علت کے مسالک:
علت کے مسالک سے مراد وہ طرق ہیں جو علت پر دلالت کرتے ہیں، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہم ان میں سے صرف تین کو ذکر کریں گے۔
پہلا مسلک: علت پر نص صریح موجود ہو، اور ایسی نص صریح ہو جو علت پر ایسے الفاظ کے ساتھ دلالت کرے جن کو عربی زبان میں علت بتانے کےلیے ہی بنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر «من أجل»کے الفاظ ، جیسا کہ اللہ رب العالمین کے درج ذیل فرمان میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں: ﴿ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إسْرَائِيلَ ﴾ [المائدة:32] اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ بات فرض قرار دے دی تھی۔۔۔الخ
اور نبی کریمﷺ کے فرمان میں بھی یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں: «إنما جعل الاستئذان من أجل البصر» اجازت طلب کرنا ، نظر غلط انداز کی وجہ سے ہی تو مقرر کیا گیا ہے۔
اسی طرح «الباء»ہے، جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿ فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ ﴾ الآية [المائدة:13] ان کے اپنے پختہ وعدے توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان لعنت اور پھٹکار ڈالی۔۔۔الخ
اسی طرح «اللام»ہے، جیسا اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد عالی میں ہے: ﴿ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدََاءََ عَلَى النَّاسِ ﴾ [البقرة:143] اور اسی طرح ہم نے تمہیں معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔
اور اس فرمان ذیشان میں ہے: ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنسَ إلاَّ لِيعْبُدُونِ ﴾ [الذاريات:56] میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں۔
اسی طرح «كي»ہے، جیسا کہ رب کائنات کے اس فرمان عالی شان میں یہ لفظ استعما ل ہوا ہے: ﴿ كَي لا يكُونَ دُولَةً بَينَ الأَغْنِياءِ ﴾ [الحشر:7] تاکہ دولت مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے۔
دوسرا مسلک: نص علت کی طرف اشارہ کرے، اس کا نام ’ایماء‘ اور ’تنبیہ‘ رکھا جاتا ہے۔ اس میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ حکم اس وصف کے ساتھ اس انداز میں ملا ہوا ہو کہ اگر وہ وصف علت نہ ہو تو عقل مندوں کے ہاں کلام عیب دار ہوجائے۔ اس کی کچھ اقسام ہیں، چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ فاء کے ذریعے حکم کو علت پر معلق کردینا، اس انداز میں کہ فاء علت پر داخل ہو اور حکم اس سے پہلے موجود ہو، جیسا کہ یہ بات آپ ﷺ کے اس فرمان میں موجود ہے جو آپﷺ نے اس حاجی کے بارے میں ارشادفرمایا تھا جس کو اس کی اونٹنی نے گرا کر مار ڈالا تھا۔فرمایا: «وكفنوه في ثوبيه فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا» اس کو اس کے انہی دو (احرام والے)کپڑوں میں کفن دے دو کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھے گا۔
یا پھر فاء حکم پر داخل ہو اور علت اس سے پہلے موجود ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيدِيهُمَا ﴾ [المائدة:38] چوری کرنے والے مرد وعورت دونوں کا ہاتھ کاٹ دو۔
اور اس فرمان باری تعالیٰ میں بھی ہے: ﴿ وَيسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ﴾ [البقرة:222] وہ آپﷺ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپﷺ فرمادیجئےکہ وہ ایک تکلیف اور بیماری ہے تو تم حالت حیض میں اپنی بیویوں سے الگ رہو۔
اسی کے ساتھ حدیث کی وہ قسم ملتی ہے جسے راوی ’فاء‘ کے ذریعے ترتیب دے کر بیان کرے۔ مثلاً : «سها النبي صلى الله عليه وسلم فسجد» نبی کریمﷺ بھول گئے تو آپ نے سجدہ سہو کیا۔«زنا ماعز فرجم» ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ نے زنا کیا تو انہیں رجم کیا گیا۔
2۔ حکم کا وصف پر شرط اور جزاء کے صیغے کے ذریعے مترتب ہونا۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین کے مندرجہ ذیل فرامین گرامی ہیں: ﴿ وَمَن يتَّقِ اللَّهَ يجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴾ [الطلاق:2] جو اللہ سے ڈرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کےلیے (مشکلات سے)نکلنے کا راستہ بنا دیں گے۔
﴿ وَمَن يتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ [الطلاق:3] اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوجائیں گے۔
3۔ یہ کہ شارع کسی حادثہ کے بعد ،جس کے بارے میں سوال کیا جائے، کوئی حکم لگادے، جیسا کہ آپﷺ نے دیہاتی سے کہا: «أعتق رقبة» ایک غلام آزاد کر۔
تو یہ اس کے اس سوال کا جواب تھا جو اس نے کیا تھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کربیٹھا ہے۔ تو اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ روزے کی حالت میں اپنی بیوی پر واقع ہوجانا کفارہ واجب ہوجانے کی علت ہے۔
4۔ یہ کہ حکم کے ساتھ کسی ایسی چیز کو ذکر کرنا کہ اگر اس کے ذریعے تعلیل بیان نہ کی جاتی ہو تو اس کا ذکر کرنا بے فائدہ ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ یہ کہ سائل کسی واقعے کے متعلق ایسے امر کے ساتھ بولے جس وجود ظاہر ہو ، پھر وہ اس کے بعد حکم ذکرکرے۔جیسا کہ آپﷺ نے اس وقت فرمایا تھا جب آپﷺ سے تازہ کھجوروں کی خشک کھجوروں کے بدلے بیع کرنے کے متعلق پوچھا گیا: «أينقص الرطب إذا يبس؟» کیا تازہ کھجوریں جب خشک ہوتی ہیں تو کم ہوجاتی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ تو آپﷺ نے فرمایا: پھر اس کی تجارت کرنا صحیح نہیں ہے۔تو اگر خشک ہوکر تازہ کھجوریں کا کم ہونا ممانعت کی علت نہ ہوتا تو اس کے بارے میں سوال کرنا بے کار ہوتا۔
۲۔ یہ کہ جواب میں سوال کے محل کی ہم مثل کی طرف پھرا جائے ، جیسا کہ روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ سے جب خثعمی قبیلہ کی عورت نے والدین کی طرف سے حج کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے والد صاحب پر کوئی قرضہ ہوتا اور تم اسے ادا کردیتیں تو کیاتیری ادائیگی اسے فائدہ پہنچاتی؟ اس نے کہا: جی ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا: «فدين الله أحق أن يقضى» تو اللہ کا قرض اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں پر قرض ہی علت تھا۔
تیسرا مسلک: علت پر اجماع ہو۔ کہ جب بھی امت کے مجتہدین کا کسی چیز کے علت ہونے پر اتفاق پایا جائے تو اس چیز کو علت قرار دینا صحیح ہوگا۔ اس کی مثال نابالغ ہونا ہے۔ تو اس بات پر اجماع ہے کہ مال کی ولایت کے ثبوت کےلیے یہ علت ہے تو اس پر نکاح کی ولایت کو قیاس کیا جائے گا۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر