• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول و ضوابط

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
(اکیسویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:

(4) قرآنی آیات کا حوالہ ذکر کرنا۔

قرآنی آیات کا حوالہ سورتوں کے نام اور آیت نمبر کے ساتھ ذکر کرنا چاہئے۔ اس میں صفحہ نمبر ذکر کرنا مناسب نہیں ہے۔

قرآنی آیات کو لکھتے وقت حد درجہ متنبہ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی طرح کی کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ نیز مصحف عثمانی کے رسم سے عدول کرنا صحیح نہیں۔ قرآن کا رسم ایک خاص رسم ہے جسے دوسرے رسم واملا پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ مخطوطات میں بھی بسا اوقات بعض آیات غلط منقول ہو سکتے ہیں۔ شیخ عبد السلام محمد ہارون نے بہت ساری ایسی آیتوں کا ذکر کیا ہے جو دوران تحقیق انہیں مخطوطات میں غلط لکھی ہوئی ملیں۔ (دیکھیں: تحقیق النصوص ونشرہا، ص48-50)
اس لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ مطلوبہ آیت کو مصحف عثمانی سے کاپی پیسٹ کیا جائے تاکہ کسی غلطی کا امکان نہ رہے۔

کسی کلام کی نسبت رب العالمین کی طرف ہونے اورمصحف میں اسے نہ پانے پر فورا مصنف پر وہم اور غلطی کا حکم نہیں لگانا چاہئے، ہو سکتا ہے کہ وہ قرآنی آیت نہ ہوکر کوئی حدیث قدسی ہو۔ چنانچہ بعض محققین کو ایسی فحش غلطیوں کا بھی شکار پایا گیا ہے۔

بعض آیتوں کو بعض مصنفین مکمل ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف محل شاہد پر اکتفا کرتے ہیں۔ اور بسا اوقات "واو، فاء، إن، أن، قل" وغیرہ کو حذف کرکے ذکر کرتے ہیں مثلا "وقل جاء الحق" والی آیت میں "قل جاء الحق" یا صرف "جاء الحق" پر اکتفا کرتے ہیں اور یہ جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے واو کے حذف کے ساتھ "لاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ" کی تلاوت ثابت ہے۔ (دیکھیں: صحيح البخاري حدیث نمبر 1403)

امام شافعی نے الرسالہ میں بہ کثرت ایسا استعمال کیا ہے۔ بطور مثال دیکھیں: فقرہ 643، 974، 975 ۔
شیخ احمد شاکر الرسالہ کی تحقیق میں فرماتے ہیں: "والشافعي كثيرًا ما يترك حرف العطف اكتفاء بموضع الاستدلال من الآية, وليس بصنيعه هذا بأس". (ص231)
(شافعی بہ کثرت آیت کے محل استدلال پر اکتفا کرتے ہوئے حرف عطف کو چھوڑ دیتے ہیں، اور ان کے اس منہج میں کوئی حرج نہیں۔)

لہذا ان آیتوں کو اسی طرح نقل کرنا چاہئے جیسے مصنف نے ذکر کیا ہے، اپنی طرف سے مکمل آیت ذکر کرنا مناسب نہیں۔ (دیکھیں : تحقیق النصوص ونشرہا ، ص51-52)

متن کتاب میں کوئی آیت جمہور قراء کی قرأت کے مخالف ہو تو اس کی وضاحت بھی محقق کو حاشیہ میں کرنی چاہئے۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
(بائیسویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل

آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:

(5) متن میں وارد احادیث وآثار کی تخریج کرنا۔

متن کتاب میں وارد تمام احادیث کی تخریج کرنا اور رد وقبولیت کے اعتبار سے ان کا درجہ ذکر کرنا ضروری ہے۔
اگر حدیث صحیحین یا دونوں میں سے کسی ایک میں ہو تو ان کا حوالہ ذکر کر دینا کافی ہے، کیونکہ احادیث صحیحین کی قبولیت پر امت کا اجماع ہے۔
لیکن اگر وہ حدیث صحیحین کے علاوہ کسی دوسری کتاب میں ہو تو محدثین کرام کے وضع کردہ علوم حدیث کے قواعد کی روشنی میں ان کی تخریج کرنا ضروری ہے۔ تخریج کا مطلب یہ کہ جن مصادر میں وہ حدیث مسندًا موجود ہے اس کا مع الاسناد حوالہ ذکر کرنے کے بعد دراسہ کیا جائے، پھر رد وقبولیت کے اعتبار سےاس کا مرتبہ ذکر کیا جائے۔
اگر حدیث پر متقدمین علما کا حکم موجود ہے تو ان کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہئے۔

جہاں تک آثار کی بات ہے تو ان کا معاملہ احادیث رسول کی طرح نہیں ہے۔ ان کی تخریج میں اس قدر توسع کی ضرورت نہیں ہے جس طرح احادیث میں ضروری ہے، الا یہ کہ اگر کسی اثر میں کوئی ایسا خارجی سبب ہو جس کی بنا پر وہ توسع کا تقاضہ کرتا ہو تو اس کی مفصل تخریج کی جائےگی۔ مثلا اس میں کوئی ظاہری نکارت ہو یا اس سےکسی قرآنی آیت یا حدیث یا دوسرے صحابہ وتابعین کے منہج کی مخالفت لازم آتی ہو تو ایسے موقع پر اس کی مفصل تخریج کی جائےگی۔

اگر کتاب کا تعلق علم حدیث سے ہے تو اس کی متوسط یا مفصل انداز میں تخریج کی جائےگی، اور اگر علم حدیث کے علاوہ کسی دوسرے تخصص سے اس کا تعلق ہے تو مختصرا اس کی تخریج پیش کی جائےگی جس میں بعض اہم مصادر کے ذکر کے ساتھ اس کا مختصر حکم بھی ہوگا۔

نص کتاب کی خدمت کا یہ ایک ایسا زاویہ ہے جو فن تخریج میں محقق کی مہارت کا تقاضہ کرتا ہے۔ کیونکہ اس میں محقق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کرتا ہے ۔ اور بلا یقین واذعان کسی چیز کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ «إن كذبًا علي ليس ككذب على أحد» اور «من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين» جیسی احادیث اس کی سنگینی کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔

لہذا اگر مطلوبہ کتاب کا تعلق علم حدیث سے ہے تو محقق کی اس فن پر اچھی پکڑ ہونی چاہئے، انہیں اس کی باریکیوں کا کما حقہ علم ہونا چاہئے۔ شیخ عزیر شمس حفظہ اللہ ایک بار ایک پروگرام میں بیان کر رہے تھے کہ بالعموم علوم شریعت کی اچھی جانکاری رکھنے والا کسی بھی فن کی کتاب کی تحقیق کر سکتا ہے سوائے فن حدیث کی کسی کتاب کے، اس میں اس فن کے کسی ماہر کو ہی قدم رکھنا چاہئے، دوسروں کو نہیں، کیونکہ اس میں محقق سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف احادیث کی نسبت کی جانچ پڑتال کریں جو کہ بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ یہی بات استاد محترم شیخ عبد الباری انصاری حفظہ اللہ بھی کہتے ہیں۔

