• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث کو کھلواڑ اور بازیچہ اطفال بنانے کی ایک مذموم کاوش

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
ائمہ متساہلین
موصوف نے درج ذيل عناوین قائم كرکے ائمہ کرام کے تساہل پر گفتگو کی ہے:
۱ ـ "متساہل محدثین کا تذکرہ"
اس عنوان کے تحت بعض محدثین کرام کو علی الترتیب ذکر کرکے انکے تساہل پر اپنے تئیں دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔
۲ ـ "متساہل محدثین کا مجہول راویوں کی توثیق کرنا "
اس عنوان کے تحت سات روات ذکر کر کے ان کے متعلق ائمہ متقدمین ومتساہل محدثین کا حکم ذکر کیا ہے کہ ائمہ متاخرین نے انکی توثیق کی ہے، جبکہ ائمہ متقدمین انہیں مجہول قرار دے چکے ہیں۔
۳ ـ "متساہلین ومتاخرین محدثین کا روایات کی روشنی میں تساہل "
یہ عنوان قائم کر کے چار روایات ذکر کی ہیں،جنکو ائمہ متاخرین نے حسن یا صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ائمہ متقدمین ان روایات میں موجود بعض روات کو مجہول قرار دے چکے ہیں ۔ موصوف کہتے ہیں کہ جن روات کو ائمہ متقدمیں نہیں جان سکے تو ائمہ متاخرین ومتساہلین انھیں کیسے جان سکتے ہیں..؟؟؟
موصوف مزید لکھتے ہیں :
" راقم کی تحقیق میں متساہل محدثین کی تعداد چھ ھے، جن کے نام یہ ہیں : امام عجلی، امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام حاکم، امام بیہقی۔ ان چھ محدثین میں سے تین: امام ابن حبان، امام حاکم، امام بیہقی، متاخرین محدثین میں سے ہیں، جبکہ ہمارے بعض اہل علم بھائی صرف چار محدثین کو متساہل مانتے ہیں، جن کے نام یہ ہیں، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام حاکم، امام بیہقی ۔ ان شاءاللہ امام عجلی اور امام ابن خزیمہ کے متساہل ہونے کے دلائل آگے آ رہے ہیں۔" ( ۳۴۲)
غالبا انکے اس قول "ہمارے بعض اہل علم بھائی ..... " سے مراد شیخ زبیر رحمہ اللہ تعالی ہیں، کیونکہ وہ امام عجلی اور امام ابن خزیمہ کو متساہل نہیں سمجھتے، اور حق بات بھی یہی ہے کہ وہ متساہل نہیں، جیسا کہ آگے دلائل سے واضح ہو گا ۔ اب ہم علی الترتیب ان محدثین کے تساہل پر گفتگو کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں.
۱ ـ امام عجلی۔
ان صاحب نے امام عجلی کے تساہل پر درج ذیل علمائے کرام کے اقوال نقل کیے ہیں:
* علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ
* علامہ ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ
* شیخ شعیب الارناوط رحمہ اللہ
* دکتور بشارعواد حفظہ اللہ
* شیخ عبدالرؤف بن عبدالحنان حفظہ اللہ .
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ سے قبل محدث سے ثابت نہیں کہ اس نے امام عجلی کو متساہل کہا ہو، بلکہ علامہ معلمی نے امام عجلی کو متساہل کہنے کے متعلق صراحت کردی ہے کہ انہیں یہ بات بالاستقراء معلوم ہوئی ہے۔ ان کا قول ہے:
" وتوثيق العجلي وجدته بالاستقراء كتوثيق ابن حبان او اوسع "
یعنی " استقراء سے معلوم ہوا ہے کہ عجلی کی توثیق بھی ابن حبان کے مشابہ ہے یا اس سے بھی وسیع تر "( الانوار الکاشفة : ۶۸)
لہذا علامہ معلمی کے اس اقرار کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی، تو جب ثابت ہو گیا کہ امام عجلی کو ائمہ متقدمین میں سے کسی نے بھی متساہل قرار نہیں دیا، بلکہ اس سلسلے کی ابتداء علامہ معلمی سے ہوتی ہے، تو پھر یہ صاحب اپنے اصول کہ "متاخرین محدثین کا ہر قول جو متقدمین کے موافق ہوگا وہ قابل حجت ہوگا، اور جو قول متقدمین محدثین کے مخالف ہوگا وہ باطل ومردود ہوگا۔" ( اصول حدیث : ۴۹۴) کی کیوں خلاف ورزی کررہے ہیں، ...؟؟
کیا علامہ معلمی کا امام عجلی کو متساہل قرار دینا ائمہ متقدمین کی مخالفت نہیں ....؟؟
یہاں انکا اپنا اصول کہاں چلا جاتا ہے، ..؟؟
ان صاحب نے "حدیث حسن لغیرہ " کا انکار بھی اسی لیے کیا ہے کہ وہ ــ انکے بقول ــ ائمہ متقدمین سے ثابت نہیں،اسکو ائمہ متاخرین نے ایجاد کیا ہے، لہذا ائمہ متاخرین کی یہ ائمہ متقدمین سے مخالفت ہے، اس لیے باطل ومردو ھے،،، جناب ! کم ازکم اپنے خود ساختہ اصولوں پر تو قائم رہیں۰۰!!
امام عجلی کے تساہل کےحوالے سے علامہ معلمی کے مختلف اقوال ہیں، ایک تو اوپر گذرا ہے کہ امام عجلی قدماء مجہولین ( روات) کی توثیق کرتے ہیں، جس سے تابعین کرام کا طبقہ مراد ہے۔
باقی اقوال ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
ـ والعجلي متسمح جدا، وخاصة في التابعين، فكأنهم كلهم ثقات، فتجده يقول :
(( تابعي، ثقة) ) في المجاهيل .
یعنی عجلی بہت زیادہ متساہل ہے، خصوصا تابعین کے اعتبار سے، گویا اسکے نزدیک وہ سارے کے سارے ثقہ ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں: تابعی ہے اور ثقہ ہے۔ ( تحقیق الفوائد المجموعة : 485 للشوکانی)
بلکہ ائمہ متساہلین کے متعلق انکا ایک قول یہ بھی ملتا ہے کہ متشدد امام نہ ہر وقت تشدد کرتا ہے، اور نہ ہی ہر متساہل امام ہر وقت تساہل برتتا ہے، بلکہ بعض اوقات متشدد سے بھی تساہل ہوجاتا ہے اور اسی طرح متساہل بھی بعض اوقات تشدد اختیار کرلیتا ہے، ہر وقت وہ متساہل ہی نہیں رہتا۔ ( تحقیق الفوائد المجموعة للشوكاني)
بہرحال علامہ معلمی کی یہ مختلف آراء ہیں، جنکا خلاصہ یہی ہے :
* ـ امام عجلی مجاہیل کی توثیق میں ابن حبان کے مشابہ ہیں، یا اس سے بھی زیادہ متساہل ہیں۔
* ـ توثیق میں متساہل ہیں، خصوصا قدماء( تابعین) کی توثیق میں زیادہ متساہل ہیں۔
* ـ ہروقت متساہل نہیں ہیں، بلکہ تشدد بھی اپناتے ہیں۔
مناقشہ
امام عجلی کے تساہل کے حوالے سے علامہ معلمی کی آراء آپکے سامنے ہیں۔ ھم ان سب میں سے صرف ایک بات پر بحث کرینگے جو ساری بحث مرکز ومحور ہے کہ جس کی وجہ سے انہوں نے امام عجلی کو متساہل کہا ہے، یعنی بنیادی دلیل، اور وہ ہے امام عجلی کا مجہول روات ــ خصوصا طبقہ تابعین ــ کی توثیق کرنا۔
امام عجلی کے تساہل کے حوالے سے علامہ معلمی نے یہ کہا ہے کہ وہ مجاہیل کی توثیق کر دیتے ہیں، خصوصا طبقہ تابعین تو جیسے سارے کا سارا انکے نزدیک موثق ہے۔
قارئین عظام : مجہول وہ راوی ہے جس کی کسی بھی امام سے نصا یا ضمنا توثیق ثابت نہ ہو، یعنی جب تک اسکی توثیق ثابت نہیں ہوتی تب تک وہ مجہول العین ــ اگر اس سے روایت کرنے والا ایک ہو ــ یا مجہول الحال ــ اگر روایت کرنے والے اس سے کم ازکم دو ہوں ــ رہتا ہے، لیکن جیسے ہی اسکی کسی بھی امام سے توثیق ثابت ہو جاتی ہے، تو وہ حدِّ جہالت سے نکل کر معروف اور ثقہ وصدوق بن جاتا ہے، اگرچہ محدثین میں سے کسی نے اسکو مجہول یا مجہول الحال ہی کیوں نہ کہا ہو، انکا مجہول کہنا اسکی توثیق کے لیے مضر نہیں، کیونکہ ایسے وقت میں کہا جائیگا کہ "من عرف حجة علي من لم يعرف " یعنی پہچاننے والے کی معرفت نہ پہچاننے والے پر حجت ہے ۔
یعنی جس محدث نے مجھول کے حکم والے راوی پر توثیق کا حکم لگا دیا تو اس نے اسے پہچان کر اور ثقہ وصدوق سمجھ کر اسکی توثیق کی ہے، اور اسکی تعدیل وتوثیق ادلہ کی بنیاد پر ہوتی ہے، محض ظن وتخمین پر نہیں۔
کتب رجال میں ایسے روات کثرت سے پائے جاتے ہیں جنکو بعض ائمہ مجہول یا مستور قرار دیتے ہین، لیکن دوسرے محدثین سے اسکی توثیق وارد ہوتی ہے۔ شائقین حافظ ذہبی کی "الکاشف "اور ابن حجر کی " التہذیب اور " التقریب " کا مراجعہ کرکے میری اس بات کی تصدیق کرسکتے ہین،
مثلا : ابن حجر "التہذیب " میں براء بن ناجية کے متعلق کہتے ہیں :"وقرأت بخط الذهبي في "الميزان " : فیہ جہالة لا يعرف" قلت ( القائل ابن حجر) : قد عرفه العجلي وابن حبان فيكفيه، اھ
پھر " التقریب " میں وہ یہ فیصلہ دیتے ہیں: ثقة٠
ایسی بہت سی مثالیں کتبِ رجال میں موجود ہین، کیونکہ محدث راوی پر مجہول کا حکم اسی لیے لگاتا ھے کہ اس پر اسکے حالات اور ثقاہت مخفی ہوتی ہے یا وہ حکم لگانے میں خود متزلزل ہوتا ہے، تو اسی لیے یا تو خاموش رہتا ہے، یعنی سکوت اختیار کرتا ہے، نہ تعدیل کرتا ہے اور نہ ہی تجریح، یا وہ اپنے ہاں اسے غیر معروف سمجھتا ہے یا پھر اسے مجہول کہہ کر عام حکم لگا دیتا ہے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ جس راوی پر جہالت کا حکم اور تعدیل جمع ہو جائیں تو اس صورت میں ضرور جہالت والے حکم کو ہی مقدم سمجھ کر توثیق کو رد کر دیا جائےگا۔ یہ تو جہالت کا حکم ہے،اگر کسی راوی پر تعدیل وتجریح جمع ہو جائیں تب بھی محدثین کرام جرح کو تب تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ جرح مفسر نہ ھو، یعنی تعدیل کے مقابلے میں جرح بھی اگر غیر مفسر ہے، تو مقبول نہیں تو پھر تعدیل کے مقابلے میں جہالت والا حکم کیسے قبول کیا جا سکتا ہے،،، ؟؟؟
لہذا جن روات کو بعض محدثین کرام نے مجہول قرار دیا ہے یا ان پر سکوت اختیار کیا ہے، اور امام عجلی یا کسی اور محدث سے اسکی تعدیل وتوثیق ثابت ہے، تو اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ ان معدلین نے مجاہیل کی توثیق کردی ہے.....؟؟؟
اگر یہ طریقہ رہا اور اسکی وجہ سے تساہل کا الزام عائد ہوگا تو پھر اس طرح اس الزام سے شاید کوئی بھی محدث نہیں بچ سکے گا، کیونکہ اس طرح ائمہ کرام میں کثرت کے ساتھ تعدیل وتجہیل کا اختلاف پایا جاتا ہے، کسی نے مجھول کا حکم لگایا ہوتا ہے تو کوئی تعدیل کر رہا ہوتا ہے۔ یہ امر کتب رجال سے شغف رکھنے والوں پر مخفی نہیں ۔ اس طرح تو پھر سارے کے سارے محدثین کرام متساہل ٹھہرینگے، پھر کوئی بھی اس حکم سے مستثنی نہین رہیگا، اگر اس طرز سے یعنی باقی محدثین کرام کے تعدیل وتجہیل کے اختلاف سے ائمہ پر تساہل کا الزام نہیں لگ سکتا تو پھر امام عجلی پر یہ الزام کیوں .....؟؟؟
علامہ معلمی کے بقول " امام عجلی کے نزدیک طبقہ تابعین گویا سارے کا سارا ثقات کے حکم میں ہے " تو یہ بات بھی محل نظر ہے، کیونکہ امام عجلی سے روات پر ــ چاہے طبقہ تابعین ہو یا غیر تابعین ـــ مجہول کا حکم لگانا ثابت ہے، اگر ان کے نزدیک ہر وہ راوی جو جرح سے خالی ہو ثقہ ہوتا، تو پھر وہ انکو مجہول کیوں قرار دیتے ....؟؟؟
ذیل میں وہ روات ذکر کر رہا ہوں جن کو امام عجلی نے اپنی کتاب "معرفة الثقات " میں مجہول قرار دیا ہے:
۱ ــ ثعلبة بن عباد العبدي،مجہول ( ۱/ ۲۶۱)
امام ترمذی اس راوی کی حدیث کو جامع ترمذی میں ذکر کر کے کہتے ہیں : "حسن صحیح "
یعنی یہ راوی امام ترمذی کے نزدیک ثقہ وصدوق ہے، جبکہ امام عجلی کے نزدیک وہ مجہول ہے.
۲ ـــ علی العقیلی، مجہول، (۱/۱۵۹)
۳ ـــ یحیی بن عباد السعدی، مجہول بالنقل، لا یقیم الحديث، حديثه يدلك علي صعفه، (۲/۳۵۴)
۴۴- شعیب بن میمون الواسطی
اگر امام عجلی کے نزدیک ہر مجہول یا مستور ثقہ ہوتا تو وہ ان روات کو مجہول کیوں کہتے؟
یحیی بن عباد پر جو انہوں رائے دی ہے اس سے تو بالکل واضح ہے کہ امام عجلی روات کی روایات کو پرکھتے تھےاور تتبع کر کے پھر ہی اس پر جرح یا تعدیل کا حکم لگاتے تھے۔ انھوں نے یحیی پر جہالت کا حکم لگایا اور پھر یہ بھی وضاحت کر دی کہ اسکی احادیث میں ضعف بالکل واضح ہے، لہذا معلوم ہوا کہ امام عجلی مجہول یا مستور کی توثیق نہیں کرتے تھے، بلکہ روایات کا تتبع کرکے پھر اسکے مطابق تعدیل یا تجریح کرتے تھے۔
ثعلبہ بن عباد، یہ راوی تابعی ہے اور سمرة بن جندب صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے، جیسا کہ تہذیب الکمال وغیرہ میں ہے، اب دیکھیں اسکو بھی امام عجلی نے تابعی ہونے کے باوجود مجہول قرار دیا ہے۔ اگر انکے نزدیک سارا طبقہ تابعین ثقہ ہوتا تو وہ اسے مجہول کیوں کہتے..؟؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
جہاں تک مجھے معلوم ہو سکا ہے، امام عجلی کی اپنی کتاب "معرفة الثقات " میں زیادہ تر کوشش یہ رہی ہے کہ وہ اس میں کثرت کے ساتھ ثقات تابعین کا طبقہ ذکر کر دیں، کیوںکہ صحابہ رضی اللہ عنھم سے روایت کرنے والا یہی طبقہ ہے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ امام صاحب نے زیادہ تعداد میں جن روات کو ذکر کیا ہے ، وہ ثقہ تابعین ہی ہیں۔
ہمارے پاس بفضل اللہ تعالی امام عجلی کی اصل کتاب الثقات کا قلمی نسخہ موجود ہے۔ "معرفة الثقات " جو مطبوع ہے، وہ ہیثمی اور سبکی کی ترتیب ہے، جس میں روات کو حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ امام عجلی کی اصل کتاب کی ترتیب کچھ مشکل ہے، اس لیے قارئین کی آسانی کے لیے اسے یہ ترتیب دی گئی ہے۔اصل "کتاب الثقات" کی ترتیب اس طرح ہے :
* ـ بصری تابعین( بغیر عنوان بصریوں کا تذکرہ)
* ـ الحجازيون( المدنيون، المكيون، الحجازيون، اليماميون، )
* ـ اليمانيون
* ـ الشاميون
* ـ المصريون
اسکے بعد پھر کوفہ، بصرہ، وغیرہما کے تابعین ذکر کرتے ہیں، ان تمام روات میں زیادہ تر تعداد طبقہ تابعین کی ہے۔ تابعین کے علاوہ دیگر روات کی تعداد قلیل ہے ۔امام عجلی کی اس ترتیب سے واضح ہوتا ہے کہ انکا مقصد یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ ثقات تابعین کو جمع کیاجائے۔ امام صاحب کی کتاب میں روات کی تعداد ۲۳۹۱ ہے۔ ظاہر ھے طبقہ تابعین( روایت کرنے والے) کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر امام صاحب کے نزدیک طبقہ تابعین سارے کا سارا ثقہ ہوتا تو امام صاحب نے جن کا ذکر نہیں کیا وہ کہیں زیادہ ہیں ان سے جن کو امام صاحب نے ذکر کیا ہے، تو پھر ان مخصوص روات کو ذکر کرنا چہ معنی دارد....؟؟
پھر اگر امام صاحب کو متساہل تسلیم کر لیا جائے کہ وہ مجاہیل کی توثیق کرتے ہیں، خصوصا طبقہ تابعین کی ، تو پھر اس میں امام صاحب کا اپنا کیا کمال رہا کہ ائمہ حدیث تو انکو روات کی جرح وتعدیل میں امام احمد و امام یحیی بن معین جیسا بلند مرتبت سمجھتے تھے..؟؟؟
اگر انکی کتاب میں مجاہیل کی توثیق ہے تو پھر محدثین کرام نے انکی کتاب کی تعریف وتوصیف کس وجہ سے کی ہے، ..؟؟
※ حافظ ذہبی فرماتے ہیں :
" حدث عنه ولده صالح بمصنفه في الجرح والتعديل، وهو كتاب مفيد يدل علي سعة حفظه "( تذكرة الحفاظ : 1/ 560)
نیز سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں : " وله مصنف مفيد في الجرح والتعديل، طالعته وعلقت منه فوائد تدل علي تبحره بالصنعة وسعة حفظه" ( 11/ 506)
※ امام صفدی فرماتے ہیں :
" روی عنه صالح بن احمد كتابه في الجرح والتعديل، وهو كتاب يدل علي امامته وسعة حفظه" ( الوافي بالوفيات : 7/79)
※ امام ابن ناصرالدين کہتے ہیں : " کتابہ فی الجرح والتعدیل يدل علي سعة حفظه وقوة باعه الطويل " ( شذرات الذهب : 3/ 266)(۱)
اب بتایا جائے کہ امام عجلی کی کتاب کی محدثین کرام اس حد تک تعریف وتوصیف کیوں کرر ہے ہیں ؟، یعنی یہ کتاب انکی امامت، وسعتِ حفظ اور تبحر فی علم الجرح والتعدیل وغیرہ پر دلالت کرتی ہے، اگر امام عجلی نے اپنی کتاب میں تساہل برتا ہوتا اور ان کے نزدیک طبقہ تابعین پورے کا پورا ثقہ ہوتا، تو کیا ایسی صورت میں مذکورہ بالا محدثین کرام کی اس کتاب پر تعریف وتوصیف کرنا درست ہے....؟؟؟ خصوصا انکی کتاب میں زیادہ تر تعداد تابعین روات ہی کی ہے، جن میں زیادہ تر کی توثیق ہی ہے ....آخر ان محدثین کو انکی کتاب میں ایسا کیا نظر آیا جو اس قدر انکی کتاب کے متعلق رطب اللسان ہیں،،، ؟؟؟ بہرحال اس ساری تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام عجلی کو علم الجرح والتعدیل میں بڑا درک اور ملکہ حاصل تھا، اور وہ قوت ووسعتِ حفظ کے مالک تھے، اگر ان میں تساہل موجود ہوتا تو مذکورہ بالا محدثین کے اقوال عبث ٹھہرتے ہیں.
جب کوئی محدث کسی راوی پر حکم لگانے میں متردد ہوتا ہے، یعنی تعدیل وتجریح میں اسے کوئی پہلو غالب نظر نہیں آتا یا اسکے احوال سے وہ نا واقف ہوتا ہے، تو ایسے میں وہ محدث اس راوی پر سکوت اختیار کرتا ہے، نہ جرحا اس پر کلام کرتا ہےاور نہ تعدیلا، تو امام عجلی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب "معرفة الثقات " میں کافی روات پر سکوت اختیار کیا ہے، گویا یا تو وہ انکے احوال پر مطلع نہیں تھے یا متردد تھے۔ اگر انکے نزدیک مجھول یا مستور روات ثقہ ہوتے تو پھر ان پر سکوت کیوں اختیار کرتے؟ان مسکوت علیہم روات میں تابعین کرام بھی ہیں۔ اب ذیل میں ہم وہ تمام روات ذکر کرتے ہیں جن پر امام عجلی نے سکوت اختیار کیا ھے:
۱ ـ احمد بن شبویہ المروزی،
۲ ـ ابراهيم بن عكرمة بن يعلی بن منية.
۳ ـ ابراہیم بن مرزوق
۴ ـ ابراہیم السعدی.
۵ ـ ازھر بن حمیل
۶ ـ اشعث بن عبدالملک، بصری.
۷ ـ حجاج بن عمرو بن غزية الانصاري،
اس راوي كو امام عجلی نے تابعی قرار دیا ہے، جبکہ ابن حجر نے اسے صحابہ میں شامل کیا ہے،
۸ ـ الحسن بن الحر.
۹ ـ حسین بن کہل.
۱۰ ـ رافع بن ابي رافع الطائي،
امام عجلی اسکے متعلق کہتے ہیں : تابعی، من کبارالتابعین
۱۱ ـ طلیق بن قیس
۱۲ ـ عاصم العدوی.
امام عجلی کہتے ہیں : تابعی، کوفی.
۱۳ ـ العباس بن الولید بن مزید ابوالفضل العذری، من اھل بیروت
۱۴ ـ عبداللہ بن ابی احمد بن جحش الاسدی،
امام عجلی کہتے ہیں : ھو من کبار التابعین.
۱۵ ـ عبدالملک بن اشوع.
۱۶ ـ عبیداللہ بن خلیفة ابوالغريف الهمداني، كوفي.
۱۷ ـ عبید الحمیری،
امام عجلی کہتے ہیں: تابعی.
۱۸ ـ علی بن معبد، یکنی ابا الحسن.
۱۹ ـ عمربن عبداللہ بن یعلی بن.مرة، كوفي
۲۰ ـ قاسم عرفطی،
۲۱ ـ محمد بن احمد.
۲۲ ـ محمد بن ابی سفیان بن العلاء بن جاریة.
۲۳ ـ محمد بن عبدالرحیم
۲۴ ـ محمد بن یاسر، یکنی بابی الیقظان.
۲۵ ـ معاویة بن سلام بن ابي سلام ممطور الحبشي.
۲۶ ـ نافع القارئ .
۲۷ ـ النعمان بن ثابت، ابو حنیفة
۲۸ ـ ھشام بن سلمان المجاشعی.
یہ وہ روات ہیں جن پر امام عجلی نے سکوت اختیار کیا ہے، جن میں تابعین حضرات بھی ہیں، ان رجال میں کچھ ایسے روات بھی ہیں جو مشہور ثقات بھی ہیں اور ضعفاء بھی،ان پر امام عجلی کا سکوت محض اس وجہ سے نہیں کہ ان کے حالات سے آپ ناواقف تھے، بلکہ اسکی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج تک امام عجلی کی کتاب "معرفة الثقات " کا کامل ترین اصل قلمی نسخہ دستیاب نہیں ہوا جو اخطا سے بالکل پاک ہو ۔ جن اصحاب نے موجودہ نسخے "معرفة الثقات " كو مطالعہ میں رکھا ہوگا، ان کو معلوم ہو گا کہ کتاب میں ابھی تک تشنگی باقی ہے، مثلا :
ایک ہی راوی کمی و زیادتی کے ساتھ دو دو دفعہ بھی آگیا ہے،
مثلا ایک راوی ہے: " عمر بن سفينة "مدني، تابعي، ثقة (۲/۱۶۹)
دوسری جگہ اس طرح آ گیا ہے: "عمرو بن سفینة، مدني، تابعي، ثقة (۲/۱۷۷)
بعض دفعہ راوی کا نام بھی آدھا مذکور ہوتا ہے ، مثلا: ایک راوی کا نام اس طرح لکھا ہوا ہے: "محمد بن دہ، ثقة، (۲/۲۳۸) جس پر محقق لکھتے ہیں : "ینظر من ھو؟"
کبھی راوی کا نام اس قدر مختصر ہوتا ھے کہ تعیین مشکل ہو جاتی ہے،مثلا : ایک راوی کا نام اس طرح مذکور ہے: "العفیف، ثقة، تابعي، من كبار التابعين، ( ۲/۱۴۱)
اس پر محقق لکھتے ہیں : "ینظر من ھو المراد، فهناك كثيرون يسمون بهذاالاسم ذكرهم ابن حجر في التهذيب والاصابة.
اسی طرح ایک راوی "القاسم بن.مہران، بصری، ثقة " بھی ہے۔ (۲/۲۱۳)
محقق لکھتے ہیں : ینظر من ھو؟ وقد ذكر ابن حجر في التهذيب اكثر من واحد بهذا الاسم.
روات کے ناموں میں ردو بدل بھی پایا جاتا ہے،اسی طرح امام سبکی اور ہیثمی کے نسخے میں بھی اختلاف پایا جاتا ھے، بہر کیف ایسی کافی ساری باتیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب "معرفة الثقات " کا ابھی تک ایسا مکمل ترین نسخہ دستیاب نہیں ہو سکا جو کلی طور پر ان خطاؤں سے پاک ہو، ...
لہذا جن مشہور ثقات وضعاف پر امام عجلی کا سکوت ہے، تو وہاں یہی سمجھ لیا جائے کہ یہ نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، یا پھر یہ ہو سکتا ھے کہ یہ عدالت یا تضعیف میں اس قدر مشہور ہوں کہ انہیں ایسے ہی چھوڑدیا گیا ہے ۔
بہرحال : ان روات( چند کو چھوڑ کر) پر امام عجلی حکم لگانے کے حوالے سے یا تو متردد تھے یا پھر ان کے احوال سے ناواقف تھے، جن میں تابعین کرام بھی ہیں، لہذا ان پر سکوت اختیار کیا، ان صاحب کے بقول تو مسکوت عنہم روات مجہول ہی ٹھہرینگے!!
یہ مثالیں دیکر ھم نے واضح کر دیا کہ اگر انکا یہ منہج ہوتا تو وہ قطعا روات کو مجہول نہ کہتے اور نہ ان پر سکوت اختیار کرتے، بلکہ سیدھا ان کی تعدیل وتوثیق کر دیتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ بعض کو مجہول کہا اور اسی طرح دوسروں پر سکوت اختیار کیا.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) "معرفة الثقات "للعجلی کے محقق شیخ عبدالعلیم عبدالعظیم البستوی نے (۱/۶۹)یہ قول ابن العماد الجزری کا بنا دیا ہے، جبکہ یہ قول ابن ناصرالدین دمشقی کا ہے، حالانکہ اس سے پہلے صفحہ نمبر(۱/۵۹) پر اسے حوالے کے ساتھ انہوں نے ابن ناصر الدین کی طرف ہی منسوب کیا ہے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
ملتقی اھل الحدث عربی فورم پر ایک صاحبِ علم ابو معاذ حفظہ اللہ تعالی کا مقالہ نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے امام عجلی کی کتاب میں مذکور رواۃ کا تتبع کیا ہےاور تتبع کے بعد درج ذیل نتیجہ بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
" ومن خلال بحثي عمن وثقه العجلي رحمه الله، وقد تكلم فيهم غيره من المترجمين في التهذيب ، فقد خرجت بالنتائج التالية:
• عدد الرواة الذين وثقهم العجلي ممن ذُكرت تراجمُهم في التهذيب 1584 راويا ..
• عدد الرواة الذين وافق العلماء المعتبرون العجليَّ في توثيقهم، وليس له في توثيقهم مخالف في التهذيب 838 راويا، وتمثل نسبتهم 52.9% ممن وثقهم العجلي ممن هم في التهذيب ..
• عدد الرواة الذين وثقهم العجلي وقد تكلم فيهم بعض العلماء في التهذيب (بجرح في العدالة أو الضبط أو وصف بالجهالة)، وهم على شرط البحث، وقد شملتهم الدراسة 400 راو، وهو يمثل ما نسبته 25.25% ممن وثقهم العجلي ممن هم في التهذيب ..
• من هؤلاء الـ 400 راو وجدت موافقا للعجلي من العلماء في تراجم 391 راويا، وبهذا تصبح نسبة الرواة الذين وثقهم العجلي وقد وافقه غيره من العلماء على توثيقهم 77.58% من مجموع الرواة الذين وثقهم العجلي وهم في التهذيب ..
• عدد الرواة الذين وثقهم العجلي وقد تكلم فيهم بعض العلماء، ولم أجد له موافقا على توثيقهم 9 رواة، وهو يمثل ما نسبته 2.25% ممن وثقهم وتكلم فيهم العلماء، ويمثل نسبة 0.56% من مجموع من وثقهم العجلي وهم في التهذيب ..
وهناك نتائج أخرى يطول بشرحها المقام، علما بأن هذا البحث اعتمد في الأساس على طبعة البستوي – على ما فيها – في التعداد والجرد ونحوه ..
فإذا ما تبين لنا أن العجلي موافق من العلماء المعتبرين في توثيقه لأكثر من ثلاثة أرباع من وثقهم عموما، وأنه موافق في توثيق 97.75% ممن تكلم فيهم غيره، *علمنا أنه عالم معتبر الأقوال، وأنه يعتمد في توثيقه على العلم لا على الجهل* "
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ امام عجلی کی توثیق کا تناسب باقی ائمہ کرام کے مقابلہ میں کس قدر قریب ھے۔ کیا اس وضاحت کے بعد بھی کہا جائیگا کہ امام عجلی متساہل ھیں،۰۰۰۰؟؟؟
اب ہم ذیل میں ان ائمہ کرام کا ذکر کرتے ہیں جنھوں نے امام عجلی کے اقوال کو اپنی کتب میں ذکر کرکے ان پر اعتماد کیا ہے .
۱ ـ حافظ خطیب بغدادی، فی تاریخہ
۲ ـ حافظ ابن عساکر، فی تاریخ دمشق،
۳ ـ امام ابن تیمیہ، في اقتضاء الصراط۰
۴ ـ امام ابن الجوزی فی کتبہ،
۵ ـ امام المزی، فی تھذیب الکمال،
۶ ـ الحافظ الذہبی، في كتبه،
۷ ـ الحافظ ابو المحاسن محمد بن علی الحسن الحسینی الدمشقی، فی "الاکمال فی ذکر من لہ رواية في مسند احمد سوی من ذكر في تهذيب الكمال،
۹ ـ الحافظ ابن رجب، فی جامع العلوم والحکم،
۱۰- الحافظ ابو زرعة العراقي، فی ذیل الکاشف.
۱۱ ـ الحافظ ابن حجر فی کتبہ .
۱۲ ـ الحافظ السخاوی، فی کتبہ.
۱۳ ـ امام ابن القطان الفاسی، فی بیان الوہم والایھام وغیرہم.
یہ محدثین کرام امام عجلی سے انکے اقوال کو اپنی کتب میں نقل کرکے ان پر اعتماد کرتے ھیں اور بسااوقات محض امام عجلی ہی کا قول نقل کرکے راوی کی تعدیل وتوثیق کرتے ھیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب التہذیب میں راوی کی توثیق کرتے ھوئے کئی مقامات پر کہتے ہیں: "وثقہ العجلی "
یعنی صرف امام عجلی کی توثیق ذکر کرکے راوی کو ثقہ قرار دیتے ھیں۔
ایک عربی فورم میں کسی صاحب نے حافظ ابن حجر کے اس طرزِ استدلال سے یہ امر ثابت کرنے کی کوشش کی ھے کہ اگر حافظ ابن حجر واقعی امام عجلی کی توثیق پر اعتماد کرتے ہوتے تو پھر وہ سیدھا اسکو " ثقہ "کہہ دیتے، وہ " وثقہ العجلی "کیوں کہتے ھیں،،، ؟؟ یعنی انکے نزدیک امام عجلی کی توثیق قابل اعتماد نہیں تھی یا امام عجلی کی توثیق پر وہ متردد ہوتے تھے، اس لیے بس "وثقہ العجلی " کہہ دیتے تھے، لیکن خود اسکو ثقہ نہیں قرار دیتے ۔
تو عرض ہے :
اولا : ابن حجر نے "تقریب " میں محض امام عجلی ہی کی توثیق پر اعتماد کرتے ہوئے راوی کو ثقہ یا صدوق بھی کہا ھے،
ثانیا: اگر حافظ ابن حجر کے اس طرزِ استدل سے امام عجلی کے اقوال پر عدمِ اعتماد مراد لینا درست ھے تو اسی طرح حافظ ابن حجر "تقریب " میں باقی محدثین کرام کی توثیق کے اقوال بھی ذکر کرتے ہیں ، تو کیا وہ بھی انکے نزدیک ناقابل اعتماد ھیں ....؟؟
ثالثا: حافظ ابن حجر " وثقہ العجلی " کہہ کر کیسے عدم اعتمادی کی طرف اشارہ کرینگے، جبکہ وہ خود حافظ ذہبی کا قول رد کرتے ھوئے امام عجلی کی توثیق نقل کرتے ھیں ..؟!
بہر حال حافظ ابن حجر جا بجا صرف امام عجلی ہی سے توثیق نقل کرکے اس پر اعتماد کرتے نظر آتے ہیں، اسی طرح دیگر ائمہ رجال بھی بعض اوقات اختلاف یا عدم وجود تعدیل کی صورت میں امام عجلی کی تعدیل کو پیش کرکے راوی کی توثیق کرتے ھیں۔ اب ذیل میں اس کی کچھ مثالیں ملاحظہ کریں ۔
※ امام ابن ابی حاتم ایک راوی کو مجہول کہتے ھیں تو حافظ ذہبی ان کی بات کو رد کرنے کے لیے امام عجلی سے توثیق نقل کر دیتے ھیں، اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں۔
امام ذہبی نے ایک راوی عبدالله بن فروخ کو میزان الاعتدال میں ذکر کر کے امام ابن ابی حاتم سے انکا یہ قول " مجهول" نقل کیا ہے اور پھر کہتے ہیں: " قلتُ: بل صدوق مشهور، حدث عنه جماعة، وثَّقه العجلي"
اب دیکھیں، امام ابن ابی حاتم اس راوی کو مجہول قرار دے رھے ہیں،لیکن امام عجلی نے اسکی توثیق کر رکھی ہے، تو حافظ ذہبی اسکے نقض کے لیے صرف امام عجلی کی توثیق ہی نقل کر رھے ھیں، کسی اور محدث کی توثیق ذکر نہیں کرتے ، جس سے واضح ہو گیا کہ امام عجلی مجاہیل کی توثیق نہیں کرتے تھے، ورنہ حافظ ذہبی امام عجلی کے قول کو رد کر دیتے اور امام ابن ابی حاتم کے قول کو مقدم کرتے۔
※ حکم بن عبداللہ البصری.
امام ابن ابی حاتم نے اسکو مجہول کہا ھے،
جس پر ابن حجر کہتے ہیں : قلت : ليس بمجهول من روی عنه اربعة ثقات ووثقه العجلي
( هُدَی الساري، مقدمة فتح الباري : ۳۹۸)
※ سعید بن حیان راوی کو امام ابن القطان نے جب مجہول کہا تو ابن حجر اس پر نقض کرتے ہوئے کہتے ھیں : لم یقف ابن القطان علی توثیق العجلی فزعم انہ مجہول،
یعنی ابن القطان ،امام عجلی کی توثیق پر مطلع نہیں ہو سکے ، اس لیے انھوں نے اسکو مجہول کہا ہے۔ ( تہذیب التہذیب : ۲/۱۸)
※ کثیر بن ابی کثیر البصری مولی عبدالرحمن بن سمرة.
ابن حجر کہتے ہیں : وزعم عبدالحق تبعا لابن حزم انه مجهول، فتعقب ذلك عليه ابن القطان بتوثيق العجلي .
یعنی عبدالحق نے ابن حزم کی اتباع میں اسکو مجہول سمجھا، تو ابن القطان نے عجلی کی توثیق سے اسکا تعاقب کردیا۔
ان امثلہ ثابت ہوا کہ محدثین کرام امام عجلی کو قابلِ اعتماد اور جرح وتعدیل کا معتبر امام سمجھتے تھےاور انکے اقوال کو اپنی کتب میں نقل کرکے ان سے حجت پکڑتے تھے..والحمدللہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
چند ایسے رواۃ کو پیش کر کے( جنکو بعض ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہوتا ھے اور امام عجلی انکی توثیق کرتے ہیں) امام عجلی کا تساہل ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس پر عرض ہے کہ ایسے روات بہت ہی قلیل تعداد میں ہیں، جن میں امام عجلی باقی ائمہ کرام سے راوی کی تعدیل میں اختلاف کرتے نظر آتے ہیں۔ آخر وہ جرح وتعدیل اور اسماء الرجال کے بہت بڑے معتبر امام ہیں، بنا بریں اگر انھوں نے چند روات ( جن کی تعداد بھی انتہائی قلیل ہے) میں دوسرے محدثین کرام کی مخالفت کردی تو اس میں کیا حرج ھے؟ کیا دوسرے ائمہ کے کلام میں ایسا نہیں ہوتا ؟!
جرح وتعدیل میں اختلاف ہو جانا کوئی ایسا امر تو نہیں جس کی وجہ سے تساہل کا الزام عائد کر دیا جائے۔ کیا دوسرے ائمہ حدیث کا روات کی جرح وتعدیل میں کثرت سے اختلاف موجود نہیں؟ کیا اس مخالفت کے باعث ھم ان باقی محدثین کو بھی متساہل کہہ سکتے ہیں..؟؟
اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو پھر صرف امام عجلی ہی اس الزام کی وجہ سے متساہل کیوں....؟؟؟؟
بہرحال تساہل کو ثابت کرنے کے لیے یہ دلیل بھی انتہائی کمزور ھے، اس سے اتنے بڑے جراح ونقاد امام کو متساہل نہیں ثابت کیا جاسکتا۔
ان صاحب نے جو علامہ البانی، شیخ شعیب اور دکتور بشار عواد وغیرہ سے امام عجلی کا تساہل نقل کیا ھے تو ان تمام " متاخرین حضرات" نے علامہ معلمی کے اتباع میں ایسا کہا ھے، اور ہم نے دلائل سے واضح کر دیا ہے کہ علامہ معلمی وغیرہ کے اعتراضات سے امام عجلی جیسے عظیم محدث وامام کو متساہل قرار نہیں جا سکتا اور پھر اس بنا پر ان کی توثیق کو رد کر دینا بھی درست نہیں ۔
مذکورہ بالا بعض علمائے کرام کے بھی امام عجلی کے تساہل پر یہی اعتراضات ھیں، انہوں نے کوئی نئے اعتراضات پیش نہیں کیے کہ ھم انکا جواب دیں، لہذا سردست ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، البتہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا اس حوالے سے ایک قول بہت عجیب لگا ہے، جسے ہم ذکر کیے دیتے ہیں۔
آپ فرماتے ھیں :
" فالعجلی معروف بالتساہل فی التوثیق"
یعنی امام عجلی کا توثیق میں تساہل معروف ہے۔ ( السلسلة الصحيحة :۲/ ۲۱۹)
تو اس پر عرض ہے کہ امام عجلی کو تو علامہ معلمی سے قبل کسی بھی محدث وامام نے متساہل نہیں کہا اور نہ ان ( علامہ ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ ) کے ہم عصر علماء ان کو متساہل سمجھتے تھے، اور آج بھی اہل علم کی اکثریت امام عجلی کو متساہل نہیں سمجھتی،جب صورتحال یہ ہے یعنی انکا تساہل ثابت ہی نہیں، تو اسے معروف کہنا تو کسی طرح سے درست قرار
نہیں دیا جا سکتا۔
خلاصہ
درج بالا تحریر سے ــ بحمد اللہ تعالی ــ ثابت ہو گیا کہ امام عجلی ایک بہت بڑے امام، محدث، جراح ونقاد اور حافظِ حدیث تھے، وہ بھی باقی محدثین کرام کی طرح اپنے اقوال میں معتمد ہیں اور ائمہ حدیث نے انہیں قابل اعتماد سمجھ کر انکے اقوال اپنی کتب میں ذکر کر کے ان سے حجت پکڑی ہے، ان کے تساہل پر پیش کیے جانے والے تمام دلائل بالکل کمزور ہیں، لہذا امام عجلی پر بھی جرح وتعدیل میں دوسرے محدثین کرام کی طرح ہی اعتماد کیا جائیگا، چاھے وہ توثیق میں منفرد ہی کیوں نہ ہوں۔ کسی راوی کی توثیق میں انکا منفرد ہوجانا کسی طرح بھی مضر نہیں، والحمدللہ.
بعض اغلاط
ان صاحب نے اپنی کتاب کے اندر مذکورہ بالا عنوان ( متساہلین محدثین کا تذکرہ) میں چند غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے ، جنھیں ہم ذیل میں واضح کرتے ہیں ۔
۱ ـ موصوف لکھتے ہیں :
"محدث العصر الشیخ عبدالرحمن بن یحی معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : امام عجلی، امام ابن حبان سے مجاہیل
( یعنی مجہول راویوں) کی توثیق میں بہت مشابہ ہیں۔" ( اصول حدیث : ۳۴۵)
قارئین عظام ! علامہ معلمی کے مذکورہ بالا حوالے میں یہ الفاظ ہیں: (( والعجلی قریب منہ فی توثیق المجاھیل من القدماء))
یعنی انہوں نے اپنے اس کلام میں "قدماء " یعنی تابعین کی قید لگائی ہے اور ان کی اس عبارت کا مطلب یہ ھے کہ امام عجلی مجہول تابعین کی توثیق میں امام ابن حبان کے مشابہ ہیں ۔
علامہ معلمی کی ذکر کردہ یہ عبارت اور موصوف کی ذکر کردہ عبارت کو ملاحظہ کیا جائے، تو دونوں میں فرق بالکل واضح ھے، ان صاحب کے ذکر کردہ کلام میں عموم ھے اور میرے ذکردہ کلام میں " قدماء " کی قید ھے. دونوں کا مفہوم اور مطلب بھی بالکل مختلف ہے، تو ان صاحب نے لفظ " قدماء " کو کیوں ذکر نہیں کیا؟! اس کی وجہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۰۰۰!!
۲ ـ موصوف لکھتے ہیں :
"امام ابن حجر عسقلانی، امام عجلی کے ایک راوی ( مجہول) کو ثقہ کہنے کے بعد لکھتے ھیں : "ولم يقف ابن القطان علي توثيق العجلي فزعم أنه مجهول" . اور امام ذہبی نے بھی امام عجلی کی توثیق رد کرتے ہوئے اس راوی کو "لا یکاد یعرف " یعنی مجہول ہی کہا ہے۔" ( اصول حدیث : ۳۴۵)
قارئین ! یہ صاحب امام ابن القطان اور حافظ ذہبی کا مذکورہ بالا جہالت والا حکم ذکرکر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دونوں امام عجلی کی توثیق کو معتبر نہیں سمجھتے تھے، حالانکہ انکی یہ بات بداہتاً غلط ھے۔ ویسے ابن القطان کے حوالے سے اگر وہ تھوڑا سا بھی ابن حجر کے اسی کلام پر غور کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ابن حجر یہ کہنا چاہ رھے ھیں کہ ابن القطان کے نزدیک بھی امام عجلی کی توثیق معتبر ھے، لیکن انہوں نے مذکورہ بالا راوی کو اس لیے مجہول قرار دے دیا ہے کہ انہیں امام عجلی کی توثیق کا علم نہیں تھا، یعنی اگر وہ امام عجلی کی توثیق پر مطلع ہوتے تو وہ کبھی اسے مجہول نہ کہتے، بلکہ اسے ثقہ قرار دیتے۔ اور حافظ ابن حجر کی یہ بات بالکل درست ھے، کیونکہ امام ابن القطان امام عجلی کے اقوال پر اعتماد کرتے تھے، جیسا کہ پیچھے ہم بیان کر آئے ھیں کہ حافظ عبدالحق اشبیلی نے ایک راوی کو مجہول کہا تو امام ابن القطان نے اسکا تعاقب کیا اور اس پر امام عجلی کی توثیق پیش کر دی۔
لیکن تعجب ھے موصوف کے اس "طرز ِتحقیق" پر کہ ایک تو اس عربی عبارت کا مفہوم ہی نہ سمجھ پائےکہ جو دلیل ان کے خلاف تھی ، اسے ہی نا سمجھی کی بنا ہر اپنی دلیل ٹھہرا لیا ۰۰۰!!!
باقی رہے حافظ ذہبی ..تو وہ بھی امام عجلی کو معتبر ومعتمد ہی سمجھتے تھے، جیسا کہ عبداللہ بن فروخ کے حوالے سے پیچھے ھم بیان کر آئے ھیں کہ اسے امام ابن ابی حاتم نے جب مجہول کہا تو حافظ ذہبی نے ان کا تعاقب کرتے ھوئے امام عجلی کی توثیق پیش کرکے اسے ثقہ قرار دیا،
مزید برآں ان صاحب نے حافظ ذہبی کے حوالے سے جس راوی" سعید بن حیان " کی جہالت کا ذکر کیا ہے تو میزان میں اگرچہ حافظ ذہبی نے اس کو "لا یکاد یعرف " ہی کہا ھے، مگر " الکاشف "میں اسے ذکر کرکے اسکی توثیق کرتے ھیں، انکے الفاظ ہیں : سعید بن حیان التیمی ، ابو یحیی الکوفی .......ثقة ( ۲/۴۷۶)
ہو سکتا ھے حافظ ذہبی پہلے امام عجلی کی توثیق پر مطلع نہ ہوئے ہوں، پھر جب مطلع ہوئے تو امام عجلی کے اس قول پر اعتماد کرتے ہوئےاسکی توثیق کر دی۔ لیکن تعجب تو ہمیں اپنے اس " محقق " پر ہے کہ وہ کس طرح دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں اور پوری بات کو سمجھے اور جانے بغیر ہی اپنی " تحقیق " پر نازاں و فرحاں امام عجلی کے تساہل پر زور دیے جا رہے ہیں ، جو بقول ان کے صرف "متاخرین ناقلین" کی ایجاد ہے، پھر بھی اس پر اتنا بھروسا ہے لیکن جہاں متاخرین ناقلین کی بات اپنی " تحقیق " اور خواہش کے خلاف نظر آئے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ فیا للعجب و ضیعة الادب ۰۰۰۰۰!!!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
امام ترمذی کا تساہل
موصوف نے امام ترمذی کے تساہل کے حوالے سے درج ذیل "متاخرین ناقلین "ائمہ اور علماء سے بعض اقوال نقل کرکے انہیں متساہل ثابت کیا ہے اور انکی تصحیح، تحسین اور توثیق کو مطلقا قابلِ رد کہا ہے:
* ـ حافظ ذہبی،
* ـ امام ابن دحیة
* ـ حافظ ابن حجرالعسقلاني
* ـ امام عبدالرحمن السخاوي
* ـ علامہ عبدالرحمن مباركپوری
* ـ علامہ ناصرالدین البانی
* ـ علامہ زاہد الکوثری
( اصول حدیث : ۳۴۶ ـ ۳۶۷)
آگے بڑھنے سے قبل ان صاحب کی "دانشوری" اور "تحقیق " ملاحظہ فرماتے جائیں۔ لکھتے ہیں :
"محققین اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ امام ترمذی حدیث اور راویوں کی تحسین وتصحیح کے معاملہ میں بہت متساہل واقع ہوئے ہیں۔"
( ایضا)
اولا : انکا یہ کہنا " امام ترمذی حدیث اور راویوں کی تحسین وتصحیح " کس قدر عجیب ھے!
کیونکہ تحسین وتصحیح روات کی نہیں، بلکہ احادیث وروایات کی ہوتی ہے۔ یہ صاحب "روات اور روایات " دونوں کو ایک ہی سانچے میں ڈھالتے ہوئے چلتے بنے.
ثانیا : انہوں نے امام ترمذی کے تساہل کے حوالے سے اہل علم کے جس "اتفاق" کی بات کی ھے، تو انکو یہ اتفاق کہاں سے ملا ...؟؟ آیا انکو محدثین کرام سے اس " اتفاق " پر کوئی نص ملی ھے یا انہوں نے محض اپنا "اجتہاد" پیش کیا ھے؟
بہر کیف انکے اتفاق کے ذکر کرنے کی جو بھی وجہ ہو، لیکن انکی یہ بات سرا سر غلط ھے۔ کسی مسئلے پر اتفاق واجماع کا دعوی کرنا بہت بڑا کام ہے۔ معلوم نہیں ان صاحب نے جلد بازی میں اتنا بڑا دعوی کیسے کردیا، ..؟!!
میرے ناقص علم کی حد تک آج تک کسی بھی عالم ومحدث نے امام ترمذی کی تحسین وتصحیح میں تساہل کے حوالے سے اتفاق کی بات نہیں کی ، بلکہ اس مسئلے میں اختلاف پایا جاتا ھے۔ حتی کہ بعض علماء تو سرے ہی سے امام ترمذی کے تساہل کی نفی کرتے ھیں۔
ملاحظہ کریں کہ اس مسئلے میں حافظ عراقی رحمہ اللہ امام ذہبی کا رد کرتے ہوئے کیا فرماتے ہیں۔
امام شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں :
" قَالَ الذَّهَبِيُّ فِي الْمِيزَان: فَلِهَذَا لَا يَعْتَمِد الْعُلَمَاءُ عَلَى تَصْحِيحِ التِّرْمِذِيِّ۰ قَالَ الْعِرَاقِيُّ: لَا يُقْبَل هَذَا الطَّعْن مِنْهُ فِي حَقّ التِّرْمِذِيِّ، وَإِنَّمَا جَهَّلَ التِّرْمِذِيَّ مَنْ لَا يَعْرِفهُ كَابْنِ حَزْمٍ ، وَإِلَّا فَهُوَ إمَام مُعْتَمَد عَلَيْهِ، وَلَا يَمْتَنِعُ أَنْ يُخَالِف اجْتِهَادُه اجْتِهَادَ غَيْره فِي بَعْض الرِّجَال"
اب بتائیے! وہ مزعومہ دعوائے اتفاق کہا گیا ؟
قارئین کرام ! امام ترمذی پر تساہل کا الزام ائمہ متقدمین سے قطعا ثابت نہیں، بلکہ پہلے پہل امام ابن تیمیہ نے امام ترمذی کے تساہل کا دعوی کیا،اسکے بعد دیگر اہل علم نے بھی انکو متساہل کہا ہے ۔ لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ ائمہ متقدمین میں سے نہیں، بلکہ ائمہ متاخرین میں سے ہیں،جبکہ ان صاحب کے نزدیک ائمہ متاخرین، ائمہ متقدمین کے مقابلے میں حجت نہیں،کیونکہ وہ تو محض " ناقلین " ہیں ،لہذا جب امام ترمذی کا تساہل ائمہ متقدمین سے ثابت ہی نہیں،یعنی وہ انکو متساہل نہیں سمجھتے تھے، بلکہ یہ بات متاخرین نے کی ہے تو پھر یہاں اپنے ہی وضع کردہ اصول سے انحراف کیوں ؟؟موصوف ائمہ متاخرین کے اتباع میں امام ترمذی پر تساہل کا الزام کیوں عائد کررھے ھیں؟
معلوم ہونا چاھیے کہ پہلے پہل امام ترمذی کے حوالے سے تساہل کی بات امام ابن تیمیہ نے کی ہے، اسکے بعد پھر کچھ دوسرے " متاخرین " ائمہ کرام نے بھی انکو متساہل قرار دیا۔
امام ترمذی کے تساہل کے حوالے سے ائمہ کرام کی مختلف آراء ہیں جو ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
۱ ـ مطلقا متساہل ھیں، بغیر کسی قید کے، ( یعنی احادیث کی تصحیح اور تحسین میں متساہل ہونے کی قید کے بغیر)
۲ ـ احادیث کی تصحیح و تحسین دونوں میں متساہل ھیں۔
۳ ـ صرف احادیث کی تصحیح میں متساہل ہیں۔
۴ ـ صرف احادیث کی تحسین میں متساہل ہیں۔
۵ ـ سرے سے متساہل ہی نہیں۔
پہلے موقف کے حاملین امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن رجب وغیرہ ہیں۔ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں:
« وتصحيح الحاكم دون تحسين الترمذي »
یعنی حاکم کی تصحیح ترمذی کی تصحیح سے کم درجہ رکھتی ھے۔
اسی طرح " الفتاوى الكبرى" (1\97) میں کہتے ہیں:
«إن أهل العلم متفقون على أن الحاكم فيه من التساهل والتسامح في باب التصحيح. حتى أن تصحيحه دون تصحيح الترمذي »
یعنی اھل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حاکم ( حدیث) تصحیح کے باب میں متساہل اور متسامح ہیں، یہاں تک کہ ان کی تصحیح کا درجہ ترمذی کی تصحیح سے بھی کمتر ہے ۔
اسی طرح 'مجموع الفتاوی میں کہتے ھیں :
« ان تصحيح الترمذي اعلی من تصحيح الحاكم و دون تصحيح مسلم »
یعنی ترمذی کی تصحیح حاکم کی تصحیح سے اعلی اور مسلم کی تصحیح سے کم تر ہے۔
دیکھیں، شیخ الاسلام یہاں امام حاکم کی تصحیح کا امام ترمذی کی تصحیح و تحسین سے موازنہ کر رہے ہیں اور امام ترمذی کی تصحیح کو ان سے بہتر اور امام مسلم کی تصحیح سے کم کہہ رہے ہیں، جس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ رہی ہے کہ شیخ الاسلام کے نزدیک امام ترمذی کی تصحیح مطلقا قابلِ رد نہیں ہے۔
حافظ ابن رجب "شرح العلل " میں امام ترمذی کے تساہل کی طرف گئے ہیں اور انہوں نے رجال کے نقد میں امام ابوداود کو امام ترمذی سے سخت قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر بھی اسی موقف کے حامل ھیں۔ (ملاحظہ ہو :فتح الباری)
اسی طرح امام سخاوی کا طرز عمل بھی یہی ہے۔ فرماتے ہیں : "وقسم منهم متسمح، كالترمذي....الخ"
( المتكلمون في الرجال : ۱۴۴)
# ـ دوسرا موقف،یعنی امام ترمذی کا احادیث کی تصحیح میں تساہل برتنا، یہ موقف امام ابن القیم کا ہے۔ آپ فرماتےھیں: « والترمذي فيه نوع تساهل في التصحيح »
مزید کہتے ہیں: " مع ان الترمذي يصحح احاديث لم يتابعه غيره علي تصحيحها، بل يصحح ما يضعفه غيره او ينكره" (الفروسیة)
دیکھیں، امام ابن قیم نے یہاں تساہل کو "تصحیح " کے ساتھ مقید کیا ھے، اسی طرح امام ہیثمی نے بھی علماء سے " امام ترمذی کے تصحیح میں تساہل برتنے " کی صراحت کی ھے۔ (توضیح الافکار)
# ـ تیسراموقف ھے احایث کی تحسین میں تساہل برتنا.
اس کے قائل امام ابو الخطاب ابن دحیة الكلبي (المتوفي سنة ۶۳۳ اھ) ہیں، چنانچہ آپ اپنی کتاب "العلم المشہور "میں کہتے ہیں : «وكم حسن الترمذي في كتابه من احاديث موضوعة واسانيد واهية »( نصب الراية : ۲/۲۱۷)
بعض اہل علم نے تو امام ابن دحیہ کے اس قول کو غلو قرار دیا ہے۔
# ـ چوتھا موقف یعنی احادیث کی تحسین وتصحیح( دونوں) میں تساہل برتنا،
اس موقف کے حاملین، حافظ ذہبی،امام زیلعی، محدث مبارکپوری، علامہ البانی، رحمہم اللہ، وغیرہم ہیں۔
حافظ ذہبی احادیث کی تحسين میں امام ترمذی کے تساہل کے متعلق يحيي بن اليمان کے ترجمے میں فرماتے ہیں :
«حسنه الترمذي مع ضعف ثلاثة، فلا يغتر بتحسين الترمذي، فعندالمحاققة غالبها ضعاف» ( ميزان الاعتدال : ۴/۴۱۶)
نیز احادیث کی تصحیح میں تساہل کے حوالے سے كثير بن عبدالله المزني کے ترجمے میں کہتے ہیں: «لا يعتمد العلماء علي تصحيح الترمذي »( ۳/۴۰۷)
باقی زیلعی کا موقف "نصب الراية ( ۱/۳۵۲) میں ،محدث مبارکپوری کا مقدمة تحفة الاحوذي (۳۵۱) میں اور علامہ ناصر الدین الالبانی کا "سلسلة ضعيفة " میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے.
#_ پانچواں موقف، یعنی امام ترمذی سے مطلقا عدم تساہل کی نفی، یہ موقف امام امام عراقی کا ھے۔ آپ حافظ ذہبی کے مذکورہ بالا قول " لا يعتمد العلماء علی تصحيح الترمذي " کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
«لَا يُقْبَل هَذَا الطَّعْن مِنْهُ فِي حَقّ التِّرْمِذِيِّ، وَإِنَّمَا جَهَّلَ التِّرْمِذِيَّ مَنْ لَا يَعْرِفهُ كَابْنِ حَزْمٍ وَإِلَّا فَهُوَ إمَام مُعْتَمَد عَلَيْهِ، وَلَا يَمْتَنِع أَنْ يُخَالِف اجْتِهَاده اجْتِهَاد غَيْره فِي بَعْض الرِّجَال»
امام عراقی کا موقف یہ ھے کہ اگر امام ترمذی رجال پر حکم لگانے میں محدثین سے مختلف رائے رکھتے ہیں تو یہ انکا اپنا اجتہاد ھے، اس سے امام ترمذی کو مطعون نہیں کیاجاسکتا۔

* مناقشہ *
قارئین عظام ! مذکورہ بالا پانچوں مواقف کے خلاصے کو ھم دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
۱ ـ جن محدثین عظام نے امام ترمذی پر تساہل کا حکم لگایا ھے ، ان کی آراء سے واضح ہوتا ھے کہ امام ترمذی احادیث کی تصحیح وتضعیف میں مطلقا متساہل نہیں کہ انکے ہر حکم کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے، جیسا کہ ہمارے "محقق موصوف " نے سمجھ رکھا ھے، یہاں تک کہ حافظ ذہبی بھی خود امام ترمذی کی تصحیح کو قابلِ حجت سمجھتے ھیں، چنانچہ اپنی کتاب " الموقظة " میں ثقہ راوی پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں:
« وان صحح له مثل الترمذي ....فجيد ايضا» ( الموقظة : 78)
اب دیکھیں، جس راوی کی حدیث کی امام ترمذی تصحیح کر دیں تو حافظ ذہبی انکے حکم کو "جید" کہہ کر قابل حجت تسلیم کر رھے ہیں۔
اس سلسلے میں کسی بھی محدث کا مطلقا عدمِ حجیت کا موقف نہیں، بلکہ مخصوص احادیث میں ان سے تساہل ہو گیا ھے، لہذا امام ترمذی کے تساہل کو محدود تصور کر لیا جائیگا۔ رہا حافظ ذہبی کا یہ کہنا: «لا يعتمد العلماء علي تصحيح الترمذي » تو امام عراقی شرح الترمذي میں اسکی تردید کرتے ہیں کہ" وما نقله عن العلماء من انهم لا يعتمدون علی تصحيح الترمذي ليس بجيد، ومازال الناس يعتمدون تصحيحہ " یعنی حافظ ذہبی نے علماء سے ترمذی کی تصحیح پر جو عدمِ اعتماد نقل کیا ھے تو یہ ٹھیک نہیں ہے، لوگ تو ان کی تصحیح پر اعتماد کرتے آئے ہیں.
لہذا موصوف کا تحقیقی معیار آپ کے سامنے ھے کہ" غیر معتمد متاخرین " کے چند اقوال پر اپنے موقف کی اساس رکھنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں۔ کیا اسے ہی تحقیقی معیار کہا جاتا ھے جس پر وہ اس قدر نازاں وفرحاں ہیں....!!!
*ملحوظہ *
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
« تساهُل الترمذي، إنكارُه مكابرةٌ، لشهرته عند العلماء. وقد تتبعتُ أحاديث "سننه" حديثاً حديثاً، فكان الضعيفُ منها نحو ألف حديث، أي: قريباً من خُمس مجموعها، ليس منها ما قَوّيتُه لمتابعٍ أو شاهد».( السلسلة الضعيفة : ۳ /۳۰)
محمود سعید ممدوح اس قول کا تجزیہ کرتے ہوئے یوں جواب دیتے ہیں :
"وقد أجريت إحصائية عن الأحاديث التي ضعفها الالباني في جامع الترمذي، فكانت كالآتي :
۱ ـ عدد احاديث جامع الترمذي وفق نسخة صحيح وضعيف الترمذي : ۴۲۳۴ حديث.
۲ ـ عدد احاديث ضعيف الترمذي : ۸۳۲ حديثا، بنسبة ۶۵، ۱۹ ۰/۰ من الکتاب.
۳ ـ عدد احاديث التي خالف الالباني فيها الترمذي، فضعفها في « ضعيف الترمذي» : ۳۴۵ حدیثا، بنسبة ۱، ۸ ۰/۰ من المجموع الکلی للکتاب.
۴ ـ عددالاحاديث التي ضعفها الترمذي او سكت عليها، وادرجها الالباني في « ضعيف الترمذي» : ۴۸۷ حدیثا، بنسبة ۵، ۱۱ ۰/۰ من المجموع الکلی للکتاب.
واذاانتقلنا الي شريحة اخص وهي قسم العبادات نجد الآتي:
۱ ـ عددالاحاديث التي خالف الالباني فيها الترمذي فضعفها في « ضعيف الترمذي» في قسم العبادات : ۴ ۷ حدیثا.
۲ ـ عدد الاحاديث التي يمكن أن تسلم للالباني ۳ احاديث فقط هي ( ۴۷، ۱۲۱، ۱۴۰) بنسبة ۰۵۴، ۴ ۰/۰."
( التعريف باوهام من قسم السنن الي صحيح وضعيف ۱ / ۴۵۴)
اب دیکھیں، محمود سعید ممدوح نے علامہ البانی رح کی اپنی «ضعيف سنن الترمذي» سے ثابت کیا ھے کہ انکا مذکورہ دعوی درست نہیں ہے، اور پھر مجموعی تعداد پر حکم لگانے کے اعتبار سے تناسب کی مقدار بہت ہی کم ہے، اور اس کم درجہ تناسب کو لیکر کس طرح امام ترمذی کو تساہل میں مشہور کہا جاسکتا ھے، ..؟؟
بہرحال علامہ البانی کا مذکورہ قول انکے اپنے ہی طرز عمل کے مطابق درست نہیں، اور اگر واقعی امام ترمذی اس قدر متساہل ھوتے تو محدثین کرام کے ہاں ضرور اسکا شہرہ ہوتا، لیکن ھمیں اس طرح کا کوئی قول دیکھنے کو نہیں ملتا، جس سے واضح ہوتا ھے کہ انکا یہ دعوی درست نہیں..واللہ اعلم بالصواب.
۲ ـ امام ترمذی سرے سے ہی متساہل نہیں۔ یہ موقف امام عراقی وغیرہ کا ھے۔ امام شوكانی کہتے ہیں :
«قَالَ الذَّهَبِيُّ فِي الْمِيزَان: فَلِهَذَا لَا يَعْتَمِد الْعُلَمَاءُ عَلَى تَصْحِيحِ التِّرْمِذِيِّ قَالَ الْعِرَاقِيُّ: لَا يُقْبَل هَذَا الطَّعْن مِنْهُ فِي حَقّ التِّرْمِذِيِّ، وَإِنَّمَا جَهَّلَ التِّرْمِذِيَّ مَنْ لَا يَعْرِفهُ كَابْنِ حَزْمٍ وَإِلَّا فَهُوَ إمَام مُعْتَمَد عَلَيْهِ، وَلَا يَمْتَنِع أَنْ يُخَالِف اجْتِهَاده اجْتِهَاد غَيْره فِي بَعْض الرِّجَال»( نیل الاوطار)
دیکھیں ، یہاں امام عراقی ، امام ترمذی سے کلیتا تساہل کا انکار کررھے ھیں کہ وہ معتمد علیہ امام ہیں، انکا ائمہ کرام سے اجتہاد مختلف ہو سکتا ھے، جس طرح باقی محدثین ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ھیں.اور بعید نہیں کہ شیخ الاسلام اور حافظ ذہبی وغیرہ سے قبل کے محدثین کرام امام ترمذی کے اس طرز عمل کو اجتہاد سے ہی تعبیر کرتے ہوں، کیوں ان سے قبل کسی ایک بھی محدث سے امام ترمذی کو متساہل کہنا ثابت نہیں.
آخر میں ھم ان صاحب سے درخواست کرتے ھیں کہ وہ اپنے وضع کردہ اصول کے مطابق امام ترمذی کو متساہل کہنے کا الزام واپس لے لیں، کیونکہ یہ تساہل کا حکم ائمہ متقدمین سے ثابت نہیں، بلکہ متاخرین ناقلین نے ذکر کیا ہے.
نتیجہ
محدثین کرام کی آراء پر غور وتدبر کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ھے کہ امام ترمذی کے اس طرز عمل کو اجتہاد کا نام دیں یا تساہل کا، نتیجہ ایک ہی ھے کہ بعض احادیث کی تحسین وتصحیح میں امام ترمذی کا حکم دلائل کے اعتبار سے درست نہیں ہوتا، تو ایسی صورت میں ھم دلائل کو مدنظر رکھتے ھوئے انکی تحسین وتصحیح کو قبول نہیں کرینگے، ورنہ بصورت دیگر (روات کی توثیق میں یا احادیث کی تحسین وتصحیح میں،) چاھے منفرد ہوں یا انکا کوئی متابع ھو، انکا حکم حجت ھے، بالخصوص جہاں وہ دیگر اعلامِ حدیث کی مخالفت نہ کر رہے ہوں ۔واللہ اعلم بالصواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
(۳) امام ابن خزیمہ کا تساہل
موصوف نے امام ابن خزیمة کو ائمہ متساہلین میں شمار کیا ھے اور اس پر بھی حسبِ سابق انہوں نے حافظ ابن حجر، علامہ البانی جیسے " متاخرین ناقلین " کے اقوال نقل کیے ہیں۔
یہان ان صاحب کے اقوال میں ایک عجیب تناقض نظر آتا ہے ۔ایک طرف کہتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ نے مجاہیل کی توثیق میں یہ اصول ( انکے بقول) اپنے استاد امام ترمذی سے لیا ھے، اور دوسری طرف اس اصول( توثیق المجاہیل) کو امام ابن خزیمة کااپنا "ذاتی اصول" قرار دیتے ہیں۔
اب ذرا ان صاحب کی دونوں آرا ملاحظہ فرمائیں۔
۱ـ ذاتي اصول
" جیساکہ متساہل محدثین امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے اپنا یہ ذاتی غلط اصول لکھ کر ھم پر یہ احسان کر دیا ھے ...الخ".
نیز لکھتے ہیں :
"امام ابن خزیمة ثقہ ہونے کے ساتھ اپنے تحریر کردہ ذاتی اصول اور دلائل کی روشنی میں متساہل ہیں۔"
( اصول حدیث : ۳۴۷)
مزید لکھتے ہیں :
" امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان کا اپنا ذاتی ( راوی کی توثیق کے بارے میں) اصول ہے." (ایضا : ۳۶۴)
۲ ـ مجاہیل کی توثیق والا اصول اپنے شیخ سے اخذ کردہ ہے۔
موصوف لکھتے ہیں :
"راقم کو ایسے محسوس ھوتا ہے جیسے یہ غلط قاعدہ امام بیہقی نے اپنے استاد امام حاکم سے، اور امام حاکم نے اپنے استاد امام ابن حبان سے، اور امام ابن حبان نے اپنے استاد امام ابن خزیمہ سے، اور امام ابن خزیمہ نے اپنے استاد امام ترمذی سے اور امام.ترمذی نے اپنے ( غالبا) استاد امام عجلی سے لیا ھے، واللہ اعلم.لہذا ائمہ متساہلین کی یہ لڑی امام عجلی سے شروع ہو کرامام بیہقی پر جا کر ختم ہو جاتی ھے، اس لیے امام ابن حجر عسقلانی کا یہ کہنا سو فیصد درست ھے کہ یہ ( غلط) قاعدہ امام ابن حبان نے اپنے استاد شیخ امام ابن خزیمہ سے لیا ھے۔"( ایضا : ۳۶۵)
مزید صفحہ (۳۵۰) کو ملاحظہ کیا جائے۔
قارئین عظام ! ان صاحب کی مذکورہ بالا عبارات آپکے سامنے ھیں۔ ملاحظہ کریں کہ صفحہ ۳۶۴ وغیرہا پر کہتے ھیں کہ یہ اصول امام ابن خزیمہ کا اپنا ذاتی ھے اور پھر اسی طرح ابن حبان کے متعلق بھی کہتے ہیں، لیکن اس صفحہ کے متصل ہی دوسرے صفحہ ۳۶۵ پر پینترا بدل جاتا ھے اور کہتے ھیں کہ یہ غلط اصول استاد در استاد امام عجلی سے لیکر امام بیہقی تک منتقل ہوتا آیا ھے۔ جب یہ اصول استاد در استاد منتقل ہوتا آیا ھے تو پھر ان مذکورہ ائمہ کرام کا اپنا اپنا ذاتی اصول کیسے ہوسکتا ھے، !! اور اگر ذاتی ھے تو پھر استاد در استاد نقل ہونا ( گویا یہ سلسلہ) کیسے درست ھوسکتا ھے ...!!!
جناب کو مشورہ ھے کہ پہلے وہ اچھی طرح یہ طے کر لیں کہ ان دونوں مواقف میں سے انکے نزدیک راجح کیا موقف ھے، ..؟؟ پھر اسکو بنیاد بنا کر مذکور غلط اصول کی تردید کریں۔
کتنے افسوس کی بات ھے کہ ایک طرف تو ان کے فہم و دانش کا یہ عالم ہے ، مگر دوسری طرف ان کا طنزیہ انداز کلام ملاحظہ ہو۔ کہتے ھیں،:
"میں اس پر کیا تبصرہ کروں؟ اگر امام ابن حبان کے اس غلط اصول کو ایک منٹ کے لیے مان لیا جائے تو پھر جرح وتعدیل کا علم بے مقصد ہو جائیگا اور اسماء الرجال کے علم کو ختم کرنا پڑیگا ،جبکہ ایسا کرنا ممکن نہیں۔ واضح رھے امام ابن حبان کے اس غلط اصول کا رد بھرپور انداز میں امام ابن حجر عسقلانی نے لسان المیزان میں کیا ھے۔" ( ایضا : ۳۵۱)
تعجب ھے جناب کے اس حاکمانہ اور " محققانہ " طریقہ تخاطب پر....!!! ذرا اپنی حیثیت کو ان ائمہ کرام کے سامنے ملاحظہ کیا ہوتا، کس قدر جراتمندی اور بے باکی کے ساتھ ان محدثین کرام کے متعلق اس قدر رعونت کے ساتھ لکھتے جارھے ھیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون....!
کیا محدثین کرام پر تعاقب کرنے کے لیے ایک طالب علم کا یہی اسلوب ھوتا ھے ...؟؟
جناب نے اپنی اسی کتاب میں "آداب محدث" ( ۳۶۸) کا عنوان قائم کر کے اہل علم کی عزت وتوقیر کا درس بھی دیا ھے، تو کیا وہ محض لکھنے کی حدتک ھے یا عمل بھی مقصود ہے؟ یا خود کو ان پابندیوں سے آزاد اور مستثنی سمجھتے ہیں؟!
محدثین کرام کے ساتھ اس طرح کے ناروا سلوک سے کبھی خیروبرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
جناب سے مخلصانہ التماس ھے کہ اپنی حیثیت کو مدنظر رکھ کر ان محدثین کرام کے ساتھ آدابِ گفتگو کو ہر حال میں ملحوظِ خاطر رکھیں..
موقع کی مناسبت سے عرض ہے: "با ادب بانصیب ــ بے ادب بے نصیب."
یادش بخیر! ھم پہلے واضح کر چکے ھیں کہ امام ابن خزیمہ، امام ترمذی کے شاگرد نہیں، لہذا یہ دعوی کہ " تساہل والا یہ اصول استاد در استاد نقل ہوتا آیا ھے " بدیہاً غلط اور ناقابل قبول ھے۔ رہا امام ابن خزیمہ کا متساہل ھونا، تو آگے دلائل سے ثابت کیا جائیگا کہ امام ابن خزیمہ کے تساہل کی حقیقت کیا ہے۔ ان شاء اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
موصوف نے امام ابن خزیمہ کو متساھل ثابت کرنے کے لیے حافظ ابن حجر اور علامہ البانی رحمہمااللہ تعالی جیسے " متاخرین" کے اقوال نقل کیے ہیں۔ پہلے ذیل میں انہیں ملاحظہ فرمائیں،اسکے بعد ھم انکے جواب کی جانب بڑھیں گے۔ جناب لکھتے ہیں: "امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان کے متساہل ھونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ھیں : "وكان عند ابن حبان ان جهالة العين ترفع برواية واحد مشهور، وهو مذهب شيخه ابن خزيمة، ولكن جهالة حاله باقية عند غيره" ( لسان الميزان لابن حجر : ۱/۱۴)( اصول حدیث : ۳۴۸)
نیز لکھتے ہیں:
"محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وتوثيق ابن حبان ( ۷/۵۰۱) اياه مما لا يعتد به كما نبهت عليه مرارا، وكذا تصحيح ابن خزيمة لحديثه لا يعتد به، لانه متساهل فيه" (الاحادیث الضعیفة مترجم :۱/۷۶)( اصول حدیث : ۳۴۷)
محترم قارئین ! ان صاحب نے امام ابن خزیمہ کو متساہل ثابت کرنے کے لیےحافظ ابن حجر اور علامہ البانی سے اقوال نقل کیے ھیں۔ اول تو یہ اصحابِ علم ائمہ متاخرین میں سے ہیں ۔ تتبع کرنے سے چند اور بھی ماضی قریب اور موجودین کے اقوال مل سکتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ھے کہ مذکورہ ائمہ متاخرین میں سے ھیں، جو امام ابن خزیمہ کے ھم عصر یا انکے قریب زمانے سے نہیں، تو ان صاحب کے وضع کردہ اصول کے مطابق انہیں امام ابن خزیمہ پر تساہل کا الزام عائد کرنے سے دستبردار ہو جانا چاھیے کہ انکے نزدیک ائمہ متاخرین محض ناقلین ہیں، یا انکا یہ وضع کردہ اصول صرف حسن لغیرہ، مسئلہ تدلیس اور روات کی جرح وتعدیل تک ہی محدود ھے؟؟؟؟
میں نے چار جلدوں میں مطبوع"صحیح ابن خزیمہ "کے موجودہ نسخے کا بالاستیعاب تتبع کیا ھے،جس سے یہ منکشف ہوا کہ امام ابن خزیمہ قطعا قطعا قطعا متساہل نہیں اور نہ وہ مجہول راوی کو ثقہ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ تو ایسے راوی سے دین لینا پسند ہی نہیں کرتے تھے جنکو وہ جانتے ہی نہیں،اسکی روایت کا اپنی صحیح میں بطور حجت لانا تو دور کی بات ہے. جیسا کہ آگے صراحت سےمعلوم ہوگا۔
محترم قارئین ! ذیل میں امام ابن خزیمہ کی اپنی "الصحیح" سے اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
(۱) روات پر مجہول کا حکم لگا کر انکی روایت سے توقف کرنا.
امام صاحب نے اپنی "الصحیح " میں ایک جگہ دو روات پر جہالت کا حکم لگا کر انہیں مجہول قرار دیا ھے۔ فرماتے ہیں :
"وعاصم العنزي، وعباد بن عاصم مجهولان، لا يدری من هما؟"(ابن خزیمہ:۱/۲۳۹)
اگر امام صاحب کا مذہب مجاھیل کی توثیق والا ہوتا تو پھر ان روات کو وہ مجھول قرار دیکر کیسے رد کر دیتے ....؟؟؟ انکا ان روات کو مجہول قرار دینا ثابت کرتا ھے کہ وہ توثیق المجاہیل والا موقف نہیں رکھتے۔
(۲) امام صاحب کے نزدیک ـــ محدثین کے معروف منھج کے مطابق ــ جہالتِ عین ایک راوی سے ختم نہیں ہوتی ، بلکہ کم از کم راوی سے دو روات روایت کرنے والے ہوں تو ایسے راوی کی روایت کو امام صاحب "غریب " کہہ کر توقف اختیار کرتے ہیں۔ایک حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
" هذا حديث غريب، سمعت محمد بن يحیی يقول : وهب بن الاجدع قد ارتفع عنه اسم الجهالة، وقد روی عنه الشعبي ايضا و هلال بن يساف" (۲/۲۶۶)
یعنی امام صاحب کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن یحی ذھلی سے سنا کہ وھب بن الاجدع مجہول نہیں، کیوں کہ اس سے دو راوی روایت کر رھے ھیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ راوی سے جہالتِ عین کے ارتفاع میں جو مذھب امام ذھلی کا ھے، وہی امام ابن خزیمہ کا ھے، اور یہ بالکل واضح ھے کہ امام ذھلی توثیق المجاھیل کا مذھب نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ ایک جلیل القدر محدث وعلم الرجال کے امام ھیں۔ امام ابن خزیمہ کے طرز عمل سےبھی معلوم ہو رہا ھے کہ انھوں نے امام ذھلی سے جہالتِ عین کا مرتفع ہونا نقل کیا اور اسی کو برقرار رکھا ہے، لازمی بات ھے روایت کی تصحیح کے لیے جہالتِ عین کا ہی مرتفع ہونا لازمی نہیں، بلکہ اسکی توثیق بھی مطلوب ھے، سو امام صاحب نے اسکی جہالتِ عین کے ختم ھونے سے اسے قابلِ حجت نہیں سمجھا، اسی لیے اس کی روایت کو صحیح نہیں، بلکہ "غریب "کہہ کر توقف اختیار کیا ھے۔
واضح رھے کہ وھب بن الاجدع ثقہ راوی ھے۔ امام عجلی نے "معرفة الثقات " میں اسے ثقہ قرار دیا ھے.
(۳) امام صاحب کو جن روات کی معرفت حاصل نہیں ہوتی تھی، وہ انکی روایت پر توقف کرتے ہوئے اس پر تنبیہ کرتے تھے، اور اس طرح بہت سارے روات پر عدم حجیت کا فیصلہ دیتے ہیں۔
آپ اپنی " الصحیح " میں ایک باب کا عنوان یوں قائم کرتے ھیں:
" المختصر من المختصر من المسند عن النبي صلي الله عليه وسلم علي الشرط الذي ذكرنا بنقل العدل عن العدل موصولا اليه صلي الله عليه وسلم، من غير قطع في الاسناد، ولا جرح في ناقلي الاخبار الا ما نذكر ان في القلب من بعض الاخبار شئ، اما الشك في سماع راو من فوقه خبرا او راو لا نعرفه بعدالة ولا جرح فنبين ان في القلب من ذلك الخبر ..الخ" (۳/۱۸۶)
یہاں امام صاحب کہہ رھے ھیں کہ میری صحیح میں روات عادل ہیں،ضعیف نہیں، سند متصل ھے، ہاں البتہ بعض اخبار میں خطرات ھوسکتے ھیں، مثلا، سند میں انقطاع ہو، راوی کے سماع میں شک ھو، یا پھر ایسا راوی بھی ھوسکتا ھے کہ مجھے نہ اسکی عدالت ( توثیق) کا علم ہو اور نہ اسکی تجریح کا، تو ان خطرات پر میں تنبیہ کرتا جاؤں گا .
ملاحظہ کریں کہ امام صاحب کس قدر واشگاف الفاظ میں صراحت فرما رھے ھیں کہ مجھے جس راوی کی عدالت یا جرح کا علم نہیں ، اس کی روایت میں مجھے خطرہ محسوس ھوتا ھے۔ اب اس قسم کا راوی اگر امام صاحب کے نزدیک ثقہ ھوتا تو کیا ثقہ کی روایت کی صحت میں بھی کوئی خطرہ محسوس کرتا ھے ..؟؟
ذیل میں میں ان روات کو امام صاحب کے کلام کے ساتھ ذکر کرتا ھوں جن کو امام صاحب نے غیر معروف قرار دیکر انکی روایت سے حجت پکڑنے سے توقف اختیار کیا ھے۔ملاحظہ فرمائیں :
* ابو سویة:
امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں :
"باب فضل قراءة الف آية في ليلة ان صح الخبر، فاني لا اعرف ابا سوية بعدالة و لاجرح" (۱/۱۸۱)
امام صاحب نے اس باب کے تحت مذکور حدیث کی تصحیح کو "ان صح الخبر " کہہ کر ابو سویہ کی معرفت کے ساتھ مشروط کیا ھے کہ میں نہ اسے تعدیلا جانتا ہوں اور نہ ہی تجریحا۔
* ابو لبابة:
فرماتے ہیں :
"باب استحباب قراءة بني اسرائيل والزمر كل ليلة استئناسا بالنبي صلي الله عليه وسلم ان كان ابو لبابة هذا يجوز الاحتجاج بخبره، فاني لا اعرفه بعدالة و لاجرح" (۲/۱۹۱)
امام صاحب چونکہ ابو لبابہ کو جانتے نہیں ، اس لیے یہاں حدیث کی تصحیح اور اس سے حجت پکڑنے کو اس کی معرفت کے ساتھ مشروط کر رھے ہیں۔
ملحوظہ : ۱:
ابو لبابہ کا نام مروان الوراق البصری ھے،جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔ یہ راوی "تھذیب التھذیب " کے رجال میں سے ہیں، اگرچہ وہ امام صاحب کے نزدیک غیر معروف ھیں ، لیکن امام ابن معین نے ان کی توثیق کر رکھی ہے۔
"تھذیب التھذیب " میں حافظ ابن حجر رح فرماتے ہیں : "ابن خزیمہ نے اس کی حدیث کی اپنے "صحیح "میں تخریج کی ھے، لیکن اس( سے حجت پکڑنے) میں توقف کیا ھے، اور کہا ہے کہ مجھے اسکی عدالت وجرح کا علم نہیں۔ "
معلوم نہیں اس قدر وضاحت کے بعد بھی حافظ ابن حجر رح امام ابن خزیمہ کے متعلق یہ رائے کیوں قائم کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک غیر مجروح راوی ثقہ ھوتا ھے۔ واللہ اعلم
ملحوظه : ۲:
انہی ابو لبابہ کے متعلق موصوف نے کہا تھا کہ امام صاحب نے انکی جرح وعدالت کا علم نہ ھونے کے باوجود بھی اسے قابلِ حجت سمجھا ھے، ..حالانکہ امام صاحب تو واضح طور پر فرما رھے ھیں کہ اگر اس سے حجت پکرنا جائز ھے، کیونکہ مجھے اسکی عدالت وجرح کا علم نہیں، اور ابن حجر نے بھی اسی کی وضاحت کی ھے کہ امام صاحب نے اسکی حدیث کو اپنی صحیح میں تخریج کرنے کے باوجود بھی اس پر توقف کیا ھے۔ یہ سارا نتیجہ موصوف کی عربیت سے ناواقفیت اور نصوص کی نا فہمی کا ھے.....!!
* علی بن الصلت:
امام صاحب اس راوی کی حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
"ولست اعرف علي بن الصلت هذا، ولا ادري من اي بلاد الله هو، ولا افهم أ لقي ابا ايوب ام لا۰۰۰؟؟ ولا يحتج بمثل هذه الاسانيد الا معاند او جاهل" (۲/۲۲۳)
دیکھیں، امام صاحب کے الفاظ کس قدر سخت ہیں کہ غیر معروف راوی جس کا کچھ بھی اتا پتا نہ ہو، اور نہ ہی اسکی معرفت ھو کہ وہ جس سے روایت کر رہا ھے اس سے ملاقات کرچکا ھے کہ نہیں، ایسی سند سے ایک معاند یا جاھل ہی حجت پکڑسکتا ھے۔ بتایا جائے جو امام غیر معروف شخص سے حجت پکڑنے والے کو معاند اور جاہل تصور کرتا ھو، کیا وہ خود بھلا اسی امر کام کا مرتکب ھو سکتا ھے۰۰۰۰؟؟
* ایاس بن ابی رملة:
"باب الرخصة لبعض الرعية في التخلف عن الجمعة اذااجتمع العيد والجمعة في يوم واحد، ان صح الخبر، فاني لا اعرف اياس بن ابي رملة بعدالة و لا جرح" (۲/۳۵۹)
یہاں بھی امام صاحب نے حدیث کی تصحیح کو ایاس بن ابی رملہ کی معرفت کے ساتھ مشروط کیا ھے۔
*يحي بن ابي سليمان:
امام صاحب اسکی ایک حدیث کو ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں:
" قال ابوبكر : في القلب من هذالاسناد، فاني لا اعرف يحي بن ابي سليمان بعدالة ولاجرح " (۳/۵۸)
دیکھیں، امام صاحب یحیی بن ابی سلیمان کی ذکر کردہ حدیث میں خطرہ محسوس کر رھے ھیں، کیونکہ وہ انہیں جانتے نہیں، نیز یحیی بن ابی سلیمان کو اگرچہ امام ابن خزیمہ نہیں جانتے، مگر دوسرے محدثین کرام اسکے حال پر مطلع تھے اور انھوں اس پر جرح کی ھے۔ امام بخاری نے تو اسکو "منکر الحدیث " کہہ کر سخت ضعیف قرار دیا ھے، بہرکیف امام صاحب کو یحی بن ابی سلیمان کی معرفت نہیں تھی، اس لیے انکو اسکی اس حدیث میں خطرہ تھا.
* السائب مولی ام سلمة:
امام صاحب اسکی حدیث پر یوں عنوان قائم کرتے ہیں:
" باب اختيار صلاة المرأة في بيتها علي صلاتها في المسجد ، ان صح الخبر، فاني لا اعرف السائب مولي ام سلمة بعدالة ولاجرح" (۳/۹۲)
محدثِ مصر شیخ ابو اسحاق الحوینی حفظہ اللہ تعالی نے اس راوی کو ابن خزیمہ کے مذکورہ کلام کی بنا پر مجہول الحال قرار دیا ھے۔ ( نثل النبال : ۲ /۵۳۷)
گویا امام صاحب کے نزدیک یہ راوی مجہول الحال ھے.
*قدامة بن وبرة:
امام صاحب اسکی حدیث پر یوں عنوان قائم کرتے ہیں:
" باب الامر بصدقة دينار ان وجده او بنصف دينار ان اعوزه دينار لترك جمعة من غير عذر ان صح الخبر، فاني لا اقف علی سماع قتادة عن قدامة بن وبرة، ولست اعرف قدامة بعدالة ولاجرح"
*سعید بن عنبسة، عبدالله بن بشر:
امام صاحب ایک عنوان یوں قائم کرتے ہیں :
" باب استحباب الانتشار بعد صلاة الجمعة، والابتغاء من فضل الله، قال اللہ عزوجل :( فاذاقضيت الصلاة فانتشروا في الارض وابتغوا من فضل الله) الا ان في القلب من هذاالخبر، فاني لا اعرف سعيد بن عنبسة القطان هذا، ولا عبدالله بن بشر الذي روی عنه سعيد هذا بعدالة ولا جرح" (۳ /۱۸۵)
* خلف ابوالربيع، عمرو بن حمزة القيسي:
امام صاحب فرماتے ہیں :
" باب ذكر تفضل الله عزوجل علی عباده المؤمنين في اول ليلة من شهر رمضان بمغفرته اياهم كرما وجودا ان صح الخبر، فاني لا اعرف خلفا ابا الربيع هذا بعدالة ولاجرح، ولا عمرو بن عمزة القيسي الذي هو دونه (۳/۱۸۹)
* عبدالله بن النعمان :
امام صاحب فرماتے ہیں:
" باب الدليل علي ان الفجر الثاني ذكرناه هو البياض المعترض الذي لونه الحمرة ان صح الخبر، فاني لا اعرف عبدالله بن النعمان هذا بعدالة و لاجرح، ولا اعرف له عنه راويا غير ملازم بن عمرو "(۳/۲۱۰)
*ابن المطوس وابوہ المطوس:
امام صاحب یوں عنوان قائم کرتے ہیں : "باب التغليط في افطار يوم من رمضان متعمدا من غير رخصة ان صح الخبر، فاني لا اعرف ابن المطوس ولا اباه" (۳/۲۳۸) *مصدع ابی یحیی:
امام صاحب فرماتے ہیں :
" باب الرخصة في مص الصائم لسان المرأة خلاف مذهب من كره القبلة للصائم علي الفم ان جاز الاحتجاج بمصدع ابي يحيي، فاني لا اعرفه بعدالة ولاجرح" ( ۳/۲۴۶)
*منصور بن زید الکلبی:
امام صاحب فرماتے ہیں :
"باب الرخصة في الفطر في رمضان في مسيرة اقل من يوم وليلة، ان ثبت الخبر، فاني لا اعرف منصور بن زيد الكلبي هذا بعدالة ولاجرح "(۳/۲۶۶)
* ابن معانق وابو معانق:
امام صاحب فرماتے ہیں :
"باب ذكر ما اعدالله جل وعلا في الجنة من الغرف لمداوم صيام التطوع ان صح الخبر.........ولست اعرف ابن معانق ولا ابامعانق الذي روی عنه يحيي بن ابي كثير" (۳/۳۰۶)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
امام صاحب کا اٹل فیصلہ
(۱) امام صاحب فرماتے ہیں :
" لست اعرف كليب بن ذهل، ولا عبيد بن جبير، ولا أقبل دين من لا اعرفه بعدالة" ( ۳/۲۶۶)
دیکھیں ! امام صاحب کس قدر واضح الفاظ میں فرما رہے ھیں کہ جس کی عدالت کا مجھے علم نہیں، اس سے میں دین نہیں لیتا، یعنی امام صاحب کے نزدیک اس راوی کی حدیث حجت ہی نہیں جس کی عدالت انھیں معلوم نہیں.
یاد رہے، عبید بن جبیر کو امام یعقوب بن سفیان فسوی نے ثقہ قرار دیا ھے.
(۲) امام صاحب فرماتے ہیں :
"لست اعرف ابا رجاء هذا بعدالة ولاجرح، ولست احتج بخبر مثله " (۴/۲۱۹)
اب دیکھیں، کیا اس صراحت کے بعد بھی یہ کہا جائے گا کہ امام صاحب کے نزدیک غیر مجروح راوی ثقہ ھوتا ھے....؟؟؟
یہاں بھی انہوں نے کس قدر صراحت سے کہا ھے کہ جس راوی کو وہ جانتے نہیں ، اس کی خبر سے کسی طرح بھی حجت نہیں پکڑتے.
محترم قارئین ! روات کی تعدیل وتوثیق اور امام ابن خزیمہ کے منہج کے اعتبار سے مذکورہ بالا تفصیل آپکے سامنے ھے کہ وہ قطعا، قطعا، قطعا مجاہیل کی توثیق والا منہج نہیں رکھتے تھے، بلکہ انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں صراحت کر دی ہے کہ جسے وہ جانتے نہیں ، اس سے نہ وہ دین لیتے ھیں اور نہ اسکی حدیث ہی سے حجت پکڑتے ہیں..لیکن موصوف کے بلند بانگ دعوے اور ان کی "تحقیق " بلکہ سینہ زوری ملاحظہ فرمائیں کہ وہ کس قدر دھڑلے کے ساتھ کہتے ھیں کہ امام صاحب نے بے شمار مجاہیل کی توثیق کر دی ھے۔ موصوف کہتے ہیں :
" امام صاحب نے اپنی پوری کتاب میں اسی غلط اصول کو اپنایا ہے، اسی لیے انہوں نے کثرت کے ساتھ مجہول راویوں کی توثیق کر دی ھے۔" ( اصول حدیث : ۳۵۰)
اندازہ کریں کہ آنجناب کیا دعوی کر رہے ہیں کہ امام ابن خزیمہ نے غلط اصول کی وجہ سے کثرت کے ساتھ مجاہیل کی توثیق کردی ھے..محترم " محقق " کے اس رویے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے ، کم ھے....!!
سطور بالا میں ذکر کردہ روات آپکے سامنے ھیں کہ جن کی تعداد غالبا بیس تک بھی بمشکل پہنچتی ھو گی، اور یہ وہ روات ھیں جنکو امام صاحب جرحا و تعدیلا نہیں جانتے..گویا انکے علاوہ باقی روات کی امام صاحب کو یقینا معرفت تھی.تو کیا جنکی امام صاحب کو معرفت نہیں تھی، وہ تعداد" کثرت" کہلانے کی مستحق ھے ، جیسا کہ ہمارے محترم " محقق " نے دعوی کیا ہے،،،،؟؟؟کیا ان صاحب نے صحیح ابن خزیمہ کا مکمل طور پر تتبع کیا ھے جو اس قدر یقین سے کہہ رھے ھیں کہ امام صاحب نے کثرت کے ساتھ مجاھیل کی توثیق کردی ھے ..؟؟
موصوف نے تساہلِ ابن خزیمہ کی بنیاد حافظ ابن حجر جیسے " متاخر ناقل " کے قول پر رکھی ھے، تو کیا ان کو حافظ ابن حجر کے اس قول میں ایسا کچھ نظر آیا جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ امام صاحب نے کثرت کے ساتھ مجاہیل کی توثیق کر دی ھے....؟؟
حقیقت یہ ھے کہ یہ محض ان صاحب کے اپنے "اجتہاد" اور "تحقیق " ہی کا شاخسانہ ھے۔ کہیں بھی حافظ ابن حجر کے کلام سے یہ ظاہر نہیں ھوتا کہ امام صاحب نے کثرت کے ساتھ مجاھیل کی توثیق کر دی ھے۔
محترم قارئین! مذکورہ بالا تحقیقی بیانات آپکے سامنے ہیں اور نتیجہ بھی بالکل واضح ھے۔ امام صاحب کو چند روات کی معرفت نہیں تھی، انکے علاوہ باقی روات کو وہ جرحا وتعدیلا جانتے تھے۔ محدثین کرام کی تصریحات سے بھی یہی ثابت ھوتا ھے کہ امام صاحب کسی طور متساہل یا مجاھیل کی توثیق کرنے والے نہیں تھے،بلکہ وہ روات سے احادیث لینے میں سختی سے کام لیا کرتے تھے.
* ـ امام الجرح والتعدیل حافظ ذهبي رحمه الله فرماتے ہیں:
" وقد كان هذا الامام جهبذاً بصيراً بالرجال .. "
اسکے بعد پھر انہوں نے امام ابن خزیمہ سے نقل کیا:
" لست احتج بشھر بن حوشب , ولا بحريز بن عثمان ولا بعبد الله بن عمرو ولا ببقية ولا بمقاتل بن حيان ۰۰۰۰اسکے بعد پھر حافظ ذھبی نے وہ روات ذکرکیے جن کی روایات میں ائمہ کرام کے مابین احتجاج وعدم احتجاج میں اختلاف ھے، پھر فرماتے ھیں , مما يدل على شدة تحري ابن خزيمة وتوقيه في الرواية في صحيحه رحمه الله " ( سير اعلام النبلاء للذهبي: ۱۴/۳۷۳)
ملاحظہ کریں ! حافظ ذھبی کس قدر صراحت کے ساتھ امام ابن خزیمہ کو جرح وتعدیل کا امام تسلیم کر رھے ھیں اور کہہ رہے ھیں کہ انہوں نے اپنی صحیح میں مختلف فیہ روات پر جرح کر کے روایات میں سختی اور جانچ پڑتال کا ثبوت دیا ھے.
* ـ محدث شام امام ناصرالدین دمشقی رح فرماتے ہیں :
"من دخل في الصحيحين او احدهما فهو ثقة، ومن صحح له مثل الترمذي وابن خزيمة فهو جيد ايضا" ( حل عقود الدرر في علوم الاثر)
یہی کچھ حافظ ذھبی نے "الموقظة " میں فرمایا ھے.
* ـ حافظ سيوطي رح فرماتے ہیں:
"صحيح ابن خزيمة اعلى مرتبة من صحيح ابن حبان لشدة تحريه حيث إنه يتوقف في التصحيح لأدنى كلام في الاسناد فيقول مثلاً : باب كراهة كذا إن صح الخبر , أو إن ثبت كذا .. " (تدريب الراوي للسيوطي ۱/۱۰۹ ) .
دیکھیں امام سیوطی رح بھی امام صاحب کو روایات میں متشدد کہہ رھے ہیں کہ وہ اگر کسی حدیث میں ذرا سا بھی شبہہ دیکھتے ھیں تو اسکی صحت کو مشکوک کہہ کر توقف کرتے ھیں.
اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں یہاں وہ عبارات بھی آپکے سامنے رکھتا جن میں امام صاحب ادنی سا شبہہ دیکھ کر ہی کسی حدیث کی صحت میں توقف کرتے ہیں.
یہ ساری تفصیل ظاہر کرتی ھے کہ امام صاحب ثقات روات کی روایات کو پرکھ کر ہی انکی تصحیح کرتے تھے، انکا یہ تعامل روات کی جرح وتعدیل میں سختی اور حد درجہ احتیاط پر دلالت کرتا ھے۔ اب جو امام روات کے حوالے سے انکی روایات قبول کرنے میں اس قدر سختی سے کام لیتا ھو اور احتیاط برتتا ہو، وہ کس طرح مجاھیل کی توثیق کا منہج رکھ سکتا ھے اور کیسے وہ مجاھیل کی روایات کو بغیر پرکھ کیے انہیں صحیح سمجھتے ہوئے اپنی صحیح
میں بطور حجت ذکر کر سکتا ہے....؟؟
* ـ شیخنا واستاذنا المحدث العلامہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تعالی بھی امام ابن خزیمہ کو متساہل کہنے کے خلاف ھیں. آپ فرماتے ہیں :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "لسان المیزان" کے مقدمے میں یہ بات کہی ھے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے جس طرح ثقہ راوی کے بارے میں ایک اصول بیان کیا ہے، یہ اصول انہوں نے ابن خزیمہ رحمہ اللہ سے لیا ہے، اور ابن خزیمہ کا بھی یہی موقف ہے کہ جب ایک راوی سے روایت کرنے والا ثقہ ہو اور کسی نے اس پر جرح ونقد نہ کیا ہو تو وہ راوی ثقہ ہوتا ھے، جیسا کہ ابن حبان رحمہ اللہ کا اصول ہے اھ.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی طرف یہ انتساب کر دیا. لیکن اگر آپ صحیح ابن خزیمہ کا مطالعہ فرمائیں، تو کئی ایک مقامات پر آپ دیکھیں گے کہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی ایسا ہے: "لم اعرف فیہ جرحا ولاتعدیلا، وفی القلب منہ شئ " میں نے اس راوی کے بارے میں کوئی جرح وتعدیل نہیں دیکھی، لہذا میرے دل میں اس راوی کے بارے میں کچھ خطرات ہیں.اھ
اگر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا یہی اصول ہوتا جو ابن حبان رحمہ اللہ کا ہے تو "صحیح ابن خزیمہ " میں وہ بارہا مقامات پر یہ بات نہ کہتے. اس لیے ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "لسان المیزان " کے مقدمے میں جو کہا ھے، وہ محل نظر ہے. حالانکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود کہتے ہیں: " عبداللہ بن عبدالرحمان اخرجہ ابن خزیمة في صحيحه يدل علي انه ثقة عنده " اور یہی تبصرہ عبداللہ بن عتیبہ کے بارے میں بھی کیا ہے، نیز یہی بات عبدالرحمان بن خالد کے ترجمے میں کہی ہے کہ ان سے ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے روایت لی ہے اور یہ دلیل ھے کہ یہ انکی توثیق ھے۔اھ
یہ ساری باتیں اس بات کی تردید کرتی ہیں جو حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے " لسان المیزان " کے مقدمے میں انکی طرف منسوب کی ہیں۔" (ضوابط الجرح والتعدیل :۵۱ ـ ۵۲)
یہ تھا ھمارے شیخ محدث العصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تعالی کا کلام ، جس میں انہوں نے ابن حجر رحمہ اللہ کے ابن خزیمہ رح پر وارد کردہ اعتراض کے جواب میں لکھا ہے کہ انکا یہ اعتراض حقائق ودلائل کی رو سے درست نہیں.اور حقیقت بھی یہی ھے کہ امام صاحب کسی طور بھی متساہل نہیں جیسا کہ سابقہ سطور میں اس پر تفصیلا گفتگو ھو چکی ھے.
رہی یہ بات کہ ابن حجر رح کا امام ابن خزیمہ کے تساہل کے حوالے سے کیا ماخذ ھے اور انہوں نے ابن خزیمہ رح کو کیوں متساہل قرار دیا ھے....؟؟ تو اس پر عرض ھے کہ حقائق تو محترم قارئین کے سامنے ہیں، باقی ابن حجر رح نے جو تساہل کا کہا ھے اسکی مجھے کوئی دلیل یا ماخذ تاحال نہیں مل سکا ھے، ممکن ھے چونکہ امام ابن حبان امام ابن خزیمہ کے اخص تلامذہ میں سے تھے، اور وہ امام صاحب سے بے حد متاثر تھے اور کافی حدتک انکی موافقت بھی کرتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی صحیح میں جو تبویب کر رکھی ھے وہ بھی صحیح ابن خزیمہ کی تبویب کے بہت مشابہ ہے، تو یہ اور ان جیسی دوسری چیزوں سے ظاہر ہوتا ھے کہ شاید حافظ ابن حجر نے ان تمام باتوں میں مماثلت کی وجہ سے ابن خزیمہ کے منہج کو ابن حبان کے منہج کے موافق سمجھ لیا ھو کہ ابن حبان کا توثیق کے حوالے سے یہ منہج ھے، شاید انہوں نے اپنے شیخ ہی سے یہ منہج لیا ہو، اس لیے ابن خزیمہ کو بھی اسی منہج والا سمجھ لیا.واللہ اعلم بالصواب.
بہرکیف! ھم نے امام صاحب کے منہج کے حوالے سے تفصیلا بحث کی ھے اور دلائل وبراہین سے ثابت کیا ہے کہ امام صاحب قطعا متساہل نہیں ھیں، وہ اگر تعدیل، توثیق اور تصحیح میں منفرد ھوں تو انکا حکم قابل حجت وقابل تسلیم ھے، الا کہ دلائل سے انکا حکم درست معلوم نہ ہو.لہذا انکو متساہل کہنا مناسب نہیں..واللہ اعلم بالصواب.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
امام ابن حبان کا تساہل
موصوف نے امام ابن حبان کو بھی ائمہ متساہلین میں شمار کیا ھے اور ان کی توثیق کو مطلقا مردود قرار دیا ھے، اس کے لیے دلیل کے طور پر انھوں نے درج ذیل "متاخرین ناقلین" کے اقوال نقل کیے ہیں :
۱ ـ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
۲ ـ علامہ معلمی رحمہ اللہ
۳ ـ علامہ البانی رحمہ اللہ.
۴ ـ حافظ عبدالرؤف بن عبدالمنان حفظہ اللہ
موصوف کا موقف ھے کہ امام ابن حبان مطلقا متساہل ھیں اور انکی ہر توثیق غیر معتبر ومردود ھے۔ جناب نے اپنے اس دعوے کے اثبات میں مذکورہ بالا ائمہ و علمائے کرام کے اقوال نقل کیے ھیں، جبکہ مذکورہ بالا ناموں میں سے اوّل الذکر تینوں ائمہ کرام امام ابن حبان کو مطلقا متساھل نہیں سمجھتے کہ انکا توثیق والا ہر حکم مردود سمجھا جائے.بلکہ وہ مخصوص حالات اور محدود مواقع میں ان کے تساھل کا موقف رکھتے ہیں.بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک جگہ تو امام ابن حبان سے تساہل کی مکمل طور پر نفی کی ھے اور جس نے امام ابن حبان پر تساہل کا حکم لگایا ھے، اسکو غلط کہا ھے۔
امام ابن حبان کے منہج کے حوالے سے تو ھم تفصیلا بعد میں بات کرینگے، لیکن سردست ھم یہاں مذکورہ بالا تینوں ائمہ کے وہ اقوال پیش کرتے ھیں جن میں امام ابن حبان کے مطلقا تساھل کی نفی ھے یا ان کے تساھل کو مخصوص حالات کے ساتھ مقید کیا گیا ھے، ملاحظہ فرمائیں۔
۱ ـ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
امام سخاوی فرماتے ھیں:
" مع ان شيخنا قد نازع في نسبته الي التساهل الا من هذه الحيثية،( اي ادراج الحسن في الصحيح.) وعبارته : ان كانت باعتبار وجدان الحسن في كتابه فهی مشاحة في الاصطلاح ، لانه يسميه صحيحا، وان كانت باعتبار خفة شروطه، فانه يخرج في الصحيح ما كان راويه ثقة غير مدلس، سمع ممن فوقه وسمع منه الآخذ عنه، ولا يكون هناك ارسال ولا انقطاع، واذا لم يكن في الراوي المجهول الحال جرح و لا تعديل، وكان كل من شيخه والراوي عنه ثقة، ولم يات بحديث منكر، فهو ثقة عنده.وفي "كتاب الثقات " له كثير ممن هذا حاله، ولأجل هذا ربما اعترض عليه في جعلهم ثقات من لم يعرف اصطلاحه ولا اعتراض عليه، فانه لا يشاحج في ذلك" ( فتح المغيث: ۱/ ۳۷)
یعنی ہمارے شیخ حافظ ابن حجر نے اس ناحیہ ( حسن کو بھی صحیح میں شامل کر دینے ) کے سوا امام ابن حبان کی طرف تساہل کی نسبت کی نفی کی ہے۔ فرماتے ہیں : اگر ابن حبان پر تساہل کا اعتراض اس حیثیت سے ھو کہ انھوں نے اپنی صحیح میں حسن حدیث کو بھی درج کردیا ھے تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں، بس وہ حسن کو بھی صحیح کا نام دیتے ھیں۔اور اگر یہ تساہل کا الزام شروط میں خفت کی حیثیت سے ھو کہ وہ اپنی صحیح میں وہ( حدیث) لاتے ھیں جسکے روات ثقہ، غیر مدلس ہوں، سب نے ایک دوسرے سے سماع کیا ھو، نہ ارسال ھو اور نہ انقطاع ہی ھو۔ اگر مجہول الحال راوی جرح وتعدیل سے خالی ھو اور اس کا شیخ اور شاگرد دونوں ہی ثقہ ھوں، اور کوئی منکر خبر بیان نہ کی ھو تو وہ ان ( ابن حبان) کے نزدیک ثقہ راوی ھے.اس قسم کے روات ان کی " کتاب الثقات " میں کافی تعداد میں ھین..بعض اوقات ابن حبان پر ایسے روات کو اپنی کتاب میں داخل کرنے کی وجہ سے وہ لوگ اعتراض کرتے ھیں جو ان کی اصطلاح سے ناواقف ھیں.جبکہ اس پر اعتراض وارد ہی نہیں ھوتا کہ ان سے مخاصمہ کیا جائے۔
محترم قارئین! جو راوی جرح وتعدیل دونوں سے خالی ھو اور تتبع سے معلوم ھو جائے کہ اس نے کوئی منکر روایت بیان نہیں کی اور نہ ثقات کی مخالفت ہی کرتا ھے تو ایسا راوی بھی ثقات میں شمار ہو جاتا ھے، یہ بھی کسی راوی کی توثیق کرنے کا ایک ذریعہ ھے، جیسا کہ کتب اصولِ محدثین میں اسکی تصریح موجود ھے، کیونکہ ایسے راوی کا منکر روایت نہ بیان کرنا یا ثقات کی مخالفت نہ کرنا اسکے قوی حافظے پر دلالت کرتا ھے، اس مسئلے پر تفصیل سے تو ھم بعد میں بحث کرینگے، یہاں صرف ایک محدث کا اس حوالے سے قول نقل کیاجاتا ھے، ملاحظہ فرمائیں۔
حافظ ذہبی رح فرماتے ہیں:
" وقد اشتهر عند طوائف من المتأخرين اطلاق اسم "الثقة " علی من لم يجرح مع ارتفاع الجهالة عنه، وهذا يسمی مستورا، ويسمی "محله الصدق " ويقال فيه: شيخ"
یعنی متاخرین میں کئی جماعتوں کے یہاں ثقہ کا اطلاق مجہول الحال راوی پر مشہور ہے۔ اسے مستور بھی کہتے ہیں اور " محلہ الصدق " اور " شیخ " کے لفظ سے بھی ذکر کر دیتے ہیں۔ ( الموقظة ، ص: ۷۸)
میں کہتا ہوں کہ یہ اس صورت میں ھے کہ اگر اس نے کوئی منکر حدیث بیان نہ کی ھو.یہی بات خود حافظ ذھبی نے بھی دوسری جگہ کہی ہے، یعنی "عدم نکارت " کی شرط لگائی ھے، آپ "میزان الاعتدال " میں مالک بن الخیر کے ترجمے میں فرماتے فرماتے ہیں:
"والجمهور علي ان من كان من المشایخ قد روی عنه جماعة، ولم يات بما ينكر عليه ان حديثه صحيح»
فرق صرف یہ ھے کہ باقی محدثین کے نزدیک جہالت ایک راوی کے روایت کرنے سے مرتفع نہیں ھوتی، لیکن ابن حبان کے نزدیک ایک راوی کے روایت کرنے سے مرتفع ھو جاتی ھے.لہذا اگر ابن حبان، ابن.حجر کے بیان کردہ اصول پر پورے اترتے ھیں تو اس میں کوئی شناعت نہیں۔ یہ بات ھم آگے بیان کرینگے کہ وہ واقعی اس اصول پر پورا اترے ھیں یا نہیں۔
حافظ ذھبی کے مذکورہ بالا کلام پر حافظ ابن حجر نے "اللسان " میں تعاقب کیا ھے، لیکن انکا یہ تعاقب دلائل کی رو سے قابل قبول نہیں، جسکہ ھم آگے وضاحت کرینگے.ان شاءاللہ العزیز۔
امام ابن حبان کے تساھل کے حوالے سے یہی بات امام سیوطی نے بھی "قیل " کہہ کر حافظ ابن حجر کی طرف منسوب کی ھے، اس ساری تفصیل کا مقصد صرف یہ ھے کہ موصوف نے جو یہ کہا ھے کہ "امام ابن حبان کے اس غلط اصول کا رد بھر پور انداز میں امام ابن حجر عسقلانی نے " لسان المیزان " میں کیا ہے" تو اسکا بھی آخر وہ جواب دیں، انکی ایک رائے یہ بھی ھے،۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ھے کہ جس نے ابن حبان کو علی الاطلاق متساھل قرار دیا ھے، اس پر ابن حجر نے بھرپور رد کیا ھے۔
یہ قطعا تحقیقی مزاج نہیں کہ کسی کے محض ایک ہی قول کو بنیاد بنا کر حتمی فیصلہ کر دیا جائے، بلکہ تتبع کر کے اس کے تمام کلام پر مجموعی نظر سے کوئی بات طے کرنی چاہیے۔
۲- علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ
علامہ معلمی رحمہ اللہ بھی امام ابن حبان کو مطلقا متساھل نہیں سمجھتے، بلکہ انھوں نے انکی توثیق کی پانچ اقسام بیان کی ہیں، جن میں سے چار اقسام کی توثیق کو حجت تسلیم کیا ھے اور آخری پانچویں قسم میں خطرے کا اظہار کیا ھے۔ آپ فرماتے ھیں:
" والتحقيق ان توثيقه علی درجات:
الأولى: أن يصرح به، كأن يقول : كان متقنا، أو : مستقيم الحديث، أو نحو ذلك.
الثانية: أن يكون الرجل من شيوخه الذين جالسهم وخبرهم.
الثالثة: أن يكون من المعروفين بكثرة الحديث، بحيث يعلم أن ابن حبان وقف له على أحاديث كثيرة.
الرابعة: أن يظهر من سياق كلامه أنه قد عرف ذلك الرجل معرفة جيدة.
الخامسة: ما دون ذلك.
فالأولى: لا تقل عن توثيق غيره من الأئمة، بل لعلها أثبت من توثيق كثير منهم.
والثانية: قريب منها، والثالثة، مقبولة، والرابعة صالحة، والخامسة لا يؤمن فيها الخلل ،والله أعلم
"( التنکیل: ۱ / ۴۳۵ ـ ۴۳۶)
اب دیکھیں، علامہ معلمی نے امام ابن حبان کی توثیق کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ھے، ان کے ہاں پہلی چار قسمیں اپنے اپنے درجات کے اعتبار سے قبولیت کے درجے پر ھیں اور آخری قسم میں خلل کا اندیشہ ذکر کیا ھے۔
محترم قارئین! ہمارا مقصد یہ ہے کہ علامہ معلمی بھی ابن حبان کو مطلقا متساہل نہیں سمجھتے تھے کہ انکے ہر حکم کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے، جیسا کہ ہمارے " محقق" موصوف سمجھ رھے ھیں، بلکہ انھوں نے انکی توثیق کو پانچ اقسام میں تقسیم کردیا ھےاور ایک کے سوا باقی کو حجت تسلیم کیا ھے، اسی طرح علامہ معلمی نے "الفوائد المجموعہ " للشوکانی کی تحقیق میں بھی صراحت کی ھے کہ کوئی بھی متساھل مطلقا تساھل کا شکار نہیں ہوتا، جیسا کہ پیچھے ھم بیان کر آئے ھیں، لہذا ان نصوص کی بدولت واضح ہوتا ھے کہ علامہ معلمی قطعا امام ابن حبان کو علی الاطلاق متساھل نہیں سمجھتے، اس لیے انکو اپنی تائید میں پیش کرنا سراسر غلط اور زیادتی ھے۔
۳- علامہ البانی رحمہ اللہ
علامہ البانی رحمہ اللہ بھی ابن حبان کو مطلقا متساھل نہیں سمجھتے تھے، فی الحال ذیل میں ہم انکی دو عبارات پیش کرتے ہیں:
۱ ـ علامہ البانی، علامہ معلمی کے مذکورہ بالا کلام پر تعلیق میں فرماتے ہیں :
" هذا تفصيل دقيق، يدل علي معرفة المؤلف رحمه الله تعالی، وتمكنه من علم الجرح والتعديل، وهو مالم أره لغيره، فجزاه الله خيرا، غير انه قد ثبت لدي بالممارسة ان من كان منهم من الدرجة الخامسة فهو علی الغالب مجهول، لا يعرف "
علامہ البانی رحمہ اللہ نے علامہ معلمی کی مذکورہ بالا اقسام بندی پر پسندیدگی کااظہار کیا اور اس سے اتفاق کیا ھے، اور اس تقسیم کی وجہ سے انکو جرح وتعدیل میں ماہر قرار دیا ھے.
اسی طرح "تمام المنہ "(۲۰۷) میں بھی مذکورہ تقسیم کو سراہا ھے۔
۲ ـ نیز "تمام المنة " ہی میں فرماتے ہیں :
"وإن مما يجب التنبيه عليه أيضاً ؛ أنه ينبغي أن يضم إلى ما ذكره المعلمي أمر آخر هام ، عرفته بالممارسة لهذا العلم ، قلَّ من نبه عليه ، وغفل عنه جماهير الطلاب ، وهو أن من وثقه ابن حبان وقد روى عنه جمع من الثقات ، ولم يأت بما ينكر عليه ؛ فهو صدوق يحتج به "
یعنی جس کی ابن حبان نے توثیق کی ہو، پھر ثقات کی ایک جماعت اس سے روایت کرتی ہو اور اس نے کوئی منکر روایت بیان نہ کی ھو تو وہ صدوق ھے، اس سے حجت پکڑی جائیگی.( تمام المنة : 25).
محترم قارئین ! علامہ البانی رح کا طرز عمل آپ کے سامنے ہے، انکا وہ موقف نہیں جس کے لیے موصوف انکو اپنے ساتھ ملا رھے ھیں، مذکورہ بالا ائمہ کا جو موقف ھے، وہ آپ سب کے سامنے ھے کہ وہ امام ابن حبان کو مطلقا متساھل نہیں سمجھتے تھے اور نہ انکے ہر حکم کو قابلِ رد سمجھتے تھے، بلکہ حافظ ابن حجر نے امام ابن حبان سے تساھل کے الزام کو رد کیا ہے اور علامہ معلمی اور علامہ البانی نے انکے تساھل کو محدود سمجھا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
ذیل میں ہم امام ابن حبان کے توثیق اور تضعیف و تصحیح کے اعتبار سے اپنی کتب میں اختیار کردہ منہج کی بابت کچھ تفصیل عرض کرتے ہیں۔
کتاب الثقات
امام صاحب نے اپنی اس کتاب کو تین قسموں میں تقسیم کیا ھے:
۱- وہ روات جو جرح وتعدیل دونوں سے خالی ہیں.
۲- مختلف فیہ راوی، یعنی جس پر جرح وتعدیل دونوں وارد ھوں۔
۳ ـ جس کے معاملے میں امام صاحب متردد ھوں.
پہلی قسم : اس پر امام صاحب کی تین عبارات ملاحظہ فرمائیں.
أ ـــــ امام ابن حبان فرماتے ہیں :
"كل شيخ ذكرته في هذا الكتاب فهو صدوق يجوز الاحتجاج بروايته اذا تعرى خبره عن خمس خصال، فاذا وجد خبر منكر عن شيخ من هؤلاء الشيوخ الذين ذكرت اسماءهم فيه كان ذلك الخبر لا ينفك عن احدى خصال خمس :
إما ان يكون فوق الشيخ الذي ذكرته في هذا الكتاب شيخ ضعيف سوى اصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم فان الله نزه اقدارهم عن إلزاق الضعيف بهم۰
او دونه شيخ واه ، ولا يجوز الاحتجاج بخبره۰
او الخبر يكون مرسلا لا تلزمنا به الحجه۰
او يكون منقطعا لا تقوم بمثله الحجة۰
او يكون في الاسناد شيخ مدلس لم يبين سماع خبره عمن سمع منه۰
فاذا وجد الخبر متعريا عن هذه الخصال الخمس فانه لا يجوز التنكب عن الاحتجاج به"

( الثقات : ۱/ ۱۱ ـ ۱۲)
ب ـــــ آپ فرماتے ہیں:
"فكل من ذكرته في كتابي هذا اذا تعری خبره عن الخصال الخمس التي ذكرتها فهو عدل، يجوز الاحتجاج بخبره، لان العدل من لم يعرف منه الجرح ضد التعديل، فمن لم يجرح فهو عدل اذا لم يبين ضده، اذ لم يكلف الناس من الناس معرفة ما غاب عنهم، وانما كلفوا الحكم بالظاهر من الاشياء غير المغيب عنهم" ( ایضا : ۱۳)
جــ ــــ آپ فرماتے ہیں :
" فكل خبر رواه شيخ من هؤلاء الشيوخ الذين نذكرهم بمشيئة الله وتوفيقه في كتابنا هذا، فان ذلك الخبر صحيح لا محالة اذا يعتری من الخصال الخمس التي ذكرتها" ( ايضا )
مفھوم ! امام ابن حبان کے نزدیک «كتاب الثقات » میں مذکور روات ثقہ ہیں بشرطیکہ اس کی خبر پانچ باتوں سے خالی ہو۔ بالفرض اگر "کتاب الثقات " میں موجود کسی راوی کی کوئی خبر منکر ہو تو اسکی خبر میں ان پانچ باتوں میں سے کوئی بات موجود ھوگی، وہ پانچ باتیں یہ ہیں :
(۱) اس راوی کا شیخ ضعیف ہو سکتا ھے.
(۲) اس راوی کا شاگرد واہی(ضعیف ) ھو سکتا ھے.
(۳) اسکی خبر میں ارسال ہو سکتا ھے.
(۴) اسکی خبر میں انقطاع ھو سکتا ہے.
(۵) اسکی خبر کی سند میں مدلس راوی ھو سکتا ھے، جس نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت نہ کی ہو.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ کیا امام صاحب نے غیر مجروح یا مستور الحال روات کی روایات کا تتبع اور انکی جانچ پڑتال کر کے مذکورہ بالا نتیجہ نکالا ھے، یعنی " کتاب الثقات " میں موجود روات کی روایات نکارت سے پاک ھیں اور پھر انہیں ثقہ قرار دیا ھے؟ یا پھر ان روات کی روایات کے تتبع سے انکی توثیق کی جائیگی کہ اگر ان میں سے کسی کی روایت میں نکارت ھے یا اگر کسی پر جرح مفسر مل جائے جس سے امام صاحب بے خبر ہوں،تو پھر اسی کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا؟
محمود سعید ممدوح نے "الاحتفال " میں کسی فاضل شخص سے نقل کیا ھے کہ محض "کتاب الثقات " میں ذکر ھونے سے کوئی راوی ثقہ نہیں بن جاتا، بلکہ اس پر مزید غور کرنے کی ضرورت ھے، کیونکہ ہو سکتا ھے کسی محدث نے اس راوی پر جرح معتبر کی ہو ، یا اسکی کسی روایت میں ایسی نکارت ھو جو صحتِ حدیث کے لیے مضر ھو، یا دونوں ہی باتیں اس میں موجود ھوں جسکی وجہ سے وہ ضعیف ھو جائے۔
اگر وہ راوی محض "کتاب الثقات " میں ذکر کرنے ہی سے امام صاحب کے نزدیک ثقہ ہوتا تو آپ بس یہ "كل من اذكره في هذاالكتاب فهو صدوق يجوز الاحتجاج بخبره" کہہ کر خاموش ھو جاتے، مگر آپ نے ایسا نہیں کیا، بلکہ مزید پانچ امور کا اضافہ کیا اور دوسروں سے ان امور کے موجود ہونے یا نہ ھونے کی تلاش کا مطالبہ کیا . انتہی بتصرف. (۱/ ۵۵ ـ ۵۶)
لیکن انہوں( محمود سعید ) نے اس توجیہ کو مسترد کر دیا ھے اور کہا ہے کہ ابن حبان نے "کتاب الثقات" میں صرف ثقات کو ذکر کرنے کی قید لگائی ھے، اور اگر ان میں سے کسی کی خبر میں نکارت ہو تو ابن حبان نے اس کا سبب پانچ باتوں میں سے کسی کے ہونے کو قرار دیا ھے کہ وہ نکارت اس راوی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان پانچ باتوں میں کسی کی وجہ سے ھوگی۔
مزید کہتے ہیں کہ امام صاحب نے جو یہ کہا ھے: "فاذا وجد خبر منکر عن واحد ممن یذکرھم ..... " تو یہ ایک خیالی اور تصوراتی سوال کے جواب میں کہا ھے۔ امام صاحب نے قطعا کسی سےیہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ میرے ذکر کردہ روات کی روایات کا تتبع یا جانچ پڑتال کرے ، بلکہ انہوں نے واضح کر دیا ھے کہ اگر نکارت پائی گئی تو یہ ان ثقات سے نہیں، بلکہ میری ذکر کردہ باتوں میں سے کسی بات کی وجہ سے ہو سکتی ھے.انتہی کلام محمود سعید بتصرف.( الاحتفال : ۱ /من ۵۵ الی ۵۹)
علامہ محمود سعید ممدوح کا موقف یہ ھے کہ جو روات غیرمجروح ھیں، انکی روایات کا امام ابن حبان نے سبرو تتبع کیا ھے لہذا وہ روات انکے نزدیک ثقہ ہی ہیں، اور کسی کی روایت میں نکارت کا پایاجانا اس راوی کی وجہ سے نہیں ہوگا، بلکہ پانچ باتوں میں سے ضرور کوئی ایک بات ہو گی جو اس نکارت کا سبب ھو.
لیکن مجھے اس بات سے اتفاق نہیں، کیوں کہ حقائق اس کے برعکس ھیں:
اولا: شاید ہی کوئی ایسا ثقہ وثبت راوی دنیا میں موجود ھو جس سے غلطی یا ثقہ و اوثق کی مخالفت کا صدور نہ ہوا ھو۔ امام صاحب کی "کتاب الثقات " میں کتنے ہی بڑے بڑے کبار ثقات روات موجود ہیں، مثلا امام سفیان ثوری، امام شعبہ، امام اعمش، امام قتادہ، امام سفیان بن عیینہ، امام زہری وغیرھم، محدثین کرام نے تصریح کر دی ھے کہ ان سب سے فلاں فلاں مقام پر غلطیاں واقع ھوئی ھیں...اگرچہ یہ بہت بڑے اعلام رجال میں سے ہیں، جب اس بات کی تصریح موجود ھے کہ ان سے غلطیاں صادر ھوئی ھیں، جس سے امام صاحب کو بھی انکار نہ ھوگا، تو پھر امام صاحب کے متعلق یہ کہنا کیسے درست ھو گا کہ وہ کتاب الثقات میں موجود روات سے اخطاء یا نکارت کی نفی کر رہے ھیں.....؟؟
جب یہ ثابت شدہ حقیقت ھے کہ ثقات روات سے غلطیوں کاصدور ممکن ھے اور ان سے غلطیاں ہوئی بھی ھیں، تو پھر یقین کے ساتھ اس غلطی یانکارت کی وجہ پانچ باتوں میں سے کسی ایک بات کو کیسے بنایا جاسکتا ھے ....؟؟
ثانیا: یہ ضرور ھے کہ امام ابن حبان روات کی روایات کا تتبع اور سبر کرتے تھے، چاھے قلیل الروایہ ھوں، جیسا کہ انکی کتاب " المجروحین " سے واضح ھے، اور کچھ مثالیں علامہ محمود سعید ممدوح نے بھی ذکر کی ھیں، ہم بھی یہاں ذیل میں چند مثالیں ذکر کیے دیتے ہیں جن سے معلوم ھوگا کہ وہ روایات کا تتبع کرتے تھے.
* ابراھیم بن بیطار ابو اسحاق الخوارزمی.
امام ابن حبان فرماتے ھیں:
" يروي عن عاصم الاحول المناكير التي لا يجوز الاحتجاج بما يرويها علی قلة شهرته بالعدالة وكتابة الحديث، روی عن عاصم الاحول قال : سالت انس بن مالك: ايستاك الصائم ...؟ قال: نعم.قلت: برطب السواك ويابسه. ؟ قال : نعم. قلت: في اول النهار وآخره؟ قال: نعم.قلت: عمن؟ قال : عن رسول الله صلی الله عليه وسلم. رواه الفضل بن موسي وابراهيم بن يوسف البلخي، وهذا ما لا اصل له من حديث رسول الله صلي الله عليه وسلم ولا من حديث انس"(المجروحين ۱/۱۰۳)
دیکھیں، راوی قلیل الروایہ ھے، اسکے باوجود بھی اس نے منکر روایت بیان کی ھے، جسکو امام صاحب "لااصل لہ " کہہ کر رد فرما رھے ھیں.گویا امام صاحب نے اسکی احادیث کا سبر وتتبع کیا ھے، اسکے بعد جب انکی اس روایت پر نظر پڑی تو اسے بے اصل قرار دیکر اس راوی کو "المجروحین " میں ذکر کر کے ضعیف قرار دے دیا.
* ابراهيم بن اسحاق الواسطي.
امام صاحب فرماتے ھیں :
"شيخ، يروي عن ثور بن يزيد مالا يتابع عليه وعن غيره من الثقات المقلوبات علي قلة روايته، لا يجوز الاحتجاج به" (المجروحين :۱/ ۱۱۳)
اسکے بعد امام صاحب نے ثور بن یزید کے طریق سے اسکی منکر روایت بیان کی ھیں۔
اب دیکھیں ، یہ راوی قلیل الروایہ ھے، امام صاحب کہہ رھے ھیں کہ قلتِ روایت کے باوجود بھی وہ ثقات روات سے مقلوبات روایات بیان کرتا ھے. یعنی قلیل الروایہ ھونے کے باوجود بھی مناکیر( ضعیف) روایات بیان کرتا ھے ، گویا یہ راوی ضعیف ھے، اسی لیے اس کو "المجروحین " میں ذکر کر کے اسے ضعیف قرار دے دیا.
*بكير بن مسمار
امام صاحب فرماتے ہیں :
"شيخ يروي عن الزهري، روی عنه ابو بكر الحنفي، وقد قيل: انه بكير الدامغاني، الذي يروي عن مقاتل ( بن حيان) كان مرجئا، يروي من الاخبار ما لا يتابع عليها، وهو قليل الحديث علي مناكير فيه" (المجروحين۱/ ۱۹۴)
دیکھین مذکورہ راوی قلیل الروایہ ھونے کے باوجود بھی مناکیر بیان کرتا ھے اور کوئی بھی اسکی متابعت نہیں کرتا، اس وجہ سے امام صاحب نے اسے "المجروحین " میں ذکر کر کے ضعیف قرار دیدیا.
یہ تو تین امثلہ ھیں، لیکن اگر قارئین پوری " المجروحین " کو دیکھیں تو اندازہ ھو گا کہ امام صاحب روات کی احادیث کا سبر وتتبع کیا کرتے تھے. لیکن بات یہ ھے کہ حقائق یہ بتاتے ھیں کہ امام صاحب سے بہرحال " کتاب الثقات " میں بتقاضائے بشریت روات کے حوالے سے تساھل ھوگیا ھےاس میں انھوں نے ایسے روات کو بھی ذکرکر دیا ھے جنکی مناکیر واضح ھیں.اگر "کتاب الثقات " میں مذکور روات کی مناکیر دیکھنا چاھتے ھیں تو"التاریخ الکبیر " للامام البخاری " میزان الاعتدال " للذھبی، "لسان المیزان " لابن حجر،اور "سلسلہ صحیحہ " سلسلہ ضعیفہ " اور "الارواء " للعلامہ البانی رحمہم اللہ کو ملاحظہ کیا جائے، معلوم ھو جائے گا کہ ان روایات میں بظاہر کوئی بھی علت معلوم نہیں ھوتی ما سوائے "کتاب الثقات " میں مذکور روات کے، جس سے ثابت ھوتا ھے کہ بہرحال "کتاب الثقات " میں مذکور تمام روات ثقہ نہیں، بلکہ خود امام ابن حبان کے نزدیک بھی وہ ثقہ نہیں ھوتے، جیسا کہ آگے اسکی وضاحت ھوگی.
لہذا اس تفصیل کے بعد بھی یہ کہنا کہ امام صاحب نے تمام روات کی روایات کا تتبع کرکے پھر انہیں "الثقات " میں ذکر کیا ھے، بہر نوع یہ درست نہیں
اب اس تساھل کا صدور امام صاحب سے کس وجہ سے ہوا...؟؟
علامہ البانی رحمہ اللہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں :
«ولدي بالنسبة لابن حبان سببان آخران :
احدهما : انه احاطت به بعض الفتن بسب كلمة قالها في النبوة وغيرها، فهجر بسببها واخرج من بلده، وهذا مما لايرتاب عاقل انه يشتغل البال، ولايفسح للعالم ان يتقن الاعمال، وبخاصة ماكان منها علمية فكرية.
والآخر : انه قد نص في مقدمة «الثقات» ( ۱/۱۱) أن هذا «مختصر عن كتاب التاريخ الكبير » مثل كتابه الآخر : «الضعفاء والمجروحين » فقد لاحظت انه قد بقي في «ثقاته» عشرات المترجمين، هم بــ «التاريخ » اولی من « الثقات »مثل اولئك الذين صرح بانه لا يعرفهم( انظر ص ۱۶) ومابعدها،وغيرها كثير وكثير، فانظر مثلا الترجمتين الآتيتين، قال ( ۸/۴۹۱) :
۱- عیسی بن زاذان الایلی، من عباد البصریین، ما لہ حدیث مسند، انما لہ رقائق والخطابات فی العبادة۔
۲ - عیسی بن جابان، من عباد اهل الكوفة، ممن حفظ لسانه، ليس يروي الاخبار، ولا يسمع الآثار، انما يحكي عنه الرقائق في التعبد۔
ومثله كثير، مثل اويس القرني، فقد وصفه بالزهد والعبادة، ولم يذكرله رواية، بل صرح الذهبي انه ما روي شيئا!
فهؤلاء بــ « التاريخ » اشبه منه بـ « الثقات» فبقاؤهم فيه دليل قوي علي انه لم يتح له اعادة النظر فيه وتصفيته من اوهامه.
قلت : فهذه المجموعة من الاسباب هي السبب في بقاء تلك الانواع من الاوهام والاخطاء في « الثقات»، وخلاصة ذلك انه تركه مسودة، لم يتح له تنقيتها وتهذيبها. والله سبحانه وتعالي اعلم.

(صحيح موارد الظمآن : ۱ / ۵۱ ـ ۵۲)
مفہوم : امام صاحب سے تساھل کا صدور دو وجوہ کی بناء پر ھوا ہے :
ایک :انہیں بعض فتنوں نے (کہ آپ نے نبوت وغیرہا کے متعلق جو کہا تھا) گھیر لیا تھا،جس کی وجہ سے آپکو چھوڑ دیا گیا اور شہر سے نکال دیا گیا تھا، جب معاملہ ایسا ھو تو پھر کوئی بھی عالم ٹھیک طرح کام نہیں کرسکتا، خصوصا علمی وفکری کام اس سے متاثر ھوتے ھیں.
دوسرا :آپ نے "الثقات" کے مقدمے میں صراحت کی ھے کہ وہ ( الثقات) انکی کتاب " التاریخ الکبیر " کا اختصار ھے، میں نے دیکھا کہ " الثقات " میں دسیوں ایسے روات رہ گئے ھیں جنہیں "تاریخ " میں ذکر کیا جانا " الثقات " میں ذکر کیے جانے سے زیادہ اولی ہے. مثلا وہ روات جنہیں وہ جانتے نہیں، انکے علاوہ اور بھی بہت زیادہ روات ھیں. ذیل کی اس کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
(۱) عیسی بن زاذان .......اس سے کوئی بھی مسند ( حدیث) مروی نہیں، بلکہ اس سے رقائق اور عبادات کے متعلق خطابات مروی ھیں.
(۲) عیسی بن جابان.......اس سے نہ اخبار مروی ھیں اور نہ آثار ہی.بلکہ اس سے عبادت میں رقائق ہی مروی ھیں.
اس طرح کی اور بھی کئی امثلہ ہیں.مثال کے طور پر اویس قرنی ہیں، جسے انہوں( ابن حبان) نے زہد اور عبادت گذاری سے متصف کیا ہے، اور اس سے کوئی روایت ذکر نہیں کی، بلکہ امام ذہبی نے تو صراحت کر دی ھے کہ انھوں نے سرے سے کچھ روایت ہی نہیں کیا.
انہیں کتاب الثقات میں ذکر کرنے سے "تاریخ " میں ذکر کرنا زیادہ قرین قیاس ھے انکا اس " (الثقات ") میں باقی رہنا قوی دلیل ھے کہ آپکو کتاب کی مراجعت اور اوھام کا صفایا کرنے کا موقع ہی نہیں ملا.
یہی وہ اسباب ھیں جن کی وجہ سے "الثقات " میں اس قسم کی اخطاء واوھام باقی رہ گئے ہیں. خلاصہ یہ کہ انہوں ( ابن حبان) نے اس ( الثقات) کا مسودہ ہی چھوڑا تھا کہ اسکی تنقیح اور تہذیب کا موقع ہی نہیں مل سکا.اھ.
علامہ البانی نے تساھل کے صدور میں ان باتوں کو سبب بنایا ھےکہ امام صاحب کی طرف یہ منسوب ھے کہ وہ نبوت کے بارے میں کہتے تھے: النبوة : العلم والعمل "، اب یہ الزام درست ہے یا غلط، فی الحال اسے زیر بحث لانے کا یہ موقع نہیں، بیان کرنے کا مقصد یہ ھے کہ علامہ البانی کی رائے کے مطابق ایک تو انہیں اس مقولے کی وجہ سے فتنوں نے گھیر لیا تھا کہ انہیں پوری طرح سے یکسوئی حاصل نہ ھوسکی، دوسرا یہ کہ چونکہ "الثقات " انکی "التاریخ" کا اختصار ھے، لہذا اسکی وہ تہذیب وتنقیح نہ کرسکے، اس لیے یہ اوھام " الثقات "میں رہ گئے. بہر حال یہ بعض امکانی باتیں ہیں جن سے کتاب الثقات میں اوہام کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top