• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم كا مصداق،اقسام اور فضائل

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
علم كا مصداق،اقسام اور فضائل
والدين اور طلبہ علم كے لئے ايك رہنما تحرير​
شيخ محمد بن صالح العُثَيمين​
ترجمہ: مولانا عبد القوى لقمان
لغت ميں ’علم‘ جہالت كى ضد ہے، اور اس سے مراد ’كسى چيز كى اصل حقيقت كو مكمل طور پر پالينا‘ ہے-اصطلاح ميں بعض علما كے نزديك ’علم‘ سے مراد وہ معرفت ہے جو جہالت كى ضد ہے-جبكہ ديگر اہل علم كا كہنا ہے كہ ’علم‘ اس بات سے بالاترہے كہ اس كى تعريف كى جائے- مطلب يہ كہ لفظ ’علم‘ خود اتنا واضح ہے كہ اس كى تعريف كرنے كى كوئى ضرورت نہيں-
شرعى علم كى فضيلت
’علم‘ سے ہمارى مراد وہ شرعى علم ہے جو اللہ تعالىٰ نے روشن دلائل اور واضح ہدايت كى صورت ميں اپنے پيغمبرﷺ پرنازل فرمايا ہے- لہٰذا وہ علم جو قابل ستائش و تعريف ہے، وہ صرف اور صرف اللہ تعالىٰ كى جانب سے نازل كردہ ’وحى كا علم‘ ہے-اللہ كے نبى ﷺ كا ارشاد ہے:
من يرد الله به خيرايفقهه في الدين(صحيح بخارى:٧١،٣١١٦،٧٣١٢)
” جس شخص سے اللہ تعالىٰ بهلائى كا ارادہ كرتا ہے، اسے دين ميں سمجھ بوجھ عطا فرما ديتا ہے-“
اور اللہ كے نبىﷺكا يہ بهى ارشاد ہے:
إن الانبياء لم يورّثوا دينارا ولا درهما وإنما ورّثوا العلم فمن أخذه به فقد أخذ بحظ وافر (سنن ترمذى:٢٦٨٢)
” بے شك انبياء عليہم السلام نے كسى كو درہم و دينار كا وارث نہيں بنايا، بلكہ اُنہوں نے تو علم (نبوت) كى وراثت چهوڑى ہے، تو جس شخص نے بهى اس (علم نبوت) كو ليا تو اُس نے گويا (دنيا و آخرت كا) وافر حصہ پاليا-“
اور يہ بات طے شدہ ہے كہ حضرات انبياء عليہم السلام نے دوسروں كو اللہ عزوجل كى شريعت ِطاہرہ كے علم كا ہى وارث بنايا ہے نہ كہ كسى اور كا- ايسے ہى ان انبياء عليہم السلام نے لوگوں كو صنعت اور اس سے متعلقہ ديگر فنون كے علم كا ہرگز وارث نہيں ٹهہرايا، بلكہ رسول اللہﷺ نے ہجرت كے موقع پر جب مكہ مكرمہ سے مدينہ منورہ نزولِ اجلال فرمايا، تو وہاں كے لوگوں كو كهجوروں كى تأبير(پيوندكارى) كرتے ہوئے پايا- آپﷺ نے اہل مدينہ سے، اُن كو مشقت ميں ديكهتے ہوئے، اس بارے ميں بات كى- آپﷺكى گفتگو كا ماحصل يہ تها كہ ايسا كرنے كى كوئى ضرورت نہيں- تو اُن لوگوں نے آپﷺ كے كہنے پر ايسا ہى كيا اور تلقيح# كرنے سے رُك گئے، مگر كهجوروں پر پہل كم آيا- اس پر اللہ كے نبىﷺ نے فرمايا:
أنتم أعلم بأمر دنياكم
” تم اپنى دنيا كے معاملات كو بہتر جانتے ہو-“
لہٰذا اگر دنيوى معاملات كے بارے ميں جاننا، تعريف و توصيف كے لائق ہوتا تو اللہ تعالىٰ كے رسولﷺان معاملات كو تمام لوگوں سے بڑھ كر جاننے والے ہوتے- اس لئے كہ اس دنيا ميں علم و عمل كى بابت سب سے زيادہ قابل تعريف اور ثنا كے لائق ہستى اللہ كے نبى حضرت محمدمصطفى ﷺ ہى ہيں-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ديگر علوم كى اِفاديت
تو واضح ہوا كہ شرعى اور دينى علم ہى قابل تعريف ہے اور اسے حاصل كرنے والايقيناستائش و ثنا كا مستحق ہے- مگر اس كے باوجود ہميں ديگر علوم و فنون كے فوائد سے قطعى انكار نہيں اور وہ ذات كى حد تك اس اعتبارسے منفعت بخش ہوں گے كہ ايك تو وہ اللہ تعالىٰ كى اطاعت و فرمانبردارى اور اس كے دين كى نصرت پرمددگار و معاون ثابت ہوں اور دوسرے يہ كہ اللہ كے بندے اس سے فائدہ اُٹهاتے ہوں، اسى لحاظ سے يہ علوم بهلائى، خيرخواہى اور مصلحت كا سرچشمہ ہوں گے- حتىٰ كہ بعض حالات ميں ان علوم ميں مہارت اور آگاہى حاصل كرنا تو واجب ہوجاتا ہے بالخصوص جب وہ اللہ جل شانہ كے اس فرمان كے تحت داخل ہوں:
﴿وَاَعِدُّوْا لَهمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ﴾ (الانفال:٦٠)
”اور جہاں تك ممكن ہوسكے، كافروں كے مقابلہ كے لئے قوت اور جنگى گهوڑے تيار ركهو-“
اور بہت سے علما نے كہا ہے كہ صنعت و حرفت سے متعلقہ علوم كو جاننا فرضِ كفايہ# ہے- اور يہ اس لئے كہ كهانے، پينے كے برتن اور ديگر ضرورت كا سامان لوگوں كى ان بنيادى اشيا سے تعلق ركهتا ہے جن پر ان كى زندگى كا انحصار ہے- اگر كوئى شخص بهى ان چيزوں كى تيارى كے لئے كارخانہ وغيرہ نہ لگائے، تو ايسى صورت ميں ان كا سيكهنا ’فرض عين‘ بهى ہوجاتا ہے،اگرچہ يہ مسئلہ اہل علم كے ما بين مختلف فيہ ہے-
بہرصورت ہم يہى كہيں گے كہ قابل ستائش اور افضل ترين’شرعى علم‘ ہى ہے جو اللہ كى كتاب (قرآن) اور اس كے رسول ﷺ كى سنت كو سيكهنا ہے اور اس كے علاوہ ديگر علوم وہ يا تو خيروبركت اور بهلائى كے كاموں كا ذريعہ ہيں اور ياپهر شروفساد كو جنم دينے كا ’وسيلہ‘ - سو اُن كا حكم اُن اُمور كے مطابق ہوگا جنہيں اُٹهانے اور ظاہر كرنے كا يہ ذريعہ بنے ہيں-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
علم كے فضائل
اللہ جل شانہ نے علم اور اہل علم دونوں كى تعريف فرمائى ہے اور اپنے بندوں كو علم حاصل كرنے كى ترغيب دى ہے- بعينہ سنت ِطاہرہ ميں بهى طلب ِعلم كى جابجا تلقين كى گئى ہے- لہٰذا علم كا حصول، نيك اعمال ميں سے افضل ترين عمل اور نفلى عبادات ميں افضل ترين عبادت ہے، كيونكہ يہ اللہ تعالىٰ كى راہ ميں جہاد كى اقسام ميں سے ايك قسم ہے اور اس لئے بهى كہ اللہ عزوجل كے دين كو قائم اور نافذ كرنے كے لئے دو چيزيں ضرورى ہيں:
1 علم اور دليل 2 لڑائى اور اسلحہ
اقامت ِدين كے لئے يہ دونوں چيزيں از بس ضرورى ہيں- ان دونوں كے سوا دين كاغلبہ ناممكن ہے، اوران دونوں ميں سے پہلى چيز دوسرى پر مقدم ہے اوريہى وجہ ہے كہ اللہ كے نبىﷺنے كبهى كسى قوم پر ان كواللہ عزوجل كے دين كى طرف دعوت ديے بغيرشب خون نہيں مارا- گويا اس اعتبار سے علم قتال (اللہ كى خاطر لڑائى لڑنے) پر سبقت لے گياہے- اللہ تعالىٰ ارشاد فرماتے ہيں:
﴿اَمَّنْ هوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا يَّحْضَرُ الآخِرَةَ وَ يَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّه﴾
”كيا (ايسا شخص بہتر ہے) يا وہ شخص جو مطيع فرمان ہے، رات كے اوقات كو قيام اور سجدہ ميں عبادت كرتے گزارتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار كى رحمت كا اُميدوار ہے-“ (الزمر:٩)
اس آيت ميں مذكور’استفہام‘ كے مدمقابل ايك’استفہام‘ كا ہوناضرورى ہے، تب آيت كا مطلب يہ ہوگا كہ ايسا شخص جورات كے اوقات كو اللہ تعالىٰ كے حضور قيام اور سجدہ ميں گزارتا، آخرت سے ڈرتا اور اپنے ربّ كى رحمت كى اُميد ركهتا ہو اور وہ شخص جو كبرونخوت سے بهرا ہوا، اللہ تعالىٰ كى اطاعت سے روگردانى كرنے والا ہو، كيا دونوں برابرہوسكتے ہيں؟
تواستفہامِ مذكور كا جواب يہ ہے كہ يہ كبهى برابر نہيں ہوسكتے، لہٰذا قرآنى سياق و سباق ميں مدمقابل كا استفہام معلوم ہونے كى بنا پر اسے ذكر نہيں كيا گيا…
يہاں سوال يہ ہے كہ يہ مذكورہ عبادت گزار شخص جو رات كے اوقات كو قيام اور سجدے ميں گزارتا، آخرت كے حساب و كتاب سے ڈرتا، اور ساتہ ہى اللہ عزوجل سے اجروثواب كى اُميد بهى ركهتا ہے، تو آيا اس كا يہ سارا عمل علم كى بنياد پر ہے يا جہالت پر؟ تواس كا جواب يہ ہے كہ وہ علم اور بصيرت كى بنياد پرايسا كرتا ہے، اسى لئے تو آگے اللہ تعالىٰ ارشاد فرماتے ہيں:
﴿هلْ يَسْتَوِى الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الاَلْبَابِ﴾ (الزمر:٩)
”اے پيغمبر ! آپ ان سے پوچهئے كيا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسكتے ہيں؟“ مگر ان باتوں سے سبق تو وہى حاصل كرسكتے ہيں جو اہل عقل و خرد ہوں-“
جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہيں ہوسكتے بالكل ايسے، جيسے زندہ اور مُردہ، سننے والا اور بہرہ، ديكهنے والا اور اندها، كبهى برابر نہيں ہوسكتے- علم ايك روشنى ہے جس سے انسان سيدهى راہ پاتا اور كفرو شرك كے اندهيروں سے نكل كر نورِايمان كى طرف گامزن ہوتا ہے، اس علم كے ذريعے اللہ تعالىٰ اپنى مخلوق ميں سے جسے چاہتا ہے، سربلند كرديتا ہے- ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
﴿يَرْفَعِ الله الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلَم دَرَجٰتٍ﴾(المجادله:١١)
”تم ميں جو لوگ ايمان لائے ہيں اور جو علم ديے گئے،اللہ تعالىٰ انكے درجات بلند كرے گا-“
يہى وجہ ہے كہ ہم اہل علم كو ہى قابل ستائش پاتے ہيں، اور جب بهى ان كا كہيں تذكرہ ہوتا ہے ، لوگ ان كى تعريف كرتے ہيں- يہ تو ہوا اُن كا اس دنيا ميں بلند مقام اور مرتبہ، جبكہ آخرت ميں وہ اللہ كے دين كى طرف دعوت وارشاد اور نيك اعمال كے مطابق بلند مراتب سے بہرہ ور ہوں گے-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
يقيناً حقيقى عبادت گزار بندہ وہ ہے جو شعور ركهتے ہوئے علم و آگہى سے اس حال ميں اپنے ربّ كى عبادت كرتا ہے كہ حق بات اس سے چار سو پهيلتى جاتى ہے اور يہى اللہ كے نبىﷺ كا طريقہٴ بندگى تها، اللہ تعالىٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿قُلْ هٰذِه سَبِيْلِىْ اَدْعُوا اِلَى الله عَڑ بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىْ وَسُبْحٰنَ الله وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ (يوسف:١٠٨)
”(اے پيغمبر) آپ ان سے كہہ ديجئے! ميرا راستہ يہى ہے كہ ميں اللہ كى طرف بلاتا ہوں، ميں خود بهى اس راہ كو پورى روشنى ميں ديكھ رہا ہوں اور ميرے پيروكار بهى (اسى راہ پر گامزن ہيں) اللہ پاك ہے، اور مشركوں سے ہماراكوئى واسطہ نہيں-“
لہٰذا وہ انسان جو جانتے بوجهتے اور يہ شعور ركهتے ہوئے پاك اور صاف ہوتا ہے كہ وہ ايك شرعى كام كو شرعى طريقے كے مطابق انجام دے رہا ہے، كيا يہ اُس شخص كى طرح ہوسكتا ہے جو يہى پاكيزگى ٴ علم وعمل محض روايتى طور پر اس لئے حاصل كرتا ہو كہ اس نے اپنے ماں باپ كو ايسا كرتے ديكها ہے؟
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ان دونوں ميں كون سا شخص عبادت كا حق ادا كرنے ميں آگے ہے؟ آيا وہ شخص جو اس لئے پاك صاف ہوا كہ اس نے يہ اچهى طرح جان ليا كہ طہارت حاصل كرنے كا حكم اللہ تعالىٰ نے ديا ہے اور يہى طہارت اللہ كے نبى ﷺ كا طريقہ اور حكم بهى ہے- لہٰذا وہ اللہ تعالىٰ كے حكم كى بجا آورى اور رسول اللہﷺ كى سنت ِطاہرہ كى پيروى ميں طہارت حاصل كرتا ہے…
يا دوسرا وہ شخص جو محض اپنے ہاں جارى رسم پورى كرنے كے لئے پاكيزگى اور صفائى پر كاربند ہے؟ تو جواب واضح ہے كہ پہلا شخص ہى اپنے عمل ميں درست ہے جس نے علم وبصيرت پر اپنے ربّ كى عبادت كى-
اگرچہ ظاہرى طور پر دنوں كا عمل ايك جيسا ہے مگر دونوں حقيقت ميں برابر نہيں، كيونكہ ايك كا عمل علم و بصيرت كى بنياد پر ہے اور وہ اپنے اس عمل كى بنا پراللہ عزوجل سے ثواب كى اُميد ركهتا اور آخرت ميں حساب و كتاب سے ڈرتا بهى ہے اور ساتھ ہى وہ جانتا ہے كہ وہ اس عمل كى بجاآورى ميں رسول اللہﷺ كے حكم كى پيروى بهى كررہا ہے-
اورہم اسى نكتہ پر چند لمحے ٹهہرتے ہوئے يہ پوچهنا چاہيں گے كہ كيا وضو كرتے وقت ہميں اس بات كاادراك ہوتا ہے كہ ہم حقيقت ميں اللہ تعالىٰ كے حكم پرعمل پيرا ہيں- جيساكہ قرآن حكيم ميں اللہ پاك كا ارشاد ہے :
﴿يٰاَيُّها الَّذِيْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوا وُجُوْهكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُ وْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ﴾(المائدة:٦)