تخریج کے وقت محقق کو چاہئے کہ وہ مصادر کی منطقی ترتیب کا خاص خیال رکھے۔
منطقی ترتیب کا مطلب یہ کہ کتب ستہ کے علاوہ باقی کتب میں ان کے مؤلفین کی وفیات کے اعتبار سے انہیں مرتب کیا جائے۔ لیکن اگر وہ حدیث کتب ستہ میں ہو تو اسے سب پر مقدم کی جائےگی۔ کتب ستہ کی داخلی ترتیب یہ ہوگی: صحیح بخاری، پھر صحیح مسلم، پھر سنن ابی داود، پھر جامع ترمذی، پھر سنن نسائی، پھر سنن ابن ماجہ۔
کتب ستہ کی ترتیب میں علما کے یہاں بعض اختلافات پائے جاتے ہیں۔ لیکن جس پر آخر میں تقریبا علما کا شبہ اتفاق ہوا ہے وہ یہ کہ مذکورہ ترتیب کے حساب سے انہیں مرتب کیا جائے۔ واضح رہے کہ یہ ترتیب اصحاب کتب ستہ کی وفیات کے اعتبار سے ہے، ان کتب کی صحت اور منزلت کے اعتبار سے نہیں، ورنہ سنن نسائی کا مقام ومرتبہ صحیحین کے بعد ہونا چاہئے تھا، جامع ترمذی کے بعد نہیں۔
اس میں ایک اشکال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ پھر سنن ابن ماجہ کو سب سے آخر میں کیوں ذکر کیا جاتا ہے، حالانکہ ابن ماجہ کی وفات ابو داود، ترمذی اور نسائی سے پہلے ہوئی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سنن ابن ماجہ کو کتب ستہ کے اندر بعد میں شامل کیا گیا ہے۔ پہلے کتب خمسہ کی اصطلاح رائج تھی یا چھٹی کتاب میں سنن دارمی یا موطا امام مالک کو شمار کیا جاتا تھا۔ ابو الفضل محمد بن طاہر القیسرانی نے شروط الأئمہ الستہ میں اسے پہلی بار کتب ستہ میں داخل کیا ہے۔ اس لئے اس ترتیب میں ابن ماجہ کو سب سے آخر میں ذکر کیا جاتا ہے۔

کتب ستہ کو ذکر کرنے کے بعد دوسرے مصادر کی ترتیب ان کے مؤلفین کی وفیات کے اعتبار سے ہوگی۔مثلا موطا امام مالک کو مصنف عبد الرزاق پر، اور مصنف عبد الرزاق کو مصنف ابن ابی شیبہ پر، اور مصنف ابن شیبہ کو مسند احمد پر مقدم کیا جائےگا، وقس علی ہذا۔

واضح رہے کہ ایک ہی حاشیہ میں مختلف مصادر کے مابین منطقی ترتیب کی بات صرف کتب احادیث کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام فنون کے مصادر کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ مصادر کو ان کے مؤلفین کی وفیات کے اعتبار سے ترتیب دینا ضروری ہے۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
(تئیسویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

تحقیق کے عملی مراحل

آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:

(6) کتاب میں منقول اقوال اور اقتباسات کی توثیق کرنا:

ہر مؤلف اپنی کتاب میں علمائے سابقین سے استفادہ کرتا ہے۔ ان کے اقوال سے بہ کثرت استدلال کرتا ہے۔ زیر بحث موضوع پر سابقہ کتب سے بہت سارے اہم مسائل کو حرف بہ حرف یا تصرف کے ساتھ نقل کرتا ہے۔ ایسے اقوال اور نصوص کی توثیق محقق کی اہم ذمہ داریوں میں داخل ہے۔

توثیق کے لئے ضروری ہے کہ مصادر اصلیہ سے ان کی توثیق کی جائے۔ یہ توثیق کا اعلی معیار ہے ۔ اگر مصادر اصلیہ میں وہ قول یا اقتباس نہ ملے تو مصادر ثانویہ (دویم درجے کے مصادر) کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔ مصادر اصلیہ کی موجودگی کے باوجود مصادر ثانویہ سے کسی قول کی توثیق کرنا یا کسی قول کو نقل کرنا محقَّق کتب اور علمی بحوث میں بہت بڑا عیب مانا جاتا ہے۔

مصادر اصلیہ کہتے ہیں صاحب القول کی اپنی کسی تالیف سے اس کی توثیق کی جائے۔
مثلا کسی راوی کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کا کوئی قول صاحب کتاب نے نقل کیا ہو تو اس کی توثیق کے لئے امام بخاری رحمہ اللہ کی موجودہ کتب میں اسے پہلے ڈھونڈا جائے۔ اگران کی الصحیح، التاریخ الکبیر ، التاریخ الاوسط، التاریخ الصغیر، الضعفاء، الأدب المفرد، خلق افعال العباد وغیرہ کتب میں وہ قول نہ ملے تو ان کے کسی شاگرد کی کتاب میں اسے ڈھونڈا جائے، مثلا ان کے شاگرد امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی جامع میں بہ کثرت ان کے اقوال نقل کرتے ہیں، اس میں اسے ڈھونڈا جائے۔ اگر اس میں بھی نہ ملے تو جنہوں نے اپنی کتابوں میں بالاسناد ان سے وہ قول نقل کیا ہو ان کی کتب سے اس کی توثیق کی جائے، مثلا ابن عدی ، عقیلی ،خطیب، ابن عساکر وغیرہ کی کتابوں میں اسے ڈھونڈا جائے جو بالاسناد اقوال نقل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔
اگر ان میں بھی نہ ملے تو سب سے پرانے جس مصدر میں ملے وہاں سے اس کی توثیق کی جائے۔
مصادر اصلیہ یا متقدم مصادر میں یہ قول موجود ہونے کے باوجود تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب، تقریب التہذیب، میزان الاعتدال، لسان المیزان وغیرہ کتابوں سے اس کی توثیق کرنا معیوب ہے۔

بہت سارے باحثین کو دیکھا جاتا ہے کہ امہات مصادر میں کوئی حدیث موجود ہونے کے باوجود مشکوۃ المصابیح اور بلوغ المرام کی طرف اس کا احالہ کرتے ہیں۔ یہ علمی بحوث میں بہت بڑا خلل تصور کیا جاتا ہے۔

