریزی حکومت کے نام غلام احمد کے تحریرکردہ ایک خط سے)
غلام کہتا ہے : ’’ حقیقت میں یہ حکومت (یعنی انگریزی حکومت) ہم پر بڑی فیاص رہی ہے اور ہم اسکے شرمندہ احسان ہیں کیونکہ اگرہم یہاں سے چلے جائیں (یعنی اگر ہم اس ملک سے باہر چلے جائیں ) تو ہم مکہ یا قسطنطنیہ میں پناہ نہیں لے سکتے پھرہم اس حکومت کے بارے میں کوئی بدخواہی کیسے کر سکتے ہیں ؟‘‘ (ملفوظات احمدیہ جلد اول صفحہ ۱۴۶)
وہ یہ بھی کہتا ہے : ’’ میں اپنا یہ کام مکہ یا مدینہ میں ٹھیک طور سے نہیں کر سکتا ، نہ ہی یونان ، شام ، ایران یا کابل میں لیکن میں یہ اس حکومت کے تحت کر سکتا ہوں جس کی عظمت و نصرت کیلئے میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں :’’ (تبلیغ رسالت مصنفہ مرزا غلام احمد ، جلد چہارم صفحہ ۶۹)
وہ آگے کہتا ہے ’’: سو تھوڑا غور و فکر کرو اگر تم اس حکومت کے سائے کو چھوڑ دو گے تو روئے زمین پر کونسی جگہ تمہیں پنا ہ ملے گی؟ کسی ایک حکومت کا نام بتاؤ جو تمہیں اپنی حفاظت میں لینا قبول کرے۔ اسلامی حکومتوں میں سے ہر ایک تمہارے وجود پر سخت غضبناک ہے تمہارے خاتمہ کے لئے منصوبہ بنا رہا ہے اور بے خبری میں حملہ کرنے کیلئے منتظر ہے کیونکہ ان کی نظر میں تم کافر اور مرتد ہوگئے ہو لہذا اس نعمت الہٰیہ (انگریزی حکومت کا وجود) کو قبول کرو اور اس کی قدر کرو اور یقینی طور سے جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں انگریزی حکومت صرف تمہاری بھلائی اور تمہارے مفاد کیلئے قائم کی ہے اگر اس حکومت پرکوئی آفت آتی ہے تو وہ آفت تم پر بھی نازل ہوگی اگر تم میرے قول کی صداقت کا ثبوت چاہتے ہو تو کسی دوسری حکومت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو ۔ تب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کونسی بدقسمتی تمہارے انتظار میں ہے۔ لیکن انگریزی حکومت اللہ کی رحمت اور برکت کا ایک پہلو ہے۔ یہ ایک ایسا قلعہ ہے جو خدا نے تمہاری حفاظت کے لئے تعمیر کیا ہے لہذا اپنے دلوں اور روح کی گہرائی میں اس کی قدرو قیمت کو تسلیم کرو۔ انگریز تمہارے لئے ان مسلمانوں کے مقابلے میں ہزار درجہ بہتر ہیں جوتم سے اختلاف رکھتے ہیں کیوں کہ انگریز تمہیں ذلیل کرنا نہیں چاہتے نہ ہی وہ تمہیں قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔‘‘(فرقہ کیلئے ایک قیمتی نصحیت۔ ’تبلیغ رسالت‘ ازمرزا احمد میں جلداول صفحہ۱۲۳پر مندرجہ)
اپنی کتاب’تریاق القلوب‘مطبوعہ ضیاالاسلام پریس‘ قادیان ۲۸اکتوبر ۱۹۰۲؁ء ضمیمہ ۳ میں حکومت عالیہ کے حضورمیں ایک عاجزانہ التماس کے عنوان سے مرزا لکھتا ہے : ’’ عرصہ بیس سال سے میں نے دلی سرگرمی کے ساتھ فارسی ، عربی اردو اور انگریزی میں کتابیں شائع کرنا کبھی ترک نہیں کیا ، جن میں میں نے بار بار دہرایا ہے کہ مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ خدا کی نظروں میں گنہگار بننے کے خوف سے اس حکومت کی تابعدار اوروفادار رعایا نہیں ۔ ’’ جہاد میں کوئی حصہ نہ لیں خون کے پیاسے مہدی کا انتظار نہ کریں اور نہ ہی ایسے واہموں پر یقین کریں جنہیں قرآنی ثبوتوں کی تائید کبھی حاصل نہیں ہو سکتی ۔ میں نے انہیں تنبیہہ کی کہ اگر وہ اس غلطی کو رد کرتے سے انکار کرتے ہیں تو کم سے کم یہ تو ان کا فرض ہے کہ اس حکومت کے ناشکرگزار نہ بنیں کیوں کہ اس حکومت سے غداری کرکے خدا کی نظروں میں گنہگار نہ بننا ان کا فرض ہے۔‘‘ (صفحہ ۳۰۷)
اسی عاجزانہ التماس میں آگے کہا گیا ہے
: اب اپنی فیاض طبع حکومت سے پوری جرأتمندی کے ساتھ یہ کہنے کا وقت آگیا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں منین نے ہی خدمات انجام ہیں ان کا مقابلہ انگریزی ہندوستان میں کسی بھی مسلم خاندان کی خدمات سے نہیں کیا جا سکتا یہ بھی ظاہر ہے کہ کہ لوگوں کو بیس سال جتنی طویل مدت تک یہ سبق پڑھانے میں ایسا استقلال کسی منافق یا خود غرض انسان کا کام نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ایسے انسان کاکام ہے جس کا دل اس حکومت کی سچی وفاداری ہے:
صفحہ ۳۰۹ اور ۳۱۰ پر وہ کہتا ہے ’’من حقیقت میں کہتا ہوں اور کا دعویٰ کرتا ہوں کہ میں مسلمانوں میں سرکار انگریزی کی رعایا میں سب سے زیادہ تابعدار اور وفا دار ہوں کیونکہ تین چیزیں ایسی جنہوں نے انگریزی حکومت کے تئیں میری وفاداری کو اس درجہ بلندی تک پہنچانے میں میری رہبری کی ہے (۱) میرے والد کا اثر (۲) اس فیاض حکومت کی مہربانیاں (۳) خدائی الہام ۔‘‘
’’ در حقیقت میرا مذہب جس کا میں لوگوں پر بار بار اظہار کر رہا ہوں یہ ہے کہ اسلام دو حصوں میں منقسم ہی پہلا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا اور دوسرا اس حکومت کی اطاعت کرنا جس نے امن و امان اور قانون قائم کیا اور اپنے بازو ہم پر پھیلائے اور ناانصافی سے ہماری حفاظت کی۔ اور یہ حکومت انگریزی حکومت ہے ۔ ‘‘ (صفحہ ۳)
آگے وہ کہتا ہے : ’’ وہ اہم کام جس کیلئے اپنی نوجوانی سے لے کر زمانہ حال تک جبکہ میری عمر ساٹھ سال کی ہو چکی ہے میں خود اپنی ذات ، اپنی زبان اور اپنے قلم کو وقف کئے ہوئے ہوں یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں کو محبت ، خلوص اور انگریزی حکومت کے تئیں وفاداری کے راستے کی طرف رجوع کردوں اور کچھ بیوقوف مسلمانوں کے دلوں سے جہاد جیسے ان دوسرے واہموں کو دور کردوں جو انہیں خلوص پر مبنی دوستی اور اچھے تعلقات سے دور کرتے ہیں ۔ ‘‘ (صفحہ ۔۱)
کچھ آگے چل کر وہ لکھتا ہے :’’ میں نے نہ صرف انگریزی ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں کو انگریزی حکومت کی اطاعت سے بھرنے کی کوشش کی بلکہ میں نے عربی فارسی اور اردو میں بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں میں نے اسلامی ملکوں کے باشندوں کے سامنے وضاحت کی کہ ہم انگریزی حکومت کی سرپرستی میں اور اس کے خشک سائے میں کس طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور تحفظ ، مسرت ، فلاح و بہبود اور آزادی کا لطف اٹھا رہے ہیں ۔ (صفحہ ۔۱)
آگے وہ کہتا ہے :
’’ مجھے پورا یقین ہے کہ جیسے میرے پیروؤں کی تعداد میں اضافہ ہوگا ان لوگوں کی تعداد کم ہوگی جو جہاد پر ایمان رکھتے ہیں کیوں کہ صرف مجھ پر ایمان لانا ہی جہاد سے انکار کرنا ہے ۔‘‘(صفحہ۱۷)
وہ یہ بھی کہتا ہے :’’ حالانکہ میں احمدیت کی تبلیغ کیلئے روس گیا تھا لیکن احمدیہ فرقہ اور انگریزی حکومت کے مفادات یکساں ہونے کی وجہ سے میں نے جہاں کہیں بھی لوگوں کو اپنے فرقہ میں شمولیت کی دعوت دی وہاں انگریزی حکومت کی خدمت کو بھی اپنا فرض سمجھا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۸ ستمبر ۱۹۲۲ء میں شائع شدہ محمد امین قادیانی مبلغ کے ایک بیان کا اقتباس) ۔
ایک اور جگہ اس نے کہا : ’’ در حقیقت انگریزی حکومت ہمارے لئے ایک جنت ہے اور احمدی فرقہ اس کی سرپرستی میں مسلسل ترقی کررہا ہے۔ اگر تم اس جنت کو کچھ عرصے کیلئے الگ کردوتو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے سروں پر زہریلے تیروں کی کیسی زبردست بارش ہوتی ہے ۔ ہم اس حکومت کے کیوں نہ مشکور ہوں جس کی ساتھ ہمارے مفاد مشترک ہیں جس کی بربادی کا مطلب ہماری بربادی ہے اور جس کی ترقی سے ہمارے مقصد کی ترقی میں مدد ملتی ہے اس لئے جب کبھی اس حکومت کا دائرہ اثر وسیع ہوتا ہے ہمارے لئے اپنی دعوت تبلیغ کا ایک نیا میدان ظاہر ہوتا ہے‘‘ (الفضل مورخہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۰۵ئ) ۔
وہ یہ بھی کہتا ہے : ’’ احمدیہ فرقہ اورانگریزی حکومت کے درمیان تعلقات اس حکومت اور دوسرے فرقوں کے درمیان موجودہ تعلقات کی مانند نہیں ہیں ہمارے حالات کے مقتضیات دوسروں سے مختلف ہیں کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ حکومت کے لئے سود من ہے وہ ہمارے لئے بھی سود مند ہے جوں جوں انگریزی عملداری وسیع ہوتی ہے ہمیں بھی ترقی کے مواقع حاصل ہوتے ہیں ۔ اگر حکومت کو نقصان پہنچتا ہے خدا نہ کرے تو ہم بھی امن وا مان کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل نہ رہیں گے ۔‘‘ (الفضل، مورخہ ۲ جولائی ۱۹۱۸ء میں شائع شدہ قادیانی خلیفہ کے بیان سے)
استفتاء کی صفحہ ۵۹ پر وہ کہتا ہے ۔‘‘ حکومت کی تلوار اگر نہ ہوتی تو تمہارے ہاتھوں میں بھی اسی انجام کو پہنچتا جس انجام کو عیسیٰ کافروں کے ہاتھوں سے پہنچا اسی لئے ہم حکومت کے شکر گزار ہیں خوشامد کے طور پر یا ریاکاری کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر مشکور ہیں ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے زیرسایہ اس سے بھی زیادہ تحفظ کا لطف اٹھایا جس کی ہم آج کل اسلام کی حکومت کے تحت امید کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہب میں انگریزوں کی خلاف جہاد میں تلوار اٹھانا ناجائز ہے اسی لئے تمام مسلمانوں کو ان کے خلاف لڑنے اور ناانصافی اور بداطواری کی حمایت کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے ہمارے ساتھ حسن سلوک سے کام لیا اور ہر طور سے کریم النفسی سے پیش آئے کیا مہربانیوں کا جواب مہربانی سے ہی نہیں دینا چاہئیے۔ اس سلسلہ میں کوئی شک نہیں کہ ان کی حکومت ہمارے لئے جائے امن اور ہم عصروں کی ظلم و ناانصافی سے حفاظت کیلئے پناہ گاہ ہے۔‘‘
پھر وہ کہتا ہے ’’ ان کی سرپرستی میں شب کی سیاہی ہمارے لئے اس دن سے بہتر ہے۔ جو ہم اصنعام پرستوں کے زیر سایہ گزاریں لہذا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے شکرگزار ہوں اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم گنہگار ہوں گے۔‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم نے حکومت کو اپنے خیر خواہوں میں پایا اور کلام مقدس نے واجب قرار دیا ہے کہ ہم اس کا شکر ادا کریں ۔ لہذا ہم ن کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کی خیر خواہی کرتے ہیں ۔‘‘
اسی کتاب کے صفحہ ۷۶ پر وہ لکھتا ہے ۔‘‘:’’پھر انگریزوں کے عہد میں خدانے میرے والد کو کچھ گاؤں واپس کر دئیے ۔‘‘
حمامۃ البشری کے صفحہ ۵۶ پر وہ کہتا ہیہم اس کی سرپرستی میں حفاظت و عافیت اور مکمل آزادی کے ساتھ رہتے ہیں ۔
اسی کتاب میں وہ یہ بھی لکھتا ہے :’’ اور میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر ہم مسلم بادشاہوں کے ملک کو ہجرت کر جائیں تو بھی ہم اس سے زیادہ تحفظات اور اطمینان نہیں پاسکتے ۔ یہ (انگریزی حکومت) ہمارے ساتھ اور ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ اتنی فیاض رہی ہے کہ ہم اس کی برکات کے لئے قرار واقعی شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔‘‘
وہ یہ بھی کہتا ہے : میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ مسلم ہندوستانیوں کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ غلط راہ پر چلیں اور اس خیر خواہ حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائیں نہ ہی ان کا اس معاملہ میں کسی دوسرے کی مدد کرنا نہ ہی مخالفوں کی بدکاریوں کی الفاظ‘ عمل‘مشورہ‘ زر یا معاندانہ تدبیروں سے اعانت کرنا درست ہے۔ حقیقت میں یہ تمام کام قطعی ممنوع ہیں اور وہ جو ان کی حمایت کرتا ہے خدا اور رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور صریحاً غلطی پر ہے۔ بجائے اس کے شکر بجا لانا واجب ہے۔ اور جو انسانوں کا مشکور نہیں وہ خدا کا شکر بھی نہیں بجا لائے گا۔ محسن کو ایذا پہنچانا خباثت ہے۔ انصاف اور اسلام کے راستے سے انحراف کو وجود میں لاتا ہے اور خدا حملہ آورسے محبت نہیں کرتا۔‘‘
غلام قرآن میں موجود جہاد کے بارے میں تمام آیات کو نظراندازکر گیا ہے اس نے جہاد اور اس کی فضیلت پر رسول اللہﷺ کی متواتر احادیث بھی نظرانداز کر دیں اور یہ حقیقت مسلمہ بھی کہ جہادقیامت تک جاری رہے گا
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
قادیان کا حج اور یہ دعویٰ کہ اس کی مسجد‘ مسجداقصیٰ ہے اور وہ خود حجراسود ہے​
اخبار الفضل کے شمارا نمبر ۱۸۴۸ جلد نمبر ۱۰ دسمبر ۱۹۲۲ء میں محکمہ تعلیم قادیان کا ایک اشتہار چھپا۔ اس کا مضمون یہ تھا: ’’ وہ شخص جو کہ مسیح موعود کے قبہ سفید کی زیارت کرتا ہے وہ مدینہ میں رسول اللہ کے قبہ خضرا سے متعلق برکات میں شرکت پاتا ہے وہ شخص کتنا بدنصیب ہے جو قادیان کے حج اکبر کے دران خود کو اس نعمت سے محروم رکھتا ہے ۔‘‘
قادیانیوں کا عقیٖدہ ہے کہ قادیان تیسرا مقام مقدس ہے اس بارے میں خلیفہ محمود کہتا ہے ’’ درحقیقت خدا نے ان تین مقامات کو مقدس قرار دیا ہے (مکہ ، مدینہ اور قادیان) اور اپنی تجلیات کے ظہور کے لئے ان تین مقامات کا انتخاب کیا ہے ۔‘‘ (الفضل ۳ ستمبر ۱۹۳۵ئ)
قادیانی مذہب ایک قدم اور آگے بڑھ کر ان آیات کو جو اللہ کے شہر الحرام اور مسجد اقصٰی (یروشلم) کے بارے میں نازل ہوئیں قادیان پر منطبق کرتا ہے ۔ غلام احمد نے براہین احمدیہ کے خاشیہ پر تحریر کیا : ’’ خدا نے یہ الفاظ - اور وہ جو اس میں داخل ہوا مامون رہے گا- مسجد قادیان کے بارے میں صادق ہیں ۔ ‘‘ (صفحہ ۵۵۸)
اپنے ایک شعر میں وہ کہتا ہے : قادیان کی زمین عزت کی مستحق ہے یہ کائنات کے آغاز سے ہی مقدس سرزمین ہے ۔‘‘ (’’ درثمین ۔‘‘ غلام احمد کیااقوال کا مجموعہ صفحہ ۵۲)
الفضل شمارہ ۲۳ جلد ۲۰ میں ہم پڑھتے ہیں ’’ آیت خداوندی - پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ کو شب کے وقت لے گئی مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں - میں مسجد اقصی سے مرادا مسجد قادیا ن ہے اور اگر قادیان کا مرتبہ شہر مقدس کے برابر اور ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی افضل ہو ۔‘‘الفضل کے شمارہ ۲۶ میں جلد۲۰ میں ہم پڑھتے ہیں : ’’ حج قادیا ن فی الواقع بیت الحرام (یعنی کعبہ) کے حج کے برابر ہے ۔‘‘ پیغام صلح نامی صحیفہ جولاہوری قادیانیوں کا ترجمان ہے یہ اضافہ کرتا ہے :’’ قادیان کے حج کے بغیر مکہ کا حج روکھا سوکھا حج ہے کیوں آج کل حج مکہ نہ اپنا مشن پورا کرتا ہے اور نہ اپنا مقصد حاصل کرتا ہے ۔‘‘ (شمارہ ۳۳ جلد ۲۱)
استفتاء کے صفحہ ۴۲ پر غلام کہتا ہے : ’’ میں ہی حقیقت میں حجر اسود ہوں جس کی طرف منہ کرکے زمین پر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور جس کے لمس سے لوگ برکت حاصل کرتے ہیں ۔‘‘
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
الہام کے دعویٰ کی بنیاد پرقرآن میں تحریف اور اس کی مثالیں
حمامتہ البشری کے صفحہ ۱۰ پر غلام کہتا ہے :
’’ اے احمد تم پر خدا کی برکت ہو کیونکہ جب تم نے پھینکا تو یہ تم نہ تھے بلکہ خدا تھا جس نے لوگوں کو خبردار کرنے کے لئے پھینکا ۔جن کے آباء کو خبردار نہیں کیا گیا تھا تاکہ مجرموں کی تدابیر ظاہر ہو جائیں اور اس نے کہا : ’’ اگر یہ میری اختراع ہے تو میرا گناہ مجھ پر ہے ۔ یہ وہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام (دوسرے) مذاہب سے ممتاز کر سکے خدا کے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا اور تمہاری طرف سے مضحکہ اڑانے والوں سے نمٹنا ہماراذمہ ہے اور اس نے کہا : تم اپنے رب سے اس کی رحمت کی نشانی کیلئے اصرار کیا اور اس کی فیاضی کے باعث تم مجنون میں سے نہیں ہو وہ تمہیں دوسرے معبودوں سے ڈراتے ہیں تم ہماری نگاہوں میں ہو میں نے تمہیں المتوکل کہہ کر پکارا ہے (یعنی وہ جو خدا پربھروسہ رکھتا ہے) اور خدا نے اپنے عرش سے تمہاری تعریف کی نہ ہی یہود اور نہ ہی انصاریٰ تم سے مطمئن ہوں گے ۔ا نہوں نے سازش کی اورخدا نے سازش کی لیکن سازش کرنے والوں میں خدا بہترین ہے۔‘‘
استفتاء کی صفحہ ۷۷ پر وہ کہتا ہے : ’’ اور اس نے ان الفاظ میں مجھ سے کلام کیا جن میں سے کجھ کابیان ہم یہاْں کریں گے ۔ اور ہم ان پرایمان رکھتے ہیں جس طرح ہم اللہ خالق الانام کی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ وہ کلمات یہ ہیں : ۔
’’ اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اورحیم ہے ۔ اے احمد تم پر خدا کی برکت ہو جب تم نے پھینکا تو یہ تم نہ تھے بلکہ خدا تھا جس نے پھینکا اس مہربان نے قرآں پڑھایا تاکہ تم ان لوگوں کو خبردار کر سکو جن کے آباء کو خبردار نہیں کیا گیا تھا اورمجرموں کی تدابیر ظاہر ہو جائیں کہو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں ایما ن لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں کہو کہ حق ظاہر ہوگیا اور باطل مٹ گیا یقینا باطل کو مٹنا ہی ہے ۔ محمدﷺ کی طرف سے تمام برکتیں مبارک ہو وہ جو سکھاتا ہے اور سیکھتا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ جعلسازی ہے تو پھر اللہ کا نام لو انہیں ان کے مباحث میں کھیلتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دو کہو اگر یہ میرا اختراغ ہے تو مجھ پر سخت گناہ ہے اور اس سے زیادہ غلطی پر اور کون ہو گا جو اللہ کے بارے میں غلط بیان کرے یہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام (دوسرے) مذہبوں سے ممتاز کر سکے اسکے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا وہ کہتے ہیں کہ تم نے اسے کہاں حاصل کیا ؟ یہ انسانی کلمات کے سوا کچھ بھی نہیں اور دو سروں نے ان میں اس کی مدد کی پھرکیا تم اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ خود کو جادو کے پاس لے جاؤگے۔ دور ہوجاؤ شئے موعودہ کو لے جاؤ ! کون ہے یہ جو ذلیل ، جاہل یا مجنون ہے ، کہو میرے پاس خدا کی تصدیق ہے کیا تم مسلمان ہو ؟۔‘‘
