محترم، محمد علی جواد
آپ خود اپنا لکھا بھول جاتے ہیں میں یاد دلا دیتا ہوں آپ نے اجتماعیت فرمایا تھا جمہور یا اکثریت نہیں اور میں نے اجماع کی ہی دلیل دی تھی جمہور یا اکثریت کی نہیں اپ نے جس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اس کو امت کے محدثین صحیح اور حسن فرما رہے ہیں اور اس کی سند بھی صحیح ہے شیخ زبیر علی زئی نے اس پر پوری تحقیق پیش کی ہے جو اس فورم پر موجود ہے لنک پیش ہے
دوسری بات اپ نے جو حدیث میرے رد میں پیش کی ہے وہ میری ہی زبردست دلیل ہے کیونکہ امت گمراہی پر جمع نہیں ہو گی یعنی بحثیت مجموعی امت کبھی گمراہ نہیں ہو گی اور امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا تو امت کی اکثریت گمراہ ہو سکتی ہے مگر مجموعی امت گمراہی پر جمع نہیں ہو گی کیونکہ ایک گروہ حق پر رہے گا۔
الجھا ہے پاوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
موصوف صحابی کے ذاتی مشاہدے کے مقابلے پر تابعی کی بات کا اعتبار کر رہے ہیں جس بات پر معقل بن سنان بیعت توڑنے کو تیار ہو گئے اور یزید کے خلاف جنگ شروع کی ہے اب اپ کی اس روایت کی اسنادی حیثیت دیکھ لیتے ہیں ذرا امام المدائنی کا ترجمہ جاکر پڑھ امام حدیث کے علم کے حصول کے لئے بغداد سے باہر ہی نہیں گئے اور صخر بن جویریہ اپنے آخری ایام میں مدینہ سے باہر ہی نہیں گئے تو یہ روایت کب بیان ہوئی یہ ہے اپ کی پیش کردہ روایت کی حیثیت اور اس کے مقابلے پر صحابی رسول کا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے جس کی بنیاد پر وہ یزید کو فاسق اور شرابی فرما رہے ہیں اور صحابی کل عدول یہ اصول ہے تابعی کل عدول یہ کوئی اصول نہیں اس لئے یہ قول اگر ثابت بھی ہو تو صحابی رسول کے مقابلے بیت العنکبوت ہے
محترم -
آپ نے فرمایا کہ:
امت گمراہی پر جمع نہیں ہو گی یعنی بحثیت مجموعی امت کبھی گمراہ نہیں ہو گی اور امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا تو امت کی اکثریت گمراہ ہو سکتی ہے مگر بحیثیت مجموعی امت گمراہی پر جمع نہیں ہو گی کیونکہ ایک گروہ حق پر رہے گا۔ اس قول پر پر امام بخاری اور ابن ابی حاتم اور امام عقیلی رحم الله وغیرہ کی جرح موجود ہے -
اگر یہ قول بالفرض مان لیا جائے تو اس کا اصل مطلب ہے کہ یہ "
عقیدہ توحید" سے متعلق یہ امّت بحثیت مجمموعی گمراہ نہیں ہو گی-
(جیسا کہ بخاری کی روایت ہے کہ مجھے تم پر اس بات کا خوف نہیں کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے) - نا کہ اس سے یزید بن معاویہ رحمہ الله کی بیعت کا معامله لیا جائے یا ان کے کردار سے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ فاسق و فاجر انسان تھے-یہ لوگوں کی اپنی گھڑی ہوئی اختراع ہے کہ یزید بن معاویہ رحم الله امّت کے اجماعی عقیدے کے مطابق فاسق و فاجر تھے- دوم یہ کہ اگر حسین رضی الله عنہ کو اس گروہ میں شامل کیا جائے جو حق پر تھا (اور جن کے جانشین ہمیشہ حق پر رہینگے) اور جس نے یزید بن معاویہ کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا - تو کیا دوسرا گروہ گمراہ کہلاے گا- جس نے ان کو اس کارساز پر جانے سے منع کیا تھا یا جنہوں نے بذات خود بغیر زور زبردستی کے یزید بن معاویہ کی بیعت کی ؟؟- جن میں جید صحابہ کرام عبدللہ بن عباس رضی الله عنہ اور عبدللہ بن عمر رضی الله عنہ جیسے نفوس بھی تھے- ؟؟ اور ممعامله یہی نہیں رکتا بلکہ پھر تو حضرت عائشہ رضی الله عنھما اور سیدنا معاویہ رضی الله عنہ کو بھی اس اصول کے تحت اس گروہ میں شامل کرنا پڑے گا جو گمراہ تھے کہ علی رضی الله عنہ کے خلاف نبرد آزما ہوے - اور روایت کے مطابق جو گروہ حق پر رہا اور جس کی آل اولاد حق پر رہے گی تا قیامت تو وہ صرف اہل بیت ہی ہے باقی سب گمراہ ہیں؟؟ کیا کوئی عقلمند اس بات کا اثبات کرے گا ؟؟
آپ کی پیش کردہ معقل بن سنان رضی اللہ عنہ جس میں انہوں نے یزید کو فاسق اور شرابی کہا ہے-
روایت تخریج کے اعتبار سے صحیح نہیں -
قَالَ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ
عَوَانَةَ، وَأَبِي
زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ: إِنَّ مُسْلِمًا لَمَّا دَعَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ إِلَى الْبَيْعَةِ، يَعْنِي بَعْدَ وَقْعَةِ الْحَرَّةِ، قَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا فَعَلَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ، وَكَانَ لَهُ مُصَافِيًا، فَخَرَجَ نَاسٌ مِنْ أَشْجَعَ، فَأَصَابُوهُ فِي قَصْرِ الْعَرَصَةِ، وَيُقَالُ: فِي جَبَلِ أُحُدٍ، فَقَالُوا لَهُ: الأَمِيرُ يُسْأَلُ عَنْكَ فَارْجِعْ إِلَيْهِ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِهِ مِنْكُمْ، إِنَّهُ قَاتِلِي، قَالُوا: كَلا، فَأَقْبَلَ مَعَهُمْ، فَقَالَ لَهُ: مَرْحبًا بِأَبِي مُحَمَّدٍ، أَظُنُّكَ ظَمْآنَ [1] ، وَأَظُنُّ هَؤُلاءِ أَتْعَبُوكَ، قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: شَوِّبُوا لَهُ عَسَلا بِثَلْجٍ، فَفَعَلُوا وَسَقَوْهُ، فَقَالَ: سَقَاكَ اللَّهُ أَيُّهَا الأَمِيرُ مِنْ شَرَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، قَالَ: لا جَرَمَ وَاللَّهِ لا تَشْرَبُ بَعْدَهَا حَتَّى تَشْرَبَ مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ، قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ وَالرَّحِمَ، قَالَ: أَلَسْتَ قُلْتَ لِي بِطَبَرِيَّةَ وَأَنْتَ مُنْصَرِفٌ مِنْ عِنْدِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَقَدْ أَحْسَنَ جَائِزَتَكَ: سِرْنَا شَهْرًا وَخَسِرْنَا ظَهْرًا، نَرْجِعُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَنَخْلَعُ الْفَاسِقَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، عَاهَدْتُ اللَّهَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ لا أَلْقَاكَ فِي حَرْبٍ أَقْدِرُ عَلَيْكَ إِلا قَتَلْتُكَ، وَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ
اس میں
أَبِي زَكَرِيَّا الْعَجْلانِيِّ مجہول ہے-
راوی
عوانة : کے بارے میں ہے کہ اخباری و غیر ثقہ ہے - ابن حجر وغیرہ نے اس کو لسان المیزان وغیرہ میں اخباری قرار دیا ہے -
اس لئے آپ کی پیش کردہ یہ روایت
ضعیف ہے اور نا قابل اعتبار ہے-
یہ روایت اصحاب کرام رضوان الله اجمعین پر بھی تبرّا ہے- کہ
یہ پاک ہستیاں حکام وقت کی بیعت کرکے بعد میں توڑ دیتی تھیں - ؟؟ یعنی یہ نیم رافضی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نبی کے اصحاب دوغلے تھے (نعوذ باللہ) کہ ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ -یعنی جانتے بوجھتے -کہ حاکم شرابی و زانی ہے اس کی پہلے بیعت کی اور بعد میں توڑ دی- اس کو امر المعروف و نہی عن المنکر کی دعوت دینے کی ضرورت ہی محسوس کی -
یہ دین اسلام کا مزاج نہیں کہ حکام وقت کی بیعت کو کھیل تماشا بنایا جائے - کہ جب مرضی توڑ دی جائے. - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا تو حکم ہے کہ حاکم وقت کی ہر صورت اطاعت کرو - اس کی اطاعت سے مونھ مت موڑو - چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو- (یعنی بیعت نہ توڑو)-کیا صحابہ کرام سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے حکم سے رو گردانی کریں گے ؟؟
بخاری کی روایت میں تو واضح ہے کہ: ابن عمر رضی الله نے تو ان افراد سے براءت کا اظہار کیا جو بیعت توڑنے والے تھے چاہے یہ ان کا بیٹا ہو یا بہن بہنوئی ہوں ان کو ان کے عمل پر افسوس تھا جب ہی اس کو دغا بازی و غداری قرار دیا-