السلام وعلیکم ورحمة الله وبركاته
میرا ایک سوال "إستوى علي العرش" کے متعلق ہے
کیا استویٰ کے معنیٰ بذات ہے ؟
اسلاف سے کچھ حوالے درکار ہیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس موضوع پر ہمارے محقق عالم غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کا بہت مفید مضمون شائع ہے ، آپ کیلئے یہاں پیش ہے ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالیٰ عرش پر ہے ؛
ماہنامہ السنہ جہلم ،شمارہ 37
اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور اپنی مخلوق سے جدا ہے۔گمراہ جہمیہ اور معطلہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے جبکہ قرآن و حدیث ، اجماعِ امت اور فطرت سے ان کے باطل عقیدے کا ردّ ہوتا ہے۔ اہل سنت میں سے ایک بھی انسان نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
والملتزقۃ جعلوا الباری سبحانہ فی کلّ مکان ۔ ”فرقہ ملتزقہ نے اللہ سبحانہ کے ہر جگہ ہونے کا عقیدہ بنایا ہے۔”(تلبیس إبلیس لابن الجوزی : ٢٧، وفی نسخۃ : ١/١٨٠)
مفسر قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) فرماتے ہیں :
[وہو معہم] أی بالعلم والرؤیۃ والسمع ، ہذا قول أہل السنّۃ ، وقالت الجہمیّۃ والقدریّۃ والمعتزلۃ : ہو بکلّ مکان ۔ ”فرمانِ باری تعالیٰ : (اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے) کا مطلب ہے کہ وہ علم ، رؤیت اور سمع کے اعتبار سے ان کے ساتھ ہے۔ اہل سنت والجماعت کا یہی موقف ہے جبکہ جہمیہ ، قدریہ اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں ہے۔”
(تفسیر القرطبی : ٥/٣٧٩)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) فرماتے ہیں :
الجہم بن صفوان الذی تنسب إلیہ الطائفۃ الجہمیّۃ الذین یقولون : إنّ اللّٰہ فی کلّ مکان بذاتہ ، تعالی اللّٰہ عمّا یقولون علوّا کبیرا ۔ ”جہم بن صفوان وہ شخص ہے جس کی طرف جہمیہ فرقہ منسوب ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی باتوں سے بہت بلند ہے۔”(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : ١٠/١٩)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(وَہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمَاوَاتِ وَفِی الْأَرْضِ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَہْرَکُمْ وَیَعْلَمُ مَا تَکْسِبُونَ) (الأنعام : ٣) (وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو آسمانوں اور زمین میں تمہاری پوشیدہ و ظاہر باتوں اور اعمال کو جانتا ہے)۔
اس فرمانِ باری تعالیٰ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اختلف مفسّروا ہذہ الآیۃ علی أقوال ، بعد الاتّفاق علی تخطئۃ قول الجہمیّۃ الأول القائلین بأنّہ ، تعالی عن قولہم علوّا کبیرا ، فی کلّ مکان ، وہذا اختیار ابن جریر ۔ ”اس آیت میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں لیکن اس بات پر سب متفق ہےں کہ جہمیہ کی یہ بات غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس طرح کی باتوں سے پاک و منزہ ہے۔امام طبری رحمہ اللہ نے اسی کو پسند کیا ہے۔”
(تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر : ٣/٧)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وکلّ من قال : إنّ اللّٰہ بذاتہ فی کلّ مکان فہو مخالف للکتاب والسنّۃ وإجماع ہذہ الأمّۃ وأئمّتہا ، مع مخالفتہ لما فطر اللّٰہ علیہ عبادہ ، ولصریح المعقول ، وللأدلّۃ الکثیرۃ ، وہؤلاء یقولون أقوالا متناقضۃ ۔
”جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ ہے ، وہ قرآن و سنت اور امت ِ مسلمہ کے علماء اور ائمہ دین کے اجماع کا مخالف ہے۔ ساتھ ساتھ وہ اس فطرت کی بھی مخالفت کرتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کیا ہے۔ ایسا شخص صریح عقلی دلائل اور دیگر بہت سی دلیلوں کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ ایسے لوگ متناقض باتیں کرتے ہیں۔”(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/٢٣٠)