صفحہ ۷۹پر وہ کہتا ہے : ’’ خدا تمہیں نہیں چھوڑے گا جب تک کہ برائی اور بھلائی میں تمیز نہ ہو جائے جب خدا کی مدد اور فتح آئے او ر تمہارے رب کاوعدہ پورا ہو جائے یہی تو ہے وہ جس کیلئے تم جلدی میں تھے میں نے ارادہ کیا کہ (زمین پر) میرا خلیفہ ہو اس لئے میں نے آدم کی تخلیق کی پھر وہ نزدیک آیا او ر اپنے آپ کو اتنا جھکا یا کہ دو کمان کے برابر دور یا نزدیک تھا اس نے دین کا احیاء کیا اور شریعت کوقائم کیا اے آدم تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت پذیر ہو اے ابن مریم تم اور تمہای زوجہ جنت میں سکونت پذیر ہو۔اے احمد تم اور تمہاری زوجہ جنت میں سکونت پذیر ہو تمہیں فتح دی گئی اور انہوں نے کہا کہ لیت و لعل کے لئے وقت نہیں یقینا و ہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستہ سے پھر گئے ان کو فارس کے ایک شخص نے جواب دیا خدا اپنی عنایت سے اس کی مساعی قبول کرے۔ یا وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک فتح مند جماعت ہیں ۔ (ان کی) پوری جماعت کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا اور پشت موڑ دی جائے گی تم ہمارے پہلو میں ہو مضبوطی کے ساتھ قائم اور معتبر ۔‘‘
صفحہ ۸۰ پر وہ کہتا ہے : ’’ کہو، کہ خدا کا نور تم تک آگیا ہے اس لئے کفر نہ کرو اگر تم ایمان والے ہو یا تم ان سے انعام مانگتے ہو اور اس لئے وہ قرض کے وزن سے دب گئے ہیں ہم نے ان تک حق پہنچا دیا ہے لیکن وہ حق کے مخالف ہیں لوگوں سے لطف کے ساتھ پیش آؤ اور ان پر رحم کھاؤ تم ان کے درمیان بمنزلہ موسیٰ کے ہو صبر سے کوشش کئے جاؤ وہ جو کچھ کہیں کہنے دو شاید تم اپنے آپ کو تھکا نے جارہے ہو مبادہ وہ منکر ہو جائیں اس کی پیرو ی نہ کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو مجھے ان کے بارے میں مخاطب نہ کرو جنہوں نے گناہ کئے وہ یقینا غرق ہونے والے ہیں ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری تجویزوں کی مطابق پنا ہ گاہ بناؤ یقینا جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ واقع میں خدا کی اطاعت کا عہد کرتے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں سے افضل ہے جبکہ وہ جو کافر تھا تمہارے خلاف سازش کر رہا تھا اے یا مان میرے لئے آگ روشن کرو شاید میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں درحقیقت میں اسے ان سے سمجھتا ہوں جھوٹ بولتے ہیں ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہو اس کے لئے نہیں تھا کہ اس میں داخل ہو سوائے خوف کے ا ورجو کچھ تم پرگزر ی وہ خدا کی طرف سے تھا۔‘‘
کچھ دوسری مثالیں تحفہ بعداد میں صفحہ ۲۱ سے ۳۱ تک ملتی ہیں ۔
غلام کہتا ہے : ’’ میں تم پر ایک برکت نازل کروں گا اور اس کے انوار ظاہرکروں گا تاکہ سلوک و سلطان تمہارے لباس کو چھو کر اس سے برکت کے طالب ہوں ۔‘‘ او ر اس (خدا)نے کہا :’’ میں ان پرقابو رکھتا ہوں جنہوں نے تمہیں ذلیل کرنا چاہا اور یقینا تمہاری طرف سے مضحکہ اڑانے والوں سے نمٹنا ہمارا ذمہ ہے ۔ اے احمد تم پر خدا کی برکت ہے کیونکہ جب تم نے پھینکا یہ تم نہیں تھے بلکہ خدا تھا جس نے پھینکا وہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام (دوسرے) مذاہب سے ممتاز کر سکے کہو کہ مجھے حکم دیا گیا ہے اورمیں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں کہو کہ حق آ پہنچا اور باطل مٹ گیا یقینا باطل کو مٹنا ہی ہے ۔ محمدﷺ کی طرف سے سبھی برکتیں مبارک ہے وہ جو علم رکھتا ہے اور جو سیکھتا ہے اور کہو اگریہ میری اختراع ہے تو میرا گنا ہ مجھ پر ہے اور انہوں نے سازش کی اور خدا نے سازش کی لیکن سازش کرنے والوں میں خدا بہترین ہے ۔ وہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کی ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام (دوسرے) مذاہب سے ممتاز کر سکے ۔ خداکے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا میں تمہارے ساتھ ہوں لہٰذا میرے ساتھ رہو۔ خدا کا ساتھ پکڑے رہو چاہے کہیں بھی ہو تم جہاں ہوگے وہاں خدا کا چہرہ ہوگا۔‘‘
تم انسانوں میں بہترین امت اور مؤمنین کا فخر ہو خدا کی تشفی سے مایوس نہ ہو کیونکہ خدا کی تشفی قریب ہی ہے اور خدا کی نصرت قریب ہے وہ ہر ایک تنگ گھاٹی سے تمہاری طرف آئیں گے خدا تمہاری مدد کریگا تمہیں میری مدد ملے گی جسے آسمان سے ہمارے الہام حاصل ہوگا خدا کے الفاظ کوئی نہیں بدل سکتا تم آج ہمارے پہلو میں ہو مضبوطی کیساتھ قائم اور معتبر انہوں نے کہا یہ جعل سازی کے سوا کچھ نہیں اللہ کا نام لو اور انہیں ان کی مباعث میں کھیلتے ہوئے ان کے حال پر چھوڑ دو یقینا تم پر میر ی رحمت سے اس دنیا میں اور آخرت میں اور تم ان میں سے ہو جن کے لئے نصرت بخشی گئی اے احمدتمہارے لئے بشارت ہے تم میرے محبوب ہواور میری معیت میں ہو میں نے تمہاری عظمت کا پودا اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اگر لوگ تعجب کریں تو کہہ دو کہ وہ خدا ہے اور وہ عجیب ہے وہ جس سے بھی خوش ہوتا ہے اس کے ساتھ فیاضی کا برتاؤ کرتا ہے جو کچھ وہ کرتا ہے اسکے بارے میں اس سے پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی مگر ان سے پوجھ گچھ ہو گی ان کی ہم عوام الناس میں حال ہی میں تشہیر کریں گے جب خدا ایمان والوں کی مدد کرتا ہے تو ان سے رشک کرنے والے بھی ہوتے ہیں لوگوں سے لطف وکرم سے پیش آؤ اور ان پر رحم کروتم ان کے درمیان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہو ناانصاف لوگوں کا ظلم صبرکے ساتھ برداشت کرو لوگ ایسی حالت میں چھوڑ دیا جانا پسند کرتے ہیں جہاں وہ کہہ سکیں ہم ان پربغیر آزماش کئے ایمان لائے ۔‘‘ سو آزمائش یہی ہے لہذا مستقل مزاج لوگوں کی طرح صبر کے ساتھ برداشت کرو لیکن یہ آزمائش خدا کی طرف سے ہے اسی کی عظیم محبت کیلئے تمہارا انعام خدا کے یہاں ہے اور تمہارا رب تم سے راضی ہوگا اور تمہارے نام کو مکمل کریگا اوراگر وہ تم کو صرف نامعقولیت کا کندا سمجھتے ہیں تو کہہ کہ میں صادق ہو ں اور کچھ دیر میری نشانی کا انتظار کرو ۔‘‘
’’ تعریف ہو اس خدا کی جس نے تمہیں مسیح ابن مریم بنایا کہو کہ یہ خدا کا فضل ہے اور میں خطا ب کرنے کی تمام شکلوں سے عاری ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہی ایک ہوں ۔ وہ اپنی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کریں گے لیکن خدا اپنے نو ر کی تکمیل کرتا ہے اپنے دین کا احیاء کرتا ہے تم چاہتے ہو کہ ہم آسمان سے تم پر آیتیں نازل کریں اور تم دشمنوں کا قلع قمع کردو اللہ الرحمن نے اپنا حکم اپنے نمائندوں کو عطا کیا ہے اس لئے خدا پر بھروسہ رکھو اور ہماری نظر کے سامنے اور تمہاری وحی کے مطابق پنا گاہ تعمیر کرو جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ سے اپنی اطاعت کا عہد کرتے ہیں ۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں سے افضل ہے اور وہ لوگ جو عذاب کی مستحق ہیں وہ سازش کرتے ہیں اور اللہ سازش کرنے والوں میں بہترین ہے کہو میرے پاس اللہ کی تصدیق ہے پھرکیا تم مسلمان ہو ؟ میرے ساتھ میرا رب ہے وہ میری رہبری کرے گا میرے رب نے مجھے دکھایا کہ تم کس طرح مردوں کو زندہ کردیتے ہو میرے رب معاف کر اور آسمانوں پر سے رحم کر مجھے تنہا نہ چھوڑ حالانکہ تم خیرا لوارثین ہو اے رب، محمدﷺ کی امت کی اصلاح کر اے ہمارے رب ہمیں اور ہماری قوم کے جو لوگ حق پر ہیں انہیں ایک جگہ اکھٹا کر کیونکہ تم ان سب میں بہترین ہو جو (نزاعی معاملوں میں ) صلح صفائی کراتے ہیں وہ تمہیں دوسرے معبودوں سے ڈراتے ہیں تم ہماری نگاہوں میں ہو میں نے تمہیں المتوکل کہہ کر پکارا ہے خدا اپنے عرش سے تمہاری تعریف کرتا ہے اے احمد ہم تمہاری تعریف کرتے ہیں اور تم پربرکت بھیجتے ہیں تمہا را نام مکمل کیاجائے گا لیکن میرا نہیں اس دنیا میں ایک اجنبی یا مسافر کی طرح رہو راستبازاورنیک چلن لوگوں کے درمیان رہو میں نے تمہیں چنا اور تمہاری طرف اپنی محبت پھینکی ہے اے ابنائے فارس توحید اختیار کرو اور ان کے لئے خو خبر لاؤ جو ایمان لائی اس ارم پر کہ وہ اپنے رب کے ساتھ یقینی تعلقات رکھتے ہیں خدا کی مخلو ق کے سامنے منہ نہ بناؤ ۔ لوگوں سے بیزار نہ ہو نہ مسلمانوں پر اپنے بازو نیچے کرو۔
’’ اے وہ لوگو جو سوال جواب کرتے ہو ! تمہیں ان کے بارے میں کس ذریعہ نے بتایا جو سوال جواب کرتے ہیں تک ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی دیکھو گے اور وہ تم پر اللہ کی برکتیں بھیجیں گے ۔ اے ہمارے ر ب ہم نے ایک شخص کو سنا ہے ایمان کی طرف بلاتے ہوئے اے رب ہم ایمان لائے لہذا ہمار انام شاہدین میں لکھ لے۔تم عجیب ہو تمہارا انعام قریب ہے اور تمہارے ساتھ آسمان اور زمین کے سپاہی ہیں ۔ میں تمہیں اپنی وحدانیت اور انفرادیت کی بمنزلہ سمجھتا ہوں ۔ وقت آگیا ہے کہ تمہاری مدد کیجائے اورتم عوام الناس میں متعارف ہو ۔ اے احمد تم پر خدا کی برکت ہو ۔ جو برکت خدا نے تم پر کی وہ تمہیں حقیقت میں پہلے حاصل تھی۔ تم میری حضوری میں عالی رتبہ ہو میں تمہیں خود اپنے لئے منتخب کیا اور تمہیں ایسے رتبہ پر فائز کیا جو مخلوق کے لئے نامعلوم ہے یقینا خدا تمہیں ا س وقت تک نہیں چھوڑے گا جب تک برائی اور بھلائی میں تمیز نہ ہو جائے یوسف اور اس کی کامیابی پر نظر رکھو ۔ اللہ اس کے معاملات کا مالک ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس سے ناواقف ہے میں نے ارادہ کیا کہ (زمین پر) میرا خلیفہ ہو اس لئے میں نے آدم کی تخلیق کی تاکہ وہ دین کا احیاء کر سکے اورشریعت کو قائم کر سکے کتاب ذالفقار علی ولی : اگر ایمان کو ثریا کیساتھ باندھ دیاگیا ہوتا تو بھی اہل فارس اس تک پہنچ جاتے ۔ اس کا روغن روشنی پھیلاتا حالانکہ اسے آگ نے ذرا بھی نہ چھڑا ہوتا ۔ خدا رسولوں کے حلیہ میں تھا کہو اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو میری پیروی کرو اور خدا تم سے محبت کرے گا اور محمد اور اس کی آل پر درود بھیجو وہ تمام ابن آدم کے سردار اور خاتم النبین ہیں تمہارا رب تم پرمہربان ہے اور خدا تمہارا دفاع مہیا کرے گا اوراگرلوگ تمہارا دٖفاع نہیں کرتے خدا تمہارا دفاع مہیا کرے گا اگرچہ کہ دنیا کے لوگوں میں سے ایک شخص بھی تمہارا دفاع نہ کرے ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور اس کی بربادی ہو۔ اس کے لئے نہیں تھاکہ وہ اس میں داخل ہو سوائے خوف کے اور جو کچھ تم پر گزری وہ خدا کی طرف سے تھا اور جان لوکہ انعام متقیوں کیلئے ہے اور اگر تم ہم خاندان اور اہل قرابت ہوتے یقینا ہم انہیں ایک نشانی اس عورت میں دکھائیں گے جو پہلے سے شادی شدہ ہے اور اسے تمہاری طرف واپس بھیج دیں گے اپنی طرف سے ہم رحم کے طور پر یقینا ہم باعمل ہوگئے ہیں اور انہو ں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور ان میں شامل ہوئے جنہوں نے میرا مضحکہ اڑایا تمہارے رب کی طرف سے بشارت ہو تمہیں نکاح الحق کی لہذامیری احسان فراموشی نہ کرو ہم نے اس کانکاح تم سے کیا خدا کے الفاظ کوئی بدل نہیں سکتا اور ہم اسے تمہارے لئے بحال کرنے جارہے ہیں یقینا تمہارا رب جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے یہ ہماری فیاضی ہے تاکہ یہ ایک نشانی ہو دیکھنے والوں کے لئے دو آنکھیں قربان کردی جائیں گی ۔ تمام ذی روح چیزوں کو فنا ہونا ہے۔ اور ہم انہیں اپنی نشانیاں آسمانوں میں خود ان میں دکھائیں گے اور ہم انہیں فاسقین کی سزا دکھائیں گے۔
جب خدا کی نصرت اورفتح آتی ہے اور زمانہ کی تقدیر ہمارے ہاتھ میں آتی ہے تو کیا یہ ہمارا حق نہیں ہے لیکن جنہوں نے اس پر یقین نہیں کیا انہوں نے واضح غلطی کی تم ایک پوشیدہ خزانہ تھے اس لئے میں نے اسے ظاہر کرنا چاہا ۔آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں چاک کر کے کھول دیا کہو کہ میں ایک بشر ہوں جس پر وحی آتی ہے ۔ لیکن یقینا تمہارا خدا ایک ہے اور تمام نیکی قرآن میں ہے جسے صرف انہیں ہی چھونا چاہئیے جو پاک ہو حقیقت میں میں ایک طویل عرصہ تمہارے درمیان رہ چکا ہوں قبل اس کے (آنے کے) پھر کیا تم میں ذرا بھی عقل نہیں ۔‘‘
کہو ، کہ اللہ کی ہدایت ہدایت ہے اور میرا رب میری معیت میں ہے اے رب، میری مغفرت کر او آسمان سے مجھ پرمہربان رہ اے رب میں مغلوب ہوں لیکن فاتح ہوں گا ۔ایلی ، ایلی تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ۔ اے اللہ القادر کے بدے میں تیرے ساتھ ہوں میں تمہیں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں میں نے تمہارے لئے اپنی مہربانی اور اپنی قدر ت کا پودا اپنے ہاتھ سے لگایا ہے اور تم آج میرے ساتھ ہو ۔ مضبوطی سے قائم اور معتبر ۔ میں تمہارا ہمیشہ حاضر رہنے والا ہوں میں تمہار ا خالق ہوں میں نے تمہارے اندر صدق کی روح پھونکی اوراپنی محبت تمہاری طرف پھینکی ہے تاکہ تم میری نظروں کے سامنے ایک تخم کی طرح اپنی نشوونما کرو جیسے پہلے اس کا ان کو پھوٹتا ہے پھر اسمیں مضبوطی آتی ہے اور یہ توانائی کے ساتھ بڑھ کر اپنے ڈنٹھل پر سیدھا کھڑا ہوتا ہے حقیقت میں ہم نے تمہیں فتح مبین عطا کی تاکہ خدا تمہارے وہ گناہ معاف کردے جو پہلے سرزد ہوئے اور جو ہنوز ہونے والے ہیں لہذا شکریہ ادا کرو خدا نے اپنے بندہ کو قبول کیا ور اسے اس سے بری کیا جو لوگ کہتے ہیں وہ خدا کی نگاہوں میں ایک مقبول بندہ تھا ، لیکن جب خدا نے اپنی تجلی پہاڑ پر بے نقاب کی تو ہ سفوف بن گیا خدا کمزور کو کافروں کی مکاری بنا دیتا ہے تاکہ ہم اسے اپنی رحمت کی خیال سے لوگوں کیلئے ایک نشانی بنادین اوراس لئے بھی کہ اسے ہم سے عظمت ملے اس طرح ہم انہیں انعام دیے ہیں جوبخوبی کام کرتے ہیں تم میرے ساتھ ہو اور میں تمہارے ساتھ ہوں میرا راز تمہارا راز ہے اولیاء کے اسرار ظاہر نہیں کئے جائیں گے تم حق مبین پر ہو اس دنیا میں اورآخرت میں ممتاز اور مقربین میں ہو بے شرم شخص صرف اپنی موت کے وقت یقین کریگا وہ میرا دشمن ہے اور تمہار دشمن ہے ایک گئو سالہ، ایک مجسم واہمہ ، ذلیل و خوار ۔ کہو میں خدا کا حکم ہوں اورعجلت کرنے والوں میں نہ رہو۔
نبیوں کا چاند تمہارے پاس آئے گا اور تمہارا حکم خوب چلے گا اور ہم نے ایمان والوں کی نصرت کا وعدہ کیا ہے وہ دن جب حق آئے گا اور حقیقت ظاہر ہوگی اور کھونے والے کھوئیں گے تو تم دیکھو گے کہ ناعاقبت اندیش مسجد میں جھکے ہوئے کہتے ہونگے : اے رب ہمیں معاف کردے کیونکہ ہم غلطی پر تھے آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں خدا تمہیں معاف کردیگا۔ وہ الرحم الرحمین ہے تمہاری موت جب آئے گی تو میں تم سے مطمئن ہوں گا اور تم پر سلامتی ہوگی اس لئے بے خوف ہو کراس میں داخل ہو ۔‘‘
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
قادیانی فرقہ کی ہندوؤں میں منظور نظر بننے کی کوشش اور اس پر ہندوؤں کی مسرت
اعلان کے صفحہ ۱۴ پر وہ کہتا ہے :’’ دینی مسئلوں پر مسلمان ، ہندو ، آریہ ، عیسائی اور سکھ مقرروں کی تقریریں ہوتی ہیں ۔ ہر ایک مقرر اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے مذہب پر تنقید نہ کرے اپنے دین کی تائید میں وہ جو کچھ بھی کہہ سکتا ہے مگرتہذیب واخلاق کا خیال کرتے ہوئے۔‘‘
یہ بات جاننے لائق ہے کہ ہندوستان میں قومی لیڈروں نے قادیانی مذہب کے تصور کا خیر مقدم کیا ہے کیونکہ یہ ہندوستان کو تقدس عطا کرتا ہے اوربطور قبلہ اور روحانی مرکز حجاز کی بجائے ہندوستان کی طرف منہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی ہمت افزائی کرتا ہے اور چونکہ یہ مسلمانوں میں ہندوستا ن سے متعلق حب الوطی کو فروغ دیتا ہے یا وہ ایسا سوچتے ہیں … پاکستان میں قادیانیوں کیخلاف ہنگاموں کے دوران کچھ بڑے ہندو اخباروں نے قادیانیوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیااور ان کی حمایت میں مضامین شائع کئے اور اپنے قارئین سے کہا کہ بقیہ مسلم فرقہ کی خلاف قادیانویں کی حمائت و تائید ایک فر ض تھا اور یہ کہ پاکستان میں قادیانیوں کے درمیان نزاع اصل میں ایک طرف عرب رسالت اور اس کے پیروؤں اور دوسری جانب ہندوستانی رسالت اور اس کے پیروؤں کے درمیان آویزش اوررقابت تھی۔ ہندوستان میں انگریزی کے ایک مقتدر اخبار (اسٹیٹسمین) کے نام جس نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا ایک خط میں ڈاکٹر اقبالؒ نے کہا : ’’ قادیانیت محمدﷺ کی رسالت کی حریف رسالت کی بنیاد پر ایک نئے فرقے کی تشکیل کی ایک منظم کوشش ہے۔‘‘
ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو جواب دتیے ہوئے ، جنہوں نی اپنی ایک تقریر میں تعجب کا اظہار کیا تھا کہ مسلمان قادیانیت کو اسلام سے جدا قرار دینے کے لئے کیوں اصرار کرتے ہیں جبکہ وہ بہت سے مسلم فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے ڈاکٹر اقبال ؒنے کہا :
قادیانیت نبی عربی ﷺ کی امت میں سے ایک ہندوستانی نبی کے لئے نیا فرقہ تراشنا چاہتی ہے۔‘‘

