اگر عقیقہ بڑے جانور میں کر لیا یا اسی طرح سے شادی میں ہی عقیقہ کر لیا تو ان دونوں صورت میں عقیقہ دوبارہ کرنا پڑے گا ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرب علماء کا جواب دیکھئے :
الجواب :
الحمد لله
ذبح البقرة بنية أن يقع بعضها عن عقيقة والبعض الآخر عن أضحية محل خلاف بين أهل العلم : فأجازه الحنفية والشافعية .
قال ابن عابدين الحنفي في جواز الاشتراك في مثل هذه الحالة : " وَشَمِلَ مَا لَوْ كَانَتْ الْقُرْبَةُ وَاجِبَةً عَلَى الْكُلِّ أَوْ الْبَعْضِ ، اتَّفَقَتْ جِهَاتُهَا أَوْ لَا: كَأُضْحِيَّةٍ وَإِحْصَارٍ وَجَزَاءِ صَيْدٍ وَحَلْقٍ وَمُتْعَةٍ وَقِرَانٍ ، خِلَافًا لِزُفَرَ، لِأَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ الْكُلِّ الْقُرْبَةُ، وَكَذَا لَوْ أَرَادَ بَعْضُهُمْ الْعَقِيقَةَ عَنْ وَلَدٍ قَدْ وُلِدَ لَهُ مِنْ قِبَلِ لِأَنَّ ذَلِكَ جِهَةُ التَّقَرُّبِ بِالشُّكْرِ عَلَى نِعْمَةِ الْوَلَد" انتهى من الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6 / 326) .
وفي الفتاوى الفقهية الكبرى لابن حجر الهيتمي الشافعي (4 / 256): "أَمَّا لَوْ ذَبَحَ بَدَنَةً أَوْ بَقَرَةً عَنْ سَبْعَةِ أَسْبَابٍ : مِنْهَا ضَحِيَّةٌ وَعَقِيقَةٌ ، وَالْبَاقِي كَفَّارَاتٌ فِي نَحْوِ الْحَلْقِ فِي النُّسُكِ ؛ فَيُجْزِي ذَلِكَ ؛ وَلَيْسَ هُوَ مِنْ بَابِ التَّدَاخُلِ فِي شَيْءٍ ؛ لِأَنَّ كُلَّ سُبُعٍ يَقَعُ مُجْزِيًا" انتهى.
ومنع الحنابلة من التشريك في العقيقة مطلقا , فلا تجزىء البقرة أو البدنة ، عندهم ، إلا عن عقيقة واحدة ، لولد واحد , جاء في شرح منتهى الإرادات (1 / 614):" (وَلَا تُجْزِئُ بَدَنَةٌ أَوْ بَقَرَةٌ) تُذْبَحُ عَقِيقَةً (إلَّا كَامِلَةً)" انتهى.
وفي المبدع في شرح المقنع (3 / 277): "والمذهب أنه لا يجزئ فيها (العقيقة) شرك في دم ، ولا يجزئ إلا بدنة ، أو بقرة كاملة" انتهى.
والراجح : عدم جواز التشريك في العقيقة ؛ لعدم ورود التشريك فيها ، بعكس الأضحية ، ولأن العقيقة تقع فداء عن المولود , فيلزم فيها التقابل والتكافؤ ، بأن تكون نفس بنفس , فلا يجزىء فيها إلا بقرة كاملة أو بدنة كاملة أو شاة كاملة .
قال الشيخ ابن عثيمين - رحمه الله تعالى - في الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 428): "(والبدنة والبقرة عن سبعة) يستثنى من ذلك العقيقة ، فإن البدنة لا تجزئ فيها إلا عن واحد فقط ، ومع ذلك فالشاة أفضل ؛ لأن العقيقة فداء نفس ، والفداء لا بد فيه من التقابل والتكافؤ ، فتفدى نفس بنفس ، ولو قلنا: إن البدنة عن سبعة لفديت النفس بسبع أنفس، ولهذا قالوا: لا بد من العقيقة بها كاملة ، وإلا فلا تجزئ .
وإذا كان عند الإنسان سبع بنات وكلهن يحتجن إلى عقيقة فذَبَحَ بدنة عن السبع فلا تجزئ.
