• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث کو کھلواڑ اور بازیچہ اطفال بنانے کی ایک مذموم کاوش

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
دوسری نمبر میں موصوف کاکہناہے ہیں: ـ بعض لوگ کہتے ہیں: " حسن لغیرہ " کو سب سے پہلے امام ترمذی رحمہ اللہ نے معروف کیا تھا، انکی یہ بات سرا سر غلط ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ سے قطعا یہ ثابت نہیں، بلکہ امام ترمذی رحمہ اللہ سے اسکے خلاف ثابت ہے۔(ص: ۱۰۸)
نیز لکھتے ہیں :
امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث"مختلف اسناد سے مروی ہو " سے مراد ایسی حدیث، جس کے مرکزی راوی سے بیان کرنے والے متعدد ہوں تو اس حدیث کی امام ترمذی کے نزدیک ایک سے زائد سندیں شمار ہونگی۔(ص: ۱۱۱)
عرض ہے :
اولا: چونکہ موصوف کا منہج یہ ہے کہ ہر اصطلاح وقاعدہ کا ثبوت "متقدمین ائمہ " سے بالصراحت ہونا ضروری ہے۔اب چونکہ "امام ترمذی "سے حسن لغیرہ " ثابت ہے، لہذا اگر امام ترمذی سے وہ "حسن لغیرہ " کے ثبوت کو تسلیم کرلیتے ہیں، تو انکا موقف بالکل کمزور پڑجاتا ہے، اس لیے انہوں نے اس دیوار کو ہی گرانے کی کوشش کی اور لکھ مارا کہ "امام ترمذی سے "حسن لغیرہ " ثابت ہی نہیں!
مجھے اس وقت بے حد تعجب ہوا جب یہی بات مجھے شیخ زبیر علیزئی رحمہ اللہ کے کلام میں نظر آئی۔ آپ لکھتے ہیں: ثابت ہوا کہ امام بخاری اور امام ترمذی دونوں کے نزدیک ضعیف + ضعیف، والی مروجہ حسن لغیرہ روایت حجت نہیں، بلکہ ضعیف ہوتی ہے۔
( مقالات: ۵/۱۸۰)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ امام ترمذی بھی حسن لغیرہ ( مروجہ) کوحجت نہیں سمجھتے تھے۔ ( مقالات: ۵/۱۹۱)
۱ ـ میں حیران ہوں کہ "حسن لغیرہ " کے حوالے سے امام ترمذی اس قدر معروف ہیں کہ بعض ائمہ نے انہیں ہی اس اصطلاح کا مُشتَھِر قرار دیا ہے،نیز خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے "العلل الصغیر " کے اندر اس کی واضح تصریح کردی ہے،اور "جامع ترمذی کے اندر انکا تعامل بھی یہی بتلارہا ہے، اسی طرح ائمہ کرام کی ایک کثیر جماعت نے بھی اسے امام ترمذی کی طرف منسوب کیا ہے،
مثلا:
۱ ـ امام ابن الصلاح ( مقدمہ ابن الصلاح)
۲ ـ امام عراقی، ( التقیید والایضاح)
۳ ـ امام ابن سید الناس
( النفح الشذی: ۱/۲۰۵)
۴ ـ امام ابن تیمیہ
۵ ـ علامہ مغلطائی الحنفی،
۶ ـ امام نووی
۷ ـ امام ابن حجر
۸ ـ امام بقاعی،
۹ ـ امام سخاوی
۱۰ ـ امام سیوطی. وغيرهم، من الشارحين والمصنفين(۱)
اتنی صراحتوں کے باوجود بھی امام ترمذی کی طرف اس کی عدم حجیت وعدم ثبوت منسوب کرنا انتہائی تعجب ناک بات ہے(!!!)
شیخ زبیر رحمہ اللہ اگر امام ترمذی کو اس اصطلاح کا قائل نہیں سمجھتے تھے، تو انہیں مذکورہ بالا ائمہ کی صراحتوں کا بالتفصیل جواب دے کر اشکالات کا لازما ازالہ کرنا چاہیےتھا۔
شیخ رحمہ اللہ نے اپنے اعتبار سے اگرچہ امام ترمذی رحمہ اللہ سے ایک، دو روایات بیان کر کے ان سے حسن لغیرہ کی عدم حجیت کو ثابت کرنے کی ضرور کوشش کی ہے،، لیکن محض کسی سے شے کا اثبات کسی ایک بات سے کافی نہیں ہوتا،، بلکہ اس پر وارد اشکالات بھی دور کرنا ضروری ہوتے ہیں، خصوصا جب ایسی حالت ہو کہ کوئی شخص دو متضاد باتیں کہہ رہا ہو۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک طرف شیخ زبیر رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث ہیں، جنکی امام ترمذی سے انھوں نے تضعیف نقل کی ہے ( جنہیں حسن لغیرہ بننا چاہیے تھا) اور دوسری طرف امام ترمذی کااپنا تعامل اور مذکورہ بالا اہل علم کی تصریحات ہیں جن میں امام صاحب سے حسن لغیرہ کی حجیت کا اثبات متعین ہو رہا ہے، ان دونوں باتوں میں شدید تضاد ہے۔
عام طور پر شیخ زبیر رحمہ اللہ کا تعامل ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ ٹکراؤ کی صورت میں دونوں کو رد کردیتے ہیں، تو گویا اس اعتبار سے انہیں تو دونوں باتوں کو سرے سے ہی رد کر دینا چاہیے تھا، نہ ان سے اثبات کرتے اور نہ ہی ان سے نفی کرتے، بلکہ اس کے معاملے میں ٹکراؤ کی وجہ سے خاموش رہتے، لیکن یہاں انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ٹکراؤ کی صورت میں منہجِ محدثین یہ ہے کہ پہلے جمع وتطبیق کی کوشش کرتے ہیں، اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تو نسخ کے بعد پھر ترجیح کا آپشن استعمال کرتے ہیں، لہذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امام ترمذی کے بظاہر ٹکراؤ والے اسلوب کے مابین جمع وتطبیق دی جائے،( اور یہی بہتر صورت ہے، اور یہاں راجح بھی یہی ہے، جیسا کہ آگے اسکو جمع وتطبیق دے کر واضح کیاجائیگا ــ ) اگر یہ بھی قبول نہیں تو پھر ترجیح بھی امام ترمذی سے حسن لغیرہ کی حجیت کے اثبات کو ہی ہوگی،، کیونکہ ان سے اثبات کے کئی دلائل اور قرائن موجود ہیں، لہذا اثبات میں تصریحات، تعامل اور حقائق میں واضح قوت موجود ہے، اس لیے ان سے حسن لغیرہ کی حجیت کا اثبات ہی راجح قرار پاتا ہے،، یہ بھی علی سبیل التنزل ہے ،ورنہ انکے اس تعامل پر جمع وتطبیق ممکن ہے، اور یہی اصوب الاقوال ہے.بہر کیف یہ ساری صورت حال ہم قارئین پر پیش کرتے ہیں، فیصلہ خود فرمائیں!
محترم قارئین! مذکورہ بالا تفصیل سے ہمارے موصوف( صاحب اصول ....) کے اس دعوی کی تردید بھی ہو جاتی ہے کہ "امام ترمذی سے حسن لغیرہ کی حجیت ثابت نہیں ".مزید برآں انہوں نے اس پر اپنے تئیں جو دلیل دینے کی کوشش کی ہے تو ہم انکی اس نئی توجیہ کو پڑھنے کے بعد اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ ایسا راز آج تک تمام ائمہ حدیث سے مخفی رہا کہ بلا تدبر موصوف یہ کہہ بیٹھے کہ " امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث"مختلف اسناد سے مروی ہو " سے مراد ایسی حدیث ہے جس کے مرکزی راوی سے بیان کرنے والے متعدد ہوں تو اس حدیث کی امام ترمذی کے نزدیک ایک سے زائد سندیں شمار ہونگی"
ایک طرف ائمہ حدیث کی پوری ایک جماعت امام ترمذی کے قول و تعامل سے کیا سمجھ رہی ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے “محقق صاحب” کیا نتیجہ نکال رہے ہیں؟!
"یروی من غیر وجہ " کا کس محدث نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے مراد مرکزی راوی ہے؟!
محض خیال آرائی سے اصول وقواعد نہیں بنائے جاتے!
مزید موصوف نے خود مذکورہ بالا الفاظ کا ترجمہ " امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث"مختلف اسناد سے مروی ہو " یہ کیا ہے کہ اس حدیث کی سندیں مختلف ہوں۔
"سند " کا معنی کرکے بھی اپنی بات سے پھرگئے ہیں.نیز اس طرح انکے اخذ کردہ مطلب سے یہ نتیجہ نکلا کہ امام ترمذی محض ایک ہی طریق سے مروی ضعیف حدیث کی حجیت کا موقف بتا رہے ہیں۔
بہر کیف انکا یہ مطلب بداہتا غلط اور ناقابل قبول ہے، نہ اس پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کسی محدث سے یہ ثابت کرسکتے ہیں، یا یوں سمجھ لیں کہ انکے اس مطلب کو بیان کر دینا ہی اسکے رد کے لیے کافی ہے، لیکن پھر بھی ہم نے بفضلہ تعالی اسکا غلط ہونا واضح کردیا ہے۔
البتہ اتنا ضرور ہے کہ بعض احادیث ایسی ہیں جن پر امام ترمذی نے "حسن " کا حکم لگایا ہے، لیکن وہ صرف ایک ہی سند سے مروی ہیں، تو اس صورت میں امام ترمذی کے "حسن " والے حکم کا کیا جائیگا، ۰۰؟؟
محدثین کرام نےاس کے مختلف جوابات دیے ہیں، وہ جوابات "الحدیث الحسن” نامی کتاب میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، یہاں صرف ایک جواب کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
امام ابن تیمیہ اسکا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«من الناس من يقول: قد سمی حسنا ما ليس كذلك، مثل حديث، يقول فيه: حسن، فانه لم يرو الا من وجه واحد وقد سماه حسنا، وقد اجيب عنه: بانه قد يكون غريبا لم يرو الا عن تابعي واحد لكن روي عنه من وجهين، فصار حسنا لتعدد طرقه عن ذلك الشخص وهو في اصله غريب ۰۰۰ وقد يكون غريب الاسناد فلا يعرف بذلك الاسناد الا من ذالك الوجه حسن المتن، لان المتن روي من وجهين، ولهذا يقول: وفي الباب عن فلان، فيكون لمعناه شواهد تبين ان متنه حسن، وان كان اسناده غريبا»
(مجموع الفتاوی: ۱۸/ ۳۹ ـ۴۰)
اولا: یہ ایک خاص پس منظر کے حوالے سے ہے، اسے عام سمجھ کر امام ترمذی کی بیان کردہ تعریف پر فٹ نہیں کیاجاسکتا.
ثانیا: اس میں یہ بھی ہے کہ یہ روایت سندا اگرچہ غریب ہے، لیکن چونکہ اسکے متن کے شواہد موجود ہیں، اس لیے متن کے اعتبار سے اسے "حسن " کا حکم لگایا،
بہر کیف، یہ جواب درست ہے یا غلط، اس سے ہماری کوئی غرض نہیں، کہنے کا مقصد یہ ہےکہ جو کچھ یہ موصوف اخذ کرنا چاہتے ہیں، بہرنوع وہ اس سے ثابت نہیں ہوتا. وھذا ھوالمطلوب.
محترم قارئین: اب جب امام ترمذی سے حسن لغیرہ کی حجیت واضح ہوگئی ہے اور ان سے اسکا اثبات ہوگیا ہے تو اب موصوف کو "ائمہ متقدمین ہی حجت ہیں " کے مطابق حسن لغیرہ کی حجیت کا اقرار کر لینا چاہیے، کیونکہ امام ترمذی انکے نزدیک ائمہ متقدمین میں ہی شمار ہوتے ہیں، لہذا ہم موصوف سے اپنے دعوے کی پاسداری کرنے کے متمنی ہیں.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ائمہ کرام کی اتنی بڑی جماعت "حسن لغیرہ " کو سب سے پہلے معروف وعام کرنے والا امام ترمذی کو قراردیتے ہیں، مگر موصوف انہیں "بعض لوگ "باور کرارہے ہیں، انکے الفاظ ہیں: "بعض لوگ کہتے ہیں کہ "حسن لغیرہ " کو سب سے پہلے امام ترمذی رحمہ اللہ نے معروف کیاتھا، انکی یہ بات سراسر غلط ہے، ...توبتایا جائے کہ ائمہ کرام کی مذکورہ پوری جماعت محض "بعض لوگ " ہیں، جس طرح موصوف انہیں باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں..(!!!)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
ایک شبہہ اور اسکی تحقیق


( "حسن لغیرہ "کی اصطلاح اور "ضعیف + ضعیف کی حجیت پر باقی محدثین کرام کا تعامل )
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «و ما ذكرنا فى هذا الكتاب “حديث حسن” فانما أردنا به حسن اسناده عندنا، كل حديث يروى لا يكون فى اسناده من يتهم بالكذب و لا يكون الحديث شاذا و يروى من غير وجه نحو ذلك فهو عندنا حديث حسن»
امام ترمذی کے اس قول پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ اصطلاح ائمہ حدیث کی طرف منسوب نہیں کی.بلکہ "وما ذکرنا فی ھذا الکتاب" "انما اردنا بہ حسن اسنادہ عندنا " اور "فہو عندنا " کہہ کر اسے اپنے تک محدود کر دیا ہے، اگر یہ اصطلاح ان سے ماقبل ائمہ کی بھی ہوتی تو اسے محض وہ اپنی طرف منسوب نہ کرتے بلکہ اسے باقی ائمہ حدیث کی طرف بھی منسوب کرتے۔
* ـ امام ابن سیدالناس کہتے ہیں:
«ولم يذكر الترمذي في التعريف به ما ذكر حاكيا عن غيره، ولا مشيرا إلى أنه هو الإصطلاح المفهوم من كلام من تقدمه، بل ذكر ما ذكر من ذلك حاكيا عن مصطلحه مع نفسه في كتابه الجامع، فقال: وما ذكرنا في هذا الكتاب: حديث حسن فإنما أردنا حسن إسناده عندنا … وذكر الشروط الثلاثة التي ذكرها الترمذي ثم قال: فهذا كما ترى إخبار عن مصطلحه في هذا الكتاب، فلو قال في كتاب غير هذا عن حديث بأنه حسن، وقال قائل: ليس لنا أن نفسر الحسن هناك بما هو مفسر به هنا إلا بعد البيان لكان له ذلك"»
( النفح الشذي: ۱/ ۱۹۶ ـ۲۰۵)
امام ابن سیدالناس اپنے بیان میں یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ اصطلاح باقی ائمہ کرام کی بھی ہوتی تو وہ ضرور انکی طرف منسوب کرتے، انکا کسی اور کی طرف اسے منسوب نہ کرنا اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ یہ اصطلاح امام ترمذی کی اپنی ہی ہے۔
* ـ امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
« ما يقول فيه في كتابه حسن فقط۰۰۰ قيده بقوله: "عندنا "ولم ينسبه الي اهل الحديث، كما فعل الخطابي»
( شرح نخبة الفكر: ۹۵ )
النکت، میں فرماتے ہیں: «واذا تقرر ذلك كان من رأيه ـــ اي الترمذي ــــ ان جميع ذلك اذا اعتضد لمجيئه من وجه آخر او اكثر نزل منزلة الحسن، احتمل ان لا يوافقه غيره علي هذا الرأي او يبادر للانكار عليه اذاوصف حديث الراوي الضعيف او ما اسناده منقطع بكونه حسنا فاحتاج الي التنبيه علي اجتهاده في ذلك وافصح عن مقصده فيه، ولهذااطلق الحسن لماعرف به فلم يقيده بغرابة ولا غيرها ونسبه الي نفسه والي من يري رايه فقال: «كل حديث الي۰۰۰)
( ۱/۳۹۹)
* ـ امام عراقی اس حوالے سے دو آراء رکھتے ہیں، ایک رائے میں امام ابن سید الناس سے موافقت ہے اور دوسری میں مخالفت، یعنی امام ترمذی کے قول "عندنا " کو محض امام ترمذی تک مقید کرنے کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ "عندنا " سے مراد وہ "اہل حدیث " یعنی محدثین کرام مراد لیتے ہیں،
پہلی رائے،: امام ابن سیدالناس سے مذکورہ کلام نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں
« : فعلي هذا لا ينقل عن الترمذي حد الحديث الحسن بذالك مطلقا في الاصطلاح العام » ( التقييد والايضاح: )
دوسري رائے: « الظاهر انه لم يرد بقوله «عندنا » حكاية اصطلاحه مع نفسه، وانما اراد «عنداهل الحديث» كقول الشافعي
: وارسال ابن المسيب عندنا اي اهل الحديث۰ فانه كالمتفق عليه بينهم »
( فتح المغيث: ۱/ ۶۶) للسخاوی
لیکن امام سخاوی نے ، امام عراقی کی اس توجیہ کو رد کردیا ہے، چنانچہ امام عراقی کی اس رائے کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: « ويبعد قوله "وماذكرنا " وكذا قوله "فانما اردنا به "، وحينئذ فالنون لاظهار نعمة التلبس بالعلم المتاكد تعظيم اهله عملا بقوله تعالي "وامابنعمة ربك فحدث "مع الامن من الاعجاب ونحوه المذموم معه مثل هذا »
( ايضا)
امام سخاوی کے کہنے کامقصد ہے کہ امام ترمذی کا یہ کہنا "وماذکرنا " اور اسی طرح " فانمااردنا بہ " امام عراقی کی بات کورد کردیتا ہے، اور انہوں نے جو "نا "جمع کاصیغہ استعمال کیا ہے تو یہ اللہ تعالی کے اس فرمان " وامابنعمة ربك فحدِّث " پر عمل کرتے ہوئے علم کی نعمت کو ظاہر کرنے کے لیے بطور تحدیث نعمت کے بیان کیا ہے.
دکتور خالد بن منصور الدریس نے اپنی کتاب "الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ " ( ۳/ ۱۰۵۱) میں امام سخاوی کی اس بات کونقل کرکے انکے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے انکی تائید کی ہے، لیکن "النفح الشذی " کے محقق دکتور احمد معبد عبدالکریم امام سخاوی کے تعاقب کا یوں جواب دیتے ہیں: « ويمكن الجواب عن تعقيب السخاوي هذا بان كلام الترمذي عبارة عن فقرتين،: الفقرة الاولي قوله: "وماذكرنا في هذاالكتاب حديث حسن، فانما اردنا حسن اسناده " وهذه الفقرة يحمل فيهاالضمير «نا» علي الترمذي وحده، علي اعتبار الذي ذكره السخاوي، وهو اظهارنعمة التلبس بالعلم، ومقصود الترمذي بهذه الفقرة التنبيه علي ان المقصود بالحسن في جامعه عموما حُسنُ الاسناد.
واماالفقرة الثانية فهي قوله: « عندناكل حديث يروی۰۰۰الخ، وھذہ جملة مستانفة لبيان تعريف النوع المشكل ــــ في نظره ــــ من حسن الاسناد عنداهل الحديث كماذكر العراقي، او عندالترمذي ومن يري رايه كما قال ابن حجر، وعليه يكون ماوقع في جامع الترمذي من هذا ـــ وهو عبارة ـــ عن تطبيق من الترمذي لهذاالتعريف العام، ويؤيد هذا ما نجده في غير موضع من الجامع، حيث يحكم الترمذي علي الحديث بالحُسن ثم يتبع ذالك بنقل تحسينه ايضا عن غيره، واحيانا تتقارب عبارته اللفظية مع عبارة من نقل عنه، كماتقدم في حديث شريك ۰۰۰)
اس کلام کا ماحصل یہ ہےکہ امام ترمذی کی اصطلاح دو فقروں پر مشتمل ہے، ایک فقرہ میں وہ اپنی طرف اشارہ کرتے ہیں اور دوسرے فقرے میں انکا اشارہ ائمہ حدیث کی طرف ہے، جب وہ یہ الفاظ « وماذكرنا في هذاالكتاب حديث حسن، فانما اردنا حسن اسناده " کہتے ہیں تو ان سے مراد وہ خود ہوتے ہیں، اور ان الفاظ( صیغہ جمع) کو امام سخاوی کی رائے کے مطابق علم کے حوالے سے تحدیث نعمت کے اظہار پر محمول کیاجائیگا ، اور اس فقرہ میں انکا اس بات کی طرف تنبیہ کرنامقصود ہے کہ اسکی جامع میں حسن سے مراد اسناد کا حُسن ہے، اور دوسرے فقرہ «عندنا كل حديث يروي۰۰)) سے مراد امام ترمذی کے نزدیک اس مشکل نوع کی تعریف بیان کرنا مقصود ہے جو محدثین کرام کے نزدیک سند کے اعتبار سے حسن ہوتی ہے، جیساکہ امام عراقی نے کہاہے، یاجس طرح امام ترمذی کے نزدیک اور جو انکے ساتھ اس تعریف میں اتفاق رکھتا ہے، ۰۰ الخ.
( النفح الشذی: ۱/ ۲۰۶ ـ )
محترم قارئین! دکتور محقق کا یہ نکتہ واقعی قابلِ توجہ ہے، کیونکہ بعض دفعہ امام ترمذی اپنی جامع میں کسی حدیث کی تحسین کرنےکے بعد پھر کسی دوسرے محدث سے بھی اسکی تحسین نقل کرتے نظر آتے ہیں ــ جیساکہ "النفح الشذی " کے محقق کے کلام میں یہ بات موجود ہے،، لہذا بعید نہیں کہ امام ترمذی کے کلام کے پہلے فقرے سے مراد امام ترمذی خود ہوں، اور دوسرے فقرے سے مراد وہ خود اور دوسرے ائمہ حدیث بھی ہوں.واللہ اعلم بالصواب.بہرنوع اگر اس ساری عبارت سے مراد خود امام ترمذی ہی ہوں، تب بھی کوئی حرج نہیں.کیونکہ اس قسم کاتعامل ائمہ حدیث سے ثابت ہے، اور ایسا ضعف معتبر متابعت سے عندالمحدثین ختم ہوجاتا ہے، لہذا اسے ائمہ حدیث کی طرف منسوب نہ کرنا کسی طرح بھی مضر نہیں.
محترم قارئین! اس ساری تفصیل کو ہم درج ذیل اقسام میں تقسیم کرتے ہیں.
۱ ـ "حسن لغیرہ " کو بطور اصطلاح بنانے والے یا اسے بطور اصطلاح متعارف کرنے والے امام ترمذی ہی ہیں،قبل ازیں کسی محدث نے یہ اصطلاح نہیں بنائی.
۲ ـ حسن لغیرہ "یعنی ضعیف + ضعیف، حجت کا تعامل ہی سرے سے امام ترمذی سے ماقبل کے محدثین سے ثابت نہیں، اسے امام ترمذی نے ہی متعارف کروایا ہے۔
پہلی قسم کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ جس طرح امام ترمذی نے حسن لغیرہ کی باقاعدہ تعریف کرتے ہوئے یہ اصطلاح بنائی ہے اسی طرح ان سے قبل کسی محدث نے یہ تعریف بنا کر اسے بطور اصطلاح پیش نہیں کی ہے، گویا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امام ترمذی سے ما قبل کے محدثین نے حسن لغیرہ کی باقاعدہ اپنی کتب میں تعریف کرتے ہوئے اگرچہ بطور اصطلاح اسے ذکر نہیں کیا، لیکن اس اصطلاح کا تعامل ان سے ثابت ہے، یعنی اس پہلی قسم کے قائلین ماقبل کے محدثین سے اگرچہ بطور اصطلاح کا انکار کرتے ہیں، لیکن اس کے تعامل کے منکر نہیں، جیسا کہ یہ بات امام ابن تیمیہ، امام ابن حجر اور امام سخاوي کے کلام موجود ہے۔
دوسری قسم: کا مطلب یہ کہ ائمہ حدیث سے سرے سے نہ اصطلاح ثابت ہے اور نہ ہی ان سے تعامل ثابت ہے،امام ابن سیدالناس کی دو آراء میں سے ایک رائے یہ بھی ہے.
پہلی قسم کے قائلین، امام ابن تیمیہ، امام ابن حجر اور امام سخاوی ہیں،
امام ابن تیمیہ کہتے ہیں:
« واول من عرف انه قسم الحديث ثلاثة اقسام: صحيح وحسن وضعيف، هو ابوعيسي الترمذي في جامعه »
یعنی سب سے پہلے اس تعریف اور اصطلاح کو متعارف کروانے والے امام ترمذی ہیں۔
امام ابن حجر فرماتے ہیں: «اما علي بن المديني، فقد اكثر من وصف الاحاديث بالصحة، والحسن في مسنده وفي علله،فظاهر عبارته قصد المعني الاصطلاحي، وكأنه الامام السابق لهذا الاصطلاح، وعنه اخذالبخاري ويعقوب بن شيبة وغير واحد، وعن البخاري اخذ الترمذي ۰۰۰ فبان ان استمداد الترمذی لذالک انما ہو من البخاری، ولکن الترمذی اکثر منہ واشاد بذکرہ واظہر الاصطلاح فیہ فصار اشہر بہ من غیرہ، واللہ اعلم.
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ
"حسن لغیرہ " کی اصطلاح کے بنانے،ظاہر کرنے اور اسے بکثرت استعمال کرنے والے اگرچہ امام ترمذی ہیں،لیکن اس اصطلاح پر ان سے پہلے کے محدثین کا تعامل موجود ہے، اور پھر مثال دیتے ہوئے انہوں نے امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام یعقوب بن شیبہ وغیرھم کا ذکرکیا، اس طرح گویا "حسن لغیرہ " اصطلاح پر اول عامل
( بقول ابن حجر)امام علی بن المدینی قرار پائے،ان سے امام بخاری وغیرہ نے یہ اصطلاح اخذ کی،( یعنی ضعیف + ضعیف کی حجیت کاتعامل) اور پھر امام ترمذی نے اسے امام بخاری سے اخذ کرکے بطور اصطلاح متعارف کراتے ہوئے زیادہ استعمال کرکے اسے شہرت بخشی، جسکی وجہ سے وہ اس اصطلاح میں دوسروں کی بنسبت زیادہ مشہور ہوگئے.
( النکت: ۱/۴۲۸ ـ ۴۲۹)
ابن حجر کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ بہرحال "حسن لغیرہ " اصطلاح پر باقی محدثین کرام کا بھی تعامل موجود ہے،پھر اسکی ابتداء کرنے والے امام علی بن المدینی کو بتایا، جن سے یہ تعامل امام بخاری وغیرہ نے لیا اور پھر امام بخاری سے امام ترمذی نے اخذ کرتے ہوئے اسے بطور اصطلاح مشہور کردیا،
اسی طرح امام سخاوی کے کلام کابھی یہی مفہوم ہے، کیونکہ ان سب میں سے ہر ایک سے ہی یہ ثابت ہے کہ امام ترمذی سے ماقبل کے محدثین کرام کے یہاں یہ تعامل پایا جاتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ امام علی بن المدینی اور امام بخاری وغیرہ سے اگرچہ نصا "حسن لغیرہ " کی اصطلاح ثابت نہیں کہ انہوں نے اپنی کسی کتاب میں اسکی تعریف کر کے بتائی ہو کہ "حسن " کی تعریف یہ ہے،تاہم انکے تعاملات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امام ترمذی کی "حسن لغیرہ " والی اصطلاح پر عامل ضرور تھے، امام ترمذی نے بس یہ کیا کہ انکے تعامل کو مدنظر رکھ کر اسکی مصطلح الحدیث میں تعریف کرتے ہوئے اسے بطور اصطلاح متعارف کرایا، جسے ائمہ فن اور ائمہ اصطلاح نے قبول کیا.
ابن حجر کے کلام سے تعامل کی بات اس لیے کی کہ یہ واضح ہے کہ امام ترمذی سے ماقبل کے ائمہ حدیث سے "حسن لغیرہ "کی بطور اصطلاح تعریف ثابت نہیں ہے، لہذا انکا یہ سارا کلام تعامل پر ہی محمول کیاجائیگا، واللہ اعلم بالصواب
امام سخاوی کے الفاظ ہیں:
«ووجد للشافعي اطلاقه في المتفق علي صحته ولابن المديني في الحسن لذاته، وللبخاري في الحسن لغيره»( فتح المغيث: ۱ /۷۰)
امام ابن سیدالناس کہتے ہیں:
« اماالاول: فلانه ـــــ اعني الحسن ـــ كثير في كتابه، قليل عمن تقدمه، لاسيما علي الوضع المصطلح عليه عنده»
کہ یہ "حسن " کا استعمال امام ترمذی سے ماقبل والے محدثین سے ثابت ہے، خصوصا اس انداز پر کہ امام ترمذی نے جواصطلاح پیش کی ہے .انکی ایک یہ رائے ہے۔
دوسری قسم کے قائل فی الحال مجھے امام ابن سیدالناس ہی نظر آئے ہیں.ــ جیسا کہ اوپر ذکر ہواــ انکے الفاظ ہیں:
« فنقول: قال الامام ابوعمرو ابن الصلاح ــ رحمه الله ـــ كتاب الترمذي اصل في معرفة الحسن، وهوالذي نوه باسمه، واكثر من ذكره في جامعه، ويوجد في متفرقات من كلام بعض مشايخه، والطبقة التي قبلهم، كاحمد بن حنبل، والبخاري ــــ المفضل ــــ ولكن لم يذكر الامام ابوعمرو: هل هو في مصطلح من تقدم الترمذي كماهو في مصطلحه، او لا؟ بل لعل عند قائليه من المتقدمين يجري مجري الصحيح ويدخل في اقسامه، فانهم لم يرسموا له رسما يقف الناظر عنده، ولا عرفوا مرادهم منه بتعريف يجب المصير اليه ولم يذكر الترمذي في التعريف به ماذكر حاكيا عن غيره، ولا مشيرا الي انه هو الاصطلاح المفهوم من كلام من تقدمه»
( النفح الشذي:۱/۱۹۶)
امام ابن سید الناس کا کہنا ہے: ہو سکتا ہے امام ترمذی سے ماقبل کے محدثین "حسن "کا اطلاق صحیح حدیث پر کرتے ہوں اور اسے "صحیح " کی اقسام میں ہی داخل سمجھتے ہوں، کیونکہ انہوں نے نہ اس "حسن " کی تعریف کی ہے کہ وہ ہمیں نظر آئے اور نہ ہی انہوں نے اپنی مراد کی وضاحت کی ہے کہ اس سے انکی مراد وہی ہے جو امام ترمذی بیان کر رہے ہیں، اور نہ ہی امام ترمذی نے تعریف کرتے ہوئے اسے کسی دوسرے امام سے نقل کیاہے، اور نہ ہی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کی یہ اصطلاح اس سے ماقبل والوں کے کلام سے اخذ کردہ ہے.
محترم قارئین! دیکھیں امام ابن سید الناس کے کلام میں واضح طور پر تناقض موجود ہے، اول کلام میں اقرار کیا کہ امام ترمذی سے ماقبل کے محدثین کرام کے تعامل میں امام ترمذی کی "حسن لغیرہ " والی اصطلاح موجود ہے، اور اسے انہوں نے استعمال کیا ہے، لیکن اس دوسرے کلام میں جس طرح باقاعدہ تعریف اور اصطلاح کی نفی کررہے ہیں، اسی طرح، سراسر تعامل کی بھی نفی کررہے ہیں، لیکن راجح بات یہ یہ ہے کہ امام ترمذی سے قبل بھی "حسن لغیرہ "پر تعامل ثابت ہے کہ امام ابن حجراور امام سخاوی کے مذکورہ قول(۱) کے باوصف بھی انہوں نے امام ترمذی سے قبل امام بخاری سے تعامل کے اثبات کااقرار کیا ہے، جیسا کہ آگے اسکی وضاحت ہوگی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ابن حجر کے الفاظ ہیں: امام لانہ اصطلاح جدید لہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
محترم قارئین! امام ابن تیمیہ کے مذکورہ بالا کلام « واول من عرف انه قسم الحديث ثلاثة اقسام: صحيح وحسن وضعيف، هو ابو عيسي الترمذي في جامعه » پر امام ابن رجب نے نقد کیا ہے، فرماتے ہیں:
“ وقد نسب طائفة من العلماء الترمذيَّ الي التفرد بهذاالتقسيم، ولاشك انه هوالذي اشتهرت عنه هذه القسمة، وقد سبقه البخاري الي ذالك فيماذكره عنه في كتاب العلل»(شرح علل الترمذي: )
امام ابن رجب کا یہ رد غالبا امام ابن تیمیہ اور ان کے موافقین پر ہی ہے، وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید وہ امام ترمذی سے ماقبل کے محدثین کے "حسن لغیرہ " کے تعامل سے ہی انکار کر رہے ہیں، اسی لیے ان پر تعاقب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقسیم یعنی "حسن لغیرہ " پر تعامل امام بخاری سے بھی ثابت ہے، تعامل کا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جس طرح امام ترمذی نے "حسن لغیرہ " کی باقاعدہ تعریف کی ہے اس طرح امام بخاری سے یہ تعریف ثابت نہیں ہے.
ایک دعوی اور اسکاجواب
امام ابن سید الناس نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ امام ترمذی کی "حسن لغیرہ "والی اصطلاح صرف انکی جامع ترمذی تک ہی خاص ہے اور اسے انہوں نے عام نہیں رکھا کہ اسے انکی ہر کتاب میں اسی اصطلاح پر عام سمجھا جائے۔
امام ترمذی کے یہ الفاظ: ((وماذکرنا فی ھذاالکتاب۰۰۰)) کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
« فهذا- كماتري ـــ اخبار عن مصطلحه في هذاالكتاب، فلو قال في كتاب غير هذا عن حديث بانه حسن، وقال قائل: ليس لنا ان نفسر الحسن هناك بماهو به هنا الا بعد البيان، لكان له ذالك »(النفح الشذی: ۱/۲۰۵)
دکتور خالدبن منصورالدریس حفظہ اللہ نے امام ابن سیدالناس کی اس بات کو ذکر کر کے انکا تعاقب کیا ہے ، جس کا لب لباب یہ ہے کہ انکا یہ دعوی ناقابل التفات ہے، کیونکہ اگر انکے اس دعوی کو درست سمجھا جائے تو یہ بات ثابت کرنی پڑیگی کہ امام ترمذی نے اور بھی ایسی کتب تصنیف کی ہیں، جن میں حدیث کی تصحیح، تحسین اور تعلیل والا منہج اختیار کیا ہو، جبکہ اس وصف والی ہمیں انکی ایک ہی کتاب نظر آئی ہے، اور وہ ہے انکی "العلل الکبیر "اور انکی اس کتاب میں مجھے صرف ایک ہی ایسی حدیث نظر آئی ہے جسکی امام ترمذی نے تحسین کی ہے(اور اسکے بعد پھر انہوں نے عطیہ بن سعد العوفی کے طریق سے مروی ایک حدیث ذکر کی) اور اپنی "جامع" میں عطیہ کے طریق سے مروی کافی احادیث کی تحسین کی ہے، جبکہ اکثر نقاد اسکی تضعیف کرتے ہیں، اب خارج از "جامع " ایک ہی حدیث ایسی ملی ہے جس کی امام ترمذی نے تحسین کی ہے، لہذا محض اس ایک حدیث سے یہ کیسے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انکا اسکی "جامع " کے منہج سے یہاں مختلف منہج ہوگا. (الحديث الحسن لذاته:۱/ ۱۰۵۰ ـ۱۰۵۱)
محترم قارئین: یہ تمام باتیں اپنی جگہ، مگر امام ابن سیدالناس نے یہ سب کچھ کہنے کے بعد بالآخر حسن لغیرہ " کی حجیت کوتسلیم کرلیا۔کہتے ہیں:
«الحق فی هذه المسئلة ان يقال: اما ان يكون الراوي المتابع مساويا للاول في ضعفه او منحطا عنه او اعلي منه، فاما مع الانحطاط فلا تفيد المتابعة شيئا،
واما مع المساواة فقدتقوي، ولكنها قوة لاتخرجه عن رتبة الضعيف، بل الضعيف يتفاوت، فيكون الضعيف الفرد اضعف رتبة من الضعيف المتابع، ولا يتوجه الاحتجاج بواحد منهما، وانما يظهر اثر ذالك في الترجيح،
واما ان كان المتابع اقوي من الراوي الاول، ان افادت متابعته مادفع شبهة الضعيف عن الطريق الاول، فلا مانع من القول بانه يصير حسنا »( النكت: ۱۳۳۲) للزرکشی.
امام ابن سیدالناس کے اس کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ متابعت کی تین قسمیں ہیں:
۱ ـ مُتَابِع( متابعت کرنے والا) مُتَابَع لہ
( جس کی متابعت کی جا رہی ہے) سے ضعف میں زیادہ نہ ہو، زیادہ ہونے کی صورت میں اسکی متابعت کا کوئی فائدہ نہیں.
۲ ـ مُتَابِع( متابعت کرنے والا) اور مُتَابَع لہ(جس کی متابعت کی جا رہی ہے) اگر دونوں ضعف میں برابر ہوں تو پھر قوت میں اضافہ تو ہو سکتا ہے، مگر اس متابعت سے روایت ضعف کے درجہ سے باہر نہیں نکل سکتی.
۳ ـ مُتَابِع( متابعت کرنے والا) مُتَابَع لہ( جس کی متابعت کی جارہی ہے) سے قوت میں اس قدر بڑھا ہوا ہو کہ جس سے اسکی متابعت ضعف کو ختم کردے،
گویا امام صاح ضعف کی تقویت کے لیے آخری قسم کی حجیت کو تسلیم کر رہے ہیں، پہلی قسم کی تقویت کے ہم بھی قائل نہیں..باقی دوسری قسم کی حجیت کا اگرچہ امام صاحب نے انکار کیا ہے، مگر راجح قول میں وہ بھی معتبر ہے، بہرکیف امام صاحب اس قدر بحص وتمحیص کے بعد بالآخر مذکورہ اقسام میں سے ایک قسم کی حجیت کو تسلیم کرکے "حسن لغیرہ "کی حجیت کے قائلیں میں شامل ہوچکے ہیں.
تنبیــــــــــــــہ
محترم قارئین، پیچھے گذر چکا ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے "حسن لغیرہ " کے تعامل کو امام علی بن المدینی کی طرف منسوب کیا تھا کہ وہ بھی اس اصطلاح پر عامل تھے، انکی اس بات سے شیخ ربیع حفظہ اللہ نے اختلاف کیا ہے کہ امام ابن حجر کا امام علی بن مدینی کے حوالے سے محض گمان ہے، اور انکے اس گمان کی بنیاد بھی بس اس پر ہے کہ چونکہ امام علی بن مدینی محدثین کے مابین حدیث اور اسکی علل پر وسیع اطلاع رکھنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں امام علی بن مدینی سے "حسن لغیرہ " پر تعامل ثابت نہیں، کیونکہ یہ بات معروف ہے کہ امام علی بن المدینی کی "المسند " انکی زندگی میں ہی تلف ہوگئی تھی، اور ابن حجر اور انکے معاصرین، بلکہ ان سے بھی ماقبل کے محدثین بھی امام علی کی مصنفات میں سے "الاخوة والاخوات " سؤالات " اور العلل " کے اس قطعہ پر مطلع ہوئے تھے جو آج ہمارے پاس موجود ہیں.
اسکے بعد پھر انہوں نے امام علی بن المدینی کی "العلل " کے تلف ہونے پر چند دلائل پیش کیے ہیں،کہتے ہیں کہ ابن حجر کی کتاب "المعجم المفہرس" میں امام علی بن المدینی کی "العلل " کا ذکر نہیں ہے، اگر واقعی ابن حجر "العلل " پر مطلع ہوئے ہوتے تو وہ ضرور اسے یہاں ذکرکرتے، انکا "العلل " کو اس کتاب میں ذکر نہ کرنا صراحت کررہا ہے کہ وہ اس پر مطلع نہیں ہوئے تھے.انتہی کلامہ بتصرف.
شیخ ربیع کی اس بات پر دکتور خالد بن منصور الدریس نےتعاقب کرتے ہوئے ابن حجر کے حوالے سے اس گمان والی بات کو نامناسب قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ علماء کے کلام سے معلوم پڑتا ہے کہ امام علی بن مدینی کی "العلل " کا وجود ہے، اسکے بعد انہوں نے امام دارقطنی، امام ابن حزم، اور امام ابن کثیر سےامام علی بن المدینی کی "مسند " سے احادیث روایت کی ہیں، مزید کہتے ہیں کہ امام ابن کثیر نے اپنی کتاب "مسند الفاروق " میں امام علی بن المدینی سے کافی نقول نقل کی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام علی بن مدینی کی "المسند " یا اسکے کچھ حصے پر مطلع ہوئے ہیں، ـــ یعنی "مسندالعلل "—اور سات احادیث سنداومتنا امام علی بن مدینی سے ڈائریکٹ بیان کی ہیں، اور چالیس سے زیادہ جگہوں پر امام علی بن مدینی کا حوالہ دے کر کہتے ہیں: رواہ علی بن المدینی من طرق، ثم قال: هذا حديث صحيح الاسناد "..اور اسی طرح ماقبل میں ذکرکردہ نصوص کے علاوہ بیس کے قریب اور نصوص امام علی بن مدینی سے نقل کرتے ہیں، میرا گمان یہ ہے کہ وہ انکی "العلل " سے نقل کردہ ہیں، جیساکہ ان نصوص کے منہج اور ان پر کیے گئے کلام کے سیاق کے اسلوب سے ظاہر ہوتا ہے، تو بالفرض اگر ابن حجر نہ امام ابن المدینی کی "العلل " پر مطلع ہوئے اور نہ ہی "المسند " پر، تو بعید نہیں کہ انھوں نے ابن کثیر کی "مسند الفاروق " وغیرہ پر اطلاع پاتے ہوئے اپنا مذکورہ حکم صادر کیا ہو، یہ احتمال بہت قوی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر نے اپنے مذکورہ حکم کی بنیاد محض ظن پر نہیں رکھی، بلکہ وہ امام ابن المدینی کے اپنے کلام پر ہی مطلع ہوئے تھے، اگرچہ واسطہ سے ہی سہی .پھر کہتے ہیں کہ امام ابن رجب "مسند علی بن المدینی " اور "مسند یعقوب بن شیبہ " کا حوالہ دیکر کہتے ہیں: " ھما فی الحقيقة موضوعان لعلل الحديث " کہتے ہیں کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ "مسند علی بن المدینی " کا موضوع بھی "علل " کا ہے، اور اس نص سے معلوم پڑتا ہے کہ ابن رجب امام علی کی"مسند "یااسکے کچھ حصہ پر مطلع تھے، اس لیے صراحت کی کہ وہ علل کے موضوع پر مشتمل ہے۔
کہتے ہیں کہ ابن حجر کی عبارت سے ظاہر ہے کہ وہ امام علی بن مدینی کی وافر مقدار میں تحسینات (حسن والے حکم) پر مطلع تھے، آپ کہتے ہیں۔ «فظاهر عبارته قصد المعني الاصطلاحي ۰۰»یہ جملہ نص کی طرح ہے کہ جیسے وہ خود اس پر مطلع ہوئے ہوں، آپ ایک عادل امام ہیں، علم حدیث اور اسکا اہتمام سعت اطلاع میں آپ تک ختم ہے،لہذا اولی یہی ہے کہ ابن حجر کے کلام کو اسکے ظاہر پر محمول کیاجائے اور اس میں تاویل نہ جائے، کیا امام علی بن مدینی کا محض علل حدیث میں شہرت رکھنااس بات کے لیے کافی ہوگا کہ اس سے کسی کے لیے "حسن لغیرہ " کا منہج قرار دیاجائے، اگر ایسا ہوجائے تو پھر ابن حجر نقل میں غیر معتمد ہو جائینگے،کیونکہ وہ محض باتیں، ظن وتخمین اور اندازوں سے کرتے ہیں (!!)
مزید کہتے ہیں کہ امام علی بن مدینی نے ایک کتاب بنام "علل المسند " تصنیف کی ہے اور وہ انکی "علل " کے علاوہ ہے، اور علل پر انکی مختلف تصنیفات ہیں، انکی کتاب "علل المسند " کو انکی باقی کتب علل سے تمیز دیتے ہوئے باقی کو اختصارا "المسند " بھی کہاجاتاہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابن حجر نے اپنے کلام میں یہی مراد لی ہے، کیونکہ "المسند الکبیر "تو امام علی کی زندگی میں ہی تلف ہوگئی تھی، اور یہ "المسند الکبیر" ایسی نہیں تھی کہ اس میں موجود احادیث پر صحتا، وضعفا، راجحا ومرجوحا، کلام کیاجائے، اس کی امام علی کی اس بات سے بھی تائید ہوتی ہے کہ" اس نے اس میں طرق جمع کردیے ہیں "اور انکی یہ "المسند "امام احمد کی "المسند " کے زیادہ مشابہ ہے کہ اس میں حدیثی نقد نہیں، بلکہ ہر صحابی کی احادیث کی اسانیدکو علیحدہ علیحدہ جمع کیاجائے، باقی "علل المسند " تومیں سمجھتا ہوں کہ امام بزار کی "المسند " کے زیادہ مشابہ ہے، کیونکہ اس میں نقدی تعلیقات، احادیث اور اسانید پر حسن کا حکم موجود ہے، اس بات کی تائید ابن رجب کی اس بات سے بھی ہوتی ہےکہ مسند علی بن مدینی اور مسند یعقوب بن شیبہ دونوں حقیقت میں علل حدیث کے موضوع پر ہیں ".لہذا میرا یہ گمان ہے کہ ابن حجر کی اس "المسند " سے مراد وہ نہیں جو تلف ہوگئی تھی، بلکہ اس سےانکی مراد "علل المسند " ہے، جس کے نام میں اختصار کرکے اسے "المسند " کہاگیا.، اور یہ اہل علم کے عرف میں جائز ہے، اس ساری تفصیل میں کسی قسم کا نہ کوئی تکلف ہے اور نہ ہی یہ تاویل مستبعد ہے، بلکہ کسی وسیع الاطلاع امام کے حق میں یہی زیادہ اولی ہے، جیساکہ حافظ ابن حجر ہیں.
مزید کہتے ہیں کہ شیخ ربیع نے جو یہ کہاہے کہ: ابن حجر علل ابن المدینی "کے موجودہ طبعہ شدہ حصہ پر مطلع نہیں ہوئے تھے، "تو گویاوہ یہ سمجھتے ہیں کہ "علل ابن المدینی "کا حصہ باقی نہیں رہا یہاں تک کہ ابن حجر سے قبل بھی سوائے اس حصہ کے جوآج ہمارے پاس موجود ہے، تو انکی یہ بات درست نہیں.اسکے بعد شیخ نے ابن حجر کی کتب مثلا: فتح الباری، النکت، اور نتائج الافکار، سے " چندنصوص ذکرکی ہیں، جنہیں ابن حجر نے امام علی بن مدینی کی "علل " سے نقل کیاہے، اور یہ نصوص علل ابن المدینی کے موجودہ مطبوعہ نسخہ میں موجود نہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علل ابن المدینی ابن حجر کے زمانہ میں ہمارے موجودہ نسخہ سے زیادہ پایاگیاتھا،باقی شیخ ربیع کا یہ کہناکہ: ابن حجر کا "العلل "کو "تجریداسانید الکتب "میں ذکر نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس پر مطلع نہیں ہوئے تھے، تو یہ صحیح نہیں، کیونکہ بعض دفعہ ایساہوتا ہے کہ کتاب کی سند ہی موجود نہیں ہوتی جس سے روایت کی جائے، اسکے بعد انہوں نے امام سخاوی کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے "العلل " للدارقطنی کو وجادة پایا اور اس سے استفادہ کیاہے، مزید کہاکہ اس قسم کا معاملہ کبار علماء کے ہاں موجود تھا، امام حاکم، امام نسائی کے قریب زمانہ کے ہیں، وہ کہتے ہیں: ومن نظر كتاب السنن " له تحيَّر من حُسن کلامہ، وليس هذاالكتاب بمسموع عندنا
(معرفة علوم الحديث: ص۸۲)
انتہی کلام الشیخ خالد بن منصور الدریس بتصرف
( الحدیث الحسن لذاتہ: ۲/۹۷ ۱۱۰ )
اس ساری تفصیل سے ثابت ہوا کہ ابن حجر نے محض تکے سے امام علی بن المدینی کی طرف "حسن لغیرہ " کی اصطلاح کاتعامل منسوب نہیں کی، جیساکہ شیخ ربیع حفظہ اللہ کہہ رہے ہیں.
باقی کیا واقعی ابن المدینی "حسن لغیرہ "کے قائل تھے،،، ؟؟ تو اس حوالے سے شیخ خالد بن منصور الدریس نے امام ابن المدینی سے مثالیں جمع کرکے اپنا تتبع جو پیش کیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابن المدینی ــ انکے بقول ان نقول کے بموجب ــ حسن لغیرہ کے قائل نہیں.واللہ اعلم بالصواب.
بہرکیف ابن حجر ایک معتمد امام.، محدث ہیں اور اصطلاحات المحدثین سے اچھی واقفیت رکھنے والے بہت بڑے ناقد فن ہیں، انہوں نے ابن المدینی کو "حسن لغیرہ "کا قائل قرار دیا ہے، اس لیے انکی یہ بات ضرور قابل توجہ ہے، اور مزید بحث اور تتبع کی ضرورت ہے.واللہ اعلم بالصواب۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
امام ترمذی کی اصطلاح "حسن لغیرہ " کی تطبیقي میدان میں حیثیت


موصوف “ محقق” نے شق نمبر(۳) میں یہ کہا ہے کہ: ضعیف + ضعیف= ضعیف ہی رہتی ہے،، جیسے صفر + صفر= صفر " رہتا ہے، یا جیسے "ایک اندھا + ایک اندھا + ایک اندھا= اندھا ہی رہتا ہے، تین اندھوں کے ملنے سے ایک آنکھوں والا نہیں بن سکتا۔(ص : ۹۷)
محترم قارئین: موصوف کے اس کلام کا مدعا بالکل واضح ہے کہ ضعف کبھی منجبر نہیں ہوسکتا، یعنی ضعف کی سرے سے درجات بندی ہی نہیں ہے ، بنا بریں جس کا ضعیف ہونا ثابت ہوگیا، وہ کبھی قوت نہیں پکڑ سکتا، اسکی دلیل انکا نابینا شخص کی مثال دینا ہے کہ اندھے کتنے بھی مل جائیں، وہ آنکھوں والے نہیں بن سکتے، اس طرح گویا انکے نزدیک ضعف کا ایک ہی درجہ ہے، یعنی "ضعف شدید "..جبکہ اسی وقت وہ یہ بھی موقف رکھتے ہیں کہ ضعف وہ قابلِ انجبار ہے جسکی متابعت کرنے والا ثقہ یاصدوق راوی ہو، اسی طرح متابعت میں آنے والی صحیح یا حسن لذاتہ روایت ہو۔
اور جیسا پہلے گذرا کہ وہ اپنی کتاب میں متواتر حدیث کا بھی ذکر کر چکے ہیں، جس کے لیے ائمہ حدیث نے تو راوی کی عدالت کی بھی شرط نہیں لگائی، لیکن موصوف کے نزدیک یہاں ضعف منجبر ہوسکتا ہے، اب اسے تناقض کا نام نہ دیا جائے تو اور کیا کہا جائے ۰۰۰!!!
حالانکہ ضعف خفیف کو بالکل صفر قرار دینا نہ صرف ایک بنیادی غلطی ہے بلکہ علم حدیث میں موصوف کے سطحی درک کی علامت بھی ہے۔
محترم قارئین! امام ترمذی نے "حسن لغیرہ " کی جو اصطلاح ذکر کی ہے، کیا اسے محض اس وجہ سے قبول کیا گیا ہے کہ اسے ایک امام نے متعارف کروایا ہے،،،؟؟؟؟
کیا تطبیقی انداز میں اسکا اثر یاحقائق سے تعلق نہیں..؟؟؟
ان باتوں کا جواب ہم دو طرح سے دیتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
۱ ـ اصطلاح کا مفہوم اور اسکی اہمیت.
۲ ـ تطبیقی میدان میں "حسن لغیرہ " کی حجیت کا ثبوت.
اول: کلمہ "اصطلاح " یہ باب "اصطلح یصطلح " سے مصدر ہے اور مادہ "صلح " سے اخذ کردہ ہے، جس کا لغت میں معنی ہے :
« اتفاقُ طائفة على شيء مخصوص»:
کہ کسی جماعت کا کسی مخصوص چیز پر اتفاق کرلینا،
« لفظ أو شيء اتّفقت طائفة مخصوصة على وضعه في علم معيّن»:
کہ کسی لفظ یاکسی چیز کے وضع پر ایک مخصوص گروہ کسی معین علم میں اتفاق کرلے.
«اِصْطِلاحُ العُلَماءِ : اِتِّفاقُهُمْ على شَيْءٍ مَّا مُحَدَّدٍ»
کہ علماء کا کسی محدود چیز پر اتفاق کرلینا.
گویا مفہوم یہ بنا کہ کسی اصطلاح کے وضع کرنے میں لوگوں یا علماء کی ایک جماعت کا اتفاق ہوتا ہے تو اسے اصطلاح بنادیا جاتا ہے.اور یہ اصطلاحات،اصول اور قواعد تطبیقات اور حقائق کو دیکھ کر ہی بنائے جاتے ہیں، یہ نہیں کہ پہلے پہل اصطلاح، اصول اور کوئی قاعدہ وضع کیا جائے، اور پھر ان کو ثابت کرنے کے لیے شواہد وغیرہا کو اکٹھا کیا جائے،یہ ائمہ نقد کا طریقہ کار نہیں..لہذا اگر کوئی اصطلاح وضع کی جا رہی ہوتی ہے یا کوئی محدث اسے متعارف کروا رہا ہوتا ہے تو اسکے سامنے تطبیقی میدان ہوتا ہے، جس کو مدنظر رکھ کر اسکے لیے اصطلاح وضع کرتا ہے۔
محترم قارئین! یہ علم اور فن حدیث، اللہ تعالی کی دَین اور میراث ہے، اسکی مرضی ہے جس سے جو کام کروائے، سب کچھ کسی ایک سے کروا کر باقیوں کو محروم نہیں رکھ سکتا، کسی محدث نے کیا خدمت سر انجام دی، کسی نے کیا اصطلاح متعارف کروائی، کسی نے کتب کی کیسی ترتیب کو شہرت دی..غرض اول کو دیکھ کر پھر دوسرے اسکی پیروی میں لگ جاتے ہیں، اللہ تعالی نے آنے والوں کے لیے اس میں حصہ رکھاہے.
اب اللہ تعالی نے اگر "حسن لغیرہ " کو متعارف کرانے کے لیے امام ترمذی کا انتخاب کیا ہے تو یہ امر بھی امام ترمذی کو ایک درجہ اور مقام دیتا ہے، چونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ بھی اہل فن اور اہل اصطلاح ہیں،، انہوں نے جب تعاملات
( بعید نہیں کہ جب) محدثین اور تطبیقی میدان پر نظر دوڑائی تو انہیں یہ اصطلاح متعارف کرانے کا دل میں خیال پیدا ہوا، اور چونکہ پہلے کسی امام سے "حسن لغیرہ "اصطلاح کی منصوص تعریف باقاعدہ طور موجود نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اسے محض متعارف ہی نہیں کروایا،بلکہ عملی، یعنی تطبیقی انداز میں اسے اپنی جامع میں احادیث پر تحسین کا حکم لگاتے ہوئے واضح کیا، اور بلاشبہہ یہ انداز اس "حسن لغیرہ " کی اصطلاح کو اہمیت دیتا ہے، ایک ہوتا ہے کسی چیز کو محض بطور اصطلاح متعارف کروانا، دوسرا ہوتا ہے کسی چیز کو متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اسے عملی اور تطبیقی انداز میں پیش کرنا،دونوں میں فرق ہے، تطبیقی انداز سے پیش کرنےسے اس چیز کی اہمیت اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے، لہذا امام ترمذی نے محض اس اصطلاح کو متعارف ہی نہیں کروایا بلکہ اسکی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے تطبیقی انداز میں پیش کیا کہ اپنی جامع میں احادیث ذکر کرکے اسکی تحسین کرنے لگ جاتے ہیں.بہرکیف امام ترمذی محدثین کے درمیان اس اصطلاح کو متعارف کروانے میں ایک حیثیت اور مقام رکھتے ہیں.
امام ترمذی کی اس اصطلاح کو درج ذیل محدثین کرام نے مصطلح الحدیث کی کتب میں یا اپنی دوسری کتب میں ذکر کرکے بطور اصطلاح تسلیم کیا ہے:
۱ ـ امام ابن الصلاح
۲ ـ امام ابن تیمیہ
۳ ـ امام ابن سید الناس
۴ ـ امام بدرالدین الزرکشی،
۵ ـ امام عراقی
۶ ـ حافظ ابن حجر
۷ ـ امام سخاوی
۸ ـ امام بقاعی
۹ ـ امام سیوطی وغیرہم.
بعد والے محدثین میں جب "حسن لغیرہ "کو بطور اصطلاح استقرار حاصل ہوگیا تو پھر انہوں نے اسے باقاعدہ محدثین کی اصطلاح قرار دیا.
ان تمام سطور میں اصطلاح کا مفہوم اور اسکی اہمیت بالکل واضح ہے، جسے ذکر کرنے کا مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ امام ترمذی کی "حسن لغیرہ "والی اصطلاح کی اپنی اہمیت ہے ، اسی وجہ سے اس کو ائمہ فن ونقد کی ایک جماعت نے بھی قبول کیا ہے اور اسے تطبیقی میدان میں قابل عمل سمجھا ہے، لہذا اسے ایک اصطلاح مان کر تسلیم کرناچاہیے...
ثانیا : تطبیقی میدان میں "حسن لغیرہ " کی حجیت کا ثبوت.
یہ ائمہ جرح وتعدیل کا منہج ہے کہ ضعیف کو اگر تقویت مل جائے تو وہ منجبر ہوسکتا ہے،اس حوالے سے ذیل میں ہماری معروضات ملاحظہ فرمائیں.
أ ـ امام ترمذی نے "حسن لغیرہ " کی اصطلاح کو اگر متعارف کروایا ہے تو انکے پاس تطبیقی میدان تھا، جسے مد نظر رکھ کر انہوں نے "حسن لغیرہ "کی اصطلاح متعارف کرائی ہے.
یہ اصطلاح متعارف ہونے کے بعد ائمہ اصطلاحات نے بھی اس کو بطور اصطلاح اصول حدیث کی کتب میں شمار کیاہے،جن ائمہ فن نے امام ترمذی کی اصطلاح کو قبول کرکے اسے مستقل طور پر اپنی کتب میں رکھا اور اسے حجت تسلیم کیا تو یہ محض امام ترمذی کی صدا پر بغیر چوں وچرا کے لبیک نہیں کہا، بلکہ انکے سامنے بھی وہی تطبیقی میدان اور حقائق موجود تھے جن کی بناء پر یہ اصطلاح متعارف کرائی گئی. اگر انکے بارے میں یہ ظن رکھا جائے کہ انہوں نے بلاسوچے سمجھے محض امام ترمذی کی ہاں میں ہاں ملاکر "حسن لغیرہ "کو "اصطلاحات المحدثین” میں شمارکیاہے اور انکے سامنے تطبیقی میدان نہیں تھا، تو یہ ائمہ فن کے متعلق بدگمانی ہوگی اور ان پر سے عدم اعتماد کا راستہ کھل سکتا ہے، اگر امام ترمذی کی متعارف کردہ اصطلاح غلط ہوتی اور تطبیقی میدان میں وہ پورا نہ اتر رہی ہوتی تو بعد میں آنے والے محدثین ضرور اس پر نقد کرتے، اور جس بناء پر انہوں نے یہ اصطلاح وضع کی ہے تو اس کی کمزوری کو بھی ضرور واضح کرتے، لیکن ایسا نہیں ہے، محدثین کی ایک کثیر جماعت نے امام ترمذی کے ساتھ اس اصطلاح میں اتفاق کیا ہے اور اسے حدیث کی اقسام میں بطور حجت مانا ہے.لہذا "لا مشاحة في الاصطلاح " کے تحت اسے نظر انداز کرنا مناسب نہیں.بلکہ ائمہ نقد کے ساتھ اتفاق کرلینا چاہیے کیونکہ اسی پر استقرار ہوگیا.
ابتداءََ کسی اصطلاح کو بطور رمز کے پیش کیاجاتا ہے، لیکن بعد میں اسکی شہرت ہونے لگتی ہے، جس کی وجہ سے پھر اسکے ساتھ تعلق رکھنے والی جماعت یاگروہ اسے قبول کرلیتا ہے،، اس حوالے سے یہ سوال یا اعتراض کرنا کہ پہلے والوں کے یہاں اسکا وجود نہیں تھا اس لیے یہ مردود ہوگی،بالکل سطحی بات ہے، کیونکہ اصل اعتبار ائمہ فن ہی کا ہوتا ہے، چاہے وہ بعد کے ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ ــ جیسا پہلے گذرا ــ تقدم وتاخر کا اس سے کوئی تعلق نہیں، انکے سامنے دراصل حقائق،ماقبل والوں کے تعاملات اور تطبیقی میدان ہی ہوتا ہے، جن سے کسی طرح بھی مفر نہیں ہوتا، اس وجہ سے وہ انکے ساتھ موافقت کرتے ہوئے اسے بطور اصطلاح استعمال کرنے لگ جاتے ہیں.
ہمارے فاضل دکتور حمزہ مدنی حفظہ اللہ نے اس حوالے سے بہت اچھی بات کہی ہے۔کہتے ہیں:
« ہر اصطلاح شروع میں صرف ایک رمز ہوتی ھے لیکن جب اھل فن اسے قبول کرلیں اور اس پر صلح کرلیں تو وہ مصطلح بن جاتی ھے ۔۔۔ مصطلح الحدیث کی کتب میں بیان کردہ اصطلاحات در اصل تحقیق حدیث کا اہل فن کے نزدیک وہ متفقہ میزان ہے جو قبل از زمانہ تدوین پہلے ماہرین حدیث کی practice میں اتفاقی تعامل کے ساتھ موجود تھا جسے بعد کے ماہرین (اہل تدوین) نے جب ایک thiory کی شکل دیتے ہوئے مختلف ناموں کیساتھ محفوظ کردیا ۔۔۔ اب تدوین علوم کے تصورات اور سائینس سے واقف کار سمجھتے ہیں کہ علوم کی باقاعدہ فن کی صورت اختیار کرنے کے بعد یہ بات صرف ایک اضافی تاریخی حیثیت رکھتی ہے کہ فلاں مصطلح کب اور کس نے بطور رمز پیش کی تھی اور کب اور کس طرح اہل فن کے ہاں وہ ایک "اتفاق وصلح" کی صورت میں قبولیت کا درجہ کر گئی»
۱ ـ محدثین کرام نے ضعف کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے:
۱- ضعف شدید
۲- ضعف خفیف
اول قسم ،یعنی ایسا ضعف جو نہ خود جابر ( تقویت دینے والا) ہوتا ہے اور نہ مجبور ( جسے تقویت دی جاسکے) یعنی ایسا ضعف اگر کہیں پایا گیا تو اس سے احتجاج تو دور کی بات ہے اسے بطور متابِع پیش کیاجاسکتا ہے اورنہ ہی بطور شاہد، گویا اسکا ہونا نہ ہونا برابر ہے،
ثانی الذکر،یعنی ایسا ضعف، جو خود جابر بھی ہوتا ہے اور مجبور بھی، یعنی اسے اگرچہ بطور احتجاج نہیں لایا جاسکتا، لیکن بطور متابع اور شاہد کے پیش کیا جا سکتا ہے، الغرض اس میں دوسرے کو تقویت دینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
محدثین کرام، مثلا امام ابن ابی حاتم سے لیکر امام سیوطی وغیرہ تک ضعفاء کے درمیان حد بندی کرتے ہوئے مذکورہ تقسیم پر کار بند رہے ہیں اور انہوں نے باقاعدہ صراحت کر دی ہے کہ کس قسم کا ضعف تقویت پکڑ سکتا ہے اور کس قسم کا ضعف تقویت نہیں پکڑ سکتا۔
اہم بات یہ ہے کہ جن کے ضعف کی تقویت اور اعتبار کے وہ قائل ہیں اسکے لیے انہوں نے کہیں بھی یہ شرط نہیں لگائی کہ اسے تقویت دینے والا ثقہ یا صدوق راوی ہو، آج کل ہم سنتے ہیں کہ "حسن لغیرہ " وہ حجت ہے جس کی تائید میں صحیح یاحسن لذاتہ " حدیث موجود ہو، دوسرے لفظوں میں اسکا یہ مفہوم بنا کہ ضعیف راوی کی متابعت کے لیے ثقہ یاصدوق راوی کا ہونا مشروط اور ضروری ہے، جبکہ ہم ان احباب وفضلاء سے بطور وضاحت یہ پوچھنے کی جرات کرتے ہیں کہ یہ متابعت کے لیے ثقہ یاصدوق راوی کی شرط کس کس محدث وامام نے لگائی ہے، ؟؟
ہمیں صرف اس امام کا پتا دیاجائے کہ جس نے متابعت کے لیے ثقہ راوی کی شرط لگائی ہو..جب ایسی صراحت ائمہ نقد سے ملنامشکل ہے اور نہ ہی یہ شرط رکھی گئی ہے، تو پھر ہم اپنی طرف سے ایک شرط اور قید کا اضافہ کس طرح کرسکتے ہیں؟؟
مصطلح الحدیث کی کتب میں ایک بحث "متابعات وشواہد " کے متعلق ہے، ان میں سے کسی ایک کتاب میں اسکے مصنف نے یہ شرط نہیں لگائی کہ اسکا متابع ضرور ثقہ یاصدوق ہی ہونا چاہیے، آخر کیوں،، ؟؟؟
اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان سے اس حوالے سے تساہل ہوگیا ہوگا، یاوہ بھول کاشکار ہوگئے ہونگے، بالفرض یہ بھول ایک یادو سے ہو تو بات کسی حد تک قابل غور ہوسکتی ہے، لیکن یہ کیا ہوا کہ ائمہ فن کی پوری جماعت اس اہم شرط اور قید سے غافل رہی،، ایسا اس عظیم جماعت کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا،، اور پھر یہ بات واقعی قابل غور اور توجہ طلب ہے کہ اگر متابعت اور ضعف کو تقویت دینے کے لیے ثقہ وصدوق راوی کی لازمی طور پر شرط رکھی جائے تو پھر متابعت کا فائدہ ہی کیا رہ جاتا ہے جو اسے اصول حدیث کی مستقل قسم بنایا جائے اور ضعیف راوی کی متابعت تلاش کی جائے، کیونکہ اصل اعتماد تو پھر بھی ثقہ وصدوق راوی پر ہی ہوا، نہ کہ ضعیف پر، لہذا پھر متابعت کی تلاش کی کیا ضرورت۰۰؟؟
اس طرح گویا ائمہ کرام کا اس اصطلاح کو بنانا اور ضعیف راوی کی متابعت تلاش کرنا عبث اور فضول کام ہوگیا.ایک طرف ائمہ کرام کی یہی جماعت ضعف کی قسمیں بنا کر ایک کو قابل انجبار اور دوسری کو ناقابل انجبارقرار دے رہی ہے، اور دوسری طرف یہی جماعت قابل انجبار ضعف کے لیے ثقہ وصدوق راوی کی شرط بھی لگارہی ہے، آخر جب وہ قابل انجبارضعف کے متعلق یہ کہ رہے ہیں کہ "یُعتَبر بہ "اسکا اعتبار کیاجائیگا، یعنی متابعت کی صورت میں وہ راوی معتبر ( قابل اعتبار) ہے، اب اسکی روایت سے حجت پکڑی جاسکتی ہے لیکن یہ بھی پھر بہت بڑا معمہ ہوگا کہ اگر واقعی متابعت کے لیے ثقہ وصدوق راوی کی شرط ہوتی تو اس طرح یہ طریقہ کار از خود انکے ضعف کے مابین فرق یعنی ضعف شدید اور ضعف خفیف والی تقسیم پر سوالیہ نشان بن جائیگا، کیونکہ جس طرح ضعف شدید کا ثقہ وصدوق کی موجودگی میں ہونا نہ ہونا برابر ہے، اسی طرح نتیجے کے اعتبارسے ضعف خفیف کا ثقہ وصدوق راوی کی موجودگی میں ہونانہ ہونا برابرقرار پائیگا،کیونکہ ثقہ وصدوق راوی کی موجودگی میں بھی اصل اہمیت ثقہ وصدوق کو ہوگی،اب جب فیصلے کے اعتبار سے دونوں قسم کے ضعف کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے تو پھر اس تقسیم کا فائدہ ہی سرے سے ختم ہوجاتا ہے!!!
یہ سارا منہجی ٹکراؤ محض اس وجہ سے وقوع پذیر ہو گا جب ضعیف راوی کی تقویت کے لیے ثقہ وصدوق راوی کی متابعت کی شرط عائد کی جائے،
اصل بات یہ ہے کہ محدثین کرام نے ضعف کو دوقسموں میں تقسیم کیا اور ضعف خفیف کو اس لیے محتمل سمجھا اور اسکے لیے ثقہ وصدوق راوی کی متابعت کی شرط اس لیے نہیں لگائی کہ اس خفیف ضعف کی متابعت سے ضعیف راوی کی وجہ سے جو کمزوری آگئی ہے وہ دور ہوجاتی ہے.اور اس کمزوری کودور کرنے کے لیے ہی متابعت کا کہاگیا ہے. لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس متابعت سے راوی والی کمزوری تو دور ہو سکتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ اس متابعت سے حدیث میں موجود باقی علل کے ختم ہونے کی بھی ضمانت ہو، کیونکہ حدیث کی صحت کے لیے محض روات کا قوی ہوجانا ہی کافی نہیں بلکہ اسکے لیے اور بھی شرائط ہیں، جنہیں ہر حال میں مدنظر رکھنا ضروری ہے جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
۲ ـ محتمل ضعیف + ضعیف، کی تقویت کا اگر لازمی طور پر مطلقا انکار ہی کرنا ہے، یعنی اس کے لیے ثقہ وصدوق کی متابعت کا ہونا لازمی ہے تو پھر اس کا قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلے گا کہ محتمل ضعف کے کتنے بھی طرق جمع ہو جائیں، روایت بہرحال ضعیف ہی رہیگی اوراس میں قوت نہیں آ سکے گی.اگرچہ اسکے کتنے ہی طرق مل جائیں۔
اس طرح کیا یہ انتہائی تعجب خیز نہیں ہو گا کہ ایک طرف "متواتر " کی حجیت تسلیم کرکے اسے حدیث کا بڑا درجہ دیا جا رہا ہے، جس میں ایک بنیادی شرط یہ بھی رکھی گئی ہے: "لا حاجة الي البحث عن احوال رواته " کہ اس میں روات کی تفتیش کی ضرورت ہی نہیں...کیونکہ اتنی تعداد والی جماعت جھوٹ پر کیسے اتفاق کر سکتی ہے؟؟؟.
کتب اصول کے اندر "متواتر " کی تعریف میں یہی کچھ مذکور ہے" متواتر حدیث " میں راوی کا ضبط تو دور رہا، راوی کی عدالت بھی مشروط نہیں۔
ذیل میں اس حوالے سے دو ائمہ کرام کے اقوال ملاحظہ فرمائیں.
۱- امام بدرالدین زرکشی کہتے ہیں: «فان المتواتر لا يشترط في اخباره العدالة، كما تقرر في علم الاصول» ( النکت: ۲ / ۳۳۳)
۲- امام بقاعی حافظ ابن حجر سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں: «واما المتواتر، فلا يرد، لانه لا يشترط فيه عدالة الراوي »( النكت الوفية: ۱/ ۱۵۶)
یعنی متواتر میں عدالت کی شرط نہیں، جیسا کہ اصول میں طے شدہ ہے،
اب ایک طرف ضعف خفیف کو قابل برداشت نہیں تسلیم کیا جاتا جبکہ دوسری طرف "متواتر " میں ضعف شدید کو بھی گوارا کیا جارہا ہے..(!!!)
متواتر " کی تعریف سے یہ بالکل واضح ہے کہ ضعیف حدیث کے اگر متعدد طرق ہوں تو وہ "متواتر " بن سکتی ہے،، یعنی اگر ضعیف کے بے شمار طرق جمع ہو جائیں تو وہ(متواتر کی تعریف کے مطابق ) متواتر کے درجے کو پہنچ جائیگی،،، مگر نا انصافی کی بھی حد ہوتی ہے کہ دوسری جہت سے ابھی وہ "حسن لغیرہ " کہلانے کی بھی مستحق نہیں ہوتی۰۰۰!
ہمارے دوستوں کے ہاں "ضعیف + ضعیف، کے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ "ضعیف+ ضعیف= ضعیف ہی رہیگی،، اسے قوت نہیں ملیگی..چاہے اسکے کتنے ہی طرق جمع ہو جائیں..لیکن جب متواتر کی باری آتی ہے تویہی طرق جب زیادہ ہوجائیں تو ان میں قوت بھی آجاتی ہے اور وہ متواتر کے درجے کو بھی پہنچ جاتی ہے..کس قدر حیرتناک رویہ اور اسلوب ہے،اور کتنابڑا تناقض ہے۰۰۰!
ایک ہی قسم کا قضیہ ہے، لیکن نتیجہ کتنا مختلف ہے: ایک کو قبولیت کاشرف بخشا جارہا ہے تو دوسرے کو عدمِ قبولیت کا۰۰۰!!!
جب سرے سے "ضعیف+ ضعیف، سے قوت آتی ہی نہیں تو پھر متعدد طرق سے اسے حدیث کا بڑا درجہ "متواتر " کیونکر دیا جا سکتا ہے..؟؟
ہمارے دوست ضعیف کی تقویت کے تو منکر ہیں، لیکن متواتر حدیث کے حوالے سے اس ضعف کی تقویت کے بھی قائل ہو جاتے ہیں.اب ذرا تضاد ملاحظہ ہو، ایک طرف ضعیف + ضعیف، کے کافی طرق جمع ہوجائیں تو ابھی تک منکرینِ "حسن لغیرہ " کے ہاں وہ درجہ قبولیت کو بھی نہیں پہنچتی،جو حجت کے مراتب میں سے آخری مرتبہ ہے۔
اگر تعدد طرق سے تقویت ہوتی ہے تو پھر "حسن لغیرہ " بھی حجت رہیگی لیکن اگر تعدد طرق سے تقویت نہیں ہوتی تو پھر "متواتر " کا بھی انکار کیا جائے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک جگہ تعدد طرق سے حدیث قوی ہو کر "متواتر ہو جاتی ہے، جبکہ دوسرے موقع پر یہی حدیث تعدد طرق سے ضعیف ہی رہتی ہے...یقینا یہ بہت بڑا تناقض ہے۔
"متواتر " کے حوالے سے امام بدر الدین زرکشی، امام سخاوی اور امام بقاعی بھی یہی رائے رکھتے ہیں، اگر "متواتر " سے حدیث کو تقویت ہوتی ہے تو پھر "حسن لغیرہ " کی تقویت کو بھی ماننا پڑیگا۔
امام بدرالدین زرکشی امام ابن حزم کے حوالے سے رقمطراز ہیں :
« وشذ ابن حزم عن الجمهور فقال: «ولو بلغت طرق الضعيف الفا لا يقوي ولا يزيد انضمام الضعيف الا ضعفا، وهذا مردود؛ لان الهيئة الاجتماعية لها اثر، الا تری ان خبر المتواتر يفيد القطع، مع انا لو نظرنا الي آحاده لم يفد ذالك، فاذا كان ما لا يفيد القطع بانفراده يفيده عند الانضمام، فاولی ان يفيد الانضمام الانتقال من درجة الضعف الي درجة القوة، فهذاسؤال لازم سيما اذابلغ مبلغ التواتر، فان المتواتر لا يشترط في اخباره العدالة كما تقرر في علم الاصول.
یعنی ابن حزم نے اپنے اس قول "ضعیف کے ایک ہزار طرق بھی مل جائیں تو اسے قوت ملنا تو درکنار، اسکا ضعف اور بڑھیگا." میں جمہور کی مخالفت کی ہے اور انکی یہ بات مردود ہے، کیونکہ اجتماعی ہیئت ایک اثر (قوت) رکھتی ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ خبر متواتر قطعیت کا فائدہ دیتی ہے، حالانکہ وہ آحاد( فردی) کے اعتبار سے اس ( قطعیت) کا فائدہ نہیں دیتی، تو جب جو چیز انفرادی طور پر قطعیت کا فائدہ نہیں دیتی، لیکن مل جانے سے قطعیت کا فائدہ دیتی ہے تو پھر اولی یہ ہے کہ مل جانے سے ضعف کا درجہ قوت کی طرف منتقل ہوجائے، اور یہ لازمی سوال ہے، خصوصا وہ جب متواتر کے درجے کو پہنچ جائے، کیونکہ متواتر میں تو عدالت کی بھی شرط نہیں ہوتی، جیسا کہ اصول میں طے شدہ ہے۔( النکت: ۲ / ۳۳۳)
اس پورے کلام کا ما حصل یہ ہے کہ اجتماعیت اپنا ایک اثر اور قوت رکھتی ہے، یعنی تعددِ طرق سے قوت حاصل ہونا ایک حقیقت ہے، اگر تعددِ طرق سے کوئی حدیث متواتر بن سکتی ہے، یعنی اس میں قوت اور قطعیت پیدا ہو جاتی ہے تو یہی چیز "حسن لغیرہ " میں بھی کار فرما ہونی چاہیے،اور "متواتر " کی تو حالت یہ ہے کہ اس میں تو راوی کی عدالت بھی مشروط نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی اس میں قوت پیداہوتی ہے۔
امام سخاوی فرماتے ہیں:
« وكلما كثر المتابع، قوي الظن، كما في افراد المتواتر، فان اولها من رواية الافراد، ثم لا يزال يكثر الي ان يقطع بصدق المروي ولا يستطيع سامعه ان يدفع ذلك عن نفسه »
یعنی متابعت سے قوت آتی ہے، متواتر میں بھی طرق بڑھتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ روایت میں قطعیت پیدا ہو جاتی ہے کہ سامع اسے رد نہیں کر سکتا۔ ( فتح المغيث: ۱/ ۶۵)
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: «وانما انجبر لاكتسابه من الهيئة المجموعة قوة، كمافي افراد المتواتر ...»( ۱/۷۱)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
«ولكن اجيب بان القوة انما حصلت من هيئة الاجتماع اذ بانضمام احدهما الي الآخر قوي الظن بان له اصلا، .....لانه يزول عنه حينئذ ما يخاف من سوء حفظ الراوي ويعتضد كل منهما بالآخر، ويشهد لذلک افراد المتواتر» (۱/ ۱۴۳)
امام بقاعی کہتے ہیں:
«والقوة جاءت من الصور المجموعة، .....واحسن ما يدفع به هذا الايراد المتواتر، فانه يفيد القطع مع انه آحاد انضمت، وربما كان كل من افراده في غاية الضعف»( النكت الوفية: ۱/ ۲۳۹)
اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ متواتر میں بھی طرق کے ملنے سے قطعیت اور قوت پیدا ہوتی ہے، ورنہ بعض اوقات ان میں سے ہر طریق انتہائی درجے کا کمزور ہوتا ہے.
ان تمام نصوص کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تعدد طرق سے قوت بڑھتی ہے،لہذا اگر تعدد طرق سے قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور متواتر میں قطعیت پیدا ہوتی ہے تو پھر کسی حدیث کو"حسن لغیرہ " بنانے کے لیے اس وقت وہ قوت کہاں چلی جاتی ہے۰۰؟؟؟
پچھلی سطور میں امام بدرالدین زرکشی سے امام ابن حزم سے کے حوالے سے جو "ہزار طرق کی عدم تقویت " کا قول نقل کیا گیا ہے، شیخ زبیر رحمہ اللہ اس پر یوں اپنی رائے دیتے ہیں:
زرکشی نے بغیر کسی سند اور حوالے کے حافظ ابن حزم سے نقل کیا کہ "اور اگر ضعیف روایت کی ہزار سندیں بھی ہوں تو اس سے روایت قوی نہیں ہوتی( النکت للزرکشی: ص ۱۰۴)
عرض ہے کہ زرکشی نے اس قول کو شاذ اور مردود کہا ہے، لیکن انصاف یہ ہے کہ اگریہ قول ابن حزم سے باسند صحیح ثابت ہو جائے تو یہی قول راجح اور صحیح ہے۔
( مقالات: ۵/ ۱۹۴)
محترم قارئین ! ہمیں بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ امام بدر الدین زرکشی نے یہ نقل ضرور ابن حزم کی اپنی کسی کتاب سے لی ہوگی، یا پھر انکے علاوہ کسی اور کی کتاب سے نقل کی ہوگی، بطور روایت بیان نہیں کی ، بہرکیف، جس طرح بھی انہوں نے اسے نقل کیا ہے، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں..
اصل بات جو عرض کرنی تھی وہ یہ ہے کہ شیخ زبیر رحمہ اللہ اس موقف کے ساتھ اتفاق کر رہے ہیں کہ کسی ضعیف حدیث کے ہزار طرق بھی جمع ہوجائیں تب بھی وہ ضعیف کی ضعیف ہی رہیگی، اس میں قوت پیدا نہیں ہوگی.اور امام بدرالدین زرکشی نے جو ابن حزم والے موقف کو جمہور کی مخالفت والا اور شاذ قرار دیا تو شیخ رحمہ اللہ نے اس کے رد کو ہی مردود وشاذ قرار دیا،، یعنی زرکشی جو امام ابن حزم پر رد کررہے ہیں، تو اس میں ابن حزم ہی درست ہیں
( اگر ان سے ثابت ہوجائے)اور امام زرکشی غلط ہیں..کیونکہ ہزار طرق سے بھی تقویت حاصل نہیں ہو سکتی.
محترم قارئین! ہم مسلسل متواتر کی بات کرتے آرہے ہیں کہ اب ایک طرف متواتر حدیث کو رکھیں اور دوسری طرف شیخ رحمہ اللہ کی اس عبارت کو، تو آپ کو شیخ رحمہ اللہ کی یہ بات کس قدر کمزور اور بعید عن الصواب نظر آئیگی.واللہ اعلم بالصواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
شق نمبر(٤) میں موصوف نے مختلف اسانید کے ساتھ مروی پانچ احادیث ذکر کرنے کے بعد ائمہ کرام سے انکی تضعیف نقل کر کے ان سے حسن لغیرہ کی عدم حجیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔(ص: ۹۸ ـ ۱۰۷)
محترم قارئین! شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ، محترم حافظ ندیم ظہیر اور حافظ ابو یحیی نورپوری صاحبان نے بھی اسی طرح کی احادیث ذکر کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ائمہ محدثین نے ان احادیث کو تمام طرق سمیت ضعیف کہا ہے، جبکہ انکو ضعیف + ضعیف+ ضعیف = حسن لغیرہ، ہونا چاہیے تھا،، اگر وہ واقعی حجت بننے کے قابل ہوتیں تو ائمہ کرام ضرور انہیں حجت سمجھتے.
گویا انکے ضعیف قرار دینے سے ثابت ہوا کہ یہ ائمہ حسن لغیرہ کو حجت نہیں سمجھتے.
اب ہم ذیل میں ان فضلاء کی پیش کردہ روایات کا جائزہ لیتے ہیں:
اولا: ضعیف + ضعیف = کے جمع کرنے سے صرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روات کی وجہ سے روایت میں آنے والا جو ضعف تھا وہ دور ہوگیا ہے،، لیکن محض روات میں ضعف ختم ہونے یا دور ہونے سے یہ کہاں سے لازم آ گیا کہ وہ حدیث لازما قابلِ حجت بھی بننی چاہئے؟!
کیا حدیث کی صحت کے لیے محض روات کی توثیق ہی کافی ہوتی ہے کہ یہ شرط مکمل ہونے پر حدیث کو لازمی طور پر صحیح اور قابل حجت تسلیم کر لیا جائے؟!
کیا صحت حدیث کے لیے اور شرائط نہیں رکھی گئیں...؟؟
اگر ہیں،، اور یقینا ہیں ۰۰۰مثلا علت اور شذوذ کا منتفی ہونا..تو پھر یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے کہ اگر ائمہ کرام نے اس قسم کی احادیث کو تمام طرق سمیت ضعیف قرار دیا ہے تو اس سے حتما یہی سمجھا اور باور کرایا جائے کہ یہ ائمہ "حسن لغیرہ " کی حجیت کے منکر ہیں..؟؟؟
ہاں اگر منکرین "حسن لغیرہ " یہ اقرار کر لیں کہ حدیث کی صحت کے لیے محض روات کی توثیق اور انکا قابل حجت بن جانا یا انکا ضعف ختم ہو جانا ہی کافی ہے، علل اور شذوذ کے انتفا کی طرف بالکل بھی التفات نہیں کیا جائیگا،، صرف روات والا ضعف دور ہو جائے..پھر چاہے روات کی مخالفت ہو یا پھر اور کوئی علت ہو، اس سے حدیث کی صحت پر کوئی بھی اثر نہیں پڑتا..تو پھر ٹھیک ہے، وہ اپنی بات میں حق بجانب ہیں، اور انکی یہ بات درست ہوگی کہ واقعی ان ائمہ کے نزدیک ضعیف+ ضعیف حجت نہیں.
لیکن اگر یہ فضلاء تسلیم کرتے ہیں کہ نہیں، حدیث کی صحت کے لیے شذوذ اور علل کا منتفی ہوجانا بھی شرط ہے ـــ اور حقیقت بھی یہی ہے ــــ تو پھر ایسی صورت میں انکی یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے کہ ان احادیث کو تمام طرق سمیت محدثین نے ضعیف قراردیا ہے تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ انکے نزدیک "حسن لغیرہ " حجت نہیں.
عرض ہے کہ اگر واقعی آپ ائمہ کرام سے "حسن لغیرہ " کی عدم حجیت ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس قسم کے محتمل طرز استدلال سے ہٹ کر آپ کو کوئی واضح ،مضبوط اور نص صریح لانی پڑیگی جس سے ثابت ہو جائے کہ یہ ائمہ حدیث "حسن لغیرہ " کی حجیت کے قائم نہ تھے۔
خلاصہ کلام!* حدیث کی صحت کے لیے صرف روات کا قوی ہو جانا اور انکا ضعف ختم ہو جانا ہی کافی نہیں،، بلکہ علل اور شذوذ کا منتفی ہونا بھی ضروری ہے. اور یہاں اس بات کا قوی امکان ہے جیسا کہ ہم واضح کریں گے کہ ان ائمہ کرام نے ان احادیث کو اس لیے ضعیف سمجھا ہو کہ ان میں کوئی علت ہو،، شذوذ ہو یا ان میں ضعف شدید پایا جاتا ہو، یا کوئی اور وجہ ہو،، تو جب ان احادیث کی تضعیف کے لیے یہ احتمالات بھی موجود ہیں تو پھر محض ایک وجہ کو اپنے تئیں متعین کر کے حتمی طور یہ فیصلہ کرنا کہ " ان ائمہ کے نزدیک حسن لغیرہ حجت نہیں، اس لیے انھوں نے اس حدیث کو تمام طرق سمیت ضعیف قرار دیا ہے " سرا سر نا مناسب ہے.
ثانیــــــــــا: جو احادیث پیش کر کے ائمہ کرام کے نزدیک "حسن لغیرہ " کی عدم حجیت کا تاثر پیش کیا گیا ہے تو تتبع سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ احادیث ان ائمہ کرام کے نزدیک "حسن لغیرہ " کے قابل ہی نہیں بنتیں،، جس کی درج ذیل وجوہات میں سے کوئی وجہ ہوسکتی ہے:
أ ـ ان میں ضعف شدید ہے۔
ب ـ وہ صحیح حدیث کے مخالف ہیں یعنی ان میں شذوذ ہے، اور شاذ بھی در اصل ضعف شدید ہی میں شامل ہے،، جیسا کہ امام ابن الصلاح وغیرہ نے کہا ہے.
ج ـ ان احادیث پر تضعیف کا حکم محض انکا اجتہادی فیصلہ ہے ( جسکی وضاحت آگے کی جائیگی.ان شاء اللہ العزیز)
اب ذیل میں ان کی پیش کردہ روایات کا جائزہ ملاحظہ کریں.
۱- حدیث التسمیة.
یعنی وضوء سے قبل "بسم اللہ " پڑھنے کی احادیث۔
شیخ زبیر رحمہ اللہ نے امام احمد کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کے متعلق تمام احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں..ان( امام احمد) کے الفاظ ہیں:
« ليس اسناده بقوي، ...» مسائل ابن ھانئ: ۱۷) اور ایک جگہ فرماتے ہیں.: «لا اعلم فيه حديثا له اسناده جيد»( مقالات: ۵/ ۱۷۴)
* امام احمد رحمہ اللہ تعالی کے احادیث تسمیہ کوضعیف کہنے کی مختلف وجوہات*
پہلی وجہ: امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے احادیث التسمیہ کو غیر ثابت قرار دینے کے لیے بغیر کسی قید اور صراحت کے اجمالا تضعیف کی ہے،، بعید نہیں کہ انکے نزدیک ان احادیث کی اسانید میں ایسی علل ہوں جنکی وجہ سے وہ قوت حاصل نہ کرسکتی ہوں..کیونکہ معلول روایات کو تقویت حاصل نہیں ہوسکتی۔
دوسری وجہ: ممکن ہے انکے نزدیک ان تمام روایات کا ضعف شدید ہو، کیونکہ ضعف شدید منجبر نہیں ہو سکتا، حدیث ابی سعید الخدری کے متعلق ان کےالفاظ ہیں:
«أحسن شيء فيه حديث ربيح بن عبدالرحمن بن أبي سعيد، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري»
یعنی ان کے نزدیک احادیث التسمیہ میں سے سب سے کم ضعف والی حدیث، حدیث "ربیح " ہے، جسے( ربیح) انھوں نے غیر معروف قرار دیا ہے..لہذا ہو سکتا ہے اسکے علاوہ باقی طرق انکے نزدیک شدید الضعف ہوں، اگر باقی طرق شدید الضعف ہوں تو پھر کس طرح ان میں تقویت آ سکتی ہے!
تیسری وجہ: بالفرض اگر یہ تمام طرق انکے نزدیک شدید الضعف نہ ہوں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ان کے نزدیک ان احادیث میں قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ کی مخالفت ہے ، جس کی دلیل آگے آ رہی ہے، اور اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ان احادیث میں چونکہ تسمیہ کی فرضیت کا ذکر ہے کہ اگر کسی نے عمدا بسم اللہ کو ترک کر دیا تو اسکا وضوء نہیں ہوگا، جبکہ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ « يا ايها الذين آمنوا اذا قمتم الي الصلوة فاغسلواوجوهكم....الآية.» میں آپکے نزدیک اللہ تعالی نے وضوء کے فرائض ذکرکیے ہیں اور اس میں تسمیہ کا ذکر نہیں ہے،گویا اگر تسمیہ فرض ہوتی تو اللہ تعالی اسے ضرور ذکر فرماتے، اس اعتبار سے چونکہ امام احمد کے نزدیک یہ روایات قرآن مجید کی اس آیت کی مخالفت کر رہی ہیں، اس لیے انہیں وہ حجت قرار نہیں دے رہے اور وجہ ضعف یہ مخالفت ہے۔
امام ابوزرعہ الدمشقی کہتے ہیں: قلت لابي عبد الله احمد بن حنبل: فما وجه قوله: «لا صلاۃ لمن لم يذكر اسم الله عليه »؟؟
قال: فيه احاديث ليست بذاك، وقد قال الله تبارك وتعالي «يا ايهاالذين آمنوا اذاقمتم الي الصلوة۰۰۰۰» الآية.
فلا اوجب عليه، وهذا التنزيل، ولم تثبت سنة.( تاريخ ابي زرعة: ۱/ ۶۳۱)
محترم قارئین: امام احمد رحمہ اللہ اپنے اس کلام میں ان احادیث اور آیت مبارکہ میں مخالفت دیکھ رہے ہیں، اور چونکہ تسمیہ کی فرضیت والی یہ تمام احادیث انکے نزدیک سندا ثابت نہیں، لہذا اس ٹکراؤ اور مخالفت کی صورت میں وہ قرآن مجید کی آیت مبارکہ کو ترجیح دے رہے ہیں،، اور حسن لغیرہ کی حجیت کی شروط میں یہ بھی ایک شرط ہے کہ اس میں مخالفت نہ پائی جاتی ہو،، لہذا جب وہ مخالفت کریگی تو اس صورت میں وہ قابل حجت نہیں رہتی ..
اب جب امام احمد کے کلام میں مذکورہ بالا مختلف احتمالات ہیں اور پھر ان احادیث کو رد کرنے کی صراحتا ایک وجہ مخالفت کو بھی قرار دیا ہے تو پھر یقینی اور حتمی طور پر اس مثال کو امام احمد کے نزدیک حسن لغیرہ کی عدم حجیت کی دلیل بنانا کسی طور بھی مناسب نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
امام بخاری اور حدیث تسمیہ

یہ حدیث امام بخاری کے نزدیک تمام طرق میں ضعف شدید کے باعث نا قابل احتجاج ہے۔
پہلی حدیث: حدیث ابی ثفال
جامع ترمذی مع التحفہ ( ۱/ ۱۱۸) میں امام ترمذي ابو ثفال عن رباح بن عبد الرحمن بن ابي سفيان بن حويطب، عن جدته، عن ابيها ...الحديث. کے طریق سے روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: احسن شئ في هذا الباب: حديث رباح بن عبدالرحمن.
محترم قارئین! اس حدیث میں جو سندی اختلاف ہے، مثلا ارسال کا ہونا یا روات کا اسے مسند سعید یا مسند ابی ھریرہ بنا دینا، یہ اپنی جگہ الگ بات ہے جس کی تفصیل کے لیے شیخ ابو اسحاق الحوینی کی کتاب " کشف المخبوء “ کی مراجعت مفید رہے گی.ہمیں یہاں اس سے تعرض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی.یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کو تسمیہ کے باب میں وارد شدہ دیگر احادیث کے مقابلے میں زیادہ اچھا کہا ہے،، گویا اسکے علاوہ جو دوسری احادیث اس باب میں وارد ہیں، وہ اس سے زیادہ ضعیف ہیں اور یہ روایت انکی بہ نسبت کم ضعف رکھتی ہے.
اب اس حدیث کے ایک راوی کے متعلق امام بخاری کی رائے ملاحظہ فرمائیں کہ جسکی حدیث کو وہ نسبتا قلتِ ضعف سے تعبیر کرتے ہیں۔
امام عقیلی،امام بخاری سے نقل کرتے ہیں:
«ابوثفال المري عن رباح ابن عبد الرحمن: في حديثه نظر»( الضعفاء الكبير: ۱/ ۱۷۷)
امام بخاری نےابو ثفال کی حدیث پر "فی حدیثہ نظر " کے الفاظ سے جرح کی ہے اور یہ الفاظ امام بخاری کے نزدیک جرح شدید میں شمار ہوتے ہیں.
جیسا کہ حافظ امام ابو محمد عبداللہ بن احمد بن سعید بن یربوع الاشبیلی فرماتے ہیں:
« لانه قد قال في "التاريخ ": كل من لم ابين فيه جرحة فهو علي الاحتمال، واذا قلت: فيه نظر، فلا يحتمل»
(تهذيب الكمال: ۱۸ / ۲۶۵ ـ ترجمہ عبدالکریم بن ابی المخارق)
یعنی جس راوی کو متعین کرکے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی اس پر "فیہ نظر" کی جرح کریں تو ایسا راوی انکے شدید ضعیف ہوتا ہے کہ اسکا ضعف منجبر نہیں ہوسکتا.
امام بخاری کی جرح کے حوالے سے مجھے یہ الفاظ تاحال انکی "التاریخ الکبیر " کے جتنے مطبوعہ نسخے ہیں، ان میں سے کسی بھی مطبوعہ نسخے میں نظر نہیں آئے.لیکن یہ مضر نہیں:
اولا: امام اشبیلی اندلسی نقل کرنے میں معتمد ہیں، رجال میں انہیں عمدہ نقد و ذوق تھا اور جرح وتعدیل میں انہیں ایک ملکہ حاصل تھا، انکے شاگرد امام ابن بشکوال انہیں یوں یاد کرتے ہیں:
« حافظًا للحديث وعلله ، عارفًا بأسماء رجاله ونَقَلَتِه ، يبصر المعدَّلين منهم والمجرّحين ، ضابطًا لما كتبه ، ثقةً فيما رواه ، وكتب بخطه علمًا كثيرًا ، وصحب أبا علي الغساني كثيرًا واختص به وانتفع بصحبته ، وكان أبو علي يكرمه ويفضله ، ويعرف حقه ، ويصفه بالمعرفة والذكاء ، وجمع أبو محمد هذا كتبًا حسانًا ، منها : كتاب الإقليد في بيان الأسانيد ، وكتاب تاج الحلية وسراج البغية في معرفة أسانيد الموطأ ، وكتاب لسان البيان عما في كتاب أبي نصر الكلاباذي من الإغفال والنقصان ، وكتاب المنهاج في رجال مسلم بن الحجاج ، وغير ذلك»
(الصلة لابن بشكوال : ۱/ ۲۸۳). امام ابن الأبار انکے بارے میں کہتے ہیں:
«الحافظ المحقق ... وله تواليف مفيدة ، وكان ظاهري المذهب» (المعجم لابن الأبار ، ص۲۰۶)
حافظ ذھبی فرماتے ہیں :
«الأستاذ الحافظ المجوِّد الحجة» (النبلاء : ۱۹ / ۵۷۸)
امام بخاری کی "التاریخ الکبیر" کو اہل اندلس تین طرق سے امام بخاری سے روایت کرتے ہیں:
۱ ـ رواية محمد بن عبد الرحمن بن الفضل الفسوي
۲ ـ رواية محمد بن سليمان بن فارس الدلال
۳ ـ رواية محمد بن سهل بن عبد الله المقرئ
(فهرسة ابن خير الإشبيلي ، ص۲۰۴ ـ ۲۰۵)
"التاریخ الکبیر" کو متعدد نسخوں کی مدد سے طبع کیا گیا ہے، لیکن سارے صرف محمد بن سہل کی روایت کا ہی ذکر کرتے ہیں، جیسا کہ دکتور خالد بن منصور الدریس نے "الحدیث الحسن لذاتہ "(۱/ ۴۰۷) میں کہا ہے، لہذا یہ بعید نہیں کہ امام اشبیلی نے یہ نص محمد بن سہل کے علاوہ دوسری روایت سے نقل کی ہو. روایات میں تعدد کے باعث مختلف نسخوں کا ایسا اختلاف مخطوطات میں پایا جانا تسلیم شدہ حقیقت ہے..اس حوالے سے مزید کتاب "الحدیث الحسن لذاتہ " کی مراجعت مفید رہیگی.
ثانیـــــــــا: امام بخاری کی جرح کے حوالے سے کم وبیش یہی بات حافظ ذہبی اور ابن الملقن نے بھی کی ہے..
امام ذہبی "السیر " میں امام بخاري کے حوالے سے رقم طراز ہیں: “اذا قلت: فلان في حديثه نظر، فهو متهم واه” (۱۲/ ۴۴۱)
نیز میزان الاعتدال کے مقدمے میں فرماتے ہیں:
قولہ: فیہ نظر، وفي حديثه نظر، لا یقولہ البخاری الا فيمن يتهمه غالبا، (۱/ ۳، ۴)
نیز "الموقظہ " میں فرماتے ہیں: «وكذا عادته ـ اي البخاري ـ اذا قال: فيه نظر بمعنی انه متهم، او ليس بثقة، فهو عنده اسوأ حالا من الضعيف»(ص: ۸۳)
امام ابن الملقن نے بھی ان الفاظ کو جرح شدید میں شمار کیا ہے۔امام ابن القطان پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
و ما هو ( حديث ابي ثفال) الا ضعيف جدا، وانما معنی قول البخاري: انه احسن ما في الباب علی علاته
( البدر المنیر۲/ ۸۲)
ثالثــــــــــا: امام بخاری نے روات پر خفیف ضعف کا اطلاق کلمہ "احتمال " کے ساتھ کیا ہے، جسکا مفہوم مخالف واضح طور پر ضعف شدید کے لیے "لا یحتمل " نکلتا ہے، اور یہ محض امام بخاری کے ساتھ خاص نہیں..بلکہ ان الفاظ کا مفہوم بھی یہی ہے.محتمل ضعف، ضعف خفیف کے لیے استعمال ہوتا ہے اور "غیر محتمل " ضعف شدید کے لیے مستعمل ہے..لہذا اگر امام بخاری نے روات پر "محتمل " کے الفاظ استعمال کیے ہیں تو "لا یحتمل " کا لازمی نتیجہ ضعف شدید ہی نکلتا ہے..
امام بخاری ایک راوی عبدالوہاب بن عطاء الخفاف کے متعلق فرماتے ہیں : “لیس بالقوی عندھم ....وھو محتمل” ( تحفة الاقوياء: ص: ۷۵)
اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ امام بخاری نے تو "فیہ نظر " کو جرح شدید کہا ہے جبکہ ابو ثفال راوی کے متعلق امام بخاری کے الفاظ ان سے مختلف ہیں، یعنی اسکے متعلق "فیہ نظر " کے بجائے "فی حدیثہ نظر " کہا ہے،، لہذا " فی حدیثہ نظر " کے متعلق "فیہ نظر" والا حکم کیسے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا بھی وہی مفہوم ہو..یعنی ان الفاظ سے بھی جرح شدید اخذ کی جائے.؟؟
تو اس کے لیے جوابا عرض ہے:
اولا: فيه نظر، راوی کو متعین کر کے کہیں تو وہ راوی کے اعتبار سے جرح شدید ہوئی اور اگر " فی حدیثہ نظر" کہیں تو راوی کی روایات کے اعتبار سے جرح شدید ہوئی ..مفہوم ایک ہی بن رہا ہے.
۲ ـ جیسا پہلے گذرا کہ امام ذہبی نے "فی حدیثہ نظر " کو امام بخاری سے جرح شدید کے طور پر نقل کیا ہے، ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
«اذا قلت: فلان في حديثه نظر، فهو متهم واه»
اسی طرح امام ابن الملقن نے بھی "فی حدیثہ نظر " کو امام بخاری کے نزدیک جرح شدید کہا ہے۔
ثالثــــــا: امام بخاری سے صراحتا بھی "فی حدیثہ نظر" کا جرح شدید ہونا ثابت ہے..ایک راوی سوید بن عبدالعزیز کے متعلق فرماتے ہیں:
« في حديثه نظر، لا يحتمل»( تحفة الاقوياء: ص ۵۳)
محترم قارئین! مذکورہ بالا سطور سے اچھی طرح واضح ہو گیا کہ امام بخاری کے الفاظ " فی حدیثہ نظر " جرح شدید میں شمار ہوتے ہیں اور ابو ثفال کی حدیث پر انہوں نے انہی الفاظ کا اطلاق کیا ہے،، لہذا انکے نزدیک اسکی احادیث نہ متابعت کے قابل ہیں اور نہ ہی استشہاد کے،، اور یہ بھی پیچھے گذرا کہ انکے نزدیک سب سے کم ضعف والی ابوثفال ہی کی حدیث ہے.اس تناظر میں انکے نزدیک تسمیہ کے باب میں وارد شدہ تمام احادیث اس کی نسبت زیادہ ضعف رکھتی ہونگی..لازمی بات ہے امام بخاری نے یہ الفاظ بغیر کسی تتبع اور جانچ پڑتال کے تو نہیں کہے ہوں گے. ضرور انہوں نے اس باب میں وارد تمام احادیث اور تمام طرق پر نظر رکھ کر ہی یہ فیصلہ دیا ہے اور آپ تو احادیث پر حکم لگانے میں از حد احتیاط کرنے کے حوالے سے عند المحدثین مشہور ومعروف ہیں.
اس تفصیل سے یہ اچھی واضح ہو جاتا ہے کہ امام بخاری نے حدیث ابو ثفال کو نسبتا بہتر کہنے کے باوجود اس پر جرح شدید کر کے اس باب میں موجود تمام احادیث پر جرح شدید کر دی ہے. اب جب یہ تمام احادیث جبل الحفظ امام بخاری کے نزدیک شدید ضعف رکھتی ہیں تو پھر آخر کس طرح انکے نزدیک یہ تمام احادیث ایک دوسرے کو تقویت دے سکتی ہیں؟ ؟ اور پھر انکے اس حکم سے آخر حتمی طور پر یہ کیسے کشید کیا جا سکتا ہے کہ انکے نزدیک ضعیف+ ضعیف = ضعیف ہی رہتی ہے...!!!
دوسری حدیث: حدیث علی بن ابی طالب
اس حدیث کو امام ابن عدی نے "الکامل" (۵/۱۸۸۳) میں عیسی بن عبداللہ، عن ابیہ، عن جدہ، عن علی رضی اللہ عنہ کے طریق سے ذکر کیا ہے.امام ابن عدی اس کو روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«وبهذا الاسناد احاديث، حدثناه ابن مهدي ( محمد بن علي بن مهدي العطار) ليست بمستقيمة»
عیسی بن عبداللہ کا پورا نام: عیسی بن عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب العلوی، المعروف بــ: مبارک ہے۔
امام دارقطنی نے "السنن "(۲/ ۲۶۳) میں اسے."متروک الحديث" قراردیا ہے.
امام ابن حبان فرماتے ہیں:
«من اهل الكوفة، يروي عن آبائه اشياء موضوعة، لا يحل الاحتجاج به، كانه كان يهم ويخطئ، حتي كان يجئ بالاشياء الموضوعة عن اسلافه، فبطل الاحتجاج بما يرويه لما وصفت»
( المجروحين: ۲/ ۱۲۱ ـ ۱۲۲)
اس راوی کا ضعف شدید واضح ہے،لہذا یہ روایت انجبار کے قابل نہیں ہے.
تیسری حدیث: حدیث ابی سعید خدری رضی اللہ عنہ
اس حدیث کو امام احمد، امام دارمی نے اپنی مسانید اور امام ترمذی نے اپنی کتاب "العلل الکبیر "(۱/۱۱۲) میں کثیر بن زید، عن ربیح بن عبدالرحمن بن ابی سعید، عن ابیہ، عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا ہے۔
اس میں ایک راوی ربیح بن عبدالرحمن پر امام بخاری نے سخت جرح کر رکھی ہے۔امام ترمذی فرماتے ہیں:
قال محمد: « ربيح بن عبد الرحمن بن ابي سعيد، منكر الحديث»
"منکر الحدیث " کے الفاظ امام بخاری کے نزدیک جرح شدید میں شمار ہوتے ہیں، آپکے الفاظ ہیں:
«كل من قلت فيه: منكر الحديث، فلا تحل الرواية عنه»
(التاريخ الاوسط: )
یعنی جس راوی پر امام بخاری
"منکر الحدیث " کی جرح کا اطلاق کریں، اس سے روایت لینا ہی جائز نہیں، گویا اسکی روایت کا ہونا نہ ہونا برابر ہے.
بہر کیف یہ حدیث بھی امام بخاری کے نزدیک شدید ضعیف ہے.
چوتھی حدیث: حدیث انس رضی اللہ عنہ
امام ابن الملقن فرماتے ہیں:
وللحديث طريقة سابعة ذكرها الحافظ عبدالحق في الاحكام عن اسد بن موسی عن حماد بن سلمة، عن ثابت عن انس عن النبي صلي الله عليه وسلم.....قال الحافظ عبدالحق: ذكر هذه الطريق عبدالملك بن حبيب
(البدر المنير: ۲/۸۸)
اس روایت میں ایک راوی ہے جس پر کئی ایک جرحیں کی گئی ہیں۔
۱- ابن حزم کہتے ہیں: ليس بثقة، ..روایتہ ساقطة مطرحة۰
۲- امام ابن عبدالبر اپنی "تاریخ" میں فرماتے ہیں:
«ابن حبيب اول من اظهر الحديث بالاندلس، وكان لا يفهم طرقه، ويصحف الاسماء، ويحتج بالمناكير، فكان اهل زمانه ينسبونه الي الكذب، ولا يرضونه.اھ
۳- امام ابو عمر احمد بن سعید الصدفی اپنی کتاب "التاریخ الکبیر " میں لکھتے ہیں:
« كان كثير الرواية، كثير الجمع، يعتمد علي الاخذ بالحديث، ولم يكن يميزه، ولا يعرف الرجال، وكان فقيها في المسائل، وكان يطعن عليه بكثرة الكذب، وذكر عنه انه كان يستجيز الاخذ بلا رواية ولا مقابلة وانه اخذ بالاجازة كثيرا....واشير اليه بالكذب، سمعت احمد بن خالد يطعن عليه بذلك، ويتنقصه غير مرة، وقال: ظهر كذبه في "الواضحة " في غير شئ. اھ
٤- امام ابن الفرضی کہتے ہیں:
«ولم يكن لعبد الملك بن حبيب علم بالحديث، ولا كان يعرف صحيحه من سقيمه، وذكر عنه انه كان يتساهل، ويحمل علي سبيل الاجازة اكثر روايته» (تارخ الاندلس: ۱/ ۳۱۳)
۵- حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
وكان موصوفا بالحذق في الفقه، كبير الشان، بعيد الصيت، كثير التصانيف، الا انه في باب الرواية ليس بمتقن، بل يحمل الحديث تهورا كيف اتفق، وينقله وجادة واجازة، ولا يتعانی تحرير اصحاب الحديث
٦- امام ابن الملقن زير بحث روايت پر حاشیة البدر المنير میں فرماتے ہیں: "واما من دون اسد بن موسي، فالآفة منه، وهو عبدالملك بن حبيب، فقد ضعفه ابن الفرضي وجماعة من حفاظ المغاربة، ينسبه بعضهم الي نقمة قلب الاسانيد"
حافظ ابن حجر اس کی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
"وعبد الملك شديد الضعف"
( تلخيص الحبير: ۱/۱۱۲)
محترم قارئین!
اس راوی کے متعلق کہا گیا کہ وہ
صحفی ہے، غلطیاں زیادہ کرتا ہے، جھوٹ کی تہمت سے متہم ہے، حدیث کا علم نہیں رکھتا تھا، اسی طرح اسکی صحیح وسقیم میں تمیز بھی نہیں کرسکتا تھا، ابن حزم نے اسے متروک قرار دیا.
لیکن راجح قول میں اس پر جھوٹ کی تہمت درست نہیں، بلکہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ غلطیاں زیادہ کرتا تھا، جیسا کہ حافظ ذہبی اسکے متعلق فرماتے ہیں:
"الرجل اجل من ذلك، لكنه يغلط" ( الميزان.)
گویا حافظ ذہبی اسے کثیر الغلط سمجھ رہے ہیں۔
اسی طرح حافظ ابن حجر نے اگرچہ "التلخیص " میں اسے شدید الضعف کہا ہے، لیکن "تہذیب"میں احمد بن سعيد الصدفي کے اس قول "فانہ کان صحفیا، لا یدری ما الحدیث " کو ذکر کر کے فرماتے ہیں:
هذا القول اعدل ما قيل فيه، فلعله كان يحدث من كتب غيره فيغلط” (۶/ ۳۴۷) مزید کہتے ہیں:
« روی عنه ابن وضاح وبقي بن مخلد، ولا يرويان الا عن ثقة عندهما، وقد افحش ابن حزم القول فيه، ونسبه الي الكذب، وتعقبه جماعة بانه لم يسبقه احد الي رميه بالكذب»(۶ /۳۴۸)
نیز “تقریب " میں فرماتے ہیں: “صدوق” ضعیف الحفظ کثیر الغلط، ( ص: ۳۳۲)
بہر حال یہ راوی ضعیف ہے اور کثرت سے غلطیاں کرتا ہے،اور اس پر اسانید کو تبدیل کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اسانید کو بدل دیا کرتا تھا، اور یہاں اس روایت میں اسکے ساتھ یہی مسئلہ درپیش ہے.نیز اس نے ثقہ روات کی مخالفت کی ہے، اصل میں وکیع بن الجراح نے حماد بن سلمہ سے اسے اس سند: حماد بن سلمة عن صدقة مولى ابن الزبير عن أبي ثفال عن أبي بكر بن حويطب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم،، سے روایت کیا ہے،، ملاحظہ ہو. "العلل الکبیر "( ۱/ ۱۱۱ ) للترمذی، تارخ دمشق ( ۱۳/ ۲۶) لابن عساکر
اس طرح گویا اصلا یہ روایت ابو ثفال المری والی ہی ہوئی ، یعنی یہ پہلی حدیث ہی ہے،کوئی نیا طریق نہیں ہے، اسد بن موسی چونکہ وکیع سے بھی روایت کرتا ہے، (ملاحظہ ہو "تہذیب الکمال " وغیرہ،) اور اس( اسد) نے یہ روایت وکیع والے اسی طریق سے ہی نقل کی ہے، لیکن عبدالملک (الراوی عن اسد بن موسی) نے اسد موسی سے روایت کرنے میں غلطی کردی اور اسنے ابوبکر بن حویطب کے طریق کو بدل کر انس بن مالک والا طریق بنادیا۔
پانچویں حدیث: حدیثِ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ
اس حدیث کو امام حاکم (۱/ ۲۶۹) اور امام بیہقی (۲/ ۳۷۹) نے عبدالمہیمن بن عباس بن سہل بن سعد الساعدی، عن ابیہ، عن جدہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم، کے طریق سے مرفوعا روایت کیا ہے۔
یہ روایت بھی شدید الضعف ہے، کیونکہ عبدالمہیمن کو امام بخاری نے "التاریخ الکبیر " (۶/ ۱۳۷) اور الضعفاء الصغیر ( ) میں "منکر الحدیث " کہا ہے، اسی طرح امام نسائی نے اسے "متروک "اور حافظ ذہبی نے "واہ " کہا ہے.
لہذا یہ روایت بھی شدید ضعیف ہے، البتہ امام ابن الملقن نے البدر المنیر (۲/ ۸۷) میں، امام ابن حجر نے التلخیص الحبیر( ۱/ ۱۱۱) میں اور شیخ ابو اسحاق الحوینی حفظہ اللہ نے "کشف المخبوء( ص ۲۹) میں اسکی متابعت کا ذکر کیا ہے کہ طبرانی کبیر ( ۶/ ۱۲۱) میں اسکے بھائی ابی بن العباس نے اسکی متابعت کر رکھی ہے، لیکن یہ مفید نہیں ہے:
اولا: عبد المہیمن شدید الضعف ہے، اسے متابعت فائدہ نہیں دے سکتی.
ثانیــــــــا: یہ متابعت وہم ہے،، یعنی "ابی " کا اس طریق میں ذکر ہونا راوی کا وہم ہے.
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ طبرانی کبیر کی اس روایت کا مرکزی راوی ابن ابی فدیک ہے، اور امام طبرانی نے اپنے دو شیوخ کی اسانید سے ان سے روایت کیا ہے:
۱ ـ حدثنا ابراهيم بن دحيم، ثني ابي ثنا ابن ابي فديك ثنا عبد المهيمن بن عباس.....الخ
۲ ـ حدثنا عبد الرحمن بن معاویة العتبي المصري، ثنا عبيد الله بن محمد بن المنكدري ثنا ابن ابي فديك عن ابي بن عباس...الخ.
پہلی سند میں امام طبرانی کا شیخ، ابراھیم، (جسکا پورا نام: ابراهيم بن عبدالرحمن بن ابراهيم بن عمرو الدمشقي ہے) ہے، اسے امام مسلمہ بن قاسم نے ثقہ کہا ہے اور حافظ ذہبی نے اپنی "تاریخ " میں اسکا دو دفعہ ترجمہ ذکر کیا ہے۔
ایک جگہ (۲۲/ ۱۰۰) فرماتے ہیں: “وکان ثقة”
نیز (۲۳/ ۳۰۰) فرماتے ہیں: “وكان محدثا مقبولا”
انکے والد اور اس روایت میں انکے شیخ "عبدالرحمن” ہیں، یہ ثقہ، حافظ، اور متقن ہیں۔
( تقریب.: ص ۳۰۳)
دوسری سند میں امام طبرانی کے شیخ "عبدالرحمن بن معاویہ العتبی المصری” ہیں اور یہ مجہول الحال ہیں، ان کی توثیق مجھے نہیں مل سکی۔
اسی طرح عبد الرحمن کے شیخ "عبید اللہ بن محمد " کا ترجمہ ابھی تک مجھے نہیں مل سکا،لہذا جب دوسرے طریق میں دو راوی غیر موثق ہیں اور پہلے طریق کے دونوں راوی ابن ابی فدیک تک ثقہ ہیں تو اس اعتبار سے پہلے طریق کو دوسرے طریق پر ترجیح حاصل ہوگی، مزید برآں ابن ابی فدیک کی سنن ابن ماجہ اور مستدرک حاکم وغیرہ میں عبد المہیمن سے روایت کرنے میں علی بن بحر نے بھی متابعت کر رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن کثیر "تفسیر ابن کثیر " میں کہتے ہیں: “عبد المهيمن هذا متروك، وقد رواه الطبراني من رواية اخيه ابي بن عباس، ولكن في ذلك نظر، وانما يعرف من رواية عبدالمهيمن”اھ.
یعنی یہ روایت عبدالمھیمن کے طریق ہی سے معروف ہے، لہذا اس میں "ابی " کا ذکر محض وہم ہے.
ثابت ہوا کہ اصل یہ طریق،طریق عبد المہین ہی ہے اور عبد المہیمن چونکہ امام بخاری کے نزدیک "منکر الحدیث " یعنی شدید الضعف ہے، لہذا یہ حدیث بھی امام بخاری کی نزدیک سخت ضعیف ہوئی.
چھٹی حدیث: حدیث ابی سبرة رضي الله عنه
اس حدیث کو امام دولابی نے "الکنی " میں ، امام طبرانی نے "الاوسط " میں اور حافظ ابن حجر نے "نتائج الافکار” میں "عیسی بن سبرة، عن ابيه عن جده ابي سبرة..الخ کے طریق سے مرفوعا روایت کیا ہے۔
اس روایت کے مسند ابی سبرہ یا مسند ام سبرہ سے ہونے میں اختلاف ہے۔مذکورہ بالا مصادر میں ابو سبرہ کا ہی ذکر ہے، لیکن امام ابو موسی المدینی کی "المعرفہ " میں ــــ جیسا کہ. "الاصابہ " لابن حجر میں ہے ــــ ام سبرہ کا ذکر ہے،، بہر نوع یہ جس مسند سے ہو،، اصل جو بات مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ امام ابوموسی اس ( ام سبرہ) کی اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: “في اسناد حديثها نظر”
امام ابو القاسم البغوی " كتاب الصحابة " میں "عیسی بن سبرہ " کے متعلق کہتے ہیں: «عيسي منكر الحديث» ( نتائج الافكار: ۱/ ۲۳۴)
محترم قارئین! زیر بحث راوی سے صرف یہی ایک روایت مروی ہے اور اسکے باوجود بھی اسے منکر الحدیث، یعنی اس کی حدیث کو متعین کر کے منکر قرار دیا گیا ہے، ایسے میں اس روایت میں جو قوت ہوگی وہ سب کے سامنے ہے،، یعنی روایت بھی ایک ہے اور وہ بھی منکر ، پھر اس سے دوسری روایات میں کس طرح تقویت آ سکتی ہے،، گویا اسکا عدم اور وجود یکساں ہے ـ واللہ اعلم بالصواب.
ساتویں حدیث: حدیثِ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ
اس حدیث کو امام دارقطنی ( ۱ / ۷۳ ـ ۷۴) بیہقی ( ۱/ ۴۴) اور ابن حجر نے( نتائج الافکار: ۱/ ۲۳۴) یحیی بن ھاشم، عن الاعمش عن ابی وائل، عن عبداللہ بن مسعود کے طریق سے مرفوعا روایت کیا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
« اذا تطهر احدكم فليذكر اسم الله، فانه يطهر جسده كله، وان لم يذكر اسم الله في طهوره، لم يطهر منه الا ما مر عليه الماء ....الخ»
اولا: اس حدیث کے الفاظ سابقہ تمام احادیث سے مختلف ہیں، کیونکہ ان میں تسمیہ کی فرضیت کا ذکر تھا،لیکن اس میں یہ ذکر نہیں،،
ثانیـــــــا: اس میں یحیی بن ھاشم راوی متروک اور سخت ضعیف ہے۔ امام بیہقی اور ابن حجر نے اسے متروک الحدیث قرار دیا ہے۔
لہذا ان دونوں وجوہ کی بنا پر یہ حدیث متابعت و شاہد کے لیے موزوں نہیں.
آٹھویں حدیث: حدیثِ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
اس حدیث کو امام دارقطنی (۱/ ۷۴ ـ ۷۵) امام بیہقی( ۱/ ۴۴) اور ابن حجر نے(نتائج الافکار:۱/ ۲۳۴) میں عبدالله بن حكيم ابي بكر الداهري، عن عاصم بن محمد، عن نافع عن ابن عمر ....الخ کے طریق سے مرفوعا سابقہ حدیث کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
اولا: اس حدیث کے الفاظ بھی سابقہ احادیث سے مختلف ہیں،، یعنی اس میں تسمیہ کی فرضیت کا ذکر نہی۔
ثانیـــــا: اس کی سند میں موجود ایک راوی عبداللہ بن حکیم ابو بکر الداہری عند المحدثین سخت ضعیف اور متروک الحدیث ہے۔
۱- امام عقیلی فرماتے ہیں:
«و ابو بكر هذا يحدث باحاديث، لا اصل لها، ويحيل علي الثقات»
یعنی وہ ثقات سے بے اصل روایات بیان کرتا ہے.( الضعفاء الکبیر: )
۲- امام بیہقی فرماتے ہیں:
«ابوبكر الداهري غير ثقة عند اهل العلم بالحديث »
۳- حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
«تفرد بہ ابوبكر الداهري، واسمه عبد الله بن حكيم، وهو متروك الحديث ايضا.»
لہذا یہ حدیث بھی ان دو وجوہ کی بنا پر متابعت اور شاہد بننے کے قابل نہیں.
نویں حدیث: حدیثِ عائشة رضي الله عنها
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ ( ) امام اسحاق بن راہویہ، امام طبرانی (الدعاء : ) ابن عدی (الکامل: ۲۶۱۶) دار قطنی (۱/ ۷۲) اور ابن حجر نے "نتائج الافکار "(۱/ ) میں حارثة بن ابي الرحال، عن عمرة عن عائشة ...الخ کے طریق سے مرفوعا روایت کیا ہے۔
اس حدیث کو امام احمد نے سخت ضعیف کہا ہے اور امام بخاری نے اس حدیث میں موجود ایک راوی حارثہ بن ابی الرحال پر شدید جرح کر رکھی ہے،اسکے متعلق آپکے الفاظ ہیں: منکر الحدیث ( تحفة الاقوياء: ۳۸)
الضعاء الكبير: ۱/ ۲۸۸)
یہ راوی امام نسائی کے نزدیک بھی متروک الحدیث ہےـ
بہرکیف یہ حدیث بھی امام بخاری کے نزدیک ضعف شدید کی وجہ سے نہ متابعت کے قابل ہے اور نہ استشہاد کے.
دسویں روایت: اثر ابی بکر رضی اللہ عنہ
یہ روایت امام ابن ابی شیبہ ( ) وغیرہ نے خلف بن خلیفہ، عن لیث، عن حسین بن عمار عن ابی بکر کے طریق سے موقوفا ابن مسعود والی روایت کے الفاظ سے روایت کیا ہے.
اس اثر میں تین باتیں ہیں:
اولا: یہ موقوف ہے.
ثانیــــا: اس میں لیث بن ابی سلیم ہے اور وہ ضعیف ہے۔
ثالثـــــا: اس میں بھی حدیث ابن مسعود کی طرح فرضیت تسمیہ کا ذکر نہیں..لہذا اسے بطور متابعت واستشہاد کے نہیں پیش کیاجاسکتا..
گیارھویں حدیث: حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ
یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے چار وجوہ سے مروی ہے:
الوجہ الاول: محمد بن سیرین.
جس کے الفاظ ہیں: « يا اباهريرة! اذا توضات فقل: بسم الله، والحمدلله، فان حفظتك لا تستريح، تكتب لك الحسنات حتي تحدث من ذلك الوضوء»
یہ حدیث "المعجم الصغیر " (۱۹۶۵) اور امام طبرانی کے اسی طریق سے "نتائج الافکار( ۱۲۲۷) میں "عمرو بن ابي سلمة، عن ابراهيم بن محمد البصري، عن علي بن ثابت، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة رضي الله عنه " کے طریق سے مرفوعا مروی ہے۔
امام طبرانی اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
“لم يروه عن علي بن ثابت (وهو اخو عزرة بن ثابت ) الا ابراهيم، تفرد به عمرو”
ابن حجر امام طبرانی کے اس قول کے بعد فرماتے ہیں:
عزرة ....من رجال الصحيح، واخوه علي مجهول، والراوي عنه ضعيف
محترم قارئین: علی بن ثابت مجہول نہیں ہے، امام احمد اور امام ابوحاتم نے اسکی توثیق کی ہے،
امام ابن ابی حاتم اسکا ترجمہ ذکرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«علي بن ثابت بن عمرو بن اخطب البصري، الانصاري، اخوعزرة بن ثابت، روي عن: نافع ومحمد بن يزيد، ومحمد بن زياد،.
روي عنه: سعيد بن ابي عروبة، وعمران القطان، وحماد بن سلمة وسويد بن ابراهيم، سمعت ابي يقول ذلك.نا ( الراوي عن ابن ابي حاتم الرازي) عبدالله بن احمد بن محمد بن حنبل ـــ فيما كتب الي، قال: سمعت ابي يقول: علي بن ثابت بن ابي زيد الانصاري: ثقة حدث عنه: سعيد بن ابي عروبة وحماد بن زيد واخوه عزرة بن ثابت واخوه محمد ثابت، نا( الراوی عن ابن ابی حاتم)عبد الرحمن، قال: سالت ابي عن علي بن ثابت ( اخي عزرة) ومحمد ابني ثابت، فقال: لا باس به

»( الجرح والتعديل: ۵/ ۱۷۷)
امام طبرانی اس حدیث کی سند میں موجود علی بن ثابت کو عزرہ بن ثابت کا بھائی قرار دیا ہے اورامام احمد نے اسی علی کو عزرہ کا بھائی کہتے ہوئے اسکی توثیق کی ہے.اگر تو یہ علی بن ثابت واقعتا عزرہ بن ثابت کے بھائی ہیں ،جیساکہ امام طبرانی فرمارہے ہیں، تو پھر یہ راوی ثقہ ہی ہے، اور اگر یہ کوئی اور راوی ہے تو پھر میں اسے نہیں جانتا۔
امام ابن حجر کے بقول پھر وہ مجہول رہا.لیکن چونکہ امام طبرانی نے عزرہ بن ثابت کے بھائی ہونی کی صراحت اور قید لگا دی ہے، لہذا انکی اس بات کو رد کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل چاہیے، ورنہ انکی بات اپنی جگہ پر قائم رہیگی.
بہرکیف یہ راوی ثقہ ہے، مجہول نہیں۔
علی سے روایت کرنے والا ابراہیم ہے، اسکے بارے میں امام ابن عدی فرماتے ہیں:
« روي عنه عمرو بن ابي سلمة وغيره مناكير».
پھر آگے فرماتے ہیں: “واحاديثه صالحة محتملة، ولعله اتي ممن قدرواه عنه
( الكامل: ۱/ ۲۶۰ ـ ۲۶۱)
یعنی اس سے عمرو بن ابی سلمہ وغیری نے مناکیر بیان کی ہیں، اور اس نے محتمل احادیث بیان کی ہیں.
امام ابن عدی کا کہنا ہے کہ اس کے طریق میں مناکیر موجود ہیں.لیکن انکے ذمے دار وہ نہیں بلکہ اس سے روایت کرنے والے یعنی عمرو بن ابی سلمہ وغیرہ ہیں.
عمرو بن ابی سلمہ التنیسی مناکیر ضرور بیان کرتا ہے، لیکن ائمہ کرام نے تصریح کر دی ہے کہ وہ صرف زہیر سے مناکیر بیان کرتا ہے، ہر کسی سے نہیں، باقیوں سے روایت کرنے میں وہ ثقہ ہے.
شیخ ابواسحاق الحوینی امام ابن عدی کے اس کلام پر یوں تعاقب کرتے ہیں:
«وهذا الترجي من ابن عدي فيه نظر، فانه ساق له احاديث، الراوي عنه فيها ابو مصعب الزهري، وعمرو بن ابي سلمة، وكلاهما ثقة، فلا تكون المناكير الا من ابراهيم» .
کہ امام ابن عدی کی اس گمان میں نظر ہے، کیونکہ جو روایات آپ نے ذکر کی ہیں، ان میں ابراہیم سے روایت کرنے والے ابو مصعب الزہری اور عمرو بن ابی سلمہ ہین، اور وہ دونوں ثقہ ہیں، لہذا یہ مناکیر ابراہیم کی طرف سے ہی ہیں.( کشف المخبوء: ۱۸)
محترم قارئین ہمارا رجحان شیخ ابوا سحاق الحوینی کی طرف ہے کہ یہ مناکیر خود ابراہیم کی طرف سے ہیں، نہ کہ ان سے روایت کرنے والوں سے، کیونکہ:
اولا: اس سے روایت کرنے والے ثقہ ہین اور ابراہیم مجروح ہے، لہذا ثقہ کے مقابلے میں مناکیر کی نسبت ضعیف راوی کی طرف کرنا اولی ہے.
ثانیــــا: اگر ایک ثقہ راوی اس سے مناکیر بیان کرتا تو پھر بات قابل غور تھی، لیکن یہاں تو ابن عدی نے صراحت کی ہے کہ روات اس سے مناکیر بیان کرتے ہیں، گویا یہ جمع کا صیغہ ہے، دو ثقہ روات تو یہاں خود ابن عدی نے ہی ذکر کر دیے ہیں، لہذا اتنے سارے ثقہ روات اس سے مناکیر بیان کرتے ہیں، تو گویا یہ مسئلہ بذات خود ابراہیم سے ہے، جماعت کو غلط کہکر فرد واحد کو درست قرار نہیں دیاجاسکتا.واللہ اعلم بالصواب.
ابراہیم کا پورا نام "ابراہیم بن محمد بن ثابت بن شرحبیل الانصاری "ہے۔
امام ابن عدی اسکے متعلق فرماتے ہیں: «ذو مناكير»کہ مناکیر بیان کرتا ہے، ( المیزان: ۱ /۵۶)
ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی کے اس قول کو ذکر کرکے اسے برقرار رکھا ہے، مزید "اللسان "۱/ ۹۸) میں اس زیر بحث روایت کو لا کر اسے "وھو منکر " کہہ کر منکر کہا ہے،
گویا حافظ ذہبی اور ابن حجر دونوں مناکیر کا قصوروار اسے قرار دیتے ہیں.
تنبیــــــــــــــــہ:امام ابن حجر "اللسان " میں مذکورہ راوی کے ترجمہ کے آخر میں لکھتے ہیں:
«وذكره ابن حبان في "الثقات "وقال صديق عمرو بن ابي سلمة، روی عن محمد بن مالك عن البراء، وسياتي في ابراهيم بن محمد المقدسي».
پھر حافظ ذہبي کے کلام کے عقب میں "ابراھیم بن محمد المقدسی "کا ترجمہ ذکرکرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں: «
قال ابن ابي حاتم: روي عن محمد بن مالك خادم البراء بن عازب.روي عنه: محمد بن عوف الحمصي، سالت ابي عنه، فقال: كان يسكن بيت المقدس، ضعيف الحديث، مجهول.قلت:
( القائل ابن حجر) وذكره ابن حبان في الثقات، والبخاري في تاريخه ووصفاه بانه صديق ابي حفص التنيسي، وزاد البخاري ان التنيسي وثقه،(۱) وما رواه الجعفي الا بواسطة التنيسي
»
محترم قارئین! حافظ ذہبی اور ابن حجر ان دونوں روات کو الگ الگ شخصیات تسلیم کر رہے ہیں، بالفرض اگر انہیں ایک ہی تسلیم کر لیا جائے تب بھی عمرو بن ابی سلمہ ابی حفص التنیسی کی توثیق اسے فائدہ نہیں دے سکتی، کیوں کہ یہ ابوحفص تنیسی اس لائق نہیں کہ وہ روات کی جرح وتعدیل کرسکے، روات کی تعدیل وتجریح دیگرے چیزاست.
تہذیب الکمال " للمزی وغیرہ میں ہے کہ اس سے پچاس کے لگ بھگ روایات مروی ہیں، تو کیا.جس کے پاس اس قدر کم تعداد میں روایات مروی ہوں وہ جرح وتعدیل کے قابل بن سکتا ہے؟! خصوصا اس صورت میں کہ اسکے مقابلے میں امام ابوحاتم رازی، حافظ ذہبی اور ابن حجر اس راوی پر جرح کرچکے ہوں، بہرکیف یہ راوی قلیل الروایہ ہونے کے باوجود بھی مناکیر بیان کرتا ہے، اور اسکی اس روایت پر تو خصوصی طور پر منکر کاحکم لگا دیا گیا ہے، اور منکر، منکر ہی رہتی ہے .لہذا حدیث ابی ہریرہ کا یہ طریق بھی نہ قابل متابعت ہے اور نہ ہی قابل استشہاد.واللہ اعلم بالصواب
(۲) الوجه الثاني، مجاهد عنه.
اس طریق کو امام دارقطنی(۱/ ۷۴) اور اسکے طریق سے امام بیہقی (۱/ ۴۵) اور ابن حجر ( نتائج الافکار: ۱/ ۲۲۶) میں "مرداس بن.محمد عن محمد بن ابان عن ایوب بن عائذ عنہ ۰۰ الخ. سے مرفوعا روایت کیاہے.
اس طریق پر بچند وجوہ کلام ملاحظہ فرمائیں ـ
۱ ـ سند میں موجود راوی محمد بن ابان کی تعیین میں اختلاف ہے،
حافظ عبد الحق الإشبيلي " الأحكام الوسطى (۱/ ۱۶۳) میں فرماتے" محمد بن أبان، لااعرفه الآن.
امام ابن القطان " بيان الوهم (۳/ ۲۲۷) میں اسے " محمد بن أبان الجعفي جدُّ مشكدانه" سمجھتے ہیں، اگر یہی ہے تووہ ضعیف ہےـ امام أحمد، ابن معين،بخاري، أبو داود، نسائي أبو حاتم، اورابن حبان نے اسے ضعیف قراردیاہے.
حافظ ذہبی کی "میزان " (۴/ ۸۸)میں"اسے (محمد بن) (۱) أبان الواسطي " سمجھتے ہیں ـــــــ جیساکہ " التعليق المغني حاشية الدارقطني(۱/ ۷۴) میں ہے، واسطی کی یہ تعیین صرف یہیں پر ہی ہے، اگر یہاں، محمد بن أبان، واسطي، ہی ہے تو پھر یہاں اس کے اور ایوب کے مابین انقطاع ہے، کیونکہ واسطی أيوب بن عائذ کے طبقہ سے متاخر ہے، اور وہ أيوب کے تلامذہ سے روایت کرتا ہے.
سند میں موجود راوی محمد بن ابان کی تعیین میں اختلاف ہے،
محرم قارئین! یہاں امام ابن القطان کا قول ہی ٹھیک ہے۔
یہ محمد بن ابان بن صالح بن عمیر القرشی الجعفی جد مشکاندہ ہیں۔ جس کے دلائل درج ذیل ہیں:
*- مرداس ابو بلال الاشعری کوفی ہیں اور یہ بھی کوفی ہیں، جبکہ جس کا ذکر ذہبی نے کیا وہ واسطی ہے۔ لہٰذا کوفی کا کوفی سے روایت کرنا کوفی کا واسطی سے روایت کرنے سے زیادہ معقول ہے۔ اور دیگر قرائن نہ ہونے کی صورت میں اکثر محدثین تععین کے لئے اسی بات پر اکتفاء کرتے ہیں لیکن یہاں دیگر دلائل بھی ہیں۔
*- ابن قانع کی روایت میں واضح ہے کہ جس محمد بن ابان سے مرداس روایت کرتے ہیں وہ ابو اسحاق سے بھی روایت کرتے ہیں۔ اور ابو اسحاق کے تلامذہ میں یہی محمد بن ابان جد مشکاندہ کا نام ہی مشہور ہے۔ چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:
مُحَمد بْن أَبان بْن صالح بْن عُمَير. عَنْ أَبي إِسحاق ،،،، يَتكلمون فِي حفظه.حديثُه فِي الكُوفيين.قَالَ عَبد اللهِ بْن عُمَر بْن مُحَمد بْن أَبان بْن صالح بْن عُمَير: نحن من العَرَب، وقَعَ علينا سَبيٌ فِي الجاهلية، وتزوج مُحَمد فِي الجُعفيين، فَنُسِبَ إليهم. مَولًى لقُرَيش
(التاريخ الكبير)
*ـ ان راویوں کے طبقات میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ محمد بن ابان سفيان الثوري ومالک کے طبقہ میں سے ہیں اور یہ لوگ عائذ بن ایوب اور ابو اسحاق السبیعی دونوں کے طبقوں کے لوگوں سے روایت کرتے ہیں۔
*- اس روایت میں بھی محمد بن ایوب اور مجاہد کے درمیان ایک واسطہ ہے جبکہ ایسا صرف محمد بن ابان جد مشکاندہ سے ہی ثابت ہے۔ محمد بن ابان کے والد مجاہد سے روایت کرتے ہیں، گویا محمد بن ابان مجاہد کے تلمیذ التلامذہ میں سے ہیں جو کہ اس سند میں بھی ایسا ہی ہے۔
چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں:
"وأبوه فثقة يروي عن مجاهد"
تاریخ الاسلام
لہٰذا یہ محمد بن ابان القرشی الجعفی الکوفی ہے جو کہ ضعیف ہے۔
واللہ اعلم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) اسکے الفاظ ہیں: وھو ثقة
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
۲ ـ «مرداس بن محمد ،
امام ابن القطان کہتے ہیں: :لايعرف البته،
حافظ ذہبی فرماتے ہیں: لااعرفه، وخبره منكر في التسمية علي الوضوء»
الميزان: ۴/ ۸۸)
ابن حجر "اللسان " میں فرماتے ہیں: « مرداس بن محمد بن الحارث بن عبدالله بن ابي بردة عن(۲) ابی موسی الاشعري، عن محمد بن ابان عن ايوب بن عائذ يحدث في الوضوء عن الدارقطني، وعنه: محمد بن عبدالله الزهيري، قال ابن القطان:لايعرف البته، قلت ( اي ابن حجر) هومشهور بكنيته ابوبلال، من اهل الكوفة، يروي عن قيس بن الربیع والكوفيين، روي عنه اهل العراق، قال ابن حبان في الثقات: يغرب، ويتفرد، ولينه الحاكم ايضا، وقول ابن القطان لايعرف البتة، وهم في ذالك، فانه معروف (۶/۱۴)
"نتائج الافکار " میں زیر بحث حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: « هذاحديث غريب، تفرد به مرداس، وهو من ولد ابي موسي الاشعري، ضعفه جماعة» (۱/ ۲۲۶)
ابن حجررحمہ اللہ اس حدیث میں موجود مرداس بن محمد کو ابوبلال اشعری باور کرارہے ہیں، یعنی ان کے نزدیک "ابوبلال اشعری اور مرداس بن محمد ایک ہی راوی ہے،، اور وہ مجہول نہیں بلکہ مشہور ہے، اگر چہ اس میں ضعف ہے،، جبکہ حافظ ذہبی ابوبلال اور مرداس کو مستقل دوالگ الگ شخصیات سمجھتے ہیں، میزان میں دونوں کا بھی الگ الگ ترجمہ ذکرکیا ہے، مرداس کو غیرمعروف کہا ہے، اور ابوبلال کو میزان میں ذکرکرکے اس پرامام دارقطنی سے جرح نقل کی ہے، اور اسی طرح "السیر "(۱۰/ ۵۸۲ ـ ۵۸۳) میں بھی اسکا ترجمہ "ابو بلال کنیت کے ساتھ ذکرکیا ہے..اور پھر آخر میں امام ابواحمد الحاکم سے ابوبلال کا نام: مرداس بن محمد .....الاشعری بھی نقل کیا ہے.جبکہ امام ابوحاتم نے ــ جیساکہ "الجرح والتعدیل " میں ہے ـــ اس( ابوبلال) سے اسکے نام کے متعلق پوچھا تو کہا کہ میری کنیت ( ابوبلال) ہی میرا نام ہے. (۹/ ۳۵۰)
محترم قارئین: گویا اس صراحت سے واضح ہوگیا کہ امام ذہبی کے نزدیک مرداس بن محمد اور ابوبلال ایک نہیں،( اگرچہ ابوبلال کو مرداس بھی کہاجاتا ہے ـ) بلکہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں،(۳) مرداس انکے نزدیک غیر معروف ہے جبکہ ابوبلال انکے نزدیک محدث اور کوفہ کے علماء میں سے ہیں، اگرچہ اس پر تضعیف نقل کی ہے.
لیکن راجح قول میں مرداس اور ابوبلال الگ الگ شخصیات نہیں، بلکہ وہ ایک ہی ہیں، جس کے دلائل درج ذیل ہیں:
۱ ـ خطیب بغدادی کے نزدیک دونوں ایک ہی ہیں:
موضح اوہام الجمع والتفریق میں فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ بْنُ مَهْدِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا مِرْدَاسُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَرْدَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَائِذٍ الطَّائِيُّ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم " مَنْ تَوَضَّأَ وَذَكَرَ اسْمَ اللَّهِ تَطَهَّرَ جَسَدُهُ كُلُّهُ، وَمَنْ تَوَضَّأَ وَلَمْ يَذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، لَمْ يَتَطَهَّرْ إِلا مَوْضِعُ الْوَضُوءِ ".
وهو أَبُو بلال الأشعري، الذي روى عنه مُحَمَّد بْن بشر بْن مطر البغدادي.

۲ ـ ابن قانع "معجم الصحابة " میں لکھتے ہیں: حدثنا القاسم بن محمد بن حماد الدلال نا ابوبلال الاشعري، نامحمد بن ابان عن ابي اسحاق....))
اور ہم پیچھے واضح کرآئے ہیں کہ محمد بن ابان، ابواسحاق کے تلامذہ میں سے ہیں، اور وہ ان سے روایت کرتے ہیں.
۳ ـ معرفۃ الصحابۃ میں امام ابو نعیم ایک روایت یوں بیان کرتے ہیں:
حدثنا حبيب بن الحسن، ثنا عمر بن حفص السدوسي، ثنا أبو بلال الأشعري مرداس بن محمد بن الحارث، ثنا قيس بن الربيع۔۔۔۔۔
یہاں پر"ابوبلال " اور "مرداس " دونوں جمع ہیں، اور اس میں اسکا "قیس بن ربیع "سے روایت کرنے والا بتایا ہے، ذہبی نے "السیر " اور ابن حجر نے "اللسان " میں "ابوبلال" کو "قیس " کے تلامذہ میں ذکرکیا ہے.
۴ ـ ابو بلال کو ابو موسی الاشعری کی اولاد میں سے کہا جاتا ہے اور مرداس کا نسب بھی انہیں تک جاتا ہے۔ یہی بات بالکل واضح کرتی ہے کہ دونوں ایک ہیں۔
۵ ـ امام مزی تہذیب الکمال میں فرماتے ہیں: "۔۔۔ وأبو بلال مرداس بن مُحَمَّد بْن الحارث بْن عَبد اللَّهِ بْن أَبي بردة بْن أَبي موسى الأشعري"
یہاں امام مزی نے "ابوبلال "اور "مرداس " کو جمع کرکے ایک ہی سمجھا ہے .
۶ ـ تاریخ الاسلام میں ذہبی نے خود بھی دونوں کو ایک بتایا ہے:
مرداس کو ابو بلال بتا کر کہتے ہیں کہ اس کا ترجمہ ابو بلال الاشعری کے ضمن میں درج ہے: مرداس، هو أبو بلال الأشعري، سيأتي بكنيته إن شاء الله.
لہذا ثابت ہواکہ "ابوبلال، اور مرداس " دونوں ایک ہی ہیں، الگ الگ دو شخصیات نہیں.
واللہ اعلم بالصواب.
۳ ـ مرداس کا یہ طریق منکر ہے، حافظ ذہبی اسے "منکر " قرار دیتے ہیں، انکے الفاظ ہیں: لا أعرفه، وخبره منكر في التسمية على الوضوء "
گویا حافظ ذہبی کے نزدیک یہ طریق ابوہریرہ سے "منکر " ہے.اور منکر، منکر ہی رہتا ہے. اگرچہ مرداس،، واقعتا ابوبلال ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ حافظ ذہبی کو اس طریق پر اعتراض ہی اسکا "ابوہریرہ سے مروی ہونے میں ہے.جیساکہ سیاق سے واضح ہورہا ہے.ائمہ نقد وعلل کو اللہ تعالی نے حدیث کے طرق اور مخرج پر وسیع اطلاع دے رکھی تھی، جس کی بدولت وہ اصل حقائق پر مطلع ہوجاتے تھے،،
۵ ـ یہ طریق بھی نہ قابل متابعت ہے اور نہ ہی قابل استشہاد.
اولا: یہ طریق منکر ہے،،
ثانیـــــا: اس طریق میں بھی فرضیت تسمیہ کا ذکر نہیں، بلکہ اس طریق کے بھی الفاظ حدیث ابن مسعود کی طرح ہی ہین، لہذا فرق واضح ہے ـ.
محترم قارئین: شیخ ابواسحاق الحوینی اس طریق کو اعتبار کے قابل اعتبار سمجھتے ہوئے رقمطراز ہیں: فمثلہ یصلح للاعتبار.
( کشف المخبوء ۲۰)
لیکن انکی اس بات میں نظر قوی ہے ...کیونکہ جب اس طریق کا منکر ہونا واضح ہوگیا ہے اور پھر یہ اپنے مدعا( فرضیت تسمیہ) کے بھی موافق نہیں تو پھر آخر کس طرح قابل اعتبار بن سکتا ہے.؟؟؟
(۳)الوجہ الثالث: ابوسلمة عنه.
اس طریق کو امام دارقطنی (۱/ ۷۱) امام بیہقی(۱/ ۴۴) اور حافظ ابن حجر نے "نتائج الافکار: ۱/ ۲۵۲) میں "محمود بن محمد الظفري، عن ايوب بن النجار،عن يحيى بن ابي كثير عنه عن ابي هريرة ...الخ سے مرفوعا روایت کیاہے.
اس طریق میں موجود ایک راوی محمود الظفری پرامام دارقطنی نے"لیس بقوی "کی جرح کی ہے،نیز "الافراد " میں محمود کے تفرد کی وجہ سے اس طریق کو معلول قرار دیا ہے ــ جیساکہ "الاطراف والغرائب "للمقدسی میں ہے،
جان لینا چاہیے کہ اس راوی سے یہی ایک روایت مروی ہے، اسکے باوجود بھی امام دارقطنی نے اس پر جرح کی ہے،، اب جب اس نے ایک روایت بیان کی ہے، اور اس میں بھی وہ قطعا غلطی کامرتکب ہوا ہے،چونکہ غلطی کبھی بھی قوت نہیں پکڑتی، کیونکہ اسکا غلط ہونا واضح ہوچکاہوتا ہے.اور بعید نہیں کہ یہ راوی سند میں گڑبڑ کاشکار ہوا ہو۔
۳ ـ مرداس کا یہ طریق منکر ہے، حافظ ذہبی اسے "منکر " قرار دیتے ہیں، انکے الفاظ ہیں: لا أعرفه، وخبره منكر في التسمية على الوضوء "
گویا حافظ ذہبی کے نزدیک یہ طریق ابوہریرہ سے "منکر " ہے.اور منکر، منکر ہی رہتا ہے. اگرچہ مرداس،، واقعتا ابوبلال ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ حافظ ذہبی کو اس طریق پر اعتراض ہی اسکا "ابوہریرہ سے مروی ہونے میں ہے.جیساکہ سیاق سے واضح ہورہا ہے.ائمہ نقد وعلل کو اللہ تعالی نے حدیث کے طرق اور مخرج پر وسیع اطلاع دے رکھی تھی، جس کی بدولت وہ اصل حقائق پر مطلع ہوجاتے تھے،،
۵ ـ یہ طریق بھی نہ قابل متابعت ہے اور نہ ہی قابل استشہاد.
اولا: یہ طریق منکر ہے،،
ثانیـــــا: اس طریق میں بھی فرضیت تسمیہ کا ذکر نہیں، بلکہ اس طریق کے بھی الفاظ حدیث ابن مسعود کی طرح ہی ہین، لہذا فرق واضح ہے ـ.
محترم قارئین: شیخ ابواسحاق الحوینی اس طریق کو اعتبار کے قابل اعتبار سمجھتے ہوئے رقمطراز ہیں: فمثلہ یصلح للاعتبار.
( کشف المخبوء ۲۰)
لیکن انکی اس بات میں نظر قوی ہے ...کیونکہ جب اس طریق کا منکر ہونا واضح ہوگیا ہے اور پھر یہ اپنے مدعا( فرضیت تسمیہ) کے بھی موافق نہیں تو پھر آخر کس طرح قابل اعتبار بن سکتا ہے.؟؟؟
(۳)الوجہ الثالث: ابوسلمة عنه.
اس طریق کو امام دارقطنی (۱/ ۷۱) امام بیہقی(۱/ ۴۴) اور حافظ ابن حجر نے "نتائج الافکار: ۱/ ۲۵۲) میں "محمود بن محمد الظفري، عن ايوب بن النجار،عن يحيى بن ابي كثير عنه عن ابي هريرة ...الخ سے مرفوعا روایت کیاہے.
اس طریق میں موجود ایک راوی محمود الظفری پرامام دارقطنی نے"لیس بقوی "کی جرح کی ہے،نیز "الافراد " میں محمود کے تفرد کی وجہ سے اس طریق کو معلول قرار دیا ہے ــ جیساکہ "الاطراف والغرائب "للمقدسی میں ہے،
جان لینا چاہیے کہ اس راوی سے یہی ایک روایت مروی ہے، اسکے باوجود بھی امام دارقطنی نے اس پر جرح کی ہے،، اب جب اس نے ایک روایت بیان کی ہے، اور اس میں بھی وہ قطعا غلطی کامرتکب ہوا ہے،چونکہ غلطی کبھی بھی قوت نہیں پکڑتی، کیونکہ اسکا غلط ہونا واضح ہوچکاہوتا ہے.اور بعید نہیں کہ یہ راوی سند میں گڑبڑ کاشکار ہوا ہو،، ہوسکتا ہے کہ یہ حدیث، حدیث ابن مسعود یا حدیث ابن عمر ہی ہو، اس نے سند کو بدل کر اس سند سے روایت کردی ہو،، ابن حجر نے بھی اسی شک وشبہے کااظہار کیا ہے، امام یحیی بن معین کے ان الفاظ: سمعت ايوب بن النجار يقول: لم اسمع من يحيى بن ابي كثير سوي حديث واحد.، وهو حديث "احتج آدم وموسي " کو نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں: « فعلي هذا يكون في السند انقطاع، ان لم يكن الظفري دخل عليه اسناد في اسناد ».
کہ اگر سند میں انقطاع ( ایوب اور یحیی کے مابین) نہیں تو پھر یہ ظفری سند کو سند میں داخل کرنے کاشکار ہوگیا ہے،،،
" اور حافظ ذہبی نے منکر قرار دیا ہے.
حافظ ذہبي "تنقيح التحقيق (۱/ ۱۰۵) میں فرماتے ہیں ": هذا منكر، وقال الدارقطني: «محمود بن محمد ليس بالقوي، فيه نظر». قلت: ( ای الذہبی)أيوب من رجال الصحيحين، صدوق، لا يحتمل مثل هذا أصلاً، فالآفة من محمود " ا.هـ
گویا ذہبی کے نزدیک اس روایت کے معلول ہونے کا کارن ایوب نہیں، بلکہ محمود ہے،
خلاصہ کلام یہ ہواکہ ،، یہ طریق معلول ومنکر ہے، اس لیے یہ نہ متابعت کے قابل ہے اور نہ ہی استشہاد کے.
(۴) الوجہ الرابع: سلمہ اللیثی عنہ.
یہ طریق"امام احمد کی "المسند: (۲/ ۴۱۸) امام بخاری کی "التاریخ الکبیر "(۲/۲/ ۷۶) ابوداؤد(۱۰۱) ترمذی کی "العلل الکبیر "( ) طبرانی کی "الدعاء " دراقطنی کی "السنن "(۱/ ۷۲ ـ ۷۹) حاکم کی "مستدرک "(۱/ ۱۴۶) بیہقی کی "سنن "(۱/ ۴۳) بغوی کی "شرح السنة: ۱/ ۴۰۹) اور ابن حجر کی "نتائج الافکار "(۱/۲۲۴) میں محمد بن موسی المخزومی، عن یعقوب بن سلمة الليثي، عنہ، عن ابي هريرة ۰۰ الخ سے مرفوعا مروی ہے.
اس طریق کے متعلق امام بخاری "التاريخ الكبير " میں فرماتے ہیں: «لایعرف لسلمة سماع من ابي هريرة، ولاليعقوب عن من ابيه »
امام بخاری کا عدم سماع والا حکم یا تو انکے متعلق مشہور موقف ہے اسکے متعلق ہے،، یاپھر یہی بھی ہوسکتا ہے کہ امام بخاری قطعی طور پر متعین کرکے عدم سماع کی نفی کررہے ہیں۔
اسی طرح حافظ ذہبی نے اسے منکر قرار دیا ہے.
"تنقيح التحقيق (۱/ ۱۰۵) میں فرماتے ہیں ": هذا منكر، وقال الدارقطني: «محمود بن محمد ليس بالقوي، فيه نظر». قلت: ( ای الذہبی)أيوب من رجال الصحيحين، صدوق، لا يحتمل مثل هذا أصلاً، فالآفة من محمود " ا.هـ
گویا ذہبی کے نزدیک اس روایت کے معلول ہونے کا کارن ایوب نہیں، بلکہ محمود ہے،
خلاصہ کلام یہ ہواکہ ،، یہ طریق معلول ومنکر ہے، اس لیے یہ نہ متابعت کے قابل ہے اور نہ ہی استشہاد کے.
(۴) الوجہ الرابع: سلمہ اللیثی عنہ.
یہ طریق"امام احمد کی "المسند: (۲/ ۴۱۸) امام بخاری کی "التاریخ الکبیر "(۲/۲/ ۷۶) ابوداؤد(۱۰۱) ترمذی کی "العلل الکبیر "( ) طبرانی کی "الدعاء " دراقطنی کی "السنن "(۱/ ۷۲ ـ ۷۹) حاکم کی "مستدرک "(۱/ ۱۴۶) بیہقی کی "سنن "(۱/ ۴۳) بغوی کی "شرح السنة: ۱/ ۴۰۹) اور ابن حجر کی "نتائج الافکار "(۱/۲۲۴) میں محمد بن موسی المخزومی، عن یعقوب بن سلمة الليثي، عنہ، عن ابي هريرة ۰۰ الخ سے مرفوعا مروی ہے.
اس طریق کے متعلق امام بخاری "التاريخ الكبير " میں فرماتے ہیں: «لایعرف لسلمة سماع من ابي هريرة، ولاليعقوب عن من ابيه »
امام بخاری کا عدم سماع والا حکم یا تو انکے متعلق مشہور موقف ہے اسکے متعلق ہے،، یاپھر یہی بھی ہوسکتا ہے کہ امام بخاری قطعی طور پر متعین کرکے عدم سماع کی نفی کررہے ہیں،،
یعقوب کو بعض ائمہ نے مجہول کہاہے اور بعض نے اس پر جرح کرتے ہوئے اسے ضعیف قرار دیا ہے، اور اسی طرح اسکا والد بھی مجہول ہے، سلمہ اللیثی سے صرف اسکا بیٹا یعقوب ہی روایت کرتا ہے،، اسے مجہول مانا جائے یا مجروح وضعیف، دونوں صورتوں میں سلمہ کا ہونا نہ ہونا برابر ہے،، کیونکہ امام ابن حبان "المجروحین " میں کہتے ہیں کہ جس راوی سے مجہول یاضعیف روایت کرے، ایسے راوی کا ہونا نہ ہونا برابر ہے، آپکے الفاظ ہیں:
« الشيخ اذالم يرو عنہ ثقة فهومجهول لايجوزالاحتجاج به، لان رواية الضعيف لاتخرج من ليس بعدل عن حد المجهولين الي جملة اهل العدالة كأنَّ ماروي الضعيف ومالم يرو في الحكم سيان»
( المجروحين : ۳۲۷ ـ ۳۲۸) ترجمه سعید بن زیاد بن فائد.
یعنی جس سے صرف کوئی مجہول یاضعیف راوی روایت کرتا ہو وہ مجہول ہی رہتا ہے، وہ حد جہالت سے نہیں نکل سکتا، گویا اس سے ضعیف کاروایت کرنا، نہ کرنا برابر ہے.اور سلمہ سے بھی صرف اسکا بیٹا یعقوب ہی روایت کرتا ہے، اسے مجہول ماناجائے یاضعیف. دونوں حالتوں میں سلمہ کی حیثیت متعین ہے،یعنی اسکی روایت کا ہونانہ ہونابرابر ہے.
لہذا اس اعتبار سے یہ طریق بھی شدید ضعیف ہے.
محترم قارئین: احادیث تسمیہ کا سارا تجزیہ آپکے سامنے ہے، ان میں کوئی ایک بھی حدیث امام بخاری کے نزدیک اس قابل نہیں کہ وہ قوت پکڑسکے، اس لیے وہ کیسے ان احادیث کو قوی یا قابل حجت قرار دے سکتے ہیں..لہذا ان احادیث کو پیش کرکے انکے نزدیک ضعیف + ضعیف = ضعیف، کا موقف منسوب کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) قوسین کے مابین الفاظ "میزان " کے مطبوعہ نسخہ میں نہیں.جبکہ انکا ہونا ہی درست ہے.
(۲) میزان اور لسان " میں اس طرح "بن " ہے، جبکہ درست "عن " ہے
(۳) تاریخ الاسلام میں ذہبی نے خود بھی دونوں کو ایک بتایا ہے، اور وہی راجح ہے۔
 
Last edited:
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top