lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
اس کا جواب آپ نے نہیں دیا بہرام بھائی
بہرام
وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا - إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا
(الکھف: 22 - 23)
اور ہرگز کسی بات کو نہ کہنا کہ میں کل یہ کردوں گا مگریہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کی یاد جب تو بھول جائے اور یوں کہو کہ قریب میرا رب اس سے نزدیک تر راستی کی رہ دکھائے۔
(کنز الایمان فی ترجمہ القرآن )
تفسیر کنزالایمان میں ہے:
اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اصحاب کہف کا حال دریافت کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کل بتاؤں گا اور ان شاءاللہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل فرمائی ۔
(کنز الایمان فی ترجمہ القرآن : خزائن العرفان فی تفسیر القرآن از سید محمد نعیم الدین مراد آبادی / صفحہ 533 / مطبوع : ضیاء القرآن پبلیکشنز لاہور)
آپ سے سوالات ہیں:
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم الغیب ہونے کے باوجود یہ کیوںکہا کہ میں کل بتاؤں گا ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم نہیں تھا جیسا کہ تم لوگوں کا دعوی ہے؟
(2) وحی رکی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پتہ تھا کہ وحی رکے گی کیا علم غیب کے باوجود ان کو پتہ نہیں تھا؟
اور آئیے اس حدیث کی طرف:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَسَهْلُ بْنُ يُوسُفَ،
عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه
أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَتَاهُ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ وَعُصَيَّةُ وَبَنُو لِحْيَانَ، فَزَعَمُوا أَنَّهُمْ قَدْ أَسْلَمُوا، وَاسْتَمَدُّوهُ عَلَى قَوْمِهِمْ، فَأَمَدَّهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِسَبْعِينَ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ أَنَسٌ كُنَّا نُسَمِّيهِمُ الْقُرَّاءَ، يَحْطِبُونَ بِالنَّهَارِ وَيُصَلُّونَ بِاللَّيْلِ، فَانْطَلَقُوا بِهِمْ حَتَّى بَلَغُوا بِئْرَ مَعُونَةَ غَدَرُوا بِهِمْ وَقَتَلُوهُمْ، فَقَنَتَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لِحْيَانَ. قَالَ قَتَادَةُ وَحَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّهُمْ قَرَءُوا بِهِمْ قُرْآنًا أَلاَ بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا بِأَنَّا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا. ثُمَّ رُفِعَ ذَلِكَ بَعْدُ. (
بخاری - كتاب الجهاد والسير - باب الْعَوْنِ بِالْمَدَدِ - حدیث 3102
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے اور سہل بن یوسف نے ان دونوں نے سعید بن ابی عروبہ سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنی لحیان (قبیلے) کے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا ہم مسلمان ہوگئے ہیں لیکن ہماری قوم کے لوگ کافر ہیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے مقابل ہم کو مدد دیجشے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے (ان کی مدد اور تعلیم کیلئے) ستر(70) انصاریوں کو بھیجا۔ انس نے کہا ہم ان کو قاری کہا کرتے تھے۔ دن کو (جنگل سے) لکڑیاں لاتے (بیچ کر فقیروں کو کھلاتے) رات کو نماز پڑھتے رہتے۔ خیر جب یہ لوگ قاریوں کو لے کر بیر معونہ (مکہ اور عسفان کے درمیان) پر پہنچے تو ان سے دغا کی۔ ان کو مارڈالا تو ایک مہینہ تک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) (نماز میں) قنوت پڑھتے رہے۔ رعل اورذکوان اور بنی لحیان کیلئے بددعا کرتے رہے۔ قتادہ نے کہا ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہا صحابہ ان لوگوں کے باب میں قرآن کی یہ آیت (ایک مدت تک پڑھتے رہے۔ ہماری قوم کو یہ خبر یونہی پہنچا دو کہ ہم اپنے مالک سے مل گئے وہ ہم سے خوش ہم اس سے خوش ۔ پھر بعد میں اس کا پڑھنا موقوف ہوگیا۔
آپ سے سوال:
(1) عالم الغیب ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ کیوں نہ چلا کہ ان ستر صحابہ حفاظ قرآن کو شہید کیا جائے گا؟
۔
بہرام
وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا - إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا
(الکھف: 22 - 23)
اور ہرگز کسی بات کو نہ کہنا کہ میں کل یہ کردوں گا مگریہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کی یاد جب تو بھول جائے اور یوں کہو کہ قریب میرا رب اس سے نزدیک تر راستی کی رہ دکھائے۔
(کنز الایمان فی ترجمہ القرآن )
تفسیر کنزالایمان میں ہے:
اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اصحاب کہف کا حال دریافت کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کل بتاؤں گا اور ان شاءاللہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل فرمائی ۔
(کنز الایمان فی ترجمہ القرآن : خزائن العرفان فی تفسیر القرآن از سید محمد نعیم الدین مراد آبادی / صفحہ 533 / مطبوع : ضیاء القرآن پبلیکشنز لاہور)
آپ سے سوالات ہیں:
(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم الغیب ہونے کے باوجود یہ کیوںکہا کہ میں کل بتاؤں گا ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم نہیں تھا جیسا کہ تم لوگوں کا دعوی ہے؟
(2) وحی رکی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پتہ تھا کہ وحی رکے گی کیا علم غیب کے باوجود ان کو پتہ نہیں تھا؟
اور آئیے اس حدیث کی طرف:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَسَهْلُ بْنُ يُوسُفَ،
عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه
أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَتَاهُ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ وَعُصَيَّةُ وَبَنُو لِحْيَانَ، فَزَعَمُوا أَنَّهُمْ قَدْ أَسْلَمُوا، وَاسْتَمَدُّوهُ عَلَى قَوْمِهِمْ، فَأَمَدَّهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِسَبْعِينَ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ أَنَسٌ كُنَّا نُسَمِّيهِمُ الْقُرَّاءَ، يَحْطِبُونَ بِالنَّهَارِ وَيُصَلُّونَ بِاللَّيْلِ، فَانْطَلَقُوا بِهِمْ حَتَّى بَلَغُوا بِئْرَ مَعُونَةَ غَدَرُوا بِهِمْ وَقَتَلُوهُمْ، فَقَنَتَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لِحْيَانَ. قَالَ قَتَادَةُ وَحَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّهُمْ قَرَءُوا بِهِمْ قُرْآنًا أَلاَ بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا بِأَنَّا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا. ثُمَّ رُفِعَ ذَلِكَ بَعْدُ. (
بخاری - كتاب الجهاد والسير - باب الْعَوْنِ بِالْمَدَدِ - حدیث 3102
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے اور سہل بن یوسف نے ان دونوں نے سعید بن ابی عروبہ سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنی لحیان (قبیلے) کے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا ہم مسلمان ہوگئے ہیں لیکن ہماری قوم کے لوگ کافر ہیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے مقابل ہم کو مدد دیجشے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے (ان کی مدد اور تعلیم کیلئے) ستر(70) انصاریوں کو بھیجا۔ انس نے کہا ہم ان کو قاری کہا کرتے تھے۔ دن کو (جنگل سے) لکڑیاں لاتے (بیچ کر فقیروں کو کھلاتے) رات کو نماز پڑھتے رہتے۔ خیر جب یہ لوگ قاریوں کو لے کر بیر معونہ (مکہ اور عسفان کے درمیان) پر پہنچے تو ان سے دغا کی۔ ان کو مارڈالا تو ایک مہینہ تک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) (نماز میں) قنوت پڑھتے رہے۔ رعل اورذکوان اور بنی لحیان کیلئے بددعا کرتے رہے۔ قتادہ نے کہا ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہا صحابہ ان لوگوں کے باب میں قرآن کی یہ آیت (ایک مدت تک پڑھتے رہے۔ ہماری قوم کو یہ خبر یونہی پہنچا دو کہ ہم اپنے مالک سے مل گئے وہ ہم سے خوش ہم اس سے خوش ۔ پھر بعد میں اس کا پڑھنا موقوف ہوگیا۔
آپ سے سوال:
(1) عالم الغیب ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ کیوں نہ چلا کہ ان ستر صحابہ حفاظ قرآن کو شہید کیا جائے گا؟
۔