عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
1 توحید: سے ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا جائے۔اور اس کی دلیل یہ دی کہ صفات ماننے سے اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آئے گا،کیونکہ مخلوق بھی صفات کے ساتھ متصف ہے اور اس سے مخلوق کے ساتھ مشابہت لازم آئے گی حالانکہ {لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَيْئٌ}اللہ کے مشابہ کوئی چیز نہیںہے، لہٰذا اللہ کی صفات ہی نہیں ہیں،ان کا یہ نظریہ فاسد اور باطل ہے۔ صفات کا انکاردراصل توحید اسماء وصفات کا انکار ہے۔
حالانکہ اہل السنۃ والجماعہ اللہ عزوجل کی صفات کو کیفیت کی تفصیل میں جائے بغیر مانتے ہیں، لہٰذا اس سے جسم ہونا لازم نہیں آتا۔
2 عدل:اللہ تعالیٰ نے صرف خیر کو پیدا کیا ہے، شر کو اللہ نے پیدانہیں کیا بلکہ شر مخلوق کی تخلیق ہے۔ اس موضوع پراہل السنۃ کے ابواسحق اسفرائینی اور عبدالجبار معتزلی کا مناظرہ ہوگیا:
عبدالجبار:
ابواسحق: جس چیز کو اللہ تعالیٰ تجھ سے روکتا ہے اگر تو وہ تیری ملکیت میں ہے تو یہ فیصلہ برا ہو،لیکن اگر وہ چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے اورواقعی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے تو اللہ جوچاہے کرے (وہ صاحب اختیار ہے)۔ اس پر عبد الجبار لاجواب ہو گیا۔
معتزلہ کو یہ مغالطہ اس بنا پر لاحق ہوا کہ اُنہوں نے اِرادہ کونیہ قدریہ اور اِرادہ دینیہ شرعیہ کو ایک ہی کردیا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ اِرادہ کونیہ قدریہ کے اعتبار سے شر کے بھی خالق ہیں اور اِرادہ شرعیہ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ شر کو پسند نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ اِرادہ دینیہ شرعیہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب و مقصود ہے جبکہ ارادہ کونیہ قدریہ میں اللہ کی پسند و رضا کا ہونا ضروری نہیں۔
گویامعتزلہ نے اِرادئہ کونیہ کا انکار کردیا اورصرف شرعیہ کو مانا جب کہ صوفیا نے اِرادہ دینیہ شرعیہ کو لغو کردیااور اِرادہ کونیہ قدریہ کے تحت ہر چیز کو اللہ کا محبوب بنادیا۔
ارادہ دینیہ شرعیہ اللہ تعالیٰ کی محبوب اور پسندیدہ چیزوں کو شامل ہے جب کہ ارادہ کونیہ قدریہ خیر وشر ہر چیز کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے۔بعض چیزوں میںاللہ کے دونوں ارادے جمع ہوجاتے ہیں جیسے مؤمن کا ایمان لانا
اور بعض چیزوں میں صرف ارادہ کونیہ قدریہ آتاہے جیسے کافر کا کفر کرنا
بعض چیزوں میں اِرادہ شرعیہ آتاہے جیسے کافر کا ایمان لے آنا۔
3۔المنزلۃ بین المنزلتین: معتزلہ کے اس اُصول کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کبیرہ گناہ کرتاہے تو وہ ایمان سے نکل جاتاہے، لیکن کفرمیں داخل نہیں ہوتا بلکہ ایمان و کفر کے درمیان ہوتا ہے۔
حالانکہ اہل السنۃ والجماعہ اللہ عزوجل کی صفات کو کیفیت کی تفصیل میں جائے بغیر مانتے ہیں، لہٰذا اس سے جسم ہونا لازم نہیں آتا۔
2 عدل:اللہ تعالیٰ نے صرف خیر کو پیدا کیا ہے، شر کو اللہ نے پیدانہیں کیا بلکہ شر مخلوق کی تخلیق ہے۔ اس موضوع پراہل السنۃ کے ابواسحق اسفرائینی اور عبدالجبار معتزلی کا مناظرہ ہوگیا:
عبدالجبار:
ابواسحق :سبحان من تنزّہ عن الفحشاء
’’ اللہ تعالیٰ شر کو پیدا کرنے سے پاک ہے۔‘‘
عبدالجبار:سبحان من لا یقع في ملکہ إلا ما شاء
’’اللہ تعالیٰ پاک ہے جس کی بادشاہت میں کوئی چیز اس کے ا رادے کے بغیر واقع نہیں ہوتی خواہ وہ خیر ہو یا شر۔‘‘
ابواسحق:أفیرید أن یُعصیٰ؟
’’کیا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے؟‘‘
عبد الجبار: مجھے بتلائیے اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے ہدایت کو روک لے اور میری ہلاکت کا فیصلہ کر دے تو کیا یہ فیصلہ اچھا ہوگا یا برا؟أفیُعصیٰ رُبنا مکرھًا؟
’’ہمارا رب تعالیٰ نافرمان کی نافرمانی میں مجبور تو نہیں ہے ۔‘‘
ابواسحق: جس چیز کو اللہ تعالیٰ تجھ سے روکتا ہے اگر تو وہ تیری ملکیت میں ہے تو یہ فیصلہ برا ہو،لیکن اگر وہ چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے اورواقعی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے تو اللہ جوچاہے کرے (وہ صاحب اختیار ہے)۔ اس پر عبد الجبار لاجواب ہو گیا۔
معتزلہ کو یہ مغالطہ اس بنا پر لاحق ہوا کہ اُنہوں نے اِرادہ کونیہ قدریہ اور اِرادہ دینیہ شرعیہ کو ایک ہی کردیا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ اِرادہ کونیہ قدریہ کے اعتبار سے شر کے بھی خالق ہیں اور اِرادہ شرعیہ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ شر کو پسند نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ اِرادہ دینیہ شرعیہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب و مقصود ہے جبکہ ارادہ کونیہ قدریہ میں اللہ کی پسند و رضا کا ہونا ضروری نہیں۔
گویامعتزلہ نے اِرادئہ کونیہ کا انکار کردیا اورصرف شرعیہ کو مانا جب کہ صوفیا نے اِرادہ دینیہ شرعیہ کو لغو کردیااور اِرادہ کونیہ قدریہ کے تحت ہر چیز کو اللہ کا محبوب بنادیا۔
ارادہ دینیہ شرعیہ اللہ تعالیٰ کی محبوب اور پسندیدہ چیزوں کو شامل ہے جب کہ ارادہ کونیہ قدریہ خیر وشر ہر چیز کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے۔بعض چیزوں میںاللہ کے دونوں ارادے جمع ہوجاتے ہیں جیسے مؤمن کا ایمان لانا
اور بعض چیزوں میں صرف ارادہ کونیہ قدریہ آتاہے جیسے کافر کا کفر کرنا
بعض چیزوں میں اِرادہ شرعیہ آتاہے جیسے کافر کا ایمان لے آنا۔
3۔المنزلۃ بین المنزلتین: معتزلہ کے اس اُصول کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کبیرہ گناہ کرتاہے تو وہ ایمان سے نکل جاتاہے، لیکن کفرمیں داخل نہیں ہوتا بلکہ ایمان و کفر کے درمیان ہوتا ہے۔