• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم التوحید

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ایمان وعقائد​
علم التوحید

مولانا محمدرمضان سلفی​
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنےکے لیے یہاں کلک کریں
علم التوحید ایک ’مرکب ِ اضافی‘ ہے۔ علم کے دو معانی ہیں :
(i) الاعتقاد الجازم المطابق للواقع عن دلیل
’’ایسا پختہ اعتقاد جو حقیقت حال کے مطابق اور مبنی بر دلیل ہو۔‘‘
(ii) إدراک الشيء علی حقیقتہ
’’کسی شے کا مبنی بر حقیقت اِدراک‘‘
(iii) إدراکہ کما ھو علیہ مثلاً: فاعلم أنہ لا إلـٰہ إلا اﷲ
’’کسی امر کا ایسا ادِراک جیسا کہ درحقیقت وہ ہے۔‘‘
جیسا کہ اللہ کی وحدانیت کا علم
چنانچہ ہرمسلمان کاعقیدہ ہے کہ اللہ ایک ہے اور یہ عقیدہ پختہ بھی ہے جو نفسِ امر کے موافق بھی ہے۔ کیونکہ خارج میں اللہ ایک ہی ہے، زیادہ نہیں اوریہ عقیدہ دلیل کی بنیاد پربھی ہے جس کے متعدد عقلی و نقلی دلائل موجود ہیں۔
جو عقیدہ پختہ ہو، لیکن نفسِ امر کے مخالف ہو،وہ عقیدہ فاسد ہے جیسے عیسائیوں کاعقیدۂ تثلیث۔یہ عقیدہ عیسائیوں کاپختہ عقیدہ توہے، لیکن یہ نفسِ امر کے مطابق نہیں،کیونکہ الٰہ ’مُحدَث‘ (بعد میں وجود میں آنے والا) اور ’ محتاج‘ نہیں ہوسکتا جبکہ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کو الٰہ یا الٰہ کابیٹا کہتے ہیں حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام ’محدث‘ تھے کہ ان کاوجود پہلے نہیں تھا، بعد میں آیا۔ اسی طرح وہ محتاج بھی تھے چنانچہ ارشادِ باری ہے:
{مَاالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ إلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَأمُّہُ صِدِّیْقَۃٌ کَانَا یَأکُلـٰنِ الطَّعَامَ} (المائدۃ:۷۵)
’’مسیح بن مریم صرف ایک رسول ہے اس سے پہلے بھی بہت سے رسول ہو چکے ہیں اور اس کی والدہ نہایت سچی عورت تھیں دونوں (ماں بیٹا) کھانا کھانے والے تھے،لہٰذا عقیدۂ تثلیث عیسائیوں کے ہاں اگرچہ پختہ عقیدہ ہے، لیکن امرِ واقع کے خلاف ہونے کی وجہ سے نہایت باطل اور فاسد عقیدہ ہے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
B غلبہ ٔ ظن کوبھی علم کہتے ہیںجیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{فَإنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ} (الممتحنہ:۱۰)
یہاں کسی عورت کے مؤمن ہونے کے متعلق غلبۂ ظن توہوسکتا ہے، علم یقینی نہیں،کیونکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کی بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا جس طرح ’علم یقین‘ حجت بنتا ہے اور معتبر ہوتا ہے، اسی طرح شرعی احکام میںغلبۂ ظن بھی معتبر ہوتاہے جیساکہ مذکورہ بالا آیت اس پر دلالت کرتی ہے۔
الغرض اعتقادِ جازم اور غلبۂ ظن دونوں شریعت میں حجت ہیں۔
توحید:واحد کے ہم معنی ہے یعنی اللہ کو ایک ماننا اورکسی کو اس کا شریک نہ بنانا۔
علم التوحید: مذکورہ بالا تفصیلات کے پیش نظر اس کی تعریف یوں ہوئی:
ھو إثبات ذات اﷲ سبحانہ وتعالیٰ مع نفي مشابہتہا للذوات وعدم تعطیلہا عن الصفات ووجوب إفرادھا بالعبادات
تعریف میں شامل ہرنکتے کی تفصیل حسب ِذیل ہے:
اثبات ذات اﷲ: یعنی وجودِ باری تعالیٰ کا اقرار کرنا۔
نفي مشابہتہا للذوات:یعنی اللہ خالق ہے باقی سب مخلوقات،اور خالق مخلوق کے مشابہ نہیں ہوسکتا۔
وعدم تعطیلہا عن الصفات:صفات کو اسی طرح ماننا جیسے قرآن و سنت میں وارد ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی سے بچنا۔
ووجوب إفرادھا بالعبادات:کسی بھی قسم کی عبادت خواہ وہ قولی ہو جیسے دعا، خواہ بدنی ہو جیسے کسی کے لیے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوناخواہ مالی عبادات مثلاً نذرو نیاز، ان کو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کے لئے ہی خاص ماننا
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
انسان سب سے پہلے توحید کامکلف ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ، جہاد کی باری بعدمیں آتی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے عقیدہ کو درست کرنا ضروری ہے۔لہٰذا مشرک کو نماز سے محض ٹکریں مارنے کے سواکچھ نہیں ملتا۔اسی لیے رسول اللہ1 نے نبوت کے ۲۳ سال میں سے ۱۳ سال عقیدے کی درستگی پر لگائے اور باقی سارا دین مدینہ منورہ میں ۱۰سال میںپورا ہوگیا۔
چار شرطوں کے پائے جانے سے انسان مکلف بنتا ہے:
1عقل
2 بلوغت:اور بلوغت کا علم مندرجہ ذیل چیزوں سے حاصل ہوتا ہے،احتلام،عمر اور زیر ناف بالوں کا اگنا،اسی طرح عورت کے لیے حیض آنا۔
3بلوغِ دعوت یعنی دعوتِ توحید کا پہنچنا
4 سلامۃ إحدی الحاستین یعنی کان اور آنکھوں میں سے کسی ایک کے صحیح اور کار آمد ہونے سے بھی انسان توحید کا مکلف بن جاتا ہے۔
ان شروط کے پائے جانے سے انسان علم التوحیدکامکلف بن جاتاہے۔
علم توحید کے دیگر نام
اس علم کو ’عقیدہ‘،’ علم اُصول الدین‘ یا ’الفقہ الأکبر‘بھی کہتے ہیں۔
اس علم کی فضیلت
(i) موضوع کے اعتبار سے یہ علم اَفضل العلوم ہے،کیونکہ اس کا موضوع اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات،اسمائ، اُلوہیت اور عبودیت وغیرہ ہے۔
(ii) غرض وغایت کے اعتبار سے بھی یہ علم سب سے افضل علم ہے،کیونکہ علم التوحید کی غرض وغایت یہ ہے :
’’معرفۃ الحق بالأدلۃ القطعیۃ والفوز بالسعادۃ الأبدیۃ‘‘
’’یعنی حق تعالیٰ کو یقینی اور قطعی دلائل سے پہچاننا اور آخرت کی دائمی سعادت حاصل کرنا۔‘‘
بندوں پر سب سے پہلا فریضہ عقیدۂ توحید کی معرفت ہے جیسا کہ مسند احمد، سنن دارمی، موطأ،بخاری،مسلم، نسائی،ترمذی وغیرہ میں مروی ہے کہ جب معاذ ؓکونبی اکرمﷺ نے یمن کاگورنر بناکربھیجا تو فرمایا:
فلیکن أوّل ماتدعوھم إلیہ شہادۃ أن لاإلہ إلا اﷲ وأني رسول اﷲ فإن ھم أجابوا لذلک فقل لہم: إن اﷲ افترض علیہم خمس صلوات في الیوم واللیلۃ
نبی کریمﷺ کا دعوتِ توحید کو مقدم رکھنے کا حکم اس کی اَفضلیت پردالّ ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
(iv) جتنے بھی رسول آئے، جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں، سب کااصل مقصد توحیدکوقائم کرنا ہے۔ کیونکہ کتاب اللہ کی تمام نصوص پانچ مضامین سے خارج نہیںاور ان پانچوں کاتعلق توحید سے ہے۔ وہ پانچ چیزیں درج ذیل ہیں:
(ا)بعض آیات و اَحادیث اللہ تعالیٰ کی ذات اور اَسماء و صفات کو بیان کرتی ہیں اور یہ توحید نظری ہے۔
(ب) بعض نصوص اللہ کی عبادت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیں یعنی عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہئے اور یہ توحید ِعملی ہے۔
(ج) بعض نصوص اَوامر و نواہی پرمشتمل ہیں مثلاً اقیموالصلوٰۃ، اٰتوا الزکوٰۃ،لاتقربوا الزنا وغیرہ۔یہ لوازمِ توحید اور مقتضیاتِ توحید ہیں یعنی جب تم توحید باری تعالیٰ کو مانتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے اَوامر و نواہی کو بھی مانو۔
(د) بعض نصوص جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکرکرتی ہیں۔اس کا تعلق بھی توحید سے ہے، کیونکہ جنت میںصرف توحید والے ہی جائیں گے مشرک تو جنت میں جائے گا نہیں۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:
{إنَّہُ مَنْ یُّشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدْ حَرَّمَ اﷲُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ} (المائدۃ:۷۲)
’’ یقین مانو کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کر دیا ہے۔‘‘
(ھ) بعض نصوص میں جہنم اور دیگر سزاؤں کا ذکر ہے۔ ان نصوص کا تعلق بھی توحید سے ہے، کیونکہ یہ سزائیں توحید سے انحراف کرنے والے مشرکوں کے لیے ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اس علم کا حکم
اس کی دو صورتیں ہیں :
1۔اس کو علیٰ الاجمال سیکھنا سب مسلمانوں پرفرض ہے یعنی ہرشخص کو علم ہوناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہے اور وہ ہر چیز کا خالق ومالک ہے اور ہر چیز میں تصرف کرنا اللہ ہی کا حق ہے اور یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ عبادت کے لائق صرف وہی ہے، مدبر بھی وہی ہے، رازق وداتا بھی وہی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر کمال کے ساتھ موصوف اور ہر عیب اور نقص سے پاک ہے اور رسولوں کے بارے میں یہ علم ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے فرستادہ ہیں اور وہ اپنی دعوت میں سچے ہیں جو اپنی خواہش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی سے کلام کرتے ہیں۔
2۔تفصیلی طور پر اس علم کو سیکھنا فرضِ کفایہ ہے۔ یعنی مسلمانوں میں سے اگر اتنے لوگ اس علم کو سیکھ لیں کہ مسلم معاشرے کی ضرورت پوری ہوجائے تو یہ فرض دیگر مسلمانوں سے ساقط ہوجائے گا۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
توحیدکی اَقسام
توحید کی بنیادی طور پر دوقسمیں ہیں :
1۔توحید في الإثبات والمعرفۃ
2۔توحید فی القصد والطلب
توحید في الأثبات والمعرفۃ (توحید ِنظری)
اس کی آگے دو قسمیں ہیں:
(i) توحید ِربوبیت (ii)توحید ِاسماء وصفات
توحید فی القصد والطلب (توحید ِعملی وطلبی)
توحید ِاُلوہیت اور توحید فی العبادۃ بھی اس کے نام ہیں۔
الغرض توحید کی کل تین قسمیں ہوگئی:
1 توحید ِ ربوبیت
2توحید ِاسماء و صفات
3توحید ِاُلوہیت
1۔توحید ِربوبیت
تعریف:
الإعتقاد الجازم بوجود اﷲ سبحانہ وتعالیٰ وأنہ خالق کل شيء ومدبرہ والمتصرف فیہ
’’یعنی اس بات کا پختہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ موجود اور وہ ہر چیز کا خالق ومالک اور تدبیر کرنے والااور ہر چیز میں تصرف کرنے والا ہے۔‘‘
منقولہ دلائل سے قطع نظر اللہ تعالیٰ کے وجود کے عقلی دلائل بے شمار ہیں :
1۔ اَربوںانسانوں کی شکلوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ کے وجود پردلیل ہے۔
2۔ مختلف بولیاں اور لغات اللہ تعالیٰ کے وجود پر دال ہیں کہ بچہ بغیر کسی مکتب میں پڑھنے کے اپنی مادری زبان سیکھ جاتا ہے۔
3۔ جانوروں کا دودھ اور خون آپس میں نہیں ملتا۔ یہ معمل الہٰي (اللہ کا کارخانہ)ہے۔
4۔ بے شمار قسم کے پھل اور درخت پودے وغیرہ سب ایک ہی مٹی اور پانی سے پیدا ہوتے ہیں، لیکن ذائقے اور شکلیں مختلف ہیں:
وفي کل شيء لہ أیۃ تدل علی أنہ واحد
’’ہر چیز اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ (مدارج السالکین از ابن القیم:۱؍۴۰۷)
5۔ مختلف جانوروں کے گوشت کے ذائقے الگ الگ ہیں۔
6۔ صحیح بخاری میں ہے کہ انسان کھاتا منہ سے اور پیتا بھی منہ سے، لیکن دونوں کا مخرج مختلف ہے۔(صحیح بخاری مع الفتح:۸؍۵۹۸)یہ بھی اللہ کے وجود کی نشانی و دلیل ہے۔
چند دہریوں کے سوا توحید ِ ربوبیت کو سب مانتے ہیں ،حتیٰ کہ مشرکین مکہ بھی مانتے تھے:
{وَلَئِنْ سَألْتَہُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالأرْضِ لَیَقُوْلُنَّ اﷲ} (لقمان:۲۵)
’’اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں وزمین کا خالق کون ہے تو یہ بھی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
گویا توحیدِربوبیت توانسانی فطرت میںداخل ہے، اس لیے پیغمبروں کی بعثت سے اصل مقصود توحید ِربوبیت نہ تھی بلکہ توحید اُلوہیت اَصل مقصود تھی۔ اور مشرک اسی کو کہا جاتا ہے جو اللہ کو تو مانتا ہو، لیکن ساتھ ہی دوسروں کوبھی شریک کرتا ہو۔
2۔توحید ِاسماء وصفات
’’ھو إثبات أسماء اﷲ تعالیٰ وصفاتہ إثباتًا بلا تشبیہ وتنزیہًا بلا تعطیل‘‘
’’اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کو ویسے ماننا (جیسے قرآن و سنت میں آئے ہیں یعنی ہر صفت ِکمال اللہ کے لائق ہے اور وہ ہر نقص سے پاک ہے) لیکن یہ اثبات بغیر تشبیہ کے اور نقائص سے منزہ قرار دینا بلاتعطیل کے ہونا چاہئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی صفات کی ماہیت، کیفیت، حقیقت صرف اللہ جل جلالہ کے علم میں ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات کی ماہیت، کیفیت اور حقیقت بھی صرف اللہ ہی کے علم میں ہے۔
دلیل:
{لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ وَّھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ}
’’ اللہ کے مثل کوئی نہیں، اور وہ سمیع وبصیر ہے۔‘‘
اس آیت میں تمثیل و تشبیہ اور تعطیل دونوں کی نفی ہوگئی،مثلاًبعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ میںنقص ہے۔ معاذ اللہ وہ تو ہر نقص سے پاک ہے۔
3۔توحید قصد وطلب
اس سے مراد توحیدِالوہیت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ اورہرقسم کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کرنا توحید اُلوہیت(توحید القصد والطلب)کہلاتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
عبادت کی کئی قسمیں ہیں:
1۔قولی 2۔مالی3۔ بدنی
قولی:اب اگر کوئی شخص کہے ’یاعلی مدد‘ تو گویا اس نے قولی عبادت میں علیؓ کو اللہ کا شریک بنایا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اﷲِ اَحَدًا} (الجن:۱۸)
’’یعنی اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘
بدنی: اسی طرح اگر کوئی شخص بدنی عبادت میں اللہ کے ساتھ شرک کرتاہے تو وہ بھی مشرک ہے مثلاً کوئی علی ہجویری کے دربار پر ماتھا ٹیکے، رکوع کرے، ہاتھ باندھ کر اَدب سے کھڑا ہو تو یہ عملی عبادت میں اللہ کے ساتھ شرک ہے۔
مالی:اسی طرح اگر کوئی شخص نذرِ حسینؓ دیتا ہے تو گویا وہ مالی عبادت میںاللہ کے ساتھ شرک کرتاہے۔اسی طرح قبروں پر دیگیں چڑھانا غیر اللہ کے نام کی گیارھویں دینا،جعفر صادق کے کونڈھے بھرنا بھی مالی عبادت میں خالق کے ساتھ مخلوق کو شریک بناناہے۔اصل مقصود یہی توحید (توحید ِ اُلوہیت) ہے۔ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اور تمام آسمانی کتابیں توحید اُلوہیت کی خاطرآئیں اور قرآن وسنت میں توحید ِربوبیت صرف توحید اُلوہیت سمجھانے کے وسیلے کے طور پر ذکر کی گئی ہے۔ مثلاً
{الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الأرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَائَ بِنَائً وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَائً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّکُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا ﷲِ اَنْدَادًا وَأنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} (البقرۃ:۲۲)
’’وہ ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو فرض اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی،تو باوجود یہ جاننے کے تم اللہ تعالیٰ کے شریک نہ بناؤ۔‘‘
الغرض کائنات کی تخلیق کامقصد توحید اُلوہیت ہے رسولِ اکرم1 کی ذات تخلیق کائنات کا مقصود نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مصادرِ توحید
یہ تین ہیں:
1۔ قرآنِ کریم2۔سنت ِمطہرہ3۔اجماعِ اُمت (اجماعِ سلف)
1۔نبی اکرمﷺنے اپنی زندگی میں وہ تمام عقائد و اعمال بیان کردیئے جن کی انسانوں کو ضرورت تھی اور جو عقائد واعمال آپؐ نے بیان نہیں کیے،ان کی ضرورت ہی نہ تھی۔اس کے کئی دلائل ہیں:
1۔رسول اکرمﷺ کی رسالت ہدایت اور نور پر مشتمل ہے اور نور وہدایت اللہ تعالیٰ کی معرفت سے حاصل ہوتی ہے اس لیے رسولِ کریم ﷺ نے اپنی امت کے لیے اللہ تعالیٰ کی توحید کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے اور عقائد کی خوب وضاحت فرمائی ہے تا کہ امت مسلمہ آسانی کے ساتھ عقیدہ تو حید کی روشنی سے منور ہو سکے اور کوئی چیز ہدایت ا ور نور تب ہی ہو سکتی ہے جب کہ اس میں کوئی چیز مخفی نہ ہو۔
2۔رسول اللہﷺ نے امت کے لیے چھوٹے سے لے کر بڑے مسائل سب بیان کیے ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت تھی۔یہاں تک کہ آپ نے بول وبراز جیسے مسائل بھی واضح کیے ہیں جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث ہے حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں:
’’قا ل بعض المشرکین وہو یستہزیٔ أنی لأری صاحبکم یعلمکم حتی الخراء ۃ قلت أجل أمرنا أن لا نستقبل القبلۃ ولا نستنجی بأیماننا ولا نکتفی بدون ثلاثۃ احجار لیس فیہا رجیع ولا عظم‘‘(مشکوۃ،ص۴۴)
’’ کسی مشرک نے استہزا اور مذاق کرتے ہوئے کہا کہ تمہارا نبی تو تمہیں ہر چیز سکھلاتا ہے یہاں تک کہ بول وبراز اور قضائِ حاجت کے مسائل بھی، تو حضرت مسلمان نے کہا ہاں واقعی ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم بول وبراز کے وقت قبلہ کی طرف متوجہ نہ ہوں اور انہوں نے ہمیں دائیں ہاتھ کے استنجاء کرنے سے منع کیا ہے اور ڈھیلوں کے ساتھ استنجا کرتے ہوئے تین ڈھیلوں سے کم استعمال کرنے سے بھی روکا ہے اور گوبر اور ہڈی کے ساتھ استنجاء کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘
تو رسول اللہﷺ نے جب کہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو ترک نہیں کیا تو عقیدہ توحید تو دینِ اسلام کی اَساس اور بنیاد ہے۔عقائد کی وضاحت کو آپ کیسے نظر انداز کر سکتے تھے۔
نبی اکرم ﷺ میں تین خصلتیں ایسی پائی جاتی ہیں جو ہر چیز کو واضح طور پر بیان کرنے کا تقاضا کرتی ہیں وہ خصلتیں یہ ہیں کہ آپﷺ:
1۔ساری مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا علم رکھنے والے تھے۔
2۔تمام مخلوق سے بڑھ کر فصیح وبلیغ تھے۔
3۔مخلوقات سے بڑھ کر اپنی امت کے خیر خواہ تھے۔
اسی لیے رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو ایک واضح دین کے راستے پر چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دنوں کی طرح جگمگاتی ہیں اور اس دین کے عقائد واعمال میں کوئی تاریکی اور اندھیرا نہیں پایا جاتا۔اس دین کو چھوڑ کر وہی شخص ہلاک ہوتا ہے جو بدقسمت ہو۔ایسے دین کے ہوتے ہوئے ہمیں اپنے عقائد واعمال میں فلاسفہ،متکلمین اور دیگر گمراہ فرقوں کے پیچھے چلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
توحید ِاسماء وصفات میں خرابی کرنیوالے فرقے
اسماء و صفات میں مشہورگمراہ فرقے پانچ ہیں:
1 قدریہ2۔رافضہ3۔جہمیہ4۔خوارج5۔کرامیہ
1۔ قدریہ
اس کا بانی ایک عیسائی ’سوسن‘ تھا۔ وہ معبد جہنی سے ملا اور اسے یہ عقیدہ دیا کہ کسی بھی چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ کو اس کا علم نہیں ہوتا اور تقدیر کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ بصرہ کا رہنے والا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ یحییٰ بن یعمرؓ کہتے ہیں:
’’معبد جہنی پہلا شخص ہے جس نے بصرہ میں تقدیر کا قول اختیار کیا میں اور حمید بن عبد الرحمن حمیری حج یا عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو ہم نے کہا وہاں اگر ہماری ملاقات کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان قدریہ کے بارہ میں سوال کریں گے۔اتفاق سے وہاں ہماری ملاقات حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے ہو گئی جب کہ وہ مسجد میں داخل ہو رہے تھے ۔ہم دونوں میں سے ایک ان کے دائیں اور دوسرا بائیں جانب ہو گیا۔میں سمجھا کہ میرا ساتھی مجھے ہی بولنے کا موقع دے گاتو میں نے کہا اے ابوعبد الرحمن! ہمارے ہاں بصرہ میں کچھ ایسے لوگ نمودار ہو رہے ہیں جو قرآن کریم پڑھتے ہیں اور علم کے طلب گار ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی تقدیر مقرر نہیں کی اور ہر چیز نوپید ہے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا:جب آپ ان لوگوں سے ملیں تو ان سے کہنا میں ایسے لوگوں سے بری ہوں اور ان کامجھ سے کوئی تعلق نہیں۔میں اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر کہتاہوں اگر ان قدریہ میں کسی کے پاس احد پہاڑ کی بقدر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کے راستے میں خرچ بھی کر دے تو تقدیر پر ایمان لائے بغیر اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں کرے گا۔اس کے بعد انہوں نے وہ مشہور حدیث بیان کی جو حضرت عمر فاروقؓ سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس ایک دن بیٹھے ہوئے تھے اچانک ایک آدمی آیا جس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال انتہائی سیاہ تھے۔اس پرکوئی سفرکے آثار بھی نہ تھے اور نہ ہم میں سے کوئی اسے جانتا تھا۔وہ نبی اکرمﷺ کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے لگا کر اور آپ کے رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور سوال کیااے محمدﷺ! مجھے ایمان کے بارہ میں بتائیں۔ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر اس کے فرشتوں،کتابوں،رسولوں،اور آخرت پر ایمان لانا ہے اور اچھی بری تقدیر پر بھی…‘‘(صحیح مسلم:۱؍۲۷)
حجاج بن یوسف کو جب پتہ چلا تو اُس نے معبد کو گرفتار کرکے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے اور سولی دے دی،لیکن اس کے بعد غیلان دمشقی نے یہ عقیدہ پھیلانا شروع کردیا۔ اس کو عبدالملک بن مروان نے گرفتار کرکے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کرسولی چڑھا دیا اور پھر آگ میں جلا دیا۔ لیکن اس کے بعد اس نظریہ کا عَلَم واصل بن عطا غزال نے اٹھایا، لیکن اس نے تھوڑی سی ترمیم کرلی کہ اللہ تعالیٰ اشیا کو ان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے جانتا ہے اور یہ بھی کہ خیر کاخالق تواللہ ہے، لیکن شر کا خالق اللہ تعالیٰ نہیں۔گویا قدریہ دو طرح کے ہوگئے:
1۔ قدریہ غلاۃ: یہ غیلان دمشقی کی ہلاکت سے ختم ہوگئے۔
2۔ قدریہ معتزلہ: واصل بن عطا سے اس فرقہ کی ابتدا ہوئی جو معتزلہ کا بانی ہے۔ اس کے نظریات کو عمرو بن عبید معتزلی نے بڑے زوروشور سے پھیلایا۔
قدریہ معتزلہ نے اپنے خود ساختہ تصورات کو متعارف کرانے کے لئے پانچ اُصول بنائے جن کے نام توبظاہر اہل سنت والے رکھے، لیکن ان کی تعبیر خود ساختہ کی۔ مزید برآں معتزلہ نے اپنا نام بھی ’اہل العدل والتوحید‘رکھا جیسا کہ آج کل لوگ اپنا نام اہل سنت والجماعت رکھ لیتے ہیں، لیکن ساتھ ہی شرک و بدعت میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔
قدریہ معتزلہ کے اُصولِ خمسہ فاسدہ جن پر انہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد رکھی اور ان کے ذریعہ سے اسلام کے ارکان کوگرانے کی کوشش کی:
1۔ توحید2۔عدل
3۔ منزلۃ بین المنزلتین 4۔ انفاذ الوعید
5۔ امربالمعروف ونہی عن المنکر
 
Top