عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
(گیارہویں قسط)
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری
مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل
گزشتہ قسط میں مطلوبہ کتاب کے قلمی نسخوں کو جمع کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا تھا ۔ اس تحریر سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہ مرحلہ بڑا کٹھن اور دشوار کن مرحلہ ہے۔ ایک محقق بسا اوقات اللہ کے فضل وکرم سے کئی قلمی نسخے جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جب کہ بسا اوقات ایک سے زائد نسخہ ان کے ہاتھ نہیں لگتا۔
اگر متعدد قلمی نسخے جمع کرنے میں وہ کامیاب ہو جائے تو انہیں اگلے مرحلے میں قدم رکھنے کی ضرورت ہے، اور وہ (دوسرا مرحلہ) ہے:
مطلوبہ نسخوں کو جمع کرنے کے بعد ان کی مناسب ترتیب اور نسخۃ الاصل کا انتخاب:
مطلوبہ نسخے جمع کرنے کے بعد ان نسخوں کی علمی قیمت کے اعتبار سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اور ان میں سے کسی ایک نسخے کو نسخۃ الاصل بنانا ہے۔
نسخوں کی علمی قیمت کے اعتبار سے مناسب ترتیب یہ ہوگی:
1 – مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ:
اگر ان میں سے کوئی مؤلف کتاب کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے تو اسے سب سے اوپر رکھا جائےگا اور اسے ہی نسخۃ الاصل بنایا جائےگا ۔ اسے نسخہ عالیہ اور نسخۃ الام بھی کہتے ہیں۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے یا نہیں اس کی پہچان کیسے ہو؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسے پہچاننے کے کئی طریقے ہیں:
1- مخطوط کے پہلے اور آخری صفحے کو بغور پڑھے۔ یہ دونوں صفحے بڑے قیمتی ہیں۔ اگر مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہو تو اس میں غالبا مصنف کی تعریف وتوصیف والے علمی القاب نہیں ہوتے ۔ غالبا اس کے شروع میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں: "كتبها بيده العبد الفقير إلى ربه"، اور آخری صفحے پر بھی اسی طرح تواضع سے پر کلمات موجود ہوتے ہیں۔ نیز اس میں ان کا نام مع ولدیت اور سن کتابت بھی مرقوم ہوتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ سنہ ان کی سن وفات سے کئی سال پہلے کا ہوتا ہے۔
جب کہ اگر وہ کسی ناسخ (کاتب) کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہو تو اس میں مصنف کی تعریف وتوصیف سے پر علمی القابات ہوتے ہیں۔ مثلا: "قال الإمام الجليل العلامة فريد عصره ووحيد دهره"۔
مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ پہچاننے کی یہ ایک جوہری علامت ہے ۔
2- محقق کے پاس مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا کسی دوسری کتاب کا کوئی نسخہ ہو ۔ اس سے وہ دونوں نسخوں کے خطوط اور لکھنے کے طریقے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے یا نہیں۔
3- اس مخطوط کا بنظر غائر مطالعہ کرے۔ کسی کاتب کے نسخے میں بعض ایسی چیزیں موجود ہوتی ہیں جو مصنف کتاب کے نسخے میں عموما نہیں ہوتیں۔ مثلا کسی جگہ سے ایک یا دو سطر ساقط ہونا، کئی جگہوں پر تصحیفات وتحریفات کا موجود ہونا، مشکل کلمات پر حرکات کا نہ ہونا یا کثرت سے حرکات کا موجود ہونا۔ کیونکہ کاتب سے نقل کرتے وقت سبقت نظرکی بنا پر ایک دو سطروں کا ساقط ہونا عام ہے۔ جب کہ مصنف اپنے ہاتھ سے لکھتے وقت ایسی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتا۔ مشکل الفاظ کا نہیں علم ہوتا ہے اور ان پر حرکات لگانے کا وہ اہتمام کرتے ہیں۔ جب کہ کاتب کے پاس یہ علم نہیں ہوتا۔
4- کاتب کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے میں جو تاریخ کتابت درج ہوتی ہے وہ عموما مصنف کی وفات کے بعد کی تاریخ ہوتی ہے۔ اگر مصنف کے وفات کے بعد کی تاریخ ہے تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ نہیں ہے۔
اگر یہ کنفرم ہو جائے کہ فلاں نسخہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے تو اسے نسخۃ الاصل بنانے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ ایسی صورت میں باقی دوسرے نسخے معاون ومددگار نسخے ہوں گے۔ اور بوقت ضرورت ان سے مدد لی جائےگی۔ مثلا : محقق کو مصنف کے لکھے ہوئے نسخے میں کسی کلمہ کو پڑھنے میں پریشانی ہو، یا اس میں کوئی کلمہ مٹا ہوا یا پھٹا ہوا ہونے کی وجہ سے پڑھنے کے قابل نہ ہو۔ یا کوئی صفحہ ساقط ہو، وغیرہ وغیرہ تو ایسی صورت میں معاون نسخوں سے مدد لی جائےگی اور اس کی تکمیل کی جائےگی۔
2 – وہ نسخہ جسے مؤلف کتاب نے املا کرایا ہے، یا ان پر وہ پڑھا گیا ہے، یا اس کی اشاعت کی اجازت دی ہے:
اگر کوئی ایسا نسخہ دستیاب نہ ہو سکے جسے مؤلف کتاب نے خود اپنے ہاتھوں سے لکھا ہو (بلکہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے کی کتابوں میں شاذ ونادر ہی مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ مل پاتا ہے) تو پھر اس نسخے کو فوقیت حاصل ہوگی جسے انہوں نے املا کرایا ہے، یا ان کے سامنے وہ نسخہ پڑھا گیا ہے، یا اس کی روایت (اشاعت) کی اجازت دی ہے تو یہ سب سے اعلی درجے کا نسخہ مانا جائےگا، اور اسے ہی نسخۃ الاصل کا درجہ حاصل ہوگا۔
اگر اس طرح کے ایک سے زائد نسخے ہوں تو اس نسخہ کو فوقیت حاصل ہوگی جسے مؤلف کتاب نے سب سے آخر میں منظر عام پر لایا ہے۔
3 – جسے مصنف کے نسخے سے نقل کیا گیا ہو:
اور اگر اس طرح کا بھی کوئی نسخہ دستیاب نہ ہو سکے تو ثانوی (دویم درجے کے) نسخوں کی طرف رجوع کیا جائےگا ۔ ان میں سب سے اوپر اسے جگہ ملے گی جسے مؤلف کے نسخے سے نسخ (نقل) کیا گیا ہو یا اس نسخے سے نقل کیا گیا ہو جو کہ مصنف کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے سے نقل شدہ ہے۔
4 - وہ نسخہ جسے کسی معروف عالم دین نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہو گرچہ وہ مصنف کے نسخے سے نقل شدہ نہ ہو۔
5 - جو نسخہ مؤلف کے زمانے میں لکھا گیا ہواور اس پر عرض وسماع (مطلب شاگردوں نے استاد پر اسے پڑھا ہو) موجود ہو۔
6 - جو نسخہ مؤلف کے زمانے کے بعد لکھا گیا ہواور اس پر عرض وسماع موجود ہو۔
7 - جو نسخہ مؤلف کے زمانے کے بعد لکھا گیا ہواور اس پر عرض وسماع موجود نہ ہو۔
8 – جس نسخہ کی تاریخ کتابت کا علم نہ ہو۔
9 – جو نسخہ مختلف طرح کے آفات (جن میں سے بعض کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے) کا شکار ہو۔
نسخوں کی یہی ترتیب اصل ہے، لیکن بعض خاص قرائن کی بنیاد پر خلاف اصل کسی نسخے کو کسی نسخے پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ مثلا مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ تو موجود ہو لیکن اس میں کثرت سے سقط ہو۔ یا بعض صفحات ساقط ہوں، یا بعض جگہوں سے سیاہی مٹ گئی ہو، یا رطوبت کی وجہ سے پڑھنا ممکن نہ ہو، یا اس نسخے کے بعد انہوں نے اس میں حذف واضافہ کیا ہو اور یہ ان کے کسی شاگرد کے نسخے میں موجود ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ ضوابط کا تعلق اس حالت سے ہے جب محقق کے پاس کئی ایک قلمی نسخے ہوں۔ لیکن اگر محقق کو صرف ایک ہی قلمی نسخہ (جسے نسخۂ فریدہ کہا جاتا ہے) میسر ہو سکے تو اس صورت میں بھی -بطور استثناء- تحقیق کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے کچھ شروط وضوابط ہیں، جو درج ذیل ہیں:
1 - کتاب اپنے باب میں قیمتی اور بڑی اہمیت کی حامل ہو اور غالب گمان ہو کہ اس کا کوئی دوسرا نسخہ دنیا میں موجود نہیں ہے۔
2 - کتاب اب تک چھپی ہوئی نہ ہو ۔
3 – کتاب چھپی ہوئی تو ہو لیکن اس میں حد سے زیادہ غلطیاں ہوں۔
4 - محققِ کتاب کو مؤلف ِکتاب کے مصادر پر عبور حاصل ہو اور بوقت ضرورت وہ اصول کی طرف رجوع کر سکتا ہو۔
5 - اس زمانے کے مصنفین نے جن مصادر کی طرف کثرت سے رجوع کیا ہے محقق کو ان کی جانکاری ہو۔
6 - بعد میں آنے والے جن اہل علم نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اس کی عبارتیں نقل کی ہیں ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتا ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔
محقق اگر دیگر مصادر سے اس کی تلافی نہ کر سکے تو ایسی صورت میں انہیں متعینہ جگہ پر نقطے رکھ کر حاشیہ میں اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔ بعض محققین ایسی صورت میں اجتہاد سے کام لیتے ہیں اور اسے متن کتاب میں ثابت کر دیتے ہیں جو کہ غیر مناسب ہے۔
(تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں: محاضرات فی تحقیق النصوص للدکتور احمد الخراط، ص34-47، وتحقیق نصوص التراث فی القدیم والحدیث للدکتور صادق عبد الرحمن الغریانی،ص74-77)
جاری...
علمی کتب کی تحقیق کے چند اہم اصول وضوابط
تحریر: فاروق عبد اللہ نراین پوری
مخطوطات کی جمع وترتیب اور تحقیق کے عملی مراحل
گزشتہ قسط میں مطلوبہ کتاب کے قلمی نسخوں کو جمع کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا تھا ۔ اس تحریر سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ یہ مرحلہ بڑا کٹھن اور دشوار کن مرحلہ ہے۔ ایک محقق بسا اوقات اللہ کے فضل وکرم سے کئی قلمی نسخے جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جب کہ بسا اوقات ایک سے زائد نسخہ ان کے ہاتھ نہیں لگتا۔
اگر متعدد قلمی نسخے جمع کرنے میں وہ کامیاب ہو جائے تو انہیں اگلے مرحلے میں قدم رکھنے کی ضرورت ہے، اور وہ (دوسرا مرحلہ) ہے:
مطلوبہ نسخوں کو جمع کرنے کے بعد ان کی مناسب ترتیب اور نسخۃ الاصل کا انتخاب:
مطلوبہ نسخے جمع کرنے کے بعد ان نسخوں کی علمی قیمت کے اعتبار سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اور ان میں سے کسی ایک نسخے کو نسخۃ الاصل بنانا ہے۔
نسخوں کی علمی قیمت کے اعتبار سے مناسب ترتیب یہ ہوگی:
1 – مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ:
اگر ان میں سے کوئی مؤلف کتاب کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے تو اسے سب سے اوپر رکھا جائےگا اور اسے ہی نسخۃ الاصل بنایا جائےگا ۔ اسے نسخہ عالیہ اور نسخۃ الام بھی کہتے ہیں۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے یا نہیں اس کی پہچان کیسے ہو؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسے پہچاننے کے کئی طریقے ہیں:
1- مخطوط کے پہلے اور آخری صفحے کو بغور پڑھے۔ یہ دونوں صفحے بڑے قیمتی ہیں۔ اگر مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہو تو اس میں غالبا مصنف کی تعریف وتوصیف والے علمی القاب نہیں ہوتے ۔ غالبا اس کے شروع میں اس طرح کے جملے ملتے ہیں: "كتبها بيده العبد الفقير إلى ربه"، اور آخری صفحے پر بھی اسی طرح تواضع سے پر کلمات موجود ہوتے ہیں۔ نیز اس میں ان کا نام مع ولدیت اور سن کتابت بھی مرقوم ہوتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ یہ سنہ ان کی سن وفات سے کئی سال پہلے کا ہوتا ہے۔
جب کہ اگر وہ کسی ناسخ (کاتب) کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہو تو اس میں مصنف کی تعریف وتوصیف سے پر علمی القابات ہوتے ہیں۔ مثلا: "قال الإمام الجليل العلامة فريد عصره ووحيد دهره"۔
مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ پہچاننے کی یہ ایک جوہری علامت ہے ۔
2- محقق کے پاس مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا کسی دوسری کتاب کا کوئی نسخہ ہو ۔ اس سے وہ دونوں نسخوں کے خطوط اور لکھنے کے طریقے سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے یا نہیں۔
3- اس مخطوط کا بنظر غائر مطالعہ کرے۔ کسی کاتب کے نسخے میں بعض ایسی چیزیں موجود ہوتی ہیں جو مصنف کتاب کے نسخے میں عموما نہیں ہوتیں۔ مثلا کسی جگہ سے ایک یا دو سطر ساقط ہونا، کئی جگہوں پر تصحیفات وتحریفات کا موجود ہونا، مشکل کلمات پر حرکات کا نہ ہونا یا کثرت سے حرکات کا موجود ہونا۔ کیونکہ کاتب سے نقل کرتے وقت سبقت نظرکی بنا پر ایک دو سطروں کا ساقط ہونا عام ہے۔ جب کہ مصنف اپنے ہاتھ سے لکھتے وقت ایسی بیماری میں مبتلا نہیں ہوتا۔ مشکل الفاظ کا نہیں علم ہوتا ہے اور ان پر حرکات لگانے کا وہ اہتمام کرتے ہیں۔ جب کہ کاتب کے پاس یہ علم نہیں ہوتا۔
4- کاتب کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے میں جو تاریخ کتابت درج ہوتی ہے وہ عموما مصنف کی وفات کے بعد کی تاریخ ہوتی ہے۔ اگر مصنف کے وفات کے بعد کی تاریخ ہے تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ نہیں ہے۔
اگر یہ کنفرم ہو جائے کہ فلاں نسخہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ ہے تو اسے نسخۃ الاصل بنانے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ ایسی صورت میں باقی دوسرے نسخے معاون ومددگار نسخے ہوں گے۔ اور بوقت ضرورت ان سے مدد لی جائےگی۔ مثلا : محقق کو مصنف کے لکھے ہوئے نسخے میں کسی کلمہ کو پڑھنے میں پریشانی ہو، یا اس میں کوئی کلمہ مٹا ہوا یا پھٹا ہوا ہونے کی وجہ سے پڑھنے کے قابل نہ ہو۔ یا کوئی صفحہ ساقط ہو، وغیرہ وغیرہ تو ایسی صورت میں معاون نسخوں سے مدد لی جائےگی اور اس کی تکمیل کی جائےگی۔
2 – وہ نسخہ جسے مؤلف کتاب نے املا کرایا ہے، یا ان پر وہ پڑھا گیا ہے، یا اس کی اشاعت کی اجازت دی ہے:
اگر کوئی ایسا نسخہ دستیاب نہ ہو سکے جسے مؤلف کتاب نے خود اپنے ہاتھوں سے لکھا ہو (بلکہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے کی کتابوں میں شاذ ونادر ہی مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ مل پاتا ہے) تو پھر اس نسخے کو فوقیت حاصل ہوگی جسے انہوں نے املا کرایا ہے، یا ان کے سامنے وہ نسخہ پڑھا گیا ہے، یا اس کی روایت (اشاعت) کی اجازت دی ہے تو یہ سب سے اعلی درجے کا نسخہ مانا جائےگا، اور اسے ہی نسخۃ الاصل کا درجہ حاصل ہوگا۔
اگر اس طرح کے ایک سے زائد نسخے ہوں تو اس نسخہ کو فوقیت حاصل ہوگی جسے مؤلف کتاب نے سب سے آخر میں منظر عام پر لایا ہے۔
3 – جسے مصنف کے نسخے سے نقل کیا گیا ہو:
اور اگر اس طرح کا بھی کوئی نسخہ دستیاب نہ ہو سکے تو ثانوی (دویم درجے کے) نسخوں کی طرف رجوع کیا جائےگا ۔ ان میں سب سے اوپر اسے جگہ ملے گی جسے مؤلف کے نسخے سے نسخ (نقل) کیا گیا ہو یا اس نسخے سے نقل کیا گیا ہو جو کہ مصنف کے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے سے نقل شدہ ہے۔
4 - وہ نسخہ جسے کسی معروف عالم دین نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہو گرچہ وہ مصنف کے نسخے سے نقل شدہ نہ ہو۔
5 - جو نسخہ مؤلف کے زمانے میں لکھا گیا ہواور اس پر عرض وسماع (مطلب شاگردوں نے استاد پر اسے پڑھا ہو) موجود ہو۔
6 - جو نسخہ مؤلف کے زمانے کے بعد لکھا گیا ہواور اس پر عرض وسماع موجود ہو۔
7 - جو نسخہ مؤلف کے زمانے کے بعد لکھا گیا ہواور اس پر عرض وسماع موجود نہ ہو۔
8 – جس نسخہ کی تاریخ کتابت کا علم نہ ہو۔
9 – جو نسخہ مختلف طرح کے آفات (جن میں سے بعض کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے) کا شکار ہو۔
نسخوں کی یہی ترتیب اصل ہے، لیکن بعض خاص قرائن کی بنیاد پر خلاف اصل کسی نسخے کو کسی نسخے پر ترجیح دی جا سکتی ہے۔ مثلا مؤلف کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ تو موجود ہو لیکن اس میں کثرت سے سقط ہو۔ یا بعض صفحات ساقط ہوں، یا بعض جگہوں سے سیاہی مٹ گئی ہو، یا رطوبت کی وجہ سے پڑھنا ممکن نہ ہو، یا اس نسخے کے بعد انہوں نے اس میں حذف واضافہ کیا ہو اور یہ ان کے کسی شاگرد کے نسخے میں موجود ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ ضوابط کا تعلق اس حالت سے ہے جب محقق کے پاس کئی ایک قلمی نسخے ہوں۔ لیکن اگر محقق کو صرف ایک ہی قلمی نسخہ (جسے نسخۂ فریدہ کہا جاتا ہے) میسر ہو سکے تو اس صورت میں بھی -بطور استثناء- تحقیق کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے کچھ شروط وضوابط ہیں، جو درج ذیل ہیں:
1 - کتاب اپنے باب میں قیمتی اور بڑی اہمیت کی حامل ہو اور غالب گمان ہو کہ اس کا کوئی دوسرا نسخہ دنیا میں موجود نہیں ہے۔
2 - کتاب اب تک چھپی ہوئی نہ ہو ۔
3 – کتاب چھپی ہوئی تو ہو لیکن اس میں حد سے زیادہ غلطیاں ہوں۔
4 - محققِ کتاب کو مؤلف ِکتاب کے مصادر پر عبور حاصل ہو اور بوقت ضرورت وہ اصول کی طرف رجوع کر سکتا ہو۔
5 - اس زمانے کے مصنفین نے جن مصادر کی طرف کثرت سے رجوع کیا ہے محقق کو ان کی جانکاری ہو۔
6 - بعد میں آنے والے جن اہل علم نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے اور اپنی کتابوں میں اس کی عبارتیں نقل کی ہیں ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتا ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔
محقق اگر دیگر مصادر سے اس کی تلافی نہ کر سکے تو ایسی صورت میں انہیں متعینہ جگہ پر نقطے رکھ کر حاشیہ میں اس کی وضاحت کرنی چاہئے۔ بعض محققین ایسی صورت میں اجتہاد سے کام لیتے ہیں اور اسے متن کتاب میں ثابت کر دیتے ہیں جو کہ غیر مناسب ہے۔
(تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں: محاضرات فی تحقیق النصوص للدکتور احمد الخراط، ص34-47، وتحقیق نصوص التراث فی القدیم والحدیث للدکتور صادق عبد الرحمن الغریانی،ص74-77)
جاری...