انہوں نے یہ بھی کہا : ’’ قادیانی مذہب ہندوستان میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے لئے ایک یہودی فلسفی اسپنوزا کے عقائد سے زیادہ خطر ناک ہے جو یہودی نظام کے خلاف بغاوت کر رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد اقبالؒ عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کے ، اسلام کے اجتماعی ڈھانچے اور امت مسلمہ کے اتحاد کے محافظ کے طور پر قائل تھے۔ وہ اس کے بھی قائل تھے کہ اس عقیدہ کے خلاف کوئی بھی بغاوت کسی بھی رواداری یا صبر وتحمل کی مستحق نہیں تھی کیونکہ یہ اسلام کی رفیع الشان عمارت کی بنیاد پر ضرب پہنچا کر منہدم کرنیوالی کلہاڑی کا کام کرتی ہے ۔ اسٹیٹسمین کے نام اپنے مذکورہ بالا خط میں انہوں نے لکھا تھا:
’’ یہ عقیدہ کہ محمدﷺ خاتم النبیین ہیں ایک بالکل صحیح خط فاصل ہے اسلام اور ان دیگر مذاہب کے درمیان جن میں خدا کی واحدانیت کا عقیدہ مشترک ہے اور جو محمدﷺ کی رسالت پر متفق ہیں مگر سلسلہ وحی جاری رہنے اور رسالت کے قیام پرایمان رکھتے ہیں جیسے ہندوستان میں برہمو سماج ۔ اس خط فاصل کے ذریعہ یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کونسا فرقہ اسلام سے متعلق ہے اور کونسا اس سے جدا ہے میں تاریخ میں کسی ایسے مسلم فرقے سے ناواقف ہوں جس نے اس خط کو پار کرنے کی جرات کی۔‘‘
مرزا بشیر الدین ابن غلام احمد اور موجودہ قادیانی خلیفہ نے اپنی کتاب آبینہ ٔ صدقات میں کہا ہے:
ہر وہ مسلمان جس نے مسیح موعود کی بیعت نہیں کی ، خواہ اس نے ان کے بارے میں سنایا نہیں ، کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔‘‘ (صفحہ ۲۵)
یہی بیان اس نے عدالت کے سامنے دیا اور کہا: ہم مرزا غلام احمد کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ لیکن غیراحمدی (یعنی غیر قادیان) ان کی نبوت پرایما ن نہیں رکھتے قرآن کہتا ہے کہ جو کوئی بھی نبیوں میں سے کسی کی نبوت کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔ چنانچہ غیر احمدی کافر ہیں ۔‘‘
خود غلام احمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کہا تھا:
’’ ہم ہر معاملے میں مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں اللہ میں ، رسول میں ، قرآن میں ، نماز میں ، روزہ میں ، حج میں ، اور زکوۃ میں ۔ ان سبھی معاملوں میں ہمارے درمیان لازمی اختلاف ہے ۔‘‘ (الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۳۱ئ)
ڈاکٹراقبالؒ کے مطابق قادیانی اسلام سے سکھوں کی بہ نسبت زیادہ دور ہیں جو کہ کٹر ہندو ہیں انگریزی حکومت نے سکھوں کو ہندوؤں سے جداگانہ فرقہ (غیر ہندو اقلیت) تسلیم کیا ہے حالانکہ اس اقلیت اور ہندوؤں میں سماجی ، مذہی اورتہذیبی رشتے موجود ہیں اور دونوں فرقے کے لوگ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں جبکہ قادیانیت مسلمانوں کے ساتھ شادی ممنوع قرار دیتی ہے اور ان کے بانی نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھنے کا بڑی سختی سے حکم دیتے ہوئے کہا : مسلمان حقیقت میں کھٹا دودھ ہیں اور ہم تازہ دودھ ہیں ۔‘‘
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
لاہوری جماعت اور اس کے باطل عقائد
غلام احمد اور اس کے جانشین نورالدین کے زمانے میں قادیانی مذہب میں صرف ایک فرقہ تھا ۔ لیکن نور الدین کے آخری زمانہ حیات میں قادیانیوں میں کچھ اختلاف پیداء ہوئے ۔ نور الدین کے مرنے کے بعد یہ لوگ دو جماعتوں میں منقسم ہوگئے ۔ قادیانی جماعت جس کا صدر محمود غلام احمد ہے اور لاہور ی جماعت جس کا صدر اور لیڈر محمد علی ہے جس نے قرآن کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ قادیان کی جماعت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ غلام احمد نبی اور رسول تھا ۔ جبکہ لاہوری جماعت بظاہر غلام احمد کی نبوت کا اقرار نہیں کرتی لیکن غلام احمد کی کتابیں اس کے دعویٰ نبوت و رسالت سے بھری پڑی ہیں اس لئے وہ کیا کر سکتے ہیں ؟
لاہوری جماعت کے اپنے مخصوص عقائد ہیں جن کی وہ اپنی کتابوں کے ذریعہ تبلیغ کرتے ہیں ۔وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیداء ہوئے تھے ۔محمد علی کے مطابق جو اس جماعت کا لیڈر ہے عیسیٰ علیہ السلام یوسف بجار کے بیٹے تھے ۔ محمد علی نے اپنی عقیدہ کی موافقت میں کچھ آیات میں تحریف بھی کی ہے (دیکھئے اس کی کتاب عیسیٰ اور محمد صفحہ ۷۶)
مجلہ اسلامیہ (دی اسلامک ریویو) جو انگلینڈ میں ووکنگ سے شائع ہونے والا اس جماعت کا رسالہ ہے میں یو ں ایک بار ڈاکٹر مارکوس کا مضمون شامل تھا جس میں لکھا تھا :
’’ محمد علیہ السلام اعلان کرتے ہیں کہ یوسف عیسیٰ علیہ السلام کے باپ تھے۔‘‘اس رسالہ نے اس جملہ پر کبھی رائے زنی نہیں کی کیونکہ یہ ان کے مذہبی عقیدہ کے مطابق تھا۔
اپنے ترجمہ قرآن میں محمد علی نے لفظی ترجمہ کے قاعدہ کی تقلید کی ۔لیکن اپنے کئے ہوئے لفظی ترجمہ کی تفسیر کے نیچے حاشیہ پر کی ۔ اپنی تفسیر میں اس نے اسی تاویل کی پابندی کی جو اس کے اپنے مذہبی عقیدہ کے مطابق تھی جیسا کہ اس نے مندرجہ ذیل قرآنی آیت کے ساتھ کیا:
’’ میں تمہارے لئے مٹی سے ‘ جیسی کہ وہ تھی ‘ ایک چڑیا بناتاہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں اوریہ خدا کی اجازت سے چڑیا بن جاتی ہے ۔ اور میں اچھا کرتاہوں جو پیدائشی اندھے اور کوڑھی تھے۔ اور میں خدا کی اجازت سے مردوں کو زندہ کردیتا ہوں ۔‘‘
اس نے اس وقت کی تاویل میں ان کا طریقہ اختیار کیا جو معجزات میں ایمان نہیں رکھتے اوراسکے معانی میں ان کے طریقہ پر تصرف کیا جو نہیں جانتے کہ قرآن نہایت شستہ عربی زبان میں نازل ہوا۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
دیو بندیت ، بریلویت کا پیارا مذہب حنفیت یعنی فقہ حنفی کی چند
جھلکیاں​

