• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء دیوبند کا علم غیب

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
نبی کریم صلی اللہ وسلم کے لیے غیب کا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے - فقہا احناف کی نظر میں​
لیکن علماء دیوبند کے متعلق یہی عقیدہ رکھنے والا کون ہے- یہ تو فقہ حنفی شریف والے ہی بتا سکتے ہیں​
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کرامتاً کسی چیز کا علم ہونا یا بذریعہ کشف یہ علم غیب میں کوئی بھی نہیں شمار کرتا کیوں کہ یہ دونوں درحقیقت باری تعالی کے افعال ہوتے ہیں۔ اور ان کے ذریعے علم اللہ پاک عطا فرماتے ہیں۔
سورہ کہف میں خضر علیہ السلام کا قصہ پڑھیں۔ ان کے بارے میں اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ نبی نہیں تھے بلکہ ولی تھے۔ لیکن انہیں جن چیزوں کا علم تھا وہ قرآن کریم خود بتاتا ہے۔ بچے کا کافر ہونا اور ماں باپ کو گمراہ کرنا وغیرہ یہ ظاہری نظر سے علم غیب میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن اللہ پاک نے فرمایا ہے وعلمناہ من لدنا علما۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کرامتاً کسی چیز کا علم ہونا یا بذریعہ کشف یہ علم غیب میں کوئی بھی نہیں شمار کرتا کیوں کہ یہ دونوں درحقیقت باری تعالی کے افعال ہوتے ہیں۔ اور ان کے ذریعے علم اللہ پاک عطا فرماتے ہیں۔
سورہ کہف میں خضر علیہ السلام کا قصہ پڑھیں۔ ان کے بارے میں اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ نبی نہیں تھے بلکہ ولی تھے۔ لیکن انہیں جن چیزوں کا علم تھا وہ قرآن کریم خود بتاتا ہے۔ بچے کا کافر ہونا اور ماں باپ کو گمراہ کرنا وغیرہ یہ ظاہری نظر سے علم غیب میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن اللہ پاک نے فرمایا ہے وعلمناہ من لدنا علما۔


کیا سورہ کہف میں خضر علیہ السلام کا قصہ اور دیوبند کے علماء کے قصّے برابر ہیں - قاسم نانوتوی جو اپنے مرید کا قصّہ لکھ رھے ہیں کہ جس گھر میں حمل ہوتا یہ بتا دیتے کہ لڑکا ھو گا یا لڑکی - لیکن اللہ تو قرآن میں یہ فرماتا ہے -


بیشک اللہ تعالٰی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا (یاد رکھو) اللہ تعالٰی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔‏

سوره لقمان آیات نمبر ٣٤


دیکھتے ہیں کہ کیا تاویل آتی ہے - دیوبند شریف حیاتی یا مماتی والوں کی طرف سے -

کیا پتا دیوبند کے علماء الٹراسا‎ؤند استعمال کرتے ہوں
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا سورہ کہف میں خضر علیہ السلام کا قصہ اور دیوبند کے علماء کے قصّے برابر ہیں - قاسم نانوتوی جو اپنے مرید کا قصّہ لکھ رھے ہیں کہ جس گھر میں حمل ہوتا یہ بتا دیتے کہ لڑکا ھو گا یا لڑکی - لیکن اللہ تو قرآن میں یہ فرماتا ہے -


بیشک اللہ تعالٰی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا (یاد رکھو) اللہ تعالٰی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔‏

سوره لقمان آیات نمبر ٣٤


دیکھتے ہیں کہ کیا تاویل آتی ہے - دیوبند شریف حیاتی یا مماتی والوں کی طرف سے -

کیا پتا دیوبند کے علماء الٹراسا‎ؤند استعمال کرتے ہوں
کوئی علمی رد کیجیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اب جن کے لیے قرآن کی آیات بھی علمی نہیں ان کو اور کیا پیش کیا جا ے -
نہیں جناب قرآن کی آیت میں تو بہت سے علوم ہیں لیکن آپ ان میں سے کسی کا اظہار نہیں کر سکے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,122
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کیا سورہ کہف میں خضر علیہ السلام کا قصہ اور دیوبند کے علماء کے قصّے برابر ہیں - قاسم نانوتوی جو اپنے مرید کا قصّہ لکھ رھے ہیں کہ جس گھر میں حمل ہوتا یہ بتا دیتے کہ لڑکا ھو گا یا لڑکی - لیکن اللہ تو قرآن میں یہ فرماتا ہے -


بیشک اللہ تعالٰی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا (یاد رکھو) اللہ تعالٰی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔‏

سوره لقمان آیات نمبر ٣٤


دیکھتے ہیں کہ کیا تاویل آتی ہے - دیوبند شریف حیاتی یا مماتی والوں کی طرف سے -

کیا پتا دیوبند کے علماء الٹراسا‎ؤند استعمال کرتے ہوں
لولی بھائی ! اشماریہ بھائی پر '' جمود ِ دیوبند '' طاری ہے۔ جو شخص قرآن کی بات کو ماننے میں تامل کرے بھلا اس سے بحث کا فائدہ ؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
کرامتاً کسی چیز کا علم ہونا یا بذریعہ کشف یہ علم غیب میں کوئی بھی نہیں شمار کرتا کیوں کہ یہ دونوں درحقیقت باری تعالی کے افعال ہوتے ہیں۔ اور ان کے ذریعے علم اللہ پاک عطا فرماتے ہیں۔
سورہ کہف میں خضر علیہ السلام کا قصہ پڑھیں۔ ان کے بارے میں اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ نبی نہیں تھے بلکہ ولی تھے۔ لیکن انہیں جن چیزوں کا علم تھا وہ قرآن کریم خود بتاتا ہے۔ بچے کا کافر ہونا اور ماں باپ کو گمراہ کرنا وغیرہ یہ ظاہری نظر سے علم غیب میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن اللہ پاک نے فرمایا ہے وعلمناہ من لدنا علما۔
محترم بھائی،
کتنی آسانی سے آپ کوئی نہ کوئی دلیل دے دیتے ہیں۔اس قدر وثوق سے ان لوگوں کا دفاع کرتے ہیں ، جن سے آپ کا واسطہ بھی نہیں رہا ہو گا۔
کاش کہ اتنا دفاع امت کے لیے غمزدہ ہونے والے ہمارے نبی کریم ﷺ کے لیے بھی کرتے ہوں ، جن کی دی ہوئی تعلیمات میں کوئی شبہ نہیں ، جبکہ ان اکابر کا معاملہ ایسا نہیں۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2486 حدیث مرفوع مکررات 23 متفق علیہ 19
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ وَأَفْهَمَنِي بَعْضَهُ أَحْمَدُ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ لَهَا أَهْلُ الْإِفْکِ مَا قَالُوا فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِنْهُ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَکُلُّهُمْ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا وَبَعْضُهُمْ أَوْعَی مِنْ بَعْضٍ وَأَثْبَتُ لَهُ اقْتِصَاصًا وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ عَائِشَةَ وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا زَعَمُوا أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزَاةٍ غَزَاهَا فَخَرَجَ سَهْمِي فَخَرَجْتُ مَعَهُ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجٍ وَأُنْزَلُ فِيهِ فَسِرْنَا حَتَّی إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْکَ وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ فَمَشَيْتُ حَتَّی جَاوَزْتُ الْجَيْشَ فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَی الرَّحْلِ فَلَمَسْتُ صَدْرِي فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ أَظْفَارٍ قَدْ انْقَطَعَ فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ فَأَقْبَلَ الَّذِينَ يَرْحَلُونَ لِي فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي فَرَحَلُوهُ عَلَی بَعِيرِي الَّذِي کُنْتُ أَرْکَبُ وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ وَکَانَ النِّسَائُ إِذْ ذَاکَ خِفَافًا لَمْ يَثْقُلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ وَإِنَّمَا يَأْکُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنْ الطَّعَامِ فَلَمْ يَسْتَنْکِرْ الْقَوْمُ حِينَ رَفَعُوهُ ثِقَلَ الْهَوْدَجِ فَاحْتَمَلُوهُ وَکُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا فَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ فَجِئْتُ مَنْزِلَهُمْ وَلَيْسَ فِيهِ أَحَدٌ فَأَمَمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي کُنْتُ بِهِ فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونَنِي فَيَرْجِعُونَ إِلَيَّ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ غَلَبَتْنِي عَيْنَايَ فَنِمْتُ وَکَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّکْوَانِيُّ مِنْ وَرَائِ الْجَيْشِ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَی سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ فَأَتَانِي وَکَانَ يَرَانِي قَبْلَ الْحِجَابِ فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَوَطِئَ يَدَهَا فَرَکِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ حَتَّی أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُعَرِّسِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ فَهَلَکَ مَنْ هَلَکَ وَکَانَ الَّذِي تَوَلَّی الْإِفْکَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَکَيْتُ بِهَا شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ مِنْ قَوْلِ أَصْحَابِ الْإِفْکِ وَيَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لَا أَرَی مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللُّطْفَ الَّذِي کُنْتُ أَرَی مِنْهُ حِينَ أَمْرَضُ إِنَّمَا يَدْخُلُ فَيُسَلِّمُ ثُمَّ يَقُولُ کَيْفَ تِيکُمْ لَا أَشْعُرُ بِشَيْئٍ مِنْ ذَلِکَ حَتَّی نَقَهْتُ فَخَرَجْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ مُتَبَرَّزُنَا لَا نَخْرُجُ إِلَّا لَيْلًا إِلَی لَيْلٍ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْکُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي الْبَرِّيَّةِ أَوْ فِي التَّنَزُّهِ فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ بِنْتُ أَبِي رُهْمٍ نَمْشِي فَعَثَرَتْ فِي مِرْطِهَا فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَقُلْتُ لَهَا بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلًا شَهِدَ بَدْرًا فَقَالَتْ يَا هَنْتَاهْ أَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالُوا فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الْإِفْکِ فَازْدَدْتُ مَرَضًا عَلَی مَرَضِي فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَی بَيْتِي دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ فَقَالَ کَيْفَ تِيکُمْ فَقُلْتُ ائْذَنْ لِي إِلَی أَبَوَيَّ قَالَتْ وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُ أَبَوَيَّ فَقُلْتُ لِأُمِّي مَا يَتَحَدَّثُ بِهِ النَّاسُ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّةُ هَوِّنِي عَلَی نَفْسِکِ الشَّأْنَ فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا کَانَتْ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا أَکْثَرْنَ عَلَيْهَا فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَلَقَدْ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِهَذَا قَالَتْ فَبِتُّ تِلْکَ اللَّيْلَةَ حَتَّی أَصْبَحْتُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَکْتَحِلُ بِنَوْمٍ ثُمَّ أَصْبَحْتُ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ فَأَمَّا أُسَامَةُ فَأَشَارَ عَلَيْهِ بِالَّذِي يَعْلَمُ فِي نَفْسِهِ مِنْ الْوُدِّ لَهُمْ فَقَالَ أُسَامَةُ أَهْلُکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا نَعْلَمُ وَاللَّهِ إِلَّا خَيْرًا وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْکَ وَالنِّسَائُ سِوَاهَا کَثِيرٌ وَسَلْ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْکَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيرَةَ فَقَالَ يَا بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ فِيهَا شَيْئًا يَرِيبُکِ فَقَالَتْ بَرِيرَةُ لَا وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ إِنْ رَأَيْتُ مِنْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا قَطُّ أَکْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ الْعَجِينِ فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْکُلُهُ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَوْمِهِ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَعْذُرُنِي مِنْ رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِي فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا وَقَدْ ذَکَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا وَمَا کَانَ يَدْخُلُ عَلَی أَهْلِي إِلَّا مَعِي فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا وَاللَّهِ أَعْذُرُکَ مِنْهُ إِنْ کَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ وَإِنْ کَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنْ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا فِيهِ أَمْرَکَ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ وَکَانَ قَبْلَ ذَلِکَ رَجُلًا صَالِحًا وَلَکِنْ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ فَقَالَ کَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَی ذَلِکَ فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ فَقَالَ کَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ وَاللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ فَإِنَّکَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنْ الْمُنَافِقِينَ فَثَارَ الْحَيَّانِ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّی هَمُّوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَنَزَلَ فَخَفَّضَهُمْ حَتَّی سَکَتُوا وَسَکَتَ وَبَکَيْتُ يَوْمِي لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَکْتَحِلُ بِنَوْمٍ فَأَصْبَحَ عِنْدِي أَبَوَايَ وَقَدْ بَکَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا حَتَّی أَظُنُّ أَنَّ الْبُکَائَ فَالِقٌ کَبِدِي قَالَتْ فَبَيْنَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْکِي إِذْ اسْتَأْذَنَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَذِنْتُ لَهَا فَجَلَسَتْ تَبْکِي مَعِي فَبَيْنَا نَحْنُ کَذَلِکَ إِذْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مِنْ يَوْمِ قِيلَ فِيَّ مَا قِيلَ قَبْلَهَا وَقَدْ مَکَثَ شَهْرًا لَا يُوحَی إِلَيْهِ فِي شَأْنِي شَيْئٌ قَالَتْ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ يَا عَائِشَةُ فَإِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْکِ کَذَا وَکَذَا فَإِنْ کُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُکِ اللَّهُ وَإِنْ کُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِهِ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّی مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً وَقُلْتُ لِأَبِي أَجِبْ عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لِأُمِّي أَجِيبِي عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا قَالَ قَالَتْ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لَا أَقْرَأُ کَثِيرًا مِنْ الْقُرْآنِ فَقُلْتُ إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّکُمْ سَمِعْتُمْ مَا يَتَحَدَّثُ بِهِ النَّاسُ وَوَقَرَ فِي أَنْفُسِکُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ قُلْتُ لَکُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَبَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي بِذَلِکَ وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَکُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَکُمْ مَثَلًا إِلَّا أَبَا يُوسُفَ إِذْ قَالَ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ ثُمَّ تَحَوَّلْتُ عَلَی فِرَاشِي وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يُبَرِّئَنِي اللَّهُ وَلَکِنْ وَاللَّهِ مَا ظَنَنْتُ أَنْ يُنْزِلَ فِي شَأْنِي وَحْيًا وَلَأَنَا أَحْقَرُ فِي نَفْسِي مِنْ أَنْ يُتَکَلَّمَ بِالْقُرْآنِ فِي أَمْرِي وَلَکِنِّي کُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ فَوَاللَّهِ مَا رَامَ مَجْلِسَهُ وَلَا خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّی أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَأَخَذَهُ مَا کَانَ يَأْخُذُهُ مِنْ الْبُرَحَائِ حَتَّی إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنْ الْعَرَقِ فِي يَوْمٍ شَاتٍ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْحَکُ فَکَانَ أَوَّلَ کَلِمَةٍ تَکَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ لِي يَا عَائِشَةُ احْمَدِي اللَّهَ فَقَدْ بَرَّأَکِ اللَّهُ فَقَالَتْ لِي أُمِّي قُومِي إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَا وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی إِنَّ الَّذِينَ جَائُوا بِالْإِفْکِ عُصْبَةٌ مِنْکُمْ الْآيَاتِ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَائَتِي قَالَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَکَانَ يُنْفِقُ عَلَی مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَی مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ مَا قَالَ لِعَائِشَةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا إِلَی قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ بَلَی وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي فَرَجَعَ إِلَی مِسْطَحٍ الَّذِي کَانَ يُجْرِي عَلَيْهِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي فَقَالَ يَا زَيْنَبُ مَا عَلِمْتِ مَا رَأَيْتِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا خَيْرًا قَالَتْ وَهِيَ الَّتِي کَانَتْ تُسَامِينِي فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ قَالَ وَحَدَّثَنَا فُلَيْحٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ مِثْلَهُ قَالَ وَحَدَّثَنَا فُلَيْحٌ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَيَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ مِثْلَهُ
ابو الربیع سلیمان بن داؤد احمد فلیح بن سلیمان ابن شہاب زہری عروہ بن زبیر وسعید بن مسیب علقمہ بن وقاص لیثی اور عبید اللہ بن عتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں انہوں نے تہمت لگانے والوں کا واقعہ بیان کیا جو لوگوں نے ان پر لگائی تھی اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کا اعلان کیا زہری نے کہا کہ ان میں سے ہر ایک نے اس حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا ان میں سے بعض ایک دوسرے سے زیادہ یاد رکھنے والے اور بیان کرنے میں معتبر تھے اور ان میں سے ہر ایک کی حدیث کو جو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کی ہے میں نے یاد رکھا اور ان میں ایک روایت دوسرے کی تصدیق کرتی ہے ان لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ان میں جس کا نام نکل آتا اس کو ساتھ لے کر جاتے ایک جنگ میں )غزوہ بنی مصطلق( جانے کے لیے قرعہ اندازی کی۔ تو میرا نام نکل آیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ گئی یہ واقعہ پردہ کی آیت اترنے کے بعد کا ہے میں ہودج میں سوار رہتی اور ہودج سمیت اتاری جاتی ہم لوگ اسی طرح چلتے رہے یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس غزوہ سے فارغ ہوئے اور لوٹے )واپسی میں( ہم لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روانگی کا اعلان کردیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روانگی کا اعلان کیا تو میں اٹھی اور چلی یہاں تک کہ لشکر سے آگے بڑھ گئی جب میں اپنی حاجت سے فارغ ہوئی اور اپنے ہودج کے پاس آئی میں نے اپنے سینہ پر ہاتھ پھیرا تو معلوم ہوا کہ میرا جزع اظفار کا ہار ٹوٹ کر گر گیا میں واپس ہوئی اور اپنا ہار ڈھونڈنے لگی اس کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی جو لوگ میرا ہودج اٹھاتے تھے آئے اور اس ہود کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی وہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ میں اس ہودج میں ہوں اس زمانہ میں عورتیں عموما ہلکی پھلکی ہوتی تھیں بھاری نہ ہوتی تھیں ان کی خوراک قلیل تھی اس لیے جب ان لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کا وزن انہیں خلاف معمول معلوم نہ ہوا اور اٹھا لیا مزید برآں میں ایک کم سن لڑکی تھیچنانچہ یہ لوگ اونٹ کو ہانک کر روانہ ہوگئے لشکر کے روانہ ہونے کے بعد میرا ہار مل گیا میں ان لوگوں کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں کوئی نہ تھا میں نے اس مقام کا قصد کیا جہاں میں تھی اور یہ خیال کیا کہ وہ مجھے نہ پائیں گے تو تلاش کرتے ہوئے میرے پاس پہنچ جائیں گے میں اسی انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی کہ نیند آنے لگی اور میں سوگئی صفوان بن معطل جو پہلے سلمی تھے پھر ذکوانی ہو گئے لشکر کے پیچھے تھے صبح کو میری جگہ پر آئے اور دور سے انہوں نے ایک سویا ہوا آدمی دیکھا تو میرے پاس آئے اور )مجھ کو پہچان لیا( اس لیے کہ پردہ کی آیت اترنے سے پہلے وہ مجھے دیکھتے تھے صفوان کے ) انا للہ وانا الیہ راجعون( پڑھنے سے میں جاگ گئی وہ میرا اونٹ پکڑ کر پیدل چلنے لگے یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچ گئے جب کہ لوگ ٹھیک دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لیے اتر چکے تھے تو ہلاک ہوگیا وہ شخص جسے ہلاک ہونا تھا اور تہمت لگانے والوں کا سردار عبداللہ بن ابی بن سلول تھا )جس نے صفوان کے ساتھ مجھے لگائی( خیر ہم لوگ مدینہ پہنچے اور میں
ایک مہینہ تک بیمار رہی تہمت لگانے والوں کی باتیں لوگوں میں پھیلتی رہیں
اور مجھے اپنی بیماری کی حالت میں شک پیدا ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس لطف سے پیش نہیں آتے تھے جس طرح )اس سے قبل( بیماری کی حالت میں لطف سے پیش آیا کرتے تھے اب تو صرف تشریف لاتے سلام کرتے پھر پوچھتے تو کیسی ہے؟ )پھر چلے جاتے( مجھے اس کی بالکل خبر نہ تھی یہاں تک کہ میں بہت کمزور ہوگئی )ایک رات( میں اور مسطح کی ماں مناصع کی طرف )رفع حاجت کے لیے( نکلیں ہم لوگ رات ہی کو جایا کرتے تھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ ہم لوگوں کے پاخانے ہمارے گھروں کے قریب نہ تھے اور عرب والوں کے پچھلے معمول کے موافق ہم لوگ جنگل میں یا باہر جا کر رفع حاجت کرتے تھے میں اور ام مسطح بنت ابی رہم دونوں چلے جا رہے تھے کہ وہ اپنی چادر میں پھنس کر گر پڑیں اور کہا کہ مسطح ہلاک ہوجائے میں نے اس سے کہا تو نے بہت بری بات کہی ایسے آدمی کو برا کہتی ہو جو بدر میں شریک ہوا اس نے کہا اے بی بی! کیا تم نے نہیں سنا جو یہ لوگ کہتے ہیں؟ اور اس نے مجھ سے تہمت لگانے والوں کی بات بیان کی یہ سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا۔ جب میں اپنے گھر واپس آئی تو میرے پاس رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا تو کیسی ہے؟ میں نے عرض کیا مجھے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیجئے اور اس وقت میرا مقصد یہ تھا کہ اس خبر کی بابت ان کے پاس جا کر تحقیق کروں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ اجازت دیدی میں اپنے والدین کے پاس آئی تو میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ لوگ کیا بیان کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہ بیٹی تو ایسی باتوں کی پرواہ نہ کر جو عورت حسین ہو اور اس کے شوہر کو اس سے محبت ہو اور اس کی سوکنیں ہوں تو اس قسم کی باتیں بہت ہوا کرتی ہیں۔ میں نے کہا سبحان اللہ اس قسم کی بات سوکنوں نے تو نہیں کی ایسی بات تو لوگوں میں مشہور ہو رہی ہے میں نے وہ رات اس حال میں گزاری کہ میرے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ مجھے نیند آئی پھر جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اسامہ بن زید کو جب وحی اترنے میں دیر ہوئی بلایا اور اپنی بیوی جو جدا کرنے کے متعلق ان دونوں سے مشورہ کرنے لگے اسامہ چونکہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی بیویوں سے محبت ہے اس لیے انہوں نے ویسا ہی مشورہ دیا اور کہا یا رسول اللہ میں آپ کی بیویوں میں بھلائی ہی جانتا ہوں۔ لیکن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تنگی نہیں کی۔ ان کے علاوہ عورتیں بہت ہیں اور لونڈی )بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ( سے دریافت کیجئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچ سچ بیان کرے گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا اے بریرہ کیا تو نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں کوئی ایسی بات دیکھی ہے جو تجھے شبہ میں ڈال دے بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو عیب کی ہو بجز اس کے کہ وہ کم سن ہیں اور گوندھا ہوا آٹا چھوڑ کر سوجاتی ہیں اور بکری آکر کھا جاتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن خطبہ دینے کھڑے ہوگئے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے مقابلہ میں مدد طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو میری مدد کرے؟ اس شخص کے مقابلہ میں جس نے مجھے میرے گھر والوں کے متعلق اذیت دی حالانکہ بخدا میں اپنے گھر والوں میں بھلائی دیکھتا ہوں اور جس مرد کے ساتھ تہمت لگائی اس میں بھی بھلائی ہی دیکھتا ہوں وہ گھر میں میرے ساتھ ہی داخل ہوتا تھا یہ سن کر سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کے لیے تیار ہوں اگر وہ قبیلہ اوس کا ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائی خزرج کے قبیلہ کا ہے تو جیسا حکم دیں عمل کروں یہ سن کر سعد بن عبادہ جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے کھڑے ہوئے اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے لیکن حمیت نے انہیں اکسایا اور کہا خدا کی قسم نہ تو اسے مار سکے گا اور نہ تو اس کے قتل پر قادر ہے پھر اسید بن حضیر کھڑے ہوئے اور کہا تو جھوٹ کہتا ہے خدا کی قسم ہم اس کو قتل کردیں گے تو منافق ہے منافقوں کی طرف جھگڑا کرتا ہے اوس و خزرج دونوں لڑائی کے لیے ابھر گئے یہاں تک کہ آپس میں لڑنے کا ارادہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر ہی تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے اور ان سب کے اشتعال کو فرو کیا یہاں تک کہ وہ لوگ خاموش ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی خاموش ہوگئے اور میں سارا دن روتی رہی نہ تو میرے آنسو تھمتے اور نہ مجھے نیند ہی آتی صبح کو میرے پاس والدین آئے میں دو رات اور ایک دن روتی رہی یہاں تک کہ میں خیال کرنے لگی تھی کہ رونے سے میرا کلیجہ شق ہوجائے گا وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اور میں رو رہی تھی کہ اتنے میں ایک انصاری عورت نے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے اسے اجازت دے دی وہ بیٹھ گئی اور میرے ساتھ رونے لگی ہم لوگ اس حال میں تھے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے حالانکہ اس سے پہلے جب سے کہ میرے متعلق تہمت لگائی گئی کبھی نہیں بیٹھے تھے ایک مہینہ تک انتظار کرتے رہے
