کتاب الحدود
الباب الثانی الزنا ص ۱۴۳ ج ۲ مکتبہ ماجدیہ طوغی روڈ کوئٹہ
تہتر قسم کے زنا پر حد کی چھوٹ
زنا کی شناعت:- زنا نہ صرف مسلم معاشرہ کیلئے مزمن ناسور اور تباہ کن وباء ہے بلکہ یہ پوری انسانی سوسائٹی کے لئے سم ہلاہل اور زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے چونکہ اسلام دین فطر ت ہے فطرت جہاں دوسری جملہ معاشرتی برائیوں کا اباء کرتی ہے وہاں جنسی انارکیاور ہر قسم کے زنا کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہے۔ زنا خواہ کسی قسم کا ہو یعنی شبہ اورشبۃ الاشتباء کے قبیل سے ہو یا عام قسم کا زنا ہو مفت کا ہو یا روپوں کے عوض ہو ۔ بہر حال ناقابل برداشت جرم اور گناہ کبیرہ ہے اورزانی مستوجب حد شرعی ہے یعنی عاقل بالغ آزاد مرد ہو یا عورت عام آدمی ہو یا بادشاہ ہو ، صاحب زباں ہو یا گونگا ہو اس کیلئے اپنے اعتراف یا شرعی شہادت کی موجودگی میں اس پر حد لگائی جائے گی پھر اگر وہ شادی شدہ ہو تو اسے عوام الناس کے روبرو پوری بے دردی کے ساتھ رجم کیا جائے گا ورنہ اسے سو کوڑے مارے جائیں گے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔
الزانیۃ والزانی فاجلدو اکل واحد منہا مائۃ جلدۃ ولا تأخذکم بہمارأ فۃ فی دین اللہ ان کنتم تومنون باللہ والیوم الاخر ولیشہد مذابہما طائفۃ من المومنین آیت ۲ سورت نور
ترجمہ:- زانی اور زانیہ ہر ایک کو سو سو درے مارو۔ اور اللہ کا حکم جاری کرنے میں تم ان پر کسی طرح کا ترس نہ کرو ۔ اگر تم اللہ پر اور پچھلے دن پرایمان ہے اور ان کی سزا کے وقت مسمانوں کی ایک جماعت حاضر رہے۔
اور رجم کا ثبوت یہ ہے۔
عن ابن عباس قال قال عمر لقد خشیت ان یطول بالناس زمن حتی یقو قائل لانجد فی کتاب اللہ فیضلو ابترک و فریضۃ انزلہا اللہ الا ان الرجم حق علی من زنی وقد احصن اذ لقامت اوکان الحبل والاعتراف قال سفیان کذا حفظت الاوقدورجم رسول اللہ ﷺ ورجمنا بعدہ صحیح بخاری ص ۱۰۰۸ ج ۲باب الاعتراف الزنی کتاب الحدود
