- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
ابتداءََ چندمفسرین کے ہاں ایسی اسرائیلیات ،ان کی تفاسیر میں در آئیں۔بعض اہل کتاب حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ انہوں نے قرآن مجید کو پڑھا اور سمجھا تو پچھلی قوموں کے واقعات قرآن میں پائے جو ان کی سابقہ مذہبی کتب میں موجود تھے۔ مگر جیسا کہ قرآن بھی شاہد ہے کہ اہل کتاب نے ان واقعات میں بہت سے سابقے اور لاحقے شامل کردیے تھے۔ چنانچہ یہ نو مسلم ان شنیدہ واقعات کی تفاصیل اہل اسلام کے سامنے بیان کرتے جو بعد میں کتب تفاسیر میں آ تے گئے۔
تجزیہ: کیا یہ واقعات درست مانے جائیں۔ یا اسرائیلیات سمجھ کر رد کر دیے جائیں؟ ان تینوں اقسام کو ہم سامنے رکھ کر کہہ سکتے ہیں۔ روایات کی پہلی قسم تو قابل قبول ہے۔ دوسری قطعا ً قبول نہیں کی جا سکتی۔ جبکہ تیسری کو اگر قبول بھی کر لیا جائے تو بھی اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ ہماری شریعت اب مکمل ہے اسے ان سہاروں کی ضرورت نہیں۔نیز یہ روایات شرعی اعتبار سے حجت نہ ہونگی۔ ہاں ہماری شریعت ان کی تائید کر دے گی نہ کہ وہ ہماری شریعت کی۔
باقی دینی معاملات میں اہل کتاب سے سو ال کرنا علماء امت کے نزدیک حرام ہے۔۔ مسند احمد(۳/۳۳۸، ۳۸۷) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب سے کچھ بھی سوال نہ کیا کرو اس لئے کہ وہ تمہیں صحیح راہ دکھا ہی نہیں سکتے جبکہ وہ خود گم راہ ہوچکے ہیں۔ یا تم باطل کی تصدیق کروگے یا حق کی تکذیب۔ سنو! اگر موسیٰ علیہ السلام بھی آج تمہارے درمیان زندہ ہوتے تو ان کے لئے بھی یہی جائز تھا کہ وہ میری ہی پیروی کریں۔
صحیح بخاری (۲۶۸۵،۶۹۲۹) میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے جماعت مسلم! تم اہل کتاب سے کیسے کچھ پوچھ سکتے ہو جبکہ تمہاری وہ کتاب جسے اللہ تعالی نے تمہارے نبی پر اتارا ہے جو صرف تازہ دم اخبار الہیہ کو تمہیں پیش کررہی ہے اورجو ابھی پرانی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالی نے تمہیں بتادیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کو بدل دیا تھا اسے اپنے ہاتھ سے انہوں نے لکھا۔ پھر کہا: کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ وہ اس سے کچھ دنیاوی فائدہ اٹھائیں۔ کیا اس نے تمہیں روکا نہیں کہ ان سے سوال کرنے سے تمہارے پاس علم حقیقی نہیں آئے گا۔ توکیوں؟ بخدا ہم نے تو یہ نہیں دیکھا کہ ان کا کوئی فرد تم سے جو تمہاری طرف اتارا گیاہے اس کے بارے میں پوچھتا ہو؟
تجزیہ: کیا یہ واقعات درست مانے جائیں۔ یا اسرائیلیات سمجھ کر رد کر دیے جائیں؟ ان تینوں اقسام کو ہم سامنے رکھ کر کہہ سکتے ہیں۔ روایات کی پہلی قسم تو قابل قبول ہے۔ دوسری قطعا ً قبول نہیں کی جا سکتی۔ جبکہ تیسری کو اگر قبول بھی کر لیا جائے تو بھی اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ ہماری شریعت اب مکمل ہے اسے ان سہاروں کی ضرورت نہیں۔نیز یہ روایات شرعی اعتبار سے حجت نہ ہونگی۔ ہاں ہماری شریعت ان کی تائید کر دے گی نہ کہ وہ ہماری شریعت کی۔
باقی دینی معاملات میں اہل کتاب سے سو ال کرنا علماء امت کے نزدیک حرام ہے۔۔ مسند احمد(۳/۳۳۸، ۳۸۷) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب سے کچھ بھی سوال نہ کیا کرو اس لئے کہ وہ تمہیں صحیح راہ دکھا ہی نہیں سکتے جبکہ وہ خود گم راہ ہوچکے ہیں۔ یا تم باطل کی تصدیق کروگے یا حق کی تکذیب۔ سنو! اگر موسیٰ علیہ السلام بھی آج تمہارے درمیان زندہ ہوتے تو ان کے لئے بھی یہی جائز تھا کہ وہ میری ہی پیروی کریں۔
صحیح بخاری (۲۶۸۵،۶۹۲۹) میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے جماعت مسلم! تم اہل کتاب سے کیسے کچھ پوچھ سکتے ہو جبکہ تمہاری وہ کتاب جسے اللہ تعالی نے تمہارے نبی پر اتارا ہے جو صرف تازہ دم اخبار الہیہ کو تمہیں پیش کررہی ہے اورجو ابھی پرانی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالی نے تمہیں بتادیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کو بدل دیا تھا اسے اپنے ہاتھ سے انہوں نے لکھا۔ پھر کہا: کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ وہ اس سے کچھ دنیاوی فائدہ اٹھائیں۔ کیا اس نے تمہیں روکا نہیں کہ ان سے سوال کرنے سے تمہارے پاس علم حقیقی نہیں آئے گا۔ توکیوں؟ بخدا ہم نے تو یہ نہیں دیکھا کہ ان کا کوئی فرد تم سے جو تمہاری طرف اتارا گیاہے اس کے بارے میں پوچھتا ہو؟
Last edited: