- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,497
- پوائنٹ
- 964
دوسری نمبر میں موصوف کاکہناہے ہیں: ـ بعض لوگ کہتے ہیں: " حسن لغیرہ " کو سب سے پہلے امام ترمذی رحمہ اللہ نے معروف کیا تھا، انکی یہ بات سرا سر غلط ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ سے قطعا یہ ثابت نہیں، بلکہ امام ترمذی رحمہ اللہ سے اسکے خلاف ثابت ہے۔(ص: ۱۰۸)
نیز لکھتے ہیں :
امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث"مختلف اسناد سے مروی ہو " سے مراد ایسی حدیث، جس کے مرکزی راوی سے بیان کرنے والے متعدد ہوں تو اس حدیث کی امام ترمذی کے نزدیک ایک سے زائد سندیں شمار ہونگی۔(ص: ۱۱۱)
عرض ہے :
اولا: چونکہ موصوف کا منہج یہ ہے کہ ہر اصطلاح وقاعدہ کا ثبوت "متقدمین ائمہ " سے بالصراحت ہونا ضروری ہے۔اب چونکہ "امام ترمذی "سے حسن لغیرہ " ثابت ہے، لہذا اگر امام ترمذی سے وہ "حسن لغیرہ " کے ثبوت کو تسلیم کرلیتے ہیں، تو انکا موقف بالکل کمزور پڑجاتا ہے، اس لیے انہوں نے اس دیوار کو ہی گرانے کی کوشش کی اور لکھ مارا کہ "امام ترمذی سے "حسن لغیرہ " ثابت ہی نہیں!
مجھے اس وقت بے حد تعجب ہوا جب یہی بات مجھے شیخ زبیر علیزئی رحمہ اللہ کے کلام میں نظر آئی۔ آپ لکھتے ہیں: ثابت ہوا کہ امام بخاری اور امام ترمذی دونوں کے نزدیک ضعیف + ضعیف، والی مروجہ حسن لغیرہ روایت حجت نہیں، بلکہ ضعیف ہوتی ہے۔
( مقالات: ۵/۱۸۰)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ امام ترمذی بھی حسن لغیرہ ( مروجہ) کوحجت نہیں سمجھتے تھے۔ ( مقالات: ۵/۱۹۱)
۱ ـ میں حیران ہوں کہ "حسن لغیرہ " کے حوالے سے امام ترمذی اس قدر معروف ہیں کہ بعض ائمہ نے انہیں ہی اس اصطلاح کا مُشتَھِر قرار دیا ہے،نیز خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے "العلل الصغیر " کے اندر اس کی واضح تصریح کردی ہے،اور "جامع ترمذی کے اندر انکا تعامل بھی یہی بتلارہا ہے، اسی طرح ائمہ کرام کی ایک کثیر جماعت نے بھی اسے امام ترمذی کی طرف منسوب کیا ہے،
مثلا:
۱ ـ امام ابن الصلاح ( مقدمہ ابن الصلاح)
۲ ـ امام عراقی، ( التقیید والایضاح)
۳ ـ امام ابن سید الناس
( النفح الشذی: ۱/۲۰۵)
۴ ـ امام ابن تیمیہ
۵ ـ علامہ مغلطائی الحنفی،
۶ ـ امام نووی
۷ ـ امام ابن حجر
۸ ـ امام بقاعی،
۹ ـ امام سخاوی
۱۰ ـ امام سیوطی. وغيرهم، من الشارحين والمصنفين(۱)
اتنی صراحتوں کے باوجود بھی امام ترمذی کی طرف اس کی عدم حجیت وعدم ثبوت منسوب کرنا انتہائی تعجب ناک بات ہے(!!!)
شیخ زبیر رحمہ اللہ اگر امام ترمذی کو اس اصطلاح کا قائل نہیں سمجھتے تھے، تو انہیں مذکورہ بالا ائمہ کی صراحتوں کا بالتفصیل جواب دے کر اشکالات کا لازما ازالہ کرنا چاہیےتھا۔
شیخ رحمہ اللہ نے اپنے اعتبار سے اگرچہ امام ترمذی رحمہ اللہ سے ایک، دو روایات بیان کر کے ان سے حسن لغیرہ کی عدم حجیت کو ثابت کرنے کی ضرور کوشش کی ہے،، لیکن محض کسی سے شے کا اثبات کسی ایک بات سے کافی نہیں ہوتا،، بلکہ اس پر وارد اشکالات بھی دور کرنا ضروری ہوتے ہیں، خصوصا جب ایسی حالت ہو کہ کوئی شخص دو متضاد باتیں کہہ رہا ہو۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک طرف شیخ زبیر رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث ہیں، جنکی امام ترمذی سے انھوں نے تضعیف نقل کی ہے ( جنہیں حسن لغیرہ بننا چاہیے تھا) اور دوسری طرف امام ترمذی کااپنا تعامل اور مذکورہ بالا اہل علم کی تصریحات ہیں جن میں امام صاحب سے حسن لغیرہ کی حجیت کا اثبات متعین ہو رہا ہے، ان دونوں باتوں میں شدید تضاد ہے۔
عام طور پر شیخ زبیر رحمہ اللہ کا تعامل ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ ٹکراؤ کی صورت میں دونوں کو رد کردیتے ہیں، تو گویا اس اعتبار سے انہیں تو دونوں باتوں کو سرے سے ہی رد کر دینا چاہیے تھا، نہ ان سے اثبات کرتے اور نہ ہی ان سے نفی کرتے، بلکہ اس کے معاملے میں ٹکراؤ کی وجہ سے خاموش رہتے، لیکن یہاں انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ٹکراؤ کی صورت میں منہجِ محدثین یہ ہے کہ پہلے جمع وتطبیق کی کوشش کرتے ہیں، اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تو نسخ کے بعد پھر ترجیح کا آپشن استعمال کرتے ہیں، لہذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امام ترمذی کے بظاہر ٹکراؤ والے اسلوب کے مابین جمع وتطبیق دی جائے،( اور یہی بہتر صورت ہے، اور یہاں راجح بھی یہی ہے، جیسا کہ آگے اسکو جمع وتطبیق دے کر واضح کیاجائیگا ــ ) اگر یہ بھی قبول نہیں تو پھر ترجیح بھی امام ترمذی سے حسن لغیرہ کی حجیت کے اثبات کو ہی ہوگی،، کیونکہ ان سے اثبات کے کئی دلائل اور قرائن موجود ہیں، لہذا اثبات میں تصریحات، تعامل اور حقائق میں واضح قوت موجود ہے، اس لیے ان سے حسن لغیرہ کی حجیت کا اثبات ہی راجح قرار پاتا ہے،، یہ بھی علی سبیل التنزل ہے ،ورنہ انکے اس تعامل پر جمع وتطبیق ممکن ہے، اور یہی اصوب الاقوال ہے.بہر کیف یہ ساری صورت حال ہم قارئین پر پیش کرتے ہیں، فیصلہ خود فرمائیں!
محترم قارئین! مذکورہ بالا تفصیل سے ہمارے موصوف( صاحب اصول ....) کے اس دعوی کی تردید بھی ہو جاتی ہے کہ "امام ترمذی سے حسن لغیرہ کی حجیت ثابت نہیں ".مزید برآں انہوں نے اس پر اپنے تئیں جو دلیل دینے کی کوشش کی ہے تو ہم انکی اس نئی توجیہ کو پڑھنے کے بعد اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ ایسا راز آج تک تمام ائمہ حدیث سے مخفی رہا کہ بلا تدبر موصوف یہ کہہ بیٹھے کہ " امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث"مختلف اسناد سے مروی ہو " سے مراد ایسی حدیث ہے جس کے مرکزی راوی سے بیان کرنے والے متعدد ہوں تو اس حدیث کی امام ترمذی کے نزدیک ایک سے زائد سندیں شمار ہونگی"
ایک طرف ائمہ حدیث کی پوری ایک جماعت امام ترمذی کے قول و تعامل سے کیا سمجھ رہی ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے “محقق صاحب” کیا نتیجہ نکال رہے ہیں؟!
"یروی من غیر وجہ " کا کس محدث نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے مراد مرکزی راوی ہے؟!
محض خیال آرائی سے اصول وقواعد نہیں بنائے جاتے!
مزید موصوف نے خود مذکورہ بالا الفاظ کا ترجمہ " امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث"مختلف اسناد سے مروی ہو " یہ کیا ہے کہ اس حدیث کی سندیں مختلف ہوں۔
"سند " کا معنی کرکے بھی اپنی بات سے پھرگئے ہیں.نیز اس طرح انکے اخذ کردہ مطلب سے یہ نتیجہ نکلا کہ امام ترمذی محض ایک ہی طریق سے مروی ضعیف حدیث کی حجیت کا موقف بتا رہے ہیں۔
بہر کیف انکا یہ مطلب بداہتا غلط اور ناقابل قبول ہے، نہ اس پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کسی محدث سے یہ ثابت کرسکتے ہیں، یا یوں سمجھ لیں کہ انکے اس مطلب کو بیان کر دینا ہی اسکے رد کے لیے کافی ہے، لیکن پھر بھی ہم نے بفضلہ تعالی اسکا غلط ہونا واضح کردیا ہے۔
البتہ اتنا ضرور ہے کہ بعض احادیث ایسی ہیں جن پر امام ترمذی نے "حسن " کا حکم لگایا ہے، لیکن وہ صرف ایک ہی سند سے مروی ہیں، تو اس صورت میں امام ترمذی کے "حسن " والے حکم کا کیا جائیگا، ۰۰؟؟
محدثین کرام نےاس کے مختلف جوابات دیے ہیں، وہ جوابات "الحدیث الحسن” نامی کتاب میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، یہاں صرف ایک جواب کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
امام ابن تیمیہ اسکا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«من الناس من يقول: قد سمی حسنا ما ليس كذلك، مثل حديث، يقول فيه: حسن، فانه لم يرو الا من وجه واحد وقد سماه حسنا، وقد اجيب عنه: بانه قد يكون غريبا لم يرو الا عن تابعي واحد لكن روي عنه من وجهين، فصار حسنا لتعدد طرقه عن ذلك الشخص وهو في اصله غريب ۰۰۰ وقد يكون غريب الاسناد فلا يعرف بذلك الاسناد الا من ذالك الوجه حسن المتن، لان المتن روي من وجهين، ولهذا يقول: وفي الباب عن فلان، فيكون لمعناه شواهد تبين ان متنه حسن، وان كان اسناده غريبا»
(مجموع الفتاوی: ۱۸/ ۳۹ ـ۴۰)
اولا: یہ ایک خاص پس منظر کے حوالے سے ہے، اسے عام سمجھ کر امام ترمذی کی بیان کردہ تعریف پر فٹ نہیں کیاجاسکتا.
ثانیا: اس میں یہ بھی ہے کہ یہ روایت سندا اگرچہ غریب ہے، لیکن چونکہ اسکے متن کے شواہد موجود ہیں، اس لیے متن کے اعتبار سے اسے "حسن " کا حکم لگایا،
بہر کیف، یہ جواب درست ہے یا غلط، اس سے ہماری کوئی غرض نہیں، کہنے کا مقصد یہ ہےکہ جو کچھ یہ موصوف اخذ کرنا چاہتے ہیں، بہرنوع وہ اس سے ثابت نہیں ہوتا. وھذا ھوالمطلوب.
محترم قارئین: اب جب امام ترمذی سے حسن لغیرہ کی حجیت واضح ہوگئی ہے اور ان سے اسکا اثبات ہوگیا ہے تو اب موصوف کو "ائمہ متقدمین ہی حجت ہیں " کے مطابق حسن لغیرہ کی حجیت کا اقرار کر لینا چاہیے، کیونکہ امام ترمذی انکے نزدیک ائمہ متقدمین میں ہی شمار ہوتے ہیں، لہذا ہم موصوف سے اپنے دعوے کی پاسداری کرنے کے متمنی ہیں.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ائمہ کرام کی اتنی بڑی جماعت "حسن لغیرہ " کو سب سے پہلے معروف وعام کرنے والا امام ترمذی کو قراردیتے ہیں، مگر موصوف انہیں "بعض لوگ "باور کرارہے ہیں، انکے الفاظ ہیں: "بعض لوگ کہتے ہیں کہ "حسن لغیرہ " کو سب سے پہلے امام ترمذی رحمہ اللہ نے معروف کیاتھا، انکی یہ بات سراسر غلط ہے، ...توبتایا جائے کہ ائمہ کرام کی مذکورہ پوری جماعت محض "بعض لوگ " ہیں، جس طرح موصوف انہیں باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں..(!!!)
نیز لکھتے ہیں :
امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث"مختلف اسناد سے مروی ہو " سے مراد ایسی حدیث، جس کے مرکزی راوی سے بیان کرنے والے متعدد ہوں تو اس حدیث کی امام ترمذی کے نزدیک ایک سے زائد سندیں شمار ہونگی۔(ص: ۱۱۱)
عرض ہے :
اولا: چونکہ موصوف کا منہج یہ ہے کہ ہر اصطلاح وقاعدہ کا ثبوت "متقدمین ائمہ " سے بالصراحت ہونا ضروری ہے۔اب چونکہ "امام ترمذی "سے حسن لغیرہ " ثابت ہے، لہذا اگر امام ترمذی سے وہ "حسن لغیرہ " کے ثبوت کو تسلیم کرلیتے ہیں، تو انکا موقف بالکل کمزور پڑجاتا ہے، اس لیے انہوں نے اس دیوار کو ہی گرانے کی کوشش کی اور لکھ مارا کہ "امام ترمذی سے "حسن لغیرہ " ثابت ہی نہیں!
مجھے اس وقت بے حد تعجب ہوا جب یہی بات مجھے شیخ زبیر علیزئی رحمہ اللہ کے کلام میں نظر آئی۔ آپ لکھتے ہیں: ثابت ہوا کہ امام بخاری اور امام ترمذی دونوں کے نزدیک ضعیف + ضعیف، والی مروجہ حسن لغیرہ روایت حجت نہیں، بلکہ ضعیف ہوتی ہے۔
( مقالات: ۵/۱۸۰)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ امام ترمذی بھی حسن لغیرہ ( مروجہ) کوحجت نہیں سمجھتے تھے۔ ( مقالات: ۵/۱۹۱)
۱ ـ میں حیران ہوں کہ "حسن لغیرہ " کے حوالے سے امام ترمذی اس قدر معروف ہیں کہ بعض ائمہ نے انہیں ہی اس اصطلاح کا مُشتَھِر قرار دیا ہے،نیز خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے "العلل الصغیر " کے اندر اس کی واضح تصریح کردی ہے،اور "جامع ترمذی کے اندر انکا تعامل بھی یہی بتلارہا ہے، اسی طرح ائمہ کرام کی ایک کثیر جماعت نے بھی اسے امام ترمذی کی طرف منسوب کیا ہے،
مثلا:
۱ ـ امام ابن الصلاح ( مقدمہ ابن الصلاح)
۲ ـ امام عراقی، ( التقیید والایضاح)
۳ ـ امام ابن سید الناس
( النفح الشذی: ۱/۲۰۵)
۴ ـ امام ابن تیمیہ
۵ ـ علامہ مغلطائی الحنفی،
۶ ـ امام نووی
۷ ـ امام ابن حجر
۸ ـ امام بقاعی،
۹ ـ امام سخاوی
۱۰ ـ امام سیوطی. وغيرهم، من الشارحين والمصنفين(۱)
اتنی صراحتوں کے باوجود بھی امام ترمذی کی طرف اس کی عدم حجیت وعدم ثبوت منسوب کرنا انتہائی تعجب ناک بات ہے(!!!)
شیخ زبیر رحمہ اللہ اگر امام ترمذی کو اس اصطلاح کا قائل نہیں سمجھتے تھے، تو انہیں مذکورہ بالا ائمہ کی صراحتوں کا بالتفصیل جواب دے کر اشکالات کا لازما ازالہ کرنا چاہیےتھا۔
شیخ رحمہ اللہ نے اپنے اعتبار سے اگرچہ امام ترمذی رحمہ اللہ سے ایک، دو روایات بیان کر کے ان سے حسن لغیرہ کی عدم حجیت کو ثابت کرنے کی ضرور کوشش کی ہے،، لیکن محض کسی سے شے کا اثبات کسی ایک بات سے کافی نہیں ہوتا،، بلکہ اس پر وارد اشکالات بھی دور کرنا ضروری ہوتے ہیں، خصوصا جب ایسی حالت ہو کہ کوئی شخص دو متضاد باتیں کہہ رہا ہو۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایک طرف شیخ زبیر رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث ہیں، جنکی امام ترمذی سے انھوں نے تضعیف نقل کی ہے ( جنہیں حسن لغیرہ بننا چاہیے تھا) اور دوسری طرف امام ترمذی کااپنا تعامل اور مذکورہ بالا اہل علم کی تصریحات ہیں جن میں امام صاحب سے حسن لغیرہ کی حجیت کا اثبات متعین ہو رہا ہے، ان دونوں باتوں میں شدید تضاد ہے۔
عام طور پر شیخ زبیر رحمہ اللہ کا تعامل ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ وہ ٹکراؤ کی صورت میں دونوں کو رد کردیتے ہیں، تو گویا اس اعتبار سے انہیں تو دونوں باتوں کو سرے سے ہی رد کر دینا چاہیے تھا، نہ ان سے اثبات کرتے اور نہ ہی ان سے نفی کرتے، بلکہ اس کے معاملے میں ٹکراؤ کی وجہ سے خاموش رہتے، لیکن یہاں انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ٹکراؤ کی صورت میں منہجِ محدثین یہ ہے کہ پہلے جمع وتطبیق کی کوشش کرتے ہیں، اگر یہ ممکن نہ ہو سکے تو نسخ کے بعد پھر ترجیح کا آپشن استعمال کرتے ہیں، لہذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امام ترمذی کے بظاہر ٹکراؤ والے اسلوب کے مابین جمع وتطبیق دی جائے،( اور یہی بہتر صورت ہے، اور یہاں راجح بھی یہی ہے، جیسا کہ آگے اسکو جمع وتطبیق دے کر واضح کیاجائیگا ــ ) اگر یہ بھی قبول نہیں تو پھر ترجیح بھی امام ترمذی سے حسن لغیرہ کی حجیت کے اثبات کو ہی ہوگی،، کیونکہ ان سے اثبات کے کئی دلائل اور قرائن موجود ہیں، لہذا اثبات میں تصریحات، تعامل اور حقائق میں واضح قوت موجود ہے، اس لیے ان سے حسن لغیرہ کی حجیت کا اثبات ہی راجح قرار پاتا ہے،، یہ بھی علی سبیل التنزل ہے ،ورنہ انکے اس تعامل پر جمع وتطبیق ممکن ہے، اور یہی اصوب الاقوال ہے.بہر کیف یہ ساری صورت حال ہم قارئین پر پیش کرتے ہیں، فیصلہ خود فرمائیں!
محترم قارئین! مذکورہ بالا تفصیل سے ہمارے موصوف( صاحب اصول ....) کے اس دعوی کی تردید بھی ہو جاتی ہے کہ "امام ترمذی سے حسن لغیرہ کی حجیت ثابت نہیں ".مزید برآں انہوں نے اس پر اپنے تئیں جو دلیل دینے کی کوشش کی ہے تو ہم انکی اس نئی توجیہ کو پڑھنے کے بعد اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ ایسا راز آج تک تمام ائمہ حدیث سے مخفی رہا کہ بلا تدبر موصوف یہ کہہ بیٹھے کہ " امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث"مختلف اسناد سے مروی ہو " سے مراد ایسی حدیث ہے جس کے مرکزی راوی سے بیان کرنے والے متعدد ہوں تو اس حدیث کی امام ترمذی کے نزدیک ایک سے زائد سندیں شمار ہونگی"
ایک طرف ائمہ حدیث کی پوری ایک جماعت امام ترمذی کے قول و تعامل سے کیا سمجھ رہی ہے جبکہ دوسری طرف ہمارے “محقق صاحب” کیا نتیجہ نکال رہے ہیں؟!
"یروی من غیر وجہ " کا کس محدث نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے مراد مرکزی راوی ہے؟!
محض خیال آرائی سے اصول وقواعد نہیں بنائے جاتے!
مزید موصوف نے خود مذکورہ بالا الفاظ کا ترجمہ " امام ترمذی کے اسلوب سے پتا چلتا ہے کہ وہ حدیث"مختلف اسناد سے مروی ہو " یہ کیا ہے کہ اس حدیث کی سندیں مختلف ہوں۔
"سند " کا معنی کرکے بھی اپنی بات سے پھرگئے ہیں.نیز اس طرح انکے اخذ کردہ مطلب سے یہ نتیجہ نکلا کہ امام ترمذی محض ایک ہی طریق سے مروی ضعیف حدیث کی حجیت کا موقف بتا رہے ہیں۔
بہر کیف انکا یہ مطلب بداہتا غلط اور ناقابل قبول ہے، نہ اس پر کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کسی محدث سے یہ ثابت کرسکتے ہیں، یا یوں سمجھ لیں کہ انکے اس مطلب کو بیان کر دینا ہی اسکے رد کے لیے کافی ہے، لیکن پھر بھی ہم نے بفضلہ تعالی اسکا غلط ہونا واضح کردیا ہے۔
البتہ اتنا ضرور ہے کہ بعض احادیث ایسی ہیں جن پر امام ترمذی نے "حسن " کا حکم لگایا ہے، لیکن وہ صرف ایک ہی سند سے مروی ہیں، تو اس صورت میں امام ترمذی کے "حسن " والے حکم کا کیا جائیگا، ۰۰؟؟
محدثین کرام نےاس کے مختلف جوابات دیے ہیں، وہ جوابات "الحدیث الحسن” نامی کتاب میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، یہاں صرف ایک جواب کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
امام ابن تیمیہ اسکا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«من الناس من يقول: قد سمی حسنا ما ليس كذلك، مثل حديث، يقول فيه: حسن، فانه لم يرو الا من وجه واحد وقد سماه حسنا، وقد اجيب عنه: بانه قد يكون غريبا لم يرو الا عن تابعي واحد لكن روي عنه من وجهين، فصار حسنا لتعدد طرقه عن ذلك الشخص وهو في اصله غريب ۰۰۰ وقد يكون غريب الاسناد فلا يعرف بذلك الاسناد الا من ذالك الوجه حسن المتن، لان المتن روي من وجهين، ولهذا يقول: وفي الباب عن فلان، فيكون لمعناه شواهد تبين ان متنه حسن، وان كان اسناده غريبا»
(مجموع الفتاوی: ۱۸/ ۳۹ ـ۴۰)
اولا: یہ ایک خاص پس منظر کے حوالے سے ہے، اسے عام سمجھ کر امام ترمذی کی بیان کردہ تعریف پر فٹ نہیں کیاجاسکتا.
ثانیا: اس میں یہ بھی ہے کہ یہ روایت سندا اگرچہ غریب ہے، لیکن چونکہ اسکے متن کے شواہد موجود ہیں، اس لیے متن کے اعتبار سے اسے "حسن " کا حکم لگایا،
بہر کیف، یہ جواب درست ہے یا غلط، اس سے ہماری کوئی غرض نہیں، کہنے کا مقصد یہ ہےکہ جو کچھ یہ موصوف اخذ کرنا چاہتے ہیں، بہرنوع وہ اس سے ثابت نہیں ہوتا. وھذا ھوالمطلوب.
محترم قارئین: اب جب امام ترمذی سے حسن لغیرہ کی حجیت واضح ہوگئی ہے اور ان سے اسکا اثبات ہوگیا ہے تو اب موصوف کو "ائمہ متقدمین ہی حجت ہیں " کے مطابق حسن لغیرہ کی حجیت کا اقرار کر لینا چاہیے، کیونکہ امام ترمذی انکے نزدیک ائمہ متقدمین میں ہی شمار ہوتے ہیں، لہذا ہم موصوف سے اپنے دعوے کی پاسداری کرنے کے متمنی ہیں.
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ائمہ کرام کی اتنی بڑی جماعت "حسن لغیرہ " کو سب سے پہلے معروف وعام کرنے والا امام ترمذی کو قراردیتے ہیں، مگر موصوف انہیں "بعض لوگ "باور کرارہے ہیں، انکے الفاظ ہیں: "بعض لوگ کہتے ہیں کہ "حسن لغیرہ " کو سب سے پہلے امام ترمذی رحمہ اللہ نے معروف کیاتھا، انکی یہ بات سراسر غلط ہے، ...توبتایا جائے کہ ائمہ کرام کی مذکورہ پوری جماعت محض "بعض لوگ " ہیں، جس طرح موصوف انہیں باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں..(!!!)