difa-e- hadis
رکن
- شمولیت
- جنوری 20، 2017
- پیغامات
- 294
- ری ایکشن اسکور
- 28
- پوائنٹ
- 71
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيٍّ صَلَاةَ الْغَدَاةِ، قَالَ: فَقَنَتَ، فَقَالَ فِي قُنُوتِهِ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَشْيَاعِهِ، وَأَبِي السُّلَمِيِّ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَأَشْيَاعِهِ»(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7050 باب تسمیۃ الرجل فی القنت کتاب الصلاۃ التطوع و الامامۃ)
شیخ سنابلی کی تحقیق اور اس کا تعاقب
اس روایت کو متعدد محدثین نے الگ الگ اسناد و طرق سے نقل کیا ہے اور درج بالا اضافے کو امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ناموں کی صراحت کے ساتھ نقل کیا ہے ان ناموں کی صراحت کو سنابلی صاحب نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کو ضعیف کرنے کے درج ذیل دلائل انہوں نے پیش کیے ہیں
دلیل 1:یہ روایت علی رضی اللہ عنہ سے دو طرق سے مروی ہے
پہلا طریق: عبداللہ بن معقل
دوسرا طریق: عبدالرحمن بن معقل
عبداللہ بن معقل سے اس کو درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے
ابو حصین عثمان بن عاصم
الحکم بن عتیبہ
سلمۃ بن کھیل
اس میں کسی نے بھی ان ناموں کی صراحت نہیں کی ہے
عبدالرحمن بن معقل سے درج ذیل لوگوں نے روایت کی ہے
سلمۃ بن کھیل
ابو الحسن عبید بن الحسن
حصین بن عبدالرحمن السلمی
اس میں حصین بن عبدالرحمن کے تین شاگردوں شریک بن عبدااللہ،شعبہ بن حجاج اور ھشیم بن بشیر نے روایت کیا ہے اور صرف ھشیم بن بشیر نے حصین بن عبدالرحمن سے روایت میں ان ناموں کی صراحت کی ہے۔
اور آخر میں اس سے نتیجہ نکالا ہے کہ ان تمام روایات میں صرف ھشیم بن بشیر نے ان ناموں کی صراحت کی ہے چنانچہ یہ روایت ایک جماعت کے خلاف ہے بلکہ عبدالرحمن بن حصین کے شیخ عبدالرحمن بن معقل کے دوشاگردوں سلمۃ بن کھیل اور ابو الحسن عبید بن الحسن کے بھی خلاف ہے اس لئے اس قدر مخالفتوں کے بعد تنہا اس روایت کو صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا ہے اس لئے راجح بات انشاء اللہ یہی ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ والی جس روایت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہے وہ شاذ یعنی ضعیف ہے
اب ہم اپ کے سامنے ترتیب وار ان تمام روایت کو رکھتے ہیں اوراس پر سنابلی صاحب کے شاذ موقف کا بھی رد پیش کریں گے
حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: «قَنَتَ بِنَا رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلِيٌّ وَأَبُو مُوسَى»(تھذیب الاثار رقم 619 1/359)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ السَّامِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: «قَنَتَ بِنَا رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيٌّ، وَأَبُو مُوسَى(تھذیب الاثار رقم617 1/359)
ان دونوں روایات کو پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسا یہ اسی سیاق وسباق کی روایات ہوں مگر ان دونوں روایات میں صرف یہ ذکر ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ قنوت پڑھا کرتے تھےاب اس میں تو ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر ہے تو کیا وہ بھی کسی پر بدعا کرتے تھے ان دونوں روایات کو بدعا والی روایات سے خلط ملط کیا گیا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ان روایات میں بھی قنوت کا ذکر تو ہے مگر بدعا تک کا ذکر نہیں ہےتاکہ ایسا محسوس ہو کہ واقعی ایک پوری جماعت کے خلاف صرف ایک نے ان ناموں کی صراحت کی ہے جبکہ جس کتاب سے شیخ سنابلی صاحب نے یہ دونوںروایات پیش کی ہے کہ ان روایات میں کسی کا نام نہیں ہے اسی کتاب میں موجود ایک روایت میں اس کا اشارہ موجود ہے کہ جو اس نام والی روایت کی تائید کرتی ہے روایت پیش ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ وَذَكَرَ صَلَاةً أُخْرَى، فَبَلَغَنِي أَنَّهُ، قَالَ: «وَفِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، يَدْعُو عَلَى أَعْدَاءٍ، لِأَنَّهُ كَانَ مُحَارِبًا»(تھذیب الاثاررقم 580 1/346)
ترجمہ:ابراہیم کہتے ہیں مجھے پہنچا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جن کے ساتھ حالت جنگ میں تھے ان پر بدعا کیا کرتے تھے۔
یہ روایت ھشیم کی روایت کی تائید کرتی ہے کہ وہ کون سے لوگ تھے جن پر جنگ کے دوران علی رضی اللہ عنہ بدعا کرتے تھےتو یہ دونوں روایات جو اس حوالے سے پیش کی گئی ہیں ان کا اس سیاق وسباق سے کوئی تعلق نہیں ہے اس میں فقط قنوت پڑھانے کا ذکر ہے جیسا اسی کتاب میں دوسرے اصحاب النبی (ابن عباس وغیرہ) کے بارے میں قنوت پڑھنےکا تذکرہ موجود ہے۔
عَنْ يَحْيَى، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ أَنَّ عَلِيًّا، «قَنَتَ فِي الْمَغْرِبِ فَدَعَا عَلَى نَاسٍ وَعَلَى أشْيَاعِهِمْ، وَقَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ(مصنف عبدالرزاق رقم 4976 3/113)
درج بالا تھذیب الاثار کی دونوں روایات اور اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ طریق صحیح و ثابت ہے اور اس میں کسی کے نام کی صراحت نہیں ہے جبکہ تھذیب الاثار کی پیش کردہ دونوں روایات کا اس سیاق و سباق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ سند جو مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے نقل کی ہے یہ ضعیف سند ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں اس میں ایک راوی یحیٰ ہے جو "يحيى بن العلاء البجلى ، أبو سلمة و يقال أبو عمرو ، الرازى" ان کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش ہیں
و قال أحمد بن حنبل : كذاب يضع الحديث .
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کذاب ہے حدیث گھڑتا ہے
و قال عباس الدورى ، عن يحيى بن معين : ليس بثقة .
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں ثقہ نہیں ہے
و قال عمرو بن على ، و النسائى ، و الدارقطنى : متروك الحديث
امام عمروبن علی، امام نسائی ،امام دارقطنی متروک الحدیث کہتے ہیں(تھذیب الکمال مزی رقم 6895 31/484)
تو جس طرق کو ثابت اور صحیح فرما رہے ہیں وہ ضعیف ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: ثنا عَبْدُ اللهِ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ «قَنَتَ فِي الْمَغْرِبِ فَدَعَا عَلَى أُنَاسٍ وَعَلَى أَشْيَاعِهِمْ، وَقَنَتَ بَعْدَ الرَّكْعَة(الاوسط لابن المنذر رقم 2722 5/210)
اس روایت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس میں سلمۃ کھیل کی روایت میں کسی کے نام کی صراحت نہیں ہے
اور اس کی سند کو صحیح لکھا ہے جبکہ اس کے ایک راوی کو امام ذہبی نے الکاشف میں صدوق نقل کیا(رقم 3896 اگرچہ حافظ ابن حجر نے ثقہ کہا ہے مگر اس کو صدوق بھی کہا گیا ہے۔
دوئم اس میں عبداللہ ہیں جو کہ"عبد الله بن الوليد بن ميمون بن عبد الله القرشى الأموى" ہیں حافظ ابن حجر نے تقریب میں ان کو "صدوق ربما اخطا" " سچے ہیں کبھی کبھی غلطی کر جاتے ہیں"(6/70)
چنانچہ اس روایت میں بھی یہاں نام کی صراحت کرنے میں غلطی کر گئے ہیں جیسا عبدالرحمن بن معقل سے ان کے دو دوسرے شاگردوں نے جب ان(عبداللہ بن الولید) سے ذیادہ ثقہ اور حفظ والے رواۃ سے نقل کیا ہے اس میں ان ناموں کی صراحت موجود ہے جو روایات آگے آ رہی ہیں
چنانچہ اس روایت میں جو نام کی صراحت بیان نہیں ہوئی ہے وہ راوی کی خطا کی بنا پر ہے یہی وجہ ہے کہ سلمۃ بن کھیل کی روایت میں ناموں کی صراحت نہیں ہے جبکہ دیگر ثقہ اور حافظ رواۃ نے اس کا ذکر کیا ہے اس لئے وہ طرق اس کی نسبت ذیادہ محفوظ اور صحیح ہیں
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ يَقُولُ: شَهِدْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقْنُتُ فِي صَلَاةِ الْعَتَمَةِ أَوْ قَالَ: الْمَغْرِبِ بَعْدَ الرُّكُوعِ وَيَدْعُو فِي قُنُوتِهِ عَلَى خَمْسَةٍ وَسَمَّاهُم(سنن الکبریٰ بیہقی رقم 3325 2/347)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: ثنا شُعْبَةُ عَنْ عُبَيْدٍ [5] أَبِي الْحَسَنِ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ يَقُولُ: شَهِدْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَنَتَ فِي صَلَاةِ الْعَتْمَةِ بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو فِي قُنُوتِهِ عَلَى خَمْسَةِ رَهْطٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَأَبِي الْأَعْوَرِ.(المعرفۃ والتاریخ للفسوی3/135)
ان روایات کے تمام راوی ثقہ ہیں اس کو عبید بن الحسن سے شعبہ بن حجاج نے روایت کیا ہےاورانہوں نے ایک روایت میں ان کے ناموں کی صراحت کی ہے اور دوسرے میں ناموں کی صراحت نہیں کی ہے چنانچہ شیخ سنابلی صاحب ان روایات پر تنبیہ ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یعقوب فسوی نے عبیداللہ بن معاذ کے طریق سے اسی روایت کو نقل کیا تو معاویہ اور ابو الاعور کا نام ذکر کر دیا جبکہ سنن بیہقی میں ناموں کی صراحت نہیں ہے اسی طرح امام ذہبی نے جب امام ابوداؤد سے اس روایت کو نقل کیا تو انہوں نے بھی کسی نام کی صراحت نہیں کی ہے اس لئے یہی روایت محفوظ ہے
