یہی سر کھپا رہا ہوں پر بھاءی لگے ہوئے ہیں اپنی دھن مین
وقاص بھائی :۔
مولانا ثنا ء اللہ امرتسری ؒ فرماتے ہیں:۔
مسئلہ وحدت الوجود
اس صورت میں اس پر بحث کی جائے کہ قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت دیا جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین و من بعدہم کے زمانہ میں نہ تھا۔ اس کا مدعا بیان کرنے میں دو قول ہیں۔ ایک موافق شرح دوسرا مخالف شرح 1۔ ساری دنیا کا وجود یعنی ہستی بخشنے والا ایک ہے۔ جس کا نام القیوم ہے۔ 2۔ دوسرے معنی میں موجودات بلحاظ اصل کے سب ایک ہیں۔ (3 مارچ 1933ء)
در انجمن فرق نہاں خانہ جمع باللہ ہمہ اوست ثم باللہ ہمہ اوست
شرفیہ
میں کہتا ہوں(مروجہ ) تصوف جو گبوں سادھووں کا فلسفہ ہے۔ ہمہ اوست کا عقیدہ صریح کفر ہے۔ یہ قرآن وحدیث کی تکذیب ہے۔ اس عقیدہ پر نہ اللہ تعالیٰ معبود رہتا ہے۔ نہ خالق نہ رازق نہ مبعبود پھر نہ کچھ حلال نہ حرام۔ اپنے خیالات رکھنے والے اور پھر مسلمانی کا دم بھرنے والے۔ حقیقت میں شیطان کے بندے ہیں۔ بے ایمان ہیں۔ یہ لوگ محض تقیہ اور نفاق کے طور پر شریعت کا دم بھرتے ہیں۔ رسمی طور پر نہ دل سے ۔
وحت الوجود اور اس کی تشریح
رسالہ ''معارف''اعظم گڑھ میں مسئلہ وحدت الوجود لکھتے ہوئے۔ راقم مضمون نے ایک فقرہ یہ بھی لکھ دیا کہ ہم نے ابراہیم سیالکوٹی سے یہ مسئلہ وحدۃ لوجود کے متعلق دریافت کیا تھا۔ وحدت الوجود کے سوا چارہ نہیں۔
یہ جواب جن اصحاب اکی نظر میں اہل حدیث کے مسلک سے اجنبی معلوم ہوا۔ انھوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کی کیا رائے ہے۔ میں اپنے تصور علم اور مسلک تصوف سے علیحدگی کا مقر چوں۔ میں نے مولانا محمود الحسن دیوبندی مرحوم سے سنا تھا کہ یہ مسئلہ مزلۃ الاقدام ہے۔ اس لیے مجھے اس میں دخل دینے کی جرائت نہیں ہوتی مگر احباب کے اصرار سے جو کچھ میں نے سمجھا وہ عرض کرتا ہوں۔ وحدت الوجود کی دو قسمیں ہیں۔ ان دونوں میں وجود کے معنی قابل غور ہیں۔ وجود کے اصل معن ہیں
ما بہ الموجودیۃ یعنی جس کی وجہ سے کوئی چیز موجود ہوجائئے۔ اس کی پہلی تشریح یہ ہے کہ جتنی اشیاء نظر آتی ہیں۔ ان سب کا وجود ما بہ الموجودیت صرف ایک ہی چیز ہے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے اس کے متعلق ایک پر معنی رباعی لکھی ہے۔
لا آدم فی افلکون ولا ابلیس لا ملک سلیمان ولا بلقیس
فالکل عبادۃ وانت المعنی یامر ھو المقلوب مقناطیس
شیخ ممدوح فرماتے ہیں کہ دنیا میں کسی چیز کی مستقل ہی نہیں ہے۔ یہ سب تیری قدرت کے نشان ہیں۔ اور تیری طرف توجہ دلانے والے ہیں۔ یہی مضمون ایک اردو شاعر نے یوں ادا کیا ہے۔
نظر آتا ہے جو کچھ نور وحدت کی تجلی سےرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ نقش اہل بصیرت کیلئے وجہ تسلی ہے۔
اس تشریح کے مطابق وحدۃ الوجود کی مثال یہ ہے۔ کہ کسی مکان کی کوٹھڑیوں میں مختلف رنگ کے شیشے لگادیئے جایئں۔ کوئی سفید۔ کوئی سرخ۔ کوئی سبز۔ کوئی سیاہ۔ ان کے پیچھے ایک لیمپ رکھ دیا جائے تو باہر سے دیکھنے والا ان شیشوں کو مختلف رنگوں میں دیکھے گا۔ ہاں ایک نظر لمپ کی وحدت کو ملحوظ رکھے گا۔ قرآن مجید بھی اس تشریح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت۔ ۔ ۔ ۔ اس تشریح کے مطابق وحدۃ الوجود کے معنی وحدۃ الموجد کے ہوں گے۔ جو بالکل ٹھیک ہے مولانا سیالکوٹی کا مطلب غالباً یہی ہوگا۔ وحدت الوجود کی دوسری تشریح میں وحدت الموجودات لئے جاتے ہیں۔ چنانچہ صوفیانہ رباعی اس تشریح کی یوں مظہر ہے۔
در ولق گدا ودر الطلس شاہ ہمہ اوست در منزل جاناںچوتر خویش گزشتی (1)
درانجمن فرق نہاں کانہ جمع باللہ ہمہ اوست خم باللہ ہمہ اوست
اس عقیدے کے صوفیاء کے نزدیک انجمن فرق سے مراد یہ دنیاوی امتیازات ہیں۔ نہاں خانہ سے مراد وہ وحدت بحت ہے جو ان امیتازات سے پہلے تھی۔ شاعر کہتا ہے اس انجمن دنیا میں بھی اور نہاں خانہ میں بھی وہی ایک ہے۔ دوسرا کوئی نہیں۔ غالب مرھوم گو اس فن کے آدمی نہ تھے مگر پھر بھی یہ کہہ گئے ہیں۔ فرماتے ہیں۔
جب کہ تجھ بن یہاں نہیں کوئی پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔
سکھوں کے گرونانک کا بھی یہی عقیدہ تھا جو کہہ گئے ہیں۔
آپے ٹھاکر آپے سیوک نانک جنت بے چارہ
یہ تشریح ایسی ہے کہ اس کو کوئی نوکر شرع نہیں مان سکتا۔ بدقسمتی سے یہی تشریح زیادہ مشہور بھی ہوگئی ہے۔
قادیانی کی آواز
مرزا صاھب قادیانی نے بھی ایک ٹریکٹ وحدۃ الوجود کے متعلق لکھا تھا اس میں آپ کہتے ہیں کہ ''وجود ہی ہر زرہ کو خدا مانتا ہے۔ پھر بڑے مزے کی بات لکھتے ہیں کہ وجود سے ہی گفتگو کرتے ہوئے اس کو زور سے کاٹنا چاہیے۔ اگر وہ سی کرے تو کہنا چاہیے کہ کیا خدا بھی سی کرتا ہے۔ کیا ہی عامیانہ طریق گفتگو ہے۔
مقام حیرت
حیدر آباد دکن سے ایک کتاب نکلی تھی جس میں وحدۃ الوجود بہ تشریح ثانی کی تایئد کئ گئی تھی۔ مرزا احمد قادیانی کو اس میں وحدہ الوجود کے قائلین میں لکھا تھا۔ (یا للعجب)
اطلاع
ناضرین کی آگاہی کےلئے میں بتاتا ہوں کہ اس مسئلے کے متعلق حضرت مجدد صاحب سرہندی کا ایک مکتوب اور مولانا اسماعیل شہید کا بھی ایک عربی مکتوب شائع شدہ ہے۔ ناظرین اس سے مزید فائدہ اٹھایئں۔ مولانا حالی نے اس کے متعلق ایک رباعی لکھی ہے۔ جو یہ ہے۔ (2) (اہل حدیث 12 جولائی۔ 1946ء)
مسلم نے حرم میں راگ گایا تیرا ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے انکار کسی سے بن نہ آیا تیرا
با شکریا
جلد 01 ص 148-150
محدث فتویٰ