- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,752
- پوائنٹ
- 1,207
باب:10
لغت میں:
قراء ۃکی جمع قراء ات ہے۔اور یہ قَرَأَ یَقْرَأُ سے مصدر ہے۔مزید مصادر قرآن وقُرء بھی ہیں۔ قُرء ٌعربی میں جمع کرنا اور اکٹھا کرنے کے معنی میں ہے۔ جیسے: قَرَأتُ الْمَاءَ فِی الْحَوْضِ۔ میں نے حوض میں پانی جمع کرلیا۔ قِراء ۃ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ قارِئ ایک حرف کو حرف کے ساتھ جمع کرتا ہے جو کلمہ بن جاتاہے اور کلمہ کلمہ کو اکٹھا کرکے جملہ بنادیتا ہے اور جملہ جملے کے ساتھ وہ پڑھتا ہے۔ اس طرح وہ سب کو جمع کرلیتا ہے۔ قِراء ۃ کا مطلب : پڑھنے کی کیفیت ہے۔
قراء ۃ اور علم القراء ات میں فرق:
قراء ۃ: قراء سبعہ وعشرہ میں جو بھی قرآن کریم کے نطق کے طریقے اور مسلک کا قائل ہوتا ہے اور دوسرے اس کے ساتھ متفق نہیں ہوتے ۔بشرطیکہ اس کی طرف منسوب تمام روایات متفقہ ہوں۔اسے قراء ۃ کہتے ہیں۔یہ اختلاف نطق حروف یا نطق ہیئت میں ہوسکتا ہے۔
اس کے مزید یہ نام بھی ہیں: روایت، طریق اور وجہ۔
روایت:
امام سے لینے والے کی طرف منسوب یہ قراء ۃ ہوتی ہے خواہ وہ اسے کسی واسطہ سے حاصل کرے۔
طریق:
جو راوی سے لینے والے کی طرف منسوب ہو خواہ اس کی سند نازل ہی کیوں نہو۔
وجہ:
جوقاری کے انتخاب کی طرف منسوب وہ قراء ۃ ہو جس پر وہ خود قائم ہو اور اس سے وہ قراء ۃ لی جاتی ہو۔
اصطلاح میں:
وہ علم ہے جو قرآن کے الفاظ کو ادا کرنے کی کیفیت اور اس میں اتفاقی و اختلافی صورت کو بیان کرے اور اس کے راوی کی طرف اسے منسوب کیا جائے۔ القِرا ء َۃُ عِلْمٌ بِکَیْفِیَّۃِ أَدَائِ کَلِمَاتِ الْقُرْآنِ وَاخْتِلاَفِہَا مَعْزُوًّ ا لِنَاقِلِہِ۔ اس تعریف سے دو باتیں سامنے آئیں۔
۱۔ الفاظ قرآن کی کیفیت ادائیگی، خواہ اس کیفیت ادائیگی میں ناقل یعنی قراء حضرات کا اختلاف ہو یا اتفاق۔
۲۔ ائمہ قراء سے اس کی نقل وروایت صحیح ہو جو متصل صحیح سند کے ساتھ رسول اکرم ﷺ سے لی گئی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قراء ۃ میں یہ اہم شرط ہے کہ اسے کتا بوں کی بجا ئے براہ راست اہل علم سے لی جائے۔
علم قراء ا ت
لغت میں:
قراء ۃکی جمع قراء ات ہے۔اور یہ قَرَأَ یَقْرَأُ سے مصدر ہے۔مزید مصادر قرآن وقُرء بھی ہیں۔ قُرء ٌعربی میں جمع کرنا اور اکٹھا کرنے کے معنی میں ہے۔ جیسے: قَرَأتُ الْمَاءَ فِی الْحَوْضِ۔ میں نے حوض میں پانی جمع کرلیا۔ قِراء ۃ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ قارِئ ایک حرف کو حرف کے ساتھ جمع کرتا ہے جو کلمہ بن جاتاہے اور کلمہ کلمہ کو اکٹھا کرکے جملہ بنادیتا ہے اور جملہ جملے کے ساتھ وہ پڑھتا ہے۔ اس طرح وہ سب کو جمع کرلیتا ہے۔ قِراء ۃ کا مطلب : پڑھنے کی کیفیت ہے۔
قراء ۃ اور علم القراء ات میں فرق:
قراء ۃ: قراء سبعہ وعشرہ میں جو بھی قرآن کریم کے نطق کے طریقے اور مسلک کا قائل ہوتا ہے اور دوسرے اس کے ساتھ متفق نہیں ہوتے ۔بشرطیکہ اس کی طرف منسوب تمام روایات متفقہ ہوں۔اسے قراء ۃ کہتے ہیں۔یہ اختلاف نطق حروف یا نطق ہیئت میں ہوسکتا ہے۔
اس کے مزید یہ نام بھی ہیں: روایت، طریق اور وجہ۔
روایت:
امام سے لینے والے کی طرف منسوب یہ قراء ۃ ہوتی ہے خواہ وہ اسے کسی واسطہ سے حاصل کرے۔
طریق:
جو راوی سے لینے والے کی طرف منسوب ہو خواہ اس کی سند نازل ہی کیوں نہو۔
وجہ:
جوقاری کے انتخاب کی طرف منسوب وہ قراء ۃ ہو جس پر وہ خود قائم ہو اور اس سے وہ قراء ۃ لی جاتی ہو۔
اصطلاح میں:
وہ علم ہے جو قرآن کے الفاظ کو ادا کرنے کی کیفیت اور اس میں اتفاقی و اختلافی صورت کو بیان کرے اور اس کے راوی کی طرف اسے منسوب کیا جائے۔ القِرا ء َۃُ عِلْمٌ بِکَیْفِیَّۃِ أَدَائِ کَلِمَاتِ الْقُرْآنِ وَاخْتِلاَفِہَا مَعْزُوًّ ا لِنَاقِلِہِ۔ اس تعریف سے دو باتیں سامنے آئیں۔
۱۔ الفاظ قرآن کی کیفیت ادائیگی، خواہ اس کیفیت ادائیگی میں ناقل یعنی قراء حضرات کا اختلاف ہو یا اتفاق۔
۲۔ ائمہ قراء سے اس کی نقل وروایت صحیح ہو جو متصل صحیح سند کے ساتھ رسول اکرم ﷺ سے لی گئی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قراء ۃ میں یہ اہم شرط ہے کہ اسے کتا بوں کی بجا ئے براہ راست اہل علم سے لی جائے۔