ولكن هل تجزئ عن واحدة ؟ أو نقول هذه عبادة غير مشروعة على هذا الوجه ، فتكون بعير لحم ، ويذبح عقيقة لكل واحدة ؟ الثاني أقرب ، أن نقول: إنها لا تجزئ عن الواحدة منهن ؛ لأنها على غير ما وردت به الشريعة ، فيذبح عن كل واحدة شاة ، وهذه البدنة التي ذبحها تكون ملكاً له ، له أن يبيع لحمها ؛ لأنه تبين أنها لم تصح على أنها عقيقة" انتهى.
وينظر جواب السؤال رقم (82607)
وعلى ذلك : فلا يجزىء عنك أن تذبح بقرة تقع عن الأضحية والعقيقة عن ولديك , وعليك في العقيقة بالشياه فإنها أفضل .
قال الشيخ ابن عثيمين – رحمه الله – في الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 424): " .... إلا في العقيقة ، فالشاة أفضل من البعير الكامل ؛ لأنها التي وردت بها السنة ، فتكون أفضل من الإبل" انتهى. فتذبح عن الابن شاتين , وعن البنت شاة واحدة.
وأما الأضحية : فأنت فيها بالخيار بين الإبل والبقر والغنم , والأفضل فيها الإبل ، ثم البقر ، إن ضحيت بها كاملة دون شرك , ثم الغنم , وقد سبق بيان هذا بالتفصيل في الفتوى رقم (45767).
والله أعلم.
ترجمہ :
الحمد للہ:
گائے کا کچھ حصہ عقیقے کی نیت سے اور کچھ حصہ قربانی کی نیت سے ذبح کرنا علمائے کرام کے ہاں اختلافی مسئلہ ہے، چنانچہ حنفی اور شافعی فقہائے کرام اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
جیسے کہ ابن عابدین حنفی رحمہ اللہ صورت مسؤلہ کے جائز ہونے سے متعلق کہتے ہیں:
"[یہ صورت جائز ہے کہ] اگر قربانی میں شریک تمام شریکوں کی قربانی واجب ہو یا چند کی واجب ہو [اور دیگر کی قربانی نفل ہو] یا جانور ذبح کرنے کے مقاصد ایک ہوں یا الگ الگ ہوں [قربانی تب بھی جائز ہوگی] جیسے کہ : عید کی قربانی، [سفرِ حج میں]محصور ہوجانے پر [ذبح کی جانے والی قربانی]، [احرام کی حالت میں] شکار کرنے اور وقت سے پہلے بال منڈوانے پر [بطور کفارہ ] ذبح کیا جانے والا جانور، حج تمتع، یا حج قران کی قربانی [کرنے والے تمام لوگ ایک ہی جانور میں شریک ہو سکتے ہیں]، لیکن زفر کا موقف اس کے خلاف ہے، [جائز ہونے کی دلیل یہ ہے کہ] تمام شرکاء کا مقصد قربانی کرنا ہے ، بلکہ اگر کوئی شریک پہلے سے پیدا شدہ اپنے کسی بچے کا عقیقہ کرنا چاہے تو وہ عقیقے کی نیت سے قربانی کے جانور میں شریک ہو سکتا ہے؛ کیونکہ عقیقہ بھی نعمتِ اولاد کے ملنے پر کی جانے والی قربانی ہوتی ہے" انتہی
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6 / 326)
اسی طرح "الفتاوى الفقهية الكبرى" (4 / 256) میں ابن حجر ہیتمی شافعی لکھتے ہیں :
"اگر کوئی شخص سات مختلف اسباب کی بنا پر ایک گائے یا اونٹ ذبح کر دیتا ہے، مثلاً: عید کی قربانی، عقیقہ، احرام کی حالت میں بال کٹوانے کا کفارہ وغیرہ تو یہ جائز ہو گا؛ اس سے ایک چیز کا دوسری چیز میں داخل ہونا بھی لازم نہیں آئے گا؛ کیونکہ [گائے ، اونٹ کی ]قربانی کا ایک حصہ مکمل ایک قربانی ہوتی ہے۔" انتہی