”اے اہل ايمان! جب نماز ادا كرنے كے لئے اُٹهو تو پہلے اپنے منہ اور كہنيوں تك ہاتهوں كو دهو لو اور اپنے سروں كا بهى مسح كرلو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تك دهوليا كرو-“
توكيا ايك انسان وضو كرتے وقت يہ آيت ِكريمہ ذہن ميں ركهتے ہوئے جانتا ہوتا ہے كہ وہ حقيقت ميں اللہ تعالىٰ كے حكم كى بجاآورى كررہا ہے؟ كياوہ يہ شعور ركهتا ہے كہ يہ طريقہٴ وضو رسول اللہﷺ كا ہے اور وہ يہ وضو رسول اللہ كى پيروى ميں كررہا ہے؟ اس سوال كا جواب بهى يقينا ’ہاں‘ ميں ہو گا اور حقيقت بهى يہى ہے كہ ہم ميں سے كچھ لوگ اس بات كو اپنے سامنے ركهتے ہيں- لہٰذا عبادات كى بجا آورى ميں ہم پرواجب ہے كہ ہم اللہ تعالىٰ كا حكم سمجهتے ہوئے اُنہيں ادا كريں تاكہ ايك تو ان عبادات ميں ہمارى نيك نيتى اور خلوص واضح اور ثابت ہوسكے، اور دوسرے يہ كہ ہم ان عبادات كو رسول اللہﷺ كى پيروى ميں بجالائيں-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ہم يہ جانتے ہيں كہ نيت (دل كا ارادہ) وضو كى شروط ميں سے ہے- ليكن بسااوقات اس نيت سے مراد ’عمل كى نيت‘ ہوتى ہے اور يہى وہ قسم ہے جس كے بارے ميں ’علم فقہ‘ ميں بحث كى جاتى ہے- اور بسا اوقات ’نيت‘ سے مراد عمل كى نيت نہيں بلكہ وہ ’ہستى‘ ہوتى ہے جس كے لئے وہ ’عمل ‘ كيا جاتا ہے، اس وقت ہم پر لازم ہے كہ ہم اس بڑے اور حساس معاملے ميں خبرداراور ہوشيار رہيں، اور وہ يہ ہے كہ ہم عبادت كرتے وقت يہ بات اچهى طرح سے اپنے مدنظر ركهيں كہ ہم اللہ تعالىٰ كا يہ حكم صرف اور صرف اسى ذات كے لئے خالص ہوكر اداكررہے ہيں اور ساتھ ہى اپنے آپ كو يہ باور كراتے ہوئے كہ چونكہ اللہ كے رسولﷺ نے اسے ادا فرمايا ہے، لہٰذا ہم آپ كى اتباع (اور پيروى) ميں اسے سرانجام دے رہے ہيں- اس لئے كہ اجروثواب كى خاطر كئے گئے عمل كے صحيح اور قبول ہونے كى شروط ميں سے درج ذيل دو شرطيں قابل ذكر ہيں :
1 اخلاصِ نيت 2 متابعت ِرسول (اطاعت و پيروى)
اور يہى وہ دو شرطيں ہيں جن كى موجودگى ميں شہادَتين أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمّدًا رسول الله
”ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے سوا كوئى معبود برحق نہيں اور يہ بهى كہ حضرت محمدﷺ اللہ كے رسول ہيں-“
پرعمل ممكن ہے-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
يہاں سے ہم دوبارہ اپنے موضوع ’فضائل علم‘ كى جانب آتے ہيں، جيساكہ يہ بات واضح ہوچكى ہے كہ علم كى بدولت انسان فہم اور بصيرت كى بنا پر اپنے ربّ كى عبادت كرتا ہے، ايسے ميں اس كادل بندگى ٴربّ سے سرشار اور اس كے انوار سے منور ہوتا ہے اور عبادت گزار يہ سمجهتا ہے كہ وہ ايك عادت نہيں بلكہ علم پر مبنى عبادت كا عمل اداكررہا ہے اور يہى وجہ ہے كہ جب انسان اس جذبے اور كيفيت ميں نماز اداكرے گا، تو دورانِ عبادت اس كے دل و دماغ ميں اللہ جل شانہ كا يہ فرمان موجزن ہوگا كہ
﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾ (العنكبوت:٤٥)
”بے شك نماز بے حيائى اور بُرائى كے كاموں سے روكتى ہے-“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
’فضائل علم ‘ كے بارے ميں چند اہم نكات درج ذيل ہيں:
1 علم انبيا عليہم السلام كى وراثت ہے:انبياے كرام نے اپنے بعد والوں كو درہم و دينار كانہيں بلكہ علم كا وارث بنايا ہے- تو جس شخص نے علم حاصل كيا، اس نے انبياكى وراثت سے وافر حصہ پاليا- اے ميرے مخاطب! تو اس وقت پندرہويں صدى ہجرى ميں ہے، اگر تيرا شمار اہل علم ميں ہے تو جان لے كہ تو حضرت محمدﷺكا اصل وارث ہے اور يہ فضائل ميں سے سب سے بڑى فضيلت ہے-
2 علم كو بقا اور مال كو فنا ہے: فقرا صحابہ  ميں سے ايك جليل القدر صحابى رسول حضرت ابوہريرہ ہيں- يہاں تك كہ آپ  بهوك كى شدت سے غشى كى حالت ميں نيچے گر پڑتے ہيں- ذرا بتائيے! ہمارے آج كے دور ميں حضرت ابوہريرہ كا ذكر ِخير لوگوں كى زبانوں پر جارى وسارى ہے كہ نہيں؟ يقينا بہت زيادہ ہے، اور جو ان كى بيان كردہ احاديث سے فائدہ اُٹهائے گا، اس كا اجروثواب حضرت ابوہريرہ كو تاقيامت صدقہٴ جاريہ كى صورت ميں الگ ملے گا- تو معلوم ہوا كہ علم باقى رہتا ہے جبكہ مال فنا ہوجاتاہے- اے علم كے طالب! علم كى دولت سے وابستہ رہ، اس بارے ميں صحيح حديث سے ثابت ہے كہ اللہ كے نبىﷺ نے ارشاد فرمايا:
إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية او عمل ينتفع به أو ولد صالح يدعوله
” جب انسان مر جاتا ہے تو تين قسم كے اعمال كے سوا اس كے سارے عمل منقطع ہو جاتے ہيں: ايك صدقہٴ جاريہ كى صورت ميں كوئى عمل، دوسرا كوئى ايسا علمى سرمايہ جس سے فائدہ اُٹهايا جائے اور تيسرا نيك اولاد جو اس كے لئے دعاے خير كرے-“
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
3 عالم كو علم كى حفاظت ميں تهكاوٹ كا سامنا نہيں كرنا پڑتا:اور يہ اس لئے كہ جب آپ كو اللہ تعالىٰ نے علم كى سعادت سے بہرہ ور فرما ديا تو چونكہ اس كى اصل جگہ انسان كادل و دماغ ہے- لہٰذا اس كے لئے كسى صندوق يا چابى وغيرہ كى ضرورت نہيں، وہ انسان كے دل و دماغ ميں پہلے سے محفوظ ہوتا ہے، بلكہ اس سے بڑھ كر وہ آپ كا محافظ ہے اور وہ اللہ عزوجل كے حكم سے آپ كو ہر قسم كے خطرے سے بچاتا ہے- علم آپ كى پاسبانى كرتا ہے جبكہ مال كى آپ كو ہر لحظہ حفاظت كرنا پڑتى ہے، آپ اُسے تالے لگے صندوقوں ميں بند كركے ركهتے ہيں مگر اس كے باوجود مطمئن نہيں ہوپاتے- مال خرچ كرنے سے كم ہوتا ہے جبكہ علم كو جتنا سكهايا جائے يعنى صرف كيا جائے، اس ميں اضافہ ہوتا رہتا ہے-
4 عالم كا شمار حق پر گواہى دينے والوں ہوتا ہے: جيسا كہ اللہ تعالىٰ كا ارشاد ہے :
﴿شَهدَ الله اَنَّه لَا اِلٰه اِلَّا هوَ وَالْمَلٰئِكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ﴾
”اللہ نے خود بهى اس بات كى گواہى دى ہے كہ كہ اس كے سوا كوئى معبود نہيں، اور فرشتوں نے بهى اور اہل علم نے بهى راستى اور انصاف كے ساتھ يہى گواہى دى ہے-“(آل عمران:١٨)
تو كيا اللہ تعالىٰ نے آيت ميں ﴿اولوا المال﴾ يعنى مال و دولت والوں كاذكر كيا ہے؟ نہيں، بلكہ اس كے بجائے يہ الفاظ ہيں ﴿وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ﴾
” اہل علم نے بهى انصاف كے ساتھ اللہ كى واحدانيت كى گواہى دى ہے-“
تو اے طالب ِعلم ! تيرے شرف و كمال كے لئے يہى بات كافى ہے كہ تيراشمار اُن ہستيوں ميں ہوتا ہے جوفرشتوں كى رفاقت ميں اللہ عزوجل كى يكتائى كى گواہى ديتے ہوئے كہتے ہيں كہ اللہ كے سوا كوئى معبودِ برحق نہيں-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
5 علماكا شمار موٴمنوں كے واليوں(ذمہ داروں) ميں ہوتا ہے:اللہ تعالىٰ نے مسلمانوں كواپنے واليوں(ذمہ داروں) كى اطاعت كا ان الفاظ ميں حكم ديا ہے :
﴿يٰاَيُّها الَّذِيْنَ امَنُوْا اَطِيْعُوا الله وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِى الاَمْرِ مِنْكُمْ﴾
”اے اہل ايمان! اللہ تعالىٰ اور اس كے رسول كى فرمانبردارى كرو اور اُن واليوں كى بهى جو تم ميں سے ہيں-“(النساء:٥٩)
يہاں آيت ِكريمہ ميں ’اہل ايمان كے واليوں‘ ميں، اُمرا، حكام، علماے كرام اور علم كے طلبا سب شامل ہيں- اہل علم كى ولايت (سرپرستى) يہ ہے كہ وہ اللہ عزوجل كى شريعت ِطاہرہ كو بيان كريں اور لوگوں كو اس كى دعوت ديں، جبكہ اُمرا و حكام كى ولايت (سرپرستى) سے مراد يہ ہے كہ وہ اللہ جل شانہ كى شريعت ِطاہرہ كو من و عن نافذ كريں اور لوگوں كو اس كاپابند بنائيں-
6 اہل علم ہى اللہ كے دين اور حكم كو قائم و دائم ركهنے والے ہيں :اور ان كا يہ عمل قيامت تك جارى و سارى رہے گا، اس كى دليل حضرت معاويہ سے مروى يہ حديث ہے، وہ كہتے ہيں كہ ميں نے اللہ كے نبى1كو يہ فرماتے سنا ہے :
من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين وإنما أنا قاسم والله يعطي ولن تزال هذه الأمة قائمة على أمر الله لا يضرهم من خالفهم حتى يأتى أمرالله
”جس شخص كے ساتھ اللہ عزوجل بهلائى كاارادہ كرتے ہيں تو اُسے دين ميں سمجھ دے ديتے ہيں اور ميں تو صرف تقسيم كرنے والا ہوں اور اللہ جل شانہ عطا كرنے والے ہيں، اور اس اُمت (كى ايك جماعت) ہميشہ اللہ كے دين پر ثابت قدم رہے گى اور قيامت بپا ہونے تك كوئى ان كامخالف ان كو تكليف (يا نقصان) نہيں دے سكے گا-“
امام احمد بن حنبل  اس جماعت كے بارے ميں كہتے ہيں كہ
”اگر يہ اہل حديث نہيں تو پهر ميں نہيں جانتا كہ ان كے علاوہ اور كون لوگ ہيں-“ (صحيح سنن ابن ما جہ، زير حديث نمبر٦)
قاضى عياض كا كہنا ہے: ان سے امام احمد بن حنبل كى مراد اہل سنت اور وہ لوگ ہيں جو اہل حديث كے مذہب پرہيں:ومن يعتقد مذهب أهل الحديث (شرح نووى : ٦/٤٠٠)
 
Top