- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,586
- ری ایکشن اسکور
- 6,766
- پوائنٹ
- 1,207
باب: 14
اللہ تعالی نے قرآنی آیات کو عقیدہ وایمان کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم کیا ہے جنہیں محکم اور متشابہ کہتے ہیں۔ ان کا علم، علم محکم و متشابہ کہلاتا ہے۔
محکم
لغوی معنی:
یہ لفظ، حکم سے نکلا ہے جو مضبوط ، مستحکم، واضح اور قابل عمل ہونے کو کہتے ہیں۔عرب کہتے ہیں: أَحْکَمَ الرَّأْیَ: أَیْ أَتْقَنَہُ۔ اس نے رائے کو پختہ کیا۔حَکَمَۃ: گھوڑے کی لگام کو بھی کہتے ہیں تاکہ اسے ہلنے اور ٹاپنے سے روکا جائے۔حاکم ومحکوم جیسے الفاظ اسی سے ہیں۔اس لغوی معنی میں سارا قرآن کریم محکم ہے۔یعنی اس میں کوئی نقص یا خرابی نہیں۔ نہ اس کے آگے سے باطل آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔{کتب أحکمت آیتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر}۔
اصطلاحی معنی:
محکم اسے کہتے ہیں جو واضح، مستحکم اور سمجھ میں آنے والی شے ہو کوئی ابہام نہ ہو۔اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال نہ ہو۔یا اس کے معنی ومفہوم کی صرف ایک ہی صورت ہو یا جس کی دلالت راجح ہو اسے ظاہر اور نص بھی کہتے ہیں۔ مثلاً:{إہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ¢ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ، غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضّآلِیْنَ¢} ان آیات میں صراط مستقیم کی وضاحت خود قرآن مجید نے کردی ہے۔
علم محکم و متشابہ
اللہ تعالی نے قرآنی آیات کو عقیدہ وایمان کے اعتبار سے دو حصوں میں منقسم کیا ہے جنہیں محکم اور متشابہ کہتے ہیں۔ ان کا علم، علم محکم و متشابہ کہلاتا ہے۔
محکم
لغوی معنی:
یہ لفظ، حکم سے نکلا ہے جو مضبوط ، مستحکم، واضح اور قابل عمل ہونے کو کہتے ہیں۔عرب کہتے ہیں: أَحْکَمَ الرَّأْیَ: أَیْ أَتْقَنَہُ۔ اس نے رائے کو پختہ کیا۔حَکَمَۃ: گھوڑے کی لگام کو بھی کہتے ہیں تاکہ اسے ہلنے اور ٹاپنے سے روکا جائے۔حاکم ومحکوم جیسے الفاظ اسی سے ہیں۔اس لغوی معنی میں سارا قرآن کریم محکم ہے۔یعنی اس میں کوئی نقص یا خرابی نہیں۔ نہ اس کے آگے سے باطل آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔{کتب أحکمت آیتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر}۔
اصطلاحی معنی:
محکم اسے کہتے ہیں جو واضح، مستحکم اور سمجھ میں آنے والی شے ہو کوئی ابہام نہ ہو۔اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال نہ ہو۔یا اس کے معنی ومفہوم کی صرف ایک ہی صورت ہو یا جس کی دلالت راجح ہو اسے ظاہر اور نص بھی کہتے ہیں۔ مثلاً:{إہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ¢ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ، غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضّآلِیْنَ¢} ان آیات میں صراط مستقیم کی وضاحت خود قرآن مجید نے کردی ہے۔