علم وتحقیق اور دو مختلف رویے
اساتذہ کی نگرانی میں لکھنے والوں کو ایک ایک لفظ لکھنے کی توجیہ کرنا پڑتی ہے کہ یہ کام تم نے کیوں کیا؟ یہ موقف کیوں اپنایا ؟
جبکہ خود اپنی محنت اور فہم پر اعتماد کرکے تحقیق کرنے والے تحقیق پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں، تو اس میں کیا مانع ہے؟ کیا حرج ہے؟
اس طرح لکھ کر استاد کے پاس لے جائیں، تو وہ آرام سے کہہ دیں گے .. چلو دوبارہ لکھ کر لاؤ.
ہمارے بھائیوں کی بعض تحقیقات میں عموما لکھا ہوتا ہے کہ مزی کی یہ بات رد ہے، حافظ ابن حجر کی لاعلمی ہے .. وغیرہ وغیرہ.
میں نے اپنی ایک بحث میں صرف اتنا لکھا کہ مزی اور حافظ ابن حجر نے امام بخاری کی طرف جو قول منسوب کیا ہے، وہ مجھے بخاری کی کتابوں میں نہیں ملا اور یہ ہے بھی دیگر ائمہ کے اقوال سے کافی مختلف اس لیے یہ درست محسوس نہیں ہوتا .. استاد غصے میں آگئے.. فرمایا: تم نے جو تاریخ کبیر وغیرہ کا نسخہ دیکھا ہے، ممکن ہے اس سے اس راوی کا ترجمہ ہی ساقط ہوگیا ہو ... جب مزی وغیرہ نے بالجزم نسبت کی ہے تو تمہارے ’ لم أجد یا لم أقف کی کوئی حیثیت نہیں .. مزید دلائل و قرائن ذکر کرو جس سے ثابت ہو کہ امام بخاری اس راوی کے متعلق کیا موقف رکھتے تھے۔
اور یہاں ہمارے ہاں تو تہذیب الکمال میں آنے والے اقوال کو صرف اس لیے رد کردیتے ہیں کہ انہیں وہ قول باسند نہیں ملا ہوتا۔
گویا قصور مزی کا ہوگیا کہ انہوں نے جس کتاب سے باسند قول دیکھ کر نقل کیا ... اس کا ایک نسخہ ہمارے محقق بھائی کو نہیں پہنچا سکے۔
علوم وفنون میں تقلید اور جمود کی دعوت ہرگزنہیں، لیکن یہ بات بہرصورت ایک حقیقت ہے کہ تحقیق وہی جاندار ہوگی،جس میں متقدم سے اختلاف کی وجہ متاخر کی وسعت اطلاع اور علمی رسوخ ہوگا، جاہلانہ اور بچگانہ باتین کرکے تو اختلاف کوئی بھی کسی سے کرسکتا ہے۔
ما جادلت عالماً إلا وغلبته ، وما جادلني جاهل إلا غلبني
امام شافعی وغیرہ سے منقول اس مقولے میں بھی شاید اسی تلخ حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
بہر صورت اپنی محنت وتحقیق کے بل بوتے پرلکھنے والوں کی ایک بات بہت اچھی ہےکہ انہیں علم وفن سے شوق ہے، یقینا دن رات اس میں صرف کرتے ہوں گے۔ حالانکہ وہ بھی چاہیں تو دوسروں کی طرح دنیا کی رنگینیوں میں الجھ جائیں. وربک یخلق مایشاء ویختار.
اللہ تعالی ہمیں ان بھائیوں کی قدر اور حوصلہ افزائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور خود ان کے شانہ بشانہ علم وتحقیق کا کام کرنے کی بھي ہمت دے، کیونکہ علم و تحقیق کے میدان میں غیرعالمانہ رویوں کی پذیرائی کی ایک بنیادی وجہ ان لوگوں کی سستی وغفلت اور عدم دلچسپی ہے، جو سالہا سال مدارس میں اساتذہ کی زیر نگرانی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن علم وتحقیق میں ان کاحصہ زیرو ہوتا ہے۔