محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ۱۰۷اَمْ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَسْـــَٔـلُوْا رَسُوْلَكُمْ كَـمَا سُىِٕلَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ۰ۭ وَمَنْ يَّتَـبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ۱۰۸
{مُلْـکٌ}بادشاہت۔ سلطنت۔ {وَلِیٌّ}دوست{نَصِیْرٌ}مددگار۔ {سَوَآءالسَّبِیْلِ} راہ راست
۱؎ ابومسلم کا خیال ہے کہ اس آیت کے مخاطب نئے نئے مسلمان ہیں۔ وہ کہتے تھے۔ ہمیں بھی عجم کی طرح بت پرستی کی اجازت دی جائے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ ان میں کا ایک معزز عبداللہ بن امیہ مخرومی ایک جماعت کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس وقت تک ہم ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چشمے نہ بہادیں، یا آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باغات کی سرسبزی وشادابی ہو، یا آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قصر ومحل سونے کا ہو اور یا پھر آپ آسمان پرچڑھ کر قرآن حکیم نہ اتار لائیں۔ سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہودی ہیں اس لیے کہ اس کے آگے پیچھے ان ہی کا ذکر ہے اور اس لیے بھی کہ یہ سورہ مدنی ہے ۔ یوں جواب میںعموم ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے از خود بلاضرورت کچھ نہ پوچھو۔ وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ۔ بجز اس کی اجازت کے اسے بولنے کی اجازت نہیں۔یہودیوں میں یہ بری عادت تھی کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو عموماً سوالات کا تختۂ مشق بنائے رکھتے اور عمل کم کرتے تھے۔ موشگافیاں اور تفاصیل طلبی کا شوق حد سے زیادہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ رشد وہدایت کے آجانے کے بعد یہ کج بحثیاں کیوں اختیار کرتے ہو؟ یادرکھو کہ جس قوم میں یہ ذہنیت پیدا ہوجائے اس سے عملی قوت چھین لی جاتی ہے اور وہ راہِ راست سے بھٹک جاتی ہے۔کیا تجھے معلوم نہیں کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے اور اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں ہے۔(۱۰۷) کیا تم بھی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سوال کیا چاہتے ہو۔ جیسے پہلے (زمانہ میں ) موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال ہوچکے ہیں اور جو کوئی ایمان کے بدلے کفر لے، وہ سیدھی راہ سے گمراہ ہوا۔۱؎(۱۰۸)
حل لغات