• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علی رضی اللہ عنہ کا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ پر بدعا کرنا بسند صحیح

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيٍّ صَلَاةَ الْغَدَاةِ، قَالَ: فَقَنَتَ، فَقَالَ فِي قُنُوتِهِ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَشْيَاعِهِ، وَأَبِي السُّلَمِيِّ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَأَشْيَاعِهِ»(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7050 باب تسمیۃ الرجل فی القنت کتاب الصلاۃ التطوع و الامامۃ)

شیخ سنابلی کی تحقیق اور اس کا تعاقب
اس روایت کو متعدد محدثین نے الگ الگ اسناد و طرق سے نقل کیا ہے اور درج بالا اضافے کو امام ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ناموں کی صراحت کے ساتھ نقل کیا ہے ان ناموں کی صراحت کو سنابلی صاحب نے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کو ضعیف کرنے کے درج ذیل دلائل انہوں نے پیش کیے ہیں
دلیل 1:یہ روایت علی رضی اللہ عنہ سے دو طرق سے مروی ہے
پہلا طریق: عبداللہ بن معقل
دوسرا طریق: عبدالرحمن بن معقل
عبداللہ بن معقل سے اس کو درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے
ابو حصین عثمان بن عاصم
الحکم بن عتیبہ
سلمۃ بن کھیل
اس میں کسی نے بھی ان ناموں کی صراحت نہیں کی ہے
عبدالرحمن بن معقل سے درج ذیل لوگوں نے روایت کی ہے
سلمۃ بن کھیل
ابو الحسن عبید بن الحسن
حصین بن عبدالرحمن السلمی
اس میں حصین بن عبدالرحمن کے تین شاگردوں شریک بن عبدااللہ،شعبہ بن حجاج اور ھشیم بن بشیر نے روایت کیا ہے اور صرف ھشیم بن بشیر نے حصین بن عبدالرحمن سے روایت میں ان ناموں کی صراحت کی ہے۔
اور آخر میں اس سے نتیجہ نکالا ہے کہ ان تمام روایات میں صرف ھشیم بن بشیر نے ان ناموں کی صراحت کی ہے چنانچہ یہ روایت ایک جماعت کے خلاف ہے بلکہ عبدالرحمن بن حصین کے شیخ عبدالرحمن بن معقل کے دوشاگردوں سلمۃ بن کھیل اور ابو الحسن عبید بن الحسن کے بھی خلاف ہے اس لئے اس قدر مخالفتوں کے بعد تنہا اس روایت کو صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا ہے اس لئے راجح بات انشاء اللہ یہی ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ والی جس روایت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہے وہ شاذ یعنی ضعیف ہے
اب ہم اپ کے سامنے ترتیب وار ان تمام روایت کو رکھتے ہیں اوراس پر سنابلی صاحب کے شاذ موقف کا بھی رد پیش کریں گے

حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: «
قَنَتَ بِنَا رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَلِيٌّ وَأَبُو مُوسَى»(تھذیب الاثار رقم 619 1/359)

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ السَّامِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ
مَعْقِلٍ، قَالَ: «قَنَتَ بِنَا رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيٌّ، وَأَبُو مُوسَى(تھذیب الاثار رقم617 1/359)

ان دونوں روایات کو پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسا یہ اسی سیاق وسباق کی روایات ہوں مگر ان دونوں روایات میں صرف یہ ذکر ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ قنوت پڑھا کرتے تھےاب اس میں تو ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کا بھی ذکر ہے تو کیا وہ بھی کسی پر بدعا کرتے تھے ان دونوں روایات کو بدعا والی روایات سے خلط ملط کیا گیا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ان روایات میں بھی قنوت کا ذکر تو ہے مگر بدعا تک کا ذکر نہیں ہےتاکہ ایسا محسوس ہو کہ واقعی ایک پوری جماعت کے خلاف صرف ایک نے ان ناموں کی صراحت کی ہے جبکہ جس کتاب سے شیخ سنابلی صاحب نے یہ دونوںروایات پیش کی ہے کہ ان روایات میں کسی کا نام نہیں ہے اسی کتاب میں موجود ایک روایت میں اس کا اشارہ موجود ہے کہ جو اس نام والی روایت کی تائید کرتی ہے روایت پیش ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ وَذَكَرَ صَلَاةً أُخْرَى، فَبَلَغَنِي أَنَّهُ، قَالَ: «وَفِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، يَدْعُو عَلَى أَعْدَاءٍ، لِأَنَّهُ كَانَ مُحَارِبًا»(تھذیب الاثاررقم 580 1/346)

ترجمہ:ابراہیم کہتے ہیں مجھے پہنچا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جن کے ساتھ حالت جنگ میں تھے ان پر بدعا کیا کرتے تھے۔

یہ روایت ھشیم کی روایت کی تائید کرتی ہے کہ وہ کون سے لوگ تھے جن پر جنگ کے دوران علی رضی اللہ عنہ بدعا کرتے تھےتو یہ دونوں روایات جو اس حوالے سے پیش کی گئی ہیں ان کا اس سیاق وسباق سے کوئی تعلق نہیں ہے اس میں فقط قنوت پڑھانے کا ذکر ہے جیسا اسی کتاب میں دوسرے اصحاب النبی (ابن عباس وغیرہ) کے بارے میں قنوت پڑھنےکا تذکرہ موجود ہے۔

عَنْ يَحْيَى، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ أَنَّ عَلِيًّا،
«قَنَتَ فِي الْمَغْرِبِ فَدَعَا عَلَى نَاسٍ وَعَلَى أشْيَاعِهِمْ، وَقَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ(مصنف عبدالرزاق رقم 4976 3/113)

درج بالا تھذیب الاثار کی دونوں روایات اور اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ طریق صحیح و ثابت ہے اور اس میں کسی کے نام کی صراحت نہیں ہے جبکہ تھذیب الاثار کی پیش کردہ دونوں روایات کا اس سیاق و سباق سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ سند جو مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے نقل کی ہے یہ ضعیف سند ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں اس میں ایک راوی یحیٰ ہے جو "
يحيى بن العلاء البجلى ، أبو سلمة و يقال أبو عمرو ، الرازى" ان کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش ہیں

و قال أحمد بن حنبل : كذاب يضع الحديث .
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کذاب ہے حدیث گھڑتا ہے
و قال عباس الدورى ، عن يحيى بن معين : ليس بثقة .
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں ثقہ نہیں ہے
و قال عمرو بن على ، و النسائى ، و الدارقطنى : متروك الحديث

امام عمروبن علی، امام نسائی ،امام دارقطنی متروک الحدیث کہتے ہیں(تھذیب الکمال مزی رقم 6895 31/484)
تو جس طرق کو ثابت اور صحیح فرما رہے ہیں وہ ضعیف ہے

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: ثنا عَبْدُ اللهِ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ «قَنَتَ فِي الْمَغْرِبِ فَدَعَا عَلَى أُنَاسٍ وَعَلَى أَشْيَاعِهِمْ، وَقَنَتَ بَعْدَ الرَّكْعَة(الاوسط لابن المنذر رقم 2722 5/210)

اس روایت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس میں سلمۃ کھیل کی روایت میں کسی کے نام کی صراحت نہیں ہے
اور اس کی سند کو صحیح لکھا ہے جبکہ اس کے ایک راوی کو امام ذہبی نے الکاشف میں صدوق نقل کیا(رقم 3896 اگرچہ حافظ ابن حجر نے ثقہ کہا ہے مگر اس کو صدوق بھی کہا گیا ہے۔