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ آنے والے زمانہ میں کوئی یہ نہ کہنے لگ جائے کہ قرآن مجید میں رجم کا ثبوت موجود نہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ فریضہ کو ترک کرکے کہیں لوگ گمراہ نہ ہو جائیں خبردار شادی شدہ زانی کو رجم کرنا حق ہے جب گواہی موجود ہو یا حمل سے زنا کا ثبوت فراہم کرے یا زانی خود اعتراف کرے خبردار آگاہ رہو جناب رسول اللہﷺ نے (شادی شدہ زانی کو) خود رجم کیا تھا اور پھر آپﷺ کے بعدہم سے بھی رجم کیا ہے اب ان تصریحات کے بعد کڑاجی کرکے اپنے محبوب فتاوی عالمگیری کا مطالعہ کیجئے اور ۷۰ قسم کی زنا پر حد کی چھوٹ سے خود استفادہ فرمائیے ورنہ ان فتاویٰ سے دست برداری اور بیزاری کا اعلان فرمائیے کیونکہ ایمان و دیانت اور انصاف و شرافت کا یہی تقاضہ ہے مگر
ہم جانتے ہیں تم کو ، تمہاری زباں کو
وعدوں ہی میں گزار و گے موسم بہار کو
نام نہاد جاہل زانی کو حد کی چھوٹ
۹۳:
وشرطہ العلم بالتحریم حتی لو لم یعلم بالحرمۃ لم یجب الحد الشبہۃ کذا فی المحیط اللسرخی ص ۱۴۳ ج ۲
اور زنا پر حد کی شرط یہ ہے کہ تحریم سے واقف ہو حتی کہ اگر ا نے تحریم (حرمت زنا) کو نہ جانا تو بسبب شبہ واقع ہونے کے حد قائم نہ کی جائے گی یہ محیط سرخسی میں ہے ص ۲۲۰ ج۱
عرض: بتائیے کون کہے گا ، آبیل مجھے مار نیز وہ شخص جسے زنا کے حرام ہونے کا علم نہیں کیا وہ بھی مسلمان ہوگا؟
گونگے زانی کو حد کی چھوٹ
۹۴:
ولابدان یکون الاقرار صریحاً ولا یظہر کذبہ فلا یجد لاخرس ولو اقربکتابہ واشارۃٖ ص ۱۴۳ ج ۲
اور ضرور ہے کہ اقراء صریح ہو اور اس کا کذاب ظاہر نہ ہو پس گونگے کو اقرار پر حد نہ ماری جائے گی ۔ اگر اس نے اپنی تحریر سے ذریعہ یا اشارہ سے اقرار کیا ص ۳۲۱ ج ۳
گونگے زانی کے خلاف گواہی بھی قبول نہیں
۹۵
وکذا لاتقبل الشہادۃ علیہ لا حتمال ان یدعی شبہۃ ص ۱۴۳ ج۲
اور اسی طرح اس پر گواہی بھی قبول نہ ہوگی اس واسطے کہ شاید وہ شبہ کا مدعی ہو ص ۳۲۱ ج ۲
گونگی عورت سے زنا کرنے والے کو حد کی چھوٹ
۹۶:
ولو اقرانہ زنی بخرسآء ص ۱۴۳ج۲
اگرمرد نے اقرار کی کہ میں نے گونگی عورت سے زنا کیا ۔ ص ۲۲۲ ج ۳
اوہی اقرت باخرس لاحد علی کل واحد منہما کذافی فتح القدیر ص ۱۴۳
یا عورت نے اقرار کیا کہ میں نے گونگے مرد سے زنا کیا تو دونوں میں سے کسی پر حد واجب نہ ہوگی ص ۳۲۲ ج ۳ ما شا اللہ وکالت ہو تو ایسی ہو۔
وضاحت : یعنی صاحب زبان آزاد مرد عاقل بالغ گونگی عورت سے زنا کرے تو گونگی عورت کے طفیل اس مرد کو بھی حد جاری نہ ہوگی اوراگر عاقلہ بالغہ آزاد عورت گونگے مرد سے منہ کالا کرے تو بھی ان دونوں پر حد نہ ہوگی گونگے حنفیو! مزے آڑاؤ !
عرض: کیا جنسی مریض کو گونگی عورت اور جنسی مریضہ کو گونگا عاشق نہ مل سکے گا؟
زانیہ کے انکار سے دونوں پر حد نہیں
۹۸
: لو اقربالزنا فکذبتہ ص ۱۴۳ ج ۲
زانی کے انکار سے دونوں پر حد واجب نہیں
۹۹:
اوہی فکذابہا فلا حد علیہا عندالام کذافی النہر الفائق ص ۱۴۳ ج۲ آخری سطور
یعنی اگر مرد نے زنا کا اقرار کیا اور عورت نے جس کے ساتھ اس فعل کا اقرار کرتا ہے انکار کیا یا عورت نے اقرار کیا اور مرد نے انکار کیا تو امام رحمہ اللہ کے نزدیک دونوں (عاشقوں ) میں سے کسی پرحد واجب نہ ہوگی یہ نہر الفائق میں ہے ص ۳۲۲ ج۳
عرض: تو بتائیے ایسی صورت حال میں کون ناجائز فائدہ نہ اٹھائے گا؟ نیز کیا حضرت عویمر عجلانی اور حضرت ماعزاسلمی رضی اللہ عنہما حد کھانے کیلئے اپنے زنا کے ثبوت میں اپنی اپنی مزنیہ کو بھی ساتھ لائے تھے کیا رسو ل اللہﷺ نے ان دونوں پر زنا کی حد نافذ کرنے سے پہلے ان دونوں عورتوں سے اقرار زنا کروالیا تھا ۔ا گر کوئی سند ہو تو ہمیں بھی آگاہ فرمادیں ۔
چار قسم کی عورتوں پر زنا زنا نہیں
۱۰۰/۱۰۱/۱۰۲/۱۰۳
وکذا اذا وطی الرجل جاریۃ ابنہد وجاویۃ مکاتبہٖ او جاریۃ عبدہٖ الماذن المدیون او الجاریۃ من المغنم بعد الا حواز فی دارالاسلام فی حق الفازی لا یکون زنا الشبہۃ ملک الیمین ص ۱۴۳ ج ۲
اسی طرح اگر مرد نے اپنے پسر یا مکاتب باندی یا اپنے غلام ماذون مدیون کی باندی سے وطی کی یا جہاد میں لوٹ کی باندی سے بعد دارالاسلام میں احراز کرنے کے غازی نے وطی کی تو (ان چاروں صورتوں میں ) زنا نہ ہوگا کیونکہ شبہ ملک یمین ہے ص ۳۲۰ ج ۳ لہذا حد بھی غائب ۔
۱۰۲:-
کذا اذا وطی امرأۃ تزوجہا بغیر شہود وامۃ تزوجہا بغیر اذن مولاہا ص ۱۴۳ ج ۲
اور اسی طرح اگر ایسی عورت سے وطی کی جس سے بغیر گواہوں کے نکاح کیا ہے یا ایسی باندی سے وطی کی جس سے بدون اجازت اس کے مولیٰ (مالک) کے نکاح کیا ہے ۔ یعنی باندی نے اپنے مولا سے اجازت نہیں لی تھی ص ۳۲۰ ج۳
وضاحت : ۔ یعنی یہ دونوں قسم کی وطی بھی زنا نہیں ہے اور نہ اس پر حد واجب ہوتی ہے شاید ان چھ اقسام کے زنا میں جماع کا لطف موجود نہ ہو؟
بے حسی کاشاہکار
۱۰۶:
وکذا اذا وطی الابن جاریۃ ابیہ علی انہا تجل لہ بشہہ ولاشتہاہ فکذا فی النہایۃ ص ۱۴۳ ج۲
اسی طرح اگر بیٹے نے اپنے باپ کی باندی سے اس شبہ میں وطی کی کہ میرے واسطے حلال ہے تو زنا نہیں کیونکہ یہ شبہ اشتباہ ہے
ص ۲۲۰ ج۲ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ونعوذ باللہ منی وسواس الشیطن الرجیم
خزاں کے ہاتھ سے گلشن میں خار تک نہ رہا
بہار کیسی نشان بہار تک نہ رہا
فائدہ:۔ واضح رہے کہ یہ فتویٰ محض احتمالی اور انشائی ہی نہیں بلکہ بقول امام عبدالرحمن سیوطی رحمہ اللہ اس پر عمل درآمد کی شیر داد بھی موجود ہے ۔
اخرج السلفی فی الطیوریات بسندہ عن ابن المبارک قال لما افضت الخلافۃ الی الرشید وقعت فی نفسہ جاریۃ من جواری المہدی فرودھا من نفسہا فقالت : لا اصلح لک ان اباک قد طاف بی فشفف بہا فارسل الی ابی یوسف فسئالہ اعندل فی ہذ شئ ؟ فقال یا امیر المومنین اوکلہا اوعت امۃ شیئا اینبغی ان تصدق لاتعبد قہا فانہا لیست بما مونۃ قال ابن المبارک فلم ادرعمن اعجب من ہذا الذی قد وضع یدہ فی دمأ المسلمین واموالہ ویتحرج من حرمۃ ابیہ او من ہذاہ الامۃ التی رغبت نفسہا عن امیر المومنین اومن ہذا فقیہ الارض وقاضیہا ! قال : اتک حرمۃ ابیک وفض سہر تک وصیرہ فی رقبتی تاریخ الخلفا سیوطی ص ۱۹۲ با بنذمن اخبارالرشید الہارون
اس پوری عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہارون رشید حریم اقتدار ہوا تو اس نے ایک لونڈی کو اپنے فراش پر بلایاتو اس لونڈی نے کہا کہ چونکہ میں تیرے باپ مہدی کے تصرف میں رہ چکی ہوں اس لئے میں تیری ماں کے قائم مقام ہوں ۔ تب ہارون نے شرعی جواز کے لئے قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ علیہ کو بلایا اور سند جواز کی فرمائش کی تو قاضی ابو یوسف نے فرمایا کہ اس لونڈی کی بات قابل تصدیق نہیں جب حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو اس کھلی دھاندلی کا علم ہوا۔ تو انہوں نے فرمایا میں تعجب کروں تو کس پر کروں ؟ ہارون پر تعجب کروں جو اپنی رنگ رلیوں کے جواز کے لئے آج مفتی کی ضرورت محسوس کرنے لگا ہے جس نے مسلمانوں کے جان ومال کو اپنے لئے مباح سمجھ رکھا ہے یا اس لونڈی کے تدین اور تقوی کو سلام کروں جس نے اپنی عصمت وعفت کے تحفظ میں دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کی ناجائز فرمائش کو سنجیدگی کے ساتھ ٹھکرا دیا ہے یا پھرفقیہ ارض اور چیف جسٹس ابو یوسف کی فقاہت پرسر پیٹوں جو بیٹے کیلئے اس کے باپ کی مستعملہ لونڈی سے ناجائز تصر ف کا فتوی دے رہا ہے اور اس پر مستزادیہ کہ اس عظیم شناعت کی ذمہ داری بھی قبول کر رہا ہے۔
ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
چار گواہوں شہادت کے باوجود حد کی چھوٹ
۱۰۷:-
ان شہد اربعۃ رجل بالزنا فأقرمرۃً … وعند ابی یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ لا یحد وہو الاصح کذافی الکافی ص ۱۴۴ج۲
اگر چار گواہوں نے ایک شخص پر زنا کرنے کی گواہی دی پس اس نے ایک مرتبہ اقر ار کر لیا… تو امام ابو یوسف کے نزدیک حد نہ ماری جائے گی۔ ص ۳۲۲ ج۳
۱۰۸:-
ہذا اذا کان لاقرار بعد التضآ اذاکان قبل القضآء فیسقط العداتفاقاً ہکذا فی فتح القدیر ص ۱۴۴ج۲
اور یہ (اختلاف) اس وقت ہے کہ اس نے جو قضا کے اقرارکیا ہو اور اگر قبل قضا کے اقرار کیا تو بالاتفاق حد ساقط ہوجائے گی یہ فتح القدیر میں ص ۳۲۳ ج۳
وضاحت : یعنی چار گواہوں کی شہادت کے باوجود اگر زانی صرف ایک بار اقرار کرے تو بالاتفاق حنفیہ کے نزدیک اس پر حد واجب نہ ہوگی بشرطیکہ ابھی تک عدالت نے اپنا فیصلہ نہ سنایا ہو اوراگرچار گواہوں کی شہادت پر عدالت کے فیصلہ کے بعد یہ صورت ہو تو امام ابو یوسف کے نزدیک تب بھی اس زانی پر حد واجب نہ ہوگی اور یہی اصح ہے۔
شہادت اور اقرار کے بعد انکا ر پر حد کی چھوٹ
۱۰۹ :
اربعۃ شہدوا علی رجل بالزنا فاقر الرجل بعد شہادتہم ثم انکرو ولم یقراربع مرابت لا حد عیہ کذا فی فتاوی قاضی خان ص ۱۴۴ ج۲
چار گواہوں نے ایک شخص پر زنا کی گواہی دی پھر اس شخص نے بعد ان کی گواہی کے اقرار کیا پھر انکار کر گیا اور چار مرتبہ اس نے اقرار نہیں کیا تو اس پر حد واجب نہ ہوگی ص ۳۲۲ ج۲
عرض :
آخر حد کب اور کس پر واقع ہوگی؟
پاگل جوان سے زنا کرنے والی کو حد کی چھوٹ
۱۱۰:
ولو اقرت انہا زبت بمجنون ص ۱۴۴ج۲
بچے کے ساتھ زنا کرنے والی کو چھوٹ
۱۱۱: اوصبی فلاحد علیہا ص ۱۴۴ ج۲
ان عبارتوں کا ترجمہ یہ ہے :’’ اگر عورت نے اقرار کیا کہ میں نے پاگل یا طفل سے زنا کیا ہے تو اس پر حدواجب نہ ہوگی ص ۳۲۳ ج۳
عرض :- پاگل اور بچے کی حد کی چھوٹ تو سمجھ میں آتی ہے مگر ایسی فاحشہ اور زانیہ عورت کو حد کی چھوٹ کا کیا جواز ہے؟ کیا یہ چھوٹ ایسی عورت کو گناہ کا چسکا نہ ڈالے گی؟ نیز اس طرح بچے اور پاگل زنا کرنے کے عادی نہ ہو جائیں گے؟
حد کی چھوٹ کی ایک معصوم عورت
۱۱۲:
قال محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی الجامع الصغیر رجل اقراربع امرات انہ زنا بغلا نۃٍ وفلا نہ تقول تزوجنی ص ۱۴۵ ج۲
امام محمد نے جامع صغیر میں فرمایا ہے کہ ایک مرد نے چار مرتبہ اقرار کیا کہ میں نے فلاں عورت سے زنا کیا اورفلانہ کہتی ہے کہ اس نے مجھ سے نکاح کیا ہے (تو دونوں پر حد واجب نہ ہوگی ) ص ۳۲۴ ج۳
۱۱۳:
اواقرت المرأۃ بالزنا بفلان ٍ اربع مراتٍ وفلان یقول تزوجتہا فلا حد علی واحد منہما وعلیہ المہرکذ افی المحیط ص ۱۴۴ -۱۴۵ ج۲
یا عورت نے چار مرتبہ اقرار کیا کہ میں نے فلاں مرد سے زنا کیا ہے اور فلاں کہتا ہے کہ میں نے اس سے نکاح کیا تو دونوں میں سے کسی پر حد واجب نہ ہوگی اور مرد پر اس کا مہر لازم آوے گا ۔یہ محیط میں ہے ص ۳۲۴ ج۳
آزاد عورت سے زنا پر حد کی چھوٹ
۱۱۴:
واذا اعتق امتہ وہو یطؤ ہاثم نزع وعاد فی ذالک المجلس لا یجد کذافی خزانہۃ المفتین ص ۱۴۸ ج۲
اگر اپنی باندی کو جس سے وطی کر رہا تھا اسی حالت میں آزاد کر دیا پھراس سے جدا ہوگیا پھر اس مجلس میں اس سے وطی کر لی تو ا س کو حد نہ ماری جائے گی ص ۲۳۳ ج۳
عرض : فتاوی عالمگیری کو مستند ماننے والوں سے بصد ادب عرض ہے کہ وہ اس چھوٹ کی عقلی اور نقلی کوئی دلیل بیان فرماویں ورنہ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس قسم کے غلط فتاوی کی حمایت سے توبہ نامہ شائع فرماویں ۔
مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
مسئلہ : ماں ۔ بہن اور دوسری محرمات ابدیہ سے نکاح بہرحال حرام ہے قرآن مجید میں ہے
حرمت علیکم امہاتکم و بناتکم و اخواتکم وعمّٰتکم وخٰلٰتکم وبنات الخ وبنات الاخت ومہاتکم التی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ وامہات نسائکم وربائبکم التی فی حجورکم من نسائکم التی دخلتم بہن الخ پارہ ۴ آخری آیت
ترجمہ : تمہاری مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، پھوپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں ، دودھ کی مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ، تمہاری دودھ کی بہنیں ، تمہاری ساسسیں اور تمہاری مدخولہ بیویوں کی پچھلی لڑکیاں جو تمہاری پرورش میں ہوں یہ سب تم پر حرام ہیں ۔