قارئین سنن بیہقی والی روایت تو ہم نے اپ کے سامنے پیش کردی امام ابوداؤد والا طریق بھی اپ کے سامنے رکھتے ہیں جس کو سنابلی صاحب نے تھذیب الاثار سے نقل کیا ہے اور اس کی علت بھی آپ پر واضح کریں گے
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَعْقِلٍ، يَقُولُ: «صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَنَت(تھذیب الاثار للطبری رقم 621 1/360)
اس روایت کو محفوظ فرما رہے ہیں جبکہ امام ابوداؤد جوکہ الطیالسی ہے ان کے بابت یہ معروف ہے کہ یہ حدیث میں غلطی کرتے تھے چنانچہ ان کے حوالے سے اقوال پیش ہیں
ابن حجر فرماتے ہیں : ثقة حافظ غلط فى أحاديث(تقریب التہذیب)
امام ذہبی فرماتے ہیں: الحافظ ، . . ، و مع ثقته ، فقال إبراهيم بن سعيد الجوهرى : أخطأ فى ألف حديث ، كذا قال(الکاشف للذہبی)
امام ابن سعد فرماتے ہیں: كان ثقة كثير الحديث ، و ربما غلط(تھذیب الکمال للمزی)
قال عبد الرحمن : و سمعت أبى يقول : أبو داود محدث صدوق كان كثير الخطأ(تھذیب التھذیب )
اور جو روایت امام ذہبی کے حوالے سے نقل کی ہے وہ بھی پیش کیے دیتے ہیں
معاذُ بن معَاذ، نَا شعبةُ، عَن عبيد أبي الْحسن، عَن عبد الله بن معقل
قَالَ: " شهدتُ عليا قنتَ فِي صلاةِ الفجرِ بعدَ الركوعِ، وَيَدْعُو فِي قنوته على خَمْسَة رهطٍ "(تنقیح التحقیق للذھبی 1/246)
اس میں نام موجود نہیں ہے مگر اسی کتاب میں امام ذہبی نے بھی جب امام ابوداؤد سے روایت نقل کی ہے تو اس میں پھر ابو الاعور کا نام ذکر کیا ہے روایت پیش ہے
أَبُو داودَ، نَا شُعْبَة، عَن حُصَيْن، عَن عبد الرَّحْمَن بن معقل قَالَ: " صليتُ خلف عَليّ المغربَ، فقنتَ يَدْعُو على أبي الأعورِ، وَغير واحدٍ "(حوالہ ایضا)
سنابلی صاحب جن امام ابوداؤد کی روایت کو محفوظ فرما رہے تھے اس میں بھی نام کی صراحت موجود ہے
چنانچہ ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں رواۃ نے خطا کی ہیں اور جب ان کو نام یاد آئے انہوں نے ذکر کر دیئے اور جب ان سے بھول یا نسیان ہوا تو ان ناموں کی صراحت کرنا بھول گئے چنانچہ اس حوالے سے چند روایت اور پیش ہیں جو سنابلی صاحب نے بھی نقل کی ہے اور آخر میں ایسے مضبوط طریق سے اس روایت کو پیش کریں گے جو رواۃ ان سب سے اوثق اور حفظ میں بہترین ہیں جنہوں نے ان ناموں کی صراحت کی ہے اور یہی روایت ہم نے سب سے پہلے مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کی تھی جس کو سنابلی صاحب بلاوجہ ضعیف فرما رہے تھے روایات پیش ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ، يَقُولُ: «صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الْمَغْرِبَ فَقَنَتَ وَدَعَا(شرح المعانی الاثار رقم 1498)
اس میں امام ابوداؤد ہیں اور انہوں نے اس میں ناموں کی صراحت نہیں کی ہے اور ان کے حوالے سے بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ غلطی کیا کرتے تھے
حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: «قَنَتَ عَلِيٌّ فِي الْمَغْرِب(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7057 2/109)
اس روایت میں صرف قنوت پڑھنے کا ذکر ہے دوئم اس میں" شریک" جو ہیں وہ "شریک بن عبداللہ ہیں اور یہ سیئی الحفظ ہیں اور ان کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش خدمت ہیں
شريك بن عبد الله بن أبى شريك النخعى
ابن حجر فرماتے ہیں:
صدوق يخطىء كثيرا(تقریب التھذیب)
قال يعقوب بن شيبة : شريك صدوق ثقة سىء الحفظ جدا .
