• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علت کے مسالک,علت کی تصریح ہونے یا نہ ہونے ,علت میں اجتہاد کے اعتبار سے قیاس کی تقسیم

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
علت کے مسالک:

علت کے مسالک سے مراد وہ طرق ہیں جو علت پر دلالت کرتے ہیں، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، ہم ان میں سے صرف تین کو ذکر کریں گے۔

پہلا مسلک:
علت پر نص صریح موجود ہو، اور ایسی نص صریح ہو جو علت پر ایسے الفاظ کے ساتھ دلالت کرے جن کو عربی زبان میں علت بتانے کےلیے ہی بنایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر «من أجل»کے الفاظ ، جیسا کہ اللہ رب العالمین کے درج ذیل فرمان میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں: ﴿ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إسْرَائِيلَ ﴾ [المائدة:32] اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ بات فرض قرار دے دی تھی۔۔۔الخ

اور نبی کریمﷺ کے فرمان میں بھی یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں: «إنما جعل الاستئذان من أجل البصر» اجازت طلب کرنا ، نظر غلط انداز کی وجہ سے ہی تو مقرر کیا گیا ہے۔

اسی طرح «الباء»ہے، جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿ فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ ﴾ الآية [المائدة:13] ان کے اپنے پختہ وعدے توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان لعنت اور پھٹکار ڈالی۔۔۔الخ

اسی طرح «اللام»ہے، جیسا اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد عالی میں ہے: ﴿ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدََاءََ عَلَى النَّاسِ ﴾ [البقرة:143] اور اسی طرح ہم نے تمہیں معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔

اور اس فرمان ذیشان میں ہے: ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنسَ إلاَّ لِيعْبُدُونِ ﴾ [الذاريات:56] میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں۔

اسی طرح «كي»ہے، جیسا کہ رب کائنات کے اس فرمان عالی شان میں یہ لفظ استعما ل ہوا ہے: ﴿ كَي لا يكُونَ دُولَةً بَينَ الأَغْنِياءِ ﴾ [الحشر:7] تاکہ دولت مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے۔

دوسرا مسلک:
نص علت کی طرف اشارہ کرے، اس کا نام ’ایماء‘ اور ’تنبیہ‘ رکھا جاتا ہے۔ اس میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ حکم اس وصف کے ساتھ اس انداز میں ملا ہوا ہو کہ اگر وہ وصف علت نہ ہو تو عقل مندوں کے ہاں کلام عیب دار ہوجائے۔ اس کی کچھ اقسام ہیں، چند ایک درج ذیل ہیں:

فاء کے ذریعے حکم کو علت پر معلق کردینا، اس انداز میں کہ فاء علت پر داخل ہو اور حکم اس سے پہلے موجود ہو، جیسا کہ یہ بات آپ ﷺ کے اس فرمان میں موجود ہے جو آپﷺ نے اس حاجی کے بارے میں ارشادفرمایا تھا جس کو اس کی اونٹنی نے گرا کر مار ڈالا تھا۔فرمایا: «وكفنوه في ثوبيه فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا» اس کو اس کے انہی دو (احرام والے)کپڑوں میں کفن دے دو کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھے گا۔

یا پھر فاء حکم پر داخل ہو اور علت اس سے پہلے موجود ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيدِيهُمَا ﴾ [المائدة:38] چوری کرنے والے مرد وعورت دونوں کا ہاتھ کاٹ دو۔

اور اس فرمان باری تعالیٰ میں بھی ہے: ﴿ وَيسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ﴾ [البقرة:222] وہ آپﷺ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپﷺ فرمادیجئےکہ وہ ایک تکلیف اور بیماری ہے تو تم حالت حیض میں اپنی بیویوں سے الگ رہو۔

اسی کے ساتھ حدیث کی وہ قسم ملتی ہے جسے راوی ’فاء‘ کے ذریعے ترتیب دے کر بیان کرے۔ مثلاً : «سها النبي صلى الله عليه وسلم فسجد» نبی کریمﷺ بھول گئے تو آپ نے سجدہ سہو کیا۔«زنا ماعز فرجم» ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ نے زنا کیا تو انہیں رجم کیا گیا۔

حکم کا وصف پر شرط اور جزاء کے صیغے کے ذریعے مترتب ہونا۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین کے مندرجہ ذیل فرامین گرامی ہیں: ﴿ وَمَن يتَّقِ اللَّهَ يجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴾ [الطلاق:2] جو اللہ سے ڈرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کےلیے (مشکلات سے)نکلنے کا راستہ بنا دیں گے۔

