• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ علم غیب کیا ہے (بریلوی بھائیوں کو حق کی دعوت) اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کی مدد کریں - آمین

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
زادکم اللہ علما وعملا
ماشاء اللہ آپ نے بڑے حکمت بھرے انداز میں حقیقت مسءلہ کو واضح کیا ہے۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرماءے۔آمین
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ٣ البقرۃ ٣

اے نبی یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہارے پاس بھیجتے ہیں۔ اور جب وہ لوگ اپنے قلم بطور قرعہ ڈال رہے تھے کہ مریم کا کفیل کون بنے تو تم ان کے پاس نہیں تھے۔ اور نہ اس وقت ہی ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ ٣ آل عمران ٤٤

لوگو جب تک اللہ ناپاک کو پاک سے الگ نہ کر دے گا مومنوں کو اس حال میں جس میں تم ہو ہرگز نہیں رہنے دے گا۔ اور اللہ تم کو غیب کی باتوں سے بھی مطلع نہیں کرے گا۔ البتہ اللہ اپنے پیغمبروں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے سو تم اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو۔ اور اگر ایمان پر قائم رہو گے اور پرہیزگاری کرو گے تو تم کو اجر عظیم ملے گا۔ ٣ آل عمران ١٧٩

وہ دن یاد رکھنے کے لائق ہے جس دن اللہ پیغمبروں کو جمع کرے گا پھر ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ تو ہی غیب کی باتوں سے واقف ہے۔ ٥ المآئدۃ ١٠٩

کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے اللہ کی طرف سے آتا ہے۔ کہہ دو کہ بھلا اندھا اور آنکھ والا برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟ ٦ الانعام ٥٠

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنکو اسکے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اسکو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں لکھی ہوئی ہے۔ ٦ الانعام ٥٩

کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر وہ جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں۔ ٧ الاعراف ١٨٨

کیا انکو معلوم نہیں کہ اللہ انکے بھیدوں اور مشوروں تک سے واقف ہے اور یہ کہ اللہ غیب کی باتیں جاننے والا ہے۔ ٩ التوبۃ ٧٨

اور کہتے ہیں کہ اس پر اسکے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی؟ کہدو کہ غیب کا علم تو اللہ ہی کو ہے سو تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ ١٠ یونس ٢٠

اور میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ ان لوگوں کی نسبت جنکو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ اللہ انکو بھلائی یعنی اعمال کی جزا نہیں دے گا۔ جو انکے دلوں میں ہے اسے اللہ خوب جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو بےانصافوں میں ہو جاؤں۔ ١١ ھود ٣١

یہ حالات غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ہی انکو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم ہی ان سے واقف تھی تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا بھلا ہے۔ ١١ ھود ٤٩

تم سب والد صاحب کے واپس پاس جاؤ اور کہو کہ ابا آپ کے صاحبزادے نے وہاں جا کر چوری کی۔ اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق آپ سے اسکے لے آنے کا عہد کیا تھا مگر ہم غیب کی باتوں کے جاننے اور یاد رکھنے والے تو نہیں تھے۔ ١٢ یوسف ٨١

اے پیغمبر یہ اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور جب برادران یوسف نے اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے تو تم انکے پاس تو نہ تھے۔ ١٢ یوسف ١٠٢

کیا اس نے غیب کی خبر پا لی ہے یا اللہ کے یہاں سے عہد لے لیا ہے؟ ١٩ مریم ٧٨

کہدو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ ٢٧ النمل ٦٥

اور کافر کہتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی ہم پر نہیں آئے گی۔ کہدو کیوں نہیں آئے گی میرے پروردگار کی قسم وہ تم پر ضرور آ کر رہے گی وہ پروردگار غیب کا جاننے والا ہے ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور کوئی چیز ذرے سے بھی بڑی یا چھوٹی نہیں مگر کتاب روشن میں لکھی ہوئی ہے۔ ٣٤ سبا ٣
پھر جب ہم نے انکے لئے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑے سے جو انکے عصا کو کھاتا رہا پھر جب وہ گر پڑے تب جنوں کو معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے۔ ٣٤ سبا ١٤

کہدو کہ میرا پروردگار اوپر سے حق ہی نازل کرتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے۔ ٣٤ سبا ٤٨

اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ تو غیبت نہ کرو اور اللہ کا ڈر رکھو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے مہربان ہے۔ ٤٩ الحجرات ١٢

یا انکے پاس غیب کا علم ہے کہ یہ اسے لکھ لیتے ہیں۔ ٥٢ الطّور ٤١

کیا اسکے پاس غیب کا علم ہے کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ ٥٣ النجم ٣٥

یا انکے پاس غیب کی خبر ہے کہ اسے لکھتے جاتے ہیں۔ ٦٨القلم ٤٧

وہی غیب کا جاننے والا ہے سو کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا۔ ٧٢ الجن ٢٦

ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے اور اسکو غیب کی باتیں بتا دے تو اسکے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے۔ ٧٢ الجن ٢٧

اور وہ غیب کی باتوں کے ظاہر کرنے میں بخیل نہیں۔ ٨١ التَّکوِیر ٢٤
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ٹیگ کرنے کا شکریہ ویسے تو میں اس بات کی پبلسٹی کرنے کے خلاف ہوں کہ امی عائشہ پر تہمت لگائی گئی تھی کیونکہ کوئی بھی غیرت مند بیٹا یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کی ماں پر لگائی گئی تہمت کی اس طرح تشہیر کی جائے چاہے یہ تہمت لاکھ بار بھی جھوٹی ثابت ہوئی ہو لیکن کیا کروں کہ بار بار یہ صورت حال آگے آجاتی ہے اس لئے مجبور ہوکر جواب دے رہا ہوں اور آپ سب سے یہی گذارش کروں گا کہ اب اگر کیسی نے اس واقع سے کوئی دلیل دینے کی کوشش کی تو جواب کے لئے مجھے معذور سمجھا جائے شکریہ
جب امی عائشہ پر تہمت لگائی گئی تو رسول اللہ 40 دن تک پریشان رہے پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کرکے اس تہمت سے امی عائشہ کو بری کیا
اللہ ہر چیز کا جانے والا ہے پھر 40 دن تک اللہ نے وحی نازل کیوں نہیں کی اور جو عا لمین کے لئے رحمت ہیں ان کو کیوں پریشان رکھا ؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت عالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو بہترین نمونہ قرار دیا ہے 40 دن تک وحی نازل نہ کرنے میں بھی یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ جب امت میں کسی عورت یا مرد کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو وہ فوری طور سے کوئی فیصلہ نہ کرے اور یہ بات بھی مشاہدے سے ثابت ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اللہ ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے کہ عموما مرد یا عورت اس طرح کی تہمت سے بری ہوجا تے ہیں
اور دوسری بات یہ کہ سلفی نجدی یہ بات مانتے ہیں کہ صحابہ کا یہ عقیدہ تھا حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کہ
الله ورسوله أعلم‏
اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں
اس عقیدے کی تصدیق محدث فورم کے ٹیکنکی ناظم شاکر صاحب نے ان الفاظ سے کی ہے
اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ اعلم کہنا درست ہے اور اللہ و رسولہ اعلم کہنا رسول اللہ ﷺ کی حیات میں تو درست تھا ۔
http://forum.mohaddis.com/threads/اللہ-اعلم-یا-اللہ-و-رسولہ-اعلم؟؟؟.14347/
اب جب کہ صحابہ کا عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں یہ مان لیا گیا ہے اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں تو پھر یہ واقعہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ہی کا ہے تو کیا اس تہمت کے جھوٹا ہونے کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم نہیں ہوگا یقینا ہوگا مگر چونکہ یہ حضورﷺکا اپنے گھر کا معاملہ تھا اس لئے اپنی صفائی خود پیش کرنی مناسب نہ سمجھی اور وحیِ الٰہی کے منتظر رہے قرآنِ مجید نے اس موقع پر بہت زور بیان سے کام لیا اس لئے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہ کی عصمت و عفت ہی کا نہ تھا بلکہ اس خیرالبشر کی عزت و حرمت کا تھا جو ساری دنیا کے لئے معلم اخلاق بن کر آیا تھا اور جس نے کل جہاں کو نیک عملی اور پاک بازی کے آداب سکھائے تھے۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے روایت ہے جس کا مفہوم یہ کہ حضرت عائشہ نے فرمایا
" میں توسمجھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب آپ کی مراد بلا تاخیر پوری کر دینا چاہتا ہے۔"
یعنی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش ہوتی ہے اس خواہش کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ بلا تاخیر وحی نازل فرمادیتا ہے تو پھر اللہ تعالی نے اس واقع کےبارے وحی تاخیر سے نازل کیوں کی ؟ یہ صرف اس امت کی تعلیم کے لئے تھا کہ جب اس طرح کا کوئی حادثہ ہو تو اس کا فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کی جائے بلکہ ایسے موخر کیا جائے کہ اللہ ایسے اسباب پیدا فرمادے گا کہ بہتر انداز میں فیصلہ ہوجائے
والسلام
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ٹیگ کرنے کا شکریہ ویسے تو میں اس بات کی پبلسٹی کرنے کے خلاف ہوں کہ امی عائشہ پر تہمت لگائی گئی تھی کیونکہ کوئی بھی غیرت مند بیٹا یہ پسند نہیں کرے گا کہ اس کی ماں پر لگائی گئی تہمت کی اس طرح تشہیر کی جائے چاہے یہ تہمت لاکھ بار بھی جھوٹی ثابت ہوئی ہو لیکن کیا کروں کہ بار بار یہ صورت حال آگے آجاتی ہے اس لئے مجبور ہوکر جواب دے رہا ہوں اور آپ سب سے یہی گذارش کروں گا کہ اب اگر کیسی نے اس واقع سے کوئی دلیل دینے کی کوشش کی تو جواب کے لئے مجھے معذور سمجھا جائے شکریہ
جب امی عائشہ پر تہمت لگائی گئی تو رسول اللہ 40 دن تک پریشان رہے پھر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کرکے اس تہمت سے امی عائشہ کو بری کیا
اللہ ہر چیز کا جانے والا ہے پھر 40 دن تک اللہ نے وحی نازل کیوں نہیں کی اور جو عا لمین کے لئے رحمت ہیں ان کو کیوں پریشان رکھا ؟؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت عالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو بہترین نمونہ قرار دیا ہے 40 دن تک وحی نازل نہ کرنے میں بھی یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ جب امت میں کسی عورت یا مرد کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو وہ فوری طور سے کوئی فیصلہ نہ کرے اور یہ بات بھی مشاہدے سے ثابت ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اللہ ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے کہ عموما مرد یا عورت اس طرح کی تہمت سے بری ہوجا تے ہیں
اور دوسری بات یہ کہ سلفی نجدی یہ بات مانتے ہیں کہ صحابہ کا یہ عقیدہ تھا حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کہ
الله ورسوله أعلم‏
اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں
اس عقیدے کی تصدیق محدث فورم کے ٹیکنکی ناظم شاکر صاحب نے ان الفاظ سے کی ہے

اب جب کہ صحابہ کا عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں یہ مان لیا گیا ہے اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں تو پھر یہ واقعہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ہی کا ہے تو کیا اس تہمت کے جھوٹا ہونے کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم نہیں ہوگا یقینا ہوگا مگر چونکہ یہ حضورﷺکا اپنے گھر کا معاملہ تھا اس لئے اپنی صفائی خود پیش کرنی مناسب نہ سمجھی اور وحیِ الٰہی کے منتظر رہے قرآنِ مجید نے اس موقع پر بہت زور بیان سے کام لیا اس لئے کہ یہ واقعہ حضرت عائشہ کی عصمت و عفت ہی کا نہ تھا بلکہ اس خیرالبشر کی عزت و حرمت کا تھا جو ساری دنیا کے لئے معلم اخلاق بن کر آیا تھا اور جس نے کل جہاں کو نیک عملی اور پاک بازی کے آداب سکھائے تھے۔


بخاری کی اس حدیث سے کیا ثابت ہوتا ہے:

ـ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ،
قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،
عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ،
أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَءُ،
وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ ـ
وَهُوَ التَّعَبُّدُ ـ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ
الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ، فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ مَا أَنَا بِقَارِئٍ ‏"‏‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏.‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏.‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ ‏{‏اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ * خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ‏}‏ ‏"‏‏.‏ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رضى الله عنها فَقَالَ ‏"‏ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي ‏"‏‏.‏ فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ ‏"‏ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي ‏"‏‏.‏ فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلاَّ وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ‏.‏ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ
عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ ـ
وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ،
فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ
مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ،
وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ ـ
فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ‏.‏
فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَبَرَ مَا رَأَى‏.‏ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صلى الله عليه وسلم يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ ‏"‏‏.‏ قَالَ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا‏.‏ ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْىُ‏.‏ (

صحيح البخاري - كتاب بدء الوحى -

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سچے خوابوں کی شکل میں ہوئی، آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوتا پھر آپ کو تنہائی محبوب ہو گئی چنانچہ آپ غار حراء میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروف عبادت رہتے۔ آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس واپس آتے اور تقریبا اتنے ہی دنوں کے لئے پھر توشہ لے جاتے ۔ ایک روز جبکہ آپ غار حراء میں تھے یکایک آپ کے پاس حق آگیا اور ایک فرشتے نے آکر آپ سے کہا: پڑھو! آپ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر خوب بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو! میں نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر دبوچا یہاں‌تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی ، پھر چھوڑ کر کہا پڑھو! میں نے پھر کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس نے تیسری بار مجھے پکڑ کر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا، پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، اور تمہارا رب تو نہایت کریم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کو لے کر واپس آئے اور آپ کا دل دھڑک رہا تھا چنانچہ آپ (اپنی بیوی) حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "مجھے چادر اوڑھا دو مجھے چادر اوڑھا دو" انہوں نے آپ کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ کوف زدگی کی کیفیت دور ہوگئی پھر آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو واقعہ کی اطلاع دیتے ہوئے کہا: "مجھے اپنی جان کا ڈر ہے" حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا نے کہاقطعا نہیں اللہ کی قسم اللہ تعالی آپ کو کبھی رسول نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں فقیروں و محتاجوں کو کما کردیتے ہیں مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے سلسلہ میں پیش آنے والے مصائب میں مدد دیتے ہیں ۔
پھر حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس آئیں۔ ورقہ دور جہالت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی بھی لکھنا جانتے تھے۔ چنانچہ عبرانی زبان میں حسب توفیق الہی انجیل لکھتے تھے اس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے۔ ان سے حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا نے کہا بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اور بیان فرمادیا اس پر ورقہ نے آپ سے کہا : یہ تو وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ ) ہے جسے اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا۔ کاش میں آپ کے زمانہ نبوت میں توانا ہوتا کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں ! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپ کا زمانہ نصیب ہوا تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی رک گئی۔

مذکورہ طویل حدیث ذکر کرنے کے بعد آپ سے غیب کے بارے میں سوالات ہیں:

(1) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم تھا تو پھر جبریل علیہ السلام کو وحی لانے کی کیا ضرورت؟

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بار یہی جواب دیتے: میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں - کیا یہ علم غیب جس کی آپ بات کررہے ہیں کے خلاف تو نہیں؟

(3) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب تھے تو پھر جبریل علیہ السلام سے ڈرے کیوں اور یہ کیوں فرمایا: "مجھے اپنی جان کا ڈر ہے" ؟ کیا ان کو پہلے سے غیب عطائی کے ذریعہ نہیں پتہ تھا کہ یہ جبریل امین ہیں ؟

(4) ورقہ بن نوفل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم الغیب ہونے کے باوجود یہ کیوں‌کہا: اچھا تو کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟

ممکن ہے آپ کہیں کہ نہیں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں ملا تھا جو بعد میں مل گیا۔ تو پھر قرآن کی اس آیت سے کیا ثابت ہوتا ہے:

وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا - إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا

(الکھف: 22 - 23)

اور ہرگز کسی بات کو نہ کہنا کہ میں کل یہ کردوں گا مگریہ کہ اللہ چاہے اور اپنے رب کی یاد جب تو بھول جائے اور یوں کہو کہ قریب میرا رب اس سے نزدیک تر راستی کی رہ دکھائے۔

(کنز الایمان فی ترجمہ القرآن )

تفسیر کنزالایمان میں ہے:

اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اصحاب کہف کا حال دریافت کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کل بتاؤں گا اور ان شاء‌اللہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل فرمائی ۔

(کنز الایمان فی ترجمہ القرآن : خزائن العرفان فی تفسیر القرآن از سید محمد نعیم الدین مراد آبادی / صفحہ 533 / مطبوع : ضیاء القرآن پبلیکشنز لاہور)

آپ سے سوالات ہیں:

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم الغیب ہونے کے باوجود یہ کیوں‌کہا کہ میں کل بتاؤں گا ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم نہیں تھا جیسا کہ تم لوگوں کا دعوی ہے؟

(2) وحی رکی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پتہ تھا کہ وحی رکے گی کیا علم غیب کے باوجود ان کو پتہ نہیں تھا؟

اور آئیے اس حدیث کی طرف:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَسَهْلُ بْنُ يُوسُفَ،
عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه
أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَتَاهُ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ وَعُصَيَّةُ وَبَنُو لِحْيَانَ، فَزَعَمُوا أَنَّهُمْ قَدْ أَسْلَمُوا، وَاسْتَمَدُّوهُ عَلَى قَوْمِهِمْ، فَأَمَدَّهُمُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِسَبْعِينَ مِنَ الأَنْصَارِ قَالَ أَنَسٌ كُنَّا نُسَمِّيهِمُ الْقُرَّاءَ، يَحْطِبُونَ بِالنَّهَارِ وَيُصَلُّونَ بِاللَّيْلِ، فَانْطَلَقُوا بِهِمْ حَتَّى بَلَغُوا بِئْرَ مَعُونَةَ غَدَرُوا بِهِمْ وَقَتَلُوهُمْ، فَقَنَتَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لِحْيَانَ‏.‏ قَالَ قَتَادَةُ وَحَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّهُمْ قَرَءُوا بِهِمْ قُرْآنًا أَلاَ بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا بِأَنَّا قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا‏.‏ ثُمَّ رُفِعَ ذَلِكَ بَعْدُ‏.‏ (

بخاری - كتاب الجهاد والسير - باب الْعَوْنِ بِالْمَدَدِ - حدیث 3102

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے اور سہل بن یوسف نے ان دونوں نے سعید بن ابی عروبہ سے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے انس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رعل اور ذکوان اور عصیہ اور بنی لحیان (قبیلے) کے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا ہم مسلمان ہوگئے ہیں لیکن ہماری قوم کے لوگ کافر ہیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے مقابل ہم کو مدد دیجشے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے (ان کی مدد اور تعلیم کیلئے) ستر(70) انصاریوں کو بھیجا۔ انس نے کہا ہم ان کو قاری کہا کرتے تھے۔ دن کو (جنگل سے) لکڑیاں لاتے (بیچ کر فقیروں کو کھلاتے) رات کو نماز پڑھتے رہتے۔ خیر جب یہ لوگ قاریوں کو لے کر بیر معونہ (مکہ اور عسفان کے درمیان) پر پہنچے تو ان سے دغا کی۔ ان کو مارڈالا تو ایک مہینہ تک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) (نماز میں) قنوت پڑھتے رہے۔ رعل اورذکوان اور بنی لحیان کیلئے بددعا کرتے رہے۔ قتادہ نے کہا ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہا صحابہ ان لوگوں کے باب میں قرآن کی یہ آیت (ایک مدت تک پڑھتے رہے۔ ہماری قوم کو یہ خبر یونہی پہنچا دو کہ ہم اپنے مالک سے مل گئے وہ ہم سے خوش ہم اس سے خوش ۔ پھر بعد میں اس کا پڑھنا موقوف ہوگیا۔

آپ سے سوال:

(1) عالم الغیب ہونے کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ کیوں‌ نہ چلا کہ ان ستر صحابہ حفاظ قرآن کو شہید کیا جائے گا؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بخاری کی اس حدیث سے کیا ثابت ہوتا ہے:

ـ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ،
قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،
عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،
عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ،
أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَءُ،
وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ ـ
وَهُوَ التَّعَبُّدُ ـ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ
الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ، فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ قَالَ ‏"‏ مَا أَنَا بِقَارِئٍ ‏"‏‏.‏ قَالَ ‏"‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏.‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏.‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ ‏{‏اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ * خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ‏}‏ ‏"‏‏.‏ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رضى الله عنها فَقَالَ ‏"‏ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي ‏"‏‏.‏ فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ ‏"‏ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي ‏"‏‏.‏ فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلاَّ وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ‏.‏ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ
عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ ـ
وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ،
فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ
مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ،
وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ ـ
فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ‏.‏
فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَبَرَ مَا رَأَى‏.‏ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صلى الله عليه وسلم يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ ‏"‏‏.‏ قَالَ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا‏.‏ ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْىُ‏.‏ (

صحيح البخاري - كتاب بدء الوحى -

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سچے خوابوں کی شکل میں ہوئی، آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہوتا پھر آپ کو تنہائی محبوب ہو گئی چنانچہ آپ غار حراء میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروف عبادت رہتے۔ آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس واپس آتے اور تقریبا اتنے ہی دنوں کے لئے پھر توشہ لے جاتے ۔ ایک روز جبکہ آپ غار حراء میں تھے یکایک آپ کے پاس حق آگیا اور ایک فرشتے نے آکر آپ سے کہا: پڑھو! آپ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر خوب بھینچا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو! میں نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر دبوچا یہاں‌تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی ، پھر چھوڑ کر کہا پڑھو! میں نے پھر کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اس نے تیسری بار مجھے پکڑ کر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا، پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، اور تمہارا رب تو نہایت کریم ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات کو لے کر واپس آئے اور آپ کا دل دھڑک رہا تھا چنانچہ آپ (اپنی بیوی) حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "مجھے چادر اوڑھا دو مجھے چادر اوڑھا دو" انہوں نے آپ کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ کوف زدگی کی کیفیت دور ہوگئی پھر آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو واقعہ کی اطلاع دیتے ہوئے کہا: "مجھے اپنی جان کا ڈر ہے" حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا نے کہاقطعا نہیں اللہ کی قسم اللہ تعالی آپ کو کبھی رسول نہیں کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں فقیروں و محتاجوں کو کما کردیتے ہیں مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے سلسلہ میں پیش آنے والے مصائب میں مدد دیتے ہیں ۔
پھر حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی کے پاس آئیں۔ ورقہ دور جہالت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی بھی لکھنا جانتے تھے۔ چنانچہ عبرانی زبان میں حسب توفیق الہی انجیل لکھتے تھے اس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے۔ ان سے حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا نے کہا بھائی جان! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا اور بیان فرمادیا اس پر ورقہ نے آپ سے کہا : یہ تو وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ ) ہے جسے اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا۔ کاش میں آپ کے زمانہ نبوت میں توانا ہوتا کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں ! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپ کا زمانہ نصیب ہوا تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی رک گئی۔

مذکورہ طویل حدیث ذکر کرنے کے بعد آپ سے غیب کے بارے میں سوالات ہیں:

(1) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم تھا تو پھر جبریل علیہ السلام کو وحی لانے کی کیا ضرورت؟

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر بار یہی جواب دیتے: میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں - کیا یہ علم غیب جس کی آپ بات کررہے ہیں کے خلاف تو نہیں؟

(3) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب تھے تو پھر جبریل علیہ السلام سے ڈرے کیوں اور یہ کیوں فرمایا: "مجھے اپنی جان کا ڈر ہے" ؟ کیا ان کو پہلے سے غیب عطائی کے ذریعہ نہیں پتہ تھا کہ یہ جبریل امین ہیں ؟

(4) ورقہ بن نوفل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم الغیب ہونے کے باوجود یہ کیوں‌کہا: اچھا تو کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟

ممکن ہے آپ کہیں کہ نہیں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں ملا تھا جو بعد میں مل گیا۔ تو پھر قرآن کی اس آیت سے کیا ثابت ہوتا ہے:
سب سے پہلے تو میں نے آپ کی اس پوسٹ کے اقتباس میں جن الفاط کو سرخ رنگ زدہ کیا آپ ان کو ایڈیٹ کر لیں کیوں کہ یہ جملہ کفر کی حد کو چھو رہا ہے اور اس قول کو آپ نے ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا کی طرف منسوب کیا ہوا ہے اگر آپ کے پاس ایڈیٹ کا آپشن اب ختم ہوچکا ہے تو میں انتظامیہ سے درخواست کروں گا کہ وہ اس کی تصیح فرمادیں اللہ آپ کو جزاء خیر عطاء فرمائے آمین

اس روایت کی علت پر غور کریں
یہ حدیث حضرت امی عائشہ نے کس سے سنی اس میں یہ بیان نہیں کیا گیا کیونکہ جب وہی کی ابتدا ہوئی اس وقت یا تا امی عائشہ کی ولادت ہی نہیں ہوئی ہوگی یا پھر اس وقت شیر خوار بچی ہونگی اس لئے ان سارے واقعات کا ان کے مشاہدے میں آنا اور پھر ان سب کو اتنی ڈیٹل سے یاد رکھنا محال ہے ۔ اگر یہ سب باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خود بیان کی ہوتی تو پھر وہ خود بھی اور امام بخاری بھی اس کا ذکر ضرور کرتے اس لئے آپ کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات اس علت کے دور ہوجانے کے بعد ان شاء اللہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
سب سے پہلے تو میں نے آپ کی اس پوسٹ کے اقتباس میں جن الفاط کو سرخ رنگ زدہ کیا آپ ان کو ایڈیٹ کر لیں کیوں کہ یہ جملہ کفر کی حد کو چھو رہا ہے اور اس قول کو آپ نے ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا کی طرف منسوب کیا ہوا ہے اگر آپ کے پاس ایڈیٹ کا آپشن اب ختم ہوچکا ہے تو میں انتظامیہ سے درخواست کروں گا کہ وہ اس کی تصیح فرمادیں اللہ آپ کو جزاء خیر عطاء فرمائے آمین


بہرام بھائی یہ ٹائپ کرنے میں غلطی ھو گئی ہے - میرے پاس ایڈٹ کا آپشن نہیں ہے - میری انتظامیہ
سے گزارش ہے کہ اس کو ایڈٹ کر دیں -





۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


اس روایت کی علت پر غور کریں

یہ حدیث حضرت امی عائشہ نے کس سے سنی اس میں یہ بیان نہیں کیا گیا کیونکہ جب وہی کی ابتدا ہوئی اس وقت یا تا امی عائشہ کی ولادت ہی نہیں ہوئی ہوگی یا پھر اس وقت شیر خوار بچی ہونگی اس لئے ان سارے واقعات کا ان کے مشاہدے میں آنا اور پھر ان سب کو اتنی ڈیٹل سے یاد رکھنا محال ہے ۔ اگر یہ سب باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خود بیان کی ہوتی تو پھر وہ خود بھی اور امام بخاری بھی اس کا ذکر ضرور کرتے اس لئے آپ کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات اس علت کے دور ہوجانے کے بعد ان شاء اللہ



کیا آپ حدیث کا انکار کر رھے ہیں یا اس حدیث کے بارے میں مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں - پہلے یہ بتا دیں کہ آپ کا اس حدیث کے بارے میں کیا خیال ہے - کیا یہ حدیث امی عائشہ راضی اللہ نے بیان کی ہے یا امام امام بخاری رحم اللہ نے ویسے ہی لکھ دی - جیسا کہ آپ کی باتوں سے ظاہر ہے -

۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حسبنا الله ونعم الوكيل

کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو الله چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں
سورۃ الاعراف ، آیت 188
 
Top