ہے فقط توحید و سنت امن وراحت کا طریق
فتنہ وجنگ وجدل تقلید سے پیدا نہ کر
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودابھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
بانگ درا (اقبالؒ)
یہ جملہ حوالہ جات فتاوی عالمگیری جلد نمبر ۱-۲
ناشر مکتبہ ماجدیہ طوغی روڈ کوئٹہ میں ملاحظہ فرمائیں

کتاب الطلاق
غیر محرم عورت سے معانقہ​
۸۱:- رجل قال ان اغتملت من الحرام فمراتہ طالق فعانق اجنبیۃ فامنٰی واغتسل قالوا یرجیٰ ان لایکون حانثا ویمینہ تکون علی الجماع ص ۴۳۵ ج۱
ایک مرد نے کہا کہ اگر میں حرام سے غسل کروں تو میری جورو کو طلاق ہے یعنی غسل بوجہ حرام کرنے کے ہو پھر اس نے ایک اجنبی عورت کو لپٹا (یعنی بغل میں ) لیا حتی کہ اس کو انزال ہو گیا اور اس نے غسل کیا تو مشائخ (حنفیہ) نے فرمایا کہ امید ہے کہ حانث نہ ہوگا ۔ اس کی قسم فعل جماع پر ہوگی ۔ص ۳۹۰ج۲
وضاحت :- یعنی غیر محرم عورت سے بغل گیر ہو کر انزال ہوجائے اور غسل کرلے تو اس کو حرام کا غسل نہیں کہیں گے۔
طلاق دینے کا شگفتہ اور مہذب طریقہ
۸۴/۸۳/۸۲ رجل قال لامرأتہٖ ان لم یکن فرجی احسن من فرجک فانت طالق وقالت المرأۃ ان لم یکن فرجی احسن من فرجک فجاریتی حرۃ قال الشیخ لاما ابوبکر محمد بن الفضل رحمہ اللہ تعالیٰ ان کانا قائمین عندالمقالہ برت المرأۃ وحنث الزوج وان کانا قاعدین برالزوج وحدثت لامرأۃ لان فرجہا حالہۃ القیام احسن من فرج الزوج وحالۃ القعود الامر علی المکس وان کان الرجل قائما والمرأۃ قاعدۃ قال الفقیہ ابو جعفر رحمہ اللہ لااعلم ہذا قال وینبغی ان یحنث کل واحدمنہا لان الشرط البر فی کل یمین ان یکون فرج احدہما احسن وعندالتعارض لا یکون احدہما احسن فیحنث کل واحد مہنما ص ۴۳۵ ج۱
اگرایک مرد نے اپنی جورو سے کہاکہ ان لم یکن فرجی احسن من فرجک فانت طالق یعنی اگر میرا آلہ تناسل تیری شرمگاہ سے زیادہ خوبصورت نہ ہو تو تجھ کو طلاق اور عورت نے کہا کہ اگر میری شرم گاہ تیرے آلہ تناسل سے خوبصورت نہ ہو تو میری باندی آزاد ہے تو شیخ امام ابو بکر محمد بن فضل نے فرمایا کہ اگر اس گفتگو کے وقت دونوں کھڑے ہوں تو عورت قسم میں سچی ہوگی اور مرد حانث ہو جائیگا اگر دونوں بیٹھے ہوں تو شوہر سچا ہوگا اور عورت حانث ہو جائے گی اس واسطے کہ عورت کی شرمگاہ حالت قیام میں مرد کے آلہ تناسل سے خوبصورت ہوتی ہے اور بیٹھنے کی حالت میں معاملہ برعکس ہوتا ہے اگر مرد کھڑا ہو اور عورت بیٹھی ہو تو فقیہ ابو جعفر نے فرمایا کہ میں اس کو نہیں جانتا ہوں اورفرمایا کہ دونوں قسموں میں ہر ایک کا سچا ہونا اسی طور پر ہے کہ دونوں میں کوئی بہتر ہو اور تعارض کے وقت دونوں میں سے کوئی بنسبت دوسرے کے احسن نہ ہو گی پس دونوں میں ہر ایک حانث ہو گا ص ۴۹۰ ص ۴۹۱ ج۲
یاد رکھنے کے جنسی ضابطے
(ا) مرد عورت ننگے کھڑے ہوں تو عورت کی شرمگاہ مرد کے آلہ تناسل کے مقابلہ میں زیادہ خوبصورت ہوتی ہے
(۲)مرد عورت ننگے بیٹھے ہوں تو پھر مرد کا آلہ تناسل عورت کی شرمگاہ سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے ۔
طلاق کی اس شگفتہ اور مہذب صور ت پر ہم سردست خود تبصرہ نہیں کرتے بلکہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ خود فیصلہ کریں کہ آیا یہ نظام مصطفی کی فنی توجیہیں بیان کی گئی ہیں یا شاہی کوک شاستر مرتب فرمایا گیا ہے؟
تیرے رندوں پہ کھل گئے اسرار دیں ساقی
ہوا عمل الیقین ‘عین الیقین، حق الیقین ساقی
اگر فلاں کی دبر چھوڑی نہ ہو
۸۵: سکران قال لامرأتہٖ ان لم یکن فلان اوسع دبر امنک فانت طالق ص ۴۳۵ج۱
اگر نشے کی حالت میں کسی نے اپنی بیوی کو کہا کہ اگر فلاں کی دبر تیر ی دبر سے چوڑی نہ ہو تو تجھ کو طلاق۔

جس کی شرمگاہ چوڑی ہو اس کو طلاق
۸۷/۶۸ ولو قال لامرأتین لہ اوسعکما فرجا ہی طالق یقع علی (۱)اعجفہا وقال الشیخ (الامام) ظہیر الدین یقع علی ارطبہما ص ۴۳۵ ج۱
اگر ذکر لوہے سے سخت نہ ہو؟
۸۸:- رجل قال لامرأتہٖ ان لم یکن ذکری اشد من الحدید فانت طالق لاتطلق لانہ لا ینتقص بالاستعمال کذا فی الخلاصۃ ص ۴۲۶ج۱
ایک مرد نے اپنی جورو سے کہا کہ اگر میرا ذکر یعنی آلہ تناسل لوہے سے زیادہ شدید نہ ہو تو تجھے طلاق تو عورت مطلقہ نہ ہوگی ا س واسطے کہ آلہ تناسل استعمال سے ناقصل نہیں ہوتا ؟ ص ۴۹۰ ج۲ سبحان اللہ تجربہ ہو تو ایسا ہو فقاہت ہو تو ایسی ہو
نازک کلامیاں میری توڑیں عدو کا دل
میں وہ بلا ہوں جو شیشہ سے پتھر کو توڑ دوں
کتاب المفقود
مفقود اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے اہل یا شہر سے غائب ہو گیا ہو یا اس کو دشمنوں یعنی حربی کافروں نے گرفتار کر لیا ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ زندہ موجود ہے یا مرچکا ہے اور نہ اس کا ٹھکانہ معلوم ہو ص ۶۵۲ج۳ مترجم فتاوی عالمگیری
مفقود کی بیوی کی عدت صرف باون ماہ اور دس دن ہے جیسا کہ موطا امام مالک میں ہے ۔
عن عبداللہ بن دینار قال خرج عمر بن الخطاب من اللیل فمع امرأۃً تقول :
(۱) اگر کسی نے اپنی دو بیویوں کو یوں کہا کہ تم دونوں میں سے جس کی فرج چوڑی ہے تو اس کو طلاق تو ان دونوں میں سے جو دبلی ہوگی اس کو طلاق ہو جائے گی اور فقیہ ظہیر الدین کے مطابق جو زیادہ تروتازہ ہوگی اس کو طلاق ہو جائے گی۔


عبداللہ بن دینار کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب جسب معمول رات کو گشت پر نکلے تو انہوں نے ایک عورت کو اپنے شوہر کی جدائی میں یہ شعر پڑھتے سنا۔
تطاول ہذا اللیل واسود جابنہ
وارقنی الاخلیل اعیہ
یہ رات لمبی ہو رہی ہے اور اس کے افق تاریک ہیں ۔ اس نے مجھے سونے نہیں دیا ساتھی ہوتا تو میں اٹھکیلیاں کرتی ۔
فواللہ لولا اللہ انی اراقبہ لحرک من ہذا السریر جوانبہ
بخدا اگر مجھے اللہ تعالیٰ کا ڈر نہ ہوتا تو اس چارپائی کے چاروں بازو چیخ رہے ہوتے
فسأل عمر ابنۃہ حفصۃ رضی اللہ عنہما کم اکثر ما تصبرالمرأۃ عن زوجہا ؟ فقالت ستۃ اشہر واربعۃ اشہر فقال عمر لااجس احدا من الجیاش اکثر من ذالک
صبح کو حضرت عمرؓ نے اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ ایک عورت کب تک اپنے جذبات پر قابو پا سکتی ہے تو انہوں نے فرمایا چھ ماہ یا چارماہ۔ تب حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اب میں کسی فوجی کو اس مدت سے زیادہ گھر سے غیر حاضر نہیں رہنے دوں گا چنانچہ عمرؓ نے عورتوں کے ان جذبات کو مدنظر رکھ کر مفقود کی بیوی کی عدت و مدت انتظار صرف چار سال اور چارماہ دس دن مقرر فرمائی تھی چنانچہ موطاء امام مالک میں ہے۔
مالک عن یحییٰ بن سعید عن سعید بن المسیب ان عمر بن الخطاب قال ایتما امرأۃٍ فقدت زوجہا فلم یدر این ہو فانہا تنظر اربع سنین ثم تعتد اربعۃ اشہر و عشرأ ثم تحل ص ۳۰۹ باب عدۃ التی تفقد زوجہا۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جس عورت کا شوہر گم ہوجائے اور اس کا کچھ پتہ نہ چلے تو وہ عورت چار سال انتظار کے بعد مزید چار ماہ دس دن کی عدت گزار کر نیا نکاح کر سکتی ہے اب فتاوی عالمگیری ملاحظہ فرمائیں ۔
نوے سال عدت
۸۹:- لایفرق بینہ وبین امرآتہٖ وحکم بموتہٖ بمضی نسعین سنۃ وعلیہ الفتوی ص۳۰۰ ج۲
مفقود اور اس کی جورو کے درمیان تفریق نہ کی جائیگی اور جب نوے برس گزر جاویں تو اس کی موت کا حکم دیا جاوے گا اور اسی پر فتویٰ ہے ص ۶۵۴ج۲
مگر اس فتویٰ پر اعتبار نہیں بلکہ ایک دوسرا فتویٰ یہ ہے۔
۹۰:- وفی ظاہر الرویۃ یقدر یموت اقرانہ فاذالم یبق احد من اقرانہد حیاحکم یموتہٖ ویعتبر موت اقرانہٖ فی اہل بلدہ کذافی الکافی ص ۳۰۰ ج۲
اور ظاہر روایت کے موافق ا س کے ہم جولی مرجائیں اور کوئی اس کے ہم جولیوں میں زندہ نہ رہے تو اس کی موت کا حکم دیا جائے گا۔ اور واضح ہو کہ اس کے شہر کے ہم جولیوں کی موت کا اعتبار ہوگا ص ۶۵۴ج۲
مگریہ بھی مختار نہیں بلکہ
۹۱:- والمختار انہ بغوض الی رائی الامام کذافیالیمین ص ۳۰۰ ج۲
اورمختار یہ ہے کہ یہ امر امام کی رائے کے سپر د ہے تبیین میں ہے ص ۶۵۴ج۳
پھر اس بے چاری پر عدت بھی ہے​
۹۲:- واذا حکم بموتہٖ اعتدت امرأتہ عدۃ الوفات من ذالک الوقت ص ۳۰۰ج۲
پھر جب اس کی موت کا حکم دیا جائے تو اس وقت سے اس کی جورو وفات کی عدت میں بیٹھے ص ۶۵۴ج۲
عقل وفکر کا فقدان
عرض: وہ بد نصیب عورت ان جارحانہ بلکہ صبر آزما فتووں کا ان الفاظ میں ماتم نہ کرے گی؟
میری خاک تک نہ لحد میں رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبارآتا
حنفی مسلک کی حامل یہ بدنصیب بی بی ۹۰ سال کی مدت مدید اور صبرآزما عرصہ اور انتظار بسیار تک کیا جوان ہی رہے گی؟اگر رہیں گے تو کیوں کر رہیں گے؟ کیا ایسا کوئی بندوبست کر لیاگیا ہے؟ اور ظاہر ہے کہ نہیں اور ہرگز نہیں اور نہ ہو سکتا ہے تو پھرہم علی وجہ البصیر کہتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ انسانی فطرت اور عقل سلیم نہ کبھی پہلے ان صبر آزما اورجارحانہ فتاوی کے حق میں تھی نہ ہے اور نہ ہوگی یہ الگ بات ہے کہ اسلام سے پہلے عورت کو انسانی سوسائٹی میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا اسے ایک ناگزیر برائی اور شیطان کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا ۔ مگر اسلام نے جہاں انسانوں کو دوسری پستیوں سے نکالاوہاں انسانی معاشرہ میں عورت کو بھی اس کا صحیح مقام عطا کیا ہے اور ظلم وحماقت کے ان تمام بندھنوں کو ایک ایک کرکے نہ صرف توڑا ہے بلکہ دوسرے الہامی مذاہب سے کہیں زیادہ عورت کے جائز اور فطری حقوق کی نگہداشت بھی کی ہے چنانچہ دنیا میں اب ایسی انجمنیں قائم ہو چکی ہیں جو عورت کے حقوق کی واپسی کی بات کرتی ہیں اگرچہ ان کا طریقہ غیر اسلامی ہی سہی تاہم یہ اسلام ہی کی برکت ہے اور ہمارے ملک میں بھی اپوا اور دوسرے ناموں کی ایک سے زیادہ تنظیمیں موجود ہیں اور ان سے مرعوب ہو کر ایک طرف تو قومی اسمبلی تک عورتوں کیلئے سیٹیں مخصوص ہو رہی ہیں اور دوسری طرف نام نہاد سواد اعظم کی طرف سے ان صبر آزما اور جارحانہ فتاوی کو بطور نظام مصطفی نافذ کرنے کا مطالبہ داغا جا رہا ہے جنہیں انسانی فطرت او عقل سلیم روز اول سے مسترد کرچکی ہے کیونکہ ان سے بجائے بناؤ کے الٹا بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے انسانی قوانین کی یہ بنیادی کمزوری ہے کہ ان سے سلجھاؤ کم اور الجھاؤ کچھ زیادہ ہی پیدا ہوا ہے اور اس پر پاکستان کی ۳۱ سالہ تاریخ شاہد ہے اورعیاں راچہ بیاں کی مصداق ہے چنانچہ یہ بات پاکستان کے مفاد میں ہے کہ بلا کسی تاخیر او بلا کسی مصلحت کے وہی اسلام نافذ کر دیا جائے جو آج سے چودہ سوبرس پہلے جناب ختمی رسالت رحمۃ اللعالمین ﷺ نے عربوں کے بدو معاشرہ میں نافذ فرمایا تھا
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رندبادہ خوار اچھا
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
کتاب الحدود
الباب الثانی الزنا ص ۱۴۳ ج ۲ مکتبہ ماجدیہ طوغی روڈ کوئٹہ
تہتر قسم کے زنا پر حد کی چھوٹ
زنا کی شناعت:- زنا نہ صرف مسلم معاشرہ کیلئے مزمن ناسور اور تباہ کن وباء ہے بلکہ یہ پوری انسانی سوسائٹی کے لئے سم ہلاہل اور زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے چونکہ اسلام دین فطر ت ہے فطرت جہاں دوسری جملہ معاشرتی برائیوں کا اباء کرتی ہے وہاں جنسی انارکیاور ہر قسم کے زنا کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہے۔ زنا خواہ کسی قسم کا ہو یعنی شبہ اورشبۃ الاشتباء کے قبیل سے ہو یا عام قسم کا زنا ہو مفت کا ہو یا روپوں کے عوض ہو ۔ بہر حال ناقابل برداشت جرم اور گناہ کبیرہ ہے اورزانی مستوجب حد شرعی ہے یعنی عاقل بالغ آزاد مرد ہو یا عورت عام آدمی ہو یا بادشاہ ہو ، صاحب زباں ہو یا گونگا ہو اس کیلئے اپنے اعتراف یا شرعی شہادت کی موجودگی میں اس پر حد لگائی جائے گی پھر اگر وہ شادی شدہ ہو تو اسے عوام الناس کے روبرو پوری بے دردی کے ساتھ رجم کیا جائے گا ورنہ اسے سو کوڑے مارے جائیں گے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔
الزانیۃ والزانی فاجلدو اکل واحد منہا مائۃ جلدۃ ولا تأخذکم بہمارأ فۃ فی دین اللہ ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر ولیشہد مذابہما طائفۃ من المومنین آیت ۲ سورت نور
ترجمہ:- زانی اور زانیہ ہر ایک کو سو سو درے مارو۔ اور اللہ کا حکم جاری کرنے میں تم ان پر کسی طرح کا ترس نہ کرو ۔ اگر تم اللہ پر اور پچھلے دن پرایمان ہے اور ان کی سزا کے وقت مسمانوں کی ایک جماعت حاضر رہے۔
اور رجم کا ثبوت یہ ہے۔
عن ابن عباس قال قال عمر لقد خشیت ان یطول بالناس زمن حتی یقو قائل لانجد فی کتاب اللہ فیضلو ابترک و فریضۃ انزلہا اللہ الا ان الرجم حق علی من زنی وقد احصن اذ لقامت اوکان الحبل والاعتراف قال سفیان کذا حفظت الاوقدورجم رسول اللہ ﷺ ورجمنا بعدہ صحیح بخاری ص ۱۰۰۸ ج ۲باب الاعتراف الزنی کتاب الحدود
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ آنے والے زمانہ میں کوئی یہ نہ کہنے لگ جائے کہ قرآن مجید میں رجم کا ثبوت موجود نہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ فریضہ کو ترک کرکے کہیں لوگ گمراہ نہ ہو جائیں خبردار شادی شدہ زانی کو رجم کرنا حق ہے جب گواہی موجود ہو یا حمل سے زنا کا ثبوت فراہم کرے یا زانی خود اعتراف کرے خبردار آگاہ رہو جناب رسول اللہﷺ نے (شادی شدہ زانی کو) خود رجم کیا تھا اور پھر آپﷺ کے بعدہم سے بھی رجم کیا ہے اب ان تصریحات کے بعد کڑاجی کرکے اپنے محبوب فتاوی عالمگیری کا مطالعہ کیجئے اور ۷۰ قسم کی زنا پر حد کی چھوٹ سے خود استفادہ فرمائیے ورنہ ان فتاویٰ سے دست برداری اور بیزاری کا اعلان فرمائیے کیونکہ ایمان و دیانت اور انصاف و شرافت کا یہی تقاضہ ہے مگر
ہم جانتے ہیں تم کو ، تمہاری زباں کو
وعدوں ہی میں گزار و گے موسم بہار کو​

نام نہاد جاہل زانی کو حد کی چھوٹ​
۹۳: وشرطہ العلم بالتحریم حتی لو لم یعلم بالحرمۃ لم یجب الحد الشبہۃ کذا فی المحیط اللسرخی ص ۱۴۳ ج ۲
اور زنا پر حد کی شرط یہ ہے کہ تحریم سے واقف ہو حتی کہ اگر ا نے تحریم (حرمت زنا) کو نہ جانا تو بسبب شبہ واقع ہونے کے حد قائم نہ کی جائے گی یہ محیط سرخسی میں ہے ص ۲۲۰ ج۱
عرض: بتائیے کون کہے گا ، آبیل مجھے مار نیز وہ شخص جسے زنا کے حرام ہونے کا علم نہیں کیا وہ بھی مسلمان ہوگا؟
گونگے زانی کو حد کی چھوٹ
۹۴: ولابدان یکون الاقرار صریحاً ولا یظہر کذبہ فلا یجد لاخرس ولو اقربکتابہ واشارۃٖ ص ۱۴۳ ج ۲
اور ضرور ہے کہ اقراء صریح ہو اور اس کا کذاب ظاہر نہ ہو پس گونگے کو اقرار پر حد نہ ماری جائے گی ۔ اگر اس نے اپنی تحریر سے ذریعہ یا اشارہ سے اقرار کیا ص ۳۲۱ ج ۳
گونگے زانی کے خلاف گواہی بھی قبول نہیں
۹۵ وکذا لاتقبل الشہادۃ علیہ لا حتمال ان یدعی شبہۃ ص ۱۴۳ ج۲
اور اسی طرح اس پر گواہی بھی قبول نہ ہوگی اس واسطے کہ شاید وہ شبہ کا مدعی ہو ص ۳۲۱ ج ۲
گونگی عورت سے زنا کرنے والے کو حد کی چھوٹ
۹۶: ولو اقرانہ زنی بخرسآء ص ۱۴۳ج۲
اگرمرد نے اقرار کی کہ میں نے گونگی عورت سے زنا کیا ۔ ص ۲۲۲ ج ۳
اوہی اقرت باخرس لاحد علی کل واحد منہما کذافی فتح القدیر ص ۱۴۳
یا عورت نے اقرار کیا کہ میں نے گونگے مرد سے زنا کیا تو دونوں میں سے کسی پر حد واجب نہ ہوگی ص ۳۲۲ ج ۳ ما شا اللہ وکالت ہو تو ایسی ہو۔
وضاحت : یعنی صاحب زبان آزاد مرد عاقل بالغ گونگی عورت سے زنا کرے تو گونگی عورت کے طفیل اس مرد کو بھی حد جاری نہ ہوگی اوراگر عاقلہ بالغہ آزاد عورت گونگے مرد سے منہ کالا کرے تو بھی ان دونوں پر حد نہ ہوگی گونگے حنفیو! مزے آڑاؤ !
عرض: کیا جنسی مریض کو گونگی عورت اور جنسی مریضہ کو گونگا عاشق نہ مل سکے گا؟

زانیہ کے انکار سے دونوں پر حد نہیں​
۹۸: لو اقربالزنا فکذبتہ ص ۱۴۳ ج ۲
زانی کے انکار سے دونوں پر حد واجب نہیں
۹۹: اوہی فکذابہا فلا حد علیہا عندالام کذافی النہر الفائق ص ۱۴۳ ج۲ آخری سطور
یعنی اگر مرد نے زنا کا اقرار کیا اور عورت نے جس کے ساتھ اس فعل کا اقرار کرتا ہے انکار کیا یا عورت نے اقرار کیا اور مرد نے انکار کیا تو امام رحمہ اللہ کے نزدیک دونوں (عاشقوں ) میں سے کسی پرحد واجب نہ ہوگی یہ نہر الفائق میں ہے ص ۳۲۲ ج۳
عرض: تو بتائیے ایسی صورت حال میں کون ناجائز فائدہ نہ اٹھائے گا؟ نیز کیا حضرت عویمر عجلانی اور حضرت ماعزاسلمی رضی اللہ عنہما حد کھانے کیلئے اپنے زنا کے ثبوت میں اپنی اپنی مزنیہ کو بھی ساتھ لائے تھے کیا رسو ل اللہﷺ نے ان دونوں پر زنا کی حد نافذ کرنے سے پہلے ان دونوں عورتوں سے اقرار زنا کروالیا تھا ۔ا گر کوئی سند ہو تو ہمیں بھی آگاہ فرمادیں ۔
چار قسم کی عورتوں پر زنا زنا نہیں
۱۰۰/۱۰۱/۱۰۲/۱۰۳ وکذا اذا وطی الرجل جاریۃ ابنہد وجاویۃ مکاتبہٖ او جاریۃ عبدہٖ الماذن المدیون او الجاریۃ من المغنم بعد الا حواز فی دارالاسلام فی حق الفازی لا یکون زنا الشبہۃ ملک الیمین ص ۱۴۳ ج ۲
اسی طرح اگر مرد نے اپنے پسر یا مکاتب باندی یا اپنے غلام ماذون مدیون کی باندی سے وطی کی یا جہاد میں لوٹ کی باندی سے بعد دارالاسلام میں احراز کرنے کے غازی نے وطی کی تو (ان چاروں صورتوں میں ) زنا نہ ہوگا کیونکہ شبہ ملک یمین ہے ص ۳۲۰ ج ۳ لہذا حد بھی غائب ۔
۱۰۲:- کذا اذا وطی امرأۃ تزوجہا بغیر شہود وامۃ تزوجہا بغیر اذن مولاہا ص ۱۴۳ ج ۲
اور اسی طرح اگر ایسی عورت سے وطی کی جس سے بغیر گواہوں کے نکاح کیا ہے یا ایسی باندی سے وطی کی جس سے بدون اجازت اس کے مولیٰ (مالک) کے نکاح کیا ہے ۔ یعنی باندی نے اپنے مولا سے اجازت نہیں لی تھی ص ۳۲۰ ج۳
وضاحت : ۔ یعنی یہ دونوں قسم کی وطی بھی زنا نہیں ہے اور نہ اس پر حد واجب ہوتی ہے شاید ان چھ اقسام کے زنا میں جماع کا لطف موجود نہ ہو؟
بے حسی کاشاہکار​
۱۰۶: وکذا اذا وطی الابن جاریۃ ابیہ علی انہا تجل لہ بشہہ ولاشتہاہ فکذا فی النہایۃ ص ۱۴۳ ج۲
اسی طرح اگر بیٹے نے اپنے باپ کی باندی سے اس شبہ میں وطی کی کہ میرے واسطے حلال ہے تو زنا نہیں کیونکہ یہ شبہ اشتباہ ہے ص ۲۲۰ ج۲ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ونعوذ باللہ منی وسواس الشیطن الرجیم
خزاں کے ہاتھ سے گلشن میں خار تک نہ رہا
بہار کیسی نشان بہار تک نہ رہا
فائدہ:۔ واضح رہے کہ یہ فتویٰ محض احتمالی اور انشائی ہی نہیں بلکہ بقول امام عبدالرحمن سیوطی رحمہ اللہ اس پر عمل درآمد کی شیر داد بھی موجود ہے ۔
اخرج السلفی فی الطیوریات بسندہ عن ابن المبارک قال لما افضت الخلافۃ الی الرشید وقعت فی نفسہ جاریۃ من جواری المہدی فرودھا من نفسہا فقالت : لا اصلح لک ان اباک قد طاف بی فشفف بہا فارسل الی ابی یوسف فسئالہ اعندل فی ہذ شئ ؟ فقال یا امیر المومنین اوکلہا اوعت امۃ شیئا اینبغی ان تصدق لاتعبد قہا فانہا لیست بما مونۃ قال ابن المبارک فلم ادرعمن اعجب من ہذا الذی قد وضع یدہ فی دمأ المسلمین واموالہ ویتحرج من حرمۃ ابیہ او من ہذاہ الامۃ التی رغبت نفسہا عن امیر المومنین اومن ہذا فقیہ الارض وقاضیہا ! قال : اتک حرمۃ ابیک وفض سہر تک وصیرہ فی رقبتی تاریخ الخلفا سیوطی ص ۱۹۲ با بنذمن اخبارالرشید الہارون
اس پوری عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہارون رشید حریم اقتدار ہوا تو اس نے ایک لونڈی کو اپنے فراش پر بلایاتو اس لونڈی نے کہا کہ چونکہ میں تیرے باپ مہدی کے تصرف میں رہ چکی ہوں اس لئے میں تیری ماں کے قائم مقام ہوں ۔ تب ہارون نے شرعی جواز کے لئے قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ علیہ کو بلایا اور سند جواز کی فرمائش کی تو قاضی ابو یوسف نے فرمایا کہ اس لونڈی کی بات قابل تصدیق نہیں جب حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو اس کھلی دھاندلی کا علم ہوا۔ تو انہوں نے فرمایا میں تعجب کروں تو کس پر کروں ؟ ہارون پر تعجب کروں جو اپنی رنگ رلیوں کے جواز کے لئے آج مفتی کی ضرورت محسوس کرنے لگا ہے جس نے مسلمانوں کے جان ومال کو اپنے لئے مباح سمجھ رکھا ہے یا اس لونڈی کے تدین اور تقوی کو سلام کروں جس نے اپنی عصمت وعفت کے تحفظ میں دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کی ناجائز فرمائش کو سنجیدگی کے ساتھ ٹھکرا دیا ہے یا پھرفقیہ ارض اور چیف جسٹس ابو یوسف کی فقاہت پرسر پیٹوں جو بیٹے کیلئے اس کے باپ کی مستعملہ لونڈی سے ناجائز تصر ف کا فتوی دے رہا ہے اور اس پر مستزادیہ کہ اس عظیم شناعت کی ذمہ داری بھی قبول کر رہا ہے۔
ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
چار گواہوں شہادت کے باوجود حد کی چھوٹ
۱۰۷:- ان شہد اربعۃ رجل بالزنا فأقرمرۃً … وعند ابی یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ لا یحد وہو الاصح کذافی الکافی ص ۱۴۴ج۲
اگر چار گواہوں نے ایک شخص پر زنا کرنے کی گواہی دی پس اس نے ایک مرتبہ اقر ار کر لیا… تو امام ابو یوسف کے نزدیک حد نہ ماری جائے گی۔ ص ۳۲۲ ج۳
۱۰۸:- ہذا اذا کان لاقرار بعد التضآ اذاکان قبل القضآء فیسقط العداتفاقاً ہکذا فی فتح القدیر ص ۱۴۴ج۲
اور یہ (اختلاف) اس وقت ہے کہ اس نے جو قضا کے اقرارکیا ہو اور اگر قبل قضا کے اقرار کیا تو بالاتفاق حد ساقط ہوجائے گی یہ فتح القدیر میں ص ۳۲۳ ج۳
وضاحت : یعنی چار گواہوں کی شہادت کے باوجود اگر زانی صرف ایک بار اقرار کرے تو بالاتفاق حنفیہ کے نزدیک اس پر حد واجب نہ ہوگی بشرطیکہ ابھی تک عدالت نے اپنا فیصلہ نہ سنایا ہو اوراگرچار گواہوں کی شہادت پر عدالت کے فیصلہ کے بعد یہ صورت ہو تو امام ابو یوسف کے نزدیک تب بھی اس زانی پر حد واجب نہ ہوگی اور یہی اصح ہے۔

شہادت اور اقرار کے بعد انکا ر پر حد کی چھوٹ​
۱۰۹ : اربعۃ شہدوا علی رجل بالزنا فاقر الرجل بعد شہادتہم ثم انکرو ولم یقراربع مرابت لا حد عیہ کذا فی فتاوی قاضی خان ص ۱۴۴ ج۲
چار گواہوں نے ایک شخص پر زنا کی گواہی دی پھر اس شخص نے بعد ان کی گواہی کے اقرار کیا پھر انکار کر گیا اور چار مرتبہ اس نے اقرار نہیں کیا تو اس پر حد واجب نہ ہوگی ص ۳۲۲ ج۲
عرض : آخر حد کب اور کس پر واقع ہوگی؟
پاگل جوان سے زنا کرنے والی کو حد کی چھوٹ
۱۱۰: ولو اقرت انہا زبت بمجنون ص ۱۴۴ج۲
بچے کے ساتھ زنا کرنے والی کو چھوٹ
۱۱۱: اوصبی فلاحد علیہا ص ۱۴۴ ج۲
ان عبارتوں کا ترجمہ یہ ہے :’’ اگر عورت نے اقرار کیا کہ میں نے پاگل یا طفل سے زنا کیا ہے تو اس پر حدواجب نہ ہوگی ص ۳۲۳ ج۳
عرض :- پاگل اور بچے کی حد کی چھوٹ تو سمجھ میں آتی ہے مگر ایسی فاحشہ اور زانیہ عورت کو حد کی چھوٹ کا کیا جواز ہے؟ کیا یہ چھوٹ ایسی عورت کو گناہ کا چسکا نہ ڈالے گی؟ نیز اس طرح بچے اور پاگل زنا کرنے کے عادی نہ ہو جائیں گے؟
حد کی چھوٹ کی ایک معصوم عورت
۱۱۲: قال محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی الجامع الصغیر رجل اقراربع امرات انہ زنا بغلا نۃٍ وفلا نہ تقول تزوجنی ص ۱۴۵ ج۲
امام محمد نے جامع صغیر میں فرمایا ہے کہ ایک مرد نے چار مرتبہ اقرار کیا کہ میں نے فلاں عورت سے زنا کیا اورفلانہ کہتی ہے کہ اس نے مجھ سے نکاح کیا ہے (تو دونوں پر حد واجب نہ ہوگی ) ص ۳۲۴ ج۳
۱۱۳: اواقرت المرأۃ بالزنا بفلان ٍ اربع مراتٍ وفلان یقول تزوجتہا فلا حد علی واحد منہما وعلیہ المہرکذ افی المحیط ص ۱۴۴ -۱۴۵ ج۲
یا عورت نے چار مرتبہ اقرار کیا کہ میں نے فلاں مرد سے زنا کیا ہے اور فلاں کہتا ہے کہ میں نے اس سے نکاح کیا تو دونوں میں سے کسی پر حد واجب نہ ہوگی اور مرد پر اس کا مہر لازم آوے گا ۔یہ محیط میں ہے ص ۳۲۴ ج۳
آزاد عورت سے زنا پر حد کی چھوٹ
۱۱۴: واذا اعتق امتہ وہو یطؤ ہاثم نزع وعاد فی ذالک المجلس لا یجد کذافی خزانہۃ المفتین ص ۱۴۸ ج۲
اگر اپنی باندی کو جس سے وطی کر رہا تھا اسی حالت میں آزاد کر دیا پھراس سے جدا ہوگیا پھر اس مجلس میں اس سے وطی کر لی تو ا س کو حد نہ ماری جائے گی ص ۲۳۳ ج۳
عرض : فتاوی عالمگیری کو مستند ماننے والوں سے بصد ادب عرض ہے کہ وہ اس چھوٹ کی عقلی اور نقلی کوئی دلیل بیان فرماویں ورنہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس قسم کے غلط فتاوی کی حمایت سے توبہ نامہ شائع فرماویں ۔
مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
مسئلہ : ماں ۔ بہن اور دوسری محرمات ابدیہ سے نکاح بہرحال حرام ہے قرآن مجید میں ہے
حرمت علیکم امہاتکم و بناتکم و اخواتکم وعمّٰتکم وخٰلٰتکم وبنات الخ وبنات الاخت ومہاتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ وامہات نسائکم وربائبکم التی فی حجورکم من نسائکم التی دخلتم بہن الخ پارہ ۴ آخری آیت
ترجمہ : تمہاری مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، پھوپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں ، دودھ کی مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ، تمہاری دودھ کی بہنیں ، تمہاری ساسسیں اور تمہاری مدخولہ بیویوں کی پچھلی لڑکیاں جو تمہاری پرورش میں ہوں یہ سب تم پر حرام ہیں ۔
حدیث عن البرآء بن عاذب قال مربی خالی ابو ہردۃ رمعہ لواء فقلت این تذہب فقال بعثنی النبیﷺ الی رجل تزوج امرأۃ ابیہٖ آتیہٖ براسہٖ ترمذی ابوداؤد۔
برابن عاربؓ سے مروی ہے کہ میرے ماموں ابور بردہ بن دینار میرے پاس سے گزرے ان کے ساتھ نشان تھا میں نے پوچھا کہاں کا عزم ہے کہنے لگے رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک ایسے آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کر رکھا ہے آپﷺ کا حکم ہے کہ اس کا سر لے آؤں ان نصوص قطعیہ کو ذہن میں رکھ کرفتاوی عالمگیری کی فقہی ترانیاں پڑھئے اورپورے زور و شور سے مادر وطن میں اس کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیجئے
محرمات ابدیہ سے نکاح کے بعد حد کی چھوٹ​
۱۱۵: فان العقد اذا وجد لاکان او حراماً متفقا علی تحریمہٖ و مختلفا فیہ علم الواطی انہ محرم اولم یعلم لا یحد عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ ص ۱۴۷ ج۲
کہ جب عقد پایاگیا خواہ حلال ہو یا حرام ہو خواہ ایسا حرام کہ اسکی تحریم پر اتفاق ہے یا اس میں اختلاف ہے خووطی کنندہ حرام ہونے کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو بہر حال امام اعظم کے نزدیک اس کو حد نہ ماری جائے گی ص ۳۳۲ ج ۲
وضاحت : تمام محرمات ابدیہ یعنی جن سے کبھی نکاح نہیں ہو سکتا جیسے ماں ، بہن ، بھانجی ، بھتتیجی، خالہ، پھوپھی، دادی، نانی، رضاعی ماں ، رضاعی بہن، اور رضاعی بھانجی وغیرہ سے اگر کو بد طنیت اوربے غیرت نکا ح کرکے اپنا منہ کالاکرے تو فتاوی عالمگیری کے مطابق معاذ اللہ ثم معاذ اللہ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ ایسے متقی اور متروع کے نزدیک اسے حد نہ ماری جائے گی ۔ نعوذ باللہ من ہذا لافتر العظیم
میرا یہ ایما ن ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس افتراء سے قطعا بری ہیں یہ ان پر بہتان ہے اس لئے ہم بلا خوف تردید کہتے ہیں
حرف بھی،نقش بھی، شکل بھی، عقل بھی
کون سی چیز اپنی ادھاری نہیں
عرض : ان شرعی غیر منطقی ، نافہم ، ناقابل عمل اور ناقابل اور اسلامی معاشرہ میں انارکی پیدا کرنے والی ان حیار سوز ذہنی موشگافیوں کو کتاب وسنت کا نعم البدل باور کرکے پاکستان کا دستور بنا لینا کیا اللہ تعالیٰ اور جناب رسول اللہﷺ سے مذاق نہ ہوگا ؟ نیز کیا اس کے نفاذ سے اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہو سکے گی؟ مگر بزرگو
سنبھلتا نہیں جن سے اپنا ڈوپٹہ
سنبھالیں گے کیا وہ کلیجہ کسی کا ؟
زنا کی اس قسم پر بھی حد نہیں​
۱۱۶ : ان ادعی احدہما الظن ولم یدع الآخر فالک لم یحد احتی یقرا انہما علما بالحرمۃ کذافی الکافی ص ۱۴۸ ج۲
اگر دونوں میں سے ایک نے گمان کا دعویٰ کیا اور دوسرے نے دعویٰ نہ کیا تو دونوں کو حد نہ ماری جائے گی جب تک کہ دونوں اس کا اقرار نہ کریں کہ ہم حرمت سے واقف نہ تھے ص ۳۳۲ و ص ۳۳۳ ج۳ شبہ فی الفعل کی مثال ہے
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
شبہ در محل میں حد نہیں
۱۱۸/۱۱۷ والشبہۃ فی المحل فی وطہء امۃ سواء کان ولدہ حیا اور میتا ہکذا فی العتابیۃ ص ۱۴۸ ج ۲
شبہ در محل کی یہ صورتیں کہ اپنے بیٹے کی باندی یا پوتے کی باندی سے وطی کی خواہ اس کا بیٹا زندہ ہو یا مر گیا ہو ص ۳۳۳ ج۳ (تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ) یعنی ان صورتوں میں حد نہیں ۔
۱۱۹/۱۲۰: وفی وطہء المعتدۃ بالکنایک ووطء لامۃ المبیعۃ فی حق الباع قبل التسلیم کذافی الکافی ص ۱۴۸ ج۲
ایسی جورو سے وطی کی جس پر بکنایہ طلاق واقع ہو ئی ہے یا بالغ نے قبل سپرد کرنے کے مبیعہ باندی سے وطی کی ص ۳۳۳ ج۳ یعنی اس قسم کے زنا پر بھی حد نہیں
۱۲۱ تا ۱۲۴ ولوارتدت المرأۃ والعیاذ باللہ وحرمت علیہ جامعی وقال عملت انہا علی حرام لا حد علیہ ص ۱۴۸ ج۲
اور اگر جورو مرتد ہوگئی نعود باللہ منہا او ر شوہر پر حرام ہوگئی یا بدیں وجہ حرام ہو گئی کہ شوہر نے اس کی ماں یا بیٹی سے وطی کر لی یا بدیں وجہ کہ عورت نے شوہر کے پسر کی مطاوعت کی پھر شوہر نے اس سے جماع کیا اور کہا کہ میں جانتا تھا کہ وہ مجھ پر حرام ہوگئی ہے تو اس پر حد واجب نہ ہوگی ص ۳۳۴ ج ۳
عرض
تیر پہ تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے میر ی جان جگر کس کا ہے؟
زانیوں سے ہمدردی کے پانچ نمونے

۱۲۵ تا ۱۲۹ وکذا تزوج خمسا فی عقدہ او تزوج الخامسۃ فی نکاح الاربع اوتزوج باخت امرأتہ او بامہا فعما وقال علمت انہا علی حرام او تزوجہا متعۃ لا یجب الحد فی ہذا الوجوہ وان قال علمت انہا ہلی حرام کذا فی فتاوی قاضی خان ص ۱۴۸ ج۲

اور اسی طرح اگر پانچ عورتوں سے ایک عقد میں نکاح کیا یا چار کے نکاح میں پانچویں کا نکاح کیا یا اپنی جورو کی بہن یا ماں سے نکاح کیا پس اس سے جماع کیا اور کہا کہ میں جانتا تھا کہ یہ مجھ پر حرام ہے یا عورت سے بطور متعہ تزوج (نکاح) کیا تو ان (پانچ) صورتوں میں وطی کنندہ پر حد واجب نہ ہوگی اگرچہ اس نے کہا کہ میں جانتا تھا کہ وہ مجھ پر حرا م ہے یہ قاضی خاں میں ہے ص ۳۳۴ ج ۳
وضاحت : زانیوں کی ہمدردی کے نشہ میں قرآن مجید کی نص جلی وان تجمعو بین الاختین وامہات نساء کم کا بھی خون کردیا گیا ہے تعاون ہو تو ایسا ہو ہمدردی ہو تو ایسی ہو اور پھر اسی پر اکتفا نہیں بلکہ بے شمار صحیح احادیث کو پس پشت ڈال کر متعہ کرنے والے سے حد زنا ساقط کرکے شریف زانیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے گویا شیعی بھائیوں سے کہا جا رہا ہے
کون کہتا ہے ہم تم میں جدائی ہوگی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی​
الٹے بانس بریلی کو
کیا یہ طرف تماشہ نہیں کہ جب کتاب وسنت کی حمایت میں ایسی غیر معقول ، غیر منطقی ، ناقابل فہم ، ناقابل عمل، ناقابل ذکر جنسی انارکی کو انگیخت کرنے والی چھوٹوں کے خلا ف احتجاج کیا جاتا ہے تو فتاوی عالمگیری کے شیدائی اپنی عددی کثرت کے نشہ میں ہوش کے جواب میں جوش منطق کے حجاب میں فریب خردگی اور زانت کے جواب میں بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہل حدیث کے نزدیک چار سے زیادہ عورتوں سے بیک وقت نکاح جائز ہے جو کہ صریح جھوٹ اور نرا بہتان ہے ۔ ما یکون لنا ان نتتکلم بہذا سبحانک ہذابہتان عظیم ۔ اہل حدیث کا یہ مذہب
نہ کبھی پہلے تھا نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا۔
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
مگر تیرے عہد سے پہلے یہ دستور نہ تھا
اعلان واجب اذغان
خدا کے فضل سے اپنی تمام کمزوریوں کے باوصف قرآن مجید کی کسی نص یا کسی حدیث صحیح کی ہم نے کبھی تاویل کی ہے اور نہ کبھی اس کے خلاف فتوی داغنے کی ناپاک جسارت کی ہے کیونکہ مذہب اہل حدیث علماء کی قیل اور آراء رجال سے بحمد اللہ بالکل پاک اور منزلہ ہے اور
مذہب اہل حدیث اس کو کہتے ہیں
اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن!
پس حدیث مصطفیٰ برجان مسلم داشتن​
اگر کسی تقلیدی لمیٹڈ کمپنی کی چھاپ سے محفوظ اور ما نا علیہ واصحابی والا ٹھیٹھ اسلام کسی کو راس نہیں آرہا توا س میں ہمارا کیا گنا ہ ہے جس کی ہمیں سزا دی جارہی ہے۔
مکش بہ تیغ ستم والہان ملت را
نہ کردہ اند بجز پاس حق گناہِ دگر
اگر پاس حق کوئی گناہ ہے تو ہم نہ صرف اس گناہ سے باز آنے کے نہیں بلکہ آپ کو بھی اس گناہ کی دعوت دیتے ہیں
اگر نہیں ہے جستجو ئے حق کا تجھ میں ذوق و شوق
امتی کہلا کے پیمبر کو تو رسوا نہ کر !
ہے فقط توحید و سنت امن وراحت کا طریق
فتنہ جنگ و جدل تقلید سے پیدا نہ کر
کرائے کی عورت سے زنا پر حد نہیں​
۱۲۹/۱۳۰/۱۳۱ استاجر امرأۃ لیزنی بہا اولیطأ اوقال خذی ہذا الدراہم لا طال اوقال مکنینی بکذا فنعلت لم یحد ص ۱۴۹ ج۲
اگر ایک عورت کو اجارہ (کرایہ) پر لیا تا کہ اس سے زنا کرے یا یہ کہا کہ تو یہ ۱۳۰دراہم لے تا کہ تجھ سے وطی کروں یا کہا کہ تو مجھے اپنے اوپر اس قدر درہموں کے عوض قابو دے پس عورت نے منظور کیا اور ایسا واقعہ ہوا تو اس کو حد نہ ما ری جائے گی ص ۳۳۵ ج۳
وضاحت معلوم ہوا بازار گناہ کی رونقیں فتاوی عالمگیری ہی کی رہین منت ہیں
متعہ کی حرمت مشتبہ ہے
۱۳۲: بخلاف ما اذا قال خذی ہذہ الداراہم لا تمتع بک لان المتعۃ کانت سبب الاباحۃ فی لالبتدآء قبقیت الشہۃ کذا فی التمر تاشی ص ۱۴۹ ج۱

بخلاف اس کے اگر یوں کہا کہ یہ دراہم لے تاکہ میں تجھ سے تمتع حاصل کروں تو یہ حکم (یعنی حد) نہیں اس واسطے کہ متعہ ابتدائے اسلام میں سبب اباعت تھا پس شبہ باقی رہا یہ تمر تاشی میں ہے ۳۳۵ ج۳
زنا کی خرچی دینے سے حد کی چھوٹ​
۱۳۳ : لو قال امہر تک کذا لا زنی بک لم یجب الحد کذا فی الکافی ص ۱۴۹ ج۲
اگر کہا کہ میں نے تجھے ا س قدر مہردیا تاکہ تجھ سے زنا کروں تو حد واجب نہ ہوگی ص ۳۳۵ ج۳

دارالحرب میں زنا پر حد کی چھوٹ​
۱۳۴/۱۳۵ من زنی فی دارالحرب اوفی دارالبغیٰ ثم خرج الینا لا یقام علیہ الحد کذا فی الہدیۃ ص ۱۴۹ ج۲
جس نے دارالحرب یا دارالبغیٰ میں زنا کیا پھروہ ہمارے یہاں آگیا تو ا س پر حد جاری نہ ہوگی یہ ہدایہ میں ہے ص ۳۳۶ ج ۳
مسلمان عورت جب مستامن کو قابو دے تو حد نہیں​
۱۳۶ ولو مکنت مسلمۃ اور زمیۃ من مستامن… وعند محمد رحمۃ اللہ لا حد علی واحد ص ۱۴۹ ج۲
اگر مسلمان یا زمیہ عورت نے حربی مستامن کو اپنے اوپر قابو دیا (تو) امام محمد کے نزدیک دونوں میں سے کسی پر حد نہ ہوگی ص ۳۳۷ج۳
بچپ اور پاگل کی وجہ سے حد نہیں​
۱۳۷/۱۳۸ اذا زنیٰ صبیٰ ومجنون یامرأۃٍ عاقلہٖ وہی مطاوعۃ فلاحد علی الصبی والمجنون بلاخلافٍ وہل تحدالمرأۃ فعلیٰ قول علما منا رحمہم اللہ تعالیٰ لا تحد ص ۱۴۹ وص ۱۵۰ج۲
بچی کے ساتھ منہ کالا کرنے پر حد کی چھوٹ
۱۴۹: واذزنیٰ بصبیۃٖ فلاحد علیہما وعلیہ المہر ص ۱۵۰ ج۲
اور اگر صغیرہ نابالغہ سے زنا کیا تو دونوں پر حد نہ ہوگی اور زانی پر اس کا مہر واجب ہوگا ص ۳۳۷ج۳
سوئے ہوئے مرد سے عورت زنا کرے تو حد کی چھوٹ
۱۴۰ : لو مکنت نفسہا من النائم لا یجب علیہا الحد ص ۱۵۰ ج۲
اگر سوئے ہوئے مرد سے عورت نے خود وطی کی اورا پنے نفس پرقابو دے دیا تو دونوں پر حد واجب نہ ہوگی ۔ یہ محیط میں ہیص ۳۳۷ ج۳
مردہ عورت سے زنا پر حد کی چھوٹ
[/CENTER]
۱۴۱: رجل زنا بامرأۃ میتۃ الختلفوا فیہ قال اہل المدینۃ بجد وقال اہل البصرۃ یعزر ولا یحد وقال الفقیہ ابو لیث رحمہ اللہ بہٖ ناخذ ص ۱۵۰ ج ۲
ایک مرد نے مردہ عورت سے زنا کیا تو اس میں اختلاف ہے اہل مدینہ نے فرمایا کہ اس پر حد جاری کی جائے گی اور اہل بصرہ نے فرمایا کہ حد نہ ہوگی بلکہ تعزیر دی جائے گی اور فقیہ ابو لیث نے فرمایا کہ ہم اسی (جگہ نہ ہونے) کو لیتے ہیں ص ۳۳۸ ج۳
مردے سے انتقام کیوں یہاں مردہ عورت سے منہ کالا کرنیوالے کو حد معاف کی جارہی ہے اور ادھر مردے کے کفن چور کی حد معاف کردی گئی ہے ۔ آخر بے چارے مردے سے یہ انتقام کس لئے؟ سچا ہے بھیا۔ مردے زندوں کے حوالے!
اجنییہ سے بد سلوکی کی حد کی چھوٹ​
۱۴۲ : ان وطئی اجنبۃً فیما دون الفرج لا یحد لعدم الزنا لیزر ص ۱۵۰ ج۲
اگر اجنییہ عورت سے فرج کے سوائے وطی کی تو حد جاری نہ ہوگی اس واسطے کہ یہ زنا نہیں مگر اس کو تعزیر دی جائے گی ص ۲۳۹ ج۳
عورت اور بچے سے غیر فطری فعل​
۱۴۳/۱۴۴ لو وطئی امرأۃ فی دبرہا اولا ط بغلام لم یجد عند ابی حنیفہ رحمہ اللہ ولیزر ص ۱۵۰ ج۲
اگر کسی عورت سے اس کے دبر میں وطی کی یا طفل سے لواطت کی توا مام اعظم کے نزدیک حد نہ ہوگی مگر اس کو تعزیر دی جائے گی۔ ص ۲۳۹ ج۲
۱۴۵/۱۴۶/۱۴۷/: لو قعل ہذا بعبد ہٖ وامتہٖ وبزوجتہٖ بنکاح صحیح او فاسد لا یجدا جماعاً ص ۱۵۰ ج۲
اگر ایسا امر (لواطت) اپنے غلام یا باندی یا جورو کے ساتھ کیا خواہ جورو سے نکاح صحیح ہو یا فاسد ہو تو بالاجماع (اجماع حنفیہ) اس پر حد واجب نہ ہو گی یہ کافی میں ہے ۔ص ۲۳۹ ج۳