لیکن راجح یہ ہے کہ عقیقے میں شراکت داری جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عقیقے میں شراکت کا ذکر کہیں نہیں ملتا، عید کی قربانی کے متعلق شراکت کا ذکر ملتا ہے، ویسے بھی عقیقہ پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے ، اس لیے جس طرح بچہ ایک مکمل جان ہے اسی طرح فدیہ میں ذبح کیا جانے والا جانور بھی مکمل ہونا چاہیے، لہذا عقیقے میں مکمل گائے یا مکمل اونٹ یا مکمل بکری ہی ذبح کرنا کافی ہو گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 428) میں کہتے ہیں:
"اونٹ یا گائے سات افراد کی طرف سے قربانی کیلیے کافی ہوتے ہیں، لیکن اس میں عقیقہ کو مستثنیٰ رکھا جائے گا؛ کیونکہ عقیقے میں مکمل ایک اونٹ ہونا ضروری ہے، لیکن پھر بھی عقیقے میں چھوٹا جانور [بکرا، بکری] ذبح کرنا افضل ہے؛ کیونکہ عقیقے میں بچے کی جان کا فدیہ دینا ہوتا ہے اور فدیہ مکمل جانور سے ہی ممکن ہے ، لہذا پوری جان کے بدلے میں پورا جانور ذبح کیا جائے گا۔
اگر ہم یہ کہیں کہ : اونٹ کی سات افراد کی جانب سے قربانی ہوتی ہے ، لہذا عقیقے میں اونٹ ذبح کرنے سے سات افراد کا فدیہ ہو جائے گا؟! [اہل علم کہتے ہیں] کہ عقیقے میں مکمل جانور کا ہونا ضروری ہے اس لیے ساتواں حصہ عقیقے کیلیے صحیح نہیں ہو گا۔
مثال کے طور پر ایک کسی شخص کی سات بیٹیاں ہوں اور سب کی طرف سے عقیقہ کرنا باقی ہو تو وہ شخص ساتوں بیٹیوں کی جانب سے عقیقے کے طور پر ایک اونٹ ذبح کر دیتا ہے تو یہ کفایت نہیں کر ے گا۔
لیکن کیا اگر اس طرح ساتوں بیٹیوں کا عقیقہ نہیں ہوا ، تو کیا ایک بیٹی کا عقیقہ ہو جائے گا ؟ یا ہم یہ کہیں کہ یہ عبادت شرعی طریقے پر نہیں کی گئی اس لیے یہ گوشت والا جانور شمار ہو گا اور ہر ایک کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے گا؟ دوسرا موقف زیادہ بہتر لگتا ہے، یعنی کہ ہم کہیں گے کہ: اس طرح کسی ایک لڑکی کی طرف سے بھی عقیقہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس کا طریقہ کار شرعی طریقے کے مطابق نہیں تھا، اس لیے اس شخص کو ہر بیٹی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا ہو گی، اور ذبح شدہ یہ اونٹ اس کی ملکیت ہی رہے گا اب وہ اسے جو چاہے کر ے اس لیے وہ اس کا گوشت فروخت کر سکتا ہے؛ کیونکہ یہ بطور عقیقہ ذبح نہیں ہوا" انتہی
مزید کیلیے دیکھیں: (82607).
اس بنا پر خلاصہ یہ ہے کہ:
آپ کوایک جانور قربانی اور عقیقے کی مشترکہ نیت سے ذبح کرنا کفایت نہیں کرے گا، اس لیے عقیقے کیلیے الگ بکری ذبح کریں یہ افضل ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 424) میں کہتے ہیں:
"عقیقے میں بکری ذبح کرنا مکمل اونٹ ذبح کرنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ عقیقہ کرتے ہوئے احادیث میں صرف بکری کا ذکر ہی ملتا ہے، ا س لیے عقیقے میں بکری ذبح کرنا ہی افضل ہو گا" انتہی
اس لیے آپ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور بیٹی کی جانب سے ایک بکری ذبح کریں گے۔
جبکہ عید کی قربانی کے حوالے سے آپ کو اختیار ہے، آپ اونٹ، گائے، یا بکری ذبح کر لیں، عید کی قربانی میں مکمل اونٹ افضل ہے، اس کے بعد مکمل گائے اور پھر بکری ، اس بارے میں مکمل تفصیلات پہلے فتوی نمبر: (45767) میں موجود ہیں۔
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