دوئم اس میں عبداللہ ہیں جو کہ"
عبد الله بن الوليد بن ميمون بن عبد الله القرشى الأموى" ہیں حافظ ابن حجر نے تقریب میں ان کو "صدوق ربما اخطا" " سچے ہیں کبھی کبھی غلطی کر جاتے ہیں"(6/70)
چنانچہ اس روایت میں بھی یہاں نام کی صراحت کرنے میں غلطی کر گئے ہیں جیسا عبدالرحمن بن معقل سے ان کے دو دوسرے شاگردوں نے جب ان(عبداللہ بن الولید) سے ذیادہ ثقہ اور حفظ والے رواۃ سے نقل کیا ہے اس میں ان ناموں کی صراحت موجود ہے جو روایات آگے آ رہی ہیں

چنانچہ اس روایت میں جو نام کی صراحت بیان نہیں ہوئی ہے وہ راوی کی خطا کی بنا پر ہے یہی وجہ ہے کہ سلمۃ بن کھیل کی روایت میں ناموں کی صراحت نہیں ہے جبکہ دیگر ثقہ اور حافظ رواۃ نے اس کا ذکر کیا ہے اس لئے وہ طرق اس کی نسبت ذیادہ محفوظ اور صحیح ہیں
وَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، ثنا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ يَقُولُ: شَهِدْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقْنُتُ فِي صَلَاةِ الْعَتَمَةِ أَوْ قَالَ: الْمَغْرِبِ بَعْدَ الرُّكُوعِ وَيَدْعُو فِي قُنُوتِهِ عَلَى خَمْسَةٍ وَسَمَّاهُم(سنن الکبریٰ بیہقی رقم 3325 2/347)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: ثنا شُعْبَةُ عَنْ عُبَيْدٍ [5] أَبِي الْحَسَنِ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ يَقُولُ: شَهِدْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَنَتَ فِي صَلَاةِ الْعَتْمَةِ بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو فِي قُنُوتِهِ عَلَى خَمْسَةِ رَهْطٍ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَأَبِي الْأَعْوَرِ.(المعرفۃ والتاریخ للفسوی3/135)
ان روایات کے تمام راوی ثقہ ہیں اس کو عبید بن الحسن سے شعبہ بن حجاج نے روایت کیا ہےاورانہوں نے ایک روایت میں ان کے ناموں کی صراحت کی ہے اور دوسرے میں ناموں کی صراحت نہیں کی ہے چنانچہ شیخ سنابلی صاحب ان روایات پر تنبیہ ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یعقوب فسوی نے عبیداللہ بن معاذ کے طریق سے اسی روایت کو نقل کیا تو معاویہ اور ابو الاعور کا نام ذکر کر دیا جبکہ سنن بیہقی میں ناموں کی صراحت نہیں ہے اسی طرح امام ذہبی نے جب امام ابوداؤد سے اس روایت کو نقل کیا تو انہوں نے بھی کسی نام کی صراحت نہیں کی ہے اس لئے یہی روایت محفوظ ہے
قارئین سنن بیہقی والی روایت تو ہم نے اپ کے سامنے پیش کردی امام ابوداؤد والا طریق بھی اپ کے سامنے رکھتے ہیں جس کو سنابلی صاحب نے تھذیب الاثار سے نقل کیا ہے اور اس کی علت بھی آپ پر واضح کریں گے

حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَعْقِلٍ، يَقُولُ: «
صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَنَت(تھذیب الاثار للطبری رقم 621 1/360)
اس روایت کو محفوظ فرما رہے ہیں جبکہ امام ابوداؤد جوکہ الطیالسی ہے ان کے بابت یہ معروف ہے کہ یہ حدیث میں غلطی کرتے تھے چنانچہ ان کے حوالے سے اقوال پیش ہیں
ابن حجر فرماتے ہیں :
ثقة حافظ غلط فى أحاديث(تقریب التہذیب)
امام ذہبی فرماتے ہیں: الحافظ ، . . ، و مع ثقته ، فقال إبراهيم بن سعيد الجوهرى : أخطأ فى ألف حديث ، كذا قال(الکاشف للذہبی)
امام ابن سعد فرماتے ہیں: كان ثقة كثير الحديث ، و ربما غلط(تھذیب الکمال للمزی)
قال عبد الرحمن : و سمعت أبى يقول : أبو داود محدث صدوق كان كثير الخطأ(تھذیب التھذیب )

اور جو روایت امام ذہبی کے حوالے سے نقل کی ہے وہ بھی پیش کیے دیتے ہیں


معاذُ بن معَاذ، نَا شعبةُ، عَن عبيد أبي الْحسن، عَن عبد الله بن معقل
قَالَ: " شهدتُ عليا قنتَ فِي صلاةِ الفجرِ بعدَ الركوعِ، وَيَدْعُو فِي قنوته على خَمْسَة رهطٍ "
(تنقیح التحقیق للذھبی 1/246)

اس میں نام موجود نہیں ہے مگر اسی کتاب میں امام ذہبی نے بھی جب امام ابوداؤد سے روایت نقل کی ہے تو اس میں پھر ابو الاعور کا نام ذکر کیا ہے روایت پیش ہے

أَبُو داودَ، نَا شُعْبَة، عَن حُصَيْن، عَن عبد الرَّحْمَن بن معقل قَالَ: " صليتُ خلف عَليّ المغربَ، فقنتَ يَدْعُو على أبي الأعورِ، وَغير واحدٍ "
(حوالہ ایضا)
سنابلی صاحب جن امام ابوداؤد کی روایت کو محفوظ فرما رہے تھے اس میں بھی نام کی صراحت موجود ہے
چنانچہ ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں رواۃ نے خطا کی ہیں اور جب ان کو نام یاد آئے انہوں نے ذکر کر دیئے اور جب ان سے بھول یا نسیان ہوا تو ان ناموں کی صراحت کرنا بھول گئے چنانچہ اس حوالے سے چند روایت اور پیش ہیں جو سنابلی صاحب نے بھی نقل کی ہے اور آخر میں ایسے مضبوط طریق سے اس روایت کو پیش کریں گے جو رواۃ ان سب سے اوثق اور حفظ میں بہترین ہیں جنہوں نے ان ناموں کی صراحت کی ہے اور یہی روایت ہم نے سب سے پہلے مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کی تھی جس کو سنابلی صاحب بلاوجہ ضعیف فرما رہے تھے روایات پیش ہیں

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ، قَالَ: ثنا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَعْقِلٍ، يَقُولُ: «صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ الْمَغْرِبَ فَقَنَتَ وَدَعَا(شرح المعانی الاثار رقم 1498)
اس میں امام ابوداؤد ہیں اور انہوں نے اس میں ناموں کی صراحت نہیں کی ہے اور ان کے حوالے سے بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ غلطی کیا کرتے تھے


حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ، قَالَ: «قَنَتَ عَلِيٌّ فِي الْمَغْرِب(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7057 2/109)
اس روایت میں صرف قنوت پڑھنے کا ذکر ہے دوئم اس میں" شریک" جو ہیں وہ "شریک بن عبداللہ ہیں اور یہ سیئی الحفظ ہیں اور ان کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش خدمت ہیں

شريك بن عبد الله بن أبى شريك النخعى
ابن حجر فرماتے ہیں:
صدوق يخطىء كثيرا(تقریب التھذیب)
قال يعقوب بن شيبة : شريك صدوق ثقة سىء الحفظ جدا .
و قال إبراهيم بن يعقوب الجوزجانى : شريك سىء الحظ ، مضطرب الحديث
قال عبد الرحمن بن أبى حاتم : سألت أبا زرعة عن شريك يحتج بحديثه ؟ قال : كان
كثير الخطأ ، صاحب وهم
(تھذیب الکمال المزی )
قال الأزدى : كان صدوقا إلا أنه مائل عن القصد ، غالى المذهب ، سيىء الحفظ ،
كثير الوهم ، مضطرب الحديث .
(تھذیب التھذیب)


شریک بن عبداللہ کے بارے میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کثرت سے غلطیاں کرنے والے خراب حافظے والے راوی ہیں اب مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو دوبارہ پیش کرتے ہیں اور پھر اس کے رواۃ کے بابت بیان کریں گے

حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيٍّ صَلَاةَ الْغَدَاةِ، قَالَ: فَقَنَتَ، فَقَالَ فِي قُنُوتِهِ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَشْيَاعِهِ، وَأَبِي السُّلَمِيِّ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَأَشْيَاعِهِ»(مصنف ابن ابی شیبہ رقم7050 باب تسمیۃ الرجل فی القنت کتاب الصلاۃ التطوع و الامامۃ)
اب اس روایت کے رواۃ کے بابت محدثین کے اقوال پیش کرتے ہیںاس سے قبل جتنی بھی روایات اس حوالے سے بیان ہوئی ہیں ان میں رواۃ نے کبھی ناموں کا تذکرہ کیا اور کبھی نہیں کیا چنانچہ ایک ایسی مضبوط روایت جو یا تو یہ ثابت کرے کہ اس میں ناموں کا تذکرہ کرنا غلطی ہے یا پھر واقعی ناموں کی صراحت درست ہے چنانچہ مندرجہ بالا روایت میں یہی ثابت ہے کہ ان روایات میں ناموں کی صراحت قطعی طور پر صحیح ہے اوریہ روایت سب سے اصح ہے اور اس کے راوی اوثق ہیں چنانچہ اس روایت کے رواۃ کی تفصیل درج ذیل ہے

ھشیم بن بشیر القاسم بن دینار السلمی:
ابن حجر فرماتے ہیں

ثقة ثبت كثير التدليس و الإرسال الخفى
امام ذہبی فرماتے ہیں
حافظ بغداد ، إمام ثقة ، مدلس

قال عبد الرحمن بن مهدي كان هشيم أحفظ للحديث من سفيان الثوري (تاریخ بغداد 16/130
عبدالرحمن بن مھدی فرماتے ہیں :ھشیم سفیان ثوری سے بھی ذیادہ حدیث کا حافط ہے

قَالَ أَحْمد لَيْسَ أحد أصح حَدِيثا عَن حُصَيْن من هشيم(سوالات ابوداودللاحمد بن حنبل رقم443 1/323)
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: حصین سے حدیث بیان کرنے میں ھشہم سے زیادہ صحیح کوئی بھی نہیں
قال أحمد بن عبد الله العجلى : هشيم واسطى ثقة ، و كان يدلس .
ابن المبارك : من غير الدهر حفظه ، فلم يغير حفظ هشيم .

ابن مبارک فرماتے ہیں: وقت کے ساتھ حافظہ ہر جو اثرات ہوتے ہیں ھشیم کے حفظ پر وہ بھی نہیں ہوئے تھے۔
ان اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ ھشیم بن بشیر کس پائے کے راوی تھے اور ان کے مقابلے پر دیگر رواۃ کے اقوال اپ پڑھ ہی چکے ہیں جس کے قریب بھی تغیر نہیں گزرا جو سفیان ثوری جیسے راوی کے ہم پلہ ہوں اس کے مقابلے پر سیئی الحفظ اور غلطیاں کرنے والے رواۃ کی روایت کو صحیح کہناجبکہ وہ اس قدر خطا پر مبنی تھے کہ کبھی ناموں کی صراحت کرتے اور کبھی اس کو بیان کرنا بھول جاتے تھے یہ کس اصول حدیث کے تحت ہے یہ خود بیان کریں تو بہتر ہے ھشیم بن بشیر نے حصین سے روایت کی ہے اور یہ حصین بن عبدالرحمن السلمی ہیں ان کے بارے میں محدثٰن کے اقوال پڑھ لیں
ابن حجر فرماتے ہیں:

ثقة تغير حفظه فى الآخر
امام ذہبی فرماتے ہیں
ثقة حجة
قال عبد الرحمن بن أبى حاتم : سألت أبا زرعة عنه ، فقال : ثقة
قال أحمد بن عبد الله العجلى : كوفى ثقة ثبت فى الحديث
أحمد بن حنبل : حصين بن عبد الرحمن الثقة المأمون من كبار أصحاب الحديث

ان تمام دلائل اور رواۃ کے احوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت جس میں ناموں کی صراحت ہے یہ ان تمام کی تائید کرتی ہے کہ ان میں ناموں کی صراحت موجود ہے اور اس کو ضعیف و شاذ کہنے کا سنابلی صاحب کا موقف ازخود ضعیف وشاذ ہے۔واللہ اعلم
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
اگر صحیح مان بھی لیں تو کم سے کم یہی بنتا ہے کہ علی رضہ کی بد دعا سے معاویہ رضہ کو خلافت مل گئی۔۔۔بلاشبہ خلافت کا وزن بہت زیادہ ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
علی رضی الله عنہ و معاویہ رضی الله عنہ دونوں بلند پایا اصحاب رسول ہیں- یہ ممکن نہیں کہ دونوں ایک دوسرے پر لعنت ملامت کریں. سیاسی اختلافات کو ہوا دینا صرف منافقین کا کام ہے جو ہر دور موجود رہے ہیں-

جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ نے دونوں جانب کے مقتول سپاہیوں کی نماز جنازہ ادا کی ۔۔۔۔۔۔۔ وجہ یہ تھی کہ علی رضی الله عنہ کو یقین ہوگیا تھا کہ ان کے اصحاب جو زیادہ تر کوفی ہیں ایک دن ان کی کشتی بھی ڈبوئیں گے اسی لیے علی رضی الله عنہ نے ان کو خطبہ دیا کہ وقت آنے پر وہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت قبول کرلیں (تا کہ آپس کی مزید جنگ و جدل سے محفوظ رہا جا سکے) ۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں :

عن الحارث قال لما رجع علی من صفین علم انہ لا یملک ابداۤ فتکلم اشیاء کان لایتکلم بھا و حدث بحدیث کان لا یتحدث بھا فقال فیما یقول ایھا الناس لا تکَرھوا امارۃ معاویہ فو اللہ لو قد فقدتمــوہ لقد رأتیم الرؤس تنزوا عن کوایلھا کالحنظل۔ (ازالۃ الخفا:ج۔ جلد 2۔ صفحہ 283)

الحارث سے روایت ہے انھوں نے کہا صفین سے لوٹتے وقت ، حضرت علی رضی الله عنہ نے جان لیا تھا کہ اب وہ کبھی حکمران نہ رہیں گے تو ایسے کلمات انھوں نے کہے جو پہلے کبھی نہ کہے تھے اور ایسی باتیں کہیں جو پہلے کبھی نہ کہیں منجملہ ان باتوں کے انھوں نے فرمایا: لوگو ! معاویہ رضی الله عنہ کی امارت (خلافت) سے تم کراہیت مت کرنا ان کو بھی اگر تم کھو بیٹھے تو تم دیکھو گے کہ مونڈھوں پر سے سر کٹ کٹ کر اس طرح گریں گے جیسے حنظل کے پھل۔" (البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ١٣١، نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ٣ صفحہ ٣٦- حکم صحیح)۔۔۔

مالك الأشتر النخعي حضرت علی رضی عنہ کے مشھور اصحاب میں سے تھا اور ایک فتنہ پرور شخص تھا- بعض روایت سے ثابت ہے کہ یہ پہلا شخص تھا جس نے علی رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی- اسی کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے صفین و جمل کے اندوہناک واقعیات پیش آے جس میں ہزاروں اصحاب رسول بے گناہ شہید ہوے علی رضی الله عنہ جان چکے تھے کہ اس منافق سے جن سے جان چھڑانا آسان نہیں- تب ہی فرمایا- لوگو ! معاویہ رضی الله عنہ کی امارت (خلافت) سے تم کراہیت مت کرنا-

کہتے ہیں تاریخ کبھی نہ کبھی اپنے آپ کو دہراتی ہے- اسی مالك الأشتر النخعي کے بیٹے ابراہیم لأشتر النخعي نے ٢١-٢٢ سال بعد علی رضی الله عنہ کے فرزند حسین رضی الله عنہ کو خلافت کا لالچ دے کر ورغنلانے کی مذموم کوشش کی اور ایک بار پھر اپنے باپ مالك الأشتر کی روش پر چلتے ہوے حسین رضی الله عنہ کو دھوکہ دیا -جیسے اس نے علی رضی الله عنہ کو دھوکہ دیا- اور حسین رضی الله عنہ کو جب اندازہ ہو گیا کہ کوفی سرغنہ ابراہیم لأشتر نے ان کو دھوکہ دیا ہے تو بہت دیر ہو چکی تھی اور حسین رضی الله عنہ عالم بے چارگی میں شہید کردئیے گئے- (اللہ حسین و علی رضی الله عنہ کو جنّت میں اعلی مقام عطا کرے-(آمین)
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
علی رضی الله عنہ و معاویہ رضی الله عنہ دونوں بلند پایا اصحاب رسول ہیں- یہ ممکن نہیں کہ دونوں ایک دوسرے پر لعنت ملامت کریں. سیاسی اختلافات کو ہوا دینا صرف منافقین کا کام ہے جو ہر دور موجود رہے ہیں-
محترم،
محمدعلی جواد
جب سند صحیح ہو تو کوئی اشکال نہیں رہتا ہے علی رضی اللہ عنہ لعنت ملامت نہیں روایات کی رو سے سنت طریقہ پر قنوت میں بدعا کیا کرتے تھے جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں منبروں پر لعنت کی جاتی تھی اور خاص طور پر مروان ملون تو کرتا تھا۔اس لئے آپ دعوی ہی غلط ہے کہ ایسا منافقین کی وجہ سے ہوا ہے اگر منافقین کی وجہ سے تھا تو معاویہ رضی اللہ عنہ صلح کیوں نہ کر لی اور اس منافقین کو موقع ہی نہ دیتے
یہاں تک کہ جب ان پر یہ بھی واضح ہو گیا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ قتل کرے گا اس حدیث کو سن کر بھی علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی۔

جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ نے دونوں جانب کے مقتول سپاہیوں کی نماز جنازہ ادا کی ۔۔۔۔۔۔۔ وجہ یہ تھی کہ علی رضی الله عنہ کو یقین ہوگیا تھا کہ ان کے اصحاب جو زیادہ تر کوفی ہیں ایک دن ان کی کشتی بھی ڈبوئیں گے اسی لیے علی رضی الله عنہ نے ان کو خطبہ دیا کہ وقت آنے پر وہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت قبول کرلیں (تا کہ آپس کی مزید جنگ و جدل سے محفوظ رہا جا سکے) ۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں :

عن الحارث قال لما رجع علی من صفین علم انہ لا یملک ابداۤ فتکلم اشیاء کان لایتکلم بھا و حدث بحدیث کان لا یتحدث بھا فقال فیما یقول ایھا الناس لا تکَرھوا امارۃ معاویہ فو اللہ لو قد فقدتمــوہ لقد رأتیم الرؤس تنزوا عن کوایلھا کالحنظل۔ (ازالۃ الخفا:ج۔ جلد 2۔ صفحہ 283)

الحارث سے روایت ہے انھوں نے کہا صفین سے لوٹتے وقت ، حضرت علی رضی الله عنہ نے جان لیا تھا کہ اب وہ کبھی حکمران نہ رہیں گے تو ایسے کلمات انھوں نے کہے جو پہلے کبھی نہ کہے تھے اور ایسی باتیں کہیں جو پہلے کبھی نہ کہیں منجملہ ان باتوں کے انھوں نے فرمایا: لوگو ! معاویہ رضی الله عنہ کی امارت (خلافت) سے تم کراہیت مت کرنا ان کو بھی اگر تم کھو بیٹھے تو تم دیکھو گے کہ مونڈھوں پر سے سر کٹ کٹ کر اس طرح گریں گے جیسے حنظل کے پھل۔" (البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ١٣١، نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ٣ صفحہ ٣٦- حکم صحیح
محترم اسی لئے اپ سے عرض کرتا ہون محمود احمد ناصبی کی کتابوں کے سحر سے باہر آئیں الحارث ضعیف راوی ہے اور اس کی سند دیکھیں گے تو اس میں مجالد بھی موجود ہے اس میں بھی ضعف ہے تو اگر علی رضی اللہ عنہ صفین سے واپسی پر ہی یہ مان لیا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت صحیح ہے تو زندگی بھر ان سے جنگ نہ کرتے اور ان کی امارت ہی تسلیم کر لیتے یا اپنی وفات کے وقت ہی فرما دیتے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مان لو کیا بات ہے جناب کی۔

مالك الأشتر النخعي حضرت علی رضی عنہ کے مشھور اصحاب میں سے تھا اور ایک فتنہ پرور شخص تھا- بعض روایت سے ثابت ہے کہ یہ پہلا شخص تھا جس نے علی رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی- اسی کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے صفین و جمل کے اندوہناک واقعیات پیش آے جس میں ہزاروں اصحاب رسول بے گناہ شہید ہوے علی رضی الله عنہ جان چکے تھے کہ اس منافق سے جن سے جان چھڑانا آسان نہیں- تب ہی فرمایا- لوگو ! معاویہ رضی الله عنہ کی امارت (خلافت) سے تم کراہیت مت کرنا-

مالک اشتر فتنہ پرور تھا اور مروان نیک متقی اور منبر پر علی رضی اللہ عنہ کی شان بیان کرنے والا کیوں جی؟
یہ جنگ جمل اور صفین یہاں تک کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں بھی اس ملون کا بڑا ہاتھ تھا اس نے ہی اہل مصر والا وہ حکم بدل دیا تھا جس میں عثمان رضِ اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر کو مصر کا والی بنانے کا حکم دیا تھا اس خبیث نے اس کو بدل دیا اور اہل مصر واپس آئے تھے اور انہوں نے جب وہ خط عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھایا تو انہوں نے منع کیا کہ یہ میں نے نہیں لکھا ہے اور وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ مراوان کی شرارت ہے مگر انہوں نے اپنے داماد کو بچا لیا اور یہ صحیح سند سے ثابت ہے
پھر اسی نے جنگ جمل کے لئے زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہ کو اکسایا اور اماں عائشہ کو انہوں نے جمل کے لئے تیار کیا تاکہ کہی عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا کیس چلا تو اس خط کے بارےمیں سوال ہو گا کہ جب وہ عثمان رضی اللہ عنہ نے نہیں لکھا تو کس نے لکھا تھا اور یہ خبیث پکڑا جاتا جنگ جمل میں بھی صلح ہو گئی تھی زبیر رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنھما واپس ہو گئے تو اس عین اس وقت نیزا مار کر جنگ کو اور بھڑکا دیا تو یہ جنگ جمل اور صفین اس مروان کا کارنامہ ہے جو منبر پر علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں نکالتا تھا اس کو سیدنا اور امیر لکھتے ہو تو پھر کس منہ سے رافضیوں کو برا کہتے ہو کیا علی رضی اللہ عنہ صحابی نہیں تھے کیا ان کو برسرمنبر گالیاں دینے وال خبیث تمہارا سردار ہےاس لئے آپ دعا کرو اپ اپنے قیامت کے دن اپنے اس سردار کے ساتھ ہو اور میں دعا کرتا ہوں میں جنت کے نوجوانوں کے سردار کے ساتھ ہوں


