• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم جرح وتعدیل کی ضرورت ،احادیث سے زیادہ تاریخ کو ہے(علامہ معلمی)

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امیرالمؤمنین فی الجرح والتعدیل ، فقیہ اسماء الرجال ، علامہ معلمی رحمہ اللہ(المتوفی1386) فرماتے ہیں:
أن حاجة التاريخ إلى معرفة أحوال ناقلي الوقائع التاريخية ، أشد من حاجة الحديث إلى ذلك ؛ فإن الكذب والتساهل في التاريخ أكثر
تاریخ کو حدیث سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ تاریخی واقعات نقل کرنے والے راویوں کی معرفت حاصل کی جائے کیونکہ جھوٹ اورتساہل کا وجود تاریخ میں بہت زیادہ ہے۔[علم الرجال وأهميته للمعلمی ص: 257]
 
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
95
پوائنٹ
64
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میری رائے یہاں تھوڑی سی مختلف ہے۔ عام طور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس اسلوب میں ہم احادیث رسولؐ کی چھان بین کرتے ہیں اسی انداز میں ہمیں تاریخ کی بھی کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسکی ضرورت نہیں کیونکہ احادیث کے مقاصد فرق ہیں جبکہ تاریخ کے بالکل فرق۔ احادیث سے تو دین کا ثبوت ہوتا ہے جبکہ تاریخ شریعت کے اصولوں میں شامل نہیں۔ تاریخ کے مقاصد فرق ہیں اور وہ گزرے ہوئے حالات اور معاملات کی فہمی اور اس سے عبرت ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق اسلامی تاریخ کی حیثیت وہی ہے جوکہ تفسیر میں اسرائیلیات کی ہے۔ یعنی کسی واقعہ کو تفصیلا سمجھنے کے لیے تاریخ کی مدد لی جاسکتی ہے ورنہ شرعی استدلال اسرائیلیات سے درست نہیں الا یہ کہ وہ بذات خود شریعت سے ثابت ہو۔ اسی طرح تاریخ سے ایک عمومی بات کو تو قبول کیا جاسکتا ہے لیکن تفاصیل کو نہیں کیونکہ تفاصیل میں ہر مؤرخ اپنے بیان میں منفرد ہوتا ہے۔

دوسرا یہ کہ تاریخ کی انتہاء نہیں جبکہ شریعت مکمل ہوچکی ہے۔ تاریخ تو آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلتی آرہی ہے جبکہ جس شریعت کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اسکی ابتدا اللہ کے رسول کی نبوت سے ہوئ اور آپؐ کی وفات کے ساتھ تکمیل بھی۔ اس لیے تمام تاریخ کو احادیث کے معیار پر پرکھنا نہ صرف وقت کا ضیاء ہے بلکہ ناممکن بھی۔ اسی لیے ہمیں احادیث کی اسناد کی چھان بین کرنے والے تو بہت ملیں گے لیکن تاریخ کے کم۔

تیسرا یہ ہے کہ اہل علم نے بھی تاریخ کو اس طرح اہمیت نہیں دی اسی لیے ہمیں نامور مؤرخین میں ایسے بھی مل جائیں گے جوکہ جرح و تعدیل کے معیار پر تو کمزور ہیں لیکن تاریخ میں انکا اپنا مقام ہے۔ اگر تاریخ کو انہیں معیارات پر پرکھنا شروع کردیا جائے جس پر احادیث کو کیا جاتا ہے تو تاریخ کا اکثر حصہ فارغ ہوجائے گا۔