بیٹے کی ام ولد سے باپ زنا کرے تو حد نہیں​
۱۴۸ : اذا وطی الرجل ام ولد ابنہٖ فقال علمت انہا علی حرام لاحد علیہ ص ۱۵۰ ج۲
اگر مرد نے پسر ام ولد سے وطی کی اور کہا کہ میں جانتا تھا کہ وہ مجھ پر حرام ہے تو اس پر حد واجب نہ ہوگی ص ۳۳۸ ج ۳
آزاد عورت کو خریدے تو؟​
۱۴۹: اذا زنیٰ بامرأۃٍ ثم قال اشتریتہا لاحد علیہ سوآء کانت مرۃً ولمۃ ص ۱۵۱ ج۲
اگر ایک عورت سے زنا کیا پھر کہا کہ میں اس کو خرید کر چکا تھا تو اس پر حد واجب نہ ہوگی یہ عورت آزاد ہو یا باندی ہو ص ۲۴۰ ج۳
عرض : کیا آزاد عورت کو خریدنا جائز ہے؟ من باع حرافا کل ثمنہ (صحیح بخاری) کہا گیا ؟

خیار کے باوجود زنا سے حد نہیں​
۱۵۰ : ولو باغ جاریۃً علی انہ بالغیار ووطئہا المشتری او کان الخیار للمشتری فوطہا البائع فانہ یا یحد علم بالحرمۃ اولم یعلم کذا فی فتاوی قاضی خان ص ۱۵۱ ج ۲
اگر بائع نے اپنے واسطے خیار کی شرط کرکے باندی فروخت کردی پس مشتری نے اس سے وطی کی یا خیار مشتری کا تھا اور بائع نے اس سے وطی کی تو اس پر حد جاری نہ کی جائے گی ص ۳۴۰ ج۳

چھینی ہو لونڈی سے زنا پر حد نہیں
۱۵۱: قال محمد فی الامل اذا غصب جاریۃً وزنی بہا ثم ضمن قیمتہا فلاحد علیہ عندہم جمیعاً ص ۱۵۱ ج ۲
امام محمد نے اصل میں فرمایا کہ اگر کسی نے باندی غصب کرکے اس سے زنا کیا پھر اس کی قیمت تاوان دے دی تو بالاتفاق اس پر حد نہ ہوگی ص ۳۴۰ ج۲

مالک کہے میں نے لونڈی نہیں بیچی تب بھی حد نہیں​
۱۵۲: واذا زنیٰ بامۃ ثم قال اشتریتہا صاحبہافیہا بالخیا ر وقال مولاہا کذب لم أبعہا قال لا حد علیہ ص ۱۵۱ ج۲
اور اگرباندی سے زنا کیا پھر دعویٰ کیا کہ میں نے اس کو خریدا بدیں شرط کہ اس کے مولیٰ کو خیار حاصل ہے ۔ اور اس کے مولیٰ نے کہا یہ جھوٹا ہے میں نے اس باندی کو فروخت نہیں کیا توفرمایا کہ وطی پر حد واجب نہ ہوگی ص ۳۴۰ ج۳
۱۵۲ : وکذالک لو قال اشتریتہا بوصف الی جل کذافی المیط ص ۱۵۱ ج۲
اور اسی طرح اگردعویٰ کیا کہ میں نے اس کو بوصف الی اجل خریدا یعنی کسی مدت کے وعدہ پرجس کو بیان کرتا ہے تو بھی یہی حکم (حد نہ ہونے کا) ہے یہ محیط میں ہے ص ۳۴۰ ج۲
عرض : زنا پر حد کی ان چھوٹوں کو بطور فقہی مسائل سمجھایا جارہا ہے یا پھر شہوت رانی اور جنسی تسکین کے گُر اور داؤ پیچ سکھلائے جا رہے ہیں جن کے استعمال سے نہ صرف عام زانی حد سے بچ جاتا ہے بلکہ اگر کوئی بے غیرت اور دیو ث ا پنی محرمات ابدہییعنی ماں ، بہن ، بیٹی، پوتی، پھوپھی، خالہ ، بھتیجی، بھانجی وغیرہ سے نکاح کرکے منہ کالا کر تو اس بر بھی حد واجب نہ ہوگی۔ الہم انا نعوذبک من شرور انفسان من سیات اعمالنا ولا حول ولا قوۃ الا باللہ کی یہی وہ کتاب ہے جسے کے نفاذ سے مایوس ہو کرجناب احمد سعید کاظمی صاحب حکومت اورقو م کو ان الفاظ میں کوس رہے ہیں ۔
’’ جس ملک کے رہنے والے نوے فیصد مسلمان حنفی عقیدہ رکھتے ہوں اورفقہ حنفی ان کا مذہب ہو وہاں ایسا طرزعمل (فتاوی عالمگری کو بطور اسلامی نام نافذ نہ کرنا) اختیار کیا جانا آزادی مذہب و تحفظ عقیدہ کے منافق نہیں ؟ ساری دنیا کی مسلم آبادی میں دو تہائی مسلمانوں کا مذہب فقہ حنفی اپنی جمامعیت اور دیگر محاسن کے اعتبار سے اعلی و امتیازی مقام رکھتی ہے ۔ دنیا کے ماہرین قانون فقہ حنفی کی برتری کو تسلیم کرتے ہیں​
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
تقلید شخصی کی تباہ کاریاں
(نواے وقت ۱۹ دسمبر ۱۹۷۸ء ملتا ن ایڈیشن)
جب ملک میں ہرشخض کو آزادی مذہب اورتحفظ عقیدہ کا حق حاصل ہے یا ہونا چاہیئے تو پھر اہل حدیث مکتب فکر سے یہ توقع کیوں کی جا رہی ہے کہ وہ مادر وطکن میں کتاب وست یعنی عربی پاشا ﷺ کے ٹھیٹھ اسلام کی بات سے دست بردار ہو جائیں
تجرم عشق تو میکشند و غوقائست!
تو نیر سربام آکہ خوش تماشائست
رہا یہ کہ ادعا ء کہ مسلم آبادی میں دو تہائی مسلمانوں کا مذہب حنفی ہے ہوفس اول تو یہ بات بجائے خود محل نظر ہے دوسرے یہ صحیح ہے تو گویا دوسرے الفاظ میں آپ نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ مسلمانو ں کو موجودہ انحطاط عالمگیر مسلم قیادت کا فقدان ہے بے حمیتی باہمی سر پھٹول اور انتشار عیاشی اورفحاشی مذہب سے گریز کن پالیسایاں اور الحاد فقہ حنفی ہی کے برگ و بار ہیں ۔ ورنہ یہ ایک ناقابل انکار مسلمہ حقیقت ہے کہ قرون اولی میں تقلید شخصی کے مہلک اور ناپاک جراثیم سے مسلم قو م جب تک محفوظ تھی اس وقت تک ہمارے خلفاء مغربی استعمار اور فرانس کے شہنشار شارلیمان کو یا ابن الکلب کے لقب سے آرڈر لکھا کرتے تھے۔

بادشاہ زنا کرلے تو حد نہیں
۱۵۴/۱۵۵/۱۵۶/۱۵۷ کل شئ صنعہ الام لیس فوقہ امام مما یجب بہٖ الحد کالزنا والسرقۃ والشراب والقدف لا جواخذ بہٖ الالقصاص و المال کذافی الکافی ص ۱۵۱ ج۲
اسے امام المسلمین نے جس کے اوپر امام نہیں (یعنی خلیفہ، بادشاہ، وزیر اعظم ، صدر ، ڈکٹیٹر) ہے اگر ایسی بات کی جس سے حد واجب ہوتی ہے جسے زنا ، سرقہ (چوری) شراب خوری وقذف (بے گناہ پر زنا کاالزام) تو اس سے مواخذہ نہیں کیا جائے گا سوائے قصاص و جرم مال کے یہ کافی ہے ص ۳۴۲ و ۳۴۲ ج۳
عرض : ہمیں یہ پرانا گلہ چلا آرہا ہے کہ فقہ حنفی اپنے روشن مستقبل کی خاطر نہ صرف شاہی درباروں کا طواف کرتی نظر آتی ہے بلکہ ان کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے ان کے غیر شرعی چونچلوں اور فنکشنوں کو سند جواز بھی مہیا کرتی ہے اگر کسی بزرگ کو ہمارے اس معقول گلہ پر گلہ ہوتو وہ تقلید شخصی کی عینک اتار کر مذکورہ بالا اقتباس کو دوبارہ پڑھنے کی زحمت گوارا فرمالیں کہ کس قدر دلیر اور جرات کی ساتھ مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں کو چوری، شراب خوری ، زنا اور زنا کی تہمت لگانے کی حدو سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے اگر اس قسم کی رعائتیں مسلمان حکمرانوں کو دے دی جائیں تو پھر خود بتائے کہ اس شاہ نوازی سے مسلم معاشرہ میں کون سی گرہیں نہ پڑھیں گی یاپھر اس اسلامی معاشرہ میں کون سی خیر و برکت ہوگی نیز کیا ہی مراعات
سیاسی رشوت ہیں یا نہیں ؟​
۱۵۸: ولو شہد تلاثۃ منہم علی الزناو الرابع قال رایتہما فی لحاف واحدٍ فنہا لا یحد المشہود علیہ ویعد اشہود الثلاثۃ حد لقذف والشاہد الرابع لا حد علیہ ص ۱۵۲ ج۲
پھر اگر زنا کے کیس میں تین گواہ یہ شہادت دیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مجرم کو جرم کرتے دیکھا ہے اور چوتھا یہ گواہی دے کہ اس نے ملزمین کو بستر میں ملغوف دیکھا تو حد کی سزا نافذ نہ ہوگی بلکہ اس کی بجائے پہلے تین گواہوں پر قذف کی سزا جو اسی کوڑے ہیں جاری کی جائے گی ۔ گویا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
۱۵۹: ون شہد وانہ زنی بامرأۃٍ لا یعرفونہا لم یحد کذافی الحدٰیۃ ص ۱۵۲ ج۲
اگر شاہد اس عورت کو نہیں پہچانتے جس کے ساتھ جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے تو کسی پر حد کی سزا نہ ہوگی۔
۱۶۰: فلو قال المشہود وعلیہ المرأۃ قالتی رائیتموہا معی لسیت زوجتی ولا امتی لم یحد ایضاً ص ۱۵۲ج ۲
اگر شاہد اس عورت کو نہیں پہچانتے تاہم زانی کہے کہ وہ عورت جس کو تم چاروں نے میرے ساتھ دیکھا ہے وہ نہ تو میری بیوی ہے اور نہ لونڈی ہے تب بھی اس کو حد کی سزا نہ دی جائے گی۔
۱۶۱/۱۶۲/۱۶۳ اذا رشہٖ اربعۃ علی رجل بالزنا واختلفو افی المراۃ المزنیۃ بہا اوفی المکان اوفی الوقت بطلہت شہادتم… کذا فی السموط ص ۱۵۳ ج۲
جب چار عینی گواہ ایک مرد پر زنا کی گواہی دیں اور مزنیہ عورت میں اختلاف کریں یا زنا کی جگہ میں اختلاف کریں یا وقت کی تعین میں اختلاف کریں تو ان چاروں کی شہادت باطل ہو گی۔
۱۶۵ : قال محم رحمہ اللہ تعالیٰ الاحل اربعۃ شہدوا علی رجل بازنا فشہد ااثنا انہ اشتکرہہا وشہدا اثنان انہا طاوعتہ قال ابو حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ اداأعنم الحدود جمیعاً یعنی الرجل والمرأۃ والشہود ص ۱۵۳ ج۲
اگر دو شاہد کسی ملزم کے بارے میں یہ شہاد ت دیں کہ اس نے فلاں عورت پر مجرمانہ حملہ کیا مگر دوسرے یہ کہیں کہ اس نے اس جرم کا ارتکاب عورت کی رضا مندی سے کیا ہے تو کسی پر حد کی سزا جاری نہ ہوگی
عرض: مذکورہ بالا تفصیل کے علاوہ ا س قسم کی اور بھی بہت سی چھوٹیں موجود ہیں جنہیں اختصار کے پیش نظر قلم انداز کیا جاتا ہے دکھانا صرف یہ ہے کہ زنا ایسے حیا سوز جرم کا مرتکب عبرتناک سزا کا مسحق ہوتا ہے لیکن فتاویٰ عالمگیری کی نگاہ حیلہ جو نے زانیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے عقل عیار کے برتے پر اگر مگر اور چونکہ چنانکہ کا اتنا بڑا ابنار لگا دیا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے کسی مبینہ زانی پرحد جاری کرنے کا قیامت تک کبھی موقعہ ہی نہیں آسکتا اور پھر مزید ستم یہ ہے کہ اگر کوئی زانی اپنے گناہ سے تائب ہو کر حد کے ساتھ پاک ہونے کا پاکیزہ جذبہ لے کرآئے گا تو فتاویٰ عالمگیری کے مطابق اسے اپنے اقرار و اعتراف سے منحرف ہوجانے کی ترغیب بھی دی جائے گی ۔ بتائیے اس صورتحال میں زنا کی حد پھر ڈھوروں ڈنگروں پر جاری ہو گی؟
لیا عقل ودین سے نہ کچھ کام انہوں نے
کیا دین برحق کو بدنام انہوں نے
 
Top