- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,752
- پوائنٹ
- 1,207
۷۔ الکسائی(۱۱۹۔۱۸۹ھ): ان کا نام ابو الحسن علی بن حمزہ الاسدی تھا۔ حمزہ الزیات کے بعد کوفہ میں قراء ۃ کا ڈنکا انہی کا بجتا تھا انہوں نے حمزہ، ابن ابی لیلی ، عیسیٰ بن عمر الہمدانی اور دیگر علماء وقراء سے قراء ۃ لی۔اور ان سے عرضاً وسماعاً الدوری، ابوحمدون الطیب بن اسماعیل، ابو عبید القاسم بن سلام ۔۔جو خلیفہ امین کے مؤدب بھی تھے۔۔ نے قراء ۃ سیکھی اور روایت کی۔نحو وعربی زبان اور غریب الفاظ میں اپنے وقت کے امام تھے اور آج بھی کسائی علم نحو کی علامت ہیں۔ الدوری اور اللیث ان کی قراء ۃ کے بلاواسطہ راوی ہیں۔
٭ الدوری: ان کا تذکرہ اوپر گذر چکا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دوری ابو عمرو کے بھی راوی ہیں اور الکسائی کے بھی۔ جب ان کی روایت امام کسائی سے ہو تو ان کا تذکرہ ان کے نام کے ساتھ دوری الکسائی سے ہوتا ہے۔ ورنہ صرف عن ابی عمرو کہہ دیاجاتا ہے۔
٭ اللیث(۔۲۴۰ھ) ان کا نام ابو الحارث اللیث ؒبن خالد ہے بغداد کے انتہائی ثقہ وحاذق انسان تھے۔ امام کسائیؒ سے ان کو شرف تلمذ حاصل ہے اور قراء ۃ ان کے سامنے پیش کرنے اور ان سے اجازہ لینے کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ان کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔مختلف حروف کو انہوں نے حمزہ ؒبن قاسم احول اور الیزیدیؒ سے روایت کیا ہے۔ ان سے قراء ۃ کی روایت کرنے والوں میں بطور خاص سلمہؒ بن عاصم جو امام فراء ؒکے ساتھی تھے اور محمدؒ بن یحیی الکسائی الصغیر اور فضل ؒبن شاذان ہیں۔(غایۃ النہایۃ ۲/۳۴)
نوٹ: ابن ؒمجاہد کی اس کوشش کو غلط سمجھا گیا اوریہ کہا گیا کہ بس قراءتیں ہیں تو یہی ہیں نیز یہی سبعہ حروف ہیں۔حالانکہ ان کی مرادیہ نہ تھی کہ جو بھی ان سات قراءتوں سے نکلا وہ غلط ہوگا اور نہ ہی نبی ﷺ کے اس ارشاد إِنَّمَا أُنزْلِ َالقرآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ سے یہی سات قراء ہی مراد ہیں بلکہ یہ سات قراء وہ ہیں جن کی قراءتیں مختلف علاقوں میں مشہور ہوگئیں ورنہ اہل مغرب تو انہیں جانتے ہی نہ تھے اہل عراق کے ہاں یہ جانی بوجھی تھیں۔ابنؒ مجاہد کی مانند دیگر علماء نے بھی سبع قراء ات پر کام کیا اور کتب لکھی۔ جن میں بطور خاص ابومحمد مکی بن ابی القیسی (م: ۴۳۷ھ) کی کتاب التبصرۃ فی القراء ت السبع اور الکشف عن وجوہ القراء ت السبع وعللہا وحججہا۔اور ابو عمرو عثمان بن سعید الدانی (م: ۴۴۴ھ) کی کتاب جامع البیان فی القراء ت السبع ۔ان کی دوسری کتاب التیسیر فی القراء ت السبع ہیں۔
٭ الدوری: ان کا تذکرہ اوپر گذر چکا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دوری ابو عمرو کے بھی راوی ہیں اور الکسائی کے بھی۔ جب ان کی روایت امام کسائی سے ہو تو ان کا تذکرہ ان کے نام کے ساتھ دوری الکسائی سے ہوتا ہے۔ ورنہ صرف عن ابی عمرو کہہ دیاجاتا ہے۔
٭ اللیث(۔۲۴۰ھ) ان کا نام ابو الحارث اللیث ؒبن خالد ہے بغداد کے انتہائی ثقہ وحاذق انسان تھے۔ امام کسائیؒ سے ان کو شرف تلمذ حاصل ہے اور قراء ۃ ان کے سامنے پیش کرنے اور ان سے اجازہ لینے کا شرف بھی انہیں حاصل ہے۔ان کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔مختلف حروف کو انہوں نے حمزہ ؒبن قاسم احول اور الیزیدیؒ سے روایت کیا ہے۔ ان سے قراء ۃ کی روایت کرنے والوں میں بطور خاص سلمہؒ بن عاصم جو امام فراء ؒکے ساتھی تھے اور محمدؒ بن یحیی الکسائی الصغیر اور فضل ؒبن شاذان ہیں۔(غایۃ النہایۃ ۲/۳۴)
نوٹ: ابن ؒمجاہد کی اس کوشش کو غلط سمجھا گیا اوریہ کہا گیا کہ بس قراءتیں ہیں تو یہی ہیں نیز یہی سبعہ حروف ہیں۔حالانکہ ان کی مرادیہ نہ تھی کہ جو بھی ان سات قراءتوں سے نکلا وہ غلط ہوگا اور نہ ہی نبی ﷺ کے اس ارشاد إِنَّمَا أُنزْلِ َالقرآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ سے یہی سات قراء ہی مراد ہیں بلکہ یہ سات قراء وہ ہیں جن کی قراءتیں مختلف علاقوں میں مشہور ہوگئیں ورنہ اہل مغرب تو انہیں جانتے ہی نہ تھے اہل عراق کے ہاں یہ جانی بوجھی تھیں۔ابنؒ مجاہد کی مانند دیگر علماء نے بھی سبع قراء ات پر کام کیا اور کتب لکھی۔ جن میں بطور خاص ابومحمد مکی بن ابی القیسی (م: ۴۳۷ھ) کی کتاب التبصرۃ فی القراء ت السبع اور الکشف عن وجوہ القراء ت السبع وعللہا وحججہا۔اور ابو عمرو عثمان بن سعید الدانی (م: ۴۴۴ھ) کی کتاب جامع البیان فی القراء ت السبع ۔ان کی دوسری کتاب التیسیر فی القراء ت السبع ہیں۔