- شمولیت
- اگست 28، 2018
- پیغامات
- 200
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 90
شیخ محترم کی یہ بات بڑی عجیب ہے، مخلوق میں بھی تعدد مکان سے تعدد مکین لازم نہیں آتا، ہم دیکھتے ہیں مخلوق ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی رہتی ہے لیکن مکیں ایک ہی رہتا ہے جبکہ مکان بدلتا رہتا ہے ہاں یہ بات صحیح ہے کہ جب جب مخلوق ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے اس کی پہلی جگہ اس کے وجود سے خالی ہوتی جاتی ہے لیکن خالق کے متعلق مکان کا خالی ہونا لازم نہیں آتا کیوں کہ مخلوق کے متعلق ہماری بات ہمارے مشاہدے کی بنیاد پر اور جب ہم نے خالق دیکھا نہیں تو ہم اس سے متعلق ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ در اصل یہ سب باتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ہم خالق کو اپنے اعتبار سے دیکھتے ہیں اور اپنے اوپر قیاس کرتے ہیں جبکہ خالق کا معاملہ تو "لا تدركه الأبصار" کا معاملہ ہے کہ اس کی حقیقت تک ہماری رسائی ممکن نہیں ہے احادیث کے مطابق اس کی کرسی کے مقابلے آسمانوں کی بس اتنی حقیقت ہے جیسے چٹیل میدان میں کوئی معمولی چھلا پڑا ہو تو جب کرسی کا حال یہ ہے تو عرش کا کیا کہنا جو کرسی سے بھی بڑا ہے!السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم ذرا اس کی وضاحت کر دیں ۔ شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ کی ویبسائٹ میں پڑھا میں نے
اور یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ تعدد مکان تعدد مکین کو مخلوق میں تو مستلزم ہے لیکن خالق میں نہیں!