• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمائے اہل حدیث کا ذوق تصوف: تبصرہ کتاب

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
کچھ عرصہ پہلے جامعہ البیت العتیق کے ایک استاذ نے ذکر کیا کہ ’علمائے اہل حدیث کا ذوق تصوف‘کے نام سے حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی صاحب کی ایک کتاب آئی ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔ مجھے چونکہ لڑکپن ہی سے تصوف اور اس کے متعلقات کے مطالعہ کا کافی شوق رہا ہے لہٰذا فورا ًیہ کتاب منگوا لی ۔ کتاب ۱۲۵۰ روپے میں ملی۔ اس کے ناشر کے طور ’دفتر مرکز روحانیت وامن، مزنگ چونگی، لاہور، کا نام درج ہے اور میری معلومات کے مطابق صرف یہیں سے ملتی ہے۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے اور اس کی پہلی جلد اگست ۲۰۱۳ء میں شائع ہوئی جو کہ ۲۳۶۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ مصنف دوسری جلد بھی تیار کر رہے ہیں۔ اس کتاب کو ایک انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جا سکتا ہے۔

کتاب تو بڑے شوق سے منگوائی تھی اور مطالعہ سے پہلے یہی خیال تھا کہ جس نے بھی یہ کام کیا ہے، بہت ہی عظیم کام ہے، اہل الحدیث میں اصلاح قلب اور تزکیہ نفس کے کام کی بڑی ضرورت ہے وغیرہ لیکن جوں جوں کتاب کا مطالعہ کیا، دردِ سر بڑھتا ہی گیا اور طبیعت میں ایک عجیب بے چینی سی پیدا ہو گئی۔ لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی تبصرہ لکھنے بیٹھ گیا اور احساس یہ تھا کہ اس کتاب پر تبصرہ نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک شرعی ذمہ داری کو ترک کر دینا۔

امر واقعہ یہ ہے کہ ذوق تصوف کے نام پر اہل حدیث کے کھاتے میں وہ رطب ویابس ڈال دیا گیا ہے کہ اﷲ کی پناہ! کتاب کا ایک بڑا حصہ اسکین شدہ کتابوں پر مشتمل ہے۔ صفحہ نمبر ۱۳۱۷ سے ۱۴۵۶ تک تقریباً ۱۴۰ صفحات میں نواب صدیق الحسن خان صاحب کی کتاب ’’کتاب التعویذاتـ‘‘ اسکین کر کے دی گئی ہے۔ مرتب نے صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اسی کتاب کا نیا ایڈیشن بھی اسکین کر کے فورا بعد ہی صفحہ ۱۴۵۷ سے ۱۵۸۵ تک دے دیا ہے۔ اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ایسا کیوں کیا گیاہے؟ ایک ہی کتاب کے دو ایڈیشن کس لیے؟ اپنی کتاب کے صفحات بڑھانے کے لیے؟ اور پھر اہم سوال تو یہ ہے کہ تعویذات کا تصوف سے کیا تعلق؟ معلوم ہوتا ہے کہ مرتب تصوف کے معنی ومفہوم سے بھی ناواقف ہیں۔حضرت جنید بغدادیؒ سے لے کر مولانا اشرف علی تھانویؒ تک کس نے تعویذات کو تصوف کا موضوع قرار دیا ہے؟ تصوف کا یہ معنی ومفہوم تو خود اہل تصوف کے ہاں نہیں ہے چہ جائیکہ اہل الحدیث کے ہاں ہو۔تصوف کے موضوعات عام طور دو رہے ہیں: نظری اور عملی تصوف۔ نظری تصوف میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود وغیرہ بیان کیا جاتارہا ہے اور یہ بھی متاخرین کے ہاں ہیں۔ متقدمین تصوف کو اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جہاں عملی تصوف کا تعلق ہے تو اس کے دو بڑے موضوع رہے ہیں ایک اعمال قلوب اور دوسرا اخلاق ورذائل نفس۔

نواب صاحب کی اس کتاب میں ختم قادری، ختم خواجگاں اور ختم حضرت مجدد شیخ احمد سرہندی جیسے بے شمار عناوین ہیں کہ جن کے غیر شرعی ہونے کے بارہ اہل الحدیث اہل علم کا اتفاق ہے۔ مثلاً نواب صاحب کی اسکین شدہ کتاب کا ایک اقتباس ذیل میں ملاحظہ ہو:

’’طریق ختم خواجگان رضی اﷲ عنہم، یہ ختم جس نیت وقصد سے پڑھا جاتا ہے وہی مقصد حاصل ہوتاہے۔طریقہ اس کا یہ ہے کہ پہلے ہاتھ اٹھا کر ایک بار سورہ فاتحہ پڑھے۔ پھر سورہ فاتحہ مع بسم اﷲ سات مرتبہ پڑھے۔ پھردرود سو بار پھر الم نشرح مع بسم اﷲ ہفتادونہ بار۔ پھر سورہ اخلاص بابسم اﷲ ہزار ویکبار۔ پھر سورہ فاتحہ بابسم اﷲ سات بار۔ پھر درود سوبار۔ پھر فاتحہ پڑھ کر ثواب اس ختم کا ارواح حضرات کو جن کی طرف یہ ختم منسوب ہے، پیش کرے۔ ان بزرگوں کی تعیین نام میں اختلاف ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ سے حصول مدعا بوسیلہ ان بزرگوں کے چاہے۔‘‘ (ص ۱۵۴۵)

کیا اہل حدیث کے ذوق تصوف کے نام سے ایسی باتیں جمع کر کے کوئی خیر مقصود ہو سکتی ہے؟ شیعہ رہنما خمینی سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے علامہ احسان الہٰی ظہیر کی کتاب ’’الشیعۃ وأہل البیت‘‘ پڑھی ہے تو انہوں نے جواب دیا: ہاں! سائل نے کہا کہ اس کے بار آپ کی کیا رائے ہے؟ تو خمینی نے جواب دیا: شر اہل تشیع کی کتابوں میں بکھرا ہوا تھا جسے احسان الہٰی ظہیر نے جمع کر دیاجس سے اہل تشیع کی بہت بری تصویر سامنے آئی ہے۔

اس کے بعد صفحہ ۱۵۸۶ سے ۱۷۰۵ تک تقریباً۱۲۰ صفحات میں شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کی کتاب ’القول الجمیل‘ کا اسکین شدہ اردو ترجمہ دیا ہے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس ذیل میں ملاحظہ ہو:

’’ اور مشائخ چشتیہ نے فرمایا کہ جب قبرستان میں داخل ہو تو سورۃ إنا فتحنا دو رکعت میں پڑھے۔ پھر میت کے سامنے ہو کر کعبہ کی طرف پشت دے کر بیٹھے۔ پھر سورہ ملک پڑھے۔ اور اﷲ اکبر اور لا إلہ إلا اﷲ کہے۔ اور گیارہ بار سورۃ فاتحہ پڑھے۔ پھر میت سے قریب ہو جاوے۔ پھر کہے یارب یا رب اکیس بار۔ پھر کہے یا روح اور اس کو آسمان میں ضرب کرے اور یا روح الروح کی دل میں ضرب لگائے یہاں تک کہ کشائش اور نور پاوے۔ پھر منتظر رہے اس کا جس کا فیضان صاحب قبر سے ہو سکے دل پر۔‘‘ (ص ۱۶۳۰)

اب کون اہل حدیث قبر سے فیض حاصل کرنے کا قائل ہے؟ اسی طرح صفحہ ۱۷۰۶ سے ۱۸۵۲ تک شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کی کتاب ’انتباہ فی سلاسل اولیاء اﷲ‘ کا اسکین شدہ ترجمہ اور صفحہ ۱۸۵۳ سے ۱۹۵۶ تک شاہ صاحب کی کتاب ’فیوض الحرمین‘ کا اسکین شدہ ترجمہ شامل کتاب کیا گیا ہے۔ فیوض الحرمین تو شاہ صاحب کے ذاتی مشاہدات ہیں جن کا اہل حدیث کے ذوق تصوف سے کیا تعلق؟

اسی طرح صفحہ ۱۹۵۷ سے ۱۹۸۷ تک میں شاہ صاحب کی کتاب ’فیصلہ وحدۃ الوجود والشہود‘ کا اسکین شدہ ترجمہ دیا گیا ہے۔ شاہ صاحب کی اس کتاب کے ترجمے کا اس لحاظ سے مطالعہ تو مفید ہے کہ شاہ صاحب کا وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے بارے کیا موقف ہے،وہ سامنے آجاتا ہے لیکن اس کتاب کو ’علمائے اہل حدیث کے ذوق تصوف‘ کے نام سے بیان کرنااہل الحدیث کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے کہ ان کے کھاتے میں ایک ایسا عقیدہ ڈال دیا گیا کہ جس پر کم ازکم فتوی ان کے اہل علم کے ہاں بدعت اور گمراہی کاہے اور زیادہ کی تو پھر کوئی انتہا نہیں ہے۔

صفحہ ۱۹۸۹ سے ۲۰۵۳ تک مولوی غلام رسول صاحب کی کتاب ’خوارق‘ کی اسکینگ دی گئی ہے جس میں انہوں نے زیادہ تر اپنے حضرت جی کی کرامات بیان کی ہیں۔ صفحہ ۲۲۲۶ سے ۲۲۸۱ تک کمال الدین کمال سلار پوری کی کتاب ’میرے روحانی تجربات ومشاہدات‘ کی اسکینگ دی گئی ہے۔ اس کتاب کے عناوین میں ’کلمہ شریف کا تعویذ‘ اور ’عمل سورۃ جن‘ اور ’سورۃ فاتحہ کا عمل‘ اور ’جنات کی حاضری کا عمل‘ وغیرہ شامل ہیں۔ جنات کی حاضری یا عاملوں کی چلہ کشی کا تصوف سے کیا تعلق؟ تصوف کی ایسی جامع تعریف تو اہل تصوف کے ہاں بھی نہیں ملتی؟

کتاب کا ایک بڑا حصہ کرامات اہل حدیث پر بھی مشتمل ہے یہ بھی تصوف کا اصل موضوع نہیں ہے۔ تصوف کا اصل موضوع افعال قلوب اور اخلاق ورذائل نفس ہیں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔ محقق صوفیاء کرامت کو صوفی کا حیض قرار دیتے ہیں۔ اس پر پھر کبھی مفصل بات ہو گی۔

اضافی طور ہم یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ سلفیت اور اہل الحدیث دو علیحدہ تحریکیں ہیں۔ بعض لوگ انہیں ایک سمجھتے ہیں۔ سلفیت کی تحریک عقیدے کی اصلاح کی تحریک تھی جبکہ اہل الحدیث کی تحریک تقلیدی جمود کے خلاف تھی اور اس کا موضوع فقہ بنتا ہے۔ معاصر سلفی تحریک کا آغاز نجد کے علاقہ سے ہوا اور اس کے امام شیخ محمد بن عبد الوہاب ؒ (۱۷۰۷۔۱۷۹۲ء)تھے جبکہ تقلیدی جمود کے خلاف تحریک کا مرکز برصغیر پاک وہند ہے اور اس کی ابتداء شاہ ولی اﷲ دہلویؒ (۱۱۱۴۔۱۱۷۶ھ)سے ہوئی۔

اسی لیے ہم سعودی علماء میں دیکھتے ہیں کہ وہ عقیدہ کے معاملہ میں بہت سخت ہیں یعنی ماتریدیہ ، اشاعرہ، صوفیاء وغیرہ کو گمراہ فرقوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن تقلید ائمہ کے معاملے میں وہ کسی قدر نرم ہیں۔ سعودی عرب میں تقابلی فقہ پڑھائی جاتی ہے اگرچہ وہ فقہ میں امام احمد بن حنبل ؒ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔علاوہ ازیں وہاں کے علماء اور شیوخ اپنا تعارف حنبلی کی بجائے سلفی کے طور کرواتے ہیں۔ پس سلفیت کوئی فقہی مذہب نہیں ہے بلکہ وہ عقیدہ ومنہج ہے کہ جس کی نسبت صحابہ، تابعین ، تبع تابعین، ائمہ اربعہ کی طرف کی جاتی ہے۔ اور اسے ایک باقاعدہ منظم فکر کے طور امام ابن تیمیہ ؒ نے متعارف کروایا۔

جبکہ برصغیر پاک وہند میں چلنے والی تحریک چونکہ تقلیدی جمود کے خلاف تھی لہٰذا شروع میں عقائد کی اصلاح پر اس میں اس قدر توجہ نہ تھی جتنی کہ سلفیت میں تھی۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ ولی اﷲ دہلویؒاور شاہ اسماعیل شہیدؒ کے ہاں بھی ہمیں وحد ت الوجود وغیرہ کی ابحاث مل جاتی ہیں۔ لہٰذا برصغیر میں شروع شروع میں کسی شخص کے اہل الحدیث ہونے کا مطلب صرف یہی تھا کہ وہ تقلیدی جمود کا قائل نہیں ہے ۔ عقیدے میں وہ اشعری، ماتریدی یا صوفی بھی ہو سکتا تھا جیسا کہ نواب صدیق الحسن خان صاحب وغیرہ جیسی مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں۔

جب برصغیر کے علماء کا سعودی اہل علم سے علمی رابطہ ہوا ، یہ رابطہ پہلے پہل تو کتابوں کے ذریعے ہوا اور بعد ازاں پاکستان کے نامور شیوخ نے مدینہ یونیورسٹی میں جا کر تدریس کی یا وہاں تعلیم حاصل کی، تو ان دونوں تحریکوں نے ایک دوسرے سے اثر لیا۔ برصغیر کے اہل حدیث علماء نے سلفیت کی تحریک سے اثر لیا اور عقائد میں یہاں بھی توحید اسماء وصفات کی بحثیں سننے کو ملیں جبکہ سعودی علماء نے برصغیر کے علماء سے اثر لیا اور حنبلی فقہ کی طرف نسبت کے باوجود مسائل استنباط میں عدم تقلید کا رویہ بطور منہج قرار پایا۔پس اب کے جو معاصر اہل حدیث ہیں وہ عقیدہ میں سلفی اور فقہ میں اہل الحدیث کے منہج پر ہیں۔

علاوہ ازیں تصوف کی تاریخ کا بھی اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو یہ چار ادوار سے گزرا ہے۔ پہلا دور جبکہ تصوف یا صوفی کی اصطلاح نہیں تھی، عبادت کازیادہ شوق کرنے والے اور دنیا سے بے رغبتی کرنے والے اہل احسان موجود تھے جنہیں زہاد یا صلحاء کہا جاتا تھا۔ زہد اور احسان ان کی نمایاں خصوصیات تھیں جیسا کہ صحابہ کی جماعت میں عبد اﷲ بن عمرو بن العاص اور ابو درداء رضی اﷲ عنہما یاتابعین میں حضرت حسن بصری اور سعید بن مسیب رحمہما اﷲ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ تصور کا یہ دور وہ ہے جو کہ خیر کا دور ہے۔ امام ابن تیمیہ اولین صوفیاء حضرت جنید بغدادی ، سری سقطی اور ابراہیم بن ادہم وغیرہ کو بھی اسی دور کا ایک حصہ قرار دیتے ہوئے ان کی عام طور تعریف کرتے ہیں اگرچہ زمانی اعتبار سے یہ حضرات تابعین کے بعد کے زمانے کے ہیں۔

اس کے بعد دوسرا دور جو کہ تبع تابعین سے شروع ہوا، وہ تھا کہ جس میں تصوف کی اصطلاحات وجود میں آئیں اور رفتہ رفتہ آنے والی نسلوں میں زہد اوردنیا سے بے رغبتی کے حوالہ سے کچھ نئے تصورات متعارف ہوئے اور اس دور کی انتہاء امام غزالی پر ہوئی جنہوں نے ’احیاء علوم الدین‘ میں ایک طرف تو ضعیف اور موضوع روایات بھی جمع کر دیں اوردوسری طرف عزلت نشینی کو جمعہ وجماعت کی نماز پر ترجیح دی۔ علامہ ابن جوزی نے امام غزالی کی اس کتاب کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اسی حوالے سے اپنی کتاب’ منہاج القاصدین‘ مرتب کی تھی۔ تصوف کا یہ دور وہ ہے کہ اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور شر کا بھی جبکہ خیر کا پہلو غالب ہے۔

تصوف کا تیسرا دور وہ ہے جبکہ یونانی فلسفے کے زیر اثر نظریاتی تصوف نے جنم لیا اور شیخ اکبر ابن عربی نے وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا۔ تصوف کا یہ دور وہ ہے کہ جبکہ اس کی نہ صرف اپنے اصل مقصود اعمال قلوب اور اخلاق ورذائل سے توجہ ہٹ گئی بلکہ شریعت بھی جاتی رہی۔ ابن عربی کے معاصر اہل علم میں فقہائے حنفیہ، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کی ایک بڑی جماعت نے اس نظریہ کو کفراور شرک قرار دیا جس پر ہم مفصل گفتگو اپنی کتاب ’اسلام اور تصوف‘ میں کریں گے۔ اب تصوف عمل سے زیادہ نظریہ بن گیا اور صوفی کو اصلاح نفس سے زیادہ فکر عرفان نفس کی ہوگئی۔

تصوف کا چوتھا دور وہ ہے جس سے ہم آج گزر رہے ہیں، کہ مداریوں اور کرتب دکھانے والوں کی کثرت ہے جو لوگوں کی دنیا اور دین دونوں تباہ کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں۔یا تو ایسی بڑی بڑی گدیاں ہیں اور سجادہ نشین ہیں جن کا دین سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے یا پھر سلاسل کی بچی کچھی لڑیاں ہیں کہ جن کے سالکین کو اپنے شیخ کے روحانی مقام اور مرتبے اور دوسرے کے سلسلہ پر فضیلت کی وجوہ کے بیان سے فرصت نہیں ہے ۔

بہر حال یہ موضوع تفصیل طلب ہے کہ سلفی منہج کے مطابق تزکیہ نفس اور اصلاح کا کیا نظام ہونا چاہیے۔ چند کتابوں کا راقم نے تذکرہ کر دیا ہے، ان سے اس موضوع پر استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ موضوع کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن جو منہج زیر تبصرہ کتاب میں پیش کیا گیا ہے ، وہ اصلاح نفس کا سلفی تصور یا منہج نہیں ہے۔ اور عقیدہ ومنہج، سلفی فکر کے دو ایسے ستون ہیں کہ جن پر سلفیت قائم ہے۔ اصلاح نفس ہو یا تعلیم وتربیت، دعوت وجہاد ہو یا جنگ وجدال، ہر شعبہ زندگی میں سلفی عقیدہ اور سلفی منہج سے رہنمائی لینا ہی اہل حدیث کا طرہ امتیاز ہے۔

تعجب تو ان فضلاء اور علمائے اہل حدیث پر ہوتا ہے کہ جنہوں نے اس کتاب کے بارے توصیفی کلمات کہے جیسا کہ اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر پسند فرمودہ میں ’فضیلۃ الشیخ ذہبی دوراں، آیت من آیت اﷲ، بابائے تاریخ، مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ تعالیٰ‘ اور’فضیلۃ الشیخ یادگار اسلاف نشان تصوف حضرت مولانا ڈاکٹر حماد لکھوی حفظہ اﷲ تعالیٰ ڈبل ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی‘ جیسے کئی ایک نام درج ہیں۔ اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ فی زمانہ جماعت اہل حدیث میں اصلاح نفس کی ضرورت اس قدر شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ اس وقت انہیں تزکیہ نفس کے نام سے کچھ بھی پروگرام دے دیا جائے ، وہ ایک دفعہ اس کی طرف ضرورشوق سے متوجہ ہوں گے۔

لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کوئی شخص رطب ویابس کوجمع کر کے اہل حدیث کے لیے سلوک کے بدعی رستے مقرر کرے۔ اگر مرتب کو اہل حدیث کے ذوق تصوف کے حوالہ سے کچھ جمع کرنا بھی تھا تو امام نووی کی ریاض الصالحین، امام ابن جوزی کی منہاج القاصدین، امام ابن قیم کی مدارج السالکین اور شیخ محمد التویجری کی موسوعہ فقہ القلوب کے تراجم کو ہی جمع کر دیتے ۔ یہ کتابیں اصلاح نفس کے سلفی منہج کے مطابق ہیں۔ مرتب کے جمع کردہ ہزاروں صفحات سے بہتر تھا کہ وہ پانچ سات صفحات میں مدارج السالکین کی فہرست کا ترجمہ ہی شائع کر دیتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرتب نے اہل حدیث کے ذوق تصوف کے نام سے جو کچھ جمع کیاہے، مدارج السالکین کی صرف فہرست اس موضوع پر اس سے دس گناہ زیادہ جامع ہے ۔

نوٹ: راقم کا یہ تبصرہ ماہنامہ الاحیاء میں شائع ہوا ہے۔
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
کچھ عرصہ پہلے جامعہ البیت العتیق کے ایک استاذ نے ذکر کیا کہ ’علمائے اہل حدیث کا ذوق تصوف‘کے نام سے حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی صاحب کی ایک کتاب آئی ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔ مجھے چونکہ لڑکپن ہی سے تصوف اور اس کے متعلقات کے مطالعہ کا کافی شوق رہا ہے لہٰذا فورا ًیہ کتاب منگوا لی ۔ کتاب ۱۲۵۰ روپے میں ملی۔ اس کے ناشر کے طور ’دفتر مرکز روحانیت وامن، مزنگ چونگی، لاہور، کا نام درج ہے اور میری معلومات کے مطابق صرف یہیں سے ملتی ہے۔ یہ ایک ضخیم کتاب ہے اور اس کی پہلی جلد اگست ۲۰۱۳ء میں شائع ہوئی جو کہ ۲۳۶۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ مصنف دوسری جلد بھی تیار کر رہے ہیں۔ اس کتاب کو ایک انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جا سکتا ہے۔

کتاب تو بڑے شوق سے منگوائی تھی اور مطالعہ سے پہلے یہی خیال تھا کہ جس نے بھی یہ کام کیا ہے، بہت ہی عظیم کام ہے، اہل الحدیث میں اصلاح قلب اور تزکیہ نفس کے کام کی بڑی ضرورت ہے وغیرہ لیکن جوں جوں کتاب کا مطالعہ کیا، دردِ سر بڑھتا ہی گیا اور طبیعت میں ایک عجیب بے چینی سی پیدا ہو گئی۔ لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی تبصرہ لکھنے بیٹھ گیا اور احساس یہ تھا کہ اس کتاب پر تبصرہ نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک شرعی ذمہ داری کو ترک کر دینا۔

امر واقعہ یہ ہے کہ ذوق تصوف کے نام پر اہل حدیث کے کھاتے میں وہ رطب ویابس ڈال دیا گیا ہے کہ اﷲ کی پناہ! کتاب کا ایک بڑا حصہ اسکین شدہ کتابوں پر مشتمل ہے۔ صفحہ نمبر ۱۳۱۷ سے ۱۴۵۶ تک تقریباً ۱۴۰ صفحات میں نواب صدیق الحسن خان صاحب کی کتاب ’’کتاب التعویذاتـ‘‘ اسکین کر کے دی گئی ہے۔ مرتب نے صرف اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اسی کتاب کا نیا ایڈیشن بھی اسکین کر کے فورا بعد ہی صفحہ ۱۴۵۷ سے ۱۵۸۵ تک دے دیا ہے۔ اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ایسا کیوں کیا گیاہے؟ ایک ہی کتاب کے دو ایڈیشن کس لیے؟ اپنی کتاب کے صفحات بڑھانے کے لیے؟ اور پھر اہم سوال تو یہ ہے کہ تعویذات کا تصوف سے کیا تعلق؟ معلوم ہوتا ہے کہ مرتب تصوف کے معنی ومفہوم سے بھی ناواقف ہیں۔حضرت جنید بغدادیؒ سے لے کر مولانا اشرف علی تھانویؒ تک کس نے تعویذات کو تصوف کا موضوع قرار دیا ہے؟ تصوف کا یہ معنی ومفہوم تو خود اہل تصوف کے ہاں نہیں ہے چہ جائیکہ اہل الحدیث کے ہاں ہو۔تصوف کے موضوعات عام طور دو رہے ہیں: نظری اور عملی تصوف۔ نظری تصوف میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود وغیرہ بیان کیا جاتارہا ہے اور یہ بھی متاخرین کے ہاں ہیں۔ متقدمین تصوف کو اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جہاں عملی تصوف کا تعلق ہے تو اس کے دو بڑے موضوع رہے ہیں ایک اعمال قلوب اور دوسرا اخلاق ورذائل نفس۔

نواب صاحب کی اس کتاب میں ختم قادری، ختم خواجگاں اور ختم حضرت مجدد شیخ احمد سرہندی جیسے بے شمار عناوین ہیں کہ جن کے غیر شرعی ہونے کے بارہ اہل الحدیث اہل علم کا اتفاق ہے۔ مثلاً نواب صاحب کی اسکین شدہ کتاب کا ایک اقتباس ذیل میں ملاحظہ ہو:

’’طریق ختم خواجگان رضی اﷲ عنہم، یہ ختم جس نیت وقصد سے پڑھا جاتا ہے وہی مقصد حاصل ہوتاہے۔طریقہ اس کا یہ ہے کہ پہلے ہاتھ اٹھا کر ایک بار سورہ فاتحہ پڑھے۔ پھر سورہ فاتحہ مع بسم اﷲ سات مرتبہ پڑھے۔ پھردرود سو بار پھر الم نشرح مع بسم اﷲ ہفتادونہ بار۔ پھر سورہ اخلاص بابسم اﷲ ہزار ویکبار۔ پھر سورہ فاتحہ بابسم اﷲ سات بار۔ پھر درود سوبار۔ پھر فاتحہ پڑھ کر ثواب اس ختم کا ارواح حضرات کو جن کی طرف یہ ختم منسوب ہے، پیش کرے۔ ان بزرگوں کی تعیین نام میں اختلاف ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ سے حصول مدعا بوسیلہ ان بزرگوں کے چاہے۔‘‘ (ص ۱۵۴۵)

کیا اہل حدیث کے ذوق تصوف کے نام سے ایسی باتیں جمع کر کے کوئی خیر مقصود ہو سکتی ہے؟ شیعہ رہنما خمینی سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے علامہ احسان الہٰی ظہیر کی کتاب ’’الشیعۃ وأہل البیت‘‘ پڑھی ہے تو انہوں نے جواب دیا: ہاں! سائل نے کہا کہ اس کے بار آپ کی کیا رائے ہے؟ تو خمینی نے جواب دیا: شر اہل تشیع کی کتابوں میں بکھرا ہوا تھا جسے احسان الہٰی ظہیر نے جمع کر دیاجس سے اہل تشیع کی بہت بری تصویر سامنے آئی ہے۔

اس کے بعد صفحہ ۱۵۸۶ سے ۱۷۰۵ تک تقریباً۱۲۰ صفحات میں شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کی کتاب ’القول الجمیل‘ کا اسکین شدہ اردو ترجمہ دیا ہے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس ذیل میں ملاحظہ ہو:

’’ اور مشائخ چشتیہ نے فرمایا کہ جب قبرستان میں داخل ہو تو سورۃ إنا فتحنا دو رکعت میں پڑھے۔ پھر میت کے سامنے ہو کر کعبہ کی طرف پشت دے کر بیٹھے۔ پھر سورہ ملک پڑھے۔ اور اﷲ اکبر اور لا إلہ إلا اﷲ کہے۔ اور گیارہ بار سورۃ فاتحہ پڑھے۔ پھر میت سے قریب ہو جاوے۔ پھر کہے یارب یا رب اکیس بار۔ پھر کہے یا روح اور اس کو آسمان میں ضرب کرے اور یا روح الروح کی دل میں ضرب لگائے یہاں تک کہ کشائش اور نور پاوے۔ پھر منتظر رہے اس کا جس کا فیضان صاحب قبر سے ہو سکے دل پر۔‘‘ (ص ۱۶۳۰)

اب کون اہل حدیث قبر سے فیض حاصل کرنے کا قائل ہے؟ اسی طرح صفحہ ۱۷۰۶ سے ۱۸۵۲ تک شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کی کتاب ’انتباہ فی سلاسل اولیاء اﷲ‘ کا اسکین شدہ ترجمہ اور صفحہ ۱۸۵۳ سے ۱۹۵۶ تک شاہ صاحب کی کتاب ’فیوض الحرمین‘ کا اسکین شدہ ترجمہ شامل کتاب کیا گیا ہے۔ فیوض الحرمین تو شاہ صاحب کے ذاتی مشاہدات ہیں جن کا اہل حدیث کے ذوق تصوف سے کیا تعلق؟

اسی طرح صفحہ ۱۹۵۷ سے ۱۹۸۷ تک میں شاہ صاحب کی کتاب ’فیصلہ وحدۃ الوجود والشہود‘ کا اسکین شدہ ترجمہ دیا گیا ہے۔ شاہ صاحب کی اس کتاب کے ترجمے کا اس لحاظ سے مطالعہ تو مفید ہے کہ شاہ صاحب کا وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے بارے کیا موقف ہے،وہ سامنے آجاتا ہے لیکن اس کتاب کو ’علمائے اہل حدیث کے ذوق تصوف‘ کے نام سے بیان کرنااہل الحدیث کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے کہ ان کے کھاتے میں ایک ایسا عقیدہ ڈال دیا گیا کہ جس پر کم ازکم فتوی ان کے اہل علم کے ہاں بدعت اور گمراہی کاہے اور زیادہ کی تو پھر کوئی انتہا نہیں ہے۔

صفحہ ۱۹۸۹ سے ۲۰۵۳ تک مولوی غلام رسول صاحب کی کتاب ’خوارق‘ کی اسکینگ دی گئی ہے جس میں انہوں نے زیادہ تر اپنے حضرت جی کی کرامات بیان کی ہیں۔ صفحہ ۲۲۲۶ سے ۲۲۸۱ تک کمال الدین کمال سلار پوری کی کتاب ’میرے روحانی تجربات ومشاہدات‘ کی اسکینگ دی گئی ہے۔ اس کتاب کے عناوین میں ’کلمہ شریف کا تعویذ‘ اور ’عمل سورۃ جن‘ اور ’سورۃ فاتحہ کا عمل‘ اور ’جنات کی حاضری کا عمل‘ وغیرہ شامل ہیں۔ جنات کی حاضری یا عاملوں کی چلہ کشی کا تصوف سے کیا تعلق؟ تصوف کی ایسی جامع تعریف تو اہل تصوف کے ہاں بھی نہیں ملتی؟

کتاب کا ایک بڑا حصہ کرامات اہل حدیث پر بھی مشتمل ہے یہ بھی تصوف کا اصل موضوع نہیں ہے۔ تصوف کا اصل موضوع افعال قلوب اور اخلاق ورذائل نفس ہیں جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔ محقق صوفیاء کرامت کو صوفی کا حیض قرار دیتے ہیں۔ اس پر پھر کبھی مفصل بات ہو گی۔

اضافی طور ہم یہ بھی ذکر کرتے چلیں کہ سلفیت اور اہل الحدیث دو علیحدہ تحریکیں ہیں۔ بعض لوگ انہیں ایک سمجھتے ہیں۔ سلفیت کی تحریک عقیدے کی اصلاح کی تحریک تھی جبکہ اہل الحدیث کی تحریک تقلیدی جمود کے خلاف تھی اور اس کا موضوع فقہ بنتا ہے۔ معاصر سلفی تحریک کا آغاز نجد کے علاقہ سے ہوا اور اس کے امام شیخ محمد بن عبد الوہاب ؒ (۱۷۰۷۔۱۷۹۲ء)تھے جبکہ تقلیدی جمود کے خلاف تحریک کا مرکز برصغیر پاک وہند ہے اور اس کی ابتداء شاہ ولی اﷲ دہلویؒ (۱۱۱۴۔۱۱۷۶ھ)سے ہوئی۔

اسی لیے ہم سعودی علماء میں دیکھتے ہیں کہ وہ عقیدہ کے معاملہ میں بہت سخت ہیں یعنی ماتریدیہ ، اشاعرہ، صوفیاء وغیرہ کو گمراہ فرقوں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن تقلید ائمہ کے معاملے میں وہ کسی قدر نرم ہیں۔ سعودی عرب میں تقابلی فقہ پڑھائی جاتی ہے اگرچہ وہ فقہ میں امام احمد بن حنبل ؒ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔علاوہ ازیں وہاں کے علماء اور شیوخ اپنا تعارف حنبلی کی بجائے سلفی کے طور کرواتے ہیں۔ پس سلفیت کوئی فقہی مذہب نہیں ہے بلکہ وہ عقیدہ ومنہج ہے کہ جس کی نسبت صحابہ، تابعین ، تبع تابعین، ائمہ اربعہ کی طرف کی جاتی ہے۔ اور اسے ایک باقاعدہ منظم فکر کے طور امام ابن تیمیہ ؒ نے متعارف کروایا۔

جبکہ برصغیر پاک وہند میں چلنے والی تحریک چونکہ تقلیدی جمود کے خلاف تھی لہٰذا شروع میں عقائد کی اصلاح پر اس میں اس قدر توجہ نہ تھی جتنی کہ سلفیت میں تھی۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ ولی اﷲ دہلویؒاور شاہ اسماعیل شہیدؒ کے ہاں بھی ہمیں وحد ت الوجود وغیرہ کی ابحاث مل جاتی ہیں۔ لہٰذا برصغیر میں شروع شروع میں کسی شخص کے اہل الحدیث ہونے کا مطلب صرف یہی تھا کہ وہ تقلیدی جمود کا قائل نہیں ہے ۔ عقیدے میں وہ اشعری، ماتریدی یا صوفی بھی ہو سکتا تھا جیسا کہ نواب صدیق الحسن خان صاحب وغیرہ جیسی مثالیں ہمیں مل جاتی ہیں۔

جب برصغیر کے علماء کا سعودی اہل علم سے علمی رابطہ ہوا ، یہ رابطہ پہلے پہل تو کتابوں کے ذریعے ہوا اور بعد ازاں پاکستان کے نامور شیوخ نے مدینہ یونیورسٹی میں جا کر تدریس کی یا وہاں تعلیم حاصل کی، تو ان دونوں تحریکوں نے ایک دوسرے سے اثر لیا۔ برصغیر کے اہل حدیث علماء نے سلفیت کی تحریک سے اثر لیا اور عقائد میں یہاں بھی توحید اسماء وصفات کی بحثیں سننے کو ملیں جبکہ سعودی علماء نے برصغیر کے علماء سے اثر لیا اور حنبلی فقہ کی طرف نسبت کے باوجود مسائل استنباط میں عدم تقلید کا رویہ بطور منہج قرار پایا۔پس اب کے جو معاصر اہل حدیث ہیں وہ عقیدہ میں سلفی اور فقہ میں اہل الحدیث کے منہج پر ہیں۔

علاوہ ازیں تصوف کی تاریخ کا بھی اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو یہ چار ادوار سے گزرا ہے۔ پہلا دور جبکہ تصوف یا صوفی کی اصطلاح نہیں تھی، عبادت کازیادہ شوق کرنے والے اور دنیا سے بے رغبتی کرنے والے اہل احسان موجود تھے جنہیں زہاد یا صلحاء کہا جاتا تھا۔ زہد اور احسان ان کی نمایاں خصوصیات تھیں جیسا کہ صحابہ کی جماعت میں عبد اﷲ بن عمرو بن العاص اور ابو درداء رضی اﷲ عنہما یاتابعین میں حضرت حسن بصری اور سعید بن مسیب رحمہما اﷲ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ تصور کا یہ دور وہ ہے جو کہ خیر کا دور ہے۔ امام ابن تیمیہ اولین صوفیاء حضرت جنید بغدادی ، سری سقطی اور ابراہیم بن ادہم وغیرہ کو بھی اسی دور کا ایک حصہ قرار دیتے ہوئے ان کی عام طور تعریف کرتے ہیں اگرچہ زمانی اعتبار سے یہ حضرات تابعین کے بعد کے زمانے کے ہیں۔

اس کے بعد دوسرا دور جو کہ تبع تابعین سے شروع ہوا، وہ تھا کہ جس میں تصوف کی اصطلاحات وجود میں آئیں اور رفتہ رفتہ آنے والی نسلوں میں زہد اوردنیا سے بے رغبتی کے حوالہ سے کچھ نئے تصورات متعارف ہوئے اور اس دور کی انتہاء امام غزالی پر ہوئی جنہوں نے ’احیاء علوم الدین‘ میں ایک طرف تو ضعیف اور موضوع روایات بھی جمع کر دیں اوردوسری طرف عزلت نشینی کو جمعہ وجماعت کی نماز پر ترجیح دی۔ علامہ ابن جوزی نے امام غزالی کی اس کتاب کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اسی حوالے سے اپنی کتاب’ منہاج القاصدین‘ مرتب کی تھی۔ تصوف کا یہ دور وہ ہے کہ اس میں خیر کا پہلو بھی ہے اور شر کا بھی جبکہ خیر کا پہلو غالب ہے۔

تصوف کا تیسرا دور وہ ہے جبکہ یونانی فلسفے کے زیر اثر نظریاتی تصوف نے جنم لیا اور شیخ اکبر ابن عربی نے وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا۔ تصوف کا یہ دور وہ ہے کہ جبکہ اس کی نہ صرف اپنے اصل مقصود اعمال قلوب اور اخلاق ورذائل سے توجہ ہٹ گئی بلکہ شریعت بھی جاتی رہی۔ ابن عربی کے معاصر اہل علم میں فقہائے حنفیہ، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کی ایک بڑی جماعت نے اس نظریہ کو کفراور شرک قرار دیا جس پر ہم مفصل گفتگو اپنی کتاب ’اسلام اور تصوف‘ میں کریں گے۔ اب تصوف عمل سے زیادہ نظریہ بن گیا اور صوفی کو اصلاح نفس سے زیادہ فکر عرفان نفس کی ہوگئی۔

تصوف کا چوتھا دور وہ ہے جس سے ہم آج گزر رہے ہیں، کہ مداریوں اور کرتب دکھانے والوں کی کثرت ہے جو لوگوں کی دنیا اور دین دونوں تباہ کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں۔یا تو ایسی بڑی بڑی گدیاں ہیں اور سجادہ نشین ہیں جن کا دین سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے یا پھر سلاسل کی بچی کچھی لڑیاں ہیں کہ جن کے سالکین کو اپنے شیخ کے روحانی مقام اور مرتبے اور دوسرے کے سلسلہ پر فضیلت کی وجوہ کے بیان سے فرصت نہیں ہے ۔

بہر حال یہ موضوع تفصیل طلب ہے کہ سلفی منہج کے مطابق تزکیہ نفس اور اصلاح کا کیا نظام ہونا چاہیے۔ چند کتابوں کا راقم نے تذکرہ کر دیا ہے، ان سے اس موضوع پر استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ موضوع کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن جو منہج زیر تبصرہ کتاب میں پیش کیا گیا ہے ، وہ اصلاح نفس کا سلفی تصور یا منہج نہیں ہے۔ اور عقیدہ ومنہج، سلفی فکر کے دو ایسے ستون ہیں کہ جن پر سلفیت قائم ہے۔ اصلاح نفس ہو یا تعلیم وتربیت، دعوت وجہاد ہو یا جنگ وجدال، ہر شعبہ زندگی میں سلفی عقیدہ اور سلفی منہج سے رہنمائی لینا ہی اہل حدیث کا طرہ امتیاز ہے۔

تعجب تو ان فضلاء اور علمائے اہل حدیث پر ہوتا ہے کہ جنہوں نے اس کتاب کے بارے توصیفی کلمات کہے جیسا کہ اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر پسند فرمودہ میں ’فضیلۃ الشیخ ذہبی دوراں، آیت من آیت اﷲ، بابائے تاریخ، مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ تعالیٰ‘ اور’فضیلۃ الشیخ یادگار اسلاف نشان تصوف حضرت مولانا ڈاکٹر حماد لکھوی حفظہ اﷲ تعالیٰ ڈبل ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی‘ جیسے کئی ایک نام درج ہیں۔ اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ فی زمانہ جماعت اہل حدیث میں اصلاح نفس کی ضرورت اس قدر شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ اس وقت انہیں تزکیہ نفس کے نام سے کچھ بھی پروگرام دے دیا جائے ، وہ ایک دفعہ اس کی طرف ضرورشوق سے متوجہ ہوں گے۔

لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کوئی شخص رطب ویابس کوجمع کر کے اہل حدیث کے لیے سلوک کے بدعی رستے مقرر کرے۔ اگر مرتب کو اہل حدیث کے ذوق تصوف کے حوالہ سے کچھ جمع کرنا بھی تھا تو امام نووی کی ریاض الصالحین، امام ابن جوزی کی منہاج القاصدین، امام ابن قیم کی مدارج السالکین اور شیخ محمد التویجری کی موسوعہ فقہ القلوب کے تراجم کو ہی جمع کر دیتے ۔ یہ کتابیں اصلاح نفس کے سلفی منہج کے مطابق ہیں۔ مرتب کے جمع کردہ ہزاروں صفحات سے بہتر تھا کہ وہ پانچ سات صفحات میں مدارج السالکین کی فہرست کا ترجمہ ہی شائع کر دیتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مرتب نے اہل حدیث کے ذوق تصوف کے نام سے جو کچھ جمع کیاہے، مدارج السالکین کی صرف فہرست اس موضوع پر اس سے دس گناہ زیادہ جامع ہے ۔

نوٹ: راقم کا یہ تبصرہ ماہنامہ الاحیاء میں شائع ہوا ہے۔
ارے ارے ارے!!
کیا آپ ہی حافظ محمد زبیر صاحب ہیں؟ :)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا کثیرا شیخنا ۔
تعجب تو ان فضلاء اور علمائے اہل حدیث پر ہوتا ہے کہ جنہوں نے اس کتاب کے بارے توصیفی کلمات کہے جیسا کہ اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر پسند فرمودہ میں ’فضیلۃ الشیخ ذہبی دوراں، آیت من آیت اﷲ، بابائے تاریخ، مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اﷲ تعالیٰ‘ اور’فضیلۃ الشیخ یادگار اسلاف نشان تصوف حضرت مولانا ڈاکٹر حماد لکھوی حفظہ اﷲ تعالیٰ ڈبل ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی‘ جیسے کئی ایک نام درج ہیں۔ اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ فی زمانہ جماعت اہل حدیث میں اصلاح نفس کی ضرورت اس قدر شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ اس وقت انہیں تزکیہ نفس کے نام سے کچھ بھی پروگرام دے دیا جائے ، وہ ایک دفعہ اس کی طرف ضرورشوق سے متوجہ ہوں گے۔
ماشاءاللہ ، زبردست تجزیہ ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
کیا اہل حدیث کے ذوق تصوف کے نام سے ایسی باتیں جمع کر کے کوئی خیر مقصود ہو سکتی ہے؟ شیعہ رہنما خمینی سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے علامہ احسان الہٰی ظہیر کی کتاب ’’الشیعۃ وأہل البیت‘‘ پڑھی ہے تو انہوں نے جواب دیا: ہاں! سائل نے کہا کہ اس کے بار آپ کی کیا رائے ہے؟ تو خمینی نے جواب دیا: شر اہل تشیع کی کتابوں میں بکھرا ہوا تھا جسے احسان الہٰی ظہیر نے جمع کر دیاجس سے اہل تشیع کی بہت بری تصویر سامنے آئی ہے۔
مجھے نہیں پتاکہ اس اقتباس سےابوالحسن علوی صاحب کاکیامقصود ہے؟اگریہ مقصود ہے کہ اہل حدیث کی کتابوں میں اس طرح کے بکھرے واقعات کو جمع کرکے اہل حدیث کی بری تصویر کشی کرنے کی کوشش کی گئی ہے اوربادی النظر میں یہی لگتابھی ہے توبڑے افسوس کے ساتھ گذارش ہے کہ اس طرح کی حرکت اہل حدیث حضرات طویل عرصہ سے فقہ حنفی اور تصوف دونوں کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں، فقہ کے وہ مسائل جن کا تعلق شرم وحیاء سے ہے ان کو عوام الناس کے سامنے پیش کرنا،وہ مسائل جو مخرجہ اورمرجوحات میں شمار ہوتی ہیں ان کا بغیر سمجھے بوجھے ذکر اوراس طرح عوام الناس کو فقہ حنفی سے متنفر کرنے کی کوشش کرنا،اس طرح کی کوشش طویل عرصہ سے کی جارہی ہے ،اگرہم جائزہ لیں تواس اس کا سلسلہ تقریبامیاں نذیر حسین صاحب سے لے کر تاحال ملتاہے۔
یہی کوشش ہمیں تصوف کے بارے میں بھی اہل حدیث حضرات کے یہاں ملتی ہے، ایک جانب وہ ان اوراد واذکار پر معترض ہیں جو صوفیہ نے طالبین اورمریدین کی اصلاح کیلئے وضع کیااورساتھ ہی بعض صوفیہ نے سکر ومستی میں جوکچھ کہاہے اس کو ہرجگہ عام کرکے یہ تاثر دیاجارہاہے کہ بس انہی ’’اقوال‘‘کانام تصوف ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں صوفیاء حضرات کی جوخدمات رہی ہیں اس سے صرف وہی شخص انکار کرسکتاہے جس نے یاتو تجاہل کا طریقہ اپنایاہے یاپھر جو انتہائی متعصب اورحاقد ہے۔
اگراہل حدیث حضرات کا یہ اصول درست ہے (جب کہ یہ درست نہیں ہوناچاہئے )کہ فقہ حنفی سے وابستہ ہرشخص کی بات فقہ حنفی کا قول ماناجائے اورہرصوفی کے قول کو تصوف کا قول تسلیم کیاجائے(جوکہ اہل حدیث حضرات کا موجودہ طریقہ کار ہے)تو پھر صاحب کتاب کو بھی معذور سمجھناچاہئے کہ اس نے ہراہل حدیث یاعدم تقلید سے منسوب شخص کی بات کو تصوف کے خانہ میں رکھاہے،اگر صاحب کتاب کا طرزعمل درست نہیں ہے توپھر خود اہل حدیث حضرات کےا عتراضات کا بڑاحصہ جو فقہ حنفی یاتصوف پر ہے وہ بھی غلط ٹھہرتاہے اوربنظر انصاف دیکھاجائے تو محدث فورم کے حنفی اور تصوف کے زمرہ میں بیشتر پوسٹ اسی قبیل کی ہیں۔
’’ اور مشائخ چشتیہ نے فرمایا کہ جب قبرستان میں داخل ہو تو سورۃ إنا فتحنا دو رکعت میں پڑھے۔ پھر میت کے سامنے ہو کر کعبہ کی طرف پشت دے کر بیٹھے۔ پھر سورہ ملک پڑھے۔ اور اﷲ اکبر اور لا إلہ إلا اﷲ کہے۔ اور گیارہ بار سورۃ فاتحہ پڑھے۔ پھر میت سے قریب ہو جاوے۔ پھر کہے یارب یا رب اکیس بار۔ پھر کہے یا روح اور اس کو آسمان میں ضرب کرے اور یا روح الروح کی دل میں ضرب لگائے یہاں تک کہ کشائش اور نور پاوے۔ پھر منتظر رہے اس کا جس کا فیضان صاحب قبر سے ہو سکے دل پر۔‘‘ (ص ۱۶۳۰)
میں یہاں پھر یہ عرض کرناچاہوں گاکہ تصوف کے ناقدین اہل حدیث حضرات کا تصوف پر زیادہ تر اعتراض اسی قبیل کا ہوتاہے کہ فلاں صوفی نے جو فلاں ذکر کیاہے وہ ہمیں کس حدیث میں ملتاہے؟وغیرذلک،
اسی طرح صفحہ ۱۹۵۷ سے ۱۹۸۷ تک میں شاہ صاحب کی کتاب ’فیصلہ وحدۃ الوجود والشہود‘ کا اسکین شدہ ترجمہ دیا گیا ہے۔ شاہ صاحب کی اس کتاب کے ترجمے کا اس لحاظ سے مطالعہ تو مفید ہے کہ شاہ صاحب کا وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے بارے کیا موقف ہے،وہ سامنے آجاتا ہے لیکن اس کتاب کو ’علمائے اہل حدیث کے ذوق تصوف‘ کے نام سے بیان کرنااہل الحدیث کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے کہ ان کے کھاتے میں ایک ایسا عقیدہ ڈال دیا گیا کہ جس پر کم ازکم فتوی ان کے اہل علم کے ہاں بدعت اور گمراہی کاہے اور زیادہ کی تو پھر کوئی انتہا نہیں ہے۔
اس سے ہمیں یاد آیاکہ وحدت الوجود کی تشریح علماء دیوبند میں سے کسی نے حلول واتحاد کے معنوں میں نہیں کیاہے،لیکن اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ کسی سے وحدت الوجود کا لفظ ثابت ہوتاہے توفورااس کے ذمہ اتحاد وحلول کا عقیدہ چسپاں کردیاجاتاہے،جب کہ ہونایہ چاہئے کہ پہلے یہ معلوم کرناچاہئے کہ صاحب تحریر نے وحدت الوجود سے کیامراد لیاہے، کیونکہ وحدت الوجود ایک اصطلاح ہے،اس کی تعبیر الگ الگ کی گئی ہے ،جیسے خبر واحد ایک اصطلاح ہے اوراس کی تشریح میں اہل سنت ومحدثین کے مختلف گروہوں میں اختلاف ہے۔
شاہ صاحب جن کی جانب ماضی میں اہل حدیث علماء انتساب کرنافخر کی بات سمجھتے تھے،حاضر کا حال معلوم نہیں کیونکہ اب بڑی حد تک اہل حدیث حضرات کی نئی پود میں شاہ صاحب سے بیزاری نمایاں ہیں،اگرشاہ صاحب وحدت الوجود کے قائل ہوکر موحد ہوسکتے ہیں تو علماء دیوبند نے ایساکیا گناہ ہے کہ ان کی جانب سے وحدت الوجود کالفظ استعمال کرنے پر ہی کفروشرک کی بوچھار کردی جائے۔جب کہ علماء دیوبند بلکہ ہرصحیح العقیدہ شخص حلول واتحاد کے عقیدہ کو کفریہ جانتاہے اوراس سے علماء دیوبند کے فتاوی بھرے پڑے ہیں۔
صفحہ ۱۹۸۹ سے ۲۰۵۳ تک مولوی غلام رسول صاحب کی کتاب ’خوارق‘ کی اسکینگ دی گئی ہے جس میں انہوں نے زیادہ تر اپنے حضرت جی کی کرامات بیان کی ہیں۔ صفحہ ۲۲۲۶ سے ۲۲۸۱ تک کمال الدین کمال سلار پوری کی کتاب ’میرے روحانی تجربات ومشاہدات‘ کی اسکینگ دی گئی ہے۔ اس کتاب کے عناوین میں ’کلمہ شریف کا تعویذ‘ اور ’عمل سورۃ جن‘ اور ’سورۃ فاتحہ کا عمل‘ اور ’جنات کی حاضری کا عمل‘ وغیرہ شامل ہیں۔ جنات کی حاضری یا عاملوں کی چلہ کشی کا تصوف سے کیا تعلق؟ تصوف کی ایسی جامع تعریف تو اہل تصوف کے ہاں بھی نہیں ملتی؟
مجھے افسوس کے ساتھ کہناپڑرہاہے کہ اآپ ہی کے حلقہ کے ایک بزرگ نے الدیوبندیہ نامی کتاب لکھی ہے اوراس میں بعینہ اسی طرح سے مداری کا تماشادکھایاکہ ایک کرامت کا ذکر کیاہے اوراس کو عقیدہ بناکر پیش کردیاعلماء دیوبند کی کسی کرامت کو ذکر کیااوراس کرامت سے خود ساختہ عقیدہ کشید کیا اوراس خود ساختہ عقیدہ کے سامنے کسی سعودی عالم دین کا فتوی لکھ مارا۔
مذکورہ بزرگ میں اتنی علمی واخلاقی جرات نہ تھی کہ وہ اس کا اعتراف کرتے کہ ان کی یہ کتاب دراصل بریلوی عالم ارشدالقادری کی زلزلہ کا چربہ ہے،(جس کسی نے ارشد القادری کی یہ کتاب پڑھی ہوگی ،اس کو ذرہ برابر شک نہیں ہوگاکہ الدیوبندیہ نامی کتاب لکھنے والے مصنف کا قارورہ کس سے ملتاہے؟)ارشد القادری نے تو اتناکیاتھاکہ ایک جانب عقیدہ لکھااورایک جانب کوئی کرامت ذکر کی اوربتایاکہ ان کا جوعقیدہ ہے کرامت والا واقعہ اس کے بالکل خلاف جاتاہے۔الدیوبندیہ کے مصنف نے اتنی کرم فرمائی کی کہ کرامت سے خود ساختہ عقیدہ کشید کیا اوراس کے بالمقابل ایک سعودی عالم کا فتوی درج کردیااوراس طرح بزعم خود ثابت کرنے کی اورباور کرانے کی کوشش کی کہ یہ دیوبندی پکے مشرک اورکافر ہیں توحید کے ہم واحد ٹھیکیدار ہیں۔
کتاب کا ایک بڑا حصہ کرامات اہل حدیث پر بھی مشتمل ہے یہ بھی تصوف کا اصل موضوع نہیں ہے۔
اس پر ماقبل میں تبصرہ کیاجاچکاہے۔لیکن اتناعرض کردوں کہ محدث فورم پر بھی اور دیگر جگہ پر بھی تصوف پر اعتراض کا بڑاحصہ کرامات پر اعتراض ہی کے ذیل میں ہواکرتاہے۔
تصوف کا چوتھا دور وہ ہے جس سے ہم آج گزر رہے ہیں، کہ مداریوں اور کرتب دکھانے والوں کی کثرت ہے جو لوگوں کی دنیا اور دین دونوں تباہ کرنے کے لیے تلے بیٹھے ہیں۔یا تو ایسی بڑی بڑی گدیاں ہیں اور سجادہ نشین ہیں جن کا دین سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے یا پھر سلاسل کی بچی کچھی لڑیاں ہیں کہ جن کے سالکین کو اپنے شیخ کے روحانی مقام اور مرتبے اور دوسرے کے سلسلہ پر فضیلت کی وجوہ کے بیان سے فرصت نہیں ہے ۔
ابوالحسن علوی صاح کے ذکر کردہ ادوار پر اعتراض سے قطع نظران کو تصوف کی اصل اورزوائد میں فرق کرناچاہئے، ہرفن میں کچھ اصل ہواکرتاہے اورکچھ زوائد ہواکرتے ہیں،یہ صرف تصوف کی بات نہیں ہے۔اگران کے ذہن میں اصل اورزوائد کا فرق ملحوظ ہوتاتوان کا نقطہ نظرکچھ اور ہوتا۔
تصوف کے آخری دور میں اللہ نے بڑی کرم فرمائی کی کہ اس میں حضرت مخدوم منیری،مجددالف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، سید احمد شہید،شاہ اسماعیل شہی،مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ اور ان کے جانشنیوں نے یہ حقیقت پوری طرح واضح کردی کہ تصوف وہی معتبر ہے جو شریعت کے دائرے اور حد میں ہو، جوشریعت کے دائرہ سے باہر ہے وہ تصوف نامقبول اورغیرمعتبر ہے اوراس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ دور تصوف کی وضاحت اورنکھار کا دور ہے۔
وماتوفیقی الاباللہ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
علمائے اہل حدیث کا ذوق تصوف "
اس نام نہاد 2360صفحات پر مشتمل رطب ویابس کا مجموعہ اس کتاب میں علماء اھل الحدیث کو تصوف صوفی ازم کے دلدہ عقیدہ واحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود اور صوفی الہام اور مزید ثابت کیا کہ اھل الحدیث اکابرین پیری مریدی اورتعویز گنڈا عملیات کے بھی بڑے شوقین تھے ۔۔معاذاللہ
اس کتاب میں بڑی ھوشیاری کے ساتھ علماء اھل الحدیث سے منافقت کرکے اور پیار محبت کے ساتھ ایک کے ساتھ دباؤ ڈال کرکے ان سے اور کیی جو علوم دینیہ سے اھل حدیث وابستہ نہیں خاص ان لوگوں کو استمال کیا کہ جو دنیاوی کاموں میں مصروف بیشتر حضرات ان سے اس کتاب میں تقاریظ لکھوائی گی
کتاب ،علماء اھلحدیث کا ذوق تصوف کے فرنٹ پیج پر سرخ کلر سے جلی حرف میں (پسند فرمودہ) لکھا گیا
کتاب ھذہ کے صفحہ 1تا 7 پر مولوی حمیداللہ اعوان خطیب جامع مسجد رحمانیہ سے صوفی ازم کی تعید پر لکھوایا گیا
2،صفحہ 7پر مولوی محمد عائش •••مدرس سیدین شہیدین چک 36،ضلع فیصل آباد سے••• لکھوایا گیا
مولوی عبدالرشید مجاھد آبادی ••مدرس جامعہ الدراسات الاسلامیہ مغلپورہ سےصفحہ 8 پر •••لکھوایا گیا
مولوی الیاس اثری ۔۔مدیر مرکزالعلوم الاثریہ گوجرانوالہ سے صفحہ 8تا15،پر •••لکھوایا گیا
مولوی اسحاق بٹھی رحمہ اللہ ساندہ لاھور سے صفحہ 15تا19 پر••• لکھوایا گیا
مولوی جنید غزنوی ۔۔لاھور سے صفحہ 38تا44پر •••لکھوایا گیا
ڈاکٹر حماد لکھوی phd لاھور سےصفحہ 44تا50پر•••لکھوایا ۔گیا
مولوی عبد الرشید ھزاروی دارالحدیث ساہیوال سے صفحہ 191تا193پر •••لکھوایا گیا
مولوی حمید اللہ خان عزیز
ایڈیٹر ماھنامہ مجلہ
تفہیم الاسلام احمد پور شرقیہ
صفحہ 85تا99 سے لکھوایا گیا