حدیث عن البرآء بن عاذب قال مربی خالی ابو ہردۃ رمعہ لواء فقلت این تذہب فقال بعثنی النبیﷺ الی رجل تزوج امرأۃ ابیہٖ آتیہٖ براسہٖ ترمذی ابوداؤد۔
برابن عاربؓ سے مروی ہے کہ میرے ماموں ابور بردہ بن دینار میرے پاس سے گزرے ان کے ساتھ نشان تھا میں نے پوچھا کہاں کا عزم ہے کہنے لگے رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک ایسے آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کر رکھا ہے آپﷺ کا حکم ہے کہ اس کا سر لے آؤں ان نصوص قطعیہ کو ذہن میں رکھ کرفتاوی عالمگیری کی فقہی ترانیاں پڑھئے اورپورے زور و شور سے مادر وطن میں اس کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیجئے
محرمات ابدیہ سے نکاح کے بعد حد کی چھوٹ
۱۱۵:
فان العقد اذا وجد لاکان او حراماً متفقا علی تحریمہٖ و مختلفا فیہ علم الواطی انہ محرم اولم یعلم لا یحد عند ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ ص ۱۴۷ ج۲
کہ جب عقد پایاگیا خواہ حلال ہو یا حرام ہو خواہ ایسا حرام کہ اسکی تحریم پر اتفاق ہے یا اس میں اختلاف ہے خووطی کنندہ حرام ہونے کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو بہر حال امام اعظم کے نزدیک اس کو حد نہ ماری جائے گی ص ۳۳۲ ج ۲
وضاحت : تمام محرمات ابدیہ یعنی جن سے کبھی نکاح نہیں ہو سکتا جیسے ماں ، بہن ، بھانجی ، بھتتیجی، خالہ، پھوپھی، دادی، نانی، رضاعی ماں ، رضاعی بہن، اور رضاعی بھانجی وغیرہ سے اگر کو بد طنیت اوربے غیرت نکا ح کرکے اپنا منہ کالاکرے تو فتاوی عالمگیری کے مطابق معاذ اللہ ثم معاذ اللہ حضرت امام اعظم رحمہ اللہ ایسے متقی اور متروع کے نزدیک اسے حد نہ ماری جائے گی ۔ نعوذ باللہ من ہذا لافتر العظیم
میرا یہ ایما ن ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس افتراء سے قطعا بری ہیں یہ ان پر بہتان ہے اس لئے ہم بلا خوف تردید کہتے ہیں
حرف بھی،نقش بھی، شکل بھی، عقل بھی
کون سی چیز اپنی ادھاری نہیں
عرض : ان شرعی غیر منطقی ، نافہم ، ناقابل عمل اور ناقابل اور اسلامی معاشرہ میں انارکی پیدا کرنے والی ان حیار سوز ذہنی موشگافیوں کو کتاب وسنت کا نعم البدل باور کرکے پاکستان کا دستور بنا لینا کیا اللہ تعالیٰ اور جناب رسول اللہﷺ سے مذاق نہ ہوگا ؟ نیز کیا اس کے نفاذ سے اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہو سکے گی؟ مگر بزرگو
سنبھلتا نہیں جن سے اپنا ڈوپٹہ
سنبھالیں گے کیا وہ کلیجہ کسی کا ؟
زنا کی اس قسم پر بھی حد نہیں
۱۱۶ :
ان ادعی احدہما الظن ولم یدع الآخر فالک لم یحد احتی یقرا انہما علما بالحرمۃ کذافی الکافی ص ۱۴۸ ج۲
اگر دونوں میں سے ایک نے گمان کا دعویٰ کیا اور دوسرے نے دعویٰ نہ کیا تو دونوں کو حد نہ ماری جائے گی جب تک کہ دونوں اس کا اقرار نہ کریں کہ ہم حرمت سے واقف نہ تھے ص ۳۳۲ و ص ۳۳۳ ج۳ شبہ فی الفعل کی مثال ہے