• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم التوحید

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
1 توحید: سے ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا جائے۔اور اس کی دلیل یہ دی کہ صفات ماننے سے اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آئے گا،کیونکہ مخلوق بھی صفات کے ساتھ متصف ہے اور اس سے مخلوق کے ساتھ مشابہت لازم آئے گی حالانکہ {لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَيْئٌ}اللہ کے مشابہ کوئی چیز نہیںہے، لہٰذا اللہ کی صفات ہی نہیں ہیں،ان کا یہ نظریہ فاسد اور باطل ہے۔ صفات کا انکاردراصل توحید اسماء وصفات کا انکار ہے۔
حالانکہ اہل السنۃ والجماعہ اللہ عزوجل کی صفات کو کیفیت کی تفصیل میں جائے بغیر مانتے ہیں، لہٰذا اس سے جسم ہونا لازم نہیں آتا۔
2 عدل:اللہ تعالیٰ نے صرف خیر کو پیدا کیا ہے، شر کو اللہ نے پیدانہیں کیا بلکہ شر مخلوق کی تخلیق ہے۔ اس موضوع پراہل السنۃ کے ابواسحق اسفرائینی اور عبدالجبار معتزلی کا مناظرہ ہوگیا:
عبدالجبار:
سبحان من تنزّہ عن الفحشاء
’’ اللہ تعالیٰ شر کو پیدا کرنے سے پاک ہے۔‘‘
ابواسحق :
سبحان من لا یقع في ملکہ إلا ما شاء
’’اللہ تعالیٰ پاک ہے جس کی بادشاہت میں کوئی چیز اس کے ا رادے کے بغیر واقع نہیں ہوتی خواہ وہ خیر ہو یا شر۔‘‘
عبدالجبار:
أفیرید أن یُعصیٰ؟
’’کیا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے؟‘‘
ابواسحق:
أفیُعصیٰ رُبنا مکرھًا؟
’’ہمارا رب تعالیٰ نافرمان کی نافرمانی میں مجبور تو نہیں ہے ۔‘‘
عبد الجبار: مجھے بتلائیے اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے ہدایت کو روک لے اور میری ہلاکت کا فیصلہ کر دے تو کیا یہ فیصلہ اچھا ہوگا یا برا؟
ابواسحق: جس چیز کو اللہ تعالیٰ تجھ سے روکتا ہے اگر تو وہ تیری ملکیت میں ہے تو یہ فیصلہ برا ہو،لیکن اگر وہ چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے اورواقعی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے تو اللہ جوچاہے کرے (وہ صاحب اختیار ہے)۔ اس پر عبد الجبار لاجواب ہو گیا۔
معتزلہ کو یہ مغالطہ اس بنا پر لاحق ہوا کہ اُنہوں نے اِرادہ کونیہ قدریہ اور اِرادہ دینیہ شرعیہ کو ایک ہی کردیا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ اِرادہ کونیہ قدریہ کے اعتبار سے شر کے بھی خالق ہیں اور اِرادہ شرعیہ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ شر کو پسند نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ اِرادہ دینیہ شرعیہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب و مقصود ہے جبکہ ارادہ کونیہ قدریہ میں اللہ کی پسند و رضا کا ہونا ضروری نہیں۔
گویامعتزلہ نے اِرادئہ کونیہ کا انکار کردیا اورصرف شرعیہ کو مانا جب کہ صوفیا نے اِرادہ دینیہ شرعیہ کو لغو کردیااور اِرادہ کونیہ قدریہ کے تحت ہر چیز کو اللہ کا محبوب بنادیا۔
ارادہ دینیہ شرعیہ اللہ تعالیٰ کی محبوب اور پسندیدہ چیزوں کو شامل ہے جب کہ ارادہ کونیہ قدریہ خیر وشر ہر چیز کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے۔بعض چیزوں میںاللہ کے دونوں ارادے جمع ہوجاتے ہیں جیسے مؤمن کا ایمان لانا
اور بعض چیزوں میں صرف ارادہ کونیہ قدریہ آتاہے جیسے کافر کا کفر کرنا
بعض چیزوں میں اِرادہ شرعیہ آتاہے جیسے کافر کا ایمان لے آنا۔
3۔المنزلۃ بین المنزلتین: معتزلہ کے اس اُصول کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کبیرہ گناہ کرتاہے تو وہ ایمان سے نکل جاتاہے، لیکن کفرمیں داخل نہیں ہوتا بلکہ ایمان و کفر کے درمیان ہوتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
خوارج بھی یہی کہتے ہیں کہ مرتکب ِکبیرہ ایمان سے نکل جاتاہے، لیکن ان میں اور معتزلہ میں فرق یہ ہے کہ ان کے نزدیک وہ کفر میں داخل ہوجاتاہے، جبکہ معتزلہ اس کو کفر میں داخل نہیں سمجھتے۔لیکن نتیجہ اور آخرت کے اعتبار سے دونوں کا نظریہ برابر ہے کہ وہ دائمی جہنمی ہوگا۔جب کہ اہل سنت کہتے ہیں کہ مرتکب ِکبیرہ نہ تو ایمان سے نکلتاہے اور نہ ہی مخلد فی النارہوگا، بلکہ ارتکابِ کبیرہ سے اس کے ایمان میں نقص اورکمی لاحق ہوجاتی ہے۔
4۔ انفاذ الوعید:وعیدکا نافذ کرنااللہ پر لازمی ہے یعنی کسی مرتکب ِکبیرہ کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرسکتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ ہرمجرم کو عذاب ہوگا۔اگر اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہیں کرے گا تو وعدہ خلافی لازم آئے گی۔
دو اعتبار سے معتزلہ کایہ نظریہ بھی غلط ہے:
1۔اس وعید اورعذاب کو اللہ تعالیٰ نے عدمِ مغفرت کے ساتھ معلق کیاہے کہ اگر معاف نہیں کروں گا تو پھر عذاب دوں گا، جیسا کہ گناہ سے توبہ کرنے والے کو وعید شامل نہیں ہے۔ لہٰذااللہ کے وعدہ کی مخالفت لازم نہیں آتی۔
2۔نیز وعدہ اور وعید میںفرق ہے۔ وعدہ کی مخالفت تو مذموم ہے، لیکن وعید کی مخالفت توقابل تعریف اور اکرام و اِحسان میں داخل ہے۔اس کی دلیل یہ شعر ہے:
وإني إن أوعدتہ أو وعدتہ
لمخلف إیعادي و منجز موعدي​
’’میں اگر کسی کو وعید سناؤں یا اس سے وعدہ کروں تو وعید کو چھوڑ دیتا ہوں،لیکن اپنے وعدہ کو پورا کرتا ہوں۔‘‘
یعنی انعام کا اعلان وعدہ ہوتاہے اور سزا کا اعلان وعیدکہلاتا ہے اور وعدہ کو پورا کرنا ضروری ہے جب کہ وعید کو چھوڑنا ممدوح ہے۔
5۔الأمربالمعروف والنہي عن المنکر: اس خودساختہ اصول سے ان کے نزدیک مراد یہ ہے کہ ظالم حکمران کے خلاف تلواریں لے کر نکلنا اور اس سے لڑناضروری ہے۔
معتزلہ کے پھیلاؤ کے اَسباب
1۔ حکمرانوں سے تعلقات 2۔چرب زبانی
3۔فصاحت و بلاغت4۔باہم شدتِ تعاون
2۔رافضہ
تشیع میں غلو کرنے والوں کو’روافض‘ کہا جاتا ہے۔
وجہ تسمیہ: روافض کی وجہ تسمیہ کے بارے میں درج ذیل تین اَقوال ہیں:
پہلا قول:
حضرت ابوبکر وعمر کی خلافت کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے اُنہیں روافض(انکار کرنے والے) کہا جاتا ہے۔ لرفضہم خلافۃ الشیخین
دوسرا قول:
دین چھوڑ دینے کی وجہ سے یہ روافض کہلاتے ہیں۔لرفضہم الدین یعنی یہ بظاہر تو دین کے دعوے دار ہیں، لیکن درحقیقت حقیقی اسلام سے بہت دور ہیں۔روافض نے خود ساختہ دین بنایا ہوا ہے اور توحید کو نظر انداز کر کے یہ شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔
تیسرا قول:
زیدؒ بن علیؒ بن حسینؓ بن علیؓ دوسری صدی ہجری میںبنواُمیہ کے خلاف لڑنے کے لیے نکلے تو اُنہوں نے کہا اگر آپ شیخین کو گالیاں دیں گے اور ان سے براء ت کا اظہار کریں گے تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ معاذ اللہ میں ایسانہیں کرسکتا تویہ الگ ہوگئے تو زیدنے فرمایا:
أرفضتموني
’’کیا تم نے میرا ساتھ چھوڑ دیا‘‘
اس سے انہیں ’رافضہ‘ کہا گیا۔
یمن کا رہنے والا عبداللہ بن سبا یہودی دور عمرؓ میں تو درّئہ فاروقی سے ڈرتا تھا، لیکن دورِ عثمانیؓ میں اُن کی نرمی کی وجہ سے اس کو موقع مل گیا۔ یمن سے حجاز آکر ا س نے اسلام کادعویٰ کردیا اور غلط عقائد پھیلانے شروع کردیئے۔اس نے یہ نظریات پھیلا دیئے کہ
1۔رسول اللہﷺ نے اپنے بعد حضرت علیؓ کی خلافت کی وصیت کی تھی۔
2۔ابن ملجم نے حضرت علیؓ کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ (معاذ اللہ)شیطان کوقتل کیا تھا جو علیؓ کی صورت میں آیا تھا۔
3۔علیؓ میں اُلوہیت کا جز پایا جاتاہے لہٰذا وہ قیامت کے نزدیک لوٹ کر آئیں گے اور اپنے دشمنوں سے انتقام لیں گے۔
گویا اس طرح ابن سبا نے شیعوں کو گمراہ کیا جیسے پولس نے عیسائیوں کو گمراہ کیااس نے کہا:
1۔مجھے عیسیٰ علیہ السلام ملے اور کہا کہ عیسائیت تمام لوگوں کا دین ہے۔
2۔مجھے وصیت کی ہے: الإلہ ثلاثۃ وثلاثۃ واحد وَھُم:أب،ابن وروح القدس یعنی خدا تین ہیں(اب ، ابن ، روح القدس)اور تین ملک کر ایک ہے۔
3۔عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کے گناہوں کا کفارہ بن کر سولی چڑھ گئے ہیں۔
4۔عیسیٰ علیہ السلام سولی دیئے جانے کے بعد زندہ ہوگئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب عرش پر بیٹھ گئے۔
گویا جس طرح پولس نے عیسائیوں کو عیسائی بن کر گمراہ کیا، اسی طرح عبداللہ بن سبا نے مسلمان بن کر شیعوں کو گمراہ کیا۔
3۔ الجہمیۃ
یہ جہم بن صفوان کی طرف منسوب ہیں جس کو سلم بن اَحوز نے گرفتار کرکے قتل کردیا تھا اور جہم نے یہ نظریات جعد بن درہم سے حاصل کئے تھے۔گویا اصل میں یہ نظریات جعد کے تھے، لیکن جہمیہ کی نسبت جہم کی طرف اس لیے ہے کہ اس نے ان نظریات کا پرچار کیا۔جعد کوخالد قسری نے گرفتار کیا اور عیدالاضحی کو خطبہ دیا اور کہا:
’’یأیھا الناس ضحُّوا تقبل اﷲ ضحایاکم فإنی مضحٍّ بجعد بن درہم إنہ زعم أن اﷲ لم یتخد إبراہیم خلیلاً ولم یکلم موسی تکلیما ثم نزل فذبحہ‘‘
’’ اے لوگو! تم جانوروں کی قربانی کرو اللہ تعالیٰ تمہاری قربانیاں قبول کرے۔میں تو جعد بن درہم کی قربانی کروں گا،کیونکہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل نہیں بنایا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کی ہے پھر منبر سے اتر کر اسے ذبح کر دیا۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
جہمیہ کے گمراہ کن نظریات
1۔نفی الصفات:یہ صفاتِ الٰہی کی کلی طور پر نفی کرتے ہیں۔
القول بالجبر ونفي الإختیار عن العَبد:یعنی بندے کو کچھ اختیار نہیں، وہ مجبور محض ہے۔ جو کچھ کرواتا ہے، اللہ ہی کرواتا ہے۔
فناء الجنۃ والنار: یعنی جنت اور جہنم بھی آخر کار فنا ہوجائیں گے۔
الإیمان معرفۃ فقط: یعنی ایمان فقط معرفت کا نام ہے۔
الخروج بالسیف علی أئمۃ الجور: یعنی ظالم حکمرانوں کے خلاف ہتھیاروں سے لڑنا واجب ہے۔
4۔ الکرّامیۃ
یہ محمد بن کرام سجستانی کی طرف منسوب ہیں۔ محمد بن کرام کو حکومت ِوقت نے آٹھ سال تک قید رکھا۔ اس نے بظاہر توبہ کرلی، لیکن جب آزاد ہواتو پھر وہی نظریات پھیلانے شروع کردیئے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
گمراہ کن نظریات
مجاوزۃ الحد في إثبات الصفات حتی شبَّہوہ بخلقہ:یعنی یہ صفات باری تعالیٰ کو ثابت کرنے میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات بندوں کے مشابہ ہیں۔
الإیمان ھو النطق فقط:یعنی ایمان صرف اقرار کا نام ہے تصدیق اور عمل کی ضرورت نہیں۔ فقط کلمہ پڑھنے سے بندہ مسلمان ہوجاتا ہے۔
جواز وضع الأحادیث في الترغیب والترہیب: دینی اعمال کی طرف لوگوں کو راغب کرنے اور اللہ سے ڈرانے کے لیے اَحادیث اپنے پاس سے وضع کرناجائز ہیں۔ جیسا کہ امام عراقی اپنے الفیہ میں فرماتے ہیں
وجوّز الوضع في الترغیب قوم ابن الکرّام وفي الترہیب
’’کرامیہ فرقے نے ترغیب وترہیب کے باب میں احادیث وضع کرنے کو جائز کر لیا ہے۔‘‘
5۔ خوارج
جنگ جمل کے بعد حضرت علیؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ سے بیعت لینے کی کوشش کی،لیکن ناکامی ہوئی،لہٰذاآپ نے بزورِ طاقت بیعت لینے کا ارادہ کیا اور اسی ہزرا کا لشکر لے کر کوفہ سیشام چلے اور نخلیہ کے مقام پر مقیم ہو گئے۔امیر معاویہ کو اس کا علم ہوا تو ساٹھ ہزار شامیوں کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلے اور صفین کے میدان میں دریائے فرات کے ساحل پر ڈیرے لگا لیے، دونوں فوجوں میں امت کے خیر خواہ، علما،صلحا اور حفاظِ قرآن کی کافی تعداد تھی۔انہوں نے مصالحت کی کوشش کی۔اس وجہ سے تین ماہ تک لڑائی رکی رہی اور طرفین کے سفیروں کی آمدورفت جاری رہی، لیکن مصالحت نہ ہو سکی۔حضرت امیر معاویہؓ اس شرط پر بیعت کرنے کے لیے تیار تھے کہ قاتلین عثمان کو ان کے حوالے کر دیا جائے،لیکن یہ معاملہ بڑا پیچیدہ تھا،کیونکہ اس مطالبہ پر حضرت علیؓ کی فوج سے بیس ہزار آدمیوں نے آگے بڑھ کر بلند آواز سے کہا ہم سب قاتلینِ عثمان ہیں،اسی طرح مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور جنگ شروع ہو گئی جس کا سلسلہ کئی مہینے تک جاری رہا،شامی لشکر نے عمرو بن عاص کے مشورے سے ایک عجیب کام کیا۔صبح جب دونوں فوجیں مقابلے کے لیے نکلیں تو شامی نیزوں پر قرآن کریم اٹھائے ہوئے نکلے اور بلند آوز سے کہنے لگے۔ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ہے آؤ مل کر اس کا فیصلہ قبول کر لیں۔یہ تجویز کارگر ثابت ہوئی جس پر عراقیوں نے لڑائی سے ہاتھ روک لیے۔حضرت علی ؓنے بہت سمجھایا کہ یہ ایک چال ہے مگر وہ نہ مانے اور کہا کہ اگر آپ نے قرآن کو حکم تسلیم نہ کیا تو ہم آپ سے بھی جنگ کریں گے۔مجبورا حضرت علیؓ کو لڑائی بند کرنی پڑی۔
اب تجویز یہ ٹھہری کہ طرفین سے ایک ایک نمائندہ بطورِ ثالث مقرر کیا جائے جو قرآن کریم کی رو سے اس جھگڑے کا فیصلہ کریں اور تا فیصلہ جنگ بند رہے گی اور یہ فیصلہ فریقین کے لیے واجب العمل ہو گا۔حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف سے عمرو بن عاص اور حضرت علیؓ کی طرف سے ابو موسی اشعری ثالث مقرر ہوئے۔اس موقع پر ایک گروہ نے حضرت علیؓ کی مخالفت شروع کر دی اور یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے حضرت علیؓ کو بڑے اصرار کے ساتھ ثالثی کے لیے آمادہ کیا تھا جب کہ حضرت علیؓ شروع میں ثالثی کے حق میں نہ تھے ،لیکن ان لوگوں کے زور دینے پر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو گئے،مگر اب یہی لوگ’’إن الحکم إلا ﷲ‘‘فیصلہ تو صرف اللہ ہی کر سکتا ہے کا نعرہ لگا کر حضرت علیؓ کی فوج سے الگ ہو گئے۔اس گروہ کی تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی اور انہیں ’خارجی‘ کہا جاتا ہے،بعد میں ان لوگوں نے زور پکڑ لیا اور منظم تحریک کی صورت اختیار کر لی۔حضرت علیؓ کے استفسار پر ان لوگوں نے کہا،آپ نے اللہ کے حکم میں انسانوں کو ثالث بنا لیا ہے، اس لیے ہم نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔حضرت علیؓ نے فرمایا میں تو ثالثی کے خلاف تھا،تم لوگوں نے اصرار کر کے مجھے ایسا کرنے پر مجبورکیا تھا۔اب جب کہ میں ثالثی کے عہد نامہ پر دستخط کر چکا ہوں تو تم مجھے اپنے عہد سے پھر جانے پر مجبورکرنے لگے ہو، میں ایسا نہیں کروں گا اور ثالثوں نے بھی قرآنی احکام کے مطابق فیصلہ کرنا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے،اس لیے انہیں ثالث ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہے،مگر خارجیوں نے کہا ثالثی قبول کرنا کفر ہے ،اگر ہم نے آپ کو ثالثی قبول کرنے کی تجویز دی تھی تو ہم نے گناہ کیا تھا اب ہم اس گناہ سے توبہ کرتے ہیں،اگر آپ بھی غلطی کا اعتراف کر کے توبہ کر لیں تب ہم آپ کا ساتھ دیں گے، ورنہ آپ کے خلاف بھی جہاد کریں گے۔حضرت علیؓ نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ اپنی ضد پر مصر رہے اور حضرت علیؓ کی مخالفت شروع کر دی اور اس کے بعد خارجیوں کی سرگرمیاں تیز ہو گئیں۔
خوارج کے نظریات
1۔حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کو کافر کہنا
2۔مرتکب کبیرہ پرکفر کا فتوی لگانا اور اسے مخلد فی النار کہنا
3۔الخروج بالسیف علی أئمۃ الجوریعنی ظالم حکمرانوں کے خلاف ہتھیارلے کر لڑنا
 
Top