عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
محترم ومکرم قارئین!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ایسے موضوع کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں جس کی ایک مدت سے ضرورت محسوس کر رہا تھا، وہ ہے: "علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط"، کیونکہ عربی زبان میں تو اس پر کافی مواد موجود ہے لیکن میرے علم کی حد تک اردو زبان میں اس پر زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ اس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ اردو داں طبقہ کو اس روشن باب سے واقف کرایا جائے۔ اس باب میں لکھی گئی بعض کتابوں، بعض علمی وتدریبی دوروں، مناقشوں (وائیوا)، مشایخ کرام کے محاضرات، اور اپنے تجربات کی روشنی میں قسط وار اس موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس موضوع کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
قارئین کرام سے مؤدبانہ التماس ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچا کر اس کار خیر کے ساتھی بنیں، اور اپنے علمی ملحوظات ومشوروں سے نوازنا نہ بھولیں۔
تو لیجئے حاضر ہے اس سلسلے کی پہلی کڑی۔
-------------------------------------------------
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری
(پہلی قسط)
کسی کتاب کی نص کو مؤلف ِکتاب کی وضع کردہ قریب ترین شکل وصورت میں ثابت کرنے کو تحقیق کہتے ہیں۔ ایک محقق کی ذمہ داری ہے کہ حتی الامکان کتاب کے نصوص کو قارئین کے سامنے اسی کمیت وکیفیت کے ساتھ پیش کرے جس طرح مؤلفِ کتاب نے اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا۔
مشہور محقق شیخ عبد السلام محمد ہارون رحمہ اللہ (المتوفى: 1408ہجری) اپنی کتاب "تحقيق النصوص ونشرها" (ص39) میں فرماتے ہیں : "الكتاب المحقق هو الذي صح عنوانه، واسم مؤلفه، ونسبة الكتاب إليه، وكان متنه أقرب ما يكون إلى الصورة التي تركها مؤلفه، وعلى ذلك فإن الجهود التي تبذل في كل مخطوط يجب أن تتناول البحث في الزوايا التالية:
1- تحقيق عنوان الكتاب.
2- تحقيق اسم المؤلف.
3- تحقيق نسبة الكتاب إلى مؤلفه.
4- تحقيق متن الكتاب حتى يظهر بقدر الإمكان مقاربا لنص مؤلفه". انتهى.
(تحقیق شدہ کتاب وہ ہے جس کا عنوان درست ہو، اورمؤلف کا نام و مؤلف کی طرف کتاب کی نسبت ثابت ہو۔ مؤلف کتاب نے جس شکل وصورت میں وہ کتاب چھوڑی تھی اس کا متن اس سے قریب ترین حالت میں ہو۔ بنابریں ہر مخطوط میں جو جہود صرف کئے جائیں ضروری ہے کہ اس میں درج ذیل نکات شامل بحث ہوں:
1 – کتاب کے عنوان کی تحقیق۔
2 – مؤلف کتاب کے نام کی تحقیق۔
3 –مؤلف کی طرف اس کتاب کی نسبت کی تحقیق۔
4 – متن کتاب کی تحقیق یہاں تک کہ حتی الامکان مؤلف کی نص سے قریب ترین صورت میں وہ منظر عام پر آئے۔ )
تقریبا اسی طرح کی بات شیخ السید رزق الطویل نے "مقدمة في أصول البحث العلمي وتحقيق التراث" (ص192) میں کی ہے۔
کسی کتاب کی تحقیق کا یہ سب سے خاص، اہم اور اصل مقصد ہے۔
شیخ مطاع الطرابیشی فرماتے ہیں: "لا مراء في أن أداء النص كما وضعه مؤلفه مطلب أساسي للتحقيق بعامة, وهو أمر متفق عليه, صرح به الباحثون في هذا الفن والعاملون فيه". (في منهج تحقيق المخطوطات لمطاع الطرابيشي, ص11).
(اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نص کتاب کو مؤلف کے وضع کردہ صورت میں پیش کرنا عمومی طور پر تحقیق کا اصل مقصد ہے، اور یہ متفق علیہ معاملہ ہے جس کی اس فن میں کام کرنے والے اور ریسرچ کرنے والوں نے صراحت کی ہے۔)
لیکن ایک محقق کا کام یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا، اس کے علاوہ بھی نص کتاب کی مختلف زاویوں سے خدمت ایک محقق کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن اس کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔ اگر کسی کتاب کی تحقیق میں صرف اس خاص اور اصل مقصد ہی پر مکمل توجہ صرف کی گئی ہو اور اس میں اس کے علاوہ مزید کچھ بھی نہ ہو پھر بھی "تحقیق" میں اس کا شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر نص ِکتاب کی مختلف زاویہ سے خدمت تو موجود ہو لیکن "مؤلف کے نص سے قریب ترین شکل وصورت میں اسے منظر عام پر لانے کی کوشش" نہ کی گئی ہو تو اسے تحقیق کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اسے خدمت، اعداد للنشر، اعتناء، واہتمام وغیرہ مختلف نام تو دئے جا سکتے ہیں لیکن تحقیق نہیں۔
جاری...........
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ایسے موضوع کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں جس کی ایک مدت سے ضرورت محسوس کر رہا تھا، وہ ہے: "علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط"، کیونکہ عربی زبان میں تو اس پر کافی مواد موجود ہے لیکن میرے علم کی حد تک اردو زبان میں اس پر زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ اس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ اردو داں طبقہ کو اس روشن باب سے واقف کرایا جائے۔ اس باب میں لکھی گئی بعض کتابوں، بعض علمی وتدریبی دوروں، مناقشوں (وائیوا)، مشایخ کرام کے محاضرات، اور اپنے تجربات کی روشنی میں قسط وار اس موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوں، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس موضوع کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
قارئین کرام سے مؤدبانہ التماس ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچا کر اس کار خیر کے ساتھی بنیں، اور اپنے علمی ملحوظات ومشوروں سے نوازنا نہ بھولیں۔
تو لیجئے حاضر ہے اس سلسلے کی پہلی کڑی۔
-------------------------------------------------
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری
(پہلی قسط)
کسی کتاب کی نص کو مؤلف ِکتاب کی وضع کردہ قریب ترین شکل وصورت میں ثابت کرنے کو تحقیق کہتے ہیں۔ ایک محقق کی ذمہ داری ہے کہ حتی الامکان کتاب کے نصوص کو قارئین کے سامنے اسی کمیت وکیفیت کے ساتھ پیش کرے جس طرح مؤلفِ کتاب نے اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا۔
مشہور محقق شیخ عبد السلام محمد ہارون رحمہ اللہ (المتوفى: 1408ہجری) اپنی کتاب "تحقيق النصوص ونشرها" (ص39) میں فرماتے ہیں : "الكتاب المحقق هو الذي صح عنوانه، واسم مؤلفه، ونسبة الكتاب إليه، وكان متنه أقرب ما يكون إلى الصورة التي تركها مؤلفه، وعلى ذلك فإن الجهود التي تبذل في كل مخطوط يجب أن تتناول البحث في الزوايا التالية:
1- تحقيق عنوان الكتاب.
2- تحقيق اسم المؤلف.
3- تحقيق نسبة الكتاب إلى مؤلفه.
4- تحقيق متن الكتاب حتى يظهر بقدر الإمكان مقاربا لنص مؤلفه". انتهى.
(تحقیق شدہ کتاب وہ ہے جس کا عنوان درست ہو، اورمؤلف کا نام و مؤلف کی طرف کتاب کی نسبت ثابت ہو۔ مؤلف کتاب نے جس شکل وصورت میں وہ کتاب چھوڑی تھی اس کا متن اس سے قریب ترین حالت میں ہو۔ بنابریں ہر مخطوط میں جو جہود صرف کئے جائیں ضروری ہے کہ اس میں درج ذیل نکات شامل بحث ہوں:
1 – کتاب کے عنوان کی تحقیق۔
2 – مؤلف کتاب کے نام کی تحقیق۔
3 –مؤلف کی طرف اس کتاب کی نسبت کی تحقیق۔
4 – متن کتاب کی تحقیق یہاں تک کہ حتی الامکان مؤلف کی نص سے قریب ترین صورت میں وہ منظر عام پر آئے۔ )
تقریبا اسی طرح کی بات شیخ السید رزق الطویل نے "مقدمة في أصول البحث العلمي وتحقيق التراث" (ص192) میں کی ہے۔
کسی کتاب کی تحقیق کا یہ سب سے خاص، اہم اور اصل مقصد ہے۔
شیخ مطاع الطرابیشی فرماتے ہیں: "لا مراء في أن أداء النص كما وضعه مؤلفه مطلب أساسي للتحقيق بعامة, وهو أمر متفق عليه, صرح به الباحثون في هذا الفن والعاملون فيه". (في منهج تحقيق المخطوطات لمطاع الطرابيشي, ص11).
(اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نص کتاب کو مؤلف کے وضع کردہ صورت میں پیش کرنا عمومی طور پر تحقیق کا اصل مقصد ہے، اور یہ متفق علیہ معاملہ ہے جس کی اس فن میں کام کرنے والے اور ریسرچ کرنے والوں نے صراحت کی ہے۔)
لیکن ایک محقق کا کام یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا، اس کے علاوہ بھی نص کتاب کی مختلف زاویوں سے خدمت ایک محقق کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن اس کا درجہ اس کے بعد آتا ہے۔ اگر کسی کتاب کی تحقیق میں صرف اس خاص اور اصل مقصد ہی پر مکمل توجہ صرف کی گئی ہو اور اس میں اس کے علاوہ مزید کچھ بھی نہ ہو پھر بھی "تحقیق" میں اس کا شمار کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر نص ِکتاب کی مختلف زاویہ سے خدمت تو موجود ہو لیکن "مؤلف کے نص سے قریب ترین شکل وصورت میں اسے منظر عام پر لانے کی کوشش" نہ کی گئی ہو تو اسے تحقیق کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اسے خدمت، اعداد للنشر، اعتناء، واہتمام وغیرہ مختلف نام تو دئے جا سکتے ہیں لیکن تحقیق نہیں۔
جاری...........