• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم جرح وتعدیل کی ضرورت ،احادیث سے زیادہ تاریخ کو ہے(علامہ معلمی)

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
" کسی بھی خبر جس میں سے شرعی حکم استنباط کیا جاسکے تو اس میں محدثین کے منھج کا استعمال کیا جایے گا۔اور جس خبر سے شرعی حکم استنباط نہیں کیا جاسکتا اس میں نرمی کی جاسکتی ہے بشرطیکہ شرعی مخالفت نہ ہو۔"
تنبیہ:کسی بھی تاریخی خبر جس میں صحابہ یا علماء سلف کی توہین کی ذرا سی بھی جھلک دکھائی دے اس پے محدثین کی -درایتی و روایتی- منھج لاگو کیے جائیں گیں۔
(سیف اللہ ثناء اللہ)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میں تو اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جہاں سند ہے وہاں پرکھ کا ایک ہی معیار ہے کیونکہ سند ہونے کا ایک ہی مطلب ہے ۔جو احباب فرق کر رہے ہیں انہیں اپنے دعوی پر دلیل دینی چاہیے جو ابھی تک نہیں دی گئی۔
اور دوم بات جس ہستی کے احکامات کی جانچ پڑتال کا اتنا سخت معیار ہے اس ہستی کے بارے میں روایات کی تنقیح میں اتنا تساھل کہ ابھی تک کوئی اصول و ضابطہ ہی نہیں تشکیل دیا جاسکا۔
سوم علمائے امت کا طرز عمل دیکھا جائے کہ وہ لوگ تاریخ و سیرت کے مواد کو کس طرح پرکھتے رہے
کیا انہوں نے علوم حدیث سے استناد نہیں کیا؟
(ڈاکٹر فیض الابرار شاہ)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہ درست ہے کہ خبر کا فلسفہ بنیادی طور پر ایک ہے۔۔۔ اس اعتبار سے حدیث سیرت یا تاریخ سبھی ایک زمرے میں ہیں۔ لیکن جب استدلال و استناد کی بات آتی ہے تو جب کسی چیز سے بہ طور شریعت استدلال کرنا ہو تو اس کے لیے معیار علاحدہ ہے البتہ عام تاریخی وقائع کے لیے معیار الگ ہے۔۔۔ اسی بنا پر عام تاریخی واقعات کے لیے ایسے لوگوں کی روایتیں بھی قابل قبول ہیں جو روایت حدیث میں معتبر نہیں ہیں جیسے واقدی وغیرہ ۔
جہاں اسناد موجود ہیں اور ان کی صحت بھی ثابت ہے تو اس سے اطمينان مزید حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے بالمقابل عام بے سند تاریخی روایت کو لینے کی ضرورت نہیں رہتی ۔۔۔۔ البتہ اگر کسی تاریخی واقعے کی اسناد حدیث والے معیار کی نہیں ہیں تو اسے اس بنا پر رد کر دینا درست نہیں ہے۔۔۔ اسی لیے مثلاً غیر مسلموں کے یہاں اسناد کا سرے سے اہتمام ہی نہیں اور مسلمانوں میں بھی عربوں کو چھوڑ کر اسناد کا اہتمام نہیں ہے۔۔۔ مثلاً برصغیر کی تاریخ کی کتابیں دیکھ لیجیے کوئی سند ہی نہیں ہے۔۔۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ہر تاریخ میں درج ہر چیز کو قبول کر لیا جائے؟ تو اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ اس کے لیے عقلی استحالہ اور تضاد روایات کی نفی ضروری ہے۔۔۔ اگر عقلا کسی واقعے کا وقوع محال نہیں اور نہ اس کے متضاد روایت یا دعوی موجود ہے تو اسے قبول کیا جاتا ہے۔۔۔
یہ مجموعی موقف عرض کر دیا ہے۔۔۔ باقی جزئیات اور تفصیلات ہیں۔
اس سلسلے میں اس حقیقت پر غور کرنا چاہیے کہ جہاں حلال و حرام کا فیصلہ یا کسی قانونی مسئلے کا حل مطلوب نہیں ہے وہاں سند حدیث مرفوع کی ضرورت کیا ہے؟ مثلاً رسول اکرم ﷺ کے جانوروں کے نام کیا تھے؟ آپ علیہ السلام کے پاس کتنی تلواريں تھیں؟ ان کے نام کیا تھے؟ وغیرہ یہ شرعی مسایل نہیں ہیں لہذا ان میں اسی درجے کی سند کا مطالبہ اور عدم موجودگی کی صورت میں ان کا انکار کر دینا درست نہیں ہے۔
(طاہر اسلام عسکری)
محل نظر!!
تاریخی کتب میں اصحیت کی درجہ بندی کا معیار کیا ہے؟
روایت یا درایت
جیسے کہ تاریخ خلیفہ بن خیاط کو صحیح ترین کتابِ تاریخ اور سیرتِ موسی بن عقبہ کو صحیح ترین کتابِ سیرت قرار دیا گیا
اس درجہ بندی کا معیار کیا تھا؟
یقیناً روایت،
اگر درایت معیار ہو تو یہ درجہ بندی بے معنی ہے
نیز درایتی اصول مقرر نہیں کیے جا سکتے کیونکہ یہ عملِ قلبی ہے
جس کے جی کو جو چیز بھائے وہی اس کی درایت ہے
جو ہر شخص کی الگ ہے
ابن خلدون کی درایت الگ ہے، شبلی کی الگ، مودودی کی اس سے الگ۔ (حافظ قمر حسن)
عقلی استحالہ کوئی دلیل نہیں۔
ڈاکٹر زبیر صاحب و ہم نواؤں کو غلطی لگنے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دیکھا بعض راویوں سے محدثین روایات حدیث قبول نہیں کرتے جب کہ روایات سیرت قبول کر لیتے ہیں مثلاً واقدی وغیرہ...
تو اس حوالے سے عرض ہے کہ یہ استثنائی مثالیں ہیں نہ کہ محدثین کا عمومی منھج۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات بھی اصول حدیث کا ہی حصہ ہے کہ کوئی راوی کسی خاص باب میں حجت ہو سکتا ہے۔
(احسان الہی ظہیر)
ميرے خيال ميں
دكتور زبير صاحب وفقه الله اور عسكرى صاحب اور غالباً آپکا يعنى دكتور حمزه ... وموافقين كا نقطہ نظر يہ معلوم ہوا ہے کہ
تاريخ وسيرت وغيره كے قبول وتحقيق ونقد كے قواعد حديث سے مختلف ہیں
یا تاريخى روايات كو پرکھنے کا منهج وقاعده معيار حديثى روايات سے مختلف ہے
جبکہ محترم خضر حيات وإحسان إلهي وأبو أنس طيبى وموافقين راقم سميت كا موقف ہے کہ اس اختلاف كى دليل اور قواعد كے اختلاف پر ائمه ومتقدم اهل علم كے اقوال واستشهادات پیش کیے جائیں... (جو کہ تاحال نہیں کئے گئے)
اور یہ بات بجز چند جزوى جزئيات كے قرينِ صواب معلوم نہیں ہوتی
والله أعلم
(انس الجندوی)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اصول سیرت نگاری پرایک اردو کتاب ارسال کرتاہوں، جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ اس موضوع پر کیا جانے والا کام کس نوعیت کا ہے۔
’اصول سیرت نگار، تعارف، مآخذ و مصادر‘
اس کتاب میں کوئی ’اصول سیرت‘ تلاش کرکے دیکھ لیں.
اتنی لمبی چوڑی کتاب ہے... تحقیق روایات سیرت کے متعلق کچھ بھی نہیں.
اصول سے مراد مصادر لیا گیا ہے... اور اس طرح دو تین درجن کے مطابق اصول بناکر پیش کردیے گئے ہیں.
میں نےاس کتاب کو کافی عرصہ پہلے پڑھا تھا... اور عنوان سے دھوکا کھا کر ہی... ( ابتسامہ)
سیرت کی روایت کی تحقیق کا انوکھا معیار، اس کو باقاعدہ پیش کرنے والے مولانا شبلی نعمانی ہیں... جنہوں نے سیرت کے مقدمہ میں ’ درایت سیرت‘ کے حوالے سے کئی ایک اصول بیان کیے ہیں۔
میرے خیال میں سیرت کا درایتی معیار متعارف کروانے کے پیچھے بھی وہی ذہن ہے، جو احادیث کے درایتی معیار کو وضع کرنے میں ہے۔
اور یہ سب کام اس دور میں ہوئے ہیں، جب مستشرقین کے جواب میں ہمارے کئی علماء و مفکرین پریشان رہا کرتے تھے۔
حدیث و تاریخ دونوں کے متعلق واضح تصور نہ ہونا بھی بھی اس غلط فہمی کا ذریعہ بنتا ہے کہ تاریخ کے کوئی مستقل الگ اصول ہیں۔
ذہن میں آتا ہے کہ شاید ہم کوئی کتاب کھولیں گے ، تو اس میں دھڑا دھڑا اصول تاریخ کا بیان ہوگا.
مجھے یہ تجربات تھوڑے بہت اس لیے ہیں، کیونکہ میں اس موضوع پر کچا پکا لکھ اور پڑھ چکا ہوں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میرے مطابق میری آڈیو میں درج ذیل مخصوص صورتوں میں سے ھر ایک کا الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شاہ فیض الابرار حفظہ اللہ ہوں یا دیگر برادران وہ بھی انہی صورتوں میں سے الگ الگ ھر صورت کو لیکر اپنی واضح رائے لکھ دیں تاکہ معلوم ھو کہ اختلاف اور اتفاق کے نکات کیا کیا ہیں۔ تاکہ مفید مباحثہ کے ذریعے ہم نتائج بحث کو حاصل کرنے کی طرف پیش رفت کریں:
1. جن امور کی اسناد موجود ہوں، رجال کی معلومات موجود ہوں ان کے بارے میں اصول کیا ہے؟
2. جن امور کی اسناد موجود نہ ہوں، چنانچہ رجال سے متعلقہ تمام معلومات موجود نہ ہوں، جیسے تمام دنیاوی علوم کا معاملہ ہے یا اسی طرح عصر موجود میں الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا وغیرہ کے معروف ذرائع سے حاصل شدہ معلومات پر اعتماد کے حوالے سے محدثین کرام کا اصول کیا ہے؟
3. شخصیات بالخصوص اسلامی تاریخ میں موجود افراد کی جرح و تعدیل کا میزان اصول روایہ میں کیا ہے؟
4. اب جن امور کی سند موجود ہے ان میں مختلف صورتوں کے بارے میں منھج محدثین کے مطابق کیا علمی رائے ہوگی:
ا: کیا قرآن کریم کے ثبوت کا معیار بھی علم الحدیث والا ہی ہوگا؟ یا ثبوتِ حدیث سے سخت ہے؟
ب: عقائد واحکام ومسائل شریعت کے علاؤہ امور مثلا قصصِ قرآنی کے پس منظر سے متعلقہ اسرائیلی روایات یا اسی طرح زمانہ نزول قرآن سے متعلقہ واقعاتی شان نزول والی روایات، قرآنی سورتوں میں مکی و مدنی وغیرہ ادوار کا تعین وغیرہ امور میں محدثین کرام کے ہاں معیارِ ثبوت کیا ہے؟
3. عام تاریخی امور جو سند کے ساتھ مروی ہیں کیا ان کی قبولیت کیلیے محدثین کرام حدیث وسنت کی طرح معیار کڑا رکھتے ہیں؟
(ڈاکٹر حمزہ مدنی صاحب)
اصول حدیث کے معیارات سے کڑا معیار رکھا جا سکتا ہے کیونکہ مقصود تثبت ہے، چنانچہ قرآن کریم کے ثبوت کے حوالے سے جو تواتر اور رسم عثمانی سے موافقت کی شرائط ہیں وہ بالکل درست ہیں... اور ان سے محدثین کو بھی اختلاف نہیں رہا۔ ( احسان الہی ظہیر)
بارک اللہ فیک

آپ کی بات اصولی ہے اور اس سے اختلاف نہیں کہ فن حدیث تحقیق اخبار وروایات کے سلسلہ میں سب سے معیاری اور عقلی اعتبار سے سب سے زیادہ معقول ومنطقی ہے، اسی لیے تمام قسم کی روایات کو پرکھنے کے سلسلہ میں اسے بالا حیثیت حاصل ہونی چاہیے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اوپر میں نے جو متعدد صورتیں اخبار وروایات کے حوالہ سے پیش کی ہیں، ھر صورت کے بارے میں فن حدیث کی الگ الگ اصولی تفصیلات کو یہاں درج کرنا چاہیے۔ اس مخصوص دائرہ کار میں احباب گرامی اپنی معلومات شئیر فرمائیں۔(ڈاکٹر حمزہ مدنی)
مختلف صورتوں میں سے ایک صورت جو مزید وضاحت کی متقاضی ہے کہ دنیاوی طور پر ہمارے ہاں جو حسب ونسب کا تعین ہے اور مختلف قبائل، اقوام اور ذاتوں سے لوگ خود کو منسوب کرتے ہیں، بالخصوص ہر انسان اپنے ماں اور باپ کا تعین محض والدین اور دادا دادی نانا نانی وغیرہ کے بتانے پر کرلیتا ہے، جبکہ بے شمار افراد بے نمازی اور اپنے حال کے اعتبار سے فاسق وفاجر درجہ کے ہوتے ہیں تو کیا حسب ونسب کے سلسلہ میں اس طرح کے بیانات سے اولاد کی والدین کی نسبت یا لوگوں کی مختلف اقوام اور قبائل وذاتوں کی طرف نسبت ثابت قرار پائے گی یا ایسے سب لوگ مجہول النسب شمار کیے جائیں گے جن کے بزرگ معیار محدثین پر ثقہ کا مقام نہیں رکھتے؟(ڈاکٹر حمزہ مدنی)
1. اس کے متعلق موقف بیان کر چکا ہوں
2. دنیاوی علوم میں اصل نظریات ہوتے ہیں نہ کہ اخبار، چنانچہ وہ خارج از بحث ہیں، محض میڈیا کی خبروں پر اقوال و اعمال کی بنیاد رکھنا درست نہیں
3. جرح و تعدیل کے اصول معلوم و معروف اور کتابوں میں موجود ہیں
4. ا. بیان ہو چکا
ب. اسرائیلی روایات کے متعلق قاعدہ معلوم و معروف ہے.
ت. روایت کوئی بھی ہو اسے اصول روایت کی روشنی میں پرکھا جائے گا... تعامل کا باب الگ ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ وہ امور جن کا خالص دنیاوی ہونا بدیہی ہے انہیں حدیثی معیار کے مطابق پرکھنے کی ضرورت نہیں۔
اسی طرح جن امور کا بے فائدہ ہونا بدیہی ہے ان کی تحقیق پر بھی وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔
(احسان الہی ظہیر)
بعض احباب کو شاید اس بات سے بھی مغالطہ لگا ھے کہ مورخین نے اتنی زیادہ اخبار کی اسانید بیان کیوں نہیں کی ؟ آخر اس کی وجہ کیا ھے ؟ اور وہ اس سے یہ ثابت کرنا چاھتے ہیں کہ اس کی وجہ ھے کہ کیونکہ انھوں نے اسانید کو ضروری نہیں سمجھا یا انکا ھونا کوئی زیادہ ضروری نہیں تھا اس وجہ سے ذکر نہیں کی گئیں!

گزارش ھے
1۔ مطلقا یہ بات قطعا درست نہیں قرار دی جاسکتی۔
2۔ اس تعلق سے کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے کتب تاریخ وغیرہ کے استقراء تام کی ضرورت ھے۔
3۔ ھمیں جو سمجھ آتا ھے وہ یہ ھے کہ مورخین کے اخبار کی اصل بنیاد اسانید ھی ہیں ۔۔۔( مثلا قدیم کتب تاریخ جسکے دلائل اور امثلہ پہلے بیان کرچکا ھوں) نیز بلا اسانید روایات تبعا ذکر ھوتی ہیں اصلا نہیں تاکہ علم کو جمع کرلیا جائے تنقیح کا مرحلہ بعد میں آتا ھے ۔۔۔بعینہ اسی طرح جسطرح محدثین نے موضوع روایات اور وضاعین کی روایات بھی اپنی کتب میں ذکر کردیں ۔۔اس لئے نہیں کہ ان پر اعتماد کیا جائے بلکہ اس لئے کہ سند دیکھ کر اس کا حکم متعین کرلیا جائے ۔
چنانچہ مورخین واقعہ کے بارے جو روایات بااسانید مروی ھوں انھیں باسند ذکر کرتے ہیں اور جو بلا اسانید ھوں اسے بلا اسانید ذکر کر دیتے ہیں اور اس عمل میں وہ منفرد نہیں بلکہ یہ طرز عمل محدثین اور کتب احادیث میں بھی ملتا ھے ۔۔۔!! پھر فرق تلاش کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ھو رھی ھے؟؟
(شاہداقبال)
 
Top