و قال إبراهيم بن يعقوب الجوزجانى : شريك سىء الحظ ، مضطرب الحديث
قال عبد الرحمن بن أبى حاتم : سألت أبا زرعة عن شريك يحتج بحديثه ؟ قال : كان
كثير الخطأ ، صاحب وهم(تھذیب الکمال المزی )
قال الأزدى : كان صدوقا إلا أنه مائل عن القصد ، غالى المذهب ، سيىء الحفظ ،
كثير الوهم ، مضطرب الحديث .(تھذیب التھذیب)
شریک بن عبداللہ کے بارے میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کثرت سے غلطیاں کرنے والے خراب حافظے والے راوی ہیں اب مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو دوبارہ پیش کرتے ہیں اور پھر اس کے رواۃ کے بابت بیان کریں گے
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيٍّ صَلَاةَ الْغَدَاةِ، قَالَ: فَقَنَتَ، فَقَالَ فِي قُنُوتِهِ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَشْيَاعِهِ، وَأَبِي السُّلَمِيِّ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَأَشْيَاعِهِ»(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7050 باب تسمیۃ الرجل فی القنت کتاب الصلاۃ التطوع و الامامۃ)
اب اس روایت کے رواۃ کے بابت محدثین کے اقوال پیش کرتے ہیںاس سے قبل جتنی بھی روایات اس حوالے سے بیان ہوئی ہیں ان میں رواۃ نے کبھی ناموں کا تذکرہ کیا اور کبھی نہیں کیا چنانچہ ایک ایسی مضبوط روایت جو یا تو یہ ثابت کرے کہ اس میں ناموں کا تذکرہ کرنا غلطی ہے یا پھر واقعی ناموں کی صراحت درست ہے چنانچہ مندرجہ بالا روایت میں یہی ثابت ہے کہ ان روایات میں ناموں کی صراحت قطعی طور پر صحیح ہے اوریہ روایت سب سے اصح ہے اور اس کے راوی اوثق ہیں چنانچہ اس روایت کے رواۃ کی تفصیل درج ذیل ہے
ھشیم بن بشیر القاسم بن دینار السلمی:
ابن حجر فرماتے ہیں
ثقة ثبت كثير التدليس و الإرسال الخفى
امام ذہبی فرماتے ہیں
حافظ بغداد ، إمام ثقة ، مدلس
قال عبد الرحمن بن مهدي كان هشيم أحفظ للحديث من سفيان الثوري (تاریخ بغداد 16/130
عبدالرحمن بن مھدی فرماتے ہیں :ھشیم سفیان ثوری سے بھی ذیادہ حدیث کا حافط ہے
قَالَ أَحْمد لَيْسَ أحد أصح حَدِيثا عَن حُصَيْن من هشيم(سوالات ابوداودللاحمد بن حنبل رقم443 1/323)
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: حصین سے حدیث بیان کرنے میں ھشہم سے زیادہ صحیح کوئی بھی نہیں
قال أحمد بن عبد الله العجلى : هشيم واسطى ثقة ، و كان يدلس .
ابن المبارك : من غير الدهر حفظه ، فلم يغير حفظ هشيم .
ابن مبارک فرماتے ہیں: وقت کے ساتھ حافظہ ہر جو اثرات ہوتے ہیں ھشیم کے حفظ پر وہ بھی نہیں ہوئے تھے۔
ان اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ ھشیم بن بشیر کس پائے کے راوی تھے اور ان کے مقابلے پر دیگر رواۃ کے اقوال اپ پڑھ ہی چکے ہیں جس کے قریب بھی تغیر نہیں گزرا جو سفیان ثوری جیسے راوی کے ہم پلہ ہوں اس کے مقابلے پر سیئی الحفظ اور غلطیاں کرنے والے رواۃ کی روایت کو صحیح کہناجبکہ وہ اس قدر خطا پر مبنی تھے کہ کبھی ناموں کی صراحت کرتے اور کبھی اس کو بیان کرنا بھول جاتے تھے یہ کس اصول حدیث کے تحت ہے یہ خود بیان کریں تو بہتر ہے ھشیم بن بشیر نے حصین سے روایت کی ہے اور یہ حصین بن عبدالرحمن السلمی ہیں ان کے بارے میں محدثٰن کے اقوال پڑھ لیں
ابن حجر فرماتے ہیں:
ثقة تغير حفظه فى الآخر
امام ذہبی فرماتے ہیں
ثقة حجة
قال عبد الرحمن بن أبى حاتم : سألت أبا زرعة عنه ، فقال : ثقة
قال أحمد بن عبد الله العجلى : كوفى ثقة ثبت فى الحديث
أحمد بن حنبل : حصين بن عبد الرحمن الثقة المأمون من كبار أصحاب الحديث
اس روایت کو متعدد محدثین نے الگ الگ اسناد و طرق سے نقل کیا ہے اور درج بالا اضافے کو امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ناموں کی صراحت کے ساتھ نقل کیا ہے ان ناموں کی صراحت کو سنابلی صاحب نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کو ضعیف کرنے کے درج ذیل دلائل انہوں نے پیش کیے ہیں
دلیل 1:یہ روایت علی رضی اللہ عنہ سے دو طرق سے مروی ہے
پہلا طریق: عبداللہ بن معقل
دوسرا طریق: عبدالرحمن بن معقل
عبداللہ بن معقل سے اس کو درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے
ابو حصین عثمان بن عاصم
الحکم بن عتیبہ
سلمۃ بن کھیل
اس میں کسی نے بھی ان ناموں کی صراحت نہیں کی ہے
عبدالرحمن بن معقل سے درج ذیل لوگوں نے روایت کی ہے
سلمۃ بن کھیل
ابو الحسن عبید بن الحسن
حصین بن عبدالرحمن السلمی
اس میں حصین بن عبدالرحمن کے تین شاگردوں شریک بن عبدااللہ،شعبہ بن حجاج اور ھشیم بن بشیر نے روایت کیا ہے اور صرف ھشیم بن بشیر نے حصین بن عبدالرحمن سے روایت میں ان ناموں کی صراحت کی ہے۔
اور آخر میں اس سے نتیجہ نکالا ہے کہ ان تمام روایات میں صرف ھشیم بن بشیر نے ان ناموں کی صراحت کی ہے چنانچہ یہ روایت ایک جماعت کے خلاف ہے بلکہ عبدالرحمن بن حصین کے شیخ عبدالرحمن بن معقل کے دوشاگردوں سلمۃ بن کھیل اور ابو الحسن عبید بن الحسن کے بھی خلاف ہے اس لئے اس قدر مخالفتوں کے بعد تنہا اس روایت کو صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا ہے اس لئے راجح بات انشاء اللہ یہی ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ والی جس روایت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہے وہ شاذ یعنی ضعیف ہے
اب ہم اپ کے سامنے ترتیب وار ان تمام روایت کو رکھتے ہیں اوراس پر سنابلی صاحب کے شاذ موقف کا بھی رد پیش کریں گے
حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: «قَنَتَ بِنَا رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلِيٌّ وَأَبُو مُوسَى»(تھذیب الاثار رقم 619 1/359)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ السَّامِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: «قَنَتَ بِنَا رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيٌّ، وَأَبُو مُوسَى(تھذیب الاثار رقم617 1/359)
ان دونوں روایات کو پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسا یہ اسی سیاق وسباق کی روایات ہوں مگر ان دونوں روایات میں صرف یہ ذکر ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ قنوت پڑھا کرتے تھےاب اس میں تو ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر ہے تو کیا وہ بھی کسی پر بدعا کرتے تھے ان دونوں روایات کو بدعا والی روایات سے خلط ملط کیا گیا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ان روایات میں بھی قنوت کا ذکر تو ہے مگر بدعا تک کا ذکر نہیں ہےتاکہ ایسا محسوس ہو کہ واقعی ایک پوری جماعت کے خلاف صرف ایک نے ان ناموں کی صراحت کی ہے جبکہ جس کتاب سے شیخ سنابلی صاحب نے یہ دونوںروایات پیش کی ہے کہ ان روایات میں کسی کا نام نہیں ہے اسی کتاب میں موجود ایک روایت میں اس کا اشارہ موجود ہے کہ جو اس نام والی روایت کی تائید کرتی ہے روایت پیش ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ وَذَكَرَ صَلَاةً أُخْرَى، فَبَلَغَنِي أَنَّهُ، قَالَ: «وَفِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، يَدْعُو عَلَى أَعْدَاءٍ، لِأَنَّهُ كَانَ مُحَارِبًا»(تھذیب الاثاررقم 580 1/346)
ترجمہ:ابراہیم کہتے ہیں مجھے پہنچا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جن کے ساتھ حالت جنگ میں تھے ان پر بدعا کیا کرتے تھے۔
یہ روایت ھشیم کی روایت کی تائید کرتی ہے کہ وہ کون سے لوگ تھے جن پر جنگ کے دوران علی رضی اللہ عنہ بدعا کرتے تھےتو یہ دونوں روایات جو اس حوالے سے پیش کی گئی ہیں ان کا اس سیاق وسباق سے کوئی تعلق نہیں ہے اس میں فقط قنوت پڑھانے کا ذکر ہے جیسا اسی کتاب میں دوسرے اصحاب النبی (ابن عباس وغیرہ) کے بارے میں قنوت پڑھنےکا تذکرہ موجود ہے۔
عَنْ يَحْيَى، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ أَنَّ عَلِيًّا، «قَنَتَ فِي الْمَغْرِبِ فَدَعَا عَلَى نَاسٍ وَعَلَى أشْيَاعِهِمْ، وَقَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ(مصنف عبدالرزاق رقم 4976 3/113)
درج بالا تھذیب الاثار کی دونوں روایات اور اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ طریق صحیح و ثابت ہے اور اس میں کسی کے نام کی صراحت نہیں ہے جبکہ تھذیب الاثار کی پیش کردہ دونوں روایات کا اس سیاق و سباق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ سند جو مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے نقل کی ہے یہ ضعیف سند ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں اس میں ایک راوی یحیٰ ہے جو "يحيى بن العلاء البجلى ، أبو سلمة و يقال أبو عمرو ، الرازى" ان کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش ہیں
و قال أحمد بن حنبل : كذاب يضع الحديث .
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کذاب ہے حدیث گھڑتا ہے
و قال عباس الدورى ، عن يحيى بن معين : ليس بثقة .
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں ثقہ نہیں ہے
و قال عمرو بن على ، و النسائى ، و الدارقطنى : متروك الحديث
امام عمروبن علی، امام نسائی ،امام دارقطنی متروک الحدیث کہتے ہیں(تھذیب الکمال مزی رقم 6895 31/484)
تو جس طرق کو ثابت اور صحیح فرما رہے ہیں وہ ضعیف ہے
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: ثنا عَبْدُ اللهِ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ «قَنَتَ فِي الْمَغْرِبِ فَدَعَا عَلَى أُنَاسٍ وَعَلَى أَشْيَاعِهِمْ، وَقَنَتَ بَعْدَ الرَّكْعَة(الاوسط لابن المنذر رقم 2722 5/210)
اس روایت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس میں سلمۃ کھیل کی روایت میں کسی کے نام کی صراحت نہیں ہے
اور اس کی سند کو صحیح لکھا ہے جبکہ اس کے ایک راوی کو امام ذہبی نے الکاشف میں صدوق نقل کیا(رقم 3896 اگرچہ حافظ ابن حجر نے ثقہ کہا ہے مگر اس کو صدوق بھی کہا گیا ہے۔
دوئم اس میں عبداللہ ہیں جو کہ"عبد الله بن الوليد بن ميمون بن عبد الله القرشى الأموى" ہیں حافظ ابن حجر نے تقریب میں ان کو "صدوق ربما اخطا" " سچے ہیں کبھی کبھی غلطی کر جاتے ہیں"(6/70)
چنانچہ اس روایت میں بھی یہاں نام کی صراحت کرنے میں غلطی کر گئے ہیں جیسا عبدالرحمن بن معقل سے ان کے دو دوسرے شاگردوں نے جب ان(عبداللہ بن الولید) سے ذیادہ ثقہ اور حفظ والے رواۃ سے نقل کیا ہے اس میں ان ناموں کی صراحت موجود ہے جو روایات آگے آ رہی ہیں
چنانچہ اس روایت میں جو نام کی صراحت بیان نہیں ہوئی ہے وہ راوی کی خطا کی بنا پر ہے یہی وجہ ہے کہ سلمۃ بن کھیل کی روایت میں ناموں کی صراحت نہیں ہے جبکہ دیگر ثقہ اور حافظ رواۃ نے اس کا ذکر کیا ہے اس لئے وہ طرق اس کی نسبت ذیادہ محفوظ اور صحیح ہیں
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ يَقُولُ: شَهِدْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقْنُتُ فِي صَلَاةِ الْعَتَمَةِ أَوْ قَالَ: الْمَغْرِبِ بَعْدَ الرُّكُوعِ وَيَدْعُو فِي قُنُوتِهِ عَلَى خَمْسَةٍ وَسَمَّاهُم(سنن الکبریٰ بیہقی رقم 3325 2/347)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: ثنا شُعْبَةُ عَنْ عُبَيْدٍ [5] أَبِي الْحَسَنِ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ يَقُولُ: شَهِدْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَنَتَ فِي صَلَاةِ الْعَتْمَةِ بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو فِي قُنُوتِهِ عَلَى خَمْسَةِ رَهْطٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَأَبِي الْأَعْوَرِ.(المعرفۃ والتاریخ للفسوی3/135)
ان روایات کے تمام راوی ثقہ ہیں اس کو عبید بن الحسن سے شعبہ بن حجاج نے روایت کیا ہےاورانہوں نے ایک روایت میں ان کے ناموں کی صراحت کی ہے اور دوسرے میں ناموں کی صراحت نہیں کی ہے چنانچہ شیخ سنابلی صاحب ان روایات پر تنبیہ ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یعقوب فسوی نے عبیداللہ بن معاذ کے طریق سے اسی روایت کو نقل کیا تو معاویہ اور ابو الاعور کا نام ذکر کر دیا جبکہ سنن بیہقی میں ناموں کی صراحت نہیں ہے اسی طرح امام ذہبی نے جب امام ابوداؤد سے اس روایت کو نقل کیا تو انہوں نے بھی کسی نام کی صراحت نہیں کی ہے اس لئے یہی روایت محفوظ ہے
