- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,497
- پوائنٹ
- 964
ائمہ متساہلین
موصوف نے درج ذيل عناوین قائم كرکے ائمہ کرام کے تساہل پر گفتگو کی ہے:
۱ ـ "متساہل محدثین کا تذکرہ"
اس عنوان کے تحت بعض محدثین کرام کو علی الترتیب ذکر کرکے انکے تساہل پر اپنے تئیں دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔
۲ ـ "متساہل محدثین کا مجہول راویوں کی توثیق کرنا "
اس عنوان کے تحت سات روات ذکر کر کے ان کے متعلق ائمہ متقدمین ومتساہل محدثین کا حکم ذکر کیا ہے کہ ائمہ متاخرین نے انکی توثیق کی ہے، جبکہ ائمہ متقدمین انہیں مجہول قرار دے چکے ہیں۔
۳ ـ "متساہلین ومتاخرین محدثین کا روایات کی روشنی میں تساہل "
یہ عنوان قائم کر کے چار روایات ذکر کی ہیں،جنکو ائمہ متاخرین نے حسن یا صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ائمہ متقدمین ان روایات میں موجود بعض روات کو مجہول قرار دے چکے ہیں ۔ موصوف کہتے ہیں کہ جن روات کو ائمہ متقدمیں نہیں جان سکے تو ائمہ متاخرین ومتساہلین انھیں کیسے جان سکتے ہیں..؟؟؟
موصوف مزید لکھتے ہیں :
" راقم کی تحقیق میں متساہل محدثین کی تعداد چھ ھے، جن کے نام یہ ہیں : امام عجلی، امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام حاکم، امام بیہقی۔ ان چھ محدثین میں سے تین: امام ابن حبان، امام حاکم، امام بیہقی، متاخرین محدثین میں سے ہیں، جبکہ ہمارے بعض اہل علم بھائی صرف چار محدثین کو متساہل مانتے ہیں، جن کے نام یہ ہیں، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام حاکم، امام بیہقی ۔ ان شاءاللہ امام عجلی اور امام ابن خزیمہ کے متساہل ہونے کے دلائل آگے آ رہے ہیں۔" ( ۳۴۲)
غالبا انکے اس قول "ہمارے بعض اہل علم بھائی ..... " سے مراد شیخ زبیر رحمہ اللہ تعالی ہیں، کیونکہ وہ امام عجلی اور امام ابن خزیمہ کو متساہل نہیں سمجھتے، اور حق بات بھی یہی ہے کہ وہ متساہل نہیں، جیسا کہ آگے دلائل سے واضح ہو گا ۔ اب ہم علی الترتیب ان محدثین کے تساہل پر گفتگو کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں.
۱ ـ امام عجلی۔
ان صاحب نے امام عجلی کے تساہل پر درج ذیل علمائے کرام کے اقوال نقل کیے ہیں:
* علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ
* علامہ ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ
* شیخ شعیب الارناوط رحمہ اللہ
* دکتور بشارعواد حفظہ اللہ
* شیخ عبدالرؤف بن عبدالحنان حفظہ اللہ .
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ سے قبل محدث سے ثابت نہیں کہ اس نے امام عجلی کو متساہل کہا ہو، بلکہ علامہ معلمی نے امام عجلی کو متساہل کہنے کے متعلق صراحت کردی ہے کہ انہیں یہ بات بالاستقراء معلوم ہوئی ہے۔ ان کا قول ہے:
" وتوثيق العجلي وجدته بالاستقراء كتوثيق ابن حبان او اوسع "
یعنی " استقراء سے معلوم ہوا ہے کہ عجلی کی توثیق بھی ابن حبان کے مشابہ ہے یا اس سے بھی وسیع تر "( الانوار الکاشفة : ۶۸)
لہذا علامہ معلمی کے اس اقرار کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی، تو جب ثابت ہو گیا کہ امام عجلی کو ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی متساہل قرار نہیں دیا، بلکہ اس سلسلے کی ابتداء علامہ معلمی سے ہوتی ہے، تو پھر یہ صاحب اپنے اصول کہ "متاخرین محدثین کا ہر قول جو متقدمین کے موافق ہوگا وہ قابل حجت ہوگا، اور جو قول متقدمین محدثین کے مخالف ہوگا وہ باطل ومردود ہوگا۔" ( اصول حدیث : ۴۹۴) کی کیوں خلاف ورزی کررہے ہیں، ...؟؟
کیا علامہ معلمی کا امام عجلی کو متساہل قرار دینا ائمہ متقدمین کی مخالفت نہیں ....؟؟
یہاں انکا اپنا اصول کہاں چلا جاتا ہے، ..؟؟
ان صاحب نے "حدیث حسن لغیرہ " کا انکار بھی اسی لیے کیا ہے کہ وہ ــ انکے بقول ــ ائمہ متقدمین سے ثابت نہیں،اسکو ائمہ متاخرین نے ایجاد کیا ہے، لہذا ائمہ متاخرین کی یہ ائمہ متقدمین سے مخالفت ہے، اس لیے باطل ومردو ھے،،، جناب ! کم ازکم اپنے خود ساختہ اصولوں پر تو قائم رہیں۰۰!!
امام عجلی کے تساہل کےحوالے سے علامہ معلمی کے مختلف اقوال ہیں، ایک تو اوپر گذرا ہے کہ امام عجلی قدماء مجہولین ( روات) کی توثیق کرتے ہیں، جس سے تابعین کرام کا طبقہ مراد ہے۔
باقی اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
ـ والعجلي متسمح جدا، وخاصة في التابعين، فكأنهم كلهم ثقات، فتجده يقول :
(( تابعي، ثقة) ) في المجاهيل .
یعنی عجلی بہت زیادہ متساہل ہے، خصوصا تابعین کے اعتبار سے، گویا اسکے نزدیک وہ سارے کے سارے ثقہ ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں: تابعی ہے اور ثقہ ہے۔ ( تحقیق الفوائد المجموعة : 485 للشوکانی)
بلکہ ائمہ متساہلین کے متعلق انکا ایک قول یہ بھی ملتا ہے کہ متشدد امام نہ ہر وقت تشدد کرتا ہے، اور نہ ہی ہر متساہل امام ہر وقت تساہل برتتا ہے، بلکہ بعض اوقات متشدد سے بھی تساہل ہوجاتا ہے اور اسی طرح متساہل بھی بعض اوقات تشدد اختیار کرلیتا ہے، ہر وقت وہ متساہل ہی نہیں رہتا۔ ( تحقیق الفوائد المجموعة للشوكاني)
بہرحال علامہ معلمی کی یہ مختلف آراء ہیں، جنکا خلاصہ یہی ہے :
* ـ امام عجلی مجاہیل کی توثیق میں ابن حبان کے مشابہ ہیں، یا اس سے بھی زیادہ متساہل ہیں۔
* ـ توثیق میں متساہل ہیں، خصوصا قدماء( تابعین) کی توثیق میں زیادہ متساہل ہیں۔
* ـ ہروقت متساہل نہیں ہیں، بلکہ تشدد بھی اپناتے ہیں۔
مناقشہ
امام عجلی کے تساہل کے حوالے سے علامہ معلمی کی آراء آپکے سامنے ہیں۔ ھم ان سب میں سے صرف ایک بات پر بحث کرینگے جو ساری بحث مرکز ومحور ہے کہ جس کی وجہ سے انہوں نے امام عجلی کو متساہل کہا ہے، یعنی بنیادی دلیل، اور وہ ہے امام عجلی کا مجہول روات ــ خصوصا طبقہ تابعین ــ کی توثیق کرنا۔
امام عجلی کے تساہل کے حوالے سے علامہ معلمی نے یہ کہا ہے کہ وہ مجاہیل کی توثیق کر دیتے ہیں، خصوصا طبقہ تابعین تو جیسے سارے کا سارا انکے نزدیک موثق ہے۔
قارئین عظام : مجہول وہ راوی ہے جس کی کسی بھی امام سے نصا یا ضمنا توثیق ثابت نہ ہو، یعنی جب تک اسکی توثیق ثابت نہیں ہوتی تب تک وہ مجہول العین ــ اگر اس سے روایت کرنے والا ایک ہو ــ یا مجہول الحال ــ اگر روایت کرنے والے اس سے کم ازکم دو ہوں ــ رہتا ہے، لیکن جیسے ہی اسکی کسی بھی امام سے توثیق ثابت ہو جاتی ہے، تو وہ حدِّ جہالت سے نکل کر معروف اور ثقہ وصدوق بن جاتا ہے، اگرچہ محدثین میں سے کسی نے اسکو مجہول یا مجہول الحال ہی کیوں نہ کہا ہو، انکا مجہول کہنا اسکی توثیق کے لیے مضر نہیں، کیونکہ ایسے وقت میں کہا جائیگا کہ "من عرف حجة علي من لم يعرف " یعنی پہچاننے والے کی معرفت نہ پہچاننے والے پر حجت ہے ۔
یعنی جس محدث نے مجھول کے حکم والے راوی پر توثیق کا حکم لگا دیا تو اس نے اسے پہچان کر اور ثقہ وصدوق سمجھ کر اسکی توثیق کی ہے، اور اسکی تعدیل وتوثیق ادلہ کی بنیاد پر ہوتی ہے، محض ظن وتخمین پر نہیں۔
کتب رجال میں ایسے روات کثرت سے پائے جاتے ہیں جنکو بعض ائمہ مجہول یا مستور قرار دیتے ہین، لیکن دوسرے محدثین سے اسکی توثیق وارد ہوتی ہے۔ شائقین حافظ ذہبی کی "الکاشف "اور ابن حجر کی " التہذیب اور " التقریب " کا مراجعہ کرکے میری اس بات کی تصدیق کرسکتے ہین،
مثلا : ابن حجر "التہذیب " میں براء بن ناجية کے متعلق کہتے ہیں :"وقرأت بخط الذهبي في "الميزان " : فیہ جہالة لا يعرف" قلت ( القائل ابن حجر) : قد عرفه العجلي وابن حبان فيكفيه، اھ
پھر " التقریب " میں وہ یہ فیصلہ دیتے ہیں: ثقة٠
ایسی بہت سی مثالیں کتبِ رجال میں موجود ہین، کیونکہ محدث راوی پر مجہول کا حکم اسی لیے لگاتا ھے کہ اس پر اسکے حالات اور ثقاہت مخفی ہوتی ہے یا وہ حکم لگانے میں خود متزلزل ہوتا ہے، تو اسی لیے یا تو خاموش رہتا ہے، یعنی سکوت اختیار کرتا ہے، نہ تعدیل کرتا ہے اور نہ ہی تجریح، یا وہ اپنے ہاں اسے غیر معروف سمجھتا ہے یا پھر اسے مجہول کہہ کر عام حکم لگا دیتا ہے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ جس راوی پر جہالت کا حکم اور تعدیل جمع ہو جائیں تو اس صورت میں ضرور جہالت والے حکم کو ہی مقدم سمجھ کر توثیق کو رد کر دیا جائےگا۔ یہ تو جہالت کا حکم ہے،اگر کسی راوی پر تعدیل وتجریح جمع ہو جائیں تب بھی محدثین کرام جرح کو تب تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ جرح مفسر نہ ھو، یعنی تعدیل کے مقابلے میں جرح بھی اگر غیر مفسر ہے، تو مقبول نہیں تو پھر تعدیل کے مقابلے میں جہالت والا حکم کیسے قبول کیا جا سکتا ہے،،، ؟؟؟
لہذا جن روات کو بعض محدثین کرام نے مجہول قرار دیا ہے یا ان پر سکوت اختیار کیا ہے، اور امام عجلی یا کسی اور محدث سے اسکی تعدیل وتوثیق ثابت ہے، تو اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ ان معدلین نے مجاہیل کی توثیق کردی ہے.....؟؟؟
اگر یہ طریقہ رہا اور اسکی وجہ سے تساہل کا الزام عائد ہوگا تو پھر اس طرح اس الزام سے شاید کوئی بھی محدث نہیں بچ سکے گا، کیونکہ اس طرح ائمہ کرام میں کثرت کے ساتھ تعدیل وتجہیل کا اختلاف پایا جاتا ہے، کسی نے مجھول کا حکم لگایا ہوتا ہے تو کوئی تعدیل کر رہا ہوتا ہے۔ یہ امر کتب رجال سے شغف رکھنے والوں پر مخفی نہیں ۔ اس طرح تو پھر سارے کے سارے محدثین کرام متساہل ٹھہرینگے، پھر کوئی بھی اس حکم سے مستثنی نہین رہیگا، اگر اس طرز سے یعنی باقی محدثین کرام کے تعدیل وتجہیل کے اختلاف سے ائمہ پر تساہل کا الزام نہیں لگ سکتا تو پھر امام عجلی پر یہ الزام کیوں .....؟؟؟
علامہ معلمی کے بقول " امام عجلی کے نزدیک طبقہ تابعین گویا سارے کا سارا ثقات کے حکم میں ہے " تو یہ بات بھی محل نظر ہے، کیونکہ امام عجلی سے روات پر ــ چاہے طبقہ تابعین ہو یا غیر تابعین ـــ مجہول کا حکم لگانا ثابت ہے، اگر ان کے نزدیک ہر وہ راوی جو جرح سے خالی ہو ثقہ ہوتا، تو پھر وہ انکو مجہول کیوں قرار دیتے ....؟؟؟
ذیل میں وہ روات ذکر کر رہا ہوں جن کو امام عجلی نے اپنی کتاب "معرفة الثقات " میں مجہول قرار دیا ہے:
۱ ــ ثعلبة بن عباد العبدي،مجہول ( ۱/ ۲۶۱)
امام ترمذی اس راوی کی حدیث کو جامع ترمذی میں ذکر کر کے کہتے ہیں : "حسن صحیح "
یعنی یہ راوی امام ترمذی کے نزدیک ثقہ وصدوق ہے، جبکہ امام عجلی کے نزدیک وہ مجہول ہے.
۲ ـــ علی العقیلی، مجہول، (۱/۱۵۹)
۳ ـــ یحیی بن عباد السعدی، مجہول بالنقل، لا یقیم الحديث، حديثه يدلك علي صعفه، (۲/۳۵۴)
۴۴- شعیب بن میمون الواسطی
اگر امام عجلی کے نزدیک ہر مجہول یا مستور ثقہ ہوتا تو وہ ان روات کو مجہول کیوں کہتے؟
یحیی بن عباد پر جو انہوں رائے دی ہے اس سے تو بالکل واضح ہے کہ امام عجلی روات کی روایات کو پرکھتے تھےاور تتبع کر کے پھر ہی اس پر جرح یا تعدیل کا حکم لگاتے تھے۔ انھوں نے یحیی پر جہالت کا حکم لگایا اور پھر یہ بھی وضاحت کر دی کہ اسکی احادیث میں ضعف بالکل واضح ہے، لہذا معلوم ہوا کہ امام عجلی مجہول یا مستور کی توثیق نہیں کرتے تھے، بلکہ روایات کا تتبع کرکے پھر اسکے مطابق تعدیل یا تجریح کرتے تھے۔
ثعلبہ بن عباد، یہ راوی تابعی ہے اور سمرة بن جندب صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے، جیسا کہ تہذیب الکمال وغیرہ میں ہے، اب دیکھیں اسکو بھی امام عجلی نے تابعی ہونے کے باوجود مجہول قرار دیا ہے۔ اگر انکے نزدیک سارا طبقہ تابعین ثقہ ہوتا تو وہ اسے مجہول کیوں کہتے..؟؟؟؟
موصوف نے درج ذيل عناوین قائم كرکے ائمہ کرام کے تساہل پر گفتگو کی ہے:
۱ ـ "متساہل محدثین کا تذکرہ"
اس عنوان کے تحت بعض محدثین کرام کو علی الترتیب ذکر کرکے انکے تساہل پر اپنے تئیں دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔
۲ ـ "متساہل محدثین کا مجہول راویوں کی توثیق کرنا "
اس عنوان کے تحت سات روات ذکر کر کے ان کے متعلق ائمہ متقدمین ومتساہل محدثین کا حکم ذکر کیا ہے کہ ائمہ متاخرین نے انکی توثیق کی ہے، جبکہ ائمہ متقدمین انہیں مجہول قرار دے چکے ہیں۔
۳ ـ "متساہلین ومتاخرین محدثین کا روایات کی روشنی میں تساہل "
یہ عنوان قائم کر کے چار روایات ذکر کی ہیں،جنکو ائمہ متاخرین نے حسن یا صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ائمہ متقدمین ان روایات میں موجود بعض روات کو مجہول قرار دے چکے ہیں ۔ موصوف کہتے ہیں کہ جن روات کو ائمہ متقدمیں نہیں جان سکے تو ائمہ متاخرین ومتساہلین انھیں کیسے جان سکتے ہیں..؟؟؟
موصوف مزید لکھتے ہیں :
" راقم کی تحقیق میں متساہل محدثین کی تعداد چھ ھے، جن کے نام یہ ہیں : امام عجلی، امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام حاکم، امام بیہقی۔ ان چھ محدثین میں سے تین: امام ابن حبان، امام حاکم، امام بیہقی، متاخرین محدثین میں سے ہیں، جبکہ ہمارے بعض اہل علم بھائی صرف چار محدثین کو متساہل مانتے ہیں، جن کے نام یہ ہیں، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام حاکم، امام بیہقی ۔ ان شاءاللہ امام عجلی اور امام ابن خزیمہ کے متساہل ہونے کے دلائل آگے آ رہے ہیں۔" ( ۳۴۲)
غالبا انکے اس قول "ہمارے بعض اہل علم بھائی ..... " سے مراد شیخ زبیر رحمہ اللہ تعالی ہیں، کیونکہ وہ امام عجلی اور امام ابن خزیمہ کو متساہل نہیں سمجھتے، اور حق بات بھی یہی ہے کہ وہ متساہل نہیں، جیسا کہ آگے دلائل سے واضح ہو گا ۔ اب ہم علی الترتیب ان محدثین کے تساہل پر گفتگو کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں.
۱ ـ امام عجلی۔
ان صاحب نے امام عجلی کے تساہل پر درج ذیل علمائے کرام کے اقوال نقل کیے ہیں:
* علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ
* علامہ ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ
* شیخ شعیب الارناوط رحمہ اللہ
* دکتور بشارعواد حفظہ اللہ
* شیخ عبدالرؤف بن عبدالحنان حفظہ اللہ .
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ سے قبل محدث سے ثابت نہیں کہ اس نے امام عجلی کو متساہل کہا ہو، بلکہ علامہ معلمی نے امام عجلی کو متساہل کہنے کے متعلق صراحت کردی ہے کہ انہیں یہ بات بالاستقراء معلوم ہوئی ہے۔ ان کا قول ہے:
" وتوثيق العجلي وجدته بالاستقراء كتوثيق ابن حبان او اوسع "
یعنی " استقراء سے معلوم ہوا ہے کہ عجلی کی توثیق بھی ابن حبان کے مشابہ ہے یا اس سے بھی وسیع تر "( الانوار الکاشفة : ۶۸)
لہذا علامہ معلمی کے اس اقرار کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی، تو جب ثابت ہو گیا کہ امام عجلی کو ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی متساہل قرار نہیں دیا، بلکہ اس سلسلے کی ابتداء علامہ معلمی سے ہوتی ہے، تو پھر یہ صاحب اپنے اصول کہ "متاخرین محدثین کا ہر قول جو متقدمین کے موافق ہوگا وہ قابل حجت ہوگا، اور جو قول متقدمین محدثین کے مخالف ہوگا وہ باطل ومردود ہوگا۔" ( اصول حدیث : ۴۹۴) کی کیوں خلاف ورزی کررہے ہیں، ...؟؟
کیا علامہ معلمی کا امام عجلی کو متساہل قرار دینا ائمہ متقدمین کی مخالفت نہیں ....؟؟
یہاں انکا اپنا اصول کہاں چلا جاتا ہے، ..؟؟
ان صاحب نے "حدیث حسن لغیرہ " کا انکار بھی اسی لیے کیا ہے کہ وہ ــ انکے بقول ــ ائمہ متقدمین سے ثابت نہیں،اسکو ائمہ متاخرین نے ایجاد کیا ہے، لہذا ائمہ متاخرین کی یہ ائمہ متقدمین سے مخالفت ہے، اس لیے باطل ومردو ھے،،، جناب ! کم ازکم اپنے خود ساختہ اصولوں پر تو قائم رہیں۰۰!!
امام عجلی کے تساہل کےحوالے سے علامہ معلمی کے مختلف اقوال ہیں، ایک تو اوپر گذرا ہے کہ امام عجلی قدماء مجہولین ( روات) کی توثیق کرتے ہیں، جس سے تابعین کرام کا طبقہ مراد ہے۔
باقی اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
ـ والعجلي متسمح جدا، وخاصة في التابعين، فكأنهم كلهم ثقات، فتجده يقول :
(( تابعي، ثقة) ) في المجاهيل .
یعنی عجلی بہت زیادہ متساہل ہے، خصوصا تابعین کے اعتبار سے، گویا اسکے نزدیک وہ سارے کے سارے ثقہ ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں: تابعی ہے اور ثقہ ہے۔ ( تحقیق الفوائد المجموعة : 485 للشوکانی)
بلکہ ائمہ متساہلین کے متعلق انکا ایک قول یہ بھی ملتا ہے کہ متشدد امام نہ ہر وقت تشدد کرتا ہے، اور نہ ہی ہر متساہل امام ہر وقت تساہل برتتا ہے، بلکہ بعض اوقات متشدد سے بھی تساہل ہوجاتا ہے اور اسی طرح متساہل بھی بعض اوقات تشدد اختیار کرلیتا ہے، ہر وقت وہ متساہل ہی نہیں رہتا۔ ( تحقیق الفوائد المجموعة للشوكاني)
بہرحال علامہ معلمی کی یہ مختلف آراء ہیں، جنکا خلاصہ یہی ہے :
* ـ امام عجلی مجاہیل کی توثیق میں ابن حبان کے مشابہ ہیں، یا اس سے بھی زیادہ متساہل ہیں۔
* ـ توثیق میں متساہل ہیں، خصوصا قدماء( تابعین) کی توثیق میں زیادہ متساہل ہیں۔
* ـ ہروقت متساہل نہیں ہیں، بلکہ تشدد بھی اپناتے ہیں۔
مناقشہ
امام عجلی کے تساہل کے حوالے سے علامہ معلمی کی آراء آپکے سامنے ہیں۔ ھم ان سب میں سے صرف ایک بات پر بحث کرینگے جو ساری بحث مرکز ومحور ہے کہ جس کی وجہ سے انہوں نے امام عجلی کو متساہل کہا ہے، یعنی بنیادی دلیل، اور وہ ہے امام عجلی کا مجہول روات ــ خصوصا طبقہ تابعین ــ کی توثیق کرنا۔
امام عجلی کے تساہل کے حوالے سے علامہ معلمی نے یہ کہا ہے کہ وہ مجاہیل کی توثیق کر دیتے ہیں، خصوصا طبقہ تابعین تو جیسے سارے کا سارا انکے نزدیک موثق ہے۔
قارئین عظام : مجہول وہ راوی ہے جس کی کسی بھی امام سے نصا یا ضمنا توثیق ثابت نہ ہو، یعنی جب تک اسکی توثیق ثابت نہیں ہوتی تب تک وہ مجہول العین ــ اگر اس سے روایت کرنے والا ایک ہو ــ یا مجہول الحال ــ اگر روایت کرنے والے اس سے کم ازکم دو ہوں ــ رہتا ہے، لیکن جیسے ہی اسکی کسی بھی امام سے توثیق ثابت ہو جاتی ہے، تو وہ حدِّ جہالت سے نکل کر معروف اور ثقہ وصدوق بن جاتا ہے، اگرچہ محدثین میں سے کسی نے اسکو مجہول یا مجہول الحال ہی کیوں نہ کہا ہو، انکا مجہول کہنا اسکی توثیق کے لیے مضر نہیں، کیونکہ ایسے وقت میں کہا جائیگا کہ "من عرف حجة علي من لم يعرف " یعنی پہچاننے والے کی معرفت نہ پہچاننے والے پر حجت ہے ۔
یعنی جس محدث نے مجھول کے حکم والے راوی پر توثیق کا حکم لگا دیا تو اس نے اسے پہچان کر اور ثقہ وصدوق سمجھ کر اسکی توثیق کی ہے، اور اسکی تعدیل وتوثیق ادلہ کی بنیاد پر ہوتی ہے، محض ظن وتخمین پر نہیں۔
کتب رجال میں ایسے روات کثرت سے پائے جاتے ہیں جنکو بعض ائمہ مجہول یا مستور قرار دیتے ہین، لیکن دوسرے محدثین سے اسکی توثیق وارد ہوتی ہے۔ شائقین حافظ ذہبی کی "الکاشف "اور ابن حجر کی " التہذیب اور " التقریب " کا مراجعہ کرکے میری اس بات کی تصدیق کرسکتے ہین،
مثلا : ابن حجر "التہذیب " میں براء بن ناجية کے متعلق کہتے ہیں :"وقرأت بخط الذهبي في "الميزان " : فیہ جہالة لا يعرف" قلت ( القائل ابن حجر) : قد عرفه العجلي وابن حبان فيكفيه، اھ
پھر " التقریب " میں وہ یہ فیصلہ دیتے ہیں: ثقة٠
ایسی بہت سی مثالیں کتبِ رجال میں موجود ہین، کیونکہ محدث راوی پر مجہول کا حکم اسی لیے لگاتا ھے کہ اس پر اسکے حالات اور ثقاہت مخفی ہوتی ہے یا وہ حکم لگانے میں خود متزلزل ہوتا ہے، تو اسی لیے یا تو خاموش رہتا ہے، یعنی سکوت اختیار کرتا ہے، نہ تعدیل کرتا ہے اور نہ ہی تجریح، یا وہ اپنے ہاں اسے غیر معروف سمجھتا ہے یا پھر اسے مجہول کہہ کر عام حکم لگا دیتا ہے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ جس راوی پر جہالت کا حکم اور تعدیل جمع ہو جائیں تو اس صورت میں ضرور جہالت والے حکم کو ہی مقدم سمجھ کر توثیق کو رد کر دیا جائےگا۔ یہ تو جہالت کا حکم ہے،اگر کسی راوی پر تعدیل وتجریح جمع ہو جائیں تب بھی محدثین کرام جرح کو تب تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ جرح مفسر نہ ھو، یعنی تعدیل کے مقابلے میں جرح بھی اگر غیر مفسر ہے، تو مقبول نہیں تو پھر تعدیل کے مقابلے میں جہالت والا حکم کیسے قبول کیا جا سکتا ہے،،، ؟؟؟
لہذا جن روات کو بعض محدثین کرام نے مجہول قرار دیا ہے یا ان پر سکوت اختیار کیا ہے، اور امام عجلی یا کسی اور محدث سے اسکی تعدیل وتوثیق ثابت ہے، تو اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ ان معدلین نے مجاہیل کی توثیق کردی ہے.....؟؟؟
اگر یہ طریقہ رہا اور اسکی وجہ سے تساہل کا الزام عائد ہوگا تو پھر اس طرح اس الزام سے شاید کوئی بھی محدث نہیں بچ سکے گا، کیونکہ اس طرح ائمہ کرام میں کثرت کے ساتھ تعدیل وتجہیل کا اختلاف پایا جاتا ہے، کسی نے مجھول کا حکم لگایا ہوتا ہے تو کوئی تعدیل کر رہا ہوتا ہے۔ یہ امر کتب رجال سے شغف رکھنے والوں پر مخفی نہیں ۔ اس طرح تو پھر سارے کے سارے محدثین کرام متساہل ٹھہرینگے، پھر کوئی بھی اس حکم سے مستثنی نہین رہیگا، اگر اس طرز سے یعنی باقی محدثین کرام کے تعدیل وتجہیل کے اختلاف سے ائمہ پر تساہل کا الزام نہیں لگ سکتا تو پھر امام عجلی پر یہ الزام کیوں .....؟؟؟
علامہ معلمی کے بقول " امام عجلی کے نزدیک طبقہ تابعین گویا سارے کا سارا ثقات کے حکم میں ہے " تو یہ بات بھی محل نظر ہے، کیونکہ امام عجلی سے روات پر ــ چاہے طبقہ تابعین ہو یا غیر تابعین ـــ مجہول کا حکم لگانا ثابت ہے، اگر ان کے نزدیک ہر وہ راوی جو جرح سے خالی ہو ثقہ ہوتا، تو پھر وہ انکو مجہول کیوں قرار دیتے ....؟؟؟
ذیل میں وہ روات ذکر کر رہا ہوں جن کو امام عجلی نے اپنی کتاب "معرفة الثقات " میں مجہول قرار دیا ہے:
۱ ــ ثعلبة بن عباد العبدي،مجہول ( ۱/ ۲۶۱)
امام ترمذی اس راوی کی حدیث کو جامع ترمذی میں ذکر کر کے کہتے ہیں : "حسن صحیح "
یعنی یہ راوی امام ترمذی کے نزدیک ثقہ وصدوق ہے، جبکہ امام عجلی کے نزدیک وہ مجہول ہے.
۲ ـــ علی العقیلی، مجہول، (۱/۱۵۹)
۳ ـــ یحیی بن عباد السعدی، مجہول بالنقل، لا یقیم الحديث، حديثه يدلك علي صعفه، (۲/۳۵۴)
۴۴- شعیب بن میمون الواسطی
اگر امام عجلی کے نزدیک ہر مجہول یا مستور ثقہ ہوتا تو وہ ان روات کو مجہول کیوں کہتے؟
یحیی بن عباد پر جو انہوں رائے دی ہے اس سے تو بالکل واضح ہے کہ امام عجلی روات کی روایات کو پرکھتے تھےاور تتبع کر کے پھر ہی اس پر جرح یا تعدیل کا حکم لگاتے تھے۔ انھوں نے یحیی پر جہالت کا حکم لگایا اور پھر یہ بھی وضاحت کر دی کہ اسکی احادیث میں ضعف بالکل واضح ہے، لہذا معلوم ہوا کہ امام عجلی مجہول یا مستور کی توثیق نہیں کرتے تھے، بلکہ روایات کا تتبع کرکے پھر اسکے مطابق تعدیل یا تجریح کرتے تھے۔
ثعلبہ بن عباد، یہ راوی تابعی ہے اور سمرة بن جندب صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے، جیسا کہ تہذیب الکمال وغیرہ میں ہے، اب دیکھیں اسکو بھی امام عجلی نے تابعی ہونے کے باوجود مجہول قرار دیا ہے۔ اگر انکے نزدیک سارا طبقہ تابعین ثقہ ہوتا تو وہ اسے مجہول کیوں کہتے..؟؟؟؟