﴿ وَمَن يتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ [الطلاق:3] اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوجائیں گے۔

یہ کہ شارع کسی حادثہ کے بعد ،جس کے بارے میں سوال کیا جائے، کوئی حکم لگادے، جیسا کہ آپﷺ نے دیہاتی سے کہا: «أعتق رقبة» ایک غلام آزاد کر۔

تو یہ اس کے اس سوال کا جواب تھا جو اس نے کیا تھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کربیٹھا ہے۔ تو اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ روزے کی حالت میں اپنی بیوی پر واقع ہوجانا کفارہ واجب ہوجانے کی علت ہے۔

یہ کہ حکم کے ساتھ کسی ایسی چیز کو ذکر کرنا کہ اگر اس کے ذریعے تعلیل بیان نہ کی جاتی ہو تو اس کا ذکر کرنا بے فائدہ ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ یہ کہ سائل کسی واقعے کے متعلق ایسے امر کے ساتھ بولے جس وجود ظاہر ہو ، پھر وہ اس کے بعد حکم ذکرکرے۔جیسا کہ آپﷺ نے اس وقت فرمایا تھا جب آپﷺ سے تازہ کھجوروں کی خشک کھجوروں کے بدلے بیع کرنے کے متعلق پوچھا گیا: «أينقص الرطب إذا يبس؟» کیا تازہ کھجوریں جب خشک ہوتی ہیں تو کم ہوجاتی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ تو آپﷺ نے فرمایا: پھر اس کی تجارت کرنا صحیح نہیں ہے۔تو اگر خشک ہوکر تازہ کھجوریں کا کم ہونا ممانعت کی علت نہ ہوتا تو اس کے بارے میں سوال کرنا بے کار ہوتا۔

۲۔ یہ کہ جواب میں سوال کے محل کی ہم مثل کی طرف پھرا جائے ، جیسا کہ روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ سے جب خثعمی قبیلہ کی عورت نے والدین کی طرف سے حج کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارے والد صاحب پر کوئی قرضہ ہوتا اور تم اسے ادا کردیتیں تو کیاتیری ادائیگی اسے فائدہ پہنچاتی؟ اس نے کہا: جی ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا: «فدين الله أحق أن يقضى» تو اللہ کا قرض اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں پر قرض ہی علت تھا۔

تیسرا مسلک:
علت پر اجماع ہو۔ کہ جب بھی امت کے مجتہدین کا کسی چیز کے علت ہونے پر اتفاق پایا جائے تو اس چیز کو علت قرار دینا صحیح ہوگا۔ اس کی مثال نابالغ ہونا ہے۔ تو اس بات پر اجماع ہے کہ مال کی ولایت کے ثبوت کےلیے یہ علت ہے تو اس پر نکاح کی ولایت کو قیاس کیا جائے گا۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
علت کی تصریح ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے قیاس کی تقسیم:

اس اعتبار سے قیاس تین اقسام میں منقسم ہوتا ہے:

قیاس علت: یہ وہ قیاس ہے جس میں اچھی مصلحت پر مشتمل مناسب وصف جمع ہوجائے تاکہ اس پر حکم مترتب کیا جاسکے۔ جیسا کہ نبیذ کو نشہ والی علت جامع کی وجہ سے شراب پر قیاس کرنا۔

قیاس دلالت: یہ وہ قیاس ہے جس میں اصل اور فرع کے درمیان کچھ ایسی اشیاء جمع ہوجائیں جو علت پر دلالت اور اس کی طرف رہنمائی کریں۔ جیسا کہ نبیذ کا شراب پر بدبو اور جوش مارنے کی وجہ سے قیاس کرنا کیونکہ یہ دونوں چیزیں علت پر دلالت کررہی ہیں جو نشہ ہے۔

اصل کے معنی میں قیاس: یہ وہ قیاس ہے جس میں صرف اس فارق کی نفی پر اکتفا کیا جاتا ہے جو حکم میں مؤثر ہوتا ہے، یہ مفہوم موافقت ہے اور قیاس جلی ہے جیسا کہ لونڈی کو اس کے اپنا حصہ آزاد کرنے والے شریک کے علاوہ دوسرے شریک کے حصہ کا قائم رہنے پر غلام پر قیاس کرنا۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,454
پوائنٹ
306
علت میں اجتہاد ہونے کے اعتبار سے اس کی تقسیم:

اس اعتبار سے علت کی تین قسمیں ہیں:

۱۔ علت کی تحقیق ۲۔ اس کی تنقیح ۳۔ اس کی تخریج

اصولیوں کی یہ عادت چلی آرہی ہے کہ وہ ان تینوں مصادر کو علت کے القاب میں سے ایک لقب ’مناط‘ کی طرف مضاف کردیتے ہیں۔مناط ’نوط‘ سے مشتق ہے اور نوط کا مطلب ہے ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ جوڑ دینا۔

اسی وجہ سے فقہاء نے مناط پر حکم کے متعلق کا اطلاق کیا ہے اور وہ اصل اور فرع کے درمیان علت جامع ہے۔

تحقیق المناط: اس کا مطلب ہے کہ فرع میں علت کے وجود کو ڈھونڈنا اور تلاش کرنا اور اس فرع میں علت کی تحقیق میں کوشش کرنا، اس پر نص کے آجانے کے بعد یا اس کی ذات پر اتفاق ہونے کے بعد۔ اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ یہ کہ کوئی قاعدہ کلیہ نص سے ثابت ہو یا بدیہی ہو اور مجتہد کسی ایک صورت میں علت کی تحقیق کرے اور اسے جزئیات پر منطبق کرے۔ نص میں قاعدہ کلیہ کی مثال اللہ رب العالمین کا یہ فرمان گرامی ہے: ﴿ فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ ﴾ [المائدة:95] تو اس شکار کرنے کا بدلہ اسی جیسا جانور ہے جیسا اس نے مارا ہے۔

اور وہ جزئی جس میں زیبرا کو شکار کرنے کے بدلے ایک گائے دینا ضروری ہے کیونکہ یہ دونوں مجتہد کی نظر میں برابر ہیں۔اس قسم پر سب کا اتفاق ہے اور یہ قیاس نہیں ہے۔

۲۔ اصل کی ذات میں علت پر اتفاق ہونے کے بعد فرع میں علت کو تلاش کرنا ، جیسا کہ اس بات کا معلوم ہونا کہ ہاتھ کاٹنے کی وجہ اور علت چوری ہی ہے تو مجتہد کفن چور پر کفن چوری کی وجہ سے یہی حکم لگائے گا کیونکہ اس نے بھی چور کی طرح حفاظت میں رکھی ہوئی چیز کو خفیہ انداز میں چرایا ہے۔

تنقیح المناط: لغت میں تنقیح کانٹ چھانٹ اور صفائی ستھرائی کو کہتے ہیں تو تنقیح المناط ان چیزوں کو ختم کرکے علت کی کانٹ چھانٹ اور صفائی ستھرائی کرنے کو کہتے ہیں جو علت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور ان کا علت میں کوئی اعتبار نہیں ہوسکتا۔

اس کی مثال اس بدو/اعرابی کا قصہ ہے جو نبی کریمﷺ کے پاس اس حال میں آیا کہ اپنا سینہ پیٹ رہا تھا اور بال نوچ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ : ہائے میں ہلاک ہوگیا، میں رمضان کے دن میں اپنی بیوی پر جا پڑا ، ہائے میں ہلاک ہوگیا۔ تو نبی کریمﷺ نے اسے حکم دیا کہ ایک گردن کو آزاد کرو۔ مکمل حدیث آپ حدیث کی کسی بھی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔

تو اس آدمی کا دیہاتی ہونا، اور اس کا اپنی بیوی پر واقع ہونا، اور اس کا سینہ پیٹتے اور بال نوچتے ہوئے آنا، یہ سب اوصاف علت بننے کے لائق نہیں ہیں ، لہٰذا ان کو لغو قرار دیا جائے گا۔

تو اگر کوئی شہری آدمی اپنی بیوی پر رمضان کے کسی دن میں صحبت کربیٹھےاور پھر بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ فتوی پوچھنے کےلیے آئے تو اسے بھی کفارہ ادا کرنے کا ہی فتوی دیا جائے گا۔

تخریج المناط: ا س کا مطلب یہ ہے کہ شارع کسی حکم پر علت بیان کیے بغیر نص بیان کردے تو مجتہد اپنے اجتہاد کے ذریعے اس سے علت تلاش کرے اور حکم کا محل دیکھے۔

مثال کے طور پرگندم کو دیکھیں کہ اس پر سود کی حرمت کا حکم بیان کردیا گیا ہے ، علت بیان نہیں کی گئی۔ تو اب مجتہد غوروفکر کے بعد یہ رائے قائم کرتا ہے کہ مثال کے طور پر اس کی علت پیمانہ ہے تو وہ اس پر چاول وغیرہ کو قیاس کرلیتا ہے۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top