- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
تفسیر بالرائے
تفسیر کی یہ دوسری قسم اجتہادی تفسیر کہلاتی ہے ۔یااسے تفسیر درایت یا تفسیرمعقول بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد قرآن کی تفسیر، احادیث اور اقوال صحابہؓ و تابعین ؒ کی بجائے زیادہ تر اپنے اجتہاد اور رائے کی بنا پر کرنا ہے۔ یہ رائے دو قسم کی ہوسکتی ہے۔
i) رائے محمود
اس سے مراد وہ تفسیر ہے جو قرآن وسنت سے مستمد ہو۔ یعنی جس میں مفسر ، اپنی رائے کا اظہار کرنے سے قبل تفسیر بالماثور کی طرف رجوع کرچکا ہو اس نے کوشش کی ہو کہ اولاً قرآن کی تفسیر قرآن میں ڈھونڈے ، وہاں نہ ملے تو اسے احادیث صحیحہ میں تلاش کرے۔ پھر بھی تفسیر نہ ملے تو یکے بعد دیگرے اقوال صحابہ ؓ اور اقوال تابعین کی طرف رجوع کرے۔ جہاں کوئی ایسا صحیح قول مل گیا جو اس آیت کی تفسیرمیں ہو،اسے لے لے۔ جب کہیں بھی اس آیت کی تفسیر نہ ملے تو پھرقرآن وسنت کے مطالب، مفاہیم اور مقاصد کی روشنی میں آیات کی تفسیرکرے اور اپنی عقل ورائے سے کام لے کر تفسیر کرڈالے۔ یہ تفسیرمحمود یعنی پسندیدہ کہلائے گی اس لئے کہ مقصد قرآن کو وہ پورا کررہی ہوتی ہے۔اسے تفسیر بالدرایہ بھی کہتے ہیں۔علماء ایسی تفسیر کو جائز سمجھتے ہیں جن کے یہ دلائل ہیں:
٭…اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{أفلا یتدبرون القرآن أم علی قلوب أقفالہا}
کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔
یہ غور وفکر اور تدبر بغیر اسلامی مفاہیم کے نہ ہو اور نہ ہی مقاصد شریعت سے ہٹا ہوا ہو۔ایسی صورت میں یہ محمود رائے ہوگی۔
٭…آپ ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں یہ دعا فرمائی تھی:
اللّہمّ فَقِّہْہُ فِی الدِّینِ وعَلِّمْہُ التَّأوِیلَ ۔
اللہ! انہیں دین کی سمجھ اور قرآن کا معنی سکھا دے۔یہ بھی محمود رائے کی طرف اشارہ ہے۔
٭…صحابہ رسول بھی تفسیر میں مختلف وجود میں اختلاف رکھتے تھے۔اس کی وجہ ان کا معنی ومفہوم سمجھنے میں اپنا اپنا اجتہاد تھا۔
ii) رائے مذموم
جو مفسر ، تفسیر کے لئے نہ قرآن سے رجوع کرے ، نہ حدیث سے اور نہ اقوال صحابہ ؓ اور تابعین ؒ سے،تو پھر اس کے ذہن میں کیا ہوسکتا ہے؟ یا تو وہ خود پسندی، خواہش نفس، بدعت وخرافات اور تعلی کا شکار ہے یا پھر جاہل وعدم صلاحیت کا مالک ہے۔ایسے افراد کا عقیدہ غلط اوربلاسند ہوتا ہے ۔ اپنا مخصوص ذہن لے کر ، مخصوص آیات کا انتخاب کرکے اپنی دل پسند تفسیر کرتے ہیں تاکہ ان کے مذموم مقاصد کو سند شرعی مل سکے۔ یہ تفسیر ، تفسیر مذموم اور حرام ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے:
فأمَّا تفسیرُ القرآنِ بِمُجَرّدِ الرَّأْیِ فَحَرَامّ۔
تفسیر قرآن محض رائے سے کرنا حرام ہے۔
شریعت کا کوئی صحیح عالم اسے پسند نہیں کرسکتا۔کیونکہ یہ اللہ تعالی پر ایسی بات کہنا ہے جو اس نے نہیں کہی۔اور جس کا اس مفسر کو علم ہی نہیں۔آپ ﷺ نے بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے: جو قرآن پاک میں بغیر علم کے کوئی بات کہتا ہے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ بنالے۔(سنن ترمذی) اور یہ حدیث بھی: جس نے قرآن میں اپنی طرف سے کوئی رائے دی وہ صحیح بھی ہو اس نے خطا کی۔(سنن ترمذی)۔تاج الدین شہرستانی (م: ۵۴۸ھ)نے کوشش کی کہ تفسیر قرآن میں فلسفہ اور حکمت کو بھی جمع کردیں ۔ چنانچہ جب وہ آیات کی تفسیر کو فلسفہ اور حکمت کے قوانین کے مطابق کرنے لگے تو ظہیر الدین بیہقی نے انہیں کہا:
ہَذَا عَدُوْلٌ عَنِ الصَّوَابِ، وَالْقُرْآنُ لاَ یُفَسِّرُ ِإلاَّ بِتَأوِیْلِ السَّلَفِ وَالتَّابِعِیْنَ، وَالْحِکْمَۃُ بِمَعْزِلٍ عَنْ تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ، خُصُوصاً مَا کُنْتَ تُؤَوِّلُہُ، وَلاَ تُجْمَعُ بَیْنَ الشَّرِیْعَۃِ وَالْحِکْمَۃِ أَحْسَنَ مِمَّا جَمَعَہُ الْغَزَالِیُّ، فَامْتَلأ غَضَباً۔یہ راستی سے ہٹا ہوا انداز ہے۔ قرآن کی تفسیر وہی ہونی چاہئے جو سلف اور تابعین میں رہی۔حکمت کا تفسیر قرآن سے کیا تعلق؟ بالخصوص جو آپ معنی لے رہے ہیں۔ آپ غزالی سے بہتر طریقہ نہیں اپنا سکتے جنہوں نے شریعت اور حکمت کو باحسن یکجا کردیا ہے۔شہرستانی یہ بات سن کر غصے سے بھڑک اٹھے۔
سیدنا عمرؒ بن عبد العزیز نے ایک شخص کو یہ جواب دیا جس نے خواہشات یاجو من کہے اس کا سوال کیا تھا:
عَلَیْکَ بِدِین الصَّبِی الذی فی الکُتّاب والأَعرابِ، والْہَ عما سِواہُما۔
تم بچے کا طریقہ ہی اپناؤ جس کا ہر لمحہ کتابت سیکھنے میں اور بدوؤں میں گذرتا ہے اور باقی تمام اشغال سے بے پروا ہوجاؤ۔ یعنی اسے ذہنی طور پر انہوں نے نابالغ کہا۔
امام مالکؒ فرماتے ہیں:
مَا قَلَّتِ الآثَارُ فِی قَوْمٍ إِلا ظَہَرَتْ فِیْہِمُ الأَہْوَائُ، وَلاَ قَلَّتِ الْعُلَمَائُ إِلا ظَہَرَ فِی النَّاسِ الْجَفَائُ۔
جب کبھی بھی آثار واحادیث کسی قوم میں کم ہوئیں وہاں اہواء خواہشات نفس ڈیرہ ڈال دیتے ہیں اور جب کہیں علماء کی کمی ہوئی وہاں لوگوں کے مزاج میں ظلم رچ بس جاتا ہے۔
قاضی ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَنْ طَلَبَ الدِّیْنَ بِالْکَلامِ تَزَنْدَقَ۔
جس نے دین کو علم کلام کے ذریعے سمجھنا چاہا وہ زندیق بنا۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَکْثَرُ النَّاسِ شَکًّا بِالْمَوتِ أَہْلُ الْکَلاَمِ۔
موت کے بارے میں شاکی افراد میں زیادہ تر یہی فلسفی اور کلامی لوگ ہی ہوتے ہیں۔
امام خطابی ؒنے علم الکلام کے بارے میں اپنا یہ خیال ظاہر فرمایا ہے:
حِجَجٌ تَہَافَتُ کَالزُّجَاجِ تَخَالُہَا حقاً، وکلٌ کاسرٌ مکسورٗ
بکھری حجتیں ہیں شیشے کی مانند جنہیں تم حق سمجھتے ہو مگر درحقیقت یہ سب ٹوٹی پھوٹی ہیں۔
تفسیر کی یہ دوسری قسم اجتہادی تفسیر کہلاتی ہے ۔یااسے تفسیر درایت یا تفسیرمعقول بھی کہتے ہیں۔ اس سے مراد قرآن کی تفسیر، احادیث اور اقوال صحابہؓ و تابعین ؒ کی بجائے زیادہ تر اپنے اجتہاد اور رائے کی بنا پر کرنا ہے۔ یہ رائے دو قسم کی ہوسکتی ہے۔
i) رائے محمود
اس سے مراد وہ تفسیر ہے جو قرآن وسنت سے مستمد ہو۔ یعنی جس میں مفسر ، اپنی رائے کا اظہار کرنے سے قبل تفسیر بالماثور کی طرف رجوع کرچکا ہو اس نے کوشش کی ہو کہ اولاً قرآن کی تفسیر قرآن میں ڈھونڈے ، وہاں نہ ملے تو اسے احادیث صحیحہ میں تلاش کرے۔ پھر بھی تفسیر نہ ملے تو یکے بعد دیگرے اقوال صحابہ ؓ اور اقوال تابعین کی طرف رجوع کرے۔ جہاں کوئی ایسا صحیح قول مل گیا جو اس آیت کی تفسیرمیں ہو،اسے لے لے۔ جب کہیں بھی اس آیت کی تفسیر نہ ملے تو پھرقرآن وسنت کے مطالب، مفاہیم اور مقاصد کی روشنی میں آیات کی تفسیرکرے اور اپنی عقل ورائے سے کام لے کر تفسیر کرڈالے۔ یہ تفسیرمحمود یعنی پسندیدہ کہلائے گی اس لئے کہ مقصد قرآن کو وہ پورا کررہی ہوتی ہے۔اسے تفسیر بالدرایہ بھی کہتے ہیں۔علماء ایسی تفسیر کو جائز سمجھتے ہیں جن کے یہ دلائل ہیں:
٭…اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{أفلا یتدبرون القرآن أم علی قلوب أقفالہا}
کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔
یہ غور وفکر اور تدبر بغیر اسلامی مفاہیم کے نہ ہو اور نہ ہی مقاصد شریعت سے ہٹا ہوا ہو۔ایسی صورت میں یہ محمود رائے ہوگی۔
٭…آپ ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں یہ دعا فرمائی تھی:
اللّہمّ فَقِّہْہُ فِی الدِّینِ وعَلِّمْہُ التَّأوِیلَ ۔
اللہ! انہیں دین کی سمجھ اور قرآن کا معنی سکھا دے۔یہ بھی محمود رائے کی طرف اشارہ ہے۔
٭…صحابہ رسول بھی تفسیر میں مختلف وجود میں اختلاف رکھتے تھے۔اس کی وجہ ان کا معنی ومفہوم سمجھنے میں اپنا اپنا اجتہاد تھا۔
ii) رائے مذموم
جو مفسر ، تفسیر کے لئے نہ قرآن سے رجوع کرے ، نہ حدیث سے اور نہ اقوال صحابہ ؓ اور تابعین ؒ سے،تو پھر اس کے ذہن میں کیا ہوسکتا ہے؟ یا تو وہ خود پسندی، خواہش نفس، بدعت وخرافات اور تعلی کا شکار ہے یا پھر جاہل وعدم صلاحیت کا مالک ہے۔ایسے افراد کا عقیدہ غلط اوربلاسند ہوتا ہے ۔ اپنا مخصوص ذہن لے کر ، مخصوص آیات کا انتخاب کرکے اپنی دل پسند تفسیر کرتے ہیں تاکہ ان کے مذموم مقاصد کو سند شرعی مل سکے۔ یہ تفسیر ، تفسیر مذموم اور حرام ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے:
فأمَّا تفسیرُ القرآنِ بِمُجَرّدِ الرَّأْیِ فَحَرَامّ۔
تفسیر قرآن محض رائے سے کرنا حرام ہے۔
شریعت کا کوئی صحیح عالم اسے پسند نہیں کرسکتا۔کیونکہ یہ اللہ تعالی پر ایسی بات کہنا ہے جو اس نے نہیں کہی۔اور جس کا اس مفسر کو علم ہی نہیں۔آپ ﷺ نے بڑے سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے: جو قرآن پاک میں بغیر علم کے کوئی بات کہتا ہے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ بنالے۔(سنن ترمذی) اور یہ حدیث بھی: جس نے قرآن میں اپنی طرف سے کوئی رائے دی وہ صحیح بھی ہو اس نے خطا کی۔(سنن ترمذی)۔تاج الدین شہرستانی (م: ۵۴۸ھ)نے کوشش کی کہ تفسیر قرآن میں فلسفہ اور حکمت کو بھی جمع کردیں ۔ چنانچہ جب وہ آیات کی تفسیر کو فلسفہ اور حکمت کے قوانین کے مطابق کرنے لگے تو ظہیر الدین بیہقی نے انہیں کہا:
ہَذَا عَدُوْلٌ عَنِ الصَّوَابِ، وَالْقُرْآنُ لاَ یُفَسِّرُ ِإلاَّ بِتَأوِیْلِ السَّلَفِ وَالتَّابِعِیْنَ، وَالْحِکْمَۃُ بِمَعْزِلٍ عَنْ تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ، خُصُوصاً مَا کُنْتَ تُؤَوِّلُہُ، وَلاَ تُجْمَعُ بَیْنَ الشَّرِیْعَۃِ وَالْحِکْمَۃِ أَحْسَنَ مِمَّا جَمَعَہُ الْغَزَالِیُّ، فَامْتَلأ غَضَباً۔یہ راستی سے ہٹا ہوا انداز ہے۔ قرآن کی تفسیر وہی ہونی چاہئے جو سلف اور تابعین میں رہی۔حکمت کا تفسیر قرآن سے کیا تعلق؟ بالخصوص جو آپ معنی لے رہے ہیں۔ آپ غزالی سے بہتر طریقہ نہیں اپنا سکتے جنہوں نے شریعت اور حکمت کو باحسن یکجا کردیا ہے۔شہرستانی یہ بات سن کر غصے سے بھڑک اٹھے۔
سیدنا عمرؒ بن عبد العزیز نے ایک شخص کو یہ جواب دیا جس نے خواہشات یاجو من کہے اس کا سوال کیا تھا:
عَلَیْکَ بِدِین الصَّبِی الذی فی الکُتّاب والأَعرابِ، والْہَ عما سِواہُما۔
تم بچے کا طریقہ ہی اپناؤ جس کا ہر لمحہ کتابت سیکھنے میں اور بدوؤں میں گذرتا ہے اور باقی تمام اشغال سے بے پروا ہوجاؤ۔ یعنی اسے ذہنی طور پر انہوں نے نابالغ کہا۔
امام مالکؒ فرماتے ہیں:
مَا قَلَّتِ الآثَارُ فِی قَوْمٍ إِلا ظَہَرَتْ فِیْہِمُ الأَہْوَائُ، وَلاَ قَلَّتِ الْعُلَمَائُ إِلا ظَہَرَ فِی النَّاسِ الْجَفَائُ۔
جب کبھی بھی آثار واحادیث کسی قوم میں کم ہوئیں وہاں اہواء خواہشات نفس ڈیرہ ڈال دیتے ہیں اور جب کہیں علماء کی کمی ہوئی وہاں لوگوں کے مزاج میں ظلم رچ بس جاتا ہے۔
قاضی ابویوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَنْ طَلَبَ الدِّیْنَ بِالْکَلامِ تَزَنْدَقَ۔
جس نے دین کو علم کلام کے ذریعے سمجھنا چاہا وہ زندیق بنا۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَکْثَرُ النَّاسِ شَکًّا بِالْمَوتِ أَہْلُ الْکَلاَمِ۔
موت کے بارے میں شاکی افراد میں زیادہ تر یہی فلسفی اور کلامی لوگ ہی ہوتے ہیں۔
امام خطابی ؒنے علم الکلام کے بارے میں اپنا یہ خیال ظاہر فرمایا ہے:
حِجَجٌ تَہَافَتُ کَالزُّجَاجِ تَخَالُہَا حقاً، وکلٌ کاسرٌ مکسورٗ
بکھری حجتیں ہیں شیشے کی مانند جنہیں تم حق سمجھتے ہو مگر درحقیقت یہ سب ٹوٹی پھوٹی ہیں۔