اسی طرح محقق کو چاہئے کہ متن کتاب میں موجود دیگر معلومات کی توثیق کے لئے متخصص مصادر کی طرف رجوع کرے۔
بعض محققین اور باحثین کو دیکھا جاتا ہے کہ لغوی مباحث اور فقہی اقوال کی توثیق کے لئے شروحات حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جو کہ صحیح نہیں، الا یہ کہ شروحات حدیث کے علاوہ وہ معلومات انہیں کہیں نہ ملیں۔
اور بعض محققین اگر معاجم لغویہ اور کتب مذاہب فقہیہ کی طرف رجوع بھی کرتے ہیں تو ان کے یہاں اصالت کا فقدان کا ہوتا ہے۔ پس بعض محققین مذاہب شافعیہ کی کتابوں سے علمائے حنابلہ کے اقوال کی توثیق کرتے ہیں تو بعض مذہب حنفی کی کتابوں سے علمائے مالکیہ کے اقوال کی ۔ اور بعض ایسے اقوال کی توثیق کے لئے فقہ مقارن یا عام فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ تمام کے تمام توثیق کے لئے متخصص مصادر نہیں ہیں۔
محقق کو چاہئے کہ توثیق المعلومات کے لئے دقت کے ساتھ کام لیں اور اصل ومتخصص مصادر ہی سے ان کی توثیق کریں۔

اصل اور متخصص مصادر کی طرف رجوع کرنے کے بعد اگر نص منقول اور مصادر اصلیہ میں کوئی مؤثر فرق ہو تو اس سے قارئین کو مطلع کرنا ضروری ہے۔

نص کتاب کی خدمت کا یہ ناحیہ بظاہر آسان دکھنے کے باجود کافی مشکل ہے۔ آج گرچہ کمپوٹر نے اس کام کو کافی آسان بنا دیا ہے لیکن اس کے باجود یہ کوئی آسان کام نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر مصنفین کسی کتاب سے اقتباس نقل کرتے وقت تصرف سے کام لیتے ہیں، یا بالمعنی بیان کرتے ہیں ،یا کتاب سے ڈائرکٹ نقل نہیں کرتے بلکہ اپنے حافظہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے ذکر کرتے ہیں۔ بنا بریں بہت سارے اقوال کی نسبت میں انہیں وہم بھی ہو جاتا ہے۔ محقق ان کی توثیق کے لئے مذکورہ مصادر کو ہر طرح سے کھنگالتا ہے ، لیکن انہیں بالآخر مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ کیونکہ وہ قول غلطی سے مصنف نے کسی دوسرے کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ ایسے موقعے پر "لم أقف علیہ" کی تعلیق محقق کی محنت اور جانفشانی کی صحیح تعبیر نہیں کر پاتی اور قاری کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اس جملہ کو لکھنے سے پہلے محقق نے اپنا کتنا وقت اس کی تلاش وجستجو میں قربان کیا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ایک سچے اور امین محقق کی محنتوں کا اندازہ اس کے اور اس کے رب کے علاوہ کسی نہیں ہو سکتا۔

بسا اوقات بعض مصنفین بھی ثانوی مصادر سے بعض معلومات نقل کرتے ہیں اور اصل مصادر کی طرف رجوع نہیں کرتے، اور بشری تقاضے کے مطابق ان ثانوی مصادر کے مصنفین سے بعض غلطیوں کا صادر ہوجانا عین ممکن ہے۔ پس یہ غلطی جیلا عن جیل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ مثلا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے جن جگہوں پر کچھ سہو یا وہم ہوا ہے ان کے بعد آنے والے اکثر شارحین کی کتابوں میں یہ اوہام اسی طرح موجود ہیں جس طرح وہ فتح الباری میں ہیں۔ چاہے وہ ارشاد الساری ہو، یا نیل الاوطار، یا سبل السلام، یا تحفۃ الاحوذی، یا عون المعبود، یا مرعاۃ ومرقاۃ ۔ ارشاد الساری کی تحقیق کے وقت کئی جگہوں پر خاکسار بھی اس تجربہ سے گزر چکا ہے۔
ایسے معلومات کی توثیق محقق کے لئے سب سے مشکل مرحلہ ہے۔ اسی لئے محقق کے اخلاقی صفات میں ذکر کیا گیا تھا کہ وہ صبر وتحمل کی صفت سے مالامال ہو۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
(چوبیسویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

تحقیق کے عملی مراحل

آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:

(7) غیر مشہور شخصیات کا مختصر تعارف کرنا۔

متن کتاب میں بہت ساری ایسی شخصیات کا ذکر آتا ہے جن سے عموما قارئین متعارف نہیں ہوتے۔ محقق کی ذمہ داری ہے کہ ان سے قارئین کو متعارف کرائیں۔ لیکن یہ تعارف حتی الامکان مختصر ہواور صرف ان شخصیات کا ہو جن کے بارے ظن غالب ہو کہ بیشتر قارئین ان سے متعارف نہیں ہوں گے۔ بعض محققین ایسی شخصیات کا بہت طویل تعارف پیش کرتے ہیں جوکہ غیر مناسب ہے۔ تعارف میں نام، نسب، کنیت، لقب، وہ فن جس میں وہ شہرت یافتہ ہیں، ان کی بعض تصنیفات -اگر ہوں تو-، عقيده اور سن وفات کا ذکر آجانا کافی ہے۔

کسی بھی شخصیت کے تعارف کے لئے حتی الامکان اصل اور متخصص مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ مثلا :
صحابہ کرام کے تعارف کے لئے ان کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے جو خاص اسی مقصد کے لئے لکھی گئی ہیں۔ مثلا:
1- معجم الصحابة للبغوي
2- معجم الصحابة لابن قانع
3- معرفة الصحابة لابن مندة
4- معرفة الصحابة لأبي نعيم
5- الاستيعاب لابن عبد البر
6- أسد الغابة لابن الأثير
7- الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر
وغيره.

اور اگر وہ شخصیت فقہی مذاہب کے مشہور علما میں سے ہے تو ان کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے جو خاص اسی مقصد کے لئے تصنیف کی گئی ہیں۔ مثلا:
علمائے احناف کے لئے طبقات الحنفية لعلي بن أمر الله الحنائي، الجواہر المضیہ فی طبقات الحنفیہ لعبد القادر القرشی الحنفی، اور الطبقات السنية في تراجم الحنفية لتقي الدين الغزي۔ وغیرہ
علمائے مالکیین کے لئے الدیباج المذہب لابن فرحون، اور شجرة النور الزكية في طبقات المالكية لمحمد مخلوف۔ وغیرہ
علمائے شوافع کے لئے طبقات الفقهاء الشافعية لابن الصلاح، طبقات الشافعیہ للسبکی، طبقات الشافعية لعبد الرحيم الإسنوي، اور طبقات الشافعية لابن قاضي شهبة ۔ وغیرہ
اور علمائے حنابلہ کے لئے طبقات الحنابلہ لابن أبی یعلی اورذیل طبقات الحنابلہ لابن رجب وغیرہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

اگر کسی خاص خطے اور علاقے کے علما کے تعارف کی ضرورت پڑے تو ان کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے جو ان علاقوں کے علما کی سوانح میں لکھی گئی ہیں۔ مثلا:
علمائے بغداد کے لئے تاریخ بغداد للخطیب البغدادی۔
علمائے اصبہان کے لئے طبقات المحدثین بأصبھان لأبی الشیخ الأصبھانی، تاریخ اصبھان لأبي نعيم الأصبهاني، اور تاریخ اصبھان لابن مندہ الأصبھانی۔
علمائے دمشق کے لئے تاریخ دمشق لابن عساکر۔
علمائے واسط کے لئے تاریخ واسط لبحشل الواسطی۔
علمائے نیساپور کے لئے تاریخ نیسابور للحاکم ۔
علمائے اربل کے لئے ریخ إربل لابن المستوفی
افریقی علما کے لئے طبقات علمائے أفریقیۃ وتونس لأبی العرب القیروانی۔
علمائے اندلس کے لئے تاریخ العلماء والرواۃ للعلم بالأندلس لابن الفرضی اور بغية الملتمس في تاريخ رجال أهل الأندلس لأبي جعفر الضبي۔
علمائے مغرب کے لئے تاریخ المغاربہ ومصر لمحمد المسبحی۔ یہ بہت ہی وسیع کتاب ہے اور اس میں مصری علما کے سوانح بھی مذکور ہیں۔ اسی طرح مصری علما کے سوانح کے لئے تاریخ علماء أھل مصر لیحی الحضرمی بھی ہے۔
علمائے جرجان کے لئے تاریخ جرجان لحمزہ السہمی۔
علمائے حلب کے لئے بغية الطلب في تاريخ حلب لابن العدیم۔ اور کنوز الذھب فی تاریخ حلب لسبط ابن العجمی۔
اور ہندوستانی علما کے لئے الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام المسمى بـ (نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر) لعبد الحي الحسني وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
یہ تمام کتابیں الحمد للہ چھپی ہوئی ہیں۔

اور اگر اس شخصیت کا تعلق کسی خاص فن کے ساتھ ہے تو اس فن کے ماہرین علما کے تعارف میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی طرف رجوع کیا جائے ۔ مثلا کسی نحوی، ادیب اور لغوی کے تعارف کے لئے ان کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے جو خاص ان کے تعارف کے لئے ہی تصنیف کی گئی ہیں۔ مثلا:
1- طبقات النحویین واللغویین للزبیدی الإشبيلي
2- أخبار النحويين البصريين للسيرافي
3- نزہۃ الألباء للأنباري
4- تاریخ العلماء النحویین للتنوخی
5- معجم الأدباء لیاقوت الحموي
6- إنباہ الرواۃ للقفطي
7- البلغۃ فی تراجم ائمۃ النحو واللغۃ للفیروزآبادي وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
اسی طرح دوسرے فن کے ماہرین کا معاملہ ہے ۔

علمائے متقدمین کا تعارف عموما بآسانی دستیاب ہو جاتا ہے کیونکہ ان کے تعارف کے لئے علمائے کرام نے بے شمار کتابیں تصنیف کی ہیں۔ لیکن علمائے متأخرین کے تعارف کے لئے بسا اوقات کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذیل میں بعض ایسی کتابوں کو ذکر کیا جارہا ہے جن سے محققین اور باحثین علمائے متأخرین کے تعارف کے لئے مدد لے سکتے ہیں:

1- البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع للشوكاني
2- الملحق التابع للبدر الطالع للصنعاني
3- الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة لابن حجر
4- الضوء اللامع لأهل القرن التاسع للسخاوي
5- النور السافر عن أخبار القرن العاشر لمحي الدين العيدروس
6- الكواكب السائرة بأعيان المئة العاشرة لنجم الدين محمد بن محمد الغزي
7- خلا صة الأثر في أعيان القرن الحادي عشر لمحمد أمين الدمشقي
8- سلك الدرر في الأعيان القرن الثاني عشر لمحمد خليل الحسيني
9- حلية البشر في تاريخ القرن الثالث عشر لعبد الرزاق الدمشقي
10- إتحاف المطالع بوفيات أعلام القرن الثالث عشر والرابع لعبد السلام ابن سودة

یہ تو خاص مصادر کی بات ہوئی، اس کے علاوہ علمائے متقدمین اور متأخرین نے شخصیات کے تعارف میں بے شمار ایسی کتابیں تصنیف کی ہیں جن سے کوئی بھی محقق اور باحث بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ مثلا طبقات ابن سعد ، التاریخ الکبیر للبخاری، الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، الضعفاء للعقیلی، الکامل لابن عدی، الثقات لابن حبان، الإرشاد للخلیلی، وفیات الأعیان لابن خلکان، تہذیب الکمال للمزی، تاریخ الإسلام للذہبی، سیر اعلام النبلاء لہ، تذکرۃ الحفاظ لہ، تقریب التہذیب لابن حجر، الوافی بالوفیات للصفدی، الأعلام للزرکلی وغیرہ۔

جاری...
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
(پچیسویں اور آخری قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری

تحقیق کے عملی مراحل

آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:

(8) نص میں وارد مشکل الفاظ اور اصطلاحات کی مناسب شرح کرنا۔

متن کتاب میں بہت سارے ایسے الفاظ اور علمی اصطلاحات ہوتے ہیں جہاں تک بیشتر قارئین کی رسائی نہیں ہوتی، خصوصا علمائے متقدمین کی کتابوں میں ایسے کلمات بے شمار ہوتے ہیں۔ محقق کی ذمہ داری ہے کہ ایسے کلمات اور اصطلاحات کو سمجھنے میں قارئین کی مدد کریں۔

مشکل الفاظ کی شرح کے لئے قدیم کتب المعاجم و کتب الغریب کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ بعض محققین شروح الحدیث یا کتب التفاسیر یا کتب الفقہ وغیرہ سے اس کا معنی بیان کرتے ہیں جو کہ تحقیقی کتب میں ایک معیوب چیز ہے، الا یہ کہ وہ معنی کتب المعاجم یا کتب الغریب میں محقق کو کہیں نہ ملے تو ان ثانوی مصادر سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ہاں اگر مصادر اصلیہ میں اس کا معنی وضاحت کے ساتھ نہ ہو، اجمال کے ساتھ ہو تو پہلے مصادر اصلیہ سے استفادہ کیا جائے پھر مزید وضاحت کے لئے ان ثانوی مصادر کا حوالہ پیش کیا جائے۔

کسی معجم (ڈکشنری) کا انتخاب کرتے وقت یہ خیال رکھنا چاہئے کہ حتی الامکان وہ متقدم ہو۔ متقدم معاجم میں مطلوبہ معلومات موجود ہونے کے باوجود متأخر معاجم کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ متأخر معجم کے مصنف نے کوئی چیز اپنے متقدمین سے نقل کی ہے اور محقق اصل مصدر کا حوالہ نہ دے کر متأخر معاجم کا حوالہ پیش کرتا ہے۔ اسے تحقیقی کتب میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کسی معجم سے کسی مشکل کلمہ کا معنی نقل کرتے وقت یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ یہ چیز انہوں نے اپنے کسی متقدم سے نقل کی ہے یا نہیں، کیونکہ اکثر متأخرین مصنفین نے اپنے سابقین کی کتابوں پر کام کیا ہے یا سابقین کی کتابیں ان کا اہم مصدر رہی ہیں۔ بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:

(1) ابن فارس فرماتے ہیں کہ مقاییس اللغہ میں ان کا اعتماد علمائے سابقین کی پانچ کتابوں پر ہے: کتاب العین للخلیل، اصلاح المنطق لابن السکیت، جمہرۃ اللغہ لابن درید، غریب الحدیث اور الغریب المصنف لابی عبید۔ (مقاییس اللغہ ، مقدمہ/504)۔

(2) امام صغانی کی العباب نے گویا سابقہ معاجم کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے، خصوصا کتاب العین، جمہرۃ اللغہ، الصحاح، تہذیب اللغہ، مقاییس اللغہ وغیرہ کو۔ (المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج، ص28)۔

(3) ابن منظور نے لسان العرب میں پانچ کتابوں پر اعتماد کیا ہے، وہ ہیں: تہذیب اللغہ للازہری، المحکم لابن سیدہ، الصحاح للجوہری، حواشی ابن بری علی الصحاح، والنہایہ لابن الاثیر۔ فرماتے ہیں: :"میری اس کتاب سے نقل کرنے والا یہ سمجھے کہ گویا وہ انہیں پانچ اصولوں (کتابوں ) سے نقل کر رہا ہے"۔ (لسان العرب 1/8)۔

(4) فیروز آبادی کی القاموس المحیط کے بے شمار مراجع میں سے چند اہم مراجع یہ ہیں: العین للخلیل، الجمہرہ لابن درید، الصحاح للجوہری، المحکم لابن سیدہ، تہذیب اللغہ للازہری، العباب للصغانی۔ ((المعاجم اللغویہ لمحمد احمد ابی الفرج، ص29)۔

(5) فیروزآبادی کی القاموس المحیط پر تاج العروس کی بنیاد ہے۔ زبیدی نے اس میں تاج العروس کی شرح کی ہے اور اس پر کافی استدراک کیا ہے۔

لہذا ان جیسی کتابوں سے کوئی چیز نقل کرتے وقت اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور حتی الامکان اصل مصادر سے ہی اسے نقل کرنا چاہئے۔

کتب المعاجم سے استفادہ سے پہلے ان معاجم کے اندر الفاظ کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے۔ متأخرین علما کے یہاں حروف معجم (ا ، ب، ت، ث، ج، ح...) پر ترتیب دینا رائج ومعروف ہے لیکن متقدمین علماکے یہاں بعض کتابوں میں یہ ترتیب موجود نہیں ہے۔ بعض نے اسے مخارج الحروف اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب کیا ہے تو بعض نے کلمہ کے آخری حرف پر اسے مرتب کیا ہے۔ اس لئے کسی بھی معجم سے استفادہ سے پہلے اس کی ترتیب کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ مطلوبہ کلمات تک بآسانی پہنچ سکے۔ ذیل میں بطور نمونے چند مشہور ومعتبر معاجم کی ترتیب بیان کی جارہی ہے۔

حروف حلقیہ اور مقلوبات الکلمہ پر مرتب بعض معاجم یہ ہیں:

(1) کتاب العین للخلیل بن احمد الفراہیدی (ت 170ھ ، وقیل: 175ھ)
یہ پہلی ڈکشنری ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔اسے خلیل نے حروف حلقیہ پر مرتب کیا ہے، حلق کے سب سے آخری حصے سے ادا ہونے والے حروف سے شروع کیا ہے اور ہونٹوں سے ادا ہونے والے حروف پر اسے ختم کیا ہے۔ اس لئے اس کی ترتیب اس طرح ہے: ع ح ھ خ غ ق ک ج ش ض ص س ز ط ت د ظ ذ ث ر ل ن ف ب م و ی ا ۔
ان میں سے ہر حرف کو کتاب کا نام دیا ہے۔ مثلا پہلے حرف کا نام کتاب العین ہے۔ اسی سے کتاب کا نام بھی کتاب العین سے مشہور ہوگیا ہے۔
کتاب میں وارد الفاظ کو انہوں نے الٹ پلٹ کرکے ایک لفظ سے متعدد الفاظ تیار کیا ہے اور ان پر بحث کی ہے، جسے قلب کہا جاتا ہے۔ مثلا لفظ "رب" کو لیں، اسے قلب (الٹ پلٹ) کر دیا جائے تو یہ "بر" بن جاتا ہے۔ لفظ "حبر" کو قلب کیا جائے تو یہ الفاظ بنتے ہیں: ربح، بحر، رحب، حرب، برح۔ وقس علی ہذا۔
اس سے بعض کلمات ایسے تیار ہو سکتے ہیں جن کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اسی لئے بعض کلمات کے متعلق خلیل نے کہا ہے کہ عرب نے اسے استعمال نہیں کیا ہے، یہ ایک مہمل لفظ ہے۔
اس طریقے پر علمائے مقتدمین میں سے اور بھی دوسرے علما نے کتابیں لکھی ہیں۔ مثلا:

(2) البارع فی اللغہ لابی علی القالی (ت356ھ)
کتاب العین سے قالی نے کافی استفادہ کیا ہے۔ اور ان پر کافی اضافہ بھی کیا ہے خصوصا جن الفاظ کو خلیل نے مہمل کہا تھا ان میں سے بہت سارے کلمات کے معانی اور کلام عرب سے ان کے شواہد کو ذکر کیا ہے۔ کتاب کا اکثر حصہ مفقود ہے، اور بعض حصہ مطبوع ہے۔

(3) تہذیب اللغہ لابی منصور الازہری (ت370ھ)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے۔ اس کا مقدمہ بڑا اہم ہے۔ شرعی نصوص سے شواہد پر کافی ترکیز ہے۔ اکثر متأخرین لغویوں کا یہ ایک اہم مصدر رہا ہے۔ مثلا مختار الصحاح، العباب اور لسان العرب وغیرہ کا۔

(4) المحکم والمحیط الاعظم لابن سیدہ الاندلسی (ت458ھ)
اس کا مقدمہ بڑا طویل ہے۔ اس میں بھی بہ کثرت شواہد کا استعمال کیا گیا ہے۔ صرفی ونحوی مسائل پر کافی بحث موجود ہے۔ اور یہ بعد کے ڈکشنریوں کا ایک اہم مصدر ہے۔

ڈکشنریوں کے اندر الفاظ کی ترتیب کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انہیں حروف معجم (ا ب ت ث ج ح ..الخ) پر مرتب کیا جائے۔ اس نہج پر بے شمار ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں:

(1) کتاب الجیم لابی عمرو الشیبانی (ت206ھ)
یہ بہت مختصر لیکن بہترین ڈکشنری ہے۔

(2) جمہرۃ اللغہ لابن درید (ت321ھ)
یہ حروف معجم پر مرتب ہے لیکن کتاب العین کی طرح مقلوبات الکلمہ کا اس میں استعمال ہے۔ اس کا اکثر حصہ ابن درید نے اپنے حافظہ سے املا کروایا ہے، اس لئے اس میں کچھ جگہوں پر انہیں وہم بھی ہوا ہے۔

(3) مقاییس اللغہ لابن فارس (ت395ھ)
اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر مادے کا اصل بیان کیا گیا ہے۔ ہر مادے کے مفردات کو بیان کرنے کے ساتھ ایک یا زائد ایسا مشترک معنی بیان کرتے ہیں جس میں اس کے تمام مفردات شامل ہوں۔ چھ جلدوں میں شیخ المحققین عبد السلام محمد ہارون کی تحقیق سے مطبوع ہے۔

(4) مجمل اللغہ لابن فارس (ت395ھ)
یہ کتاب مختصر ہے۔
دونوں کتابوں میں ابن فارس نے ترتیب میں ہر حرف کے اندر اس کے بعد والے حرف سے ابتدا کی ہے، اور اسی ترتیب سے آگے بڑھا ہے۔ مثلا راء کے اندر اس کلمہ کو پہلےذکر کیا ہے جو راء اور زاء سے شروع ہوتا ہے، پھر جو راء اور سین سے شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ راء اور ذال کی باری آجائے، وقس علی ہذا۔

(5) اساس البلاغہ للزمخشری (ت538ھ)
اس میں بلاغت پر ترکیز ہے، خصوصا مجاز وغیرہ کے مسائل۔

ڈکشنریوں کے اندر الفاظ کی ترتیب کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ کلمہ کے آخری حرف پر انہیں مرتب کیا جائے۔ مثلا "کتب" کو حرف الباء میں رکھنا، حرف الکاف میں نہیں۔ اس ترتیب کا فائدہ یہ ہے کہ کلمہ کے پہلے حرف میں تصریفات اور قلب کی صورت میں تبدیلی کا ہمیشہ ڈر لاحق ہوتا ہے لیکن آخری حرف میں نہیں۔ اس نہج پر بھی بہت ساری ڈکشنریوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
(1) الصحاح للجوہری (ت393ھ او بعدہا)
یہ ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں چالیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ یہ سب سے عمدہ ڈکشنریوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم دوسروں کو حاصل ہو سکی۔ اسی لئے علمائے کرام کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس پر متعدد کتابیں تصنیف کیں جن کی تعداد سو سے زائد ہے۔ کسی نے تعلیق چڑھائی تو کسی نے اس پر تکملہ کا کام کیا، کسی نے استدراک کیا تو کسی نے مقارنہ، کسی نے نقد کیا تو کسی نے دفاع، کسی نے اختصار کیا تو کسی نے اسے منظومہ کی شکل دی۔ ان تمام خدمات کی تفصیلات جاننے کے لئے الصحاح پر استاد عباس محمود العقاد کا مقدمہ (ص157-212) پڑھیں جس میں انہوں نے ایک سو نو (109) کتابوں کا ذکر کیا ہے۔

(2) العباب الزاخر واللباب الفاخر للصغانی (ت650ھ)
اس کتاب کے مؤلف ایک ہندوستانی عالم دین ہیں۔ صحیح بخاری کا ان کا نسخہ "نسخہ بغدادیہ" کے نام سے مشہور ہے جس سے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کافی استفادہ کیا ہے۔ ان کی سوانح حیات اور علمی خدمات پر خاکسار کا ایک مقالہ مجلہ السلام گمانی اور مجلہ اہل السنہ ممبئی میں شائع ہو چکا ہے۔ یہ ایک محدث اور فقیہ کے ساتھ بہت بڑے لغوی تھے۔ ان کی یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے لیکن افسوس کہ غیر مکمل ہے۔ امام سیوطی اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "أعظمُ كتابٍ أُلِّفَ في اللغة بعد عَصْرِ الصحاح كتابُ المُحْكَم والمحيط الأعظم لأبي الحسن علي بن سِيدَه الأندلسي الضَّرير ثم كتابُ العُباب للرضي الصَّغاني" (المزهر في علوم اللغة وأنواعها (1/ 76)

(3) لسان العرب لابن منظور الافریقی (ت711ھ)
یہ ان کے زمانے تک کی سب سے ضخیم ڈکشنریوں میں سے ایک تھی۔ اس میں اسی ہزار سے زائد لغوی مادے موجود ہیں۔ اس میں نصوص سے شواہد، کلمات پر ضبط، روایات کے مابین ترجیح جیسی سبھی خوبیاں موجود ہیں۔ اس کتاب کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ اس میں زیر بحث لفظ سے مشتق شخصیات اور جگہوں کے نام پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس لئے اس میں ایسی شخصیات کا بھی تعارف مل سکتا ہے جو دوسری کتابوں میں نہ ملے۔ بہت سارے علما نے اس کی علمی خدمت کی ہے۔

(4) القاموس المحیط للفیروز آبادی (ت817ھ)
یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے استاد ہیں جن سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کافی استفادہ کیا ہے۔ یہ بھی ایک ضخیم ڈکشنری ہے جس میں ساٹھ ہزار لغوی مادے موجود ہیں۔ انہوں نے پہلے "اللامع المعلم العجاب الجامع بین المحکم والعباب" کے نام سے ایک ڈکشنری تصنیف کرنی شروع کی تھی، پانچ جلدوں کے بعد انہیں لگا کہ یہ بہت طویل ہو جائےگی اور سو جلدوں تک پہنچ جائےگی جس کا مراجعہ طلبہ کے لئے مشکل ہوگا، پس پرانا ارادہ ترک کرکے اس سے مختصر یہ کتاب تصنیف کی جو کہ پھر بھی بہت ضخیم ہے۔
یہ بہت ہی مفید ڈکشنری ہے۔ اسی لئے علمائے کرام کی ایک جماعت نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں سے سب سے مشہور زبیدی کی تاج العروس ہے۔

(5) تاج العروس من جواہر القاموس للزبیدی (1205ھ)
یہ القاموس للفیروزآبادی کی شرح ہے، اور اس پر کافی استدراک بھی کیا ہے۔ اس کے مؤلف گرچہ متاخر الوفات ہیں لیکن ان کی یہ کتاب بہت ہی مفید اور ضخیم ہے، بلکہ یہ اب تک کی سب سے بڑی ڈکشنری ہے۔ اس میں ایک لاکھ بیس ہزار لغوی مادے موجود ہیں جنہیں مؤلف نے چودہ سال سے زائد مدت میں چھ سو مصادر سے جمع کیا ہے۔

اب تک جن معاجم کی بات کی گئی ان کا شمار "معاجم الالفاظ " میں ہوتا ہے۔ بہت سارے ایسے معاجم بھی ہیں جن کا تعلق معانی کے ساتھ ہے۔ یعنی ایک معنی اور موضوع سے متعلق الفاظ کو ایک جگہ جمع کردینا۔ چاہے ایک ہی موضوع پر مستقل کتاب ہو یا ایک کتاب میں کئی ایک موضوعات کو جمع کیا گیا ہو۔بطور نمونہ درج ذیل معاجم کا ملاحظہ کریں:
(1) خلق الانسان للاصمعی (ت216ھ)
(2) کتاب الابل للاصمعی (ت216ھ)
(3) خلق الفرس لمحمد بن زیاد الاعرابی (ت231ھ)
(4) کتاب الخیل لمعمر بن المثنی (ت210ھ)
(5) کتاب الخیل للاصمعی (ت216ھ)
(6) کتاب الشاء للاصمعی
(7) کتاب الوحوش للاصمعی
(8) کتاب النخل لابی حاتم السجستانی (ت255ھ)
(9) کتاب السلاح للاصمعی
(10) کتاب البئر لمحمد بن زیاد الاعرابی (ت231ھ)
(11) کتاب الریح لابن خالویہ (ت370ھ)

ان تمام کتابوں میں ایک ہی قسم کے معنی کو موضوع بحث بنایا گیا ہےاور ان کے متعلق الفاظ پر بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض ایسی کتابیں بھی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر بحث کی گئی ہیں۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

(1) الغریب المصنف لابی عبید القاسم بن سلام (ت224ھ)
(2) کتاب الالفاظ لابن السکیت (ت244ھ)
(3) فقہ اللغہ وسر العربیہ للثعالبی (ت429ھ)
(4) المخصص لابن سیدہ (ت458)
(5) تہذیب الالفاظ للخطیب التبریزی (ت502ھ)

محقق کو چاہئے کہ مشکل الفاظ کی شرح کے لئے ان مذکورہ معروف ومعتبر متقدم معاجم کی طرف رجوع کریں۔ ان معاجم میں مطلوبہ لفظ موجود ہونے کے باوجود معاصرین کی ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرنا صحیح نہیں۔ مثلا بعض محققین مذکورہ متقدم ڈکشنریوں کی طرف رجوع نہ کرکے ان ڈکشنریوں کی طرف رجوع کرتے ہیں: المعجم الکبیر، المعجم الوسیط، المعجم الوجیز (انہیں مجمع اللغہ العربیہ مصر نے شائع کیا ہے) ، معجم الفرائد للدکتور ابراہیم السامرائی، القاموس الجدید للجنۃ من اللغویین فی تونس، المنجد للویس معلوف، البستان لعبد اللہ المیخائیل البستانی، الرائد لجبران مسعود، الشامل لمحمد سعید اسبر وبلال جنیدی، المعجم العربی الحدیث لاروس للدکتور خلیل البحر وغیرہ ۔ ان کا یہ عمل درست نہیں۔

اب تک متن کتاب میں موجود عام مشکل الفاظ کی بات چل رہی تھی۔ لیکن اگر وہ احادیث نبویہ کے اندروارد ہیں تو ان کے لئے غریب الحدیث پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ مثلا:
(1) غریب الحدیث لابی عبید القاسم بن سلام (ت224ھ)
(2) غریب الحدیث لابن قتیبہ الدینوری (ت276ھ)
(3) غریب الحدیث لابراہیم بن اسحاق الحربی (ت285ھ)
(4) غریب الحدیث للخطابی (ت388ھ)
(5) تفسیر غریب ما فی الصحیحین للحمیدی (ت488ھ)
(6) الفائق فی غریب الحدیث للزمخشری (538ھ)
(7) مشارق الانوار علی صحاح الأثار للقاضی عیاض (ت544ھ)
اس میں صحیحین اور موطا امام مالک کی حدیثوں کے غریب الفاظ پر ہی صرف بحث کی گئی ہے، اس کی ترتیب حروف المعجم پر ہے ، لیکن ہمارے یہاں کی حروف معجم کی معروف ترتیب پر نہیں بلکہ مغاربہ کی ترتیب پر ہے، جو کہ اس طرح ہے: ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز ط ظ ک ل م ن ص ض ع غ ف ق س ش ھ و ی ۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ امام کتانی کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے: "وهو كتاب لو وزن بالجوهر أو كتب بالذهب كان قليلا فيه". (الرسالة المستطرفة، ص: 157(
(اگر اس کتاب کو جواہرات سے تولا جاتا یا سونے سے لکھا جاتا پھر بھی کم تھا۔)
(8) غریب الحدیث لابن الجوزی (ت597ھ)
(9) النہایہ فی غریب الحدیث والاثر لابن الاثیر (ت606ھ)
اس موضوع کی یہ سب سے بہترین اور شامل کتاب ہے۔
(10) مجمع بحار الانوار لمحمد بن طاہر الفتنی الگجراتی (ت986ھ)
اس کتاب سے علامہ مبارکپوری نے تحفہ الاحوذی میں کافی استفادہ کیا ہے۔

جہاں تک مشکل اور غیر معروف اصطلاحات کا معاملہ ہے تو اس کے لئے متعلقہ فن کی امہات کتب کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس کا معنی ومفہوم بیان کرنا چاہئے۔ اگر ان اصطلاحات کا تعلق فقہ سے ہے تو درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
حنفی مذہب کے لئے :
(1) طلبۃ الطلبۃ لنجم الدین النسفی (ت537ھ)
(2) المُغرِب فی ترتیب المُعرِب للمطرزی (ت610ھ)
(3) انیس الفقہاء لقاسم القونوی (ت978ھ)

شافعی مذہب کے لئے :
(4) الزاہر فی غریب الفاظ الشافعی لابی منصور الازہری (ت370ھ)
(5) حلیۃ الفقہاء لابن فارس (ت395ھ)
(6) تہذیب الاسماء واللغات للنووی (ت676ھ)
یہ بہت ہی مفید کتاب ہے۔ اس کا پہلا حصہ شخصیات کے تعارف پر اور دوسرا حصہ مشکل کلمات اور اصطلاحات پر مشتمل ہے۔ اسی کتاب کی وجہ سے امام نووی کو امام جرح وتعدیل بھی کہا جاتا ہے۔
(7) تحریر الفاظ التنبیہ للنووی (ت676ھ)
(8) النظم المستعذب فی شرح غریب المہذب للرکبی (ت633ھ)
(9) المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر للفیومی (ت770ھ)

مالکی مذہب کے لئے :
(10) شرح غریب الفاظ المدونہ للجبی (توفی فی القرن الرابع او الخامس)
(11) الحدود لابن عرفہ المالکی (ت803ھ)

اورحنبلی مذہب کے لئے :
(12) المطلع علی ابواب المقنع للبعلی (ت709ھ)
(13) الدر النقی فی شرح الفاظ الخرقی لجمال الدین الحنبلی (ت909ھ)

اور اگر ان مصطلحات کا تعلق شریعت کے دوسرے فنون مثلا عقیدہ وغیرہ سے ہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا مفید ہوگا:
(1) غریب الحدیث لابن قتیبہ کا مقدمہ
(2) الزینۃ فی الکلمات الاسلامیہ العربیہ لاحمد بن حمدان الرازی (ت322ھ)
(3) الحدود الانیقہ والتعریفات الدقیقہ لزکریا الانصاری الشافعی (ت926ھ)

ساتھ ہی ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا بھی مفید ہوگا جو کہ تعریفات اور مصطلحات کے اوپر ہی لکھی گئی ہیں، مثلا:
(1) التعریفات للجرجانی (816ھ)
(2) التوقیف علی مہمات التعاریف للمناوی (ت1031ھ)
(3) الکلیات (معجم فی الاصطلاحات والفروق اللغویہ) لابی البقاء الکفوی (ت1094ھ)
(4) کشاف اصطلاحات الفنون للتھانوی (ت1158ھ)

(9) نص میں وارد غیر مشہور شہروں اور ملکوں کی مناسب ومختصر تعریف کرنا۔

متن کتاب کی خدمت میں یہ بھی داخل ہے کہ اس میں وارد غیر مشہور ملکوں اور شہروں کا مختصر تعارف پیش کیا جائے۔ اس کے لئے کتب البلدان والجغرافیہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

جگہوں کے تعارف کے وقت یہ کوشش رہے کہ تعارف مختصر اور دقیق ہو۔ نیز قدیم زمانے میں وہ جگہ کہاں پر واقع تھی اور موجودہ دور میں کہاں پر واقع ہے اسے بھی بیان کیا جائے۔ اس کے لئے قدیم اور جدید دونوں طرح کے مصادر سے استفادہ کیا جائے۔ بعض مشہور قدیم مصادر یہ ہیں:
(1) صفۃ جزیرۃ العرب لابن الحائک (ت334ھ)
(2) المسالک والممالک للاصطخری (ت346ھ)
(3) المسالک والممالک لابی عبید البکری (ت487ھ)
(4) معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع لابی عبید البکری (ت487ھ)
(5) معجم البلدان لیاقوت الحموی (ت626ھ)
(6) مراصد الاطلاع لصفی الدین البغدادی (739ھ)
(7) الروض المعطار فی خبر الاقطار لابن عبد المنعم الحمیری (ت900ھ)

اور بعض جدید مصادر یہ ہیں:
(1) المعالم الاثیرہ فی السنۃ والسیرۃ لمحمد حسن شراب
(2) معجم المعالم الجغرافیہ فی السیرۃ النبویہ لعاتق البلادی (ت1431ھ)

(10) نص میں وارد تاریخی واقعات کی مختصر شرح کرنا۔

(11) جہاں کسی علمی نوٹ کی ضرورت ہو وہاں پر مختصر ومناسب نوٹ چڑھانا۔

اگر نص کتاب میں کوئی عقدی یا منہجی غلطی ہو تو اس پر مناسب نوٹ چڑھانا بھی محقق کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اسی طرح کسی علمی مسئلہ میں مؤلف سے کوئی چوک ہوئی ہو تو اس پر بھی انہیں ادب واحترام کے دائرے میں تنبیہ کرنا چاہئے۔

(12) کتاب کے آخر میں متعدد علمی فہارس ترتیب دینا تاکہ قارئین کتاب میں موجود مطلوبہ معلومات تک بآسانی پہنچ سکیں، مثلا:
الف) قرآنی آیات کی فہرست۔
ب) احادیث نبویہ کی فہرست۔
ج) آثار صحابہ وتابعین کی فہرست۔
د) اعلام (اہم شخصیات) کی فہرست۔
ھ) مشکل کلمات کی فہرست۔
و) اشعار کی فہرست۔
ز) غیر مشہورجگہوں کی فہرست۔
ح) فرقوں اور جماعتوں کی فہرست۔
ط) نص میں وارد شدہ کتابوں کی فہرست۔
ی) مصادر ومراجع کی فہرست۔
ک) فہرست موضوعات۔

ختم شد
--------------------------

اللہ رب العالمین کا بے پناہ شکر واحسان ہے جس نے خاکسار کو اس اہم موضوع پر کچھ اہم معلومات جمع کرنے کی توفیق عطا کی۔
ایک زمانے سے اس موضوع پر کچھ لکھنے کی شدید خواہش تھی، اور تقریبا ایک سال پہلے ایک دو صفحے پر مشتمل چند کلمات سوشل میڈیا میں شائع بھی کیا تھا، اس ناقص مضمون کو بعض احباب نے کافی پسند کیا تھا، اور حوصلہ افزائی کی تھی۔
پھر تقریبا گزشتہ ایک مہینہ پہلے بعض اسباب کی بنا پر اس کی تکمیل کی ضرورت محسوس ہوئی اور مختلف مشغولیات کے باوجود اس پر کام کرنا شروع کیا۔ اور الحمد للہ آج 11 رجب 1440 ھ بمطابق 18 مارچ 2019 رات کے چار بجے اللہ تعالی نے اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائی۔
اس ایک مہینے کے سفر میں بہت سارے بزرگوں ، بھائیوں اور دوستوں نے کافی تعاون کیا، چاہے علمی مواد کی فراہمی ہو، موضوع کی تخطیط ہو، غلطیوں کی اصلاح ہو، مفید مشورے ہوں یا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ میں نشر واشاعت ہو۔ میں ان تمام احباب کا بہت ہی شکر گزار ہوں اور اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ انہیں اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
اسی طرح ان مشایخ کرام اور دوستوں کا بہت بہت شکریہ جنہوں نے اس خشک موضوع کو نہ صرف یہ کہ دقت کے ساتھ پڑھا بلکہ اس پر خاکسار کی حد درجہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ ان کے نیک تاثرات اور حوصلہ افزا کلمات سے جہاں توانائی ملی وہیں یہ احساس پیدا ہوا کہ اس موضوع پر محنت کے ساتھ لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کچھ حد تک اس کا حق ادا کیا جاسکے۔
شروع میں اندازہ نہیں تھا کہ یہ موضوع اتنا طویل ہو جائےگا۔ اب جب کہ الحمد للہ یہ مکمل ہو چکا ہے ان شاء اللہ جلد ہی مراجعہ اور ضروری تعدیلات کے بعد اسے کتابی شکل میں منظر عام پر لانے کی کوشش کی جائےگی۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس مرحلہ کو بھی آسان بنائے اور اس چھوٹی سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ نیز اسے میرے ، میرے والدین، اہل وعیال، اور ان تمام بھائیوں کے حق میں ذریعہ نجات بنائے جنہوں نے اس میں ذرہ برابر بھی کوئی تعاون پیش کیا ہے۔ انہ ولی ذلک والقادر علیہ۔

آپ کا دینی بھائی
فاروق عبد اللہ بن محمد اشرف الحق نراین پوری
مدینہ طیبہ ، مملکت سعودی عرب
11/7/1440ھ
 
Top