عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
(اکیسویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری
مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل
آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:
(4) قرآنی آیات کا حوالہ ذکر کرنا۔
قرآنی آیات کا حوالہ سورتوں کے نام اور آیت نمبر کے ساتھ ذکر کرنا چاہئے۔ اس میں صفحہ نمبر ذکر کرنا مناسب نہیں ہے۔
قرآنی آیات کو لکھتے وقت حد درجہ متنبہ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی طرح کی کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ نیز مصحف عثمانی کے رسم سے عدول کرنا صحیح نہیں۔ قرآن کا رسم ایک خاص رسم ہے جسے دوسرے رسم واملا پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ مخطوطات میں بھی بسا اوقات بعض آیات غلط منقول ہو سکتے ہیں۔ شیخ عبد السلام محمد ہارون نے بہت ساری ایسی آیتوں کا ذکر کیا ہے جو دوران تحقیق انہیں مخطوطات میں غلط لکھی ہوئی ملیں۔ (دیکھیں: تحقیق النصوص ونشرہا، ص48-50)
اس لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ مطلوبہ آیت کو مصحف عثمانی سے کاپی پیسٹ کیا جائے تاکہ کسی غلطی کا امکان نہ رہے۔
کسی کلام کی نسبت رب العالمین کی طرف ہونے اورمصحف میں اسے نہ پانے پر فورا مصنف پر وہم اور غلطی کا حکم نہیں لگانا چاہئے، ہو سکتا ہے کہ وہ قرآنی آیت نہ ہوکر کوئی حدیث قدسی ہو۔ چنانچہ بعض محققین کو ایسی فحش غلطیوں کا بھی شکار پایا گیا ہے۔
بعض آیتوں کو بعض مصنفین مکمل ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف محل شاہد پر اکتفا کرتے ہیں۔ اور بسا اوقات "واو، فاء، إن، أن، قل" وغیرہ کو حذف کرکے ذکر کرتے ہیں مثلا "وقل جاء الحق" والی آیت میں "قل جاء الحق" یا صرف "جاء الحق" پر اکتفا کرتے ہیں اور یہ جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے واو کے حذف کے ساتھ "لاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ" کی تلاوت ثابت ہے۔ (دیکھیں: صحيح البخاري حدیث نمبر 1403)
امام شافعی نے الرسالہ میں بہ کثرت ایسا استعمال کیا ہے۔ بطور مثال دیکھیں: فقرہ 643، 974، 975 ۔
شیخ احمد شاکر الرسالہ کی تحقیق میں فرماتے ہیں: "والشافعي كثيرًا ما يترك حرف العطف اكتفاء بموضع الاستدلال من الآية, وليس بصنيعه هذا بأس". (ص231)
(شافعی بہ کثرت آیت کے محل استدلال پر اکتفا کرتے ہوئے حرف عطف کو چھوڑ دیتے ہیں، اور ان کے اس منہج میں کوئی حرج نہیں۔)
لہذا ان آیتوں کو اسی طرح نقل کرنا چاہئے جیسے مصنف نے ذکر کیا ہے، اپنی طرف سے مکمل آیت ذکر کرنا مناسب نہیں۔ (دیکھیں : تحقیق النصوص ونشرہا ، ص51-52)
متن کتاب میں کوئی آیت جمہور قراء کی قرأت کے مخالف ہو تو اس کی وضاحت بھی محقق کو حاشیہ میں کرنی چاہئے۔
جاری...
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری
مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل
آٹھواں مرحلہ: نص کتاب کی مختلف زاویوں سے علمی خدمت:
(4) قرآنی آیات کا حوالہ ذکر کرنا۔
قرآنی آیات کا حوالہ سورتوں کے نام اور آیت نمبر کے ساتھ ذکر کرنا چاہئے۔ اس میں صفحہ نمبر ذکر کرنا مناسب نہیں ہے۔
قرآنی آیات کو لکھتے وقت حد درجہ متنبہ رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی طرح کی کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ نیز مصحف عثمانی کے رسم سے عدول کرنا صحیح نہیں۔ قرآن کا رسم ایک خاص رسم ہے جسے دوسرے رسم واملا پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
واضح رہے کہ مخطوطات میں بھی بسا اوقات بعض آیات غلط منقول ہو سکتے ہیں۔ شیخ عبد السلام محمد ہارون نے بہت ساری ایسی آیتوں کا ذکر کیا ہے جو دوران تحقیق انہیں مخطوطات میں غلط لکھی ہوئی ملیں۔ (دیکھیں: تحقیق النصوص ونشرہا، ص48-50)
اس لئے سب سے بہتر یہ ہے کہ مطلوبہ آیت کو مصحف عثمانی سے کاپی پیسٹ کیا جائے تاکہ کسی غلطی کا امکان نہ رہے۔
کسی کلام کی نسبت رب العالمین کی طرف ہونے اورمصحف میں اسے نہ پانے پر فورا مصنف پر وہم اور غلطی کا حکم نہیں لگانا چاہئے، ہو سکتا ہے کہ وہ قرآنی آیت نہ ہوکر کوئی حدیث قدسی ہو۔ چنانچہ بعض محققین کو ایسی فحش غلطیوں کا بھی شکار پایا گیا ہے۔
بعض آیتوں کو بعض مصنفین مکمل ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف محل شاہد پر اکتفا کرتے ہیں۔ اور بسا اوقات "واو، فاء، إن، أن، قل" وغیرہ کو حذف کرکے ذکر کرتے ہیں مثلا "وقل جاء الحق" والی آیت میں "قل جاء الحق" یا صرف "جاء الحق" پر اکتفا کرتے ہیں اور یہ جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے واو کے حذف کے ساتھ "لاَ يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ" کی تلاوت ثابت ہے۔ (دیکھیں: صحيح البخاري حدیث نمبر 1403)
امام شافعی نے الرسالہ میں بہ کثرت ایسا استعمال کیا ہے۔ بطور مثال دیکھیں: فقرہ 643، 974، 975 ۔
شیخ احمد شاکر الرسالہ کی تحقیق میں فرماتے ہیں: "والشافعي كثيرًا ما يترك حرف العطف اكتفاء بموضع الاستدلال من الآية, وليس بصنيعه هذا بأس". (ص231)
(شافعی بہ کثرت آیت کے محل استدلال پر اکتفا کرتے ہوئے حرف عطف کو چھوڑ دیتے ہیں، اور ان کے اس منہج میں کوئی حرج نہیں۔)
لہذا ان آیتوں کو اسی طرح نقل کرنا چاہئے جیسے مصنف نے ذکر کیا ہے، اپنی طرف سے مکمل آیت ذکر کرنا مناسب نہیں۔ (دیکھیں : تحقیق النصوص ونشرہا ، ص51-52)
متن کتاب میں کوئی آیت جمہور قراء کی قرأت کے مخالف ہو تو اس کی وضاحت بھی محقق کو حاشیہ میں کرنی چاہئے۔
جاری...