کہتے ہیں تاریخ کبھی نہ کبھی اپنے آپ کو دہراتی ہے- اسی مالك الأشتر النخعي کے بیٹے ابراہیم لأشتر النخعي نے ٢١-٢٢ سال بعد علی رضی الله عنہ کے فرزند حسین رضی الله عنہ کو خلافت کا لالچ دے کر ورغنلانے کی مذموم کوشش کی اور ایک بار پھر اپنے باپ مالك الأشتر کی روش پر چلتے ہوے حسین رضی الله عنہ کو دھوکہ دیا -جیسے اس نے علی رضی الله عنہ کو دھوکہ دیا- اور حسین رضی الله عنہ کو جب اندازہ ہو گیا کہ کوفی سرغنہ ابراہیم لأشتر نے ان کو دھوکہ دیا ہے تو بہت دیر ہو چکی تھی اور حسین رضی الله عنہ عالم بے چارگی میں شہید کردئیے گئے- (اللہ حسین و علی رضی الله عنہ کو جنّت میں اعلی مقام عطا کرے-(آمین)
اور حسین رضی اللہ عنہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے کوفہ نہیں گئے تھے بلکہ پختہ ارادے اور نیت سے گئے تھے اور ان کے جانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی حمایت تھی اور ان کو کوئی افسوس نہیں تھا اور ان کو شہید ابن زیاد نے کروایا تھا اور عمرو بن سعد نے شہید کیا تھا اس کا ثبوت خود سنابلی صاحب کی کتاب میں موجود ہے اللہ ہدایت دے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
ایک سوال ہے میرا اس روایت کی "سند" سے قطع نظر، کیا یہ "بد دعا" قبول ہوئی تھی؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم،
محمدعلی جواد
جب سند صحیح ہو تو کوئی اشکال نہیں رہتا ہے علی رضی اللہ عنہ لعنت ملامت نہیں روایات کی رو سے سنت طریقہ پر قنوت میں بدعا کیا کرتے تھے جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں منبروں پر لعنت کی جاتی تھی اور خاص طور پر مروان ملون تو کرتا تھا۔اس لئے آپ دعوی ہی غلط ہے کہ ایسا منافقین کی وجہ سے ہوا ہے اگر منافقین کی وجہ سے تھا تو معاویہ رضی اللہ عنہ صلح کیوں نہ کر لی اور اس منافقین کو موقع ہی نہ دیتے
یہاں تک کہ جب ان پر یہ بھی واضح ہو گیا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ قتل کرے گا اس حدیث کو سن کر بھی علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی۔

محترم اسی لئے اپ سے عرض کرتا ہون محمود احمد ناصبی کی کتابوں کے سحر سے باہر آئیں الحارث ضعیف راوی ہے اور اس کی سند دیکھیں گے تو اس میں مجالد بھی موجود ہے اس میں بھی ضعف ہے تو اگر علی رضی اللہ عنہ صفین سے واپسی پر ہی یہ مان لیا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت صحیح ہے تو زندگی بھر ان سے جنگ نہ کرتے اور ان کی امارت ہی تسلیم کر لیتے یا اپنی وفات کے وقت ہی فرما دیتے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مان لو کیا بات ہے جناب کی۔


اور حسین رضی اللہ عنہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے کوفہ نہیں گئے تھے بلکہ پختہ ارادے اور نیت سے گئے تھے اور ان کے جانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی حمایت تھی اور ان کو کوئی افسوس نہیں تھا اور ان کو شہید ابن زیاد نے کروایا تھا اور عمرو بن سعد نے شہید کیا تھا اس کا ثبوت خود سنابلی صاحب کی کتاب میں موجود ہے اللہ ہدایت دے
محترم -

پہلی بات یہ کہ مذکورہ روایت میں راویوں کے ناموں کی صراحت کے معاملے میں ابہام ہے اور اس بنا پر ہی سنابلی صاحب نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے- اصول جرح و تعدیل کے مطابق روایت میں ابہام ہو تو وہ ضعیف ہی تصور کی جاتی ہے - بہرحال اگر آپ کی دی گئی تحقیق کو قبول کرلیا جائے تو ضروری نہیں کہ اس امر سے مراد بد دعا ہی ہو - قنوت مصیبت کے وقت پڑھا جاتا ہے- سنت میں یہ بد دعا کا طریقہ ہے لیکن بعد میں اس عمل سے روک دیا گیا- بئر معونة سن ٤ هجري کا واقعہ ہے اس میں نبی کریم نے کفّار کے لئے بد د عا کی تھی- اس کے بعد دور نبوی من قنوت نہیں پڑھا گیا- نا ہی بعد میں عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے وقت پڑھا گیا- نا ہی جنگ جمل وغیرہ میں اصحاب علی و عائشہ رضی عنھما کی طرف سے پڑھا گیا- لیکن علی و معاویہ رضی الله عنھما نے اس عمل کو صفین میں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ عمل مصیبت پر مخالف گروہ پر استقامت کے لئے دعا کے طور پر تھا- ممکن ہے راویوں نے یہاں نمک مرچ چھڑک کر بیان کیا ہو اگرچہ روایات ہیں لیکن راوی بھی تو کچھ کم نہیں ہیں- ورنہ معاویہ رضی الله عنھما کی فوج میں تو خود علی رضی الله عنھما کے سگے بھائی عقیل بن طالب رضی الله عنہ موجود تھے - اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، -کیا علی رضی الله عنھما اپنے سگے بھائی کو بھی بد دعا دے رہے ہیں ؟؟-

رہے آپ کی یہ بات "اگر ایسا منافقین کی وجہ سے تھا تو معاویہ رضی اللہ عنہ صلح کیوں نہ کر لی اور اس منافقین کو موقع ہی نہ دیتے یہاں تک کہ جب ان پر یہ بھی واضح ہو گیا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ قتل کرے گا اس حدیث کو سن کر بھی علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی۔"

تو اس کا جواب یہ ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ نے کبھی علی رضی الله عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا بلکہ انہوں نے بار بار یہ کہا کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، آپ قاتلین عثمان سے قصاص لیجیے۔ اگر آپ اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو ہمیں ان سے مقابلہ کرنے دیجیے۔ انہوں نے کبھی خود علی کے خلاف تلوار نہ اٹھائی۔ ہاں جب باغیوں نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے اپنا صرف دفاع کیا۔ منافقین تو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے - مالک الشتر النخعي کے ساتھی یہی وہ باغی تھے جنہوں نے صفین کے میدان جنگ میں عمار رضی الله عنہ کو خود شہید کیا تا کہ الزام معاویہ رضی الله عنہ کے گروہ پر آ جائے- لیکن ان کی یہ سازش بری طرح ناکام رہی-طبری کی روایت ہے کہ عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے معاویہ رضی الله عنہ سے کہا: "کیا آپ نے وہ حدیث نہیں سنی جو عبداللہ بیان کر رہے ہیں؟” معاویہ نے پوچھا: "وہ کیا حدیث ہے؟” عمرو نے انہیں حدیث سنائی کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے عمار رضی الله عنہ سے فرمایا کہ تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا- تو معاویہ نے جواب دیا: "۔ کیا ہم نے عمار کو قتل کیا ہے؟ عمار کو تو اس نے قتل کیا ہے جو انہیں میدان میں گھسیٹ لایا ہے۔”( طبری۔ 3/2-234)۔ معاویہ رضی الله عنہ کا گروہ یہ جانتا تھا کہ یہ ایک سازش ہے اس لئے انہوں نے آخری وقت تک معاویہ رضی الله عنہ کا ساتھ نہ چھوڑا -ورنہ معاویہ اور ان کا گروہ باغی ثابت ہونے پر ان کا کون ساتھ دیتا ہے-؟؟

آپ مولانا مودودی کی کتابوں کے سحر میں گرفتار ہیں- اس سحر سے باہر آئیں-

مزید آپ کا یہ کہنا کہ "حسین رضی اللہ عنہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے کوفہ نہیں گئے تھے بلکہ پختہ ارادے اور نیت سے گئے تھے اور ان کے جانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی حمایت تھی"

یہ آپ کی غلط فہمی ہے- ابن عباس رضی الله عنہ اور ابن عمر رضی الله عنہ اور دیگر اصحاب کرام رضوان الله اجمعین نے انھیں کئی مرتبہ کوفہ جانے سے روکا - انھیں ڈر تھا کہ کوفی حسین رضی الله عنہ سے دھوکہ کرینگے - جیسا کہ ان کے والد علی رضی ا؛الله عنہ سے کیا -اور اگر حسین رضی الله عنہ کا پختہ ارادہ تھا تو انہوں نے اپنے سے پہلے اپنے کزن مسلم بن عقیل کو کوفہ کے حالات جاننے کے لئے اپنا نائب بنا کر کیوں بھیجا ؟؟ انھیں تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کوفیوں کے بلانے پر روانہ ہو جانا چاہیے تھا ؟؟

روانگی کے وقت اصحاب کرام رضوان الله اجمعین نے حسین رضی الله عنہ سے فرمایا "اے شہید ہم تجھے خدا کو سونپتے ہیں "اور بعض نے کہا :یعنی"اگر بے ادبی نہ ہوتی تو ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زبردستی پکڑ لیتے اور ہر گز نہ جانے دیتے ۔"(مہناج السنتہ لامام ابن تیمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 141/2و142/2)-

سوال ہے کہ کیا ان کے جانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی یہ حمایت تھی ؟؟
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
پہلی بات یہ کہ مذکورہ روایت میں راویوں کے ناموں کی صراحت کے معاملے میں ابہام ہے اور اس بنا پر ہی سنابلی صاحب نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے- اصول جرح و تعدیل کے مطابق روایت میں ابہام ہو تو وہ ضعیف ہی تصور کی جاتی ہے -
محترم
محمد علی جواد،
روایت میں ابہام جب ہو جب رواۃ ایک ہی پائے کے ہوں اور ان سے روایت میں اختلاف ہو مگر یہاں تو سب سے اوثق ترین راوی نے ناموں کی صراحت کی ہے اور جن سے غلطی بھی ہوئی ہے انہوں نے بھی کبھی ناموں کا ذکر کیا اور کبھی نہیں تو اصول حدیث پر یہ روایت صحیح ہی ہے بہرحا اصل مدعا پر بات کرتے ہیں

لیکن علی و معاویہ رضی الله عنھما نے اس عمل کو صفین میں کیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ عمل مصیبت پر مخالف گروہ پر استقامت کے لئے دعا کے طور پر تھا- ممکن ہے راویوں نے یہاں نمک مرچ چھڑک کر بیان کیا ہو اگرچہ روایات ہیں لیکن راوی بھی تو کچھ کم نہیں ہیں-
محترم، جنگ جمل صرف ایک بار ہوئی وہ بھی ایک غلط فہمی کی بنا پر اور عین جنگ سے زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما جنگ سے نادم ہو کر لوٹ رہے تھے تو زبیر رضی اللہ عنہ کو اور طلحہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور اماں عائشہ رضی اللہ عنھا حدیث حواب کی بنا پر نادم رہی تھی اس لئے ان میں قنوت میں بدعا کی کوئی وجہ نہیں تھی جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ کی جنگیں علی رضی اللہ عنہ کی وفات تک چلتی رہی ہیں اس لئے علی رضی اللہ عنہ قنوت میں بدعا کرتے تھے جہاں تک اپ کا ثقہ رواۃ پر طعن کرنے کی بات ہے کہ انہوں نے مرچ مصالحہ لگایا تو یہ خیر القرون کے لوگ تھے اپ کے اور میرے دور کے نہیں اگر ان رواۃ کی ثقاہت ہی مشکوک کر دی جائے تو پر روایت کا کیا اعتبار رہے گا اس لئے مرچ مصالحہ باورچی خانے تک ہی رکھیں انہیں رواۃ پر چھڑکنے کی کوشش نہ ہی کریں تو بہتر ہے

مالک الشتر النخعي کے ساتھی یہی وہ باغی تھے جنہوں نے صفین کے میدان جنگ میں عمار رضی الله عنہ کو خود شہید کیا تا کہ الزام معاویہ رضی الله عنہ کے گروہ پر آ جائے
اس کا کوئی ثبوت ہے یا کسی مسلمان پر ایسے ہی الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے ایک صحابی رسول کو شہید کر کے دوسرے پر الزام لگا دیا آں جناب مجھے تو اس حوالے سے نصیحت فرماتے ہیں کہ یزید اور دیگر ابن زیاد مروان حجاج وغیرہ سے اچھا گمان رکھیں تو اپ مالک اشتر سے اچھا گمان نہیں رکھ سکتے ہیں کہ بغیر کسی ثبوت کے اپ اس پر الزام لگا رہے ہیں اگر ثبوت ہے تو پیش کریں۔ وگرنہ کسی پر بنا ثبوت الزام لگانا وہ بھی خیرالقرون کے مسلمان سے کیا یہ اپ کا ایک مثبت عمل ہے؟

عمرو نے انہیں حدیث سنائی کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے عمار رضی الله عنہ سے فرمایا کہ تم کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا- تو معاویہ نے جواب دیا: "۔ کیا ہم نے عمار کو قتل کیا ہے؟ عمار کو تو اس نے قتل کیا ہے جو انہیں میدان میں گھسیٹ لایا ہے۔”( طبری۔ 3/2-234)۔ معاویہ رضی الله عنہ کا گروہ یہ جانتا تھا کہ یہ ایک سازش ہے اس لئے انہوں نے آخری وقت تک معاویہ رضی الله عنہ کا ساتھ نہ چھوڑا -ورنہ معاویہ اور ان کا گروہ باغی ثابت ہونے پر ان کا کون ساتھ دیتا ہے

آں جناب نے روایت تو پیش کر دی مگر پوری نہیں پڑھی ہے اس روایت میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے واضح اعتراف کیا تھا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو ہماری تلواروں کے سامنے لا کھڑا کیا تھانہ وہ لاتے اور نہ عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوتے اس پر ابن قیم جوزی رحمہ اللہ نے واضح لکھا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ تاویل باطل تھی اور جوابا علی رضی اللہ عنہ کا قول بھی نقل کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس طرح تو حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کروائی کہ ان کو کفار کی تلواروں کے آگے لا کھڑا کیا تھا تو عمار رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے اور اس پر آئمہ کا اجماع ہے کہ باغی گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہی تھا اور شامی ایسی قوم تھی جن کو مراعات اور وظیفوں کے عادی ہو گئی تھی اور یزید نے ان کو خوب نوازا تھا اور اس کے لئے انہوں نے دو بار کعبہ کی حرمت پامال کی اور ایک بار مدینۃ الرسول کو لوٹا ایک بار یزید کے دور میں دوسری بار عبدالملک بن مروان کے دور میں جب حجاج نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا تو شامیوں کو یزید کےدور اور اس کے بعد بھی بہت نوازا گیا تھا جب ہی وہ اتنی بڑی گستاخیاں کرنے کو راضی ہو گئے تھے

آپ مولانا مودودی کی کتابوں کے سحر میں گرفتار ہیں- اس سحر سے باہر آئیں-

مزید آپ کا یہ کہنا کہ "حسین رضی اللہ عنہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے کوفہ نہیں گئے تھے بلکہ پختہ ارادے اور نیت سے گئے تھے اور ان کے جانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی حمایت تھی"

یہ آپ کی غلط فہمی ہے- ابن عباس رضی الله عنہ اور ابن عمر رضی الله عنہ اور دیگر اصحاب کرام رضوان الله اجمعین نے انھیں کئی مرتبہ کوفہ جانے سے روکا - انھیں ڈر تھا کہ کوفی حسین رضی الله عنہ سے دھوکہ کرینگے - جیسا کہ ان کے والد علی رضی ا؛الله عنہ سے کیا -اور اگر حسین رضی الله عنہ کا پختہ ارادہ تھا تو انہوں نے اپنے سے پہلے اپنے کزن مسلم بن عقیل کو کوفہ کے حالات جاننے کے لئے اپنا نائب بنا کر کیوں بھیجا ؟؟ انھیں تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کوفیوں کے بلانے پر روانہ ہو جانا چاہیے تھا ؟؟

محترم کی خدمت میں عرض کردوں کہ مودودی صاحب کی اس حوالے سے جو کتاب ہے وہ بھی میں نے سرسری طور پر پڑھی ہے میں تو آپ کو احادیث کے حوالے دیتا ہوں اس لئے مودودی صاحب کی کتب کے سحر میں آنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا
اور ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنھم کا ان کو روکنا اور ان کا نہ رکنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پختہ ارادے اور نیت سے کوفہ کے لئے نکلے تھے اگر وہ اپنے ارادے میں تذبذب کا شکار ہوتے تو وہیں رک جاتے اور میں پہلے بھی اس فورم پر عرض کر چکا ہوں کہ امام ذہبی اور امام ابن کثیر نےبادلیل یہ نقل کیا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام پر صحابہ ان کی حمایت میں تھے
قُلْتُ: هَذَا يَدُلُّ عَلَى تَصْوِيبِ عَبْدِ اللهِ بنِ عَمْرٍو لِلْحُسَيْنِ فِي مَسِيْرِهِ، وَهُوَ رَأْيُ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَجَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ شَهِدُوا الحَرَّةَ.
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ کے اس سفر کی حمایت میں تھے اور یہ رائے ابن زبیر اور صحابہ کی جماعت کی تھی جو واقعہ حرۃ میں بھی موجود تھے
سیر اعلام النبلاء 3/293)
اور ابن کثیر فرماتے ہیں حسین رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور اس وقت کے افضل انسان تھی اور سب ان کی حمایت میں تھے مگر پوری یزیدی حکومت ان کے قتل پر تلی ہوئی تھی


ان تصریحات سے واضح ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی حمایت حاصل تھی
اور جو شخص یہ جانتا ہو کہ اس کو کہاں شہید ہونا ہے وہ اپنے موت کے خوف سے وہاں سے دور رہے کا یہ بات ہم جیسوں کے لئے تو ہو سکتی ہے مگر اس عظیم شخصیت کے لئے نہیں جو اس وقت روئے زمین پر سب سے افضل تھے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس تھریڈ کو رپورٹ کرتے ہوئے کہاگیاہے:
’’میری گذارش ہے کہ اس تھریڈ کو ختم کردیا جائے ، اس میں صحابہ کرام کی کردار کشی کی جارہی ہے۔‘‘
لہذا گزارش ہے کہ اگر کوئی علمی بحث ہے، تو چلنے دیں، لیکن اگر واقعتا اس میں ’ صحابہ کرام کی کردار کشی‘ ہے تو پھر اپنے کندھوں کا جائزہ لیں، اتنا بار برداشت کرسکتے ہیں کہ نہیں۔
 

ابو حسن

رکن
شمولیت
اپریل 09، 2018
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
90
------------ لعنت ملامت نہیں روایات کی رو سے سنت طریقہ پر قنوت میں بدعا کیا کرتے تھے جبکہ --------------- کے دور میں منبروں پر لعنت کی جاتی تھی
محترم نہ تو آپ قرون اولی سے ہیں کہ آپ ان کے درمیان فیصلہ کرسکیں ؟ کہ کون صحیح اور کون غلط ؟ اور نہ ہم میں اتنی سکت ہے ، ہاں اتنی سکت ضرور ہے کہ جس تاریخ میں
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین
کو برا جانا جائے اور مسلمان کے دل میں شک کا بیج بویا جائے ؟ اس تاریخ کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں،
نہ ہی اس بابت ہم سے آخرت میں سوال ہوگا کہ تم ! علی یا معاویہ رضی اللہ عنہما کی طرف تھے ؟ ہاں ان میں سے کسی کے بارے میں بغض رکھا تو شامت ضرور آئے گی

کیا ہی اعلی ہستیاں تھیں جن کو صحبت سیدالاولین و الاخرین ﷺ ملی اور پھر انہوں نے ساتھ بھی ایسا نبھایا کہ نہ ان جیسا کوئی پہلے آیا نہ ہی قیامت تک کوئی آئے گا

سیدالاولین و الاخرین ﷺ کے سبھی صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آسمان پر چکمتے ستاروں کی مانند ہیں جیسے کہ آسمان پر کچھ ستارے دور دکھائی دیتے اور کچھ نزدیک پر ہیں سبھی روشن اور بے شک سبھی رسول اللہ ﷺ کی منور سنتوں پرعمل پیرا تھے

اور جو لوگ ان سے بغض رکھتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے پھٹکار پڑ چکی ہے ،اور ان کے سینے ان فضل والی ہستیوں جن سے اللہ راضی ہوچکا ہے جناب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بغض سے ابل رہے ہیں جیسے گند سے بھرا گٹر ابلتا ہے

کیا انصار کیا مہاجرین سبھی نےسیدالاولین و الاخرین ﷺ کی بڑھ چڑھ کر خدمت کرنے کی کوشش کی اور اپنے اموال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور آپ ﷺ کے سامنے اللہ کی راہ میں قربانیاں دیں اور غزوات میں شامل ہوئے

اور پھر اللہ تعالی نے انکی کیسے خوبصورت انداز میں شان بیان کی
اللہ تعالی کا فرمان ہے

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور انصاریوں نے مدینہ میں اور ایمان میں مہاجرین سے پہلے جگہ بنا لی ، انصاری اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود انہیں اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں گو انصاریوں کو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو۔ اور جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے۔ [الحشر: 9]

اور پھر اللہ تعالی نے دوسری جگہ یوں فرمایا
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا(29)

محمدﷺ اللہ کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (اللہ کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے( الفتح : 29)