لیکن میری شان میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشہد پڑھا پھر فرمایا اے عائشہ تمہارے متعلق مجھ کو ایسی ایسی خبر ملی ہے اگر تو بری ہے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پاکیزگی ظاہر کردے گا اور اگر تو اس میں مبتلا ہوگئی ہے تو اللہ سے مغفرت طلب کر اور توبہ کر اس لیے کہ جب بندہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے پھر توبہ کرلیتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو ختم کی تو میرے آنسو دفعتہ رک گئے یہاں تک ایک قطرہ بھی میں نے محسوس نہیں کیا اور میں نے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئے انہوں نے کہا بخدا میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں پھر میں نے اپنی ماں سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئے انہوں نے کہا بخدا میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کہوں
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں کمسن تھی اور قرآن زیادہ نہیں پڑھا تھا میں نے عرض کیا کہ بخدا میں جانتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ چیز سن لی ہے جو لوگوں میں مشہور ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں بیٹھ گئی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے اگر میں یہ کہوں کہ میں بری ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری بات کو سچا نہ جانیں گے اور اگر میں کسی بات کا اقرار کرلوں اور خدا جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سچا سمجھیں گے خدا کی قسم! میں نے اپنی اور آپ کی مثال حضرت یوسف کے والد کے سوا نہیں پائی جب کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ صبر بہتر ہے اور اللہ ہی میرا مدد گار ہے ان باتوں میں جو تم بیان کرتے ہو پھر میں نے بستر پر کروٹ بدل کی مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ میری پاکدامنی ظاہر فرما دے گا لیکن خدا کی قسم مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میرے متعلق وحی نازل ہوگی
اور اپنے دل میں اپنے آپ کو اس قابل نہ سمجھتی تھی کہ میرے اس معاملہ کا ذکر قرآن میں ہوتا بلکہ میں سمجھتی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ میری پاکدامنی ظاہر کردے گا پھر خدا کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جگہ سے ہٹے بھی نہ تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی تکلیف کی حالت طاری ہوگئی جو نزول وحی کے وقت طاری ہوا کرتی تھی سردی کے دن میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ سے نکلا وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہاری پاکدامنی بیان کردی مجھ سے
میری ماں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہوجا میں نے کہا نہیں خدا کی قسم! میں کھڑی نہیں ہوں گی اور صرف اللہ کا شکریہ ادا کروں گی پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی )اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ( 24۔ النور:11( آخر آیت تک جب اللہ تعالیٰ نے میری برات میں یہ آیت نازل کی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مسطح بن اثاثہ کی ذات پر اس کی قرابت کے سبب خرچ کرتے تھے انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم میں مسطح کی ذات پر خرچ نہیں کروں گا اس اس نے عائشہ پر تہمت لگائی تو اللہ تعالیٰ نے آیت )وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ډ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ( 24۔ النور:22( نازل فرمائی حضرت ابوبکر کہنے لگے میں تو خدا کی قسم پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو بخش دے پھر مسطح کو وہی دینا شروع کردیا جو برابر دیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زینب جحش سے میرے متعلق پوچھتے تھے اور فرماتے اے زینب کیا تو جانتی ہے؟ اور تو نے کیا دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں اپنے کان اور اپنی آنکھ کو بچاتی ہوں خدا کی قسم میں تو ان کو اچھا ہی جانتی ہوں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ وہی میری ہمسر تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انکو پرہیزگاری کے سبب سے بچا لیا ابوالربیع سلیمان بن داؤد نے کہا کہ مجھ سے فلیح نے بواسطہ ہشام بن عروہ عروہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی طرح بیان کیا۔ ابوالربیع نے کہا کہ مجھ سے فلیح نے بواسطہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن و یحیی بن سعید قاسم بن محمد ابی بکر اسی طرح روایت کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
حضرت عائشہ صدیقہ راضی اللہ پر کتنی بڑی تہمت لگی - اور حضور صلی اللہ وسلم کو حقیقت کا اس وقت تک پتا نہ چلا جب تک کہ وحی نازل نہ ہوئی​
لیکن علماء دیوبند کا علم غیب حضور صلی اللہ وسلم سے زیادہ تھا​
اسی وجہ سے​
قاسم نانوتوی جو اپنے مرید کا قصّہ لکھ رھے ہیں کہ جس گھر میں حمل ہوتا یہ بتا دیتے کہ لڑکا ھو گا یا لڑکی- وہی ہوتا تھا -
فیصلہ آپ کا اپنا​
 
Top