• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم غیب مصطفی ﷺ

شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
علمائے اہلسنت اور عقیدہ علم غیب :
(اہل سنت کے لئے)

عنوان سے ظاہر ہے قرآن و حدیث سے دلائل پیش کرنے کو مرکز نہیں بنایا گیا جسے اس پر قرآن و حدیث سے دلائل چاہیے وہ کتب السنت کا مطالعہ کریں، الدولة المکیہ، انباء المصطفی، خالص الاعتقاد، ازخة العیب و دیگر کتب،

اجمالی عقیدہ اہل سنت:
1) حضور صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کا علم غیب عطائی ہے.
2) الله عزوجل اور رسول الله کے علم میں کوئی برابری نہیں، سارے جہان کا علم الله کے علم کے آگے ایک قطرہ برابر بھی نہیں
3) نزول قرآن مکمل ہونے کے بعد سے نبی کو ما کان و ما یکون (جو ہوچکا اور جو ہونے والا ہے) کا علم قرآن و وحی کے ذریعے سکھایا کیا، بلکہ وہ تمام غیبی علوم جو قرآن مجید میں پوشیدہ ہیں اور جو دیگر ذریعہ وحی حاصل ہوا.
4) نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کو عالم الغیب کہنا منع ہے عالم غیب کہنے میں کوئی حرج نہیں. لیکن ذاتی عالم الغیب کہنے والا شخص کافر ہے.

امام جلال الدین سیوطی :
وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما
اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے. (سورۃ النساء، 113)
اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں فرماتے ہیں،
من الحکام والغیب، یعنی احکام اور غیب

ابن حجر قسطلانی رحمة الله عليه :

قد اشتھر وانتشر امرہ صلی الله تعالی علیه وسلم بین اصحابه بالاطلاع علی الغیوب
بے شک صحابہ کرام میں مشہور و معروف تھا کہ نبی ﷺ کو غیبوں کا علم ہے۔
( المواہب اللدنیة ،المقصد الثامن، الفصل الثالث، ۳ /۵۵۴)

النبوأۃ ماخوذۃ من النباء وھو الخبر ای ان ﷲ تعالٰی اطلعه علٰی غیبه

حضور کو نبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ﷲ تعالٰی نے حضور کو اپنے غیب کا علم دیا۔
( المواہب اللدنیہ ،المقصد الثانی، ۲ /۴۵ و ۴۶)

قاضی عیاض رحمة الله علیه

( ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعه صلی الله تعالی علیہ وسلم علی الغیب ( المعلومة علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا او التردد فیہا لا حدٍ من العقلاء ( لکثرۃ رواتھا واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذا لا ینافی الاٰیات الدالة علی انه لایعلم الغیب الا ﷲ وقوله ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمه من غیر واسطة وامّا اطلاعه صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم علیہ با علام ﷲ تعالٰی له فامر متحقق بقوله تعالٰی فلا یظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول._

رسول الله صلی الله تعالی عليه وسلم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت خیر جمع کرلیتا ، اس لیے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر خدا کے بتائے ہو اور ﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے، کہ ﷲ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسول کے۔
(نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض، ومن ذٰلک ما اطلع علیه من الغیوب ۳ /۱۵۰)

امام زرقانی رحمة الله علیه :

اصحابه صلی الله عليه وسلم جازمون ليش علی الغیب

صحابہ کرام یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ رسول ﷲ صلی الله تعالی عليه وسلم کو غیب کا علم ہے۔
(شرح الزرقانی، علی المواہب الدنیة، الفصل الثالث، ۷ /۲۰۰)

امام ابن حجر مکی رحمة الله تعالى علیه :

انه تعالی اختص به لکن من حیث الاحاطة فلا ینافی ذلک اطلاع الله تعالی لبعض خواصه علی کثیر من المغیبات حتی من الخمس التی قال صلی الله تعالى علیه وسلم فیھن خمس لا یعلمھن الا الله
غیب ﷲ کے لیے خاص ہے مگر بمعنی احاطہ تو اس کے منافی نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے اپنے بعض خاصوں کو بہت سے غیبوں کا علم دیا یہاں تک کہ ان پانچ میں سے جن کو نبی صلی الله تعالی علیه وسلم نے فرمایا کہ ان کو ﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔
(افضل القراء القراء ام القرٰی، تحت شعرلک ذات العلوم ۴۴ ۔ ۱۴۳)

ابوعبدالله شیرازی رحمة الله علیه :

مولٰنا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ شریف میں کتاب عقائد تالیف حضرت شیخ ابوعبدﷲ شیرازی سے نقل فرماتے ہیں :

نعتقدان العبدینقل فی الاحوال حتی یصیر الی نعت الروحانية فیعلم الغیب
ہمارا عقیدہ ہے کہ بندہ ترقیِ مقامات پا کر صفتِ روحانی تک پہنچتا ہے اس وقت اسے علمِ غیب حاصل ہوتا ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان الفصل الاول، تحت حدیث ۲، ۱ /۱۲۸)

ملا علی قاری رحمة الله علیه :

تجلی کل شیئ وعرفت
ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی
(جامع سنن الترمذی، حدیث ۳۲۴۶)
علمه صلی الله تعالی علیه وسلم حاو لفنون العلم (الٰی ان قال) ومنہا علمه بالامور الغیبیة
رسول الله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کا علم اقسام علم کو حاوی ہے غیبوں کا علم بھی علمِ حضور کی شاخوں سے ایک شاخ ہے۔ (الزبدۃ العمدۃ ص ۵۷)

علامہ شامی رحمة الله تعالى علیه :

الخواص یجوزان ان یعلموا الغیب فی قضیة اوقضایا کما وقع لکثیر منھم و اشتھر
جائز ہے کہ اولیاء کو کسی واقعے یا وقائع میں علم غیب ملے جیسا کہ ان میں بہت کے لیے واقع ہو کر مشتہر ہوا۔
(الاعلام بقواطع الاسلام، ص۳۵۹)

امام ابن جریر طبری رحمة الله تعالى علیه :

قال انّک لن تستطیع معی صبرا، وکان رجلا یعلم علم الغیب قد علم ذٰلک
حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے موسٰی علیہ السلام سے کہا : آپ میرے ساتھ نہ ٹھہر سکیں گے۔ خضر علمِ غیب جانتے تھے انہیں علم غیب دیا گیا تھا۔
(جامع البیان، تحت آیة ۱۸/ ۶۷، ۱۵ /۳۲۳)

امام بوصیری رحمة الله تعالى علیه :

فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
یارسول ﷲ ! دنیا و آخرت دونوں حضور کی بخشش سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کا علم، حضور کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے۔(مجموع المتون متن قصیدۃ البردۃ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر ص ۱۰)

امام نیسابوری رحمة الله تعالى علیه :
ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون
یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے، ورنہ حضور تو خود فرماتے ہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے.
(غرائب القرآن، تحت آلایة ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)

تفسیر انموذج جلیل میں ہے :
معناہ لایعلم الغیب بلادلیل الا ﷲ اوبلا تعلیم الا ﷲ اوجمیع الغیب الاﷲ
آیت کے یہ معنی ہیں کہ غیب کو بلادلیل و بلا تعلیم جاننا یا جمیع غیب کو محیط ہونا یہ اﷲ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے۔

تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان میں ہے :
لم ینف الاالدرایۃ من قبل نفسہ وما نفی الدرایۃ من جھۃ الوحی
رسول ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی ذات سے جاننے کی نفی فرمائی ہے خدا کے بتائے سے جاننے کی نفی نہیں فرمائی۔ (غرائب القرآن (تفسیر النیساپوری) تحت آیۃ ۴۶ /۹ ، ۸ /۲۶ )

تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے :
وعندہ مفاتیح الغیب وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لایعلمھا کما ھی ابتداءً الاّ ھو
یہ جو آیت میں فرمایا کہ غیب کی کنجیاں ﷲ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداء ً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی۔ (عنایۃ القاضی علٰی تفسیر البیضاوی ،تحت آیتہ ۶ /۵۸، ۴ /۷۳)

تفسیر علامہ نیشاپوری میں ہے
( قل لا اقول لکم ) لم یقل لیس عندی خزائن ﷲ لیعلم ان خزائن ﷲ وھی العلم بحقائق الاشیاء وما ھیاتھا عندہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باستجابۃ دعاء ہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی قولہ ارنا الا شیاء کما ھی ولکنہ یکلم الناس علٰی قدر عقولھم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون
یعنی ارشاد ہوا کہ اے نبی ! فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے خزانے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس ہیں مگر حضور لوگوں سے انکی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں، اور وہ خزانے کیا ہیں، تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم حضور نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے قبول فرمائی پھر فرمایا : میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے، ورنہ حضور تو خود فرماتےہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے
(غرائب القرآن تحت آلایۃ ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)

ذکرناہ فی الاٰیۃ صرح بہ النووی رحمۃ ﷲ تعالٰی فی فتاواہ فقال معناھا لایعلم ذٰلک استقلا لاً وعلم احاطۃ بکل المعلومات الاّ ﷲ تعالی
یعنی ہم نے جو آیاتِ کی تفسیر کی امام نووی رحمۃ ﷲ تعالٰی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح کی، فرماتے ہیں آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ غیب کا ایسا علم صرف خدا کو ہے جو بذاتِ خود ہو اور جمیع معلومات کو محیط ہو۔ ( فتاوٰی حدیثیہ ابن حجر مکی ،مطلب فی حکم مااذا.. الخ، ص ۲۲۸)

تفسیر کبیر میں ہے :
قولہ ولا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات
یعنی آیت میں جو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ کو ارشاد ہوا تم فرمادو میں غیب نہیں جانتا، اس کے یہ معنی ہیں کہ میرا علم جمیع معلومات الہٰیہ کو حاوی نہیں۔ (مفاتح الغیب)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں حدیث کے نیچے فرماتے ہیں :
پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں

چنانچہ میں (حضور ﷺ) نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی
(اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ ۱ /۳۳۳)

ابن حجر قسطلانی فرماتے ہیں،
ولا شک ان ﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین
اور کچھ شک نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القاء کیا
(المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ وسلم من الغیب ۳ /۵۶۰)
 
شمولیت
فروری 23، 2017
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
46
!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ​
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم مسلمان جو اسلام کے داعی ہیں خود قرآن مجید میں خیانت کے مرتکب ہیں۔ یہی نہیں علماء اپنے مسلک کے دفاع کے لیے قرآن مجید کے تراجم میں تبدیلی سے بھی بعض نہیں آتے۔ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا اور قرآن مجید پر عمل پیرا رکھ۔ آمین۔

سب سے پہلے یہ بات یاد رکھئے گا کہ قرآن مجید میں کوئی اختلاف نہیں ہے یہ احبار و رعبان ہیں جو قرآن مجید کی آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔​
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْـرِ اللّـٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْـرًا (82)
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، اور اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے
ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔ (النساء 82)
دیکھئے قرآن مجید نے واضع انداز میں فرمایا ہے کہ قرآن میں کوئی اختلاف نہیں۔
اب آتے ہیں اپنے موضوع کی جانب​
علم غیب سے متعلق قرآنی آیات – علماء کی قرآن میں خیانت
قرآن کریم کے کسی مسئلہ سے متعلق بعض آیات کو لینا اور بعض کو ہاتھ ہی نہ لگانا وہ بددیانتی ہے جو تو ریت کے ساتھ یہودی علماء اور انجیل کے ساتھ عیسائی پادری کرتے رہے۔ جسے قرآن کریم میں تحریف اور کتاب اﷲ کا انکار قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے کچھ علماء نے بھی وہی وطیرہ اپنایا ہوا ہے۔ اپنے مطلب کی بات لینا اور جو اپنے خلاف ہو اسے چھوڑ دینا۔ اس جرم کی سزا قرآن میں یہ بتائی گئی ہے۔ کہ ’’دنیا میں ذلت اور آخرت میں سخت تر عذاب ‘‘ (البقرہ، 2 : 85) ایسے علماء کو عبرت پکڑنی چاہیے کہیں یہی انجام ان کا بھی نہ ہو۔ قرآن میں یہ سب کچھ بیان کرنے کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ ہم ایسی حرکت نہ کریں ورنہ انجام ان سے مختلف نہ ہو گا۔
قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام فرشتوں کے بارے میں مختلف آیات آئی ہیں جن میں بتایا گیا کہ اللہ کے علاوہ غیب کوئی نہیں جانتا جن میں سے چند آیات پیش خدمت ہیں۔
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّـٰهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ (65)
کہہ دے اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا، اور انہیں اس کی بھی خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کے فرمائیے
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِىْ خَزَآئِنُ اللّـٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّـىْ مَلَكٌ ۖ اِنْ اَتَّبِــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَىَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْـرُ ۚ اَفَلَا تَتَفَكَّـرُوْنَ (50)
کہہ دو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے، کہہ دو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں، کیا تم غور نہیں کرتے۔
اسی طرح فرشتے بھی غیب نہیں جانتے جیسا کہ قرآن نے آدم علیہ السلام کو کچھ نام سکھائے تو جب فرشتوں سے انکے بارے میں پوچھا تو :
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْـمَآءَ كُلَّهَا ثُـمَّ عَرَضَهُـمْ عَلَى الْمَلَآئِكَـةِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِىْ بِاَسْـمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُـمْ صَادِقِيْنَ (31)
اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر ان سب چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔
قَالُوْا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِـيْمُ الْحَكِـيْمُ (32)
انہوں نے کہا تو پاک ہے، ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایاہے، بے شک تو بڑے علم والا حکمت والا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ فرشتے بھی غیب نہیں جانتے اسی طرح بہت سی آیات ہیں جو اگر یہاں بیان کی جائیں تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا۔آج ہم ان آیات پر غور کرینگے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علم غیب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کس طرح قرآن کے معانی و مطالب تبدیل کیے جاتے ہیں۔
پیش ہیں وہ دو آیات جن سے غیب ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٓ ٖ اَحَدًا (26)
وہ غیب جاننے والا ہے اپنے غائب کی باتوں پر کسی کو واقف نہیں کرتا۔
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٝ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا (27)
مگر اپنے پسندیدہ رسول کو (بتاتا ہے) پھر اس کے آگے اور پیچھے محافظ مقرر کر دیتا ہے۔
(سورت الجن 26،27)
دوسری آیات

وَمَا هُوَ عَلَى الۡغَيۡبِ بِضَنِيۡنٍ‌ۚ‏ ﴿۲۴
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں ﴿۲۴﴾ سورت تکویر24
ان دونوں آیات کو قرآن مجید کے بیسیوں آیات سے ٹکرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔حالانکہ قرآن مجید میں کوئی اختلاف موجود نہیں یہ ہم پہلے پہلے دیکھ چکے ہیں۔
علماء کی خیانت
سب سے پہلے یہ بات یاد رکھیں کہ نبی ہوتا ہی وہی ہے جو غیب کی باتیں بتائے۔لیکن
غیب کی باتیں بتانا اور غیب جاننا دو الگ الگ چیزیں ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی غیب کی باتیں بتاتے تھے جیسا کہ
٭ قیامت کی نشانیاں
٭ دجال کا ظہور
٭جنت کا بیان
٭دوزخ کا بیان
٭عذاب قبر کا بیان
٭امام مہدی کا بیان
غرض بہت سی اخبار غیب یعنی غیب کی خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں
لیکن مولوی جو دھوکہ عوام الناس کو دیتے ہیں وہ بہت بھیانک ہے۔ ان اوپر بیان کی گئی چیزوں سے جو مطلب لینا چاہیے یعنی( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی باتیں بتاتے تھے) کی بجائے ان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے جو کہ قرآن کی کھلی نفی ہے۔

اب ہم اس پر دلائل عرض کرینگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کی خبریں کیسے بتاتے تھے۔
ذٰلِكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَيۡبِ نُوۡحِيۡهِ اِلَيۡكَ‌ؕ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ يُلۡقُوۡنَ اَقۡلاَمَهُمۡ اَيُّهُمۡ يَكۡفُلُ مَرۡيَمَ وَمَا كُنۡتَ لَدَيۡهِمۡ اِذۡ يَخۡتَصِمُوۡنَ‏﴿۴۴﴾
(اے محمدﷺ) یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور جب وہ لوگ اپنے قلم (بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ مریم کا
(متکفل کون بنے تو تم ان کے پاس نہیں تھے اور نہ اس وقت ہی ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے﴿

آل عمران 44
قرآن واضع کتاب ہے ،قرآن نور ہے قرآن ھدایت ہے یہ اللہ کا کلام ہے ہر ذہن کی سازش کو بے نقاب کر دیتا ہے۔
قرآن نے واضع طور پر فرما دیا کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جو اے نبی کریم ﷺ آپ کی طرف وحی کی جاتی ہیں۔ لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے تھے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غیب کی خبریں وحی کی جاتی تھیں۔جیسا کہ قرآن میں آیا ہے۔
وَالنَّجْـمِ اِذَا هَوٰى (1)
ستارے کی قسم ہے جب وہ ڈوبنے لگے۔
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى (2)
تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى (3)
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے۔
اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى (4)
یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے۔(سورت النجم)

اسی طرح سورت یوسف میں بھی آیا ہے
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَـآ اِلَيْكَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ ۖ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِـهٖ لَمِنَ الْغَافِلِيْنَ (3)
ہم تیرے پاس بہت اچھا قصہ بیان کرتے ہیں اس واسطے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن بھیجا ہے، اور تو اس سے پہلے البتہ بے خبروں میں سے تھا۔
یعنی غیب جاننے والا اکیلا اللہ ہے۔
اور وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے غیب پر مطلع کرتا ہے یعنی وحی کے ذریعے غیب کی خبریں بتاتا ہے۔
جیسا کے قرآن میں آیا ہے
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٓ ٖ اَحَدًا (26)
وہ غیب جاننے والا ہے اپنے غائب کی باتوں پر کسی کو واقف نہیں کرتا۔

اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٝ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا (27)

مگر اپنے پسندیدہ رسول کو (بتاتا ہے) پھر اس کے آگے اور پیچھے محافظ مقرر کر دیتا ہے۔

یہ آیات قرآن کی کسی دوسری آیت سے نہیں ٹکراتے بلکہ تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ پیغمبر چنتا ہے اپنے بندوں میں سے اور پھر انکی طرف غیب کی خبریں بھیجی جاتی ہیں اللہ کی طرف سے اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نبی غیب جانتا ہے بلکہ نبی کو غیب کی خبریں بذریعہ وحی بھیجی جاتی ہیں۔
اگر نبی غیب جانتے ہوتے تو وحی کی ضرورت نہ پڑتی۔
ایک بہت بڑا دھوکا
ایک بہت بڑا دھوکا عوام الناس کو اس آیات سے دیا جاتا ہے جس کی معنوی تحریف کی جاتی ہے
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ ﴿24
اور وہ غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں ہے۔ (24)
یہ آیت مبارکہ اپنی تفسیر خود ہے اگر اسے غور سے پڑھا جائے تو اس آیت سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت میں غیب جاننے کا کوئی لفظ موجود نہیں بلکہ یہ ہے کہ غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں۔
تو یہ ہم سب کا ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو بھی وحی کی جاتی آپ اسے اپنی امت تک پنہچا دیتے۔حتی کہ قرآن بھی اسکا شاھد ہے کہ اللہ تعالی نے دین مکمل کر دیا اور یہ تکمیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو غیب کی خبریں وحی کی جاتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو چھپاتے نہیں تھے بلکہ لوگوں کو بیان کر دیتے تھے۔ اس آیت مبارکہ کا یہی مطلب ہے جس میں تحریف کر کے اسکا غلط مطلب لیا جاتا ہے۔
اللہ ہم سب کو قرآن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@صلاح الدین سلفی بھائی!
آپ ''علماء'' کے ساتھ کوئی سابقہ لاحقہ لگا کر اس کے اطلاق کو خاص یا مقید کیجیئے!
اس طرح مطلقاً ''علماء'' کو مطعون کرنا قطعی درست نہیں!
آپ یہودی و نصرانی صفت علماء کہہ لیں! یا قبر پرست یا اکابر پرست علماء کہہ لیں!
مگر مطلقاً ''علماء'' کہہ کر انہیں قرآن میں خیانت کا طعنہ دینا بلکل درست نہیں!
میرا مؤقف یہ ہے کہ کلام کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے قلم کا استعمال کرنا چاہیئے!
اور اگر کسی کو قلم سے نکلے کلام کی نزاکت کو سنبھالنا نہ آتا ہو، تو اسے قلم استعمال نہیں کرنا چاہیئے!
ان اشاء اللہ آپ میری بات کو مثبت انداز میں لیں گے! یہ بات کسی فرد واحد کے لئے نہیں، بلکل ہر ایک کے لئے ہے، میرے لئے بھی!
 
Last edited:
Top