ان شیوخ سے ہمارے قریبی دوستوں نے علیحدہ علیحدہ فون کال اور ملاقات کرکے معلوم۔کیا گیا کہ کیا آپ نے اس حنفی صوفی واحدۃ الوجودی کی کتاب کو پسند کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہیمیں تو معلوم۔ہی نہیں کیا اس شخص کا منسوبہ تھا اور یہ حکیم۔۔۔اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ ٹیپ ریکاڈینگ ساتھ لیکر جاتا اور ساتھ ساتھ لکھتے رھتے تھے کیچھ علماء نے کہا یہ ہمیں اس حکیم ۔۔۔نے چند صفحات پر تزکیہ نفس کے عنوان سے مضمون دیا کہ آپ اس موضوع پر لکھ کر دیے اور یہ نہیں بتایا کہ میں اھلحدیث علماء کے صوفی ازم کے بارے لکھ کر انکو صوفی ثابت کرنا چاھتا ھوں ۔۔
ان سب باتوں کی ٹیپ ریکاڈینگ ۔۔مناظر اسلام حافظ شاھد محمود جانباز صاحب
حافظ عبدالقیوم ظہیر صاحب
پروفیسر حماد لکھوی صاحب
کے وارسآپ پر سینڈ کی ہے
نوٹ ۔۔حافظ شاھد جنباز صاحب نے کہا کہ میں اس کتاب کا رد لکھوں گا اور انکو ہمارے دوست نے خود لاھور جا کر یہ کتاب دی اور وعدہ لیا کہ آپ نے اس کتاب کا رد لکھنا ہے اس سلسلے میں انہوں نے بابا جی اسحاق بٹھی رحمہ اللہ سے معلوم۔کیا تو بات کیچھ اور ہی نکلی ۔۔
پسند فرمودہ علماء اھلحدیث سے تحقیقات کے لیے اور اس کتاب کا رد لکھوانیں کے لیے رابطہ کے لیے
00923224301600
حافظ شاھد جنباز لاھور
00923330130333
,00923004460660
حافظ عبدالقیوم ظہیر صاحب لاھور
00923009499141
پروفیسر حماد لکھوی صاحب
لاھور
00923004093026
حافظ زبیر صاحب قرآن آکیڈمی لاھور
00923036317411
عبدالرشید ھزاروی صاحب اوکاڑہ
00923008477018
جنید غزنوی صاحب لاھور
00923336357567
00933022186601
حمیداللہ خان احمد پور شرقیہ بہاولپور
00923368692313
مولوی محمد عائش صاحب ماموں کانجن فصل آباد
(صوفیت کا دلدہ حکیم ۔۔کا ہمنوا حمیداللہ اعوان قلعوی گوجرانوالہ
00923446084317)
عمرفاروق سعدی صاحب
منڈی واربٹن
00923322626538

تمام سلفی بھائیھوں سے اپیل ہے اس میسج کو جماعتی اھل علم شیوخ اور دوست احباب کو سینڈ کریں تاکہ کوئی قسمت والہ سلفی اس نامنہاد کتاب کا مدلل جواب لکھے ۔۔
آپکا خیر خواہ بھائی۔۔۔۔
بشکریہ شیخ طیب معاویہ حفظہ اللہ مدنی لائبریری پھولنگر
 
Top