اگر معترض یہ سوال کرے کہ صحابہ کی طرف بعض لوگ غلط باتیں منسوب کرتے ہیں تو کیا اب ہم اسکو قبول کرلیں؟ تو میں یہ کہوں گا کہ ہر وہ چیز جسکا تعلق دین سے ہو وہ بغیر سند کے قبول نہیں کی جائے گی لیکن جسکا تعلق دین سے نہیں اسکو اس طرح پرکھنے کی ضرورت نہیں۔
امیرالمؤمنین فی الجرح والتعدیل ، فقیہ اسماء الرجال ، علامہ معلمی رحمہ اللہ(المتوفی1386) فرماتے ہیں:
أن حاجة التاريخ إلى معرفة أحوال ناقلي الوقائع التاريخية ، أشد من حاجة الحديث إلى ذلك ؛ فإن الكذب والتساهل في التاريخ أكثر
تاریخ کو حدیث سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ تاریخی واقعات نقل کرنے والے راویوں کی معرفت حاصل کی جائے کیونکہ جھوٹ اورتساہل کا وجود تاریخ میں بہت زیادہ ہے۔[علم الرجال وأهميته للمعلمی ص: 257]
واللہ تعالی اعلم
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس اسلوب میں ہم احادیث رسولؐ کی چھان بین کرتے ہیں اسی انداز میں ہمیں تاریخ کی بھی کرنی چاہیے۔
میرے خیال سے ایسا کوئی نہیں سمجھتا بلکہ علامہ معلمی رحمہ اللہ اور ان جیسے اہل علم کے اقوال ہی کو سمجھنے میں چوک ہورہی ۔
دراصل علامہ معلمی رحمہ اللہ یا کوئی بھی جب کہتے ہیں کہ ہیں کہ تاریخی روایات کو بھی پرکھنے کی ضرورت ہے تو اس سے مراد تاریخی روایات کا وہ حصہ ہوتا ہے جس میں کسی مسلمان پر الزامات کی بات ہوتی ہے ۔یا صحابہ وتابعین کے عمومی طرزعمل کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے۔
رہے ایسے واقعات جن کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں اورنہ ہی جن سے صحابہ وتابعین پر حرف آتاہے ۔اور نہ ہی کسی مسلمان پر سنگین الزام لگتا ہے۔ تو ایسی روایات کا معاملہ بے شک اسرائیلی روایات جیساہے۔اورتاریخی روایات میں جب تساہل کی گنجائش دی جاتی ہے تو اس سے مراد اسی قسم کی تاریخی روایات ہوتی ہیں۔







 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
قال الشیخ المؤرخ المدقق الدكتور أكرم ضياء العمري في كتابه "دراسات تاريخية":
مؤرخ و مدقق شیخ ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری اپنی کتاب ’’ دراسات تاریخیہ ‘‘ میں رقمطراز ہیں :
اشتراط الصحة الحديثية في قبول الأخبار التاريخية التي لا تمس العقيدة والشريعة فيه تعسف كبير، والخطر الناجم عنه ليس بيسير ، لأن الروايات التاريخية التي دوَّنها أسلافنا المؤرخون لم تُعامل معاملة الأحاديث ، بل تم التساهل فيها ، وإذا رفضنا منهجهم فإن الحلقات الفارغة في تاريخنا ستمثِّل هوّة سحيقة بيننا وبين ماضينا، مما يولد الحيرة والضياع والتمزق والانقطاع، ويبقى منهج المحدثين في نقد أسانيد الروايات التاريخية ، وسيلتنا إلى الترجيح بين الروايات المتعارضة ، كما أنه خير معين في قبول أو رفض بعض المتون المضطربة أو الشاذة عن الإطار العام لتاريخ أمتنا.
ایسی تاریخی روایات جن کا عقیدہ و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ان میں صحت حدیث کے اصول لاگو کرنا بہت بڑا تکلف تو ہے ہی ، یہ منہج نتائج کے اعتبار سے بھی کم خطرناک نہیں ، کیونکہ تاریخی روایات کی جب تدوین ہوئی ہے تو اس میں احادیث کے اصول لاگو کرنے کی بجائے ، تساہل برتا گیا ہے ، یوں اگر ہم نے اسلاف کے اس گنجائش والے مذہب کو ٹھکرایا تو تاریخی تسلسل برقرار نہیں رہ سکے گا ، اور ماضی و حال میں خلا باقی رہ جائے گا ، جو کہ حیرت و پریشانی کا باعث بنے گا ۔ البتہ جہاں تاریخی روایات متعارض ہوں ، وہاں منہج محدثین کی ضرورت باقی رہے گی ، اسی طرح بعض مضطرب اور شاذ روایات کی نقد و تحقیق کے لیے بھی یہ منہج بہترین وسیلہ ہے ۔
فالحافظ ابن حجر مثلاً عند الجمع والترجيح بين الروايات في كتابه الفتح، يرفض رواية محمد بن إسحاق إذا عنعن ولم يصرح بالتحديث ، ويرفض رواية الواقدي ، لأنه متروك عند علماء الجرح والتعديل فضلاً عن غيرهما من الإخباريين الذين ليس لهم رواية في كتب السنة من أمثال عوانة و المدائني ، ومع ذلك فإنه قد يستشهد برواياتهم، ويستدل بها على بعض التفصيلات ، ويحاول الجمع بينها وبين الروايات الأخرى التي هي أوثق إسناداً، وذلك من أجل بناء الصورة التاريخية الصحيحة.
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری کے اندر کچھ روایات کے درمیان جمع و ترجیح کے وقت محمد اسحاق کا عنعنہ عدم تصریح بالسماع کی کی صورت میں رد کردیتے ہیں ، یہی رویہ ان کا واقدی کی روایات کے ساتھ ہے ، کیونکہ وہ علماء جرح و تعدیل کے ہاں متروک ہے ، رہے ان دونوں کے علاوہ دیگر مؤرخین جن کی کتب ستہ میں روایات سرے سے ہے ہی نہیں جیسا کہ عوانہ اور مدائنی وغیرہ تو ان کی روایات بالاولی رد کے قابل ہیں ۔ لیکن دوسری جانب حافظ ابن حجر بعض تفصیلات کے لیے انہیں مؤرخین کی روایات پر اعتماد اور ان سے استدلال کرتے ہیں ، بلکہ ان سے معتبر اسانید والی روایات کے درمیان جمع و ترجیح کی بھی کوشش کرتے ہیں ، تاکہ واقعات کا ایک تاریخی تصور واضح ہوسکے ۔
وهذا يدل على قبوله لأخبارهم فيما تخصصوا فيه من العناية بالتاريخ والسير، وهو منهج معتبر عند العلماء المحققين وإن لم يقبلوا روايتهم في الأحكام الشرعية ، فنجد ابن حجر يقول عن محمد بن إسحاق في "طبقات المدلسين" : إمام في المغازي صدوق يدلس . و يقول عن الواقدي في "التقريب" : متروك مع سعة علمه. ويقول عن سيف بن عمر التميمي ، - صاحب كتاب "الردة" - كما في تقريب التهذيب: ضعيف في الحديث ، عمدة في التاريخ .
وعليه فمنهج المحدثين وإن لم يطبق تماماً على الروايات التاريخية، لكنه قدم خدمة عظيمة جليلة، تتمثل في التحري والتدقيق والتحقيق والنقد، فأضاف الكثير وجمع التاريخ الصحيح المبني على الأصول والقواعد، البعيد عن الأهواء، والنزعات ۔

اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حافظ ابن حجر اور دیگر محدثین کے ہاں یہ معتبر منہج تھا کہ گو مؤرخین کی احکام شرعیہ سے متعلق روایات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ، لیکن تاریخ و سیر سے متعلق ان کی اخبار قبول کی جائیں گی ، حافظ ابن حجر نے محمد بن اسحاق کو صدوق مدلس قرار دیا ہے لیکن ساتھ امام المغازی بھی کہا ، اسی طرح واقدی کو متروک کہا لیکن اس کی وسعت علمی کا اعتراف بھی کیا ، اسی طرح کتاب الردۃ و الفتوح کے مصنف سیف بن عمر التمیمی کے بارے میں کہا کہ حدیث میں ضعیف ہے ، لیکن تاریخ میں قابل اعتماد ۔
حاصل یہ ہوا کہ منہج محدثین کا اگرچہ تاریخی روایات پر مکمل اطلاق نہیں کیا گیا ، لیکن اس کے باوجود تحقیق و تفتیش ، نقد و جستجو میں اس کی بے مثال خدمات ہیں ، اور اصول و قواعد اور ذاتی رجحانات و رنجشوں سے پاک ’’ صحیح تاریخ ‘‘ کا ذخیرہ اسی کی مرہون منت ہے ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
’ خبر ‘ کو قبول کرنے کا فلسفہ ہر جگہ ایک ہی ہوتا ہے ۔
حدیث ، سیرت ، تفسیر ، تاریخ سے متعلق اخبار اور روایات میں تحقیقی تقاضوں کا جو فرق ہے ، وہ اصل میں ان کی اہمیت کے ساتھ منسلک ہے ، جس چیز کی جتنی اہمیت ہوگی ، اس کی تحقیق کی اسی قدر ضرورت زیادہ ہوگی ، عین ممکن ہے ، کسی تاریخی روایت کا مضمون اور محتوی ایسا ہو کہ اس کی اہمیت کے پیش نظر ہمیں اس کی ویسے ہی تحقیق کرنی پڑے ، جیسے ہم احادیث کے متعلق کرتے ہیں ۔
میری نظر میں شیخ معلمی کی مجمل اور شیخ عمری کی مفصل گفتگو کا ’ فحوائے کلام ‘ یہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
علامہ ومحدث دکتور ربیع بن ھادی المدخلی حفظہ اللہ کا موقف


هل يحكم على الروايات التاريخية بموازين أهل الحديث
السؤال:
أحسن الله إليكم بعض العلماء عندما يورد قصة من قصص السلف ويكون فيها ضعف فيقول : باب السِيَر نتسامح فيه فما هو الضابط في هذا ؟
الجواب :
الضابط فيها القضايا التاريخية يجب أن يحكم عليها بموازين ومقاييس أهل الحديث , خاصة إذا كانت تتعلق بالصحابة , تتعلق ببعض العلماء , تمسّ بمكانتهم فلابدّ فيها من التثبت بدراسة الأسانيد والحكم عليها في ضوء هذه الدراسة , لكن مثل الأحداث , المعركة الفلانية , المعركة الفلانية وقع فيها كذا وكذا ,وما فيها- يعني - ما تمسّ الأشخاص هذه تُمَشّى , لكن عند التدقيق و كذا و كذا , إذا سئلت : صحيح أو ليس بصحيح ؟ تقول ما تعرفه من الحقّ , , تدرس و تبيّن .
أمّا فلان جهمي , فلان معتزلي – بارك الله فيك – تذكر لك قصّة عن فلان وهو معروف بالسنّة قال: وقع في الاعتزال , وقع في كذا , لابدّ من التثبت , يذكر لك صحابي و يقول لك : حصل له كذا وكذا , لابدّ من التثبت - بارك الله فيكم -
أنا أعرف أنّ التأريخ يعني نهض به أهل البدع أكثر من أهل السنّة ,ثم جاء ابن جرير وغيره ينقل عن ابن مخنف وفلان وفلان من الروافض ومن هؤلاء الضالين الكذابين , فيحتاج الأمر إلى التحرّي والتثبت .

المصدر:

أسئلة وأجوبة مهمة في علوم الحديث (الحلقة الأولى)
نقلاً عن المكتبة الالكترونية للشيخ ربيع من اعداد موقع روح الاسلام
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
یہ بھی جواب دیا گیا ہے - کچھ لوگوں کی جانب سے :

اصل میں تاریخ میں شرائط قول نبوی کی چھان پھٹک جیسا کر دیا جائے تو شاید تاریخ طبری ١٠ جلدوں کی بجائے صرف ایک جلد رہ جائے
اس کا لوگوں کو پتا ہے لہذا تاریخ میں اس قدر چھان بین نہیں ہے
واقدی یا ابن اسحٰق پر شدید جرح موجود ہیں جو صحیح بھی ہیں لیکن تاریخ میں ان کا قول لیا جاتا ہے کیونکہ کوئی اور ذریعہ نہیں ہے
ابن سیرین کہتے ہیں اسناد دین ہیں اس کا مطلب ہے تاریخ دین ہے کیونکہ علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے راوی کی عمروں پر تہذیب التہذیب میں ٢٠٠ سے اوپر قول واقدی کے ہی ہیں
لہذا یہ کہنا احادیث سے تو دین کا ثبوت ہوتا ہے جبکہ تاریخ شریعت کے اصولوں میں شامل نہیں۔ بے سروپا بات ہے
پھر یہ کہنا تاریخ تو آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلتی آرہی ہے جبکہ جس شریعت کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اسکی ابتدا اللہ کے رسول کی نبوت سے ہوئ اور آپؐ کی وفات کے ساتھ تکمیل بھی۔ بھی غلط قول ہے
انبیاء کی خبریں قرآن میں ہیں اور قرآن خود کہتا ہے اہل کتاب سے پوچھ لو یعنی اس میں اہل کتاب کی تاریخ سے مدد لی جا سکتی ہے
آج انبیاء میں کون کس سے بعد آیا اہل کتاب کی کتب تاریخ سے ہی لیا گیا ہے قرآن میں حدیث میں بعض پر کوئی خبر نہیں مثلا الیاس کب کس زمانے کے ہیں قرآن و حدیث میں کوئی خبر نہیں یہ اہل کتاب سے پوچھا گیا ہے
اسی طرح شیش کون ہیں ادم کے بیٹے تو ان کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں اسی طرح بہت سے انبیاء اور بھی ہیں جن کی عمریں اور ادوار اہل کتاب کی تاریخ کی کتب سے لئے گئے ہیں جس میں اس کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے
راقم کے نزدیک تاریخ اور حدیث کوئی الگ الگ صنف نہیں ہیں ایک ہی ہیں فرق صرف مواد کا ہے ایک میں تفصیل زیادہ اور سند کمزور ہے جو ام تاریخ ہے اور دوسری حدیث ہے جس میں احتیاط زیادہ ہے​

اس تمام کی ایک زندہ مثال دکتور بشار عواد المعروف ہیں جو کلین شیو تاریخ کے استاد ہیں اور عصر حاضر میں علم جرح و تعدیل کی ضخیم کتاب تہذیب الکمال از المزی پر ان کا حاشیہ ہے یہ کوئی مولوی نہیں ہیں یہ تاریخ کے عالم ہیں اور علم جرح و تعدیل علم تاریخ کا حصہ ہے جس پر حدیث و تاریخ دونوں کی صحت کا دار و مدار ہے​
 
Last edited by a moderator:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
اسلامی تاریخ اور احادیث کی اسناد میں کوئی فرق نہیں ہے

تاریخ طبری ہو ابن اسحاق ہو ابن ہشام ہو یا واقدی کی کتب ہوں یا امام بخاری و مسلم کی کتب ہوں سب سند سے ہیں
یہ اس دور کا ایک رواج تھا
تمام تاریخ خرافات نہیں ہے علم جرح و تعدیل تاریخ کا حصہ ہے علم حدیث کا حصہ نہیں ہے
تاریخ خلیفہ، المعارف ابن قتیبہ، تاریخ ابن یونس یہ سب تاریخ کی کتب ہیں لیکن علم حدیث میں جرح و تعدیل انہی کتب سے لی گئی ہے
تاریخ نویسی ہو یا حدیث قلم بندی دونوں پر کوئی قدغن نہیں ہوئی مورخین نے اپنی طرف سے اسلامی تاریخ میں کیا بات کی ہے ؟ وہ تو روایت پیش کر دیتے ہیں اس کی سند چیک کرنا پڑھنے والے کا کام ہے اور یہی ہماری صحاح ستہ میں سنن کا حال ہے جو ضعیف و صحیح احادیث کا ملغوبہ ہیں ان کی سند چیک کرنا قاری پر چھوڑ دیا گیا
 
Last edited by a moderator:
Top