نیز فرماتے ہیں :
الحلول العام ، وہو القول الذی ذکرہ أئمّۃ أہل السنّۃ والحدیث عن طائفۃ من الجہمیّۃ المتقدّمین ، وہو قول غالب متعبّدۃ الجہمیّۃ الذین یقولون : إنّ اللّٰہ بذاتہ فی کلّ مکان ۔
”عام حلول (اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ ہونے کا عقیدہ) وہ نظریہ ہے جسے ائمہ اہل سنت والحدیث نے متقدمین جہمیہ کے ایک گروہ سے نقل کیا ہے۔یہی عقیدہ ان جہمی صوفیوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے۔”(مجموع الفتاوی : ٢/١٧٢)
شیخ الاسلام امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (١٦١۔٢٣٨ھ)فرماتے ہیں :
جمعنی وھذا المبتدع ، یعنی ابراھیم بن أبی صالح ، مجلس الأمیر عبداللّٰہ بن طاہر ، فسألنی الأمیر عن أخبار النّزول ، فسردتّھا ، فقال ابراھیم : کفرت بربّ ینزل من سماء الی سماء ، فقلت آمنت بربّ یفعل ما یشاء ۔
”میں اور یہ بدعتی یعنی ابراہیم بن ابی صالح ،امیر عبداللہ بن طاہر کی مجلس میں جمع ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے نزولِ باری تعالیٰ کی احادیث پوچھیں ، میں نے بیان کر دیں۔ ابراہیم کہنے لگا : میں ایسے رب کو نہیں مانتا جو (ساتویں)آسمان سے (پہلے)آسمان کی طرف نزول کرتا ہے۔ میں نے کہا : میں اس رب پر ایمان لاتا ہوںجو وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔”
(الاسماء والصفات للبیہقی : ٢/١٩٧، وفی نسخۃ : ٢/٣٧٥۔٣٧٦، ح : ٩٥١، وسندہ، صحیح)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث (صحیح مسلم : ٧٥٨) کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر رات ساتویں آسمان سے پہلے آسمان پر نزول فرماتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے تو پھر ہر رات ساتویں آسمان سے پہلے آسمان کی طرف نزول کا کیا مطلب ہوا؟شیخ الاسلام امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ جو نزولِ باری تعالیٰ کا اثبات کر رہے ہیں، ان کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ نہیں ہے۔
ابو عبد اللہ عمرو بن عثمان مکی رحمہ اللہ (م ٢٩٧ھ) فرماتے ہیں :
المستوی علی عرشہ بعظمۃ جلالہ ، دون کلّ مکان ۔
”اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلالت کے ساتھ اپنے عرش پر مستوی ہے۔ وہ ہر جگہ نہیں۔”
(کتاب العرش للذہبی : ٢/٣٤٨)
امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ (٢٠٦۔٢٨٧ھ) اپنی کتاب السنّۃ (١/٢١٥، باب : ١٠٤) میں یوں تبویب کرتے ہیں :
ما ذکر أنّ اللّٰہ تعالیٰ فی سمائہ دون أرضہ ۔
”ان دلائل کا بیان کہ اللہ تعالیٰ اپنے آسمانوں کے اوپر ہے ، اپنی زمین میں نہیں ہے۔”
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں :
من لم یقرّ بأنّ اللّٰہ تعالی علی عرشہ ، قد استوی فوق سبع سماواتہ ، فہو کافر بربّہ ۔۔۔
”جو شخص اس بات کا اقرار نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر اپنے ساتوں آسمانوں کے اوپر مستوی ہے، وہ اپنے ربّ سے کفر کرنے والا ہے۔”
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص : ٨٤، وسندہ، صحیحٌ)
سنی مفسر امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
وحسب امریئ أن یعلم أنّ ربّہ ہو الذی علی العرش استوی ، فمن تجاوز إلی غیر ذلک فقد خاب وخسر ۔ ”ایک شخص کو (اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حوالے سے) یہی کافی ہے کہ اسے یہ علم ہو کہ اس کا ربّ وہ ہے جو عرش پر مستوی ہے۔ جو شخص اس سے تجاوز کرے گا وہ یقینا تباہ و برباد ہو گیا۔”(صریح السنۃ للطبری : ٢٧)
امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ (م ٣٢٤ھ) فرماتے ہیں :
وأنّ اللّٰہ سبحانہ علی عرشہ ، کما قال : (اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) ۔ ”اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے عرش پر ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے : (اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (رحمن عرش پر مستوی ہوا)۔”(مقالات الاسلامیین للاشعری، ص : ٢٩٠)
امام ابوالشیخ ابن حیان اصبہانی رحمہ اللہ (م ٣٢٩ھ) نے اپنی کتاب العظمۃ (٢/٥٤٣) میں ایک باب یوں قائم کیا ہے :
ذکر عرش الربّ تبارک وتعالی وکرسیّہ وعظم خلقہما ، وعلوّ الربّ فوق عرشہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کے عرش ، اس کی کرسی اور ان دونوں چیزوں کی عظمت کا بیان ، نیز یہ بیان کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے اوپر بلند ہے۔”
امام طبرانی رحمہ اللہ (٢٦٠۔٣٦٠ھ) نے اپنی کتاب السنّۃ میں ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ہے :
باب ما جاء فی استواء اللّٰہ تعالی علی عرشہ ، وأنّہ بائن من خلقہ ۔ ”اللہ تعالیٰ کے اپنے عرش پر مستوی ہونے کا بیان اور اس چیز کی وضاحت کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جُدا ہے۔”(کتاب العرش للذہبی : ٢/٤٠٤)
امام ابو زکریا یحییٰ بن عمار سجستانی رحمہ اللہ (م ٤٤٢ھ) اپنے رسالے میں فرماتے ہیں :
لا نقول کما قال الجہمیّۃ : إنّہ داخل للأمکنۃ ، وممازج لکلّ شیء ، ولا نعلم أین ہو ، بل ہو بذاتہ علی العرش ، وعلمہ محیط بکلّ شیء ، وعلمہ وسمعہ وبصرہ وقدرتہ مدرکۃ لکلّ شیء ، وہو معنی قولہ : (وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ) ، وہو بذاتہ علی عرشہ کما قال سبحانہ ، وکما قال رسولہ ۔ ”ہم جہمیوں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ تمام جگہوں میں دخول کیے ہوئے ہے اور ہر چیز کے ساتھ ملا ہوا ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے ؟ بلکہ (ہمارا عقیدہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر ہے اور اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ اس کا علم ، اس کی سمع ، اس کی بصر اور اس کی قدرت ہر چیز کو پاتی ہے۔ اس فرمانِ باری تعالیٰ کا یہی معنیٰ ہے : (وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ) (اور جہاں بھی تم ہوتے ہو ، وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے عملوں کو دیکھنے والا ہے)۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر ہے جیسا کہ خود اللہ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔”
(کتاب العرش للذہبی : ٢/٤٤٦، مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٥/١٩١)
علامہ معمر بن احمد بن زیاد اصبہانی رحمہ اللہ (م ٤١٨ھ) فرماتے ہیں :
وأنّ اللّٰہ عزّ وجلّ علی عرشہ بلا کیف ولا تشبّۃ ولا تأویل ، فالاستواء معقول ، والکیف فیہ مجہول ، والإیمان بہ واجب ، والإنکار لہ کفر ۔۔۔۔۔ وأنّہ جلّ جلالہ بائن من خلقہ والخلق بائنون منہ ، فلا حلول ولا ممازجۃ ولا اختلاط ولا ملاصقۃ ، لأنّہ الفرد البائن من خلقہ ، والواحد الغنی عن الخلق ، علمہ بکلّ مکان ، ولا یخلو من علمہ مکان۔
”اللہ عزوجل اپنے عرش پر ہے۔ اس بارے میں ہم کوئی کیفیت بیان نہیں کرتے نہ کوئی تشبیہ دیتے ہیں اور نہ کوئی تاویل کرتے ہیں۔ عرش پر مستوی ہونا عقل میں آنے والی بات ہے، اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ اپنے مخلوق سے جُدا ہے اور مخلوق اس سے جُدا ہے۔ خالق اور مخلوق کا آپس میں کوئی حلول، ملاپ ، اختلاط نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اکیلا اور اپنی مخلوق سے جدا ہے ، نیز وہ اکیلا اور اپنی مخلوق سے بے پروا ہے۔ اس کا علم ہر جگہ ہے ، اس کے علم سے کوئی جگہ خالی نہیں۔”(الحجۃ فی بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ اہل السنّۃ لابی القاسم الاصبہانی : ١/٢٤٨، ٢٤٩، وسندہ، صحیحٌ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
مکمل پی ڈی ایف مضمون کیلئے یہاں کلک کیجئے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