ابو جماز
رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 50
- ری ایکشن اسکور
- 95
- پوائنٹ
- 64
عام طور پر آپ نے بھی اس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ اختلاف جب بھی کیا جاتا ہے چاہے وہ علمی ہو یا غیر علمی تو لڑائ جھگڑے تک بات ضرور پہنچتی ہے۔ اسکے بے شمار اسباب ہیں لیکن ایک اہم سبب اگلے کی رائے کو درست طریقہ سے نہ سمجھنا ہے اور یہی چیز اختلاف کو طول دیتی ہے۔ اسکی مثال آپ یوں سمجھیں کہ پچھلے دنوں ایک بھائ سے میرا کسی علمی مسئلہ میں اختلاف ہوگیا۔ میں جب اسکی رائے کو سن رہا تھا تو میں نے اپنے آپ میں تین چیزیں محسوس کیں:
1۔ اسکی گفتگو کے دوران میں دماغی طور پر بے چین تھا کیونکہ میرے ذہن میں ایک قسم کا ڈر تھا کہ کہیں وہ کوئ ایسی دلیل نہ دے دے جسکا میرے پاس کوئ جواب نہ ہو۔
2۔ جو بھی دلائل وہ دے رہا تھا اسکو سمجھنے کی کوشش کے بجائے میں اسکے جوابات سوچ رہا تھا۔
3۔ میں بار بار اسکو ٹوکتا کیونکہ مجھ سے اسکی پوری گفتگو سنی نہیں جارہی تھی۔
اللہ اللہ کرکے جب اسکی آدھے گھنٹے کی طویل گفتگو ختم ہوئ تو میں نے ایک تحریری جواب لکھنا شروع کردیا۔ نماز کا وقت آیا تو مسجد کی طرف جانے لگا تو رستے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی وہ بات یاد آئ کہ کسی نازک مسئلہ کو سمجھنے اور اس پر غلطی سے بچنے کے لیے دمشق کی ایک پرانی سی مسجد میں چلے جایا کرتے اور علاّم العلوم کے سامنے سجدے میں گڑگڑاتے ہوئے مدد طلب کرتے۔ یہی سوچتے ہوئے دورانِ نماز اهدنا الصراط المستقيم پر زور دیا اور واپس آکر جواب لکھنا شروع کیا۔ اس بار جواب الزامی اور ناقدانہ ہونے کے بجائے ناصحانہ اور مدلل تھا۔ کیونکہ ان منفی احساسات کو ختم کرنے کے لیے پہلے اسکی گفتگو کے مثبت پہلوؤں کو لکھا اور پھر اختلافی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا۔ اس بھائ کے ہم خیال لوگوں نے نہ صرف میری رائے کو مکمل پڑھا بلکہ پسند کرتے ہوئے اس پر دعائیہ کلمات بھی کہے اگرچہ وہ اس سے اختلاف ہی کیونہ کرتے ہوں۔
میں نے اس سے یہ بات سیکھی ہے کہ جب بھی ہم اپنے مخالف کی کوئ رائے سنتے ہیں تو سنتے وقت ہمارا دماغ اپنے اندر ایک (مدافعانہ) ڈیفنسو دیوار کھڑی کردیتا ہے جس سے بات ہماری عقل تک نہیں پہنچ پاتی۔ کیونکہ حق میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اگر وہ عقل تک اس دیوار سے بچ کر کسی طرح پہنچ جائے تو وہ اسکو متاثر ضرور کرتا ہے۔ اسی لیے بات کا انداز اگر ناصحانہ ہو اور الفاظ کا بہترین چناؤ ہو اور اسی طرح بات مثبت ہو تو اگلا اس طرح کی کوئ ڈیفنسو دیوار اپنے اندر کھڑی نہیں کرپاتا اور نتیجہ میں ہمیشہ فریقین میں سے ایک حق کو سمجھ جاتا ہے۔
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں اختلاف کے آداب سیکھائے اور ہماری غلطیوں کی اصلاح فرمائے۔ آمین
1۔ اسکی گفتگو کے دوران میں دماغی طور پر بے چین تھا کیونکہ میرے ذہن میں ایک قسم کا ڈر تھا کہ کہیں وہ کوئ ایسی دلیل نہ دے دے جسکا میرے پاس کوئ جواب نہ ہو۔
2۔ جو بھی دلائل وہ دے رہا تھا اسکو سمجھنے کی کوشش کے بجائے میں اسکے جوابات سوچ رہا تھا۔
3۔ میں بار بار اسکو ٹوکتا کیونکہ مجھ سے اسکی پوری گفتگو سنی نہیں جارہی تھی۔
اللہ اللہ کرکے جب اسکی آدھے گھنٹے کی طویل گفتگو ختم ہوئ تو میں نے ایک تحریری جواب لکھنا شروع کردیا۔ نماز کا وقت آیا تو مسجد کی طرف جانے لگا تو رستے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی وہ بات یاد آئ کہ کسی نازک مسئلہ کو سمجھنے اور اس پر غلطی سے بچنے کے لیے دمشق کی ایک پرانی سی مسجد میں چلے جایا کرتے اور علاّم العلوم کے سامنے سجدے میں گڑگڑاتے ہوئے مدد طلب کرتے۔ یہی سوچتے ہوئے دورانِ نماز اهدنا الصراط المستقيم پر زور دیا اور واپس آکر جواب لکھنا شروع کیا۔ اس بار جواب الزامی اور ناقدانہ ہونے کے بجائے ناصحانہ اور مدلل تھا۔ کیونکہ ان منفی احساسات کو ختم کرنے کے لیے پہلے اسکی گفتگو کے مثبت پہلوؤں کو لکھا اور پھر اختلافی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا۔ اس بھائ کے ہم خیال لوگوں نے نہ صرف میری رائے کو مکمل پڑھا بلکہ پسند کرتے ہوئے اس پر دعائیہ کلمات بھی کہے اگرچہ وہ اس سے اختلاف ہی کیونہ کرتے ہوں۔
میں نے اس سے یہ بات سیکھی ہے کہ جب بھی ہم اپنے مخالف کی کوئ رائے سنتے ہیں تو سنتے وقت ہمارا دماغ اپنے اندر ایک (مدافعانہ) ڈیفنسو دیوار کھڑی کردیتا ہے جس سے بات ہماری عقل تک نہیں پہنچ پاتی۔ کیونکہ حق میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اگر وہ عقل تک اس دیوار سے بچ کر کسی طرح پہنچ جائے تو وہ اسکو متاثر ضرور کرتا ہے۔ اسی لیے بات کا انداز اگر ناصحانہ ہو اور الفاظ کا بہترین چناؤ ہو اور اسی طرح بات مثبت ہو تو اگلا اس طرح کی کوئ ڈیفنسو دیوار اپنے اندر کھڑی نہیں کرپاتا اور نتیجہ میں ہمیشہ فریقین میں سے ایک حق کو سمجھ جاتا ہے۔
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں اختلاف کے آداب سیکھائے اور ہماری غلطیوں کی اصلاح فرمائے۔ آمین