قارئین سنن بیہقی والی روایت تو ہم نے اپ کے سامنے پیش کردی امام ابوداؤد والا طریق بھی اپ کے سامنے رکھتے ہیں جس کو سنابلی صاحب نے تھذیب الاثار سے نقل کیا ہے اور اس کی علت بھی آپ پر واضح کریں گے
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَعْقِلٍ، يَقُولُ: «صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَنَت(تھذیب الاثار للطبری رقم 621 1/360)
اس روایت کو محفوظ فرما رہے ہیں جبکہ امام ابوداؤد جوکہ الطیالسی ہے ان کے بابت یہ معروف ہے کہ یہ حدیث میں غلطی کرتے تھے چنانچہ ان کے حوالے سے اقوال پیش ہیں
ابن حجر فرماتے ہیں : ثقة حافظ غلط فى أحاديث(تقریب التہذیب)
امام ذہبی فرماتے ہیں: الحافظ ، . . ، و مع ثقته ، فقال إبراهيم بن سعيد الجوهرى : أخطأ فى ألف حديث ، كذا قال(الکاشف للذہبی)
امام ابن سعد فرماتے ہیں: كان ثقة كثير الحديث ، و ربما غلط(تھذیب الکمال للمزی)
قال عبد الرحمن : و سمعت أبى يقول : أبو داود محدث صدوق كان كثير الخطأ(تھذیب التھذیب )
اور جو روایت امام ذہبی کے حوالے سے نقل کی ہے وہ بھی پیش کیے دیتے ہیں
معاذُ بن معَاذ، نَا شعبةُ، عَن عبيد أبي الْحسن، عَن عبد الله بن معقل
قَالَ: " شهدتُ عليا قنتَ فِي صلاةِ الفجرِ بعدَ الركوعِ، وَيَدْعُو فِي قنوته على خَمْسَة رهطٍ "(تنقیح التحقیق للذھبی 1/246)
اس میں نام موجود نہیں ہے مگر اسی کتاب میں امام ذہبی نے بھی جب امام ابوداؤد سے روایت نقل کی ہے تو اس میں پھر ابو الاعور کا نام ذکر کیا ہے روایت پیش ہے
أَبُو داودَ، نَا شُعْبَة، عَن حُصَيْن، عَن عبد الرَّحْمَن بن معقل قَالَ: " صليتُ خلف عَليّ المغربَ، فقنتَ يَدْعُو على أبي الأعورِ، وَغير واحدٍ "(حوالہ ایضا)
سنابلی صاحب جن امام ابوداؤد کی روایت کو محفوظ فرما رہے تھے اس میں بھی نام کی صراحت موجود ہے
چنانچہ ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں رواۃ نے خطا کی ہیں اور جب ان کو نام یاد آئے انہوں نے ذکر کر دیئے اور جب ان سے بھول یا نسیان ہوا تو ان ناموں کی صراحت کرنا بھول گئے چنانچہ اس حوالے سے چند روایت اور پیش ہیں جو سنابلی صاحب نے بھی نقل کی ہے اور آخر میں ایسے مضبوط طریق سے اس روایت کو پیش کریں گے جو رواۃ ان سب سے اوثق اور حفظ میں بہترین ہیں جنہوں نے ان ناموں کی صراحت کی ہے اور یہی روایت ہم نے سب سے پہلے مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کی تھی جس کو سنابلی صاحب بلاوجہ ضعیف فرما رہے تھے روایات پیش ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ، يَقُولُ: «صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الْمَغْرِبَ فَقَنَتَ وَدَعَا(شرح المعانی الاثار رقم 1498)
اس میں امام ابوداؤد ہیں اور انہوں نے اس میں ناموں کی صراحت نہیں کی ہے اور ان کے حوالے سے بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ غلطی کیا کرتے تھے
حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: «قَنَتَ عَلِيٌّ فِي الْمَغْرِب(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7057 2/109)
اس روایت میں صرف قنوت پڑھنے کا ذکر ہے دوئم اس میں" شریک" جو ہیں وہ "شریک بن عبداللہ ہیں اور یہ سیئی الحفظ ہیں اور ان کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش خدمت ہیں
شريك بن عبد الله بن أبى شريك النخعى
ابن حجر فرماتے ہیں:
صدوق يخطىء كثيرا(تقریب التھذیب)
قال يعقوب بن شيبة : شريك صدوق ثقة سىء الحفظ جدا .
و قال إبراهيم بن يعقوب الجوزجانى : شريك سىء الحظ ، مضطرب الحديث
قال عبد الرحمن بن أبى حاتم : سألت أبا زرعة عن شريك يحتج بحديثه ؟ قال : كان
كثير الخطأ ، صاحب وهم(تھذیب الکمال المزی )
قال الأزدى : كان صدوقا إلا أنه مائل عن القصد ، غالى المذهب ، سيىء الحفظ ،
كثير الوهم ، مضطرب الحديث .(تھذیب التھذیب)
شریک بن عبداللہ کے بارے میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کثرت سے غلطیاں کرنے والے خراب حافظے والے راوی ہیں اب مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو دوبارہ پیش کرتے ہیں اور پھر اس کے رواۃ کے بابت بیان کریں گے
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيٍّ صَلَاةَ الْغَدَاةِ، قَالَ: فَقَنَتَ، فَقَالَ فِي قُنُوتِهِ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَشْيَاعِهِ، وَأَبِي السُّلَمِيِّ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَأَشْيَاعِهِ»(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7050 باب تسمیۃ الرجل فی القنت کتاب الصلاۃ التطوع و الامامۃ)
اب اس روایت کے رواۃ کے بابت محدثین کے اقوال پیش کرتے ہیںاس سے قبل جتنی بھی روایات اس حوالے سے بیان ہوئی ہیں ان میں رواۃ نے کبھی ناموں کا تذکرہ کیا اور کبھی نہیں کیا چنانچہ ایک ایسی مضبوط روایت جو یا تو یہ ثابت کرے کہ اس میں ناموں کا تذکرہ کرنا غلطی ہے یا پھر واقعی ناموں کی صراحت درست ہے چنانچہ مندرجہ بالا روایت میں یہی ثابت ہے کہ ان روایات میں ناموں کی صراحت قطعی طور پر صحیح ہے اوریہ روایت سب سے اصح ہے اور اس کے راوی اوثق ہیں چنانچہ اس روایت کے رواۃ کی تفصیل درج ذیل ہے
ھشیم بن بشیر القاسم بن دینار السلمی:
ابن حجر فرماتے ہیں
ثقة ثبت كثير التدليس و الإرسال الخفى
امام ذہبی فرماتے ہیں
حافظ بغداد ، إمام ثقة ، مدلس
قال عبد الرحمن بن مهدي كان هشيم أحفظ للحديث من سفيان الثوري (تاریخ بغداد 16/130
عبدالرحمن بن مھدی فرماتے ہیں :ھشیم سفیان ثوری سے بھی ذیادہ حدیث کا حافط ہے
قَالَ أَحْمد لَيْسَ أحد أصح حَدِيثا عَن حُصَيْن من هشيم(سوالات ابوداودللاحمد بن حنبل رقم443 1/323)
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: حصین سے حدیث بیان کرنے میں ھشہم سے زیادہ صحیح کوئی بھی نہیں
قال أحمد بن عبد الله العجلى : هشيم واسطى ثقة ، و كان يدلس .
ابن المبارك : من غير الدهر حفظه ، فلم يغير حفظ هشيم .
ابن مبارک فرماتے ہیں: وقت کے ساتھ حافظہ ہر جو اثرات ہوتے ہیں ھشیم کے حفظ پر وہ بھی نہیں ہوئے تھے۔
ان اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ ھشیم بن بشیر کس پائے کے راوی تھے اور ان کے مقابلے پر دیگر رواۃ کے اقوال اپ پڑھ ہی چکے ہیں جس کے قریب بھی تغیر نہیں گزرا جو سفیان ثوری جیسے راوی کے ہم پلہ ہوں اس کے مقابلے پر سیئی الحفظ اور غلطیاں کرنے والے رواۃ کی روایت کو صحیح کہناجبکہ وہ اس قدر خطا پر مبنی تھے کہ کبھی ناموں کی صراحت کرتے اور کبھی اس کو بیان کرنا بھول جاتے تھے یہ کس اصول حدیث کے تحت ہے یہ خود بیان کریں تو بہتر ہے ھشیم بن بشیر نے حصین سے روایت کی ہے اور یہ حصین بن عبدالرحمن السلمی ہیں ان کے بارے میں محدثٰن کے اقوال پڑھ لیں
ابن حجر فرماتے ہیں:
ثقة تغير حفظه فى الآخر
امام ذہبی فرماتے ہیں
ثقة حجة
قال عبد الرحمن بن أبى حاتم : سألت أبا زرعة عنه ، فقال : ثقة
قال أحمد بن عبد الله العجلى : كوفى ثقة ثبت فى الحديث
أحمد بن حنبل : حصين بن عبد الرحمن الثقة المأمون من كبار أصحاب الحديث
ان تمام دلائل اور رواۃ کے احوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت جس میں ناموں کی صراحت ہے یہ ان تمام کی تائید کرتی ہے کہ ان میں ناموں کی صراحت موجود ہے اور اس کو ضعیف و شاذ کہنے کا سنابلی صاحب کا موقف ازخود ضعیف وشاذ ہے۔واللہ اعلم