اور پھر سیدالاولین و الاخرین ﷺ نے بھی اپنے اصحاب کی کیا ہی اعلی فضیلت بیان کی اور اس میں کسی کو بھی خاص نہیں کیا بلکہ سبھی کو عمومی طور پر اس میں شامل کیا امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے

وَعَنْ جَابِرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَو رأى من رَآنِي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

جابر ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس مسلمان کو ، جس نے مجھے دیکھا یا اس شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ، جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی

اور پھر سیدالاولین و الاخرین ﷺ نے دوسرے مقام پر اپنے بارے اور پھر صحابہ کی شان اور فضیلت میں انکو امت کی حفاظت قرار دیا ، اللہ اکبر

وَعَن أبي بردة عَن أَبيه قَالَ: رَفَعَ - يَعْنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم - رَأسه إِلَى السَّمَاء وَكَانَ كثيرا مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ. فَقَالَ: «النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومَ أَتَى السَّمَاءَ مَا توعَدُ وَأَنا أَمَنةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمتي مَا يُوعَدُون» . رَوَاهُ مُسلم

ابوبردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، آپ یعنی نبی ﷺ نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا ، اور آپ اکثر اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے ،

آپ ﷺ نے فرمایا

’’ ستارے آسمان کی حفاظت کا باعث ہیں ، جب ستارے جاتے رہیں گے تو آسمان وعدہ کے مطابق ٹوٹ پھوٹ جائے گا

اور میں اپنے صحابہ کی حفاظت کا باعث ہوں ، جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ کو ان فتنوں کا سامنا ہو گا جس کا ان سے وعدہ ہے

اور میرے صحابہ میری امت کی حفاظت کا باعث ہیں ، جب میرے صحابہ جاتے رہیں گے تو میری امت میں وہ چیزیں (بدعات وغیرہ) آ جائیں گی جن کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۔‘‘ ( رواہ مسلم )

اور پھر سیدالاولین و الاخرین ﷺ نے ایک اور مقام پر اپنے صحابہ کی شان اور فضیلت میں ان میں سے کسی ایک کا کسی جنگ میں شامل ہونا اللہ تعالی کی طرف سے فتح کا سبب بنادیا جانا اور صرف یہی نہی بلکہ جس نے ان میں سے کسی کی صحبت اختیار کی یعنی تابعی کا بھی جنگ میں شامل ہونا اللہ تعالی کی طرف سے فتح کا سبب بنادیا جانا اور اسی طرح تابعی کی صحبت اختیار کی یعنی تبع تابعی کا بھی جنگ میں شامل ہونا اللہ تعالی کی طرف سے فتح کا سبب بنادیا جانا

یعنی پہلے تین قرون کے لوگ ، اللہ اکبر

ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ لوگوں کی جماعتیں جہاد کریں گی

ان سے کہا جائے گا : کیا تم میں رسول اللہ ﷺ کا کوئی صحابی بھی ہے ؟

وہ کہیں گے : ہاں ، انہیں فتح ہو گی

پھر لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ لوگوں کی جماعتیں جہاد کریں گی تو

ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی صحبت اختیار کی ہو ؟

وہ کہیں گے ہاں ، تو انہیں فتح حاصل ہو گی

پھر لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ لوگوں کی جماعتیں جہاد کریں گی

ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں کوئی تبع تابعین ہے ؟

وہ کہیں گے : ہاں ، تو انہیں فتح حاصل ہو گی ۔‘‘

اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے

فرمایا :’’ لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ ان میں سے ایک لشکر بھیجا جائے گا تو

ان سے کہا جائے گا : دیکھو ، کیا تم اپنے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا کوئی صحابی پاتے ہو ؟

ایک صحابی مل جائے گا تو انہیں فتح نصیب ہو جائے گی

پھر دوسرا لشکر بھیجا جائے گا ،
تو ان سے کہا جائے گا : کیا ان میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو دیکھا ہو ؟

انہیں فتح حاصل ہو گی ۔

پھر تیسرا لشکر بھیجا جائے گا ،
تو کہا جائے گا : دیکھو ، کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے نبی ﷺ کے صحابہ کو دیکھا ہو ؟

پھر چوتھا لشکر ہو گا
، کہا جائے گا : کیا تم ان میں کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہو جس نے نبی ﷺ کے صحابہ کو دیکھنے والے شخص کو دیکھا ہو

ایسا شخص مل جائے گا تو انہیں فتح حاصل ہو جائے گی ۔‘‘ (متفق علیہ )


اور پھر سیدالاولین و الاخرین ﷺ نے انصار سے محبت اور بغض رکھنے والے کی حالت بیان فرمائی جس سے بہت آسانی سے آپ خاص طور پر محرم الحرام میں کچھ لوگوں کی پہچان کرسکتے ہیں اور حدیث کی رو سے آپ جان جائیں گے کہ صحابہ پر زبان درازی کرنے والوں کا شریعت میں کیا مقام ہے ؟

عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ آيَةُ الإِيمَانِ حُبُّ الأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الأَنْصَارِ ‏"

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا

انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے ( بخاری)

اللہ تعالی ہمارے دلوں میں انصار و مہاجرین اور ہر ایک صحابی کی پکی سچی اور کھری محبت پیدا فرما دے اور جو کوئی ان مبارک ہستیوں سے بغض رکھے ہمیں اس سے بغض رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اورآخرت میں جنت الفردوس میں ان صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی مجلسوں میں شرکت کی توفیق عطا فرمائے،،، آمین
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم ورحمۃ اللہ !! اس بحث سے ہٹ کر کہ کوئی کسی شخصیت، گروہ سے لگاؤ رکھتا ہے اور کسی کو پسند نہیں کرتا ، صرف ٹیکنیکل سوال ہے: اگر یہ روایت صحیح سند سے ثابت ہے جس میں تمام ثقہ راوی ہیں تو اس میں انکار کا کیا جواز ہے؟ اگر کوئی متن کی بنیاد پر اس کو رد کرتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں تو جو ثقہ راوی اس میں موجود ہیں، ان میں سے کم از کم ایک نے تو ضرور اس روایت میں الفاظ ڈالے ہیں جو جھوٹ ہیں تو پھر ایسے راوی کی چھان پھٹک ہونی چاہئیے اور اس کو متہم الکذب قرار دے کر اس کی باقی تمام روایات کو بھی قطعی طور پر رد کر دینا چاہئیے اور اس راوی کو بھی متروک کہنا چاہئیے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک روایت ہے، اس میں تمام راوی ثقہ ہیں اور اس کا متن ہے جس پر یہ اعتراض لگایا جاتا ہے کہ یہ متن صحیح نہیں۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ جو حضرات اس کے متن کو درست نہیں قرار دے رہے تو اس جھوٹے راوی کو سامنے لائیں اور پھر اس کی تمام مزید روایات کو بھی ترک کیا جائے ، کیونکہ بقول ان کے جھوٹے الفاظ سے صحابہ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے، تو جس نے یہ مذموم پہلو اس روایت میں شامل کیا ہے ، وہ تو پھر بدعتی اور گستاخ صحابہ ہے ، اس کی حدیث کیوں کر قبول کی جائے گی ؟ اب یہ آپ پر ہے، صرف ایک سنن الکبریٰ والی روایت میں ابو بکر البیہقی سے لے کر عبداللہ بن معقل تک تمام کی چھان پھٹک نئے سرے سے کی جائے اور جو بھی صحابہ کے بارے میں زبان دراز کرنے والا بدعتی اور گستاخ سامنے آتا ہے، اس کی روایتوں کو بحیر مردار میں پھینکا جائے۔ جزاک